راجاصاحب کی یہ غلط فہمی ماقبل میں ہی دورہوجانی چاہئے تھی کہ ان کی سخت وسست باتیں ہم برداشت کرلیں گے ۔اپناتوحال یہ ہے کہ جیسے کو تیساکہاجائے۔کیونکہ کچھ لوگ جن میں راجا صاحب بھی شامل ہیں اسی زبان کو زیادہ بہتر طورپر سمجھتے ہیں ۔ماقبل میں بھی انہوں نے ایک اورمقام پر ایسی ہی حرکت تھی
مدعی سست گواہ چست اوردیگ سے زیادہ چمچہ گرم کے تحت اسی فورم پر ایک تھریڈ میں شعلہ بیانی وآتش کلامی کے ساتھ حملہ آورہونے کی کوشش کی تھی لیکن اسی تب وتاب اورلہجہ میں جواب پاکر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مناسب ہے کہ ذراپورے تھریڈ پر ہی ایک نگاہ ڈال لی جائے۔
اگرصرف تبلیغی جماعت کی بات ہوتی اورتبلیغی جماعت کے تعلق سے ہی انظرشاہ کے خیالات سے قارئین کو روشناس کرانا مقصود ہوتاتو عنوان کچھ دوسراہوتا۔
تبلیغی جماعت کے بارے میں انظرشاہ قاسمی کے خیالات
لیکن سرفراز فیضی صاحب نے عادت سے مجبورہوکر یہ لکھناضروری سمجھا
"مع گالیوں کے"
تبلیغی جماعت کے بارے میں انظر شاہ قاسمی کے خیالات مع گالیوں کے
پھرلنک کے بعد بجائے اس کے کہ وہ موضوع کا تعارف کراتے۔ انظرشاہ نے کیاکہاہے اس کومختصرابتاتے انہوں نے گالیوں کا ذکر ضروری سمجھا۔
بھائی کام کی بات سننے کے لیے ان کی گالیاں برداشت کرلیں ۔ عادت ہے بے چارے کی۔
اگرکوئی ان سے یہ پوچھتا کہ ان کی تقریر میں اتنی گالیاں کیوں ہیں آپ نے ایسی تقریر کالنک یہاں کیوں دیاہے تب شاید وہ یہ بات لکھتے تو مناسب تھا لیکن بغیرکسی سوال کے وہ خود ہی مع گالیوں کے شروع ہوگئے۔
خلاصہ کلام یہ کہ انہوں نے تبلیغی جماعت کے بارے میں انظرشاہ قاسمی کے خیالات سے زیادہ ان کی گالیوں پر اپنی توجہ مرکوز رکھی ہے اوراسی کو ہائی لائٹ کیاہے ہاں یہ اوربات ہے کہ انداز بیان تھوڑادوسرااختیار کیاہے۔لیکن تاڑنے والے قیامت کی نگاہ رکھتے ہیں
شاعرہیں رازہائے دروں جانتے ہیں ہم
دنیا کوہرلباس میں پہچانتے ہیں ہم
اگرچہ اس کے جواب میں بہت کچھ غیرمقلدین کی حرکتیں پیش کی جاسکتی ہیں ۔ابھی زیادہ عرصہ نہیں گزرا ۔ممبئی میں معراج ربانی نے جوکچھ کہااوراس پر جوہنگامہ ہوا وہ اخبارات کے صفحات کی زینت ہے۔
میں نے بحث میں الجھنے کے بجائے ایک سلفی ابوسلام کا حوالہ دیا جن کے نزدیک مخلوط احتجاج میں شریک عورتوں کی ابروریزی جائز ہے؟
اگرچہ سرفراز فیضی نے اپنی باتوں کی وضاحت کی لیکن بین السطور سے سب کچھ عیاں تھا کہ مقصد کام کی بات ہے یاپھراس کااظہار کاتبلیغیوں کو گالی دی گئی بہت اچھاہوا ۔
ویسے ہمارے یہاں دیوبندی تبلیغی ان کی گالیاں اہل حدیثوں کو سنانے کے لیے وقفہ وقفہ سے انہیں بلاتے رہتے ہیں۔خوب مزے لے لے کر ان کی گالیاں سنتے سناتے ہیں۔ اس وقت کسی تبلیغی کو اکرام مسلم یاد نہیں آتا ۔ تو یہ ان گالیوں کا جواب ہے جو اب تک دیوبندی اہل حدیث کو انہیں صاحب کےزبانی دلاتے رہے ہیں۔
میں نے پہلے ہی وضاحت کردی تھی کہ ان کی زبان سخت ودرشت ہے اوران کا لب ولہجہ ہرایک کے خلاف یکساں ہے۔ یہ شعلہ بیانی ان کی فطری عادت ہے ۔دوسرے لفظوں میں کہیں تو عادت سے مجبور ہیں۔ان کی تقریروں کی سائٹ بھی موجود ہے جس پر ان کی تمام تقریریں دیکھی جاسکتی ہیں۔
دوواقعات ہیں۔
ایک میں ابوسلام صاحب کہتے ہیں کہ احتجاج میں شریک خواتین کی آبروریزی جائز ہے
دوسرے میں انظرشاہ تبلیغی جماعت کے خلاف (بقول سرفراز فیضی صاحب)گالیاں دیتے ہیں
دونوں یکساں قابل مذمت ہیں۔بلکہ بعض حیثیت سے دیکھیں تو پہلا زیادہ قابل مذمت ہے۔ لیکن اس کے باوجود اگراس پر صم بکم عمی کی روش روارکھی گئی اورگالیوں پر داد سخن دیاگیااوراسی حرف حکایت وشکایت کومیں نے رقم کردیاتو راجا صاحب نے بے قرارہوکر اپناخبث باطن بیان کردیا
ویسے جوچیز پہلے ہی عیاں تھی اسےراجاصاحب کو بیاں کرنے کی ضرورت نہیں تھی۔ عیاں راچہ بیاں مشہور مقولہ ہے ۔
گزارش فقط اتنی ہے کہ
اگر ابوسلام کی بات تمام سلفیوں کیلئے لائق حجت نہیں توانظرشاہ قاسمی کوبھی تمام حنفیوں نے اس کا سرٹیفکٹ نہیں دے رکھاہے کہ "مستند ہے ان کا فرمایاہوا"
اگرسلفی حضرات کہتے ہیں کہ گالیاں دینابہت بری بات ہے ۔توابوسلام کی زبان وبیان بھی قابل مدح نہیں بلکہ لائق مذمت ہے۔
دوسروں کو آئینہ دیکھانے کے بجائے مناسب ہوگاکہ آپ اورہم خود سے آئینہ دیکھیں اوراس میں اپنی کمی کوتاہی معلوم کریں۔