• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تبلیغی جماعت کے بارے میں علماء اہل سنت کامؤقف

گڈمسلم

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 10، 2011
پیغامات
1,407
ری ایکشن اسکور
4,912
پوائنٹ
292
تبلیغی جماعت کے بارے میں علماء اہل سنت کامؤقف

شیخ ابن بازؒ،صالح العثیمینؒ
مترجم: حبیب الرحمن​
ہمیں دو سلفی علماء شیخ ابن بازرحمہ اللہ اورشیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کی کلام پر مشتمل کچھ اوراق ملے ہیں جنہیں تبلیغی جماعت ایسے لوگوں میں عام کررہی ہے جو جاہل ہیں اور ان کے باطل منہج اور عقائد فاسدہ سے ناواقف ہیں حالانکہ ابن بازرحمہ اللہ اور ابن عثیمین رحمہ اللہ کی کلام میں اس جماعت پر نقد موجود ہے۔
شیخ ابن بازرحمہ اللہ کا کلام ایک تبلیغی آدمی یا ان کے لیے نرم گوشہ رکھنے والے کی گفتگو پر تبصرہ ہے۔ اس آدمی نے شیخ ابن بازرحمہ اللہ کو ان کے عقائد کے برعکس باتیں بیان کیں اور ان کی غیر حقیقی تصویر پیش کی۔ ہماری اس بات کی تائید شیخ ابن بازرحمہ اللہ کے اس قول سے ہوتی ہے۔ وہ فرماتے ہیں کہ
’’ بلا شبہ اس قسم کی پاکیزہ جماعتوں کے قیام کی عوام کو شدید ضرورت ہے جو اللہ تعالیٰ کی یاد ، اسلام کے ساتھ تمسک اختیار کرنے اور اس کی تعلیمات پر عمل کرنے کی دعوت دے اور توحید کو بدعات و خرافات سے مبرا پیش کریں۔‘‘ [دیکھئے :فتاویٰ ابن بازؒ ،فتویٰ نمبر:۱۰۰۷ بمطابق ۱۸؍۷؍۱۴۰۷ھ جس کو اب تبلیغی جماعت نشر کررہی ہے]
ابن بازرحمہ اللہ کے کلام سے اشارہ ملتا ہے کہ گفتگو کرنے والے نے اپنی تقریر میں تبلیغی جماعت کو اسلام کے ساتھ تمسک اختیار کرنے والی، اس کی تعلیمات پر عمل کرنے والی اور توحید کے تصور کو بدعات و خرافات سے پاک کرنے والی بیان کیاہے، اسی لیے شیخ ابن بازؒ نے ان کی تعریف کی اگر وہ سچی بات اور حقیقی تصویر ان کے سامنے پیش کرتا تویقینا شیخ ابن باز ان پر تنقید کرتے اور ان کی بدعات سے بچنے کی تلقین کرتے نظر آتے جیسا کہ انہوں نے اپنے فتاویٰ کے آخر میں ایسی بات کا ذکر کیا ہے
جو ان کے خلاف ہے۔ان کے ہاں جب عقیدہ کے مسائل میں اختلاف ہو تواس کی تصحیح اور جو مذہب سلف سے ہٹ کر کوئی بات کہے اس کاانکار کرنا واجب ہے اور جو عقیدے کے بارے میں مذہب سلف کے خلاف مسلک اختیار کرے اس سے بچنا ضروری ہے۔ [دیکھئے:فتاویٰ ابن عثیمین:۲؍۹۳۹ -۹۴۴]
بلا شبہ اس بارے میں کوئی اختلاف نہیں کہ علماء اہل سنت یعنی اہل توحید اور تبلیغی جماعت کے درمیان عقیدے اور منہج میں گہرا اور شدید اختلاف پایا جاتا ہے، کیونکہ تبلیغی جماعت والے ماتریدیہ ہیں اور اللہ تعالیٰ کی صفات کی نفی کرتے ہیں اور عبادات اوراخلاقیات میں صوفی ہیں۔ وہ صوفیوں کے ان چار طریقوں کے مطابق بیعت کرتے ہیں جو انسان کو گمراہیوں کی اندھیری وادیوں میں دھکیل دیتے ہیں۔ان طریقوں کی بنیاد عقیدہ حلول، وحدت الوجود اور قبروں پر شرک کرنے جیسے باطل عقائد اور مسلک سلف کے خلاف عقائد پر ہے۔ان کے ان عقائد فاسدہ کو یقینا ابن عثیمین رحمہ اللہ نہیں جانتے تھے اگر وہ ان کی حقیقت جانتے ہوتے تو وہ ضرور ان کو گمراہ قراردیتے اور ان سے بچنے کی سخت تلقین کرتے اور ان کے بارے میں سلفی مسلک اختیار کرتے جیسا کہ ان کے مشفق شیخین کا طرز عمل تھا۔
 

گڈمسلم

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 10، 2011
پیغامات
1,407
ری ایکشن اسکور
4,912
پوائنٹ
292
تبلیغی جماعت کے بارے میں شیخ ابن بازرحمہ اللہ کا فتویٰ
ابن بازرحمہ اللہ سے کسی نے تبلیغی جماعت کے بارے میں سوال کیا کہ میں نے تبلیغی جماعت اور اس کی دعوت کے بارے میں بہت کچھ سنا ہے کیا آپ مجھے اس جماعت کے ساتھ دعوت الی اللہ کے کام کرنے کا مشورہ دیتے ہیں؟
شیخ ابن بازرحمہ اللہ نے جواب دیا کہ ہر وہ شخص جواللہ کے دین کی دعوت دے وہ مبلغ کہلائے گا، کیونکہ نبیﷺ کا اِرشاد گرامی ہے:
’’ بَلِّغُوْا عَنِّیْ وَلَوْ آیَة ‘‘ [صحیح البخاري:۳۲۰۲]
’’اگر تمہارے پاس میری طرف سے کوئی ایک آیت بھی ہو اس کو دوسروں تک پہنچا دو۔‘‘
لیکن جو تبلیغی جماعت ہندوستان میں معروف ہیں ان میں بہت خرافات و بدعات پایا جاتا ہے تو اس وجہ سے ان کے ساتھ تبلیغ کرنا جائز نہیں۔البتہ وہ شخص جو علم و بصیرت رکھتا ہو، ان کے عقائد کی اصلاح کے لیے نکلے اور ان کو سلف صالحین کا مسلک اختیار کرنے کی دعوت دے تو اس کے لیے جائز ہے، لیکن جو شخص ان کی اتباع کی غرض سے نکلے تویہ قطعاً جائز نہیں (کیونکہ ان میں بہت سی خرافات ، بدعات پائی جاتی ہیں) لیکن جو اہل بصیرت اور اہل علم کی جماعت ہو (جو تبلیغ کا کام کرے) یا ایسا انسان ہو جو علم و بصیرت رکھتا ہو وہ ان کے ساتھ ان کو تعلیم دینے اور راہنمائی کے لیے نکلے تاکہ وہ باطل مذہب کو چھوڑ کر اہل سنت و الجماعت کے عقیدے پر گامزن ہوجائیں تو ساتھ نکلنا جائز ہے۔ [دیکھئے فتاویٰ ابن بازؒ، یہ فتویٰ انہوں نے اپنی وفات کے دوسال قبل دیا تھا]
(لہٰذا تبلیغ جماعت کو چاہئے کہ وہ ابن بازؒ کے ناواقفیت کی بنا پر دیئے جانے والے فتویٰ کی بجائے مذکورہ بالا فتویٰ سے استفادہ کریں)
 

گڈمسلم

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 10، 2011
پیغامات
1,407
ری ایکشن اسکور
4,912
پوائنٹ
292
شیخ عبدالرزاق عفیفی کا فتویٰ
شیخ عبدالرزاق سے لوگوں کو نصیحت کرنے کے لیے تبلیغی جماعت کے ساتھ جانے کے بارے میں پوچھا گیا توانہوں نے جواب دیاکہ
’’ حقیقت حال یہ ہے کہ وہ بدعتی، تحریف کرنے والے اور قادریہ کے طریقے پر چلنے والے ہیں اور رہا ان کے ساتھ تبلیغ کے لیے جانا تو یہ اللہ تعالیٰ کے رستے میں تبلیغ نہیں ہے بلکہ یہ مولوی الیاس کے رستے میں خروج ہوگا اور وہ قرآن وسنت کی طرف بلانے کی بجائے اپنے شیخ الیاس کی طرف بلاتے ہیں۔ فی سبیل اللہ وہ شخص ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف دعوت دے جب کہ تبلیغی جماعت کا مقصد دعوت الی اللہ نہیں ہوتا۔ میں ان کو بہت عرصہ سے جانتا ہوں۔چاہے وہ مصر میں ہوں، اسرائیل میں ہوں، امریکہ میں ہوں یا پاکستان میں ،وہ بدعتی ہیں اور وہ تمام اپنے شیخ الیاس سے مرتبط ہیں۔‘‘ [دیکھئے: عبدالرزاق عفیفی کے رسائل اور فتاویٰ :۱؍۱۷۳]
 

گڈمسلم

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 10، 2011
پیغامات
1,407
ری ایکشن اسکور
4,912
پوائنٹ
292
کیا تبلیغی جماعت ۷۲ گمراہ فرقوں میں سے ہے؟
شیخ ابن بازرحمہ اللہ سے سوال کیا گیا کہ حدیث :
’’ سَتَفْتَرِقُ اُمَّتِیْ عَلَی ثَلَاثٍ وَّسَبْعِیْنَ فِرْقة اِلَّا وَاحِدَة ‘‘
’’کہ میری اُمت ۷۳فرقوں میں بٹ جائے گی تمام کے تمام جہنم میں جائیں گے مگر ایک فرقہ ہوگا جو جنت میں جائے گا۔‘‘
تو کیا تبلیغی جماعت ان ۷۲ گمراہ فرقوں میں سے ہے یا وہ فرقہ ناجیہ ہے؟
شیخ ابن بازرحمہ اللہ نے جواب دیا کہ
’’ جس نے اہل سنت والجماعت کے عقیدے کی مخالفت کی وہ ان ۷۲ فرقوں میں شامل ہے (جن کا مذکورہ بالا حدیث میں تذکرہ گزر چکا ہے) اور یاد رہے کہ حدیث مذکور میں’امتی‘ سے مراد وہ لوگ ہیں جنہوں نے آپؐ کی دعوت کوقبول کیا اور آپؐ کی اتباع کا اظہار کیا ان کے ۷۳ فرقے ہوں گے جن میں ایک فرقہ ناجیہ ہوگا اور فرقہ ناجیہ وہ ہوگا جس نے آپؐ کی اتباع کی اور آپ کے دین پر استقامت اختیار کی۔‘‘
 

گڈمسلم

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 10، 2011
پیغامات
1,407
ری ایکشن اسکور
4,912
پوائنٹ
292
ناصر الدین البانی رحمہ اللہ کا فتویٰ
شیخ ناصرالدین البانی رحمہ اللہ سے تبلیغی جماعت کے بارے میں سوال کیا گیا کہ کیا طالب علم یا جاہل آدمی کا اللہ تعالیٰ کی دعوت کی خاطر تبلیغی جماعت کے ساتھ جانا جائز ہے؟
شیخ البانی رحمہ اللہ نے جواب دیا کہ
’’ تبلیغی جماعت کا منہج کتاب اللہ سنت رسولؐ اور سلف صالحین کے منہج کے خلاف ہے۔ جب صورت حال یہ ہے تو ان کے ساتھ تبلیغ کے لیے جانا جائز نہیں اور دعوت الی اللہ کی خاطر ایک عالم آدمی کو نکلنا چاہیے۔ رہے وہ لوگ جو تبلیغی جماعت کے ساتھ نکلتے ہیں اوراللہ کے دین کی دعوت دیتے ہیں ان کے لیے واجب ہے کہ وہ اپنی مساجد میں تعلیم حاصل کریں تاکہ ان میں علماء پیداہوں اور پھر وہ دعوت الی اللہ کا کام کریں۔ لیکن اگر وہ قرآن و سنت کی تعلیم حاصل کرنے پررضا مند ہوں تو طالب علم کو چاہئے کہ ایسے جاہل لوگوں کو ان کے گھر کی چار دیواری میں کتاب و سنت کو سیکھنے کی دعوت دیں اور موجودہ تبلیغی جماعت یہ دین کی ابتدائی دعوت نہیں دیتی بلکہ یہ متفرق چیزوں کی دعوت دیتی ہے اور ان کا دعویٰ کرنا کہ وہ کتاب و سنت پر قائم ہیں محض ان کا دعویٰ ہے ۔ ان کا کوئی ایسا عقیدہ بھی نہیں ہے جس پر وہ مجتمع ہوں بلکہ ان کا آپس میں عقائد میں اختلاف پایاجاتاہے ۔ان میں بعض ماتریدی ہیں، بعض، صوفی، بعض اشعری اور بعض ایسے بھی ہیں جن کا کوئی مذہب نہیں۔ الغرض موجودہ تبلیغی جماعت صوفیت پر مبنی ہے اور محض اخلاقیات کی دعوت دیتی ہے جہاں تک عقائد کی اصلاح کا تعلق ہے تو وہ ایسی کسی چیز کو نہیں چھیڑتے کیونکہ وہ اسے فرقہ بندی کا باعث سمجھتے ہیں۔ [راجح الفتاویٰ الاماراتیۃ للألبانی، س۷۳ ء ص۳۸]
 

گڈمسلم

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 10، 2011
پیغامات
1,407
ری ایکشن اسکور
4,912
پوائنٹ
292
صالح بن فوزان رحمہ اللہ کا فتویٰ
شیخ صالح بن فوزان رحمہ اللہ سے سوال کیا گیا کہ آپ کا ان کے بارے میں کیا خیال ہے جو علم حاصل کئے بغیر بیرونِ ملک دعوت کے لیے جاتے ہیں؟جب کہ تبلیغی جماعت والے دعویٰ کرتے ہیں کہ جو اللہ کے رستے میں دعوت کے لیے نکلے گا اللہ تعالیٰ اس کو الہام کرے گا اور ان کادعویٰ ہے کہ علم دعوت کے لیے اَساسی شرط نہیں ہے اور آپ جانتے ہیں کہ جو بیرون ملک جاتا ہے اسے مختلف مذاہب، ادیان اور ایسے سوالوں کا سامنا کرناپڑتا ہے جن کاایک داعی کو سامنا ہوتا ہے۔ آپ کی کیارائے ہے کہ جو اللہ کے رستے میں نکلتا ہے اس کے پاس اسلحہ ہونا ضروری تاکہ وہ لوگوں کا سامنا کرسکے؟
اللہ کے رستے میں خروج سے مراد قتال کے لیے نکلنا ہے، لیکن اب لوگ جو خروج سے مراد لیتے ہیں یہ بدعت ہے اور سلف صالحین سے اس کا کوئی ثبوت نہیں اور جو دعوت الی اللہ کی خاطرانسان کا نکلنا ہے اس کے لیے کوئی دن مقرر نہیں ہے بلکہ انسان کسی معین جماعت، چالیس دن اس سے کم یا اس سے زیادہ کی نیت کے بغیر اپنی قدرت کے مطابق اللہ تعالیٰ کے دین کی دعوت دے اور اسی طرح ایک داعی کے لیے ضروری ہے کہ وہ علم و بصیرت رکھتا ہو ایسے آدمی کے لیے اللہ تعالیٰ کے دین کی دعوت دینا ناجائز ہے جو کتاب وسنت کے احکامات سے ناواقف ہو۔
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
{قُلْ ہٰذِہِ سَبِیْلِیْ اَدْعُوْا اِلَی اﷲِ عَلٰی بَصِیْرَة} [یوسف:۱۰۸]
’’کہہ دیجئے یہ میرا رستہ میں اللہ تعالیٰ کی طرف علم کے ساتھ بلاتا ہوں۔‘‘
تو مذکورہ بالا آیت میں ’بصیرۃ‘ سے مراد ’علم‘ ہے۔
ایک داعی کو اس بات سے واقف ہونا ضروری ہے کہ وہ جس چیز کی دعوت دے رہا ہے وہ حرام ہے فرض، مستحب ہے یا مکروہ ہے اور شرک، کفر، عصیان اور فسق کے بارے میں واقفیت رکھتا ہو ۔ ایسی دعوت جو انسان کو طلب علم سے غافل کردے، باطل ہے، کیونکہ علم فرض ہے اور علم الہام سے نہیں (جیساکہ صوفیہ کا خیال ہے) بلکہ تعلم سے حاصل ہوتا ہے۔ [دیکھئے:ثلاث محاضرات فی العلم والدعوۃ]
ایک آدمی نے ابن بازرحمہ اللہ سے سوال کیا کہ میں پاکستان میں دین کی دعوت کی خاطر تبلیغی جماعت کے ساتھ گیا ہم ایسی مسجدوں میں نماز پڑھتے تھے جس میں قبریں بنی ہوئی تھیں اور میں نے سن رکھا تھا کہ ایسی مسجد جس میں قبر ہو اس میں نماز پڑھنا حرام ہے ۔تو آپ کا میری نماز کے بارے میں کیا خیال ہوگا؟ کیا مجھے ان نمازوں کو لوٹانا ہوگا؟ اور کیا تبلیغی جماعت کے ساتھ ایسی جگہوں کی طرف جاناجائز ہے۔؟
ابن بازرحمہ اللہ نے جواب دیا کہ
’’تبلیغی جماعت والے مسائل عقیدہ میں بصیرت نہیں رکھتے اس لیے ان کے ساتھ جانا جائز نہیں مگر ایسے شخص کے لیے جائز ہے جو اہل سنت کے صحیح عقیدے کا علم رکھتا ہو تاکہ وہ ان کی راہ نمائی کرے اور بھلائی کے کاموں میں ان کا تعاون کرے۔ وہ عمل میں تو بہت پختہ ہیں لیکن ان کو مزید علم اور ان چیزوں کے سیکھنے کی ضرورت ہے جن کو موحد اور سلفی علماء جانتے ہیں۔ رہا ان مساجد میں نماز پڑھنا جس میں قبریں پائی جاتی ہوں تو ایسی نمازیں قبول نہیں ہوں گی ان کو لوٹانا ہوگا کیونکہ نبیﷺ کا فرمان ہے:
؛؛ لَعَنَ اﷲُ الْیَھُوْدَ وَالنَّصَارَیٰ إِتَّخَذُوْا قُبُوْرَ أَنْبِیَائِھِمْ مَسَاجِدً‘‘
’’کہ اللہ تعالیٰ یہود و نصاریٰ پرلعنت کرے جنہوں نے اپنے انبیاء کی قبروں کو مسجدیں بنا لیا۔‘‘ [دیکھئے: فتاویٰ ابن باز]
علماء کرام کے فتاویٰ جات کے مطالعہ سے یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہوجاتی ہے کہ تبلیغی جماعت گمراہ کن عقائد پھیلاتی ہے اور یہ ویسی نہیں ہے جیسی بظاہر دکھائی دیتی ہے بلکہ یہ منہج سلف سے ہٹی ہوئی ایک بدعتی جماعت ہے ۔
اللہ تعالیٰ ہمیں ان کی حقیقت کو سمجھ کر لوگوں کو اس سے آگاہ کرنے اور اس کے شر سے محفوظ رہنے کی توفیق دے۔ (آمین)
 
شمولیت
مارچ 20، 2018
پیغامات
172
ری ایکشن اسکور
3
پوائنٹ
64
تبلیغ کا پہلا نمبر ہی توحید ہے۔ جو ہوتا ہے اللہ سے ہوتا ہے۔ مال، اسباب سے کچھ نہیں ہوتا۔ یہ سب مخلوق ہے۔ اور مخلوق اپنے کرنے میں اللہ کے امر کی محتاج ہے۔ اور اللہ کے کرنے کا ضابطہ سنت اعمال ہیں۔ یعنی اللہ کا امر سنت زندگی پر منحصر ہے۔
تبلیغ کا دوسرا نمبر نماز ہے۔ ہر مسلمان پنج وقتہ نماز کی پابندی کرنے والا بن جائے۔
تیسرا نمبر روزمرہ کی زندگی سے متعلق علم سیکھنا اور اللہ کا دھیان پیدا کرنے کے لئے اس کا ذکر کرنا۔
چوتھا نمبر ہر مسلمان کی قدر کرنا اور اس کے حقوق پورے کرنا۔
پانچواں نمبر اعمال میں للہیت پیدا کرنا
چھٹا نمبر گھر، معاشرے، شہر، ملک اور عالم میں ان باتوں کو زندہ کرنے کی محنت کرنا۔
ساتواں نمبر لایعنی باتوں اور کاموں سے پرہیز کرنا

ان میں علمائے عرب کو کیا اعتراض ہے؟
 
شمولیت
مارچ 20، 2018
پیغامات
172
ری ایکشن اسکور
3
پوائنٹ
64
فضائل اعمال کی کتاب پر اعتراضات
۱۔ اس میں ضعیف احادیث ہیں؟
جواب: کیا ابن ماجہ، ابوداود، ترمذی، نسائی اور حدیث کے عظیم ذخیرہ کتب میں ضعیف روایات نہیں ہیں؟
کیا فضائل اعمال میں ضعیف روایات کو دھوکے سے صحیح دکھایا گیا ہے؟
کیا ان ضعیف روایات سے عقائد اور احکام اخذ کئے گئے ہیں؟
نہیں ہرگز نہیں ! تو پھر اعتراض کا مقصد؟

اعتراض۲: اس میں شرکیہ باتیں ہیں۔
جواب: کیا ان کے پڑھنے والے مزارات پر جاتے ہیں۔ بزرگوں سے حاجت روائی اور مشکل کشائی کرتے ہیں؟
نہیں ہر گز نہیں ! تو پھر اعتراض کا مقصد؟
 
Top