• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تحریر((ظفراقبال ظفر ))پاکستان کی دفاعی پالیسی اور ملکی سلامتی کو درپیش خطرات کا حل!

ظفر اقبال

مشہور رکن
شمولیت
جنوری 22، 2015
پیغامات
281
ری ایکشن اسکور
21
پوائنٹ
104
حالات حاضرہ:تحریر((ظفراقبال ظفر))
پاکستان کی دفاعی پالیسی اور جماعۃ الدعوۃ وفلاح انسانیت پر پابندی! پس پردہ حقائق
اورملکی سلامتی کو درپیش خطرات کا حل!
پاکستان مملکت خدا داد اور اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت ہے۔جو کہ ایک اسلامی نظریہ کی بنیاد پر معرض وجود میں آیا۔جس کے حصول کا مقصد دو قومی نظریہ اور ہندوستان کے مسلمانوں کی مذہبی آزادی کے لیے الگ مملکت اور ریاست کا حصول تھا۔جس میں مسلمان آزادی کے ساتھ آپنی مذہبی روایات اور اطوار پر عمل کر سکیں۔ کیونکہ ہندو وں کی تنگ نظری اور مسلمانوں پر ظلم وتشدد کسی صورت برداشت نہیں تھا ۔ہندووں کی عبادات ‘ رسم ورواج تہذیب خالصتا ًً بت پرستی پر استوار تھی ۔جبکہ مسلمان ایک اللہ کو ماننے والے اور توحید خالص کے ساتھ ختم نبوت کا اقرار ہی نہیں کرنے والے تھے بلکہ اس پر پورا ایمان بھی رکھتے تھے۔اس مقصد اور الگ ملک کے حصول کے لیے مسلمانوں نے قربانیوں کی جو داستانیں رقم کیں تاریخ اس بات کی شاہد ہے۔کہ مسلمانوں کا قتل عام ‘ نسل کشی‘ عورتوں کی آبرووں سے کھلواڑ اور علماء حق کو کالے پانیوں کی سزائیں دیئے جانا۔ اس کے علاوہ شہیدین کے قافلہ جہاد پر ظلم و جبر کی یلغاریں اظہر من الشمس ہیں ۔آخر کار یہ قربانیاں رنگ لائیں اور مسلمان الگ مملکت کے حصول میں سرخ روح ہوئے۔ مگر صد افسوس کے شروع دن سے ہی دشمن اس مملکت کی نظریاتی بنیادوں کو مسلمانوں کی روحوں سے نکالنے اور مسلمانوں کے تہذیب و ثقافت اور مذہبی رویات کو ختم کرنے کے لیے سالانہ کھربوں ڈالر خرچ کر رہا ہے ۔کبھی نسلی و لسانی فسادات کے ذریعے تو کبھی شعیہ سنی اختلافات کو بنیاد بنا کر ان کو آپس میں لڑا کر خانہ جنگی کا ماحول پیدا کرنے کی کوشش کی گئی ۔کبھی اسمبلیوں میں ملکی سلامتی کے خلاف ارکان بالہ سے غیر اسلامی روایت پر مبنی قوانین پاس کر وائے گئے ۔تو کبھی اسلامی نصاب تعلیم کو ختم کر کے خالصتاً مغربی فکر و فلسفہ کو رائج کرنے کی ناپاک جسارت کی گئی ۔کبھی حق پرستوں کی آواز کو دبانے کے لیے ان پر جوٹھے مقدمات دائر کر کے ان کو آندھیر کوٹھڑیوں میں ہمیشہ کے لیے دھکیل دیا گیا ۔کبھی کلبوشن اور ریمنڈیوس جیسے غنڈوں کے ہاتھوں اس ملک کا امن برباد کرنے کی کوشش کی گئی تو کبھی بغاوت ‘ فتنہ تکفیر ‘ جیکٹ پھاڑ اور خودکش دھماکوں کے ذریعے امن برباد کرنے کی جسارت کی گئی ۔ کبھی دھرنا سیاست کے ذریعے دارالحکومت کا امن برباد کرنے کی سعی کی گئی تو کبھی ملکی سرحدوں پہ بلا استعال فائرنگ اور سرجیکل سٹرائیک کا ڈرامہ رچانے کی کوشش کی گئی۔ کبھی قبائلی نظام اور علحدگی پسند تحریکوں کو فنڈنگ کر کے اس ملک کی سلامتی کو نقصان پہنچایا گیا ۔کبھی مشرقی پاکستان کی تقسیم کے ذریعے اس ملک کو دو لخت کر دیا گیا ۔ کبھی الطاف حسین اور چھوٹوں گینگ وار کی پشت پناہی کے ذریعے اس ملک کے امن کوبرباد کرنے کے ناپاک عزائم بنائے گئے ۔کبھی میڈیا کے ذریعے غیر اخلاقی اور اسلامی شعائر کی تذہیق پر پروگرام نشر کر کے مسلمانوں کو ٹھیس پہنچائی گئ ۔ کبھی سیاسی اختلافات کے ذریعے تو کبھی ڈرون حملوں کے ذریعے اس ملک کے دفاع کو کمزور کرنےکی کوشش کی گئی ۔ حال ہی میں پروفیسر حافظ محمد سعیدصاحب اور ان کے رفقا ء کی نظر بندی کے ریاستی فیصلہ سے بھی دشمن کی مداخلت اور ہماری خارجہ و داخلہ پالیسی کا استہزاء کیا گیا ۔جب کہ پاکستا ن کے تمام مکتبہ فکر کے لوگ سیاسی و عسکری قائدین آپنے بیانات میں کہہ چکے ہیں کہ حافظ محمد سعید صاحب اور ان کی جماعت پر آج تک اس ملک کے کسی بھی ٹھانہ میں کوئی بھی کیس نہیں سامنے آیا ۔ مگر افسوس اس بات کا ہے کہ جب کوئی ملکی خارجہ پالیسی اور داخلہ پالیسی کے خلاف ان کی جماعت اور حافظ صاحب سے بذات خود ایسا کوئی نظریہ ‘ اعلان ‘ فکر ‘ منصویہ اور ہدف اور کوئی ایسی سر گرمی جس سے اس ملک کی سلامتی کو خطرہ ہو نہیں ثابت ہو سکا ۔ تو بتایا جائے کس جرم میں ان کی نظر بندی کے احکامات دئیے گئے۔؟اس جرم میں کہ حافظ صاحب ملکی دفاع اور نظریہ پاکستان کی حفاظت کی بات کرتے ہیں ۔ اس جرم میں کہ پاکستان کی بقاء اور سلامتی کی بات کرتے ہیں ۔اس جرم میں کہ وہ ریمنڈیوس اور کلبوشن کو بے نقاب کروانے میں حساس اور خفیہ ادارو ں سے ملک کر پاکستا ن کے دفاع کو مضبوظ کرنے میں سر گرم تھے ۔کیا اس جرم میں کے حافظ صاحب اور ان کی جماعت ہر قسم کی آسمانی اور زمینی آفت کے وقت افواج پاکستان کے شانہ بشانہ کام کرتی ہے۔کیا اس جرم میں کہ حافظ صاحب اس ملک کی سلامتی کے لیے خطرہ لسانی و قبائلی تفریق ختم کر کے متحارب اور علہدگی پسندوں کو اتحاد و اتفاق کے علم کے نیچے اکھٹا کر کے دشمن کو پیغام دیتے ہیں کہ ہم سب ایک ہیں۔ دشمن کو کسی صورت آپنے من مانی کا موقع نہیں دیا جائے گا۔کیا اس جرم میں کہ حافظ صاحب نے سوویت یونین اور سامراج کو افغانستان کی سر زمین میں بمعہ ان کی ٹیکنالوجی کے دفن کر دیا اور لازوال قربانیا ں دے کر اس ملک کے دفاع کو مضبوط کیا ۔کیا اس جرم میں کے حافظ صاحب نے مظلوم کشمیریوں کی مدد کا اعلان کیا اور پاکستان کے ازلی و ابدی دشمن بھارت کی مکاری و عیاری اور دہشت گردی و کشمیریوں پر ان کے ظلم کا مقدمہ عالمی عدالت میں چلانے کے لیے حکومت وقت پر زور دیا ۔ کیا اس جرم میں کےحافظ صاحب حکومت وقت کو پاکستان کے دریاؤ ں پر بھارتی ڈیموں کے خلاف فیصلہ کن موقف اختیار کرنے اور اس کو اقوام متحدہ تک لیجانے کی بات کرتے ہیں ۔کیا اس جرم میں کہ حافظ صاحب دکھی انسانیت کی مدد کرنے اور صحرا ئے تھر کو سیراب کرنے جیسے جرم کےمرتکب ہوئے ہیں ۔ کیا اس جرم میں کہ بلوچستان اور کراچی کے امن کو بحال کر نے کے لیے حافظ صاحب اور ان کی جماعت نے خدمات پیش کیں اور افواج پاکستان سے مل کر ضرب عضب کی کامیابی کے لیے دفاع پاکستان کونسل کی بنیاد کرنے کا جرم کر بیٹھے ہیں ۔ آخر کیا وجہ تھی کہ جب کچھ ثابت نہ ہو سکا تو ریاستی پالیسی کی بات کر کے خاموش کروا دیا گیا ۔جی میں مانتا ہو ریاستی پالیسی اور آئین کی بالا دستی کے لیے ایسے فیصلے بلا تفریق ہونے چائیے ۔ ایسے حالات میں تمام ریاستی ادروں کاملکی سلامتی اور دفاع کے لیے کردار واضع اور غیر مبہم ہونا چاہیے ۔جس میں افواج پاکستان اور خفیہ اداروں سے لے کر مذہبی و سیاسی جماعتوں اور پاکستانی میڈیا اس کے علاوہ پارلیمنٹ سے لے کر عدلیہ اور وفاقی تمام ادراے ملکی دفاع کے لیے آپنا کردار واضع کریں ۔ جو ملکی سلامتی کے لیے خطرہ ہواس کو جرم ثابت ہونے پر سخت سزا دی جائے ۔ وہ چاہئے کوئی مذہبی یا فلاحی تنظیم ہو یا کوئی جماعت ‘کوئی سیاسی پارٹی ہو یا کوئی نشریاتی ادراہ ہو یا ان تمام ادراوں کے سربراہان ہو ۔غرض کہ کوئی بھی شخص ہو وہ انفرادی یا اجتماعی طرز پر ملکی سلامتی اور دفاع کے لیے خطرہ ہوتوثابت ہونے پر حساس اور تمام قانون نافذ کرنے والے ادروں کو چاہیے کہ ایسے حالات میں ملکی سلامتی کے لیے چائیے کوئی بھی کسی بھی طریقہ سے خطرہ ہو تو اس کی غداری اور ریاستی دفاعی پولیسی کے خلاف پراپو گنڈہ کو میڈیا پر لا کر قرا رواقع سزا دی جائے۔ اس کے نیٹ ورق اور ان کے پشتی بانوں کو عوام کے سامنے بے نقاب کیا جائے ۔ ریاستی دفاع کے لیے ہر ممکن حد تک جاتے ہوئے یہ بھی دیکھنا چائیے کہ کسی بیرونی دباؤ ں میں آئے بغیر بلا تفریق کاروائی کی جائے ۔اس کے لیے قانون نافذ کرنے والے ادروں کو سب سے پہلے آپنے اندر سے ایسے افیسرجو ملکی سلامتی کے لیے خطرہ کی علامت ہو اور دہشت گردو ں کی پشت بینی کے مرتکب ہو تو ان کا جرم ثابت ہو جانے پر ملکی غداری کا مقدمہ چلا کر سرعام پھانسی دی جائے ۔ اس کے بعد پارلیمنٹ سے لے کر عدالتوں تک اور افواج سے لے کر پولیس اور اسطرح مذہبی جماعتوں سے لے کر سیاسی پارٹیوں تک اس کے علاوہ فلاحی نتظیموں اور حقوق انسانی کی تنظیموں سے لےکر غیر ملکی این جی اوز تک سب کا فردا فردا احتساب کیا جائے ۔ جرم ثابت ہونے پر چوکوں اور چوراہوں پر لٹکا دیا جائے ۔ مگر بغیر ثبوت کے آپنے ہی مسلمانوں ملکی سلامتی اور دفاع کہ قابل تسخیر خدمات پیش کرنے والوں اور مسلمانوں پہ ہونے والے ظلم کو عالمی فورم اور میڈیا و عالمی عدالت میں لیجانے کی بات کرنے والوں کو بغیر ثبوت کے قیدو بند کی صعوبتوں میں ڈالنا کہا کا انصاف ہے ۔ موجودہ حالات میں ہمیں قانون نافذ کرنے والے اداروں اور خفیہ اداروں سے مل کر ملک دشمنوں کو بے نقاب کرنا چائیے اور آپنے حقیقی دشمن کو پہچاننا چاہیے ۔ ورنہ یہ آپس میں دست و گربیاں ہونے سے ملک دشمنوں کو آپنی من مانی کا کھل کر موقع مل جائے گا ۔السلام علیکم
شعر :
جو کہتے ہیں اس آندھی میں پر نہ تولا جائے گا ۔
جو اس بات پہ خوش ہیں کہ ہم سے لب نہ کھولا جائے گا۔
ان سے کہہ دو کہ ہم طوفانوں سے ڈرنے والے لوگ نہیں ۔
اب قاتل کو مرتے دم تک قاتل ہی بولا جائے گا۔
 
Last edited:
شمولیت
ستمبر 15، 2014
پیغامات
153
ری ایکشن اسکور
43
پوائنٹ
66
مضمون بظاہر تو اچھا ہے لیکن سعودی عرب خود امریکہ کی منظوری سے چل رہا ہے اور پاکستان تو چل ہی امریکہ کے قرضوں پر رہا ہے، پھر ایسے حالات میں انفرادی مضامین سے کیا ہوگا، مجموعی طور پر ہی بڑے بڑے فرقوں نے مسلح تنظیم بنانا جائز کر رکھا ہے اور پولیس تھانہ تو ایک معمولی سیاسی کارکن کے دائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔ امریکہ اور روس کی جنگ میں اپنے ملک کو برباد کر لیا ہے۔جس چیز کی شروعات ہی قتل و غارت سے ہوئی ہو اور اس نظریہ کو اسلام کا نام استعمال کر کے چلایا جا رہا ہو اور حکومت خود سرپرستی کر رہی ہو، پھر ایسے میں امن کی توقع فضول ہے۔
 
Top