• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تحریف بائبل: عہدنامہ جدید تاریخ کے آئینے میں

شمولیت
اپریل 13، 2019
پیغامات
80
ری ایکشن اسکور
7
پوائنٹ
41
تحریف بائبل: عہدنامہ جدید تاریخ کے آئینے میں


بائبل مقدس مسیحی دنیا کے لئے خدا کا ناقابل تغیرکلام ہے۔ مسیحی علماء کے مطابق یہ دعوی بنی اسرائیل/یہودیوں کی تاریخِ وحی کےاندر اپنی جڑیں رکھتا ہے، لہٰذا یہ دلیل بحیثیت ثبوت تاریخی طور پرناقابل مواخذہ ہے!

تاہم، تاریخ کا مطالعہ کرنے پرہمیں کچھ ایسےحقائق سے بھی آگاہی حاصل ہوتی ہے، جوعیسائی دعوی کے خلاف جاتے ہوئے محسوس ہوتے ہیں۔۔ بائیبل مقدس کی انگریزی اور دنیاکی دیگرزبانوں میں ترجمے (Translation Process) کی داستان بہت عجیب مگر دلچسپی سے بھرپورہے۔ دنیا بھر کی زبانوں میں ہونے والے "بائبلی تراجم" کی بنیادعصرحاضرکے انگریزی ترجمہ ورژن (English Versions) ہیں، جن کو دیگراقوام بطور"سند" (Certified Text) استعمال کرتی ہیں اوران پراندھا اعتماد رکھ کردُنیا بھرکے مسیحی اپنی اپنی زبانوں میں بائبل کے ترجمہ کاکام کررہے ہیں۔۔ مثال کے طور پربائبل کے ایک اہم "اُرْدُوترجمہ" کی بنیاد انگریزی زبان کا 1978ء میں شائع ہونے والا "نیوانٹرنیشنل ورژن" (NIV) ہے۔اِس سے ایک چیزواضح طور پرثابت ہوتی ہے کہ بائبل کے 99 % تراجم درحقیقت کسی”ترجمے کا ہی ترجمہ“ ہیں، جبکہ دنیاکی کسی بھی معتبرزبان میں پائے جانے والے ترجمے اور بائبل کےعہدنامہ ہائے جدیدوقدیم (New & Old Testaments) کےاصل متن کے مابین کوئی براہ راست تعلق اور ربط ضبط موجود نہیں ہے۔

حیرت انگیز امریہ ہے کہ جن مختلف یونانی "متون /مخطوطات" (Greek Manuscripts) پرآج تک کیےجانے والےانگریزی تراجم کی بنیاداستوار ہے، وہ بھی کم ازکم " چار" (4) بنیادی قِسموں میں منقسم ہیں۔۔ لہٰذا ہم بادلیل کہہ سکتے ہیں کہ آج کم از کم "چارعدد عہدنامہ جدید" مسیحی دنیا میں موجود ہیں، جوکہ اصل ہونے کے دعویدار ہیں۔۔ تاہم ان میں سے کسی کے متعلق بھی سوفیصد (100%) یقین سے یہ نہیں کہا جا سکتا کہ یہ ہی اصل عہد نامہ جدید ہے۔۔ اِس پرمزید حیرت کی بات یہ ہے کہ آج تک دریافت ہونے والے 14 ہزارسےزائد قدیم مخطوطات میں سے کوئی ایک مخطوطہ یا متن بھی مکمل شکل میں دستیاب نہیں ہے۔۔ مزید برآں، اس سے بڑھ کردلچسپ امریہ ہےکہ ان ہزاروں مخطوطات میں سے کوئی سے دونسخے بھی باہم مشابہت نہیں رکھتے۔ یعنی اُن کی عبارت میں کسی نہ کسی مقام پرتفاوت ضرورموجود ہے۔

آج مسیحی دنیا کے پاس سب سے قدیم نسخہ "کوڈیکس ویٹیکانس" (Codex Vaticanus) ہے، جو310 ء سے 325ء کے لگ بھگ کہیں لکھا گیا۔۔ دوسرا قدیم ترین واہم ترین نسخہ "کوڈیکس سیناٹیکس" (Codex Sinaiticus) ہے، جوکہ 375ء یا اس کے بعد مسیحی کاتبین کی جانب سے تحریرکرکے صحیفے (Codex) کی شکل میں ڈھالا گیا ۔ جبکہ تیسرا قدیم ترین یونانی نسخہ "کوڈیکس الیگزینڈرینوس" (Codex Alexandrinus) کہلواتا ہے، جس کے لکھے جانے کا زمانہ پانچویں صدی عیسوی ہے۔۔ مسیحیت کے پاس تصدیق عہدجدید کےلئے فخرکئےجانےکے قابل کل اثاثہ یہی 3 قدیم نسخے ہیں۔۔ تاہم یہ سب نسخے عہدجدید کے لکھے جانے کے اصل زمانہ سے کم از کم 2 سے 4 صدیاں بَعْد کی پیداوارہیں اوراصل متن کی نمائندگی نہیں کرتے۔۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ ان میں سے کوئی بھی نسخہ مکمل عہد نامہ جدید یعنی موجودہ 27 کتابیں اپنے اندر نہیں رکھتا۔ یعنی یا تو کُتب کی تعداد کم پائی گئی ہے، یا پھرزیادہ! مثال کے طورپر، کوڈیکس ویٹیکانس میں پوری یہودی بائبل (عہدِقدیم) کایونانی ترجمہ جوکہ”Septuagint“ کہلاتا تھا موجود ہے،لیکن مسیحی صحیفہ کے 1 اور 2 تیمتُھیس (Timothy)، ططُس،(Titus) فلیمون (Philemon) اورمکاشفہ (Revelation) نامی کُتب اِس کوڈیکس کا حصہ نہیں ہیں۔ دوسری طرف ”کوڈیکس سیناٹیکس“ کا معاملہ قدرے مختلف اورپیچیدہ نظرآتا ہے،کیونکہ اِس میں پوراعہدنامہ جدید توبیشتراِملائی تحریفات کےساتھ موجود ہےہی،لیکن اِس کے ساتھ ساتھ ”شیپرڈ آف ہرماس“ (Shepherd of Hermas) اور ”برنباس کا خط“ (Epistle of Barnabas) بھی الہامی کتب کی فہرست میں خُدا کےکلام کی حیثیت سےموجود ہیں۔ تاہم، اِس کےبرعکس عہدِقدیم اِس کوڈیکس میں پوری طرح سےسلامت حالت میں نہیں پایا گیا۔ تیسرا اورجامع ترین مخطوطہ ”کوڈیکس الیگزینڈرینوس“ بھی اِن مسائل سےخالی نہیں،کیونکہ اِس کےمسودہ کےمسیحی عہدنامےوالےحصے میں 27 قا نونی کُتب کےعلاوہ ”1 اور2 کلیمنٹ“ (Clement) بھی موجودہیں،جبکہ عہدِقدیم میں ”اپوکریفا“ (Apocrypha) کتب کو بھی شامل کیا گیا ہے۔ لہٰذا تنقیدی اعتبارسےدیکھا جائے تواِن مسودات کی صحت پر سوال پیداہونےکےساتھ ساتھ بائبل کےمجموعی ”قانون“ (Canon)کےمتعلق بھی شبا ت پیداہوجاتےہیں۔

دوسرے لفظوں میں عیسائی "صحیفائی قانون" (Scriptural Canon) کی توثیق بھی ان مسودات سےکسی طور ممکن نہیں ہے! مزید برآں، مسیحی فاضلین تسلیم کرتےہیں کہ ان مسودات میں کثرت سے "کاتبین کی غلطیاں" اور بعد کی "تحریفات واضافہ جات" (Scribal Errors & interpolations) موجود ہیں، جن کی ایک لمبی فہرست اضافوں کے ساتھ فاضل مغربی مسیحی علماء متعددبارشائع بھی کرچکے ہیں۔ ان میں سے اکثرتحقیقی نتائج پر مشتمل شائع ہونےوالی کتابوں کے حقوق "United Bible Society" کے ہاتھ میں ہیں، جسےعُرفِ عام میں UBS کےنام سے پُکاراجاتا ہے۔۔

ان نسخوں کی بنیاد پر"عہدنامہ جدید" کے جو 4 اہم یونانی ورژن (Greek Versions) یونانی متن کی تعمیرنوکےبعد تخلیق کئےگئے ہیں، وہ یہ ہیں:

1۔"ویسٹکاٹ اینڈ ہورٹ" (Westcott & Hort) -- انیسویں صدی عیسوی!

2۔ "نیسلے ـ الاند" (Nestle-Aland) -- انیسویں صدی عیسوی!

3۔ " UBS گریک نیو ٹیسٹامنٹ " (United Bible Society Greek New Testament) -- بیسویں صدی عیسوی! (آج کے جدیدترین بائبلی ورژن، مثلاً نیو انٹرنیشنل ورژن (NIV) ، نیو امریکن اسٹینڈرڈ ورژن (NASB) ، ریوائزڈ اسٹینڈرڈ ورژن ( RSV) ، امریکن ریکوری ورژن (ARV) وغیرہ انہی 3 مختلف المتن یونانی متنوں پرمبنی انگریزی تراجم ہیں۔)

4۔ " ٹیکٹوس ریسپٹوس " (Textus Receptus) ۔۔ سولہویں صدی عیسوی!

1881ء میں شائع ہونےوالے بائبل کے "ریوائزڈ ورژن" (Revised Version) نے اُنیسویں صدی میں ترتیب دیئےگئے "ویسٹکاٹ اینڈ ہورٹ" کے یونانی متن کو کام میں لاتے ہوئے زمانہ قدیم سے "مقدس گائے" سمجھی جانے والی "کنگ جیمس ورژن بائیبل" (KJV) کی قانونی ومذہبی حیثیت کو چیلنج کردیا تھا۔ یہ ایسا موقع تھا جب مسیحی پادریوں نے ”ریوائزڈ ورژن“ نامی اِس نئے ترجمہ کو ”شیطان کی بائبل“ اور مسیحیت کےخلاف سازش قراردیا تھا۔ لہٰذا، قدامت پسند مسیحیوں کی جانب سے اِس ترجمہ کے ہزاروں نسخےسرِعام جلا کرغصہ نکالا گیا۔

"کنگ جیمس ورژن بائبل" (1611ء) کا انگریزی ترجمہ سولہویں صدی عیسوی میں کیتھولک چرچ کے تحت تشکیل دئےگئے یونانی متن "ٹیکٹوس ریسپٹوس" پر استوار کیا گیا تھا۔ تاہم یہ ترجمہ کلی طور پر نیا اور جدت پر مبنی نہیں تھا (اِس بات کا وضاحتی ذکر آگے آ رہا ہے)۔ "ٹیکٹوس ریسپٹوس" کیتھولک اِسْکالَر"اراسمس" (Desiderius Erasmus) کا تیار کیا ہوا متن تھا، جواس نے "سینٹ جیروم" (Saint Jerome) کے مشہورزمانہ لاطینی ترجمہ "وولگاتا" (Vulgate) اورفی زمانہ دستیاب کچھ یونانی قلمی مسودات کی مدد سے تیار کیا تھا۔ یاد رہےکہ تشکیل متن کےدوران کئی ایک مقامات پر"اراسمس" نے یونانی مسودات میں عہدنامہ جدید کی کسی غیردستیاب (Missing) آیت کو رائج الوقت لاطینی متن سے اٹھا کرواپس یونانی میں ترجمہ کردیا اوراسکو عہدنامہ جدید کا اصلی متن قراردے دیا۔۔ مثال کے طور پر، کتاب مکاشفہ (Revelation) کی آخری 8 آیات (باب 22 ، آیات 14 تا 21) ، 1 یوحنا 5 : 7-8 (باب 5 ، آیات 7 تا 8) وغیرہ اسی زمرے میں آتی ہیں (اِس پرمزید بات آگے چل کرہوگی)۔ مزید حیران کن امریہ ہےکہ اِس سے قبل کم ازکم پورے ایک ہزار سال تک مسیحی دنیا کے پاس عہدنامہ جدید کا کوئی باقاعدہ "متفق الآراء" یونانی متن سرے سے موجود ہی نہیں تھا۔ اس لئےکیتھولک چرچ نے سینٹ جیروم کے "وولگاتا" (Latin Vulgate) کو ہی "خدا کے الہامی کلام" کا درجہ دے رکھا تھا ، جس کی یہ حیثیت کسی نہ کسی طورآج بھی برقرار ہے!

چونکہ یہ سارا عمل بازنطینی سلطنت کی زیرِسرپرستی طے پایا، لہٰذا یہ ضروری تھا کہ قسطنطنیہ میں نشست فرما شہنشاہ کی درباری زبان کو کلام خدا کا آلہءاظہاربنایا جائے۔لہٰذا کلیسیا کو یہ ذمہ داری سونپ دی گئی،جس نے فوری طورپر“جیروم“نامی متقی مسیحی اورماہرِلسانیات والہٰیات کویہ فریضہ سرانجام دینےکی ذمہ داری منتقل کردی۔ بازنطینی سلطنت کی سرکاری زبان لاطینی میں بائبل کے ترجمے کےاس منصوبے کی شروعات سینٹ جیروم کی نگرانی میں 382 عیسوی میں ہوئی اوریہ منصوبہ 405ء میں مکمل ہوا۔ اس ترجمہ کولاطینی زبان میں "Vulgate" یعنی روزمرہ محاورہ کی ”عام فہم زبان" کا نام دیا گیا۔ جیروم کے "Latin Vulgate" پرمبنی انگریزی زبان میں کیا گیابائبل کا ترجمہ "Douay-Rheims English Bible" کہلاتا ہے، جوکہ صرف "کیتھولک عیسائیوں" کے ہاں استعمال کیا جاتا ہے،جبکہ پروٹسٹنٹ فرقہ کے لوگ اِس کو استعمال کرنے سے کتراتے ہیں!

مسیحی دنیا میں آج بھی یہ تنازعہ بڑی شدت کے ساتھ موجود ہے کہ یونانی زُبان میں موجود عہدنامہ جدید کے ان ”چاروں ورژنز“ میں سے اصلی "مسیحی عہدنامہ" کے قریب ترین کون سا ہے؟ کیا یہ مسیحیت کے سرچشمہ سے پُھوٹنے والےاِلہامی متن کے اِرتقاء کو ظاہر کرتے ہیں یا پھریہ سبھی باہم مختلف صحیفے ہیں جو مختلف مکاتب ِ فکر کے فکری اسلوب اور متنی فہم کی نمائندگی کرتے ہیں؟ تاہم، اِس بات کا کسی کے پاس کوئی مؤثرجواب نہیں ہے۔۔ البتہ مسیحی اسکالرز مسیحی صحیفہ کے متن کی تعمیرنو (Reconstruction) کےعمل پربڑی شدّومد سے کام کرتے ہوئے اِس جستجو میں ضرورنظرآتےہیں کہ اصل متن کے جتنا قریب ممکن ہو سکے پہنچا جا ئے۔ لہٰذا اِس مقصد کے مدنظر ناقدینِ متن ایک سائنسی اسلوب اختیار کرتے ہیں اور درجہ بندی کا طریقہء کار وضع کرتے ہوئے وہ بائبل کےمتن کو اے (A)، بی (B)، سی (C)، ڈی (D)، ای (E)، اور ایف (F) کے درجوں میں تقسیم کرتے ہیں۔ اِس درجہ بندی کا مطلب کیا ہے،اِس کی وضاحت مندرجہ ذیل ہے:

☜ "اے" سے مراد وہ متن ہے،جو ہر طرح سے تصدیق شدہ ہے۔

☜ "بی" سے مراد وہ متن ہے،جواکثریت سے تصدیق شدہ ہے۔

☜ "سی" سے مراد وہ متن ہے،جو کافی مخطوطات میں موجود ہو۔

☜ "ڈی" سے مراد وہ متن ہے،جو بہت کم نسخوں میں پایا گیا ہو۔ لیکن اس پرعلماء کی پختہ رائے موجود ہو کہ یہ قابل اعتماد ہے۔

☜ "ای" سے مراد وہ متن ہے،جوایک یا دو نسخوں میں موجود ہو، اورمشکوک کی فہرست میں آتا ہو۔

☜ "ایف" سے مراد وہ متن ہے،جومحض ایک نسخہ میں یا صرف بعدکےزمانہ کے مسودات میں پایا گیا ہو،اورمتن کےنقاد ماہرین اسے 'ناقابل اعتماد' قرار دے چکے ہوں۔۔ مثال کے طور پر، انجیل مرقس کے 16 ویں باب کا طویل اختتام (آیات 9 تا 20) جس میں "یسوع مسیح کی حیات ثانیہ" (Resurrection) کا ذکر ہے،اسےمتن کے ماہرین"ایف" کا درجہ دے کر مسترد کر چکے ہیں۔ لہٰذا بائبل کےہرجدید ورژن کے حاشیہ میں اِس بات کا ذکر ضرور موجود ہوتا ہے کہ یہ تحریرقدیم نسخوں میں نہیں پائی جاتی،لہٰذا یہ مشکوک ہے۔ اسی طرح ماہرین متن انجیل یوحنا کے 8 ویں باب میں موجود "بدکارعورت اور اس کی سزا" والے واقعہ (آیات 1 تا 11) کو بھی "ایف" کا درجہ دے چکے ہیں،جس سے مُراد یہ ہے کہ یہ واقعہ بعد میں کیا گیا دانستہ اضافہ ہے اورانجیل ِ یوحنا کے اصلی متن میں سرے سے موجود ہی نہیں تھا۔ یوحنارسول کے پہلے خط کامتن بھی اضافہ جات سے نہ بچ سکااورناقدینِ متن کواِس کے اندر بھی ”ایف“ کادرجہ جاری کرناپڑا۔ یوحنا کے پہلے خط میں موجود ”یوحانوی کوما“ (Johannine Comma) مسیحی الہٰیات کی ایک معروف اصطلاح ہے،جس سےمراد وہ ’واحد‘ بائبلی حوالہ ہےجس کی بنیاد ہر ”تثلیث“ کی پوری عمارت کھڑی ہے۔ تاہم اِس یوحانوی کوما کے متعلق علماءکاخیال ہےکہ یہ قرُونِ وسطیٰ کی ایجاد ہے۔ لہٰذا خط کے اندر سے اِس اضافی متن کومسترد کرکے بائبل سے کلیۃً نکال دیاگیا۔ تاہم دلچسپ امریہ ہےکہ یہ متنازع متن آج بھی ”کنگ جیمس ورژن بائبل“ اور اِس مکتبہءفکرسے منسلک انگریزی ودیگرزبانوں کے تراجم کا بدستورحصہ ہے۔ حوالہ کے لئے یہاں انگریزی متن پیش کیا جا رہا ہے۔

✈ King James Version Bible (KJV):

“For there are three that bear record in heaven, the Father, the Word, and the Holy Ghost: and these three are one. And there are three that bear witness in earth, the Spirit, and the water, and the blood: and these three agree in one.” (1 John 5:7-8)

اوراب اِس قدیمی متنِ بائبل سے موازنہ کے لئےعصرِحاضر کی معروف ترین انگریزی بائبل کا متن ملاحظہ ہو:-

✈ New International Version Bible (NIV):

“For there are three that testify: the Spirit, the water and the blood; and the three are in agreement.” (1 John 5:7-8)

ایک اور حیرت انگیزتاریخی حقیقت یہ ہےکہ ”کنگ جیمس ورژن بائبل“ تقریباً 92٪ چربہ ہےاِس سے پون صدی قبل شائع ہونے والی ”Tyndale Bible“ کا،جوکہ William Tyndale نامی سولہویں صدی کے معروف انگریز مسیحی سکالرکاکیا ہوا ترجمہ تھا۔ تاہم یہ بات باعثِ حیرت ہے کہ ٹِنڈیل بائبل میں ”یوحانوی کوما“ کا کہیں کوئی وجود نہیں تھا،جبکہ پون صدی بعد ”کنگ جیمس ورژن“ کی صورت میں شائع ہونے والا اِس کا Updated ایڈیشن اپنے اندر‘کوما‘ نامی تثلیثی تحریف رکھتا تھا۔

علاوہ ازیں، انجیلِ یوحنا کے ابواب اوّل اورسوّم میں موجود ایک انتہائی اہم تحریف کوبھی مسیحی علماءِفنِ متن کی جانب سےحذف کر دیا گیا۔ انجیلِ یوحنا کے پہلےباب کی آیت نمبر14اورتیسرےباب کی آیت نمبر16 کےمتن میں موجود ”متولد“ (Begotten) کا لفظ بعد کےزمانہ کی تحریف مان کرمٹادیا گیا،اورمتن کو ’اِکلوتا متولد بیٹا‘ (only begotten son) کی جگہ ’اِکلوتا بیٹا‘ (one and only son) کردیا گیا۔ اِس اہم تبدیلی کاحوالہ بھی مذکورہ بالامعروف انگریزی ترجموں سے ذیل میں دیا جا رہا ہے:-

✈ “And the Word was made flesh, and dwelt among us, (and we beheld his glory, the glory as of the only begotten of the Father,) full of grace and truth.” (John 1:14 KJV)

“The Word became flesh and made his dwelling among us. We have seen his glory, the glory of the one and only Son, who came from the Father, full of grace and truth.” (John 1:14 NIV)

✈ “For God so loved the world that he gave his only begotten Son, that whosoever believeth in him should not perish, but has everlasting life.” (John 3:16 KJV)

✈“For God so loved the world that he gave his one and only Son, that whoever believes in him shall not perish but have eternal life.” (John 3:16 NIV)

یہ بات دل چسپی سےخالی نہیں کہ مذکورہ بالاتحریف مسیحیت کو ”بیٹاپرستی/ابنیت“ (Sonship) کی بائبلی بنیاد فراہم کرنے کے لئےکرنا پڑی، کیونکہ اِس کےعلاوہ یسوع کا ”خُداباپ“ سے رشتہ بالکل ویسے ہی عمومی نوعیت کا تھا،جیساکہ یہودی عقیدہ کےمطابق ہریہودی خُدا کا بیٹا ہے۔ اِس عمومی یا غیرتثلیثی ”لےپالکی“ (Son Adoption) کے بکثرت حوالہ جات عہدنامہ قدیم کےاندر جگہ جگہ بکھرےپڑےہیں۔

ایک اور اہم تحریف انجیلِ لوقا کےباب23، آیت34 کی زینت بنی، جہاں بعد کے کاتبین نے نامعلوم کس کے ایماء پریسوع کے منہ میں یہ الفاظ ڈالے:

”اے باپ! اِن کو معاف کرکیونکہ یہ نہیں جانتے کہ کیا کرتےہیں۔“

محققینِ تاریخ کے مطابق اِن الفاظ کا اضافہ پہلےادوارکےمسیحیوں کی ’یہود دشمنی‘ کا نتیجہ تھا،کیونکہ مسیحی دُنیا میں یہودیوں کوہمیشہ”قاتلینِ مسیح“ (Christ Killer) کے لقب سے ملقّب کرکےنفرت کی تلوارکی نوک پررکھا گیا۔ اِس آیت میں یسوع کی دُعا کا مطلوب ”رومیوں“ کوبناکر اُن کے لئے مسیحیت کے اندرنرم گوشہ پیدا کیا گیا،تاکہ رُومی سلطنت کے مسیحیت قبول کرنے پراُن پر کوئی داغ باقی نہ رہ جائے۔ اِس عبارت کوبعض علماء نے”ای/E“ اوربعض نے”ایفF/“ کےدرجےمیں رکھا۔ لہٰذایہ عبارت جدید یونانی ورژنز اور انگریزی تراجم کے متن کا بدستورحصہ تورہی، لیکن ہرایک بائبل کےاندراِس آیت کےحاشیہ میں اِس کی مشکوک حیثیت کا ذکرضرورکردیا گیا۔ مزید، اِسی باب کی آیت 17 کوبھی مسیحی محققین کے ہاں بائبل کے متن میں اِضافہ شمار کیا جاتا ہے، لہٰذا اِس تحریف کا ذِکر بھی بائبل کے تقریباً ہر جدید ورژن میں موجود ہے۔

✔ مزید برآں، اِنجیلِ متی باب 17، آیت 21 کا بھی قدیم مسودات میں کہیں کوئی وجود نہیں ہے۔ لہٰذا اِس پیچیدگی کا حل یہ نکالا گیا کہ یا تو بائبل کے کچھ جدید نسخہ جات سے اِس آیت کو مکمل طور پر حذف کر کے 20 کے بعد متن میں آیت نمبر 22 کو ڈال دیا گیا، یا پھر ”کنگ جیمس ورژن بائبل“ کے متن کو ہی بریکٹیں ڈال کر جدید ترجمہ کے ساتھ شامل کرلیا گیا، تاہم، ساتھ ہی حاشیہ میں اِس عبارت کی مشکوک تاریخی نوعیت کا ذکر بھی کر دیا گیا۔

✔ اِسی طرح اِنجیلِ متی باب 18، آیت 11 کے ساتھ بھی بالکل یہی معاملہ پیش آیا اور اِس آیت کو یا توبائبلی متن سے مکمل طور پر حذف کر کے آیت کا نمبر چھوڑ دیا گیا، یا پھر بریکٹوں کا سہارا لے کر کنگ جیمس ورژن والی عبارت کو ہی جدید زبان میں منتقل کر کے حاشیہ آرائی کر دی گئی کہ عبارت قدیم ترین مستند صحائف سے غائب ہے۔

✔ علاوہ ازیں، اِنجیلِ متی باب 23، آیت 14 کے ساتھ بھی بالکل یہی معاملہ پیش آیا اور یہ آیت بھی بریکٹوں میں بند کر دی گئی۔

✔ اِس کے بعد انجیلِ یوحنا کے باب 5، آیات 3 اور4 میں بھی مسیحی علماء کو یہی مسئلہ درپیش تھا کہ قدیم مسوداتِ عہدنامہ جدید کے اندر اِن آیات کی آج پائی جانے والی عبارت کا کہیں کوئی نشان نہ تھا، لہٰذا معاملہ یہاں بھی بریکٹوں کے سپُرد کر کے حاشیہ میں تحریف کا گول مول الفاظ میں اعتراف کر لیا گیا اور قصہ ختم سمجھاگیا۔

☜ یہاں تک کی گئی گفتگو سے یہ تاثر یقیناً مضبوط ہو رہا ہو گا کہ تحریف پر مبنی زیادہ تر مسائل ”اناجیلِ اربعہ“ میں ہی پائے جاتے ہیں۔ تاہم، یہ تاثر حقیقت پر مبنی نہیں ہے۔ دراصل اناجیل سے باہر دیگر کُتبِ عہدِ جدید میں بھی بکثرت تحریفات پائی جاتی ہیں، جن میں جہاں اکثر کاتبین کی قلمی غلطیوں کا نتیجہ ہیں، تو وہیں ایک کثیرتعداد اِرادتاً و دانستہ کی جانے والی تحریفات کی بھی ہے۔

✔ مثال کے طور پر، تیمٗتھیُس (Timothy) کے نام پہلے خط کے باب 3، آیت نمبر 16 میں ایک ایسا ہی تحریفی واقعہ پیش آیا، جوناقدینِ متن کے مطابق پولوسی مسیحیت کے پیروکار کلیسیاء کی قرُونِ اُولیٰ کی دینیاتی منشاء کو ظاہر کرتا ہے۔ اِس مخصوص تحریف نے بلاشبہ مسیحی دینیات والٰہیات کی تدریجی تشکلیل میں کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ یہاں تحریف کی سنگین نوعیت پر روشنی ڈالنے کے لیے ہمیں یونانی رسم الخط کا بھی سہارا لینا پڑے گا، کیونکہ اِسی رسم الخط میں اِبتداً عہدِ جدید لکھا گیا تھا۔ یہاں آیت 16 میں یسوع کی طرف نسبت رکھنے والا ایک اہم جملہ ”وہ جو جسم میں ظاہر ہُوا“ ہے۔ انگریزی زُبان کے جدید ترجموں میں یہ جملہ کچھ یُوں پایا گیا ہے:

“He appeared in the flesh...” (NIV) یا “He who was revealed in the flesh...” (NASB)

تاہم، ”کنگ جیمس ورژن بائبل“ اور اِس سے متعلقہ دیگر سبھی تراجم اِس کو کچھ اِس طرح لکھتے ہیں:-

“God was manifest in the flesh ۔۔۔” (KJV) یا “God was revealed in the flesh...” (MEV)

☚ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایسا بنیادی فرق کیوں ہے؟ آخر ”وہ“ کے انسانی صیغہءمذکر کو ”خدا“ کے لفظ کے ساتھ کیسے بدل دیا گیا؟

☜ اِس پیچیدگی کا جواب یُونانی متن میں ہے۔ اصل متن میں اسمِ ضمیر”وہ“ (He) کی ثانوی حالت ”جو“ (who) کے لیے جو یُونانی لفظ استعمال ہُوا ہے، وہ Omicron Sigma یعنی Ὃς (ہوس) ہے۔ مزید واضح کرتا چلوں کہ یُونانی زُبان میں خُدا کے لیے θεός (تھیوس) کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے۔ غور کرنے پر معلوم ہو گا کہ θεός کے آخری دونوں حروف بھی Omicron Sigma ہی ہیں، جو مذکر کی حالتِ ضمیر”جو“ کے لیے قدیم یُونانی زُبان میں مستعمل تھے۔ لہٰذا مسیحی دُنیا کی تیسری اور چوتھی صدیوں کی باہمی لڑائی اور مذہبی مناظرہ جات کے دوران یسوع کو خُدا ماننے والے تثلیثی فرقہ کے کاتبین نے کلیسیائی زُعما کے ایماء پر Ὃς کے ساتھ Theta Epsilon یعنی θε کا اضافہ کر کے نیا متن وسیع پیمانے پر شائع کر دیا۔ پس، یُوں Ὃς کے لفظ کو θεός بنا کر ”وہ جو“ سے ”خُدا“ بنا دیا گیا۔ اِس تحریف کا محرک ”توحیدی“ مسیحیوں کے ساتھ مباحثوں اور مناظروں میں یسوع کی اُلوہیت کو عہدنامہ جدید کے متن سے ثابت کرنا تھا۔ چونکہ ”خُدا“ کا لفظ پچھلی دو صدیوں میں دریافت ہونے والے قدیمی مخطوطات میں نہیں پایا گیا، لہٰذا جِدّت پسند مسیحی علماء نے عمداً کی گئی اِس صریح تحریف کا اعتراف کرتے ہوئے عبارت کو واپس ”وہ جو“ (He who) سے بحال کر دیا ہے۔ تاہم، دُوسری طرف رجعت پسند مسیحی علماء و مُقلّدین آج بھی لفظ ”خُدا“ والی عبارت سے چمٹے ہوئے ہیں۔

اِس کے علاوہ بھی بائبل کے مسیحی عہدنامہ (New Testament) کے اندر کئی ایک مزید ایسے مقامات موجود ہیں، جن کو خود مسیحی علماء کی طرف سے "ایف" کا درجہ دیا جا چکا ہے اوراب ان کوعلمی حلقوں میں بطورِ حوالہ مسترد کیاجاتا ہے۔ یہی وجہ ہےکہ "کنگ جیمس ورژن بائبل" اور بائبل کے دیگر جدید تراجم کے درمیان لفاظی، اسلوب اورمضامین کا واضح فرق موجود ہے!

تاہم مغرب کے غیرتعلیمی وتحقیقی کلیسیائی حلقوں میں اب بھی اِن تحریفات کےتسلسل اورتقدیس کا سلسلہ اُسی شدت سے پایا جاتا ہے،جس کی وجہ سے ”کنگ جیمس ورژن“ آج بھی سب سے زیادہ فروخت ہونےوالی بائبل ہے۔ چونکہ مسیحی الہٰیات میں اِن مرکزی نوعیت کی تحریفات پرقائم شدہ عقائدعام مسیحی افراد کے ایمان اورشخصیت کے اندر اِس قدرڈھل چکےہیں،کہ مسیحیت کی کوئی اور(مثلاًخالص توحیدی) شکل قبول کرنا اُن کے لئےممکن ہی نہیں، لہٰذاعلماء ومحققین کی نِت نئی دریافتوں، شبانہ روزکی ریاضتوں اورکاوشوں کی طرف مسیحی دُنیا (Christendom) کےعام باسیوں کی جانب سے کوئی خاص توجہ نہیں دی جاتی۔ البتہ یہاں بائبل کےمتن پرکام کرنے والے مسیحی علماء وناقدین کوداد نہ دینا بھی زیادتی ہوگی،کیونکہ نقذِ متن کےعمل میں اُن کےآگے”عقیدہ“ نےرُکاوٹ ڈال کرسچ کوجھوٹ کےپردوں میں چھپانےپرمجبورنہیں کیا!

☚ لہٰذا، آخرمیں اِس بحث کے فطری نتیجہ کے طور پریہ سوال پیدا ہوتا ہےکہ باقی ماندہ بائبل پراب کس حد تک اعتماد کیا جاسکتا ہے؟ اوراگر کیا بھی جائے توان مسائل کی واضح موجودگی میں آخرکیسےکیا جائے؟ مزید یہ کہ اِس شعبہ میں ہونے والی جدیدعلمی پیش رفت کے بَعْد کیا "قرآن کریم" کا یہ دعویٰ سچ ثابت نہیں ہوجاتا کہ یہودی اورمسیحی علماء اورکاتبین بلاشبہ الہامی کتابوں کے متن میں دانستہ ونادانستہ دونوں طرح سے”تحریف“ کرتے رہے ہیں؟ کاتبین کی نادانستہ اغلاط اوراِملائی تغیرات (Textual Variants) کی آج تک دریافت ہونےوالی کُل تعداد ایک لاکھ سے اُوپر بنتی ہے،جوکثرتِ تعدادکےباعث محققین کےمطابق عہدنامہ جدید کےمجموعی الفاظ کےحجم کے ہم پلہ ثابت ہوتی ہے۔ تاہم، ہم یہ موضوع یہاں ہماری بحث کا حصہ نہیں،کیونکہ یہ بحث محض دانستہ کی گئی تحریفات تک محدود ہے۔

( واضح رہےکہ اِس مضمون میں بحث محض "عہدنامہ جدید" تک محدود رکھی گئی ہے، جبکہ "عہد نامہ قدیم" کے بارے میں بحث علیحدہ مضمون میں شائع کی جائے گی!)۔

نوٹ : مسیحی بھائیوں کے سامنے میدان کھلا ہےکہ وہ اِس تحریر میں پیش کیے گے حقائق کو ثبوت کی بنیاد پراگر جھٹلا سکتے ہیں تووہ ضرورایساکردکھائیں...خوش آمدید!
1.png
 
Top