عمر اثری
سینئر رکن
- شمولیت
- اکتوبر 29، 2015
- پیغامات
- 4,404
- ری ایکشن اسکور
- 1,137
- پوائنٹ
- 412
تحریک اہل حدیث کادینی تصور
ایک مختصر نفسیاتی جائزہ
ایک مختصر نفسیاتی جائزہ
تحریر :علامہ عبد الحمید رحمانی رحمہ اللہ
سوال کم پڑھے لکھے یا جہال کا نہیں، اچھے خاصے علماء کا ہے۔ ان حلقوں میں اگر کسی جانی پہچانی شخصیت کے بارے میں بھولے سے کسی نے کہہ دیا کہ صاحب وہ ’’وہابی‘‘، ’’غیر مقلد‘‘ یا ’’اہل حدیث‘‘ ہے تو نہ پوچھئے، صرف اتنا کہہ دینے اور لکھ دینے سے اس کے متعلق رائے اس تیزی سے بدل جاتی ہے اور اس کے خلاف نفرت وتعصب کے کتنے طوفان اٹھ کھڑے ہوتے ہیں ۔ نفرت وتحقیر کا یہ بادۂ تلخ انگریز کے استعماری مصالح کے علاوہ اور کن کن مقدس ہاتھوں سے کشید ہوا؟ اور تہمت طرازی کی اس سازش میں کس کس نے حصہ لیا ہے؟ کن کن عناصر نے اہل حدیث کے خلاف اس نفسیاتی مہم کو چلانے میں کامیاب کردار ادا کیا ہے؟ یہ ایک مستقل اور الگ موضوع ہے جو مخصوص تحقیق اور التفات چاہتا ہے، ہمارے نزدیک اس سے متعلق سردست تعرض کرنا موضوع نہیں، کیونکہ ع
اس میں کچھ پردہ نشینوں کے بھی نام آتے ہیں
تاہم اتنی بات کہنے میں کوئی مضائقہ بھی نہیں کہ نفرت کی یہ مہم پورے زور وشور اور تنظیم کے ساتھ آج بھی جاری ہے، حالانکہ جماعت اہل حدیث کے عقائد وسرگرمیاں اور کارنامے کوئی چیز بھی تو ایسی نہیں جس میں اسلامی نظریہ وتصور سے کسی درجہ میں بھی انحراف پایا جائے، بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ ہم تو معتوب اور مستوجب تعزیر ہی اسی بنا پر ہیں کہ ہم فقہ ہو یا کلام، تفسیر ہو یا حدیث، دین کے معاملے میں ادنیٰ انحراف کو بھی برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں، ہمارا سیدھا سادہ عقیدہ یہ ہے کہ حق وصداقت کو صرف کتاب اللہ اور سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہی میں محصور اور منحصر مانو اور سعی وعمل اور فکر وعقیدہ کا جب بھی کوئی نقشہ ترتیب دو تو تابش وضو کے لیے اسی آفتاب ہدایت کی طرف رجوع کرو، جس کو اللہ تعالیٰ نے ساری کائنات انسانی کے لیے سراج منیر ٹھہرایا ہے۔
یا ایھا النبی انا ارسلناک شاہداً و مبشراً و نذیرا و داعیا الی اللہ باذنہ و سراجا منیرا۔(الاحزاب:۴۵۔۴۶) اے نبی! بے شک ہم نے آپ کو شہادت دینے والا، خوش خبری دینے والا اور ڈرانے والا بنایا ہے اور اللہ کے حکم سے اس کی جانب بلانے والا اور روشن کرنے والا چراغ بنایا ہے۔‘‘
یہاں اس بات کو اچھی طرح ذہن نشیں کرلینا چاہیے کہ ہم کسی طرح بھی تاریخی ارتقاء کے منکر نہیں اور زمانے کے ناگزیر تقاضوں کے تحت فقہ وکلام کے سلسلہ میں ہمارے ہاں جلیل القدر علماء وائمہ نے جو گراں قدر خدمات انجام دی ہیں ان سے ذرہ برابر صرفِ نظر کو ہم جائز نہیں تصور کرتے، ہمارے نزدیک امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی فکری وآئینی کاوشیں، امام شافعی رحمہ اللہ کی اصول وفقہ وحدیث کے متعلق پیمانوں کی تعیین، امام مالک رحمہ اللہ کا اصحاب مدینہ کے تعامل کو دست بردزمانہ سے ہمیشہ ہمیش کے لیے محفوظ کر لینا اور امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کی جمع حدیث کی وسیع تر کوششیں ہماری تہذیبی انفرادیت کا زندہ ثبوت ہیں اور یہ ایسی چیزیں ہیں کہ جن پر ہم جس قدر بھی فخر وناز کریں کم ہے۔
ہم حق کو ان سب مدارس فکر میں جن کی ان بزرگوں نے بنیاد رکھی، دائر وسائر تو مانتے ہیں لیکن محصور ومنحصر کسی میں بھی نہیں جانتے، کیوں کہ ہمارے نقطۂ نگاہ سے صحت وصواب کی استواریاں غیر مشروط طور پر صرف کتاب اللہ وسنت رسول کے ساتھ خاص ہیں۔
(ترجمہ)’’ اے ایمان والو! اللہ کی اطاعت کرو اور اللہ کے رسول کی اطاعت کرو اور اصحاب علم وبصیرت وتقویٰ ذمہ داروں کی اطاعت کرو۔ تو اگر تم میں کسی چیز کی بابت اختلاف ہو جائے تو ایسی شکل میں اللہ (کی کتاب) اور رسول کی احادیث ہی کی طرف رجوع کرو، اگر تم اللہ پر اور آخرت پر ایمان رکھتے ہو، یہی تمہارے لیے بہتر اور عمدہ ہے انجام کے لحاظ سے۔‘‘(النساء:۵۹)
ہمارے عقیدے کی رو سے استدلال وتاویل کا یہی دو چیزیں نقطۂ آغاز ہیں اور یہی نقطۂ آخر۔ دوسرے لفظوں میں سورۂ نساء کی اس آیت کو ہم (Premble) یا قانون اساس سمجھتے ہیں۔ اس آیت ہی کے لب ولہجے میں علماء سے کہتے ہیں کہ ہر متنازع فیہ مسئلہ میں اول وآخر کتاب وسنت ہی کی طر ف رجوع کیجئے۔