• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تحریک اہل حدیث کادینی تصور: ایک مختصر نفسیاتی جائزہ

سرفراز فیضی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 22، 2011
پیغامات
1,091
ری ایکشن اسکور
3,807
پوائنٹ
376
تقلید کا اثر قلب وذہن پر: تقلید وعدم تقلید کا مسئلہ دراصل فنی وعلمی سے زیادہ نفسیاتی ہے. سوال یہ ہے کہ ٹھیٹھ اسلام کی رو سے ہماری اولین ارادت کا مرکز کون ہے، ہماری پہلی اور بنیادی وابستگی کس سے ہونی چاہیے؟ اور پیش آمدہ مسائل میں مشکلات کے حل وکشود کے سلسلہ میں اول اول کس طرف دیکھنا چاہیے؟ کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی چشم کشا اور ابدی تعلیمات کی طرف یا فقہی مدارس فکر کی وقتی اور محدود تعبیرات کی طرف؟ اس سے قطع نظر کہ تقلید سے فکر ونظر کی تازہ کاریاں مجروح ہوتی ہیں اور اس سے بھی قطع نظر کہ اس سے خود فقہ واستدلال کے قافلوں کی تیز رفتاری میں رکاوٹ پیدا ہوتی ہے اور تہذیب وفن کی وسعتیں زندگی، حرکت اور ارتقاء سے محروم ہوبجانے کے باعث حد درجہ سمٹاؤ اختیار کر لیتی ہے ل۔
اصل نقص اس میں یہ ہے کہ اس سے عقیدہ ومحبت کا مرکز ثقل یکسر بدل جاتا ہے، یعنی بجائے اس کے کہ ہماری ارادت وعقیدت کا محور، قبلہ اول وآخر کتاب اللہ وسنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رہے، ہماری عصبیتیں مخصوص فقہی مدارس سے وابستہ ہو کر رہ جاتی ہیں اور غیر شعوری طور پر قلب وذہن اس بات کا عادی ہو جاتا ہے کہ بحث وتمحیص کے مرحلے میں کتاب وسنت سے کسی نہ کسی طرح مسائل کی وہی نوعیت ثابت ہو جو ہمارے حلقہ اور دائرہ کے تقاضوں کے عین مطابق ہو، حالانکہ اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے ربط وتعلق کی کیفیتیں معروضیت (Objectivity) چاہتی ہیں اور اس بات کی متقاضی ہیں کہ ہر ہر مسئلہ اور امر میں نقطہ نظر کسی خاص مدرسۂ فکر کی تائید وحمایت کرنا نہ ہو بلکہ اس شے کی تصدیق مقصود ہو کہ اخذ وقبول کے لحاظ سے کون صورت کتاب اللہ اور سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ قریب تر ہے۔
یہ اور اس کے اوپر کا اقتباس مجھے لگ رہا ہے کہ مولانا حنیف ندوی کی تحریر ہے ۔ مولانا کے طرز بیان صاف جھلک رہا ہے ۔ اوپر کا اقتباس تو ایک جمعیت اہل حدیث پاکستان کی سائٹ پر مولانا حنیف ندوی کے ایک مضمون میں پڑھا بھی ہے میں نے ۔
 

عمر اثری

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 29، 2015
پیغامات
4,404
ری ایکشن اسکور
1,137
پوائنٹ
412
یہ اور اس کے اوپر کا اقتباس مجھے لگ رہا ہے کہ مولانا حنیف ندوی کی تحریر ہے ۔ مولانا کے طرز بیان صاف جھلک رہا ہے ۔ اوپر کا اقتباس تو ایک جمعیت اہل حدیث پاکستان کی سائٹ پر مولانا حنیف ندوی کے ایک مضمون میں پڑھا بھی ہے میں نے ۔
محترم شیخ!
یہ تو علامہ عبد الحمید رحمانی رحمہ اللہ کے مجموعہ مقالات سے ماخوذ ہے. اس سے زیادہ مجھے علم نہیں. آپ کو تو معلوم ہوگا کہ سیمینار ہوا تھا تو اس وقت مجموعہ مقالات منظر عام پر آئی تھی
 

سرفراز فیضی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 22، 2011
پیغامات
1,091
ری ایکشن اسکور
3,807
پوائنٹ
376
محترم شیخ!
یہ تو علامہ عبد الحمید رحمانی رحمہ اللہ کے مجموعہ مقالات سے ماخوذ ہے. اس سے زیادہ مجھے علم نہیں. آپ کو تو معلوم ہوگا کہ سیمینار ہوا تھا تو اس وقت مجموعہ مقالات منظر عام پر آئی تھی
کیا مجموعہ مقالات میں آپ نے خود دیکھی ہے یہ تحریر؟
اس وقت مجموعہ ہے نہیں میرے پاس
لیکن یہ بات پورے وثوق سے بول سکتا ہوں کہ یہ دونوں اقتباسات مولانا حنیف ندوی کی تحریر ہے ۔
 

عمر اثری

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 29، 2015
پیغامات
4,404
ری ایکشن اسکور
1,137
پوائنٹ
412
کیا مجموعہ مقالات میں آپ نے خود دیکھی ہے یہ تحریر؟
اس وقت مجموعہ ہے نہیں میرے پاس
لیکن یہ بات پورے وثوق سے بول سکتا ہوں کہ یہ دونوں اقتباسات مولانا حنیف ندوی کی تحریر ہے ۔
جی ہاں
 

عمر اثری

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 29، 2015
پیغامات
4,404
ری ایکشن اسکور
1,137
پوائنٹ
412
کیا مجموعہ مقالات میں آپ نے خود دیکھی ہے یہ تحریر؟
اس وقت مجموعہ ہے نہیں میرے پاس
لیکن یہ بات پورے وثوق سے بول سکتا ہوں کہ یہ دونوں اقتباسات مولانا حنیف ندوی کی تحریر ہے ۔
میں ان شاء اللہ تسلی کے لئے ایک بار اور دیکھ لوں گا.
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
یہ مضمون محدث میگزین لاہور میں بھی چند ماہ پہلے نشر کیا گیا تھا ، جس پر ایک صاحب علم دوست نے اسی بات کی طرف توجہ دلائی ہے ، جس کا ذکر فیضی صاحب نے کیا ہے ، انہوں نے مدیر محدث کے نام ایک خط لکھا ہے ، جو ذیل میں درج کیا جاتا ہے :
⁠⁠⁠محترم جناب ڈاکٹر حسن مدنی حفظکم اللہ
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
جنوری 2017 کا ماہنامہ محدث نظر سے گزرا. اس میں مولانا عبدالحمید رحمانی صاحب کے مقالات سے ماخوذ ایک مضمون بعنوان "تحریک اہلحدیث کا دینی تصور " شائع ہوا ہے.اس مضمون کے حوالے سے دو باتیں عرض کرنا چاہتا ہوں. ایک کا تعلق اس مضمون کی معروضیت سے ہے اور دوسری کا موضوعیت سے.
پہلی بات تو یہ ہے کہ اس مضمون کا انتساب مولانا عبدالحمید رحمانی کی طرف درست نہیں ہے.بات کی توضیح کے لیے محدث میں شائع شدہ اس منتخب مضمون کے تین حصے کیے جاسکتے ہیں.
ا:پہلا حصہ ابتداء سے اس سرخی تک ہے جس کا عنوان دیا گیا ہے "جذبۂ حب رسول کا تقاضا" یہ سارا حصہ مولانا حنیف ندوی کا لکھا ہوا ہے. ان کا یہ مضمون "الاعتصام" میں "اہلحدیث کا تصور دینی" کے عنوان سے چھپا تھا. اس مضمون کا کچھ حصہ مولانا اسحق بھٹی صاحب نے اپنی کتاب "برصغیر میں اہلحدیث کی آمد" میں درج کیا ہے جس کے لیے انہوں نے سرخی لگائی ہے "مولانا حنیف ندوی کی ایک تحریر" (دیکھیے "برصغیر میں اہلحدیث کی آمد"صفحہ نمبر 294)
ب :اس کے بعد دوسرا حصہ شروع ہوتا ہے جس کے لیے محدث میں سرخی لگائی گئی ہے "تحریک اہلحدیث کا تاریخی موقف اور اس کی خدمات" یہ حصہ صفحہ نمبر 60 کے اس جملے پر اختتام پذیر ہوتا ہے
"اللہ تعالی ہمیں اتفاق, خلوص, اور عمل صالح کی توفیق عطا فرمائے تاکہ ہم اسلام اور اہل اسلام کے لیے مفید تر ثابت ہوسکیں"
مضمون کا یہ دوسرا حصہ مکمل طور پر مولانا اسمعیل سلفی رحمہ اللہ کا لکھا ہوا ہے. یہ مضمون اسی عنوان کے ساتھ ان کے مجموعۂ مضامین موسوم بہ "تحریک آزادئ فکر اور شاہ ولی اللہ کی تجدیدی مساعی" کے صفحہ نمبر 157 پر دیکھا جاسکتا ہے.
ج: اس کے بعد اس مضمون کا تیسرا حصہ ہے جس کا عنوان ہے "مختلف مکاتب فکر کے علماء کے اقوال"اس حصے کے متعلق غالب گمان یہی ہے کہ یہ حصہ مولانا عبدالحمید رحمانی ہی کا لکھا ہوا ہوگا.
معلوم نہیں کہ مضامین کے انتساب میں یہ غلطی کہاں پر ہوئی کیونکہ مولانا عبدالحمید رحمانی کے متعلق تو اس بدگمانی کے لیے کوئی وجہ جواز نہیں کہ انہوں نے مولانا حنیف ندوی اور مولانا اسمعیل سلفی کے یہ مضامین جان بوجھ کر اپنی طرف منسوب کیے ہوں گے. ان کا مجموعۂ مقالات میرے پاس موجود نہیں ہے ورنہ اس ضمن میں یقین کے ساتھ کوئی بات کہی جاسکتی تھی.
دوسری بات جس کا تعلق مضمون کی موضوعیت کے ساتھ ہے, یہ ہے کہ اس میں شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رح کے مسلک کی توضیح کے لیے ان کے سوانح الجزء اللطیف سے ایک فارسی عبارت پیش کی گئی ہے جو یوں ہے
"وبعد ملاحظۂ کتب مذاہب اربعہ واصول فقہ ایشاں واحادیثے کہ متمسک ایشاں است قرارداد خاطر بمدو نورعینی روش فقہاء ومحدثین افتاد"
اس عبارت میں "فقہاء ومحدثین" کے الفاظ پڑھنے سے ذہن میں اشکال پیدا ہوا کہ اگر شاہ صاحب کے الفاظ یہی ہیں تو جس مقصد کے لیے اس عبارت کو یہاں پیش کیا گیا ہے,وہ مقصد اس سے حاصل نہیں ہورہا. کیونکہ دوسرے حلقے میں پہلے ہی یہ بات زبان زد عام وخاص ہے کہ حدیث اور فقہ دو متوازی راستے ہیں جن کا باہم اتصال واجتماع کبھی نہیں ہوتا یا ہوتا بھی ہے تو شاذ ونادر. اس صورت حال میں یہاں "فقہاء ومحدثین" کے الفاظ ان کے اس خیال کو تقویت دیتے ہیں کہ شاہ صاحب بھی فقہاء اور محدثین کے دائرۂ ہائے کار الگ الگ قرار دیتے ہیں اور دونوں کی روش کو یہاں پسند فرمارہے ہیں.
الجزء اللطیف تو میرے پاس ہے نہیں لیکن صحیح صورت حال جاننے کے لیے "مولانا سندھی اور ان کے افکار وخیالات پر ایک نظر" کی طرف رجوع کیا جہاں سے یہ عبارت نقل کی گئی تھی تو معلوم ہوا کہ سید سلیمان ندوی صاحب نے یہاں "فقہاء ومحدثین" کی بجائے "فقہاء محدثین" کے الفاظ نقل کیے ہیں. اور ان الفاظ سے جہاں یہ معاملہ سلجھ جاتا ہے کہ شاہ صاحب فقہاء حدیث کی روش کو پسند فرمارہے ہیں, وہیں یہ بھی پتا چل جاتا ہے کہ شاہ صاحب رح کےنزدیک محدثین رح "فقاہت" سے کورے نہیں ہوتے بلکہ اس سے بہرہ مند ہوتے ہیں.
اس مضمون سے متعلق ان دو باتوں کی وضاحت قارئین محدث کے لیے ضروری تھی جس کے لیے یہ چند سطریں آپ کی جانب لکھی گئی ہیں. دعا ہے کہ اللہ تعالی دین کے اس کام میں آپ کا حامی وناصر ہو اور آپ کی کاوشوں کو شرف قبولیت سے نوازے. آمین
طالب دعا
حافظ محمد سرور لیکچرر گورنمنٹ کالج بورے والا
 
Top