بھائی مجھے اس حدیث کی سند کی تحقیق چاہیے میں نے کہیں پڑھا تھا یہ روایت صحیح نہیں ہے اور ساتھ ہی اسکے معنی و مفہوم کی بھی تشریح کریں تو اور بھی زیادہ بہتر ہے
حدثنا محمد بن بشار حدثنا معاذ بن هانئ ابو هانئ اليشكري حدثنا جهضم بن عبد الله عن يحيى بن ابي كثير عن زيد بن سلام عن ابي سلام عن عبد الرحمن بن عايش الحضرمي انه حدثه عن مالك بن يخامر السكسكي عن معاذ بن جبل رضي الله عنه قال: احتبس عنا رسول الله صلى الله عليه وسلم ذات غداة عن صلاة الصبح حتى كدنا نتراءى عين الشمس فخرج سريعا فثوب بالصلاة فصلى رسول الله صلى الله عليه وسلم وتجوز في صلاته فلما سلم دعا بصوته فقال لنا: " على مصافكم كما انتم " ثم انفتل إلينا ثم قال: " اما إني ساحدثكم ما حبسني عنكم الغداة اني قمت من الليل فتوضات وصليت ما قدر لي فنعست في صلاتي حتى استثقلت فإذا انا بربي تبارك وتعالى في احسن صورة فقال: يا محمد قلت: " لبيك رب " قال: فيم يختصم الملا الاعلى؟ قلت: " لا ادري " قالها ثلاثا قال: " فرايته وضع كفه بين كتفي حتى وجدت برد انامله بين ثديي فتجلى لي كل شيء وعرفت " فقال: يا محمد قلت: " لبيك رب " قال: فيم يختصم الملا الاعلى؟ قلت: " في الكفارات " قال: ما هن؟ قلت: " مشي الاقدام إلى الجماعات والجلوس في المساجد بعد الصلوات وإسباغ الوضوء في المكروهات " قال: فيم؟ قلت: " إطعام الطعام ولين الكلام والصلاة بالليل والناس نيام " قال: سل قلت: " اللهم إني اسالك فعل الخيرات وترك المنكرات وحب المساكين وان تغفر لي وترحمني وإذا اردت فتنة قوم فتوفني غير مفتون اسالك حبك وحب من يحبك وحب عمل يقرب إلى حبك قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " إنها حق فادرسوها ثم تعلموها "
. قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح سالت محمد بن إسماعيل عن هذا الحديث فقال: هذا حديث حسن صحيح وقال: هذا اصح من حديث الوليد بن مسلم عن عبد الرحمن بن يزيد بن جابر قال: حدثنا خالد بن اللجلاج حدثني عبد الرحمن بن عائش الحضرمي قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم فذكر الحديث وهذا غير محفوظ هكذا ذكر الوليد في حديثه عن عبد الرحمن بن عايش قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم وروى بشر بن بكر عن عبد الرحمن بن يزيد بن جابر هذا الحديث بهذا الإسناد عن عبد الرحمن بن عائش عن النبي صلى الله عليه وسلم وهذا اصح وعبد الرحمن بن عائش لم يسمع من النبي صلى الله عليه وسلم.
(سنن الترمذی، حدیث نمبر: 3235 )
معاذ بن جبل رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ایک صبح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں نماز پڑھانے سے روکے رکھا، یہاں تک کہ قریب تھا کہ ہم سورج کی ٹکیہ کو دیکھ لیں، پھر آپ تیزی سے (حجرہ سے) باہر تشریف لائے، لوگوں کو نماز کھڑی کرنے کے لیے بلایا، آپ نے نماز پڑھائی، اور نماز مختصر کی، پھر جب آپ نے سلام پھیرا تو آواز دے کر لوگوں کو (اپنے قریب) بلایا، فرمایا: اپنی اپنی جگہ پر بیٹھ جاؤ، پھر آپ ہماری طرف متوجہ ہوئے، آپ نے فرمایا: ”میں آپ حضرات کو بتاؤں گا کہ فجر میں بروقت مجھے تم لوگوں کے پاس مسجد میں پہنچنے سے کس چیز نے روک لیا، میں رات میں اٹھا، وضو کیا، (تہجد کی) نماز پڑھی جتنی بھی میرے نام لکھی گئی تھی، پھر میں نماز میں اونگھنے لگا یہاں تک کہ مجھے گہری نیند آ گئی، اچانک کیا دیکھتا ہوں کہ میں اپنے بزرگ و برتر رب کے ساتھ ہوں وہ بہتر صورت و شکل میں ہے، اس نے کہا: اے محمد! میں نے کہا: میرے رب! میں حاضر ہوں، اس نے کہا: «ملا ٔ الأعلى» (فرشتوں کی اونچے مرتبے والی جماعت) کس بات پر جھگڑ رہی ہے؟ میں نے عرض کیا: رب کریم میں نہیں جانتا، اللہ تعالیٰ نے یہ بات تین بار پوچھی، آپ نے فرمایا: میں نے اللہ ذوالجلال کو دیکھا کہ اس نے اپنا ہاتھ میرے دونوں کندھوں کے درمیان رکھا یہاں تک کہ میں نے اس کی انگلیوں کی ٹھنڈک اپنے سینے کے اندر محسوس کی، ہر چیز میرے سامنے روشن ہو کر آ گئی، اور میں جان گیا (اور پہچان گیا) پھر اللہ عزوجل نے فرمایا: اے محمد! میں نے کہا: رب! میں حاضر ہوں، اس نے کہا: «ملا ٔ الأعلى» کے فرشتے کس بات پر جھگڑ رہے ہیں؟ میں نے کہا: «کفارات» کے بارے میں، اس نے پوچھا: وہ کیا ہیں؟ میں نے کہا: نماز باجماعت کے لیے پیروں سے چل کر جانا، نماز کے بعد مسجد میں بیٹھ کر (دوسری نماز کے انتظار میں) رہنا، ناگواری کے وقت بھی مکمل وضو کرنا، اس نے پوچھا: پھر کس چیز کے بارے میں (بحث کر رہے ہیں) ؟ میں نے کہا: (محتاجوں اور ضرورت مندوں کو) کھانا کھلانے کے بارے میں، نرم بات چیت میں، جب لوگ سو رہے ہوں اس وقت اٹھ کر نماز پڑھنے کے بارے میں، رب کریم نے فرمایا: مانگو (اور مانگتے وقت کہو) کہو: «اللهم إني أسألك فعل الخيرات وترك المنكرات وحب المساكين وأن تغفر لي وترحمني وإذا أردت فتنة قوم فتوفني غير مفتون أسألك حبك وحب من يحبك وحب عمل يقرب إلى حبك» ”اے اللہ! میں تجھ سے بھلے کاموں کے کرنے اور منکرات (ناپسندیدہ کاموں) سے بچنے کی توفیق طلب کرتا ہوں، اور مساکین سے محبت کرنا چاہتا ہوں، اور چاہتا ہوں کہ تجھے معاف کر دے اور مجھ پر رحم فرما، اور جب تو کسی قوم کو آزمائش میں ڈالنا چاہے، تو مجھے تو فتنہ میں ڈالنے سے پہلے موت دیدے، میں تجھ سے اور اس شخص سے جو تجھ سے محبت کرتا ہو، محبت کرنے کی توفیق طلب کرتا ہوں، اور تجھ سے ایسے کام کرنے کی توفیق چاہتا ہوں جو کام تیری محبت کے حصول کا سبب بنے“، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ حق ہے، اسے پڑھو یاد کرو اور دوسروں کو پڑھاؤ سکھاؤ“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- میں نے محمد بن اسماعیل بخاری سے اس حدیث کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا کہ یہ حدیث حسن صحیح ہے،
اور یہ بھی کہا کہ یہ حدیث ولید بن مسلم کی اس حدیث سے زیادہ صحیح ہے جسے وہ عبدالرحمٰن بن یزید بن جابر سے روایت کرتے ہیں، کہتے ہیں: ہم سے بیان کیا خالد بن لجلاج نے، وہ کہتے ہیں: مجھ سے بیان کیا عبدالرحمٰن بن عائش حضرمی نے، وہ کہتے ہیں: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آگے یہی حدیث بیان کی، اور یہ غیر محفوظ ہے، ولید نے اسی طرح اپنی حدیث میں جسے انہوں نے عبدالرحمٰن بن عائش سے روایت کیا ہے ذکر کیا ہے، وہ کہتے ہیں: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، جبکہ بشر بن بکر نے، روایت کیا عبدالرحمٰن بن یزید بن جابر سے، یہ حدیث اسی سند کے ساتھ، انہوں نے روایت کیا، عبدالرحمٰن بن عائش سے اور عبدالرحمٰن نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے (بلفظ «عن» اور یہ زیادہ صحیح ہے، کیونکہ عبدالرحمٰن بن عائش نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے نہیں سنا ہے۔
قال الشيخ الألباني: صحيح مختصر العلو (119 / 80) ، الظلال (388)
نیز اس حدیث کو امام احمد ؒ نے مسند میں ،اور امام ابن خزیمہ نے ’’ كتاب التوحيد ‘‘ میں روایت کیا ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس حدیث کو امام ترمذی ؒ اور امام بخاری ؒ اور علامہ الالبانی ؒ نے ’’ صحیح ‘‘ کہا ہے ،
اس لئے اس کے ضعیف ہونےکا تو سوال ہی نہیں ہوسکتا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس حدیث کو سمجھنے کیلئے دو نکات کو سامنے رکھیں :
(۱) یہ خواب کا واقعہ ہے کیونکہ اس حدیث کے شروع میں ہے :
اني قمت من الليل فتوضات وصليت ما قدر لي فنعست في صلاتي حتى استثقلت فإذا انا بربي تبارك وتعالى
میں رات میں اٹھا، وضو کیا، (تہجد کی) نماز پڑھی جتنی بھی میرے نام لکھی گئی تھی، پھر میں نماز میں اونگھنے لگا یہاں تک کہ مجھے گہری نیند آ گئی، اچانک کیا دیکھتا ہوں کہ میں اپنے بزرگ و برتر رب کے ساتھ ہوں ‘‘
شرح مشکاۃ میں علامہ الطیبی ؒ لکھتے ہیں :
(هذا الحديث مستند إلي رؤيا رأها رسول الله صلى الله عليه وسلم ‘‘یہ حدیث رسول اللہ ﷺ کے ایک خواب کابیان ہے ‘‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(۲) علامہ الطیبی ؒ مزید لکھتے :
’’ قوله: ((في أحسن صورة)) ((نه)): الصورة ترد في كلام العرب علي ظاهرها، وعلي معنى حقيقة الشيء وهيئاته، وعلي معنى صفتيه يقال: صورة الفعل كذا، وصورة الأمر كذا وكذا، أي صفته ‘‘
یعنی کلام عرب میں لفظ ’’ صورۃ ‘‘ کسی چیز کے ظاہر کیلئے استعمال ہوتا ہے ۔اسی طرح کسی کسی چیز کی حقیقت ،اور ہیٓت کیلئے بھی مستعمل ہے ،
اور اس چیز کی صفات کیلئے بولا جاتا ہے ،جیسے کہا جاتا ہے :فلاں معاملہ کی یہ صورت ہے ۔یعنی ’’ یہ صفت ہے ‘‘انتہی
مطلب یہ کہ لفظ صورت سے غلط فہمی نہیں ہونی چاہیئے ۔کیونکہ ایک تو یہ خواب کا بیان ہے ۔دوسرے یہ کہ ’’ صفت ‘‘ کے معنی میں ہے ۔یعنی میں نے اپنے رب کو
بہترین صفت میں دیکھا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔