• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تحقیق درکار ہے

شمولیت
دسمبر 06، 2017
پیغامات
6
ری ایکشن اسکور
0
پوائنٹ
28
اسلام وعلیکم مجھے اس حدیث کی سند کے بارے میں بتا دیجیے جزاکم اللہ خیرا


’’حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اﷲ عنہما سے مروی ہے کہ چند صحابہ کرام رضی اللہ عنہم حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے انتظار میں بیٹھے ہوئے تھے۔ اتنے میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لے آئے جب ان کے قریب پہنچے تو انہیں کچھ گفتگو کرتے ہوئے سنا۔ اُن میں سے بعض نے کہا : کیا خوب! اللہ تعالیٰ نے اپنی مخلوق میں سے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اپنا خلیل بنایا۔ دوسرے نے کہا : یہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے اللہ تعالیٰ سے ہم کلام ہونے سے زیادہ بڑی بات تو نہیں۔ ایک نے کہا : حضرت عیسیٰ علیہ السلام کلمۃ اﷲ اور روح اللہ ہیں۔ کسی نے کہا : اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کو چن لیا۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اُن کے پاس تشریف لائے سلام کیا اور فرمایا : میں نے تمہاری گفتگو اور تمہارا اظہارِ تعجب سنا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام خلیل اللہ ہیں۔ بیشک وہ ایسے ہی ہیں۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نجی اللہ ہیں۔ بیشک وہ اسی طرح ہیں، حضرت عیسیٰ علیہ السلام روح اللہ اور کلمۃ اللہ ہیں۔ واقعی وہ اسی طرح ہیں۔ حضرت آدم علیہ السلام کو اللہ تعالی نے چن لیا۔ وہ بھی یقینا ایسے ہی (شرف والے) ہیں۔ سن لو! میں اللہ تعالیٰ کا حبیب ہوں اور مجھے اس پر کوئی فخر نہیں۔ میں قیامت کے دن حمد کا جھنڈا اٹھانے والا ہوں اور مجھے اس پر کوئی فخر نہیں۔ قیامت کے دن سب سے پہلا شفاعت کرنے والا بھی میں ہی ہوں اور سب سے پہلے میری ہی شفاعت قبول کی جائے گی اور مجھے اس پر کوئی فخر نہیں۔ سب سے پہلے جنت کا کنڈا کھٹکھٹانے والا بھی میں ہی ہوں۔ اللہ تعالیٰ میرے لئے اسے کھولے گا اور مجھے اس میں داخل فرمائے گا۔ میرے ساتھ فقیر و غریب مومن ہوں گے اور مجھے اس بات پر کوئی فخر نہیں۔ میں اولین و آخرین میں اللہ تعالیٰ کے حضور سب سے زیادہ عزت والا ہوں لیکن مجھے اس بات پر کوئی فخر نہیں۔‘‘

اسے امام ترمذی اور دارمی نے روایت کیا ہے۔

17 : أخرجه الترمذي فی السنن، کتاب : المناقب عن رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم ، باب : فی فضل النبي صلی الله عليه وآله وسلم ، 5 / 587، الرقم : 3616، والدارمی فی السنن، باب : (8)، ما أُعْطِيَ النَّبِيَ صلی الله عليه وآله وسلم مِن الفضلِ، 1 / 39، 42، الرقم : 47، 54
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
اسلام وعلیکم
السلام علیکم
اس طرح صحیح لکھا کریں۔
مجھے اس حدیث کی سند کے بارے میں بتا دیجیے جزاکم اللہ خیرا
3616 - حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ نَصْرِ بْنِ عَلِيٍّ، قَالَ: حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللهِ بْنُ عَبْدِ الْمَجِيدِ، قَالَ: حَدَّثَنَا زَمْعَةُ بْنُ صَالِحٍ، عَنْ سَلَمَةَ بْنِ وَهْرَامَ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ ---
(سنن الترمذي ت بشار (6/ 15)
یہ حدیث زمعۃ اور سلمۃ بن وہرام کی وجہ سے ضعیف ہے۔
 
Top