مُدَلّس حدیث
تدلیس کی تعریف
مبشر نذیر
http://www.mubashirnazir.org/ER/Hadith/L0004-0408-Hadith.htm
مدلس، تدلیس کا اسم مفعول ہے۔ لغوی اعتبار سے تدلیس کا معنی ہوتا ہے کہ خریدار سے بیچی جانے والی چیز کے عیب چھپائے جائیں۔ تدلیس، دلس سے نکلا ہے۔ ڈکشنری میں اس کا معنی اندھیرا اندھیروں کا اختلاط ہوتا ہے۔ جب ایک تدلیس کرنے والا راوی حدیث کے عیوب کو جان بوجھ کر چھپاتا ہے تو اس حدیث کو "مدلس" (یعنی تدلیس شدہ حدیث) کہا جاتا ہے۔
تدلیس کی اقسام
تدلیس کی دو بڑی اقسام ہیں: اسناد میں تدلیس اور شیوخ میں تدلیس۔
تدلیس اسناد
حدیث کے ماہرین نے تدلیس اسناد کی مختلف تعریفیں کی ہیں۔ ہم ان میں سے صحیح اور دقیق ترین تعریف کو منتخب کرتے ہیں جو دو ائمہ ابو احمد بن عمرو البزار اور ابو الحسن بن القطان کی تعریف ہے۔ اس کے مطابق:
· تدلیس اسناد کی تعریف: "کوئی راوی کسی شیخ سے حدیث روایت کرتا ہو۔ اس نے اس شیخ سے کوئی حدیث نہیں سنی لیکن وہ اس حدیث کو بھی یہ بتائے بغیر روایت کر رہا ہو کہ اس نے اس حدیث کو اس شیخ سے نہیں سنا ہے۔" (شرح الفیہ عراقی ج 1 ص 180)
· تعریف کی وضاحت: تدلیس اسناد کی اس تعریف کا مطلب یہ ہے کہ ایک شخص نے حدیث بیان کرنے والے شیخ (مثلاً الف) سے چند احادیث سن رکھی ہیں۔ جس حدیث میں وہ تدلیس کرنے جا رہا ہے، اس حدیث کو اس نے اس شیخ (الف) سے نہیں سنا بلکہ کسی اور شیخ (ب) سے سنا ہے۔ وہ اصل شیخ (ب)، جس سے اس نے حدیث سنی ہے، کا ذکر نہیں کرتا بلکہ پہلے والے شیخ (الف) سے حدیث روایت کرنے لگتا ہے اور روایت کو ذو معنی الفاظ، جیسے "الف نے کہا" یا "الف سے روایت ہے"، میں بیان کر دیتا ہے۔ اس سے اس کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ سننے والا اس وہم میں مبتلا ہو جائے کہ اس نے حدیث پہلے شیخ (الف) سے سن رکھی ہے۔ وہ یہ وضاحت نہیں کرتا کہ واقعتہً اس نے یہ حدیث پہلے شیخ (الف) سے نہیں سنی ہے۔ وہ واضح الفاظ جیسے "میں نے الف سے سنا ہے" یا " الف سے مجھ سے یہ حدیث بیان کی" استعمال نہیں کرتا تاکہ اسے جھوٹا نہ سمجھا جائے۔ اس طریقے سے وہ ایک یا ایک سے زائد راویوں کو حذف کر دیتا ہے۔
· تدلیس اور ارسال خفی میں فرق: ابو الحسن بن القطان یہ تعریف بیان کرنے کے بعد لکھتے ہیں، "تدلیس اور ارسال خفی میں فرق یہ ہے کہ ارسال خفی میں راوی اس شیخ سے احادیث روایت کر رہا ہوتا ہے جس سے اس نے کبھی بھی کوئی حدیث روایت نہیں کی ہوتی۔ جبکہ تدلیس کرنے والے شخص نے اس شیخ سے دیگر احادیث بھی تدلیس کے بغیر روایت کی ہوتی ہیں۔ اس کے برعکس ارسال خفی کرنے والا شخص اس شیخ سے کوئی بھی حدیث روایت نہیں کرتا اگرچہ وہ اس شیخ کے زمانے میں موجود ہو اور اس سے ملا ہوا بھی ہو۔
· تدلیس اسناد کی مثال: حاکم نے اپنی سند سے علی بن خشرم تک روایت کی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ابن عینیہ نے زھری سے حدیث روایت کی۔ ان سے پوچھا گیا، "کیا آپ نے یہ حدیث خود زہری سے سنی ہے؟" وہ کہنے لگے، "نہیں، میں نے نہ تو یہ زہری سے سنی ہے اور نہ ہی کسی ایسے شخص سے جس نے زہری سے یہ حدیث سنی ہو۔ یہ حدیث عبدالرزاق نے معمر سے اور انہوں نے زہری سے سنی ہے۔" اس مثال میں ابن عینیہ نے اپنے اور زہری کے درمیان دو واسطے حذف کر دیے ہیں۔ (معرفۃ علوم الحدیث ص 130)
تدلیس تسویہ
یہ تدلیس کی ایسی قسم ہے جو تدلیس اسناد کی اقسام میں سے ایک ہے۔
· تدلیس تسویہ کی تعریف: ایک شخص اپنے شیخ سے حدیث روایت کرے۔ اس سند میں دو ایسے راوی پائے جاتے ہوں جو ثقہ (قابل اعتماد) ہوں اور ان کی آپس میں ملاقات بھی ہوئی ہو۔ ان دونوں کے درمیان ایک ضعیف (کمزور) شخص بھی ہو۔ اب صورتحال یہ بنے گی کہ راوی (1)—ثقہ شیخ (2)—ثقہ راوی (3)—ضعیف راوی (4)—ثقہ راوی (5)۔ دونوں ثقہ افراد 3 اور 5 کی ایک دوسرے سے ملاقات ہوئی ہو گی۔ اب تدلیس کرنے والا شخص 1 اس حدیث کو اس طرح سے روایت کرے گا کہ وہ ضعیف راوی 4 کو حذف کرتے ہوئے 3 کی روایت براہ راست 5 سے کر دے گا۔ اس طریقے سے وہ اپنی سند میں تمام ثقہ افراد کو شامل کر دے گا۔ یہ تدلیس کی بدترین شکل ہے۔ تدلیس کرنے والے کا شیخ، خود تدلیس کرنے کے لئے مشہور نہیں ہو گا۔ تدلیس کرنے والا شخص اس طریقے سے حدیث کو روایت کرے گا کہ سننے والا اس حدیث کو صحیح سمجھ بیٹھے گا۔ اس میں بہت بڑا دھوکہ پایا جاتا ہے۔
· تدلیس تسویۃ کرنے والے مشہور ترین لوگ: ان میں بقیۃ بن ولید اور ولید بن مسلم شامل ہیں۔ بقیۃ کے بارے میں ابو مسعر کہتے ہیں، "احادیث بقیۃ لیست نقیۃ فکن منہا علی تقیۃ"۔ یعنی "بقیۃ کی احادیث صاف نہیں ہوتیں، ان میں تقیہ کے اصول پر بات کو چھپایا گیا ہوتا ہے۔ (ميزان الاعتدال جـ1 ـ ص 332)
· تدلیس تسویۃ کی مثال: ابن ابی حاتم اپنی علل میں روایت کرتے ہیں۔ میں نے اپنے والد کو اس حدیث کا ذکر کرتے ہوئے سنا: اسحق بن راہویہ، بقیۃ سے، وہ ابو وہب الاسدی سے، وہ نافع سے، اور وہ ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے فرمایا، " کسی شخص کے اسلام کی اس وقت تک تعریف نہ کرو جب تک کہ تم اس کی رائے کی پختگی کو نہ پہچان لو۔" ان کے والد کہتے ہیں کہ اس حدیث میں ایسی بات بیان کی گئی ہے جو کہ شاید ہی کسی کی سمجھ میں آئے۔ اس کی سند کچھ اس طرح ہے عبیداللہ بن عمرو (ثقہ) —اسحاق بن ابی فروۃ (ضعیف) —نافع (ثقہ)—ابن عمر۔ عبیداللہ بن عمرو کی کنیت ابو وہب تھی اور وہ بنو اسد (قبیلے کا نام) سے تعلق رکھتے تھے۔ اس حدیث میں بقیۃ (بن ولید) نے اسحاق بن ابی فروۃ، جو کہ ایک ضعیف راوی ہے، کو حذف کر دیا اور عبیداللہ بن عمرو کا ذکر نام کی بجائے کنیت اور قبیلے سے کر دیا تاکہ کوئی یہ پہچان نہ سکے کہ اس نے ایک ضعیف راوی کا نام غائب کیا ہے۔ (شرح الألفية للعراقي جـ1 ـ ص 190 والتدريب جـ1 ـ ص 225)
تدلیس شیوخ
شیوخ میں تدلیس کی تعریف یہ ہے کہ کوئی شخص اپنے شیخ، جس سے وہ حدیث روایت کر رہا ہے، کا نام، کنیت، نسب وغیرہ غیر معروف طریقے سے بیان کرے تاکہ وہ پہچانا نہ جائے۔ (علوم الحديث ص 66)
تدلیس شیوخ کی مثال یہ ہے کہ ابوبکر بن مجاہد جو کہ قرأت کے ائمہ میں سے ہیں، کہتے ہیں "عبداللہ بن ابی عبداللہ نے ہم سے یہ حدیث بیان کی" اس سے ان کی مراد ابو بکر بن ابو داؤد سجستانی ہیں۔
تدلیس کا حکم
· تدلیس اسناد ایک مکروہ عمل ہے۔ اکثر اہل علم نے اس کی مذمت کی ہے۔ شعبہ اس کی مذمت کرنے میں سب سے آگے ہیں۔ انہوں نے اس سے متعلق سخت آراء پیش کی ہیں جن میں سے ایک یہ ہے کہ "تدلیس تو جھوٹ کا بھائی ہے۔"
· تدلیس تسویۃ مکروہ ترین عمل ہے۔ عراقی کہتے ہیں، "جس نے جان بوجھ کر تدلیس تسویۃ کا ارتکاب کیا، وہ نہایت ہی ناقابل اعتماد شخص ہے۔"
· تدلیس شیوخ کی برائی تدلیس اسناد سے کم ہے کیونکہ تدلیس کرنے والے نے کسی راوی کو غائب نہیں کیا ہے (بلکہ اس کا غیر معروف نام بیان کیا ہے۔) اس کی کراہت اس وجہ سے ہے کہ اس نے ایک روایت کو ضائع کر دیا ہے اور حدیث کے سماع (یعنی سننے سنانے) معروف طریقے کے خلاف عمل کیا ہے۔ تدلیس شیوخ کے مختلف مقاصد کے مطابق اس کی کراہت کے درجے میں فرق ہوتا ہے۔
تدلیس شیوخ کے مقاصد
تدلیس شیوخ کے چار اسباب ہیں:
· شیخ ضعیف ہو یا غیر ثقہ (ناقابل اعتماد) ہو۔ (یہ بات چھپانے کے لئے اس کے مشہور نام کی بجائے غیر معروف نام یا کنیت بیان کی جائے۔)
· اس کی تاریخ وفات بعد کی ہو جس کے باعث ایک بڑا گروہ تدلیس کرنے والے کے ساتھ روایت میں شریک ہو جائے۔ (بڑے گروہ کے شریک ہو جانے سے تدلیس کرنے والے راوی کی انفرادیت اور انا مجروح ہو سکتی ہے۔ اس کی مثال یہ ہے کہ کوئی راوی، شیخ 'الف' کے غیر معروف نام سے روایت کر رہا ہو اور یہ تاثر دے رہا ہو کہ الف سے اس حدیث کو صرف اسی نے سنا ہے۔ اگر وہ شیخ 'الف' کا اصل نام بتا دے تو بہت سے لوگ یہ کہہ دیں گے کہ تمہاری کیا خصوصیت ہے؟ ہم نے بھی اس حدیث کو انہی شیخ سے سنا ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ مفاد پرستانہ رویہ ہے جس کی دین میں کوئی گنجائش نہیں ہے۔)
· وہ راوی سے عمر میں چھوٹا ہو۔ (راوی محض اپنی انا پرستی کے باعث اس کا درست نام ذکر نہ کرے کہ اس کا شیخ اس سے چھوٹا ہے اور لوگ کہیں گے کہ یہ اپنے سے چھوٹے سے حدیث روایت کرتا ہے۔)
· شیخ سے کثیر تعداد میں روایات پائی جاتی ہوں۔ راوی کثیر تعداد میں اس شیخ کی روایات بیان نہ کرنا چاہتا ہو اس لئے وہ مختلف روایتیں اس کے مختلف ناموں سے بیان کر دے۔ (اس کا مقصد بھی انفرادیت پسندی ہے۔)
تدلیس اسناد کے پانچ اسباب ہیں:
· سند کو بلند کرنا۔ (یعنی ایک شخص سے روایت کرنے کی بجائے اس کے اوپر والے سے روایت کرنا تاکہ سند مختصر ہو اور اسے زیادہ قابل اعتماد سمجھا جائے۔)
· جس شیخ سے کثیر تعداد میں احادیث سنی ہوں، ان احادیث (کی اسناد میں سے) کوئی نام ضائع ہو جائے۔ (یہ اتفاقی امر ہے جس کے لئے تدلیس کرنے والے کو مورد الزام نہیں ٹھہرایا جا سکتا۔)
· تدلیس شیوخ کی پہلی تین وجوہات کا اطلاق تدلیس اسناد پر بھی ہوتا ہے۔
نوٹ: حدیث کے راویوں میں یہ نفسیات ایک خاص دور میں پیدا ہوئی۔ محدثین کو ان کی غیر معمولی کاوشوں کے نتیجے میں معاشرے میں غیر معمولی اسٹیٹس حاصل ہو گیا۔ لوگ انہیں دین کی اس خدمت کے لئے وسائل فراہم کرنے لگ گئے۔ حکومت ان کی پشت پناہی کرنے لگ گئی۔ عوام الناس جوق در جوق ان کی محفلوں میں شریک ہونے لگے اور ان کی جوتیاں سیدھی کرنے لگے۔ جو محدثین خوف خدا رکھتے تھے، وہ تو تدلیس جیسی الٹی سیدھی حرکتوں سے بعض رہے مگر اس شاندار اسٹیٹس کو حاصل کرنے کی دوڑ میں بہت سے کم ظرف لوگ بھی شریک ہو گئے اور انہوں نے اپنی کم ظرفی کا مظاہرہ ان طریقوں سے شروع کر دیا جو اوپر بیان کئے گئے ہیں۔ جرح و تعدیل کے ماہرین نے بے پناہ تحقیق کرنے کے بعد ایسی کم ظرفیوں کا پردہ جس طرح چاک کیا ہے، وہ قابل تحسین ہے۔
تدلیس کرنے والے کی مذمت کے اسباب
تدلیس کرنے والے کی مذمت تین وجوھات کی بنیاد پر کی جاتی ہے:
· یہ واضح نہیں ہوتا کہ وہ جس شخص سے روایت کر رہا ہے، اس نے واقعتاً حدیث اسی سے سنی ہے یا نہیں۔
· ایک مشکوک بات کے ظاہر ہونے سے اس شخص کا کردار مجروح ہوتا ہے۔
· اس شخص کا عمل درست نہیں کہ اگر وہ تدلیس نہ کرتا اور حذف شدہ شخص کا ذکر کر دیتا تو اس کے نتیجے میں حدیث کو قبول نہ کیا جاتا۔ (راجع الكفاية ص 358)
تدلیس کرنے والے کی دیگر روایات کا حکم
تدلیس کرنے والے شخص کی دیگر روایات کو قبول کرنے کے بارے میں اہل علم کا اختلاف ہے۔ اس میں دو مشہور ترین نقطہ ہائے نظر یہ ہیں:
· تدلیس کرنے والے کی ہر روایت کو مسترد کر دیا جائے گا اگرچہ اس نے اپنے شیخ سے حدیث کو خود سنا ہو کیونکہ تدلیس بذات خود ایسا فعل ہے جو راوی کے کردار کو مجروح کرتا ہے۔ (اس نقطہ نظر پر زیادہ اعتماد نہیں کیا گیا۔)
· دوسرا نقطہ نظر یہ ہے (اور اسے قبول کیا گیا ہے کہ) اگر تدلیس کرنے والا واضح الفاظ میں کوئی اور حدیث بیان کرتا ہے کہ "میں نے یہ حدیث فلاں سے سنی ہے" تو اس کی حدیث قبول کی جائے گی۔ اگر وہ شخص ذو معنی الفاظ میں حدیث بیان کرتا ہے جیسے "فلاں سے روایت ہے" تو اس کی حدیث کو قبول نہیں کیا جائے گا۔ (علوم الحديث ص 67 – 68)
نوٹ: ان میں سے پہلا نقطہ نظر زیادہ درست معلوم ہوتا ہے کیونکہ تدلیس کر کے ایک شخص اپنا امیج خود تباہ کر لیتا ہے۔
تدلیس کا علم کیسے ہوتا ہے؟
تدلیس کا علم دو طریقے سے ہوتا ہے:
· ایک تو یہ کہ تدلیس کرنے والا پوچھنے پر خود کوئی بات بتا دے۔ جیسا کہ اوپر درج مثال میں ابن عینیہ نے خود یہ بات بتا دی۔
· فنون حدیث کا ماہر امام اپنی تحقیق کے نتیجے میں تدلیس سے آگاہ ہو جائے اور وہ اس کی تفصیلات بیان کر دے۔
نوٹ: ابن عینیہ ایک جلیل القدر محدث اور فقیہ ہیں۔ غالباً انہوں نے ایسا بے خیالی میں کر دیا ہو گا اور پھر توجہ دلانے پر فوراً درست سند کی وضاحت کر دی۔
تدلیس اور مدلسین کے بارے میں مشہور تصانیف
تدلیس اور تدلیس کرنے والے مدلسین کے بارے میں کثیر تصانیف موجود ہیں۔ ان میں سے مشہور ترین یہ ہیں:
· خطیب بغدادی کی تین کتب۔ ان میں سے پہلی کا نام "التبیین لاسماء المدلسین" ہے۔ یہ مدلسین کے ناموں پر مشتمل ہے۔دوسری دو کتب میں ان افراد کا ذکر ہے جو تدلیس کی مختلف اقسام میں سے کسی خاص قسم میں ملوث تھے۔ (الكفاية ص 361)
· برھان الدین ابن الحلبی کی "التبیین لاسماء المدلسین"۔
· حافظ ابن حجر کی "تعریف اھل التقدیس بمراتب الموصوفین بالتدلیس"۔
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
دوسرا مضمون
حدیث میں تدلیس کا مفہوم و اسباب
مدلس ایسی حدیث ہوتی ہے ، جس میں راوی حدیث کے عیب کو چھپا کر اس کے حسن کو نمایاں کرتا ہے ، مثلا کسی سے حدیث نہ سنی ہو مگر یوں ظاہر کرے کہ اس سے حدیث سنی ہے ۔ یا اگر کسی ضعیف راوی سے حدیث سنی ہو مگر یوں ظاہر کرے کہ اس سے نہیں سنی بلکہ قوی راوی سے سنی ہے ۔ یوں راوی حدیث کی اصلیت کے بارے میں قاری کو اندھیرے میں رکھنے کی کوشش کرتا ہے ۔
تدلیس کا مفہوم :
مدلس دلس سے مشتق ہے ۔ مدلس کے معنی اندھیرا یا اندھیرے کی آویزش ہیں ۔ 1 ۔ ابن منظور ، محمد بن مکرم ، ل ن العرب ، ( بیروت ، دارمادر ، س ن ) ج 6 ص86 ، زبیدی ، محمد بن محمد ، تاج العروس (
www.alwarrag.com ) ج 1 ، 3942 ص ) یعنی دلس مطلق اندھیرے کو بھی کہتے ہیں ۔ اور روشنی و اندھیرے کے اختلاط کو بھی ۔ دلس فلان علی فلان کے معنی ہوتے ہیں فلاں شخص نے اپنے سامان کا عیب چھپایا گویا خریدار کو اندھیرے میں رکھا ۔ ( علوی ، ڈاکٹر خالد ، اصول الحدیث ، لاہور ، الفیصل ، 1998ء : ج 1 ص416 )
حافظ ابن حجر نے بھی اسے اندھیرے کی آمیزش ( ھواختلاط الظلام ) قرار دیا ہے ۔ ( عسقلانی ، ابن حجر ، نزھتہ النظر فی توضیح نخبتہ الفکر فی مصطلح اہل الاثر ، لاہور : ادارہ اسلامیات ، 1409ھ : ص 156 )
مدلس اسی دلس سے تفضیل کا اسم مفعول ہے ۔ زیادتی حروف زیادتی معنی کے تحت کہہ سکتے ہیں کہ اس میں مبالغہ کا مفہوم ہے ۔ یعنی خوب چھپانا ، چھپانے کی سعی کرنا ، اخفاءو اختلاط کرنا یا صحیح اور غلط کو یوں گڈ مڈ کر دینا کہ بآسانی نہ پہچانا جا سکے کہ صحیح کیا ہے اور غلط کیا ۔
اصطلاحا مدلس حدیث وہ ہوتی ہے جس میں راوی حدیث میں پائے جانے والے عیوب کو مخفی رکھتا ہے تاکہ اس کی اصلیت معلوم نہ ہو سکے اور معیار صحت بلند رہے ۔ اہل فن نے اس کی مختلف تعریفیں کی ہیں ۔ فخر الدین رازی کے مطابق اذا روی الراوی الحدیث عن رجل یعرف باسمٍ فلم یذکرہ بذ لک الاسم وذکرہ باسم لا یعرف بہ ( رازی ، فخرالدین ، المحصول فی علم اصول الفقہ ( مکتہ : مکتبہ نزار مصطفی الباز ، 1997 ) ج 3 ص 1061 ء ) مدلس سے مراد وہ حدیث ہے جس میں راوی کسی شخص کے ایسے نام سے روایت بیان کرے جس نام سے وہ معروف نہ ہو اور وہ نام نہ بتائے جس سے وہ معروف ہو ۔
دوسرے اہل فن نے یہ تعریف تدلس شیوخ ( تدلیس کی ایک قسم ) کے ذیل میں ذکر کی ہے ۔ ابن حجر عسقلانی کہتے ہیں کہ سم بذلک لکون الراوی لم یسم من حدثہ واوھم سماعة للحدیث ممن لم یحدثہ بہ ( عسقلانی ابن حجر ، نزھۃ النظر ص 56 ) حدیث مدلس کو اس لئے مدلس کہتے ہیں کہ اس میں راوی سے جس نے حدیث بیان کی ہوتی ہے راوی اس کا ذکر نہیں کرتا اور جس سے حدیث نہیں سنی ہوتی اس سے سماعت کا وہم پیدا کر دیتا ہے ۔
تدلیس کی اقسام :
تدلیس کی متعدد اقسام ہیں ۔ بہت سے اہل فن نے حدیث مدلس کی بحوالہ تقسیم تعریفات بیان کی ہیں ۔ عموما تدلیس کی معروف اقسام میں تدلیس اسناد ، تسویہ اور شیوخ بتائیں گئی ہیں ۔ خالد علوی نے تدلیس اسناد و شیوخ کو بنیادی قرار دے کر پھر تدلیس اسناد کی مزید چار اقسام اسقاط ، تسویہ ، قطع اور عطف بیان کی ہیں ۔ صبحی صالح نے تدلیس قطع کو سکوت کا نام دیا ہے ۔
نورالدین تدلیس اسقاط کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہے کہ ھوان یروی الراوی الحدیث عمن لقیہ ، وسمعہ منہ مالم یسمعہ منہ موھنا انہ سمعہ منہ او عمن لقیہ و من لم یسمع منہ موھما انہ لقیہ و سمع منہ ۔ ( علوی ، ڈاکٹر خالد ، اصول الحدیث ، ج1 ص418 )
مدلس اسقاط سے مراد ایسی حدیث ہے جس میں راوی ایسے شخص سے حدیث بیان کرتا ہے جس سے اس کی ملاقات اور سماع ثابت نہیں ہوتا ہے لیکن جو حدیث بیان کرتا ہے وہ اس سے سنی نہیں ہوتی ۔ یا پھر دوسری صورت یہ ہے کہ ملاقات تو ثابت ہوتی ہے ، سماع ثابت نہیں ہوتا ۔ مگر راوی یہ وہم پیدا کرنے کی کوشش کرتا ہے کہ ملاقات بھی ہوئی اور حدیث بھی سنی ۔
تدلیس تسویہ میں راوی راویتِ حدیث میں سے کسی راوی کو ساقط کر دیتا ہے ، جس کے اوپر نیچے دو ثقہ راوی ہوتے ہیں ۔ یوں دوثقہ راویوں کا اتصال ظاہر کر کے دھوکہ دیتا ہے ۔ محمود الطحان کے مطابق اس سے مراد یہ ہے کہ راوی اپنے شیخ سے روایت کرے اور پھر دوثقہ راویوں کے درمیان واسطہ بننے والے ضعیف راوی کو درمیان سے ساقط کر دے ۔ جبکہ ان دو ثقہ راویوں کی آپس میں ملاقات ثابت ہو ۔ ( الطحان ، ڈاکٹر محمود ، تیسر مصطلح الحدیث مترجم محمد سعد صدیقی ( لاہور : شعبہ تحقیق ، قائد اعظم لائبریری1989 ص85 )
اس کی صورت یوں ہوتی ہے کہ راوی اپنے ثقہ شیخ سے روایت کرتا ہے مگر وہ شیخ ضعیف سے روایت کرتا ہے ۔ اور وہ ضعیف راوی اپنے ثقہ شیخ سے روایت کرتا ہے ۔ اب راوی درمیان سے ضعیف راوی کو نکال دیتا ہے ۔ یوں دھوکہ سے حدیث صحیح ثابت کرنے کی کوشش کرتا ہے ۔ یہ تدلیس کی قبیح ترین صورت ہے ۔
تدلیس عطف میںر اوی دو شیخوں سے سماعت کا ذکرکرتا ہے حالانکہ اس نے حدیث ایک سے سنی ہوتی ہے ۔ مثلا راوی کہے کہ میں نے حدیث فلاں اور فلاں سے سنی ۔ دوسرے کو عطف کے ذریعے ملا دیا تو یہ تدلیس عطف ہوئی ۔ ڈاکٹر صاحب لکھتے ہیں : ھوان یصرح بالتحدیث من شیخ لہ و یعطف علیہ شیخا اٰخر لم یسمع منہ ذلک المروی ( علوی ڈاکٹر خالد ، اصول الحدیث ، ج1 ص 425 ) مدلس عطف سے مراد ایسی حدیث ہے جس میں راوی پہلے شیخ کا صراحت کے ساتھ ذکر کرے کہ اس سے حدیث سنی ہے مگر ساتھ ہی دوسرے کو بھی بذریعہ عطف ملا دے حالانکہ اس سے سماعت نہ کی ہو ۔
تدلیس قطع میں بھی راوی سماعت کا غلط تاثر دینے کی کوشش کرتا ہے ۔ صبحی صالح نے تدلیس قطع کو تدلیس سکوت کہا ہے ۔ وہ لکھتے ہیںکہ تدلیس سکوت کا مطلب یہ ہے کہ راوی کہے سمعت یا حدثنا یا حدثنی ، پھر اس کے بعد تھوڑی دیر خاموش رہے اور پھر کہے اعمش ۔ اس سے سننے والا یہ تاثر لے گا کہ اس نے اعمش سے حدیث کی سماعت کی ۔ حالانکہ ایسا نہیں ہوتا ۔ ( صبحی صالح ، ڈاکر ، علوم الحدیث مترجم غلام احمد حریری ، فیصل آباد ملک سنز : 223 )
تدلیس شیوخ میں راوی اپنے شیخ کو چھپانے کی کوشش کرتا ہے ابن الصلاح نے اس کی تعریف کرتے ہوئے لکھا ہے ۔ ” کوئی راوی اپنے شیخ سے کوئی روایت نقل کرے جو اس نے اس سے سنی تو ہو لیکن شیخ کا نام لینے کے بجائے اس کی غیر معروف کنیت ، نسبت یا کوئی اور وصف نقل کرے تاکہ وہ پہچانا نہ جائے ۔
ابن الصلاح کا یہ بھی کہنا ہے کہ ایک جماعت نے تدلیس کی اس قسم کی اجازت دی ہے ۔ ( الطحان ، تیسیر مصطلح الحدیث ، ص88 ) تاہم اس کے علاوہ تدلیس کی جملہ اقسام کی مذمت کی گئی ہے ۔
تدلیس کا حکم و اسباب :
عام طور پر تدلیس کی مذمت کی گئی ہے ۔ بعض نے نہایت شدت کے ساتھ اس کی مذمت کی ہے ۔ امام شعبہ نے تدلیس کو جھوٹ کا بھائی قرار دیا ہے ( علوی ڈاکٹر خالد اصول الحدیث ، ج 1 ص 453 ) بلکہ امام نووی کا کہنا ہے کہ شعبہ کے ظاہر کلام سے اس کے حرام ہونے کا مفہوم نکلتا ہے ۔ ( الطحان ڈاکٹر محمود تیسیر مصطلح الحدیث ص88 )
خالد علوی نے ایسے بیانات کا ذکر کرنے کے بعد لکھا ہے کہ گویا جمہور کا مسلک یہ ہے کہ تدلیس کرنے والے کی خبر مطلقا قبول بھی نہیں اور مطلقا ناقابل استناد بھی ہے ۔ بلکہ اس کی قبولیت مشروط ہے ۔ ( النووی ، شرف الدین التعریف بالامام المسلم والامام النووی ، صحیح مسلم بشرح النووی ، بیروت : داراحیاءالتراث العربی ، س ن : ص 33 )
مجموعی طور پر حدیث مدلس خاص طور سے مدلس تسویہ صحیح حدیث کے شمار میں نہیں اور ایسی تدلیس کرنے والوں کو نہایت مطعون کیا گیا ہے ۔ تدلیس کے ذریعے راوی اپنی روایت کو قابل اعتماد ثابت کرنا چاہتا ہے ۔ چنانچہ بنیادی سبب جو تدلیس میں کارفرما ہوتا ہے وہ کم معتبر کو زیادہ معتبر ثابت کرتا ہے ۔ اور یہ کئی وجوہ سے ہوتا ہے۔
بعض علماءفن حدیث کے نزدیک قبولیت روایت کے لئے راوی میں سوجھ بوجھ کا ہونا بھی ضروری ہے ۔ کمسن راوی کی روایت قبول نہیں ہے ۔ ( علوی ڈاکٹر خالد اصول الحدیث ص 425 ) چنانچہ تدلیس کرنے والا ایسی روایت کی قبولیت کے لئے کم سن مروی عنہ ( جس سے اس نے روایت سنی ہوتی ہے ) کو ساقط کر دیتا ہے ۔
تدلیس کے اسباب میں شیخ کا غیر ثقہ ہونا بھی ہے ۔ راوی کو چونکہ اندیشہ ہوتا ہے کہ اس کی روایت معتبر نہ سمجھی جائے گی اس لئے وہ اپنے شیخ کا واضح تذکرہ نہیں کرتا بلکہ اس کی ایسی صفات بیان کرتا ہے کہ اس ( شیخ ) کی اصلیت پوشیدہ رہے ۔ اور اس کی روایت قبولیت کا درجہ پا سکے ۔ ایک طرف وہ واضح طور پر شیخ کو اپنی روایت سے غائب بھی نہیں کرتا کہ کذب بیانی سے محتف ہونے کا اندیشہ ہے اور دوسری طرف راوی بالا کی اصلیت بھی ظاہر نہیں کرتا کہ مبادہ روایت کا اعتبار جاتا رہے ۔
کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ تدلیس کرنے والا راوی بکثرت اپنے شیخ سے استفادہ کرتا رہتا ہے مگر اس کے باوجود اس سے بعض روایات فوت ہو جاتی ہیں ( یعنی وہ روایات راوی اپنے شیخ سے حاصل نہیں کر پاتا ) اب وہ اپنی اس محرومی کا ازالہ یوں کرتا ہے کہ جن احادیث کا سماع شیخ سے ثابت نہیں ہوتا ان کے بھی سماع کا وہم پیدا کر دیتا ہے ۔ یعنی ایسی احادیث اس انداز میں بیان کرتا ہے کہ معلوم ہو شیخ سے سنی ہیں مگر اصلاً سنی نہیں ہوتیں ۔ ( رازی ، فخر الدین ، المحصول ، ص1061 )
ابن الصلاح نے کہا ہے کہ بعض اوقات تدلیس کی ایک وجہ یہ بھی ہوتی ہے کہ راوی مروی عنہ سے بکثرت روایات کرتا رہتا ہے ۔ چنانچہ کبھی اسے یہ بات ناپسند ہونے لگتی ہے کہ اس مروی عنہ کا بکثرت ذکر اس کی روایات میں ہوتا چلا جائے ۔ اس لئے وہ اپنی اس ناپسندیدگی کا اظہار یوں کرتا ہے کہ اس مروی عنہ کی صفات میں تغیر پیدا کر دیتا ہے ۔ یوں اصل صورتِ واقعہ پوشیدہ ہو جاتی ہے ۔ کہا جاتا ہے کہ ایک جماعت نے اس کی اجازت بھی دی ہے ۔ ( الطحان ڈاکٹر محمود تیسیر مصطلح الحدیث ص89 )
کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ کسی شیخ سے دیگر راوی تو بکثرت استفادہ کرتے رہتے ہیں مگر یہ تدلیس کرنے والا راوی باوجود اس کے کہ اس شیخ کا معاصر ہوتا ہے اس سے استفادہ نہیں کر پاتا ، استفادہ نہ کر سکنے کی وجہ کوئی بھی ہو ، بہر حال اس میں راوی کی محرومی کا تاثر پایا جاتا ہے ، وہ اس تاثر کو زائل کرنے کے لئے غلط طور پر اس شیخ سے سماعت کا وہم پیدا کرتا ہے ۔ ( علوی ، ڈاکٹر خالد ، اصول الحدیث ج1 ص456 )
چنانچہ اپنی محرومی چھپانے کے لئے وہ اس انداز میں حدیث بیان کرتا ہے کہ معلوم ہو اس سے سنی ہے حالانکہ سماعت نہیں کی ہوتی ۔ علماءفن حدیث کے نزدیک اگر سماعت کا وہم پیدا کرے تو قبولیت یا عدم قبولیت روایت کے بارے میں تفصیل ہے ۔ اور اس بارے میں اختلاف بھی ہے ، مگر اس پر کوئی اختلاف نہیں کہ اگر باوجود عدم سماعت کے واضح سماعت ظاہر کرے تو یہ جھوٹ ہے ۔
تحرير المقالة:جناب پروفیسر نعیم احمدخاں حدیث (اقسام)
اسم المقالة :حدیث میں تدلیس کا مفہوم و اسباب
بشکریہ اہلحدیث ڈاٹ کام