• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تدوین قرآن اور حضرت ابو بکر صدیق

شمولیت
اکتوبر 18، 2012
پیغامات
368
ری ایکشن اسکور
1,006
پوائنٹ
97
پورا قرآن عہد رسالت میں لکھا جاچکا تھا مگر اس کی آیتیں اور سورتیں یکجا نہ تھی اولین شخص جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ترتیب کے مطابق اس کو مختلف صحیفوں میں جمع کیا وہ حضرت ابوبکررضی اللہ تعالٰی عنہتھے۔

ابو عبداللہ محاسبی( حارث بن اسدمحاسبی کی کنیتابو عبداللہ تھی ۔آپ اکابر صوفیہ میں تھے آپ فقہ واصول کے بہت بڑے عالم تھے اپنے عصر وعہد میں یہ اہل بغداد کے مشہور استادتھے آپ نے بغداد میں ۲۴۳ھجری میں وفات پائ (الاعلام للزرکلی،ج۲،ص۱۵۳)اپنی کتاب ''فہم السنن''میں رقمطرازہیں:

''قرآن کی کتابت کوئ نئ چیز نہ تھی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بذات خود اس کے لکھنے کا حکم دیا کرتے تھے البتہ وہ کاغذ کے ٹکٹڑوں۔شانہ کی ہڈیوں اور کھجور کی ٹہنیوں پر بکھرا پڑا تھا ۔حضرت ابو بکررضی اللہ تعالٰی عنہ نے متفرق جگہوں سے اس کو یکجا کرنے کا حکم دیا یہ سب اشیاء یوں تھیں جیسے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر میں اوراق منتشر پڑے ہوں اور ان میں قرآن لکھا ہو اہو ایک جمع کرنے والے (حضرت ابوبکررضی اللہ تعالٰی عنہ )نے ان اوراق کو جمع کرکے ایک دھاگے سے باندھ دیا تاکہ ان میں سے کوئی چیز ضائع نہ ہوپائے۔(البرہان ،ج۱،ص۲۳۸،الاتقان،ج۱،ص۱۰۱)

حضرت ابو بکر نے تدوین قرآن کا آغاز جنگ یمامہ کے بعد ۱۲ھجری میں کیا۔ یہ جنگ اہل اسلام اور مسلمہ کذاب کے متبعین کے بابین ہوئ تھی ۔اس مٰیں ستر حفاظ قرآن صحابہ نے شہادت پائ۔ حضرت عمر اس سے بہت خوف زدہ ہوئے اور بارگاہ صدیقی میں حاضر ہوکر قرآن جمع کرنے کا مطالبہ کیا ۔صحیح بخاری میں حضرت زید بن ثابترضی اللہ تعالٰی عنہ سے مروی ہے کہ جنگ یمامہ کے بعد حضرت ابو بکررضی اللہ تعالٰی عنہ نے مجھے بلایا حضرت فاروقرضی اللہ تعالٰی عنہ بھی تشریف فرماتھے۔حضرت صدیق نے فرمایاجناب فاروق میرے یہاں آئے اور فرمایا جنگ یمامہ کثیر حفاظ قرآن نے شہادت پائ ہے اگر حفاظ قرآن کی شہادت کا یہی عالم رہا تو قرآن کا کوئ حصہ ضائع ہوجانے کا خدشہ ہے اس لئے قرآن کو یکجا کرلینا چاہئیے ۔میں نے عمر سے کہا ''ہم وہ کام کیسے کرسکتے ہیں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں کیا ؟عمررضی اللہ تعالٰی عنہعمررضی اللہ تعالٰی عنہ نے کہا بخدا یہ بہتر کام ہے عمررضی اللہ تعالٰی عنہ مجھ سے باربارمطالبہ کرتے رہے حتیٰ کہ اللہ تعالیٰ نے اس ضمن میں مجھے شرح صدر سے نوازاآپ ایک دانشمند نوجوان ہیں۔ہمیں آپ پر کوئ بدگمانی نہیں آپ عہد رسالت میں کاتب وحی رہ چکے ہیں اس لئے قرآن کو ہوش کرکے جمع کیجئے ۔ حضرت زید کا بیان ہے کہ''بخدا اگر جناب صدیق مجھےکسی پہاڑ کو اس کی جگہ سے نقل کرنے کا حکم دیتے تو وہ میرے لئے اس ذمہ داری کی نسبت آسان تر ہوجاتا میں نے کہا آخر آپ ایسا کام کیوں کریں گے جوآ نحضورصلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں کیا؟حضرت ابوبکر نے کہا''بخدایہ بہتر ہے ''پھر حضرت ابوبکر مجھ سے بتاکید یہی بات کہتے رہے حتیٰ کے حضرت ابوبکر وعمر مجھے بھی اللہ تعالیٰ نے اس ضمن میں شرح صدر عطا کیا۔ میں نے قرآن کی پتھر کی باریک سلوں کھجور کی ٹہنیوں اور آدمیوں کے سینے سے تلاش کرنا شروع کیا یہاں تک کہ یہ سورہ توبہ کا آخری حصہ مجھے ابو خزیمہ انصاری کے پاس ملا ۔(ایک روایت میں یوں ہے کہ سورہ توبہ کا آخری جز میں نے ابو خزیمہ انصاری کے پاس پایا تھا جن کی شہادت کو سرورکائنات نے دوآدمیوں کے مساوی قراردیا تھا(البرہان ،ج۱،ص۲۳۴)مگر تہذیب التہذیب ،ج۳،ص۱۴۰پر مرقوم ہے کہ جس شخص کی شہادت کو آپ نے دوآدمیوں کے مساوی قراردیا تھا وہ خزیمہ ثابت انصاری تھے نہ کہ ابو خزیمہ انساری ۔گویا خزیمہ ثابت انصاری اور ہیںاور ابوخزیمہ انصاری شخصے دیگر ۔صحیح بخاری میں ہے کہ زید نے خزیمہ ثابت کے پاس سورہ احزاب کی آیت پائ تھی ۔ممکن ہے کہ رواۃ حدیث اور مورخین کو اس معاملہ میں غلطی لگی ہو )کسی اور سے نہ مل سکا وہ آیت یہ تھی :لقد جاءکمرسول من انفسکم سورہ توبہ کے آخر تک ۔میرے تحریر کے دو صحیفے حضرت ابو بکررضی اللہ تعالٰی عنہ کی وفات تک ان کے پاس رہے پھر حضرت عمررضی اللہ تعالٰی عنہ کے پاس رہے ۔ان کی شہادت کے بعد یہ صحیفے حضرت حفصہرضی اللہ تعالٰی عنہ کی تحویل میں آگئے ۔(صحیح بخاری کتاب فضائل القرآن باب سوم وچہارم نیز کتاب الاحکام باب ۳۰۔نیز مسند احمد ،ج۱،ص۱۳۔مسند احمد طبع شاکر ،ج۱،ص۱۸۵،حدیث نمبر ۷۶،وطبقات ابن سعد ،ج،۳،ق۲،ص۲۰۱۔)

ممکن ہے کہ مذکورہ صدور واقعہ پڑھ کر قاری اس اشکال میں مبتلا ہو کہ حضرت زید کو یہ آیت دیگر صحابہ کے پاس کیوں نہ ملی؟مگر یہ اشکال جلد ہی ذائل ہوجائے گا جب قاری کو معلوم ہوگا کہ حجرت زید کا مقصد یہ بتانا تھا کہ وہ آیت کسی اور صحابہ کے پاس لکھی ہوئ نہ تھی۔(الاتقان ،ج۱،ص۱۰۱۔امام سیوطی ابو شامہ کا قول نقل کرتے ہیں کہ:کسی اور کے پاس نہ پانے کے معنی یہ ہیں کہ کسی کے پاس یہ آیت تحریر شدہ صورت میں نہ تھی) جب ابو خزیمہ انصاری کے پاس وہ آیت تحریر شدہ صورت میں مل گئ۔تو حضرت زید نے اسے قبول کرلیا اس لئے کہ بہت سے صحابہ بلکہ حضرت زیدکو بھی یہ آیت زبانی یاد تھی مگر وہ بنابروع وتقوی یہ چاہتے تھے کہ یہ آیت تحریری صورت میں بھی مل جائے تاکہ حفظ وکتابت کے مل جانے سے اس میں مزید پختگی اور استحکام پیدا ہوجائے۔ حضرت ابوبکررضی اللہ تعالٰی عنہ کے حکم سے جو قرآن زید نے جمع کیا تھا وہ اس میں اسی راہ پر گامزن رہے ہر آیت یا چند آیت کو قبول کرنے کے لئے دو گواہوں کی ضرورت تھی اور وہ تھے۔۔۔۔۔(۱)حفظ (۲)کتابت۔

حضرت ابوبکررضی اللہ تعالٰی عنہ نے حضرت عمررضی اللہ تعالٰی عنہ اور زید بن ثابترضی اللہ تعالٰی عنہ سے کہا تھاکہ''مسجد کے دروازہ پر بیٹھ جائیں اور جو شخص کتاب اللہ کے کسی حصے پر دوگواہ پیش کرےتو وہ حصہ لکھ لیا کرو۔ (الاتقان،ج۱،ص،۱۰۰)

حافظ ابن حجر عسقلانی فرماتے ہیں کہ دوگواہوں سے حفظ وکتابت مراد ہیں۔

یہ حدیث منقطع ہے ۔اس کو ابن ابی داؤد نے بطریق ہشام بن عروہ ازوالد خودروایت کیا ہے مگر اس کے سب راوی ثقہ ہیں ۔حافظ ابن حجر عسقلانی کی مذکورہ صدرتوجیہ سے مستفاد ہوتا ہے کہ ایک گواہ حفظ کے لئےاور ایک کتابت کے ضمن میں کافی ہے بخلاف ازیں جمہور کے نزدیک عادل گواہ حفظ کے لئے اور دو کتابت کے لئے یعنی کل چار گواہ ضروری ہیں۔

جمہور علماء اس کی دلیل میں ابن ابی ابوداؤد کی وہ حدیث پیش کرتے ہیں جو انہوں نے بطریق یحیی بن عبدالرحمان بن حاطب روایت کی ہے کہ حجرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ تشریف لائے اور فرمایا کہ جس نے قرآن کا کچھ حصہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم سے سن کر یاد کیا ہو وہ پیش کرے۔لوگ ان دنوں قرآن کریم کی آیات کو صحیفوں تختیوں اور کھجور کی چوڑی ٹہنیوں پرلکھا کرتے تھے جب تک وہ گواہ شہادت نہ دیتے تب تک آپ کسی کی پیش کردہ آیت کو قبول نہیں کیا کرتے تھے (الااتقان،ج۱،ص،۱۰۰)سخاوی اپنی کتاب جمال القرآن میں رقمطراز ہیں :

''مقصد یہ ہے کہ دو گواہ اس بات کی شہادت دیں کہ یہ آیت آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے تحریر کی گئ تھیں۔(الااتقان،ج۱،ص،۱۰۰)

سورہ توبہ کی آخری آیات کو اس قاعدہ سے اس لئے مست ثنیٰ کیا گیا تھا کہ اکثر صحابہ کو یہ آیات زبانی یاد تھیں اس لئے ان کی نقل دروایت تواتر کے درجہ کو پہنچی ہوئ تھی تو گویا یہ متواتر نقل دروایت دوگواہوں کے قائم مقام تھی کہ سورہ توبہ کا یہ آکری حصہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں تحریر کیا گیا ہے۔

باقی رہا زید بن ثابت کا یہ قول کہ''میں نے ان آیات صرف ابو خزیمہ کے پاس پایا''تو اس سے یہ واضح نہیں ہوتا کہ خبر واحد کے ساتھ قرآن کا اژبات کیا گیا ہے اس لئے حضرت زید نے بذات خود یہ آیات آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم سے خود سنی تھیں اور ان کو معلوم تھا کہ یہ آیات کہا ں اور کس سورت سے متعلق ہیں اس ضمن میں صحابہ کی تلاش تائید وتقویت کے لئے تھی ۔اس لئے نہیں کہ آپ قبل ازیں ان آیات سے آگاہ نہ تھے ۔(البرہان ،ج۱۔ص۲۳۴)

حضرت ابو بکر کے جمع سے اہتمام سے جمع وتدوین قرآن کا کام ایک سال کی مدت میں تکمیل پذیر ہوا ۔اس لئے کہ آپ نے حضرت زید کو اس کی خدمت پر جنگ یمامہ کے بعد مومور فرمایا تھا جنگ یمامہ اور حضرت ابوبکر صدیق کی وفات کے درمیان صرف ایک سال کی مدت تھی جب ہم دیکھتے ہیں کہ قرآن کو سک طرح کاغذ کے ٹکڑوں ،کھجور کی ٹہنیوں ،پتھر کی سلوں چمڑے کے ٹکڑوں اور کجاوہ کی لکڑیوںسے فراہم کیا گیا تھا تو ہمیں صحابہ کے بلند پایہ عزم اور عالی ہتمی کی دادینی پڑتی ہے ہم یہ دیکھ کر حضرت علی کا مقولہ دہرانے پر اپنے آپ کو مجبور پاتے ہیں ۔حضرت علیرضی اللہ تعالٰی عنہ کا ارشاد ہے :

''اللہ تعالیٰ ابو بکررضی اللہ تعالٰی عنہ پر رحم فرمائے وہ اولین شخص تھے جس نے قرآن کو کتابی صورت میں جمع کیا ''(البرہان ،ج۱،ص۹۳۲۔نیز المصاحف لابن ابی داؤد)

جہاں تک حضرت فاروق اعظمرضی اللہ تعالٰی عنہ کا تعلق ہے وہ تدوین قرآن کے نظریہ کے موجد تھے ۔اس میں شبہ نہیں کہ اس نظریہ کی عملی تکمیل کی سعادت حضرت زید بن ثابترضی اللہ تعالٰی عنہ کے لئے مقدر تھی ۔

امام بخاری نے جو روایت حضرت زید رضی اللہ تعالٰی عنہ سے نقل کی ہے اس سے واضح ہوتا کہ ہے جن صحیفوں میں قرآن جمع کیا گیا تھا وہ پہلے حضرت ابو بکررضی اللہ تعالٰی عنہ کے پاس رہے جب آپ نے وفات پائ تو خلفیہ حضرت عُمررضی اللہ تعالٰی عنہ ان کی حفاظت کرتے رہے آپ کی شہادت کے بعد یہ صحیفے خلفیہ ثالث حضرت عثمان کے پاس نہیں بلکہ ام المؤمنین حضرت حفصہ بنت عمررضی اللہ تعالٰی عنہ کی تحویل میں رہے یہاں انسائیکلو پیڈیا آف اسلام کے مقالہ نویس نے یہ سوال اٹھا یا ہے کہ آیا یہ امر زیادہ موزون نہ تھا کہ ان صحیفوں کو حضرت عثمان کی حفاظت میں دیا جاتا۔دیکھئے (انسائیکلو پیڈیا آف اسلام جلد ۲،ص،۱۱۳۰)

ہم اس سوال کے جواب میں عرض پرداز ہیں کہ ان صحیفوں کا حضرت حفصہ کے زیر حفاظت رہنا موزون نہ تھا کیونکہ حضرت عمررضی اللہ تعالٰی عنہ نے وصیت کی تھی کہ ان صحیفوں کو حضرت حفصہ کی تحویل میں رکھا جائے ۔ اس لئے کہ محترمہ موصوفہ ام المؤمنین ہونے کے علاوہ حافظ قرآن بھی تھیں پورا قرآن آپ کے سینے میں محفوظ تھا اور آپ اس کی قرأت وکتابت میں پوری مہارت رکھتے تھیں علاوہ ازیں حضرت عمررضی اللہ تعالٰی عنہ نے اپنے جانشین کا معاملہ شوریٰ کے سپرد کردیا تھا ظاہر ہے کہ خلیفہ بنائے جانے سے قبل یہ امانت حضرت عثمان کو کیسے تفویض کی جاسکتی تھی ؟

بظاہر ایسا معلوم دیتا ہے کہ قرآن کریم کو ''مصحف''کا نام سب سے پہلے حضرت ابوبکررضی اللہ تعالٰی عنہ کے عہد خلافت میں دیا گیا تھا ۔ ابن اشتہ(محمد بن عبداللہ محمد بن اشتہ کی کنیت ابوبکرہے ۔آپ بہت بڑے نہودان محقق اورثقہ راوی تھے علوم قرآن کے ساتھ آپ کو شغف کے درجہ تک محبت تھی ۔آپ کی کتاب ''المجّر''آپ کے وسیع علم ہونے کا بین ثبوت ہے آپ نے ۳۶۰ھجری میں وفات پائ(غایۃ النھایہ فی طبقات القراء ،ج۲ ص۱۸۴) نے اپنی کتاب ''المصاحف''میں بطریق موسی عقبی بن عقبہ از ابن شہاب روایت کیا ہے کہ جب قرآن کو جمع کرکےاوراق پر لکھا گیا تو حضرت ابو بکررضی اللہ تعالٰی عنہ نے فرمایا:اس کا کوئ نام مقرر کیجئے ''بعض نے ''السفر''(پیغامات )تجویز کیا ۔آپ نے فرمایا یہ یہود کا تجویز کردہ نام ہے بعض لوگوں نے''المصف ''نام رکھنے کی تجویز پیش کی۔ یہ نام حبش میں رائج تھااسی پر اتفاق ہوگیا اور قرآن کریم کو ''المصحف ''کہا جانے لگا۔(الاتقان ،ج۱،ص۸۹)

حضرت ابوبکررضی اللہ تعالٰی عنہ کے جمع کردہ قرآن پر پوری امت کا اجماع منعقد ہوچکا ہے اور اس کو متواتر کا درجہ حاصل ہے اکثر علماء کا خیال ہے کہ حضرت ابوبکررضی اللہ تعالٰی عنہ نے قرآن کریم کو قرأت سبعہ کے مطابق مدون کیا جس طرح وہ آنحضورصلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہواتھا اس اعتبار سے حضرت صدیق کے جمع کردہ قرآن اور عہد رسالت میں مرتب قرآن کے درمیان کامل یک رنگی وہم آہنگی پائ جاتی ہے اور دونوں میں اوردونوں میں سرے سے کوئ فرق نہیں ہے.
 
Top