• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تدوین ِحدیث اور اس کی تاریخ

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
مستشرقین کی عیاری:
امام مرحوم کے اس قول میں انہوں نے لفظ
کِتَابَۃِالأَحَادِیْثِ
کا استعمال کیا جسے مستشرقین نے بڑی عیاری سے تحریف کرکے اس کا معنی بگاڑ دیا:
إِنَّ ہٰؤُلاَئِ الأُمَرَائُ أَکْرَہُونَا عَلَی کِتَابَۃِ الأَحَادِیثِ۔
کو
کِتَابَۃِ أَحَادِیث
بغیر الف لام کے لکھ کر اس کا معنی یہ کردیاکہ ان امراء نے ہمیں مجبور کیا کہ ہم احادیث کو گھڑیں۔اور یوں امام محترم پر فرد جرم عائد کردی گئی کہ یہی صاحب ہیں جنہوں نے احادیث کو اپنی طرف سے لکھ دیا۔یہی تو وہ صفائی ہے جسے ہمارا دانش ور سمجھ نہ سکا اور اپنی دانش کو غیروں کے حوالے کرکے اپنی دانش کا ماتم کروا رہا ہے۔( مقدمہ السُّنَّۃُ وَمَکَانَتُہَا فِی التَّشْرِیْعِ الِإسلاَمِی از مصطفی سباعی)

٭…علماء نے سیدنا عمربن عبد العزیز ؒکی اس کوشش کو تدوین حدیث کی اولین کوشش قرار دیاہے اور اس عبارت کو اپنے ہاں بار بار لکھا ہے:
تدوین حدیث کی ابتداء پہلی صدی ہجری کے اختتام پر سیدنا عمربن عبد العزیز ؒکے عہد ِمبارک میں ہوئی۔ مسلم تاریخ میں دو دَو ربہت اہم ہیں کہ جن میں دین کے بنیادی مصادر کی تدوین سرکاری سطح پر ہوئی اور اہل لوگوں کی طرف سے ہوئی۔سرکار نے بھی مسلمان ہونے کا فرض نبھایا ،کوئی جرم کیا نہ ہی کسی پر زبردستی کی۔ہمارے لئے ایسی حکومت ان حکومتوں سے صدہا اعتبار سے بہتر اور قابل فخر ہے جو اسلام کا نام لے مگر خدمت دین سے بدکے۔

ان کے بعدپہلے عباسی خلیفہ منصورنے امام مالک علیہ الرحمہ سے استدعا کی کہ حدیث رسول پر ایک ایسی معتدل کتاب لکھیں جس میں مسائل کو احسن طریقے پر پیش کیا گیا ہو۔ امام مالک رحمہ اللہ نے موطأ لکھ ڈالی۔
ہارون الرشید ۔۔ جن کے بارے میں مورخین اور اہل علم کی رائے ہے اگر وہ خلیفہ نہ بنتے تو ایک بہت بڑے صاحب علم ہوتے۔۔نے خود امام مالکؒ کی خدمت میں حاضر ہوکر موطأ کاسماع کیا اور موطأ کو دستور مملکت بنانے کی درخواست کی۔ جو امام مالکؒ نے بہت اچھی توجیہ بیان کرکے رد کردی۔ ہارون الرشیدکے دونوں شاہزادے امین اور مامون بھی امام مالک ؒکے شاگرد رہے۔گویا یہ سرکاری سرپرستی حدیث رسول کو حاصل رہی۔ اور بلاشبہ ایسے حکمران خوش قسمت ہیں جنہوں نے حب اسلامی سے سرشار ایسے دینی اور علمی کاموں کی سرپر ستی کی۔اور اپنا نام اسلام کے محسنوں میں شمار کراگئے۔

٭… یورپ اور عیسائی دنیا کی حکومتیں تقریباً ہر دور میں اپنے سکالرز کوحکومتی مراعات دیتی رہیں جن کی کوشش یہ رہی کہ کسی طرح ان کے سکالرز بائیبل کا ایک صحیح متفقہ نسخہ تیار کرسکیں مگر افسوس ان کی ہر نئی تحقیق ، پہلی تحقیق کی نفی کرتی رہی۔ان یورپین سرکاری سرپرستی کو نہ مستشرق نے معیوب سمجھا اور نہ ہی ان سے متأثر حضرات نے۔ بس اعتراض یا تکلیف ہے تو صرف یہی کہ مسلم حکمرانوں نے یہ کام کیوں کردکھایا؟ آج بھی اللہ کے فضل وکرم سے مسلم حکمران ایسی دینی خدمات سے غافل نہیں۔اور نہ ہی ان کی راہ میں کوئی رکاوٹ ہے۔بے شمار ایسے ادارے ہیں جو حدیثی خدمات کے لئے اپنی بساط بھر کوشش کررہے ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
اتباع تابعین اور متنوع تصنیفات:
یہ دور بڑا بابرکت ثابت ہوا کیونکہ روافض، خوارج اور معتزلہ کی بدعتوں کا شور بھی اس عہد میں خوب اٹھا۔ خلیفہ عمر ؒبن عبد العزیز کی تدوینی سرپرستی نے اہل علم میں ہلچل مچا دی تھی۔ اس لئے دوسری صدی کے آغاز سے ہی بے شمار خدام حدیث(Custodians) آگے بڑھے ۔ جنہوں نے اپنے مشائخ سے سنی احادیث کو ضبط کیا۔ ان کے اقوال وفتاوی کو بھی جمع کیا۔ حدیثی کتب لکھی ۔ ان میں جدت پیدا کی اور ہر قسم کے آثار ، فتاوی و احادیث کو بلالحاظ مرتب کرڈالا۔جو درج ذیل ہیں:

کتب السنن مصنفات وجوامع موطآت مسانید کتب مغازی وسیر کتب التفاسیر

کتب السنن:
ان کتب میں روایات کو فقہی ابواب پر مرتب کیا گیا تھا جیسے: ایمان، طہارت، صلاۃ وزکوۃ وغیرہ۔ مگر ان میں موقوف ومنقطع بکثرت تھیں۔ ایسی کتب کی تعداد مصنفات اور جوامع کے مقابل میں بہت کم تھی۔ مثلاً:

… کتاب السنن از عبد الملک بن عبد العزیز بن جریج البصری(م:۱۵۰ھ)، اصلاً رومی اور قریش کے موالی بھی تھے۔فقیہ حرم مکہ تھے اور اپنے زمانہ کے امام اہل حجاز۔ اولاً انہوں نے حدیث میں ابواب پر مبنی کتاب الجامع کے علاوہ، السنن، الصلاۃ اور التفسیر لکھیں۔جن میں صحابہ و تابعین کے اقوال وفتاوی کے علاوہ احادیث ِرسول بھی تھیں۔(صحائف الصحابۃ: ۲۳۹، استاذ احمد عبد الرحمن الصویان، تہذیب التہذیب ۶؍ ۴۰۲)۔امام ذہبیؒ انہیں ثقہ وثبت کہتے ہیں اور مدلس بھی۔(تذکرۃ الحفاظ ۱؍۱۶۹)

… محمد بن عبد الرحمن بن مغیرہ(م: ۱۵۶ھ) جو ابن ابی ذئب کے نام سے مشہور تھے انہوں نے المُوَطَّأ اور السنن نام کی دو کتب لکھیں۔یہ موطأ امام مالک کی موطأ سے پہلے متداول تھی۔

… سعید بن ابی عروبۃ مہران عدوی(م:۱۵۶ھ) نے بصرہ میں ہی علمِ حدیث کو عام کیا۔خود حافظ ِحدیث تھے اور بصرہ میں امامت کے درجہ پر فائز۔ ان کی کتب میں السنن اور التفسیر کے علاوہ ایک حدیثی جزء بھی تھا۔

… زائدہ بن قدامہ (م: ۱۶۱ھ) نے السنن، الزہد، التفسیر، القراء ات اور المناقب پر کتب لکھیں۔

… حماد بن سلمۃ(م:۱۶۸ھ) کا حدیثی جزء السنن اسی عرصہ کا ہے۔آپ راوی ٔحدیث بھی ہیں۔ بصرہ کے مفتی اورنحوکے عالم تھے۔ ثقاہت ودیانت میں اپنی مثال آپ تھے۔ اہل بدعت کے بارے میں بڑے سخت تھے۔بے شمار تصانیف بھی لکھیں۔

… ابوخازم ہشیم بن بشیر سلَمی(م:۱۸۳ھ) نے عطاء بن ابی رباح اور سعید بن المسیب کے علمِ حدیث کو جمع کرکے اہلِ واسط کو اپنی علمی تصنیف ِحدیث السنن فی الفقہ اور المغازی کا تحفہ پیش کیا۔بغداد میں مقیم ہوئے اور بطور محدثِ بغداد مشہور ہوئے۔امام احمدؒ فرماتے ہیں: میں ہشیم کے ساتھ چار پانچ سال رہا مگر ان کے رعب اور دبدبے کے باعث اس عرصہ میں صرف دو مرتبہ ہی سوال کرسکا۔حدیث پڑھاتے دوران بکثرت تسبیح پڑھتے اور لا إلہ إلا اللہ کو ذرا مد سے پڑھا کرتے تھے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
مصنفات اور جوامع:
یہ ان کتب کے نام ہیں جن میں سنن کی ترتیب پر روایات مرتب ہوئیں یا جو سنن کے حکم میں آتی ہیں یا جن روایات کا تعلق سنن سے ہو۔یہ بھی بے شمار کتب ہیں جو ان دو صدیوں میں لکھی گئیں۔مصنفین میں:

… ابو عروۃمعمر بن راشد الازدی(م:۱۵۳ھ)،بصرہ سے تھے وہیں مشہور ہوئے مگر سکونت یمن میں اختیار کرلی۔ انہوں نے واپس بصرہ آنے کا ارادہ کیا تو اہل صنعاء نے ان کے علمی مقام ومرتبے کے پیش نظر انہیں واپس نہ جانے دیا۔ ایک یمنی نے اس موقع پرکہا:
قَیِّدُوْہُ وَزَوِّجُوْہُ۔
اسے قید کرلو اور اس کا نکاح کردو۔یمنیوں کی اس ترکیب سے پھر معمر نے وہیں سکونت اختیار کرلی۔ یمن میں اپنے حدیثی صحیفۃ کو بھی نمایاں کرچکے تھے۔ علماء رجال کے نزدیک :
أَوَّلُ مَنْ صَنَّفَ بِالْیَمَنِ۔
سب سے پہلے مصنف ہیں جنہوں نے یمن میں الجامع نام کی کتاب حدیث لکھی۔امام ذہبیؒ نے انہیں أَوْعِیَۃُ الْعِلْمِ لکھا ہے۔ بہت بڑے حافظ حدیث تھے۔اس کتاب کا ایک نسخہ مکتبۂ فیض اللہ میں اور دوسرا انقرہ کے قومی مکتبہ میں موجود ہے۔ شاید اللہ کا کوئی بندہ کسی وقت اسے تحقیق کرکے شائع کردے۔(طبقات ابن سعد۵؍۳۹۷، تذکرۃ الحفاظ ۱؍۱۹۰)

… امام عبد الرحمن بن عمرو الاوزاعی(م:۱۵۷ھ) بلادِ شام کے بلا شرکت ِغیرے امام ، فقیہ اور محقق عالم تھے۔ بعلبک میں پیدا ہوئے، بقاع میں پرورش پائی، دمشق میں عمر کا بیشتر حصہ گذارا۔ بنو عباس کا انقلاب آنے پر بیروت آگئے اور وہیں فوت ہوئے۔ان کی حدیثی تصنیف الجامع ہے۔

… سفیان بن سعید الثوری(م:۱۶۱ھ) ابوعبد اللہ کنیت رکھتے تھے۔ شیخ الاسلام، سید العلماء العالمین اور امام الحفاظ جیسے القاب علماء وقت نے انہیں دئے۔ امام و مجتہد کے درجے پر فائزتھے۔ان کے شاگردوںمیں ابن المبارک اور یحییٰ بن سعید القطان جیسے نامور ائمہ تھے۔منصور نے بہت کوشش کی کہ وہ کسی طرح عہدۂ قضاء قبول کرلیں مگر یہ بچتے رہے۔ آخر میں بصرہ منتقل ہوگئے اور وہیں ان کا انتقال ہوا۔کوفہ میں الجامع نام کی کتابِ حدیث لکھ چکے تھے۔ان کی مزید کتب التفسیر، الجامع الکبیر، الجامع الصغیر، الفرائض اور الاعتقاد نام کی تھیں۔(التاریخ الکبیر ۲؍۲؍۹۲، تہذیب التہذیب ۴؍۱۱۱)

… مصنف از امام وکیع بن الجراح الرؤاسی(م: ۱۹۷ھ)، ابوسفیان الکوفی۔ ابوداؤد کہتے ہیں: وہ اعور تھے۔ انہوں نے ابن عبد اللہ البجلی، جریر بن حازم، حماد بن سلمہ، سفیانین سے روایت کی اور ان سے امام احمد بن حنبل، اسحق بن راہویہ، خلیفہ بن الخیاط، عبد اللہ بن المبارک، محمد بن الصباح الدولابی وغیرہ نے روایت کی۔امام احمدؒ بن حنبل انہیں اوعیۃ العلم قرار دیتے۔ فقاہت حدیث کے ساتھ اپنے حافظہ اور اتقان میں بھی لاثانی تھے۔رقائق وزہد کے مستند عالم تھے۔ امام یحییٰؒ بن معین انہیں عراق کا ثبت وثقہ عالم تسلیم کرتے۔ جب یہ لڑکے تھے توامام سفیانؒ بن عیینہ انہیں رؤاسی کہہ کر پکارتے اور بلا کر فرماتے: مجھے احادیث سناؤ جو تم نے سنی ہیں۔ تو یہ ان کے پاس بیٹھ کر سند کے ساتھ احادیث سناتے اور امام سفیانؒ ان کے حفظ پر تعجب کا اظہار کرتے۔ خود کہا کرتے: میں نے پندرہ سال کسی کتاب کو نہیں دیکھا بس حافظے پر اعتماد کیا ۔امام سفیان الثوری رحمہ اللہ کی وفات کے بعد یہ ان کی مسندتدریس پر بیٹھے۔عبد الرزاق الصنعانی کہتے ہیں: میں نے ثوری، ابن عیینہ، معمر، مالک اور دیگر علماء کو دیکھا مگر میری آنکھوں نے وکیع جیسا کوئی عالم نہیں دیکھا۔ علی بن خشرم کہتے ہیں: میں نے انہیں عرض کی کہ حفظ کی کوئی دوائی بتائیں۔ فرمانے لگے اگر میں بتاؤں تو اس کا استعمال کروگے۔ انہوں نے کہا : ضرور۔ فرمانے لگے:
تَرْکُ الْمَعَاصِیْ۔
بہترین حافظے کی دوا گناہ چھوڑنا ہے۔الجامع ان کی تصنیف ہے۔ عاشوراء کے روز ان کا انتقال ہوا۔(طبقات ابن سعد ۵؍۵۲۰، التاریخ الکبیر ۸؍۲۶۱۵، میزان الاعتدال ۴؍ ۹۳۵۵)۔

… جامع سفیان بن عیینہ(م: ۱۹۸ھ)، ان کی کنیت ابوعمران الہلالی تھے ، کوفی اور مکی بھی کہلاتے ہیں۔ائمہ اسلام اور حفاظ حدیث وسنت میں ان کا شمار ہوتا ہے ۔(طبقات ابن سعد ۵؍۳۶۴، تاریخ بغداد ۹؍۱۷۴)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
موطآت:
یہ کتب السنن کی طرز پر لکھی گئیں۔فقہی احکام کے علاوہ ان میں فتاوی، واقوال اور استنباطات ِصحابہ وتابعین وتبع تابعین بھی درج ہوئے۔ تصحیح وتضعیف ِحدیث کا معیار ابھی قائم نہیں ہوا تھا اس لئے تدوین ِاحادیث وآثار پر ہی ان کتب کی زیادہ تر توجہ رہی۔اس لئے ان کتب میں مراسیل، منقطعات، اور بلاغات کے علاوہ موقوف ومقطوع روایات بھی ہیں۔

موطأ:
امام مالک بن انس (م: ۱۷۹ھ) جوامام دار الہجرہ اور عالم المدینہ بھی کہلاتے ہیں۔ائمہ اربعہ میں سب سے بڑے امام ہیں کیونکہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کو ان کی شاگردی حاصل ہے۔مالکی حضرات انہی کی طرف منسوب ہوتے ہیں۔ موطأ میں امام مالکؒ نے اہل حجاز کی قوی احادیث کو درج کرنے کا التزام کیااور فتاوی صحابہ اور تابعین بھی شامل کردیئے اور ساتھ ہی اپنا نکتۂ نظر بھی پیش کیا۔اسی کتاب کو خلیفہ ہارون الرشید نے ایک آئینی حیثیت یوں دینا چاہی کہ اسی کے مطابق تمام علماء وفقہاء فتوی دیا کریں مگر امام محترم نے بڑی عاجزی سے فرمایا: یہ صرف میرا علم ہے جبکہ عالم اسلام میں علماء کی خاصی تعداد ہے ان کے علم سے بھی مستفید ہونا چاہئے۔موطأ کو یہ پذیرائی بھی مل چکی تھی کہ تقریباً سن ۱۳۰ھ میں اندلس پہنچ چکی تھی۔ انہی کے معاصر محمدبن عبد الرحمن بن ابی ذئب (م:۱۵۸ھ) نے بھی اپنی موطأ لکھی۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
مسانید:
غالباًسب سے قدیم مسند ، امام عبد اللہ بن المبارک تمیمی(م:۱۸۱ھ) کی ہے جنہوں نے خراسان کی سرزمین کو اپنی حدیثی کتب سے نوازا۔ابوعبد الرحمن کنیت رکھتے تھے۔ بہت سی تصانیف لکھیں جن میں المسند، الزہد اور الجہاد نامی کتابیں ہیں۔اپنی تمام عمر سفر حج، جہاد اور تجارت کرتے کرتے گذار دی۔حدیث کے حافظ، فقیہ وقت اور عربی لغت کے علاوہ تاریخی واقعات کے زبردست عالم تھے۔ شجاعت وسخاوت میں بھی لاثانی۔ خراسان میں ہی ان کا انتقال ہوا۔

… مسند حافظ ابوداؤد طیالسی (م: ۲۰۳ھ)کی بھی قدیم ترین کتاب ہے۔گیارہ اجزاء پر مشتمل یہ کتاب ایک ضخیم جلد میں چھپ چکی ہے۔ مسند کو جمع کرنے کی کوشش ان کی ذاتی نہیں بلکہ بعض حفاظ خراسان نے اس میں ان روایات کو بطور خاص جمع ومرتب کردیا جو ان سے یونس بن حبیب نے سنی تھیں۔یہی اس مسند کے راوی ہیں جو علمی اعتبار سے ایک ثقہ اور نیکی وبزرگی میں بہت ہی آگے تھے۔(عقد الجوہر الثمین از القاسمی:۳۰۸) ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
مغازی وسیر کی کتب:
یہ وہ کتب ہیں جن میں سیرت نبوی کے مختلف پہلو جن کا تعلق جہاد، غنائم، امان او رجزیہ سے ہو۔یا جنگ وصلح اور ان کے معاہدات سے یاحاصل شدہ مال غنیمت، قیدی اور غلاموں سے ہو یادوسری قوموں کے ساتھ گفتگو ومعاہدات سے ہو۔ان کتب کو ہم تاریخی اعتبار سے چار اہم طبقوں میں مرتب کرسکتے ہیں:

پہلا طبقہ:
مغازی اور سیر پر اولین کام عروہ بن زبیر(م:۹۴ھ) اور ابان بن عثمان(م: ۱۰۵ھ) کا ہے۔ابن سعد نے لکھا ہے: ابان بن عثمان کی ایک کتاب سیر کے موضوع پر تھی۔ابن سعد نے مغیرہ بن عبد الرحمن کے حالات میں انہیں ثقہ اور قلیل الحدیث لکھا اور یہ بیان کیا کہ مغیرہ نے مغازی ٔرسول اللہ ﷺ کی روایات ابان بن عثمان سے حاصل کی ہیں۔

دوسرا طبقہ:
اس کے نمایاں مولفین میں عبد اللہ بن ابی بکر بن حزم الانصاری(۱۳۵ھ) ہیں جنہوں نے آپ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہونے والے وفود کی تفصیلات روایت کی ہیں۔وفاتِ نبی ﷺ کے ساتھ ہی جن مختلف قبائل نے ارتداد کا اعلان کیا ان کی تفاصیل بھی فراہم کی ہیں۔ آپ ﷺ کے غزوات کا ذکر بھی مرتب تاریخی صورت میں پیش کیا۔ اسی طبقہ کے ایک اور مصنف عاصم بن عمر بن قتادہ (م: ۱۲۰ھ)ہیں جو ابن اسحق کے استاذ بھی ہیں۔ اس علم میں رسوخ کی وجہ سے خلیفۂ راشد عمر بن عبد العزیز نے انہیں اجازت دی کہ دمشق کی جامع مسجد میں عوام کو مغازیٔ رسول اور مناقبِ صحابہ بیان کیا کریں۔ اسی طبقے میں ایک اور جری عالم ومحدث وقت امام ابن شہاب الزہری(م: ۱۲۴ھ) کا نام بھی ہے جنہوں نے مغازی وسیر میں خوب مہارت حاصل کی اور روایات بیان کیں۔

تیسراطبقہ :
موسیٰ بن عقبہ بن ابی عیاش مدنی (م:۱۴۱ھ)جو صغار تابعین میں سے ہیں۔ان کا نام مغازی وسیر کے علماء میں سرفہرست ہے۔امام مالک بن انس رحمہ اللہ نے ان کی مغازی کو صحیح ترین مغازی قرار دیاہے۔امام شافعی رحمہ اللہ فرمایا کرتے: مغازی میں ان کی کتاب سے بڑھ کر کوئی اور کتاب صحیح نہیں اگرچہ وہ مختصر ہے اور ان روایات سے بالکل خالی جو دوسری کتب میں ملتی ہیں۔امام احمد بن حنبل فرماتے ہیں: موسیٰ بن عقبہ کی مغازی کو لازم پکڑو اس لئے کہ وہ ثقہ عالم ہیں۔امام بخاری رحمہ اللہ نے بھی موسیٰ بن عقبہ کی مغازی سے استفادہ کیا اور اپنی صحیح میں غزوہ خندق، غزوہ بنی المصطلق اور غزوہ طائف کے حالات روایت کئے ہیں۔ اسی طبقہ کے ایک اور راویٔ غزوات، محمد بن اسحق بن یسار مطلبی(م:۱۵۱ھ) ہیں جو امام زہریؒ کے شاگرد ہیں اور ان سے بہت مستفید ہوئے ہیں۔ عباسی خلیفہ ابوجعفر منصور نے اپنے بیٹے مہدی کے لئے ان سے درخواست کی کہ ایک کتاب سیرۃ نبوی پر تحریر کریں۔چنانچہ انہوں نے یہ کتاب لکھی۔جسے ان کے شاگرد زیاد البکائی اور ان سے ابن ہشام روایت کرتے ہیں۔یہ کتاب مفقود سمجھی گئی مگر مصر میں اس کے چند اوراق مل گئے۔ اورجس کا بڑا حصہ بعد میں یورپین لائبریریز میں ہی دریافت ہوگیا جسے ڈاکٹر حمید اللہ رحمہ اللہ نے تحقیق کرکے فاس کے معہد دراسات سے سن ۱۹۸۹ھ میںشائع کردیا۔امام بخاری رحمہ اللہ نے ابن ؒاسحق کی کتاب سے بھی الجامع میں جابجا اقتباسات پیش کئے ہیں۔

اسی طبقہ کے ایک اور عالم ابواسحاق ابراہیم بن محمد بن الحارث الفزاری(م: ۱۸۶ھ) نے بھی السیر نام کی کتاب لکھی۔اسی طرح ابوخازم ہشیم بن بشیر سلمی نے بھی المغازی پر کتاب لکھی۔

ابن ہشام بھی اسی طبقہ کے نمایاں ترین عالم ہیں۔عراق کے شہر بصرہ میں ان کی پرورش ہوئی۔مصر گئے تو دیگر علماء کے علاوہ امام شافعی رحمہ اللہ سے بھی ملاقات ہوئی۔وہیں رہ کر السیرۃ النبویۃ کتاب لکھی۔جس کی وجہ ابن اسحق کی کتاب بنی جسے انہوں نے سنوارا اور سیرت سے متعلق بہت سی غیر متعلق باتوں کو حذف کیا یا جہاں شک تھا جیسے بہت سے اشعارو انساب وغیرہ کا ذکر نہیں کیا۔ہاں چند اہم باتوں کا اضافہ ضرور کیا ۔اس کتاب کے بے شمار مخطوطے ہیں جن میں قدیم ترین نسخہ وہ ہے جو چھٹی صدی ہجری کا لکھا ہوا ہے۔

جرمن مستشرق وستنفلڈ پہلے فرد ہیں جنہوں نے یہ کتاب سن ۱۸۶۰ء میں دو جلدوں میں شائع کرائی۔عبارت مشکل ہونے کی وجہ سے انہیں مزید ایک جلد بطور ملحق کے اضافہ کرنا پڑی جس میں بہت سی وضاحتیں، حاشئے اور فہارس وغیرہ ہیں۔ یہ کتاب امام سہیلی ؒکے نسخہ پر اعتماد کرتے ہوئے دوبارہ طبع بھی ہوئی۔ سہیلی کا یہ وہ خاص مخطوطہ ہے جسے انہوں نے اپنے شیخ ابن العربی سے حاصل کیا تھا۔ اس کتاب کی طباعت مسلسل ہوتی رہی۔مگر اس کی انتہائی عمدہ ودقیق طباعت استاذ محمد مصطفی السقا اور ان کے ساتھیوں کی تحقیق ہے۔

چوتھا طبقہ:
یہ وہ مصنف ہیں جنہوں نے سیر اور مغازی پر تصنیفات پیش کیں اور جو امام بخاری ؒکے معاصرین میں سے ہیں۔ان میں نمایاں ترین نام ابن سعد (م: ۲۳۰ھ) کا ہے ۔ طبقات کا پہلا حصہ السیرۃ النبویہ اور مغازیٔ رسول پر مشتمل دو جلدوں میں ہے اوربقیہ حصہ میں صحابہ وتابعین اور علماء معاصرین تک کے تراجم ہیں۔ کتاب مطبوع ہے۔

اس طبقہ کے ایک اہم عالم ابن ابی خیثمہ (م: ۲۷۹ھ) بھی ہیں۔ان کی کتاب بھی طبقات میں مرتب کتاب ہے۔ ان رواۃ کے تراجم ہیں جو ان کے زمانہ تک کے ہیں۔اپنی اس کتاب میں تاریخ اور السیر کو بھی انہوں نے داخل کردیا ہے مگر بھرپور نقد اورعلل الحدیث کی وضاحت کے ساتھ۔ ان کا منہج بھی ابن سعد کے طبقات جیسا منہج ہے یہ کتاب بھی مطبوع ہے۔

اس طبقہ کے ایک اور اہم عالم خلیفہ بن خیاط العصفری (م: ۲۴۰ھ)ہیں۔ ان کی کتاب التاریخ جو سن وار مرتب ہے اور کتاب الطبقات بھی مطبوع ہوگئی ہے۔ خلیفہؒ بن خیاط، امام بخاری ؒکے شیخ ہیں اوران سے اپنی صحیح میں روایت کرتے ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
کتب التفاسیر:
یہ وہ کتب ہیں جو تفسیر قرآن میں آثار کو بھی جگہ دیتی ہیں۔ چند اہم تفسیری کتب جو دوسری وتیسری صدی ہجری میں لکھی گئیں ان کے نام یہ ہیں:

۱۔ تفسیر مجاہد بن جبر (م: ۱۰۱ھ)، تفسیر ابن جریج، تفسیرسعید بن ابی عروبۃ اور تفسیر زائدہ بن قدامہ۔ تفسیر سفیان الثوری (م:۱۶۱ھ) اس تفسیرمیں تمام آیات کی تفسیر تو نہیں ہاں اسلاف کی تفسیری روایات اس میں ضرور موجودہیں جو تقریباً ۴۹سورتوں کی ہیں جن کی آخری سورۃ الطور ہے۔ ڈاکٹر امتیاز عرشی نے اس کی تحقیق کی اور رامپور ہندسے شائع کرایا۔ بعد میں یہ کتاب دار الکتب العلمیۃ بیروت سے سن ۱۴۰۳ھ میں طبع ہوئی۔

اجزاء:
یہ مخصوص ابواب مثلاً نماز، جہاد، ایمان، زکوۃ، اموال، قیام اللیل، نکاح، نذور، زہد، استئذان، ذکر، دعاء، بر وصلہ رحمی پر جمع شدہ احادیث تھیں جو ان دونوں صدیوں میں بکثرت لکھی گئیں۔

خصوصیات:
ان کتب کی خصوصیات یہ تھیں:

ٖٖ٭…صحابہ کرام کی روایت کردہ مسند ومرفوع احادیث ان میں آگئیں۔

٭…صحابہ کرام کے فتاوی اور استنباطات بھی ان میں جگہ پاگئے۔

٭…کبار تابعین کی مسند مرفوع روایات بھی ان کتب میں شامل ہوگئیں۔

٭…ان کے فتوی ، اقوال اور استنباطات بھی ان کتب میں لکھ دئے گئے۔

٭…ان روایات میں تصحیح وتضعیف کا اصول نہ اپنایا گیا۔ محض جمع وتدوین مواد مقصد تھا تاکہ اس کام کے بعد اس کی تصحیح وتضعیف کی طرف توجہ دی جائے۔یہی وہ زمانہ ہے جس میں نقد حدیث شروع ہوئی۔اور اگلی وپچھلی کتب حدیث کے درمیان ایک Comparative Study کا آغاز ہوا۔۔جسے پڑھ کر وہ تمام ابہام وشکوک دور ہوسکتے ہیں جن کا اسیر آج کا متأثر طبقہ ہے۔تاکہ کتب سنت کے علمی وتحقیقی مناہج اور محدثین کرام کے تنقیدی اسلوب کی روشنی میں یہ موضوع سمجھا جائے۔

تبصرہ:
اسلامی مملکت میں پھیلے علماء کی کتب اور روایات اس طرح ان مجموعوں میں جمع ہوگئیں جو تحریری اور زبانی طور پربالآخر جمع وتدوین کے مراحل میں داخل ہوگئیں۔ گو ان سب روایات کا سلسلہ اوپر رسول ﷺ یاصحابی تک ایک ہی ہوجاتاہے اور یوں اوپر جاتے جاتے احادیث کی تعداد سمٹتی جاتی ہے۔مگرجس راوی نے بھی حدیث روایت کی اس کے بے شمار فوائد ہوئے۔ مثلاً: اس علاقے میں پھیلی روایات اور ان کی اسانید کا علم ہوا۔ علماء حدیث کی علمی سرگرمیوں سے آگاہی ہوئی۔ صحیح وضعیف اور موضوع احادیث بھی قید تحریر میں آگئیں جن میں تمیز کرنا آسان ہوگیا۔ہر راوی کے بارے میں علماء حدیث نے اپنی آنکھوں دیکھی یا کانوں سنی حقیقت بھی لکھی۔ جس سے علماء کو مزید غورو خوض کا موقع ملا اور بتدریج اصطلاحات ِحدیث متداول ہونے لگیں۔روافض ، معتزلہ، خوارج، ناصبی، قدری اور زنادقہ کی روایات اور اس میں پروئی سوچ کا علم ہوا۔ان فرقہ پرستوں نے بھی اپنی کتب ِحدیث لکھیں مگر محدثین انہیں خاطر میں نہ لائے جیسے کوئی مستشرق یا منکر ِکتاب، حدیث لکھے تو مسلمان اس کی طرف متوجہ نہیں ہوتے یا قرآن کریم کے تراجم قادیانی یا یہودی وعیسائی لکھیں تو مسلمان ان پر اعتماد نہیں کرتے۔

٭… احادیث کا جمع کرنا بلا شبہ بڑا علمی کام تھا۔مگر ان میں صحیح وضعیف کا معیار قائم کرنا اس سے بڑا علمی اور مشکل کام تھا۔کیونکہ رواۃ حدیث کے حالات اور ان کی ذہنی استعداد ، نیز ان کی عادات واطوار معلوم کرنا محدثین نے ضروری جانا تاکہ ہر راوی کی روایت کو علم واصول کی بنیاد پر قبول یا رد کیا جائے۔آپ ﷺ نے اس تاکید کے ساتھ یہ دعا دی تھی کہ جو میری احادیث غور سے سنے، انہیں بخوبی یاد کرے، پھر انہیں آگے پہنچائے اللہ تعالیٰ اسے تروتازہ رکھے۔ یہی رسول اللہ ﷺ کی سند تھی کہ میری احادیث کا پھیلاؤ اہل علم کے ہاتھوں ہو تاکہ امت کو یکساں سلیقۂ تعلیم مل جائے۔ قرآن کریم کو بھی آخرلکھنے یا لکھوانے کی کوئی سند الہی تو نہ تھی مگر اسے بھی مسلمانوں نے اپنی فراست سے کتابی شکل دی۔ اگر قرآن کریم کو مسلمانوں کی انفرادی کوشش کے نتیجے میں قبول کیا جاسکتا ہے کہ واقعی یہ اللہ کا کلام ہے تو پھر ذہن میں یہ شک کیوں آئے کہ احادیث زبانی طور پر منتقل جب ہوئی ہوں گی تو کیا معلوم راوی کے الفاظ وہ نہ ہوں جو اس کے استاذ کے تھے؟ کیا یہی شک قرآن کریم کے بارے میں نہیں کیاجاسکتا؟ مزید وضاحت آگے بھی آرہی ہے۔ صحابہ کرام نے بھی آیات کے رد وقبول کا دارومدار اپنی ذاتی بصیرت کو بنایا تھا جو سب انفرادی کوششیں ہی تھیں اور جنہیں اللہ ورسول نے کوئی سند عطا نہیں کی ہوئی تھی۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
٭…دین ایسی چیز نہیں جو بے عمل ، بدکردار یا جاہل لوگوں کے ذریعے مسلمانوں کو منتقل ہوا ہو۔ الحمد للہ ہر دور میں سینکڑوں علماء، فقہاء، محدثین اور مفسرین اس کے محافظ رہے ہیں۔ ایک لمبی قطار ہے صحابۂ رسول کی، تابعین کی اور تبع تابعین کی۔ جسے پیارے رسول نے خیر القرون سے یاد فرمایا ہے۔اس منتقلی کا اپنے آپ سے یا اپنے دور سے تقابل مت کیجئے۔ہمارے دور میں بے شمار ایسے لوگ ہیں جو بات کو مروڑ کر لکھ دیتے ہیں، غلط سمجھتے ہیں، تحریف کرتے ہیں جھوٹ بولتے اور لکھتے اور اپنا چھوٹاقد بڑھانے کی کوشش کرتے ہیں۔ قرآن وسیرت ِرسول سے اور اہلِ دین سے بغض ، کینہ وعناد ان کے دل میں کوٹ کوٹ کے بھرا ہوا ہے۔ میڈیا پر بیٹھے جنگ لڑتے ہیں اور اتنا جھوٹ بولتے ہیں کہ وہ حقیقت نظر آنے لگتا ہے۔ کیا یہ سب حقیقت ہے؟ یا جھوٹ سچ کا کوئی معیار ہے؟ محدثین کرام نے نااہل لوگوں کو ہی چلتا کیا ہے اور جن کرداروں کو پیش کیا ہے کیا ان کی سوانح حیات میں اس کے علاوہ کچھ اور بھی ہے؟

٭… الحمد للہ صحابہ کرام نے اور ان کے بعد کی نسلوں نے رسول اکرم ﷺ کی قولی احادیث کو لفظ بہ لفظ یاد کیا ہے۔ رہیں فعلی اور تقریری احادیث، جو ذخیرہ ٔحدیث میں تقریباً پچھتر فی صد ہیں انہیں ظاہر ہے صحابہ کرام نے اپنے الفاظ دینا تھے۔ان میں کوئی تضاد نظر نہیں آتا۔ محض سمجھنے کی ضرورت ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
٭… حدیث کے بارے میں معترضانہ گفتگو کرنے سے بہترہے کہ عیسائیوں کی انجیل پر یہ لوگ لکھ ڈالتے جسے کم از کم خدمت دین تو کہا جاسکتا۔ عیسائی حضرات نے اپنی بائیبل کے ساتھ جو کچھ کیا آج یہ انہی کے اندر کے سوالات ہیں:Who wrote the Bible? یا What Did Jesus really Say? مگر پھر بھی انہوں نے سینٹ پال کے خطوط کو جو سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کے آسمان پہ اٹھ جانے کے برسہا برس بعد لکھے تھے۔Holy قرار دیا اور بائیبل کا حصہ بنادیا۔مگر حیرت ہے کہ اس آگاہی کے باوجود بھی عیسائی مشنریز اس کی اندھی قائل ہیں اور اپنے اداروں، جامعات ، سکولوں اور عبادت گاہوں میں کئے گئے کاموں پر مفتخر ہیں۔ کیا ہم مسلمانوں نے ایسا سلوک اپنے دین کے ساتھ کیا؟ لینن ، مارکس اور ماؤ کے ملحدانہ نظریات تو الحمد للہ بڑی ذلت کے ساتھ رخصت ودفن ہوگئے ۔اس کے بعد چاہئے تویہ تھا کہ یہ لوگ توبہ وانابت الی اللہ کرتے مگر مقام حیرت ہے کہ اب بھی جھوٹے سہاروں پر جینے میں انہیں مزہ آتا ہے۔مرعوبیت کی حد یہ ہے کہ اپنے دینی شعائر پر دوسروں کے سامنے یہ لوگ جھینپتے ہیں اوران کی تقلید کرتے ہوئے دین اسلام کے معترض بن جاتے ہیں۔

٭٭٭٭٭​


حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم -حقیقت، اعتراضات اور تجزیہ
 
Top