- شمولیت
- اپریل 27، 2013
- پیغامات
- 26,584
- ری ایکشن اسکور
- 6,762
- پوائنٹ
- 1,207
مستشرقین کی عیاری:
امام مرحوم کے اس قول میں انہوں نے لفظ
کِتَابَۃِالأَحَادِیْثِ
کا استعمال کیا جسے مستشرقین نے بڑی عیاری سے تحریف کرکے اس کا معنی بگاڑ دیا:
إِنَّ ہٰؤُلاَئِ الأُمَرَائُ أَکْرَہُونَا عَلَی کِتَابَۃِ الأَحَادِیثِ۔
کو
کِتَابَۃِ أَحَادِیث
بغیر الف لام کے لکھ کر اس کا معنی یہ کردیاکہ ان امراء نے ہمیں مجبور کیا کہ ہم احادیث کو گھڑیں۔اور یوں امام محترم پر فرد جرم عائد کردی گئی کہ یہی صاحب ہیں جنہوں نے احادیث کو اپنی طرف سے لکھ دیا۔یہی تو وہ صفائی ہے جسے ہمارا دانش ور سمجھ نہ سکا اور اپنی دانش کو غیروں کے حوالے کرکے اپنی دانش کا ماتم کروا رہا ہے۔( مقدمہ السُّنَّۃُ وَمَکَانَتُہَا فِی التَّشْرِیْعِ الِإسلاَمِی از مصطفی سباعی)
٭…علماء نے سیدنا عمربن عبد العزیز ؒکی اس کوشش کو تدوین حدیث کی اولین کوشش قرار دیاہے اور اس عبارت کو اپنے ہاں بار بار لکھا ہے:
تدوین حدیث کی ابتداء پہلی صدی ہجری کے اختتام پر سیدنا عمربن عبد العزیز ؒکے عہد ِمبارک میں ہوئی۔ مسلم تاریخ میں دو دَو ربہت اہم ہیں کہ جن میں دین کے بنیادی مصادر کی تدوین سرکاری سطح پر ہوئی اور اہل لوگوں کی طرف سے ہوئی۔سرکار نے بھی مسلمان ہونے کا فرض نبھایا ،کوئی جرم کیا نہ ہی کسی پر زبردستی کی۔ہمارے لئے ایسی حکومت ان حکومتوں سے صدہا اعتبار سے بہتر اور قابل فخر ہے جو اسلام کا نام لے مگر خدمت دین سے بدکے۔
ان کے بعدپہلے عباسی خلیفہ منصورنے امام مالک علیہ الرحمہ سے استدعا کی کہ حدیث رسول پر ایک ایسی معتدل کتاب لکھیں جس میں مسائل کو احسن طریقے پر پیش کیا گیا ہو۔ امام مالک رحمہ اللہ نے موطأ لکھ ڈالی۔
ہارون الرشید ۔۔ جن کے بارے میں مورخین اور اہل علم کی رائے ہے اگر وہ خلیفہ نہ بنتے تو ایک بہت بڑے صاحب علم ہوتے۔۔نے خود امام مالکؒ کی خدمت میں حاضر ہوکر موطأ کاسماع کیا اور موطأ کو دستور مملکت بنانے کی درخواست کی۔ جو امام مالکؒ نے بہت اچھی توجیہ بیان کرکے رد کردی۔ ہارون الرشیدکے دونوں شاہزادے امین اور مامون بھی امام مالک ؒکے شاگرد رہے۔گویا یہ سرکاری سرپرستی حدیث رسول کو حاصل رہی۔ اور بلاشبہ ایسے حکمران خوش قسمت ہیں جنہوں نے حب اسلامی سے سرشار ایسے دینی اور علمی کاموں کی سرپر ستی کی۔اور اپنا نام اسلام کے محسنوں میں شمار کراگئے۔
٭… یورپ اور عیسائی دنیا کی حکومتیں تقریباً ہر دور میں اپنے سکالرز کوحکومتی مراعات دیتی رہیں جن کی کوشش یہ رہی کہ کسی طرح ان کے سکالرز بائیبل کا ایک صحیح متفقہ نسخہ تیار کرسکیں مگر افسوس ان کی ہر نئی تحقیق ، پہلی تحقیق کی نفی کرتی رہی۔ان یورپین سرکاری سرپرستی کو نہ مستشرق نے معیوب سمجھا اور نہ ہی ان سے متأثر حضرات نے۔ بس اعتراض یا تکلیف ہے تو صرف یہی کہ مسلم حکمرانوں نے یہ کام کیوں کردکھایا؟ آج بھی اللہ کے فضل وکرم سے مسلم حکمران ایسی دینی خدمات سے غافل نہیں۔اور نہ ہی ان کی راہ میں کوئی رکاوٹ ہے۔بے شمار ایسے ادارے ہیں جو حدیثی خدمات کے لئے اپنی بساط بھر کوشش کررہے ہیں۔
امام مرحوم کے اس قول میں انہوں نے لفظ
کِتَابَۃِالأَحَادِیْثِ
کا استعمال کیا جسے مستشرقین نے بڑی عیاری سے تحریف کرکے اس کا معنی بگاڑ دیا:
إِنَّ ہٰؤُلاَئِ الأُمَرَائُ أَکْرَہُونَا عَلَی کِتَابَۃِ الأَحَادِیثِ۔
کو
کِتَابَۃِ أَحَادِیث
بغیر الف لام کے لکھ کر اس کا معنی یہ کردیاکہ ان امراء نے ہمیں مجبور کیا کہ ہم احادیث کو گھڑیں۔اور یوں امام محترم پر فرد جرم عائد کردی گئی کہ یہی صاحب ہیں جنہوں نے احادیث کو اپنی طرف سے لکھ دیا۔یہی تو وہ صفائی ہے جسے ہمارا دانش ور سمجھ نہ سکا اور اپنی دانش کو غیروں کے حوالے کرکے اپنی دانش کا ماتم کروا رہا ہے۔( مقدمہ السُّنَّۃُ وَمَکَانَتُہَا فِی التَّشْرِیْعِ الِإسلاَمِی از مصطفی سباعی)
٭…علماء نے سیدنا عمربن عبد العزیز ؒکی اس کوشش کو تدوین حدیث کی اولین کوشش قرار دیاہے اور اس عبارت کو اپنے ہاں بار بار لکھا ہے:
تدوین حدیث کی ابتداء پہلی صدی ہجری کے اختتام پر سیدنا عمربن عبد العزیز ؒکے عہد ِمبارک میں ہوئی۔ مسلم تاریخ میں دو دَو ربہت اہم ہیں کہ جن میں دین کے بنیادی مصادر کی تدوین سرکاری سطح پر ہوئی اور اہل لوگوں کی طرف سے ہوئی۔سرکار نے بھی مسلمان ہونے کا فرض نبھایا ،کوئی جرم کیا نہ ہی کسی پر زبردستی کی۔ہمارے لئے ایسی حکومت ان حکومتوں سے صدہا اعتبار سے بہتر اور قابل فخر ہے جو اسلام کا نام لے مگر خدمت دین سے بدکے۔
ان کے بعدپہلے عباسی خلیفہ منصورنے امام مالک علیہ الرحمہ سے استدعا کی کہ حدیث رسول پر ایک ایسی معتدل کتاب لکھیں جس میں مسائل کو احسن طریقے پر پیش کیا گیا ہو۔ امام مالک رحمہ اللہ نے موطأ لکھ ڈالی۔
ہارون الرشید ۔۔ جن کے بارے میں مورخین اور اہل علم کی رائے ہے اگر وہ خلیفہ نہ بنتے تو ایک بہت بڑے صاحب علم ہوتے۔۔نے خود امام مالکؒ کی خدمت میں حاضر ہوکر موطأ کاسماع کیا اور موطأ کو دستور مملکت بنانے کی درخواست کی۔ جو امام مالکؒ نے بہت اچھی توجیہ بیان کرکے رد کردی۔ ہارون الرشیدکے دونوں شاہزادے امین اور مامون بھی امام مالک ؒکے شاگرد رہے۔گویا یہ سرکاری سرپرستی حدیث رسول کو حاصل رہی۔ اور بلاشبہ ایسے حکمران خوش قسمت ہیں جنہوں نے حب اسلامی سے سرشار ایسے دینی اور علمی کاموں کی سرپر ستی کی۔اور اپنا نام اسلام کے محسنوں میں شمار کراگئے۔
٭… یورپ اور عیسائی دنیا کی حکومتیں تقریباً ہر دور میں اپنے سکالرز کوحکومتی مراعات دیتی رہیں جن کی کوشش یہ رہی کہ کسی طرح ان کے سکالرز بائیبل کا ایک صحیح متفقہ نسخہ تیار کرسکیں مگر افسوس ان کی ہر نئی تحقیق ، پہلی تحقیق کی نفی کرتی رہی۔ان یورپین سرکاری سرپرستی کو نہ مستشرق نے معیوب سمجھا اور نہ ہی ان سے متأثر حضرات نے۔ بس اعتراض یا تکلیف ہے تو صرف یہی کہ مسلم حکمرانوں نے یہ کام کیوں کردکھایا؟ آج بھی اللہ کے فضل وکرم سے مسلم حکمران ایسی دینی خدمات سے غافل نہیں۔اور نہ ہی ان کی راہ میں کوئی رکاوٹ ہے۔بے شمار ایسے ادارے ہیں جو حدیثی خدمات کے لئے اپنی بساط بھر کوشش کررہے ہیں۔