- شمولیت
- اپریل 14، 2011
- پیغامات
- 8,771
- ری ایکشن اسکور
- 8,496
- پوائنٹ
- 964
تذکرہ اسلاف (10 )
جمع و ترتیب : عبدالرحمن ثاقب
تاریخ انسانیت کے صفحہ قرطاس کا مطالعہ کیا جائے تو اس بات کا پتہ چلتا ہے کہ کتنی ہی ایسی نامور شخصیات اس کارخانہ عالم میں تشریف لائیں اور انہوں نے کائنات کے نظام میں عظیم انقلاب برپا کردیے اور وہ بےسروسامانی کے عالم میں بڑے بڑے جابروں اور ظالموں سے ٹکرائے اور ان کو ریزہ ریزہ کردیا. ڈر اور خوف کی ماری ہوئی قوم میں ایسی روح پھونکی کہ وہ قوم دوسری قوموں سے ممتاز نظر آنے لگی. ہم جب عبقری شخصیات کا مطالعہ کرتے ہیں تو جسم میں ایک تلاطم پیدا ہوجاتا ہے کہ ہم بھی اپنے اسلاف کی طرح دین حنیف کےلیے کچھ کر جائیں.
علامہ احسان الہی ظہیر 31 مئی 1945 کو سیالکوٹ کے محلہ احمدپورہ میں حاجی ظہور الہی کے گھر صبح کے وقت پیدا ہوئے. آپ کا نام مولائےمیر علامہ محمد ابراہیم میر سیالکوٹی رحمہ اللہ کے مشورہ سے احسان الہی رکھا گیا اور عقیقہ مسنونہ کیا گیا. لیکن کس کو علم تھا کہ یہ بچہ جوان ہو کر مفکراسلام,مجسمہ عزم مصمم ,پیکرشجاعت اور اسلام کی آواز بن کر سوئی ہوئی قوم کو جھنجھوڑ کر بیدار کرے گا اور اس قوم کو روحانیت کا درس دے کر ہر باطل قوت سے ٹکرا جانے کا سبق سکھلائے گا اور آگے چل کر خود شہید اسلام بن جائے گا.
شخصیت :-
امام العصر شہید ملت حضرت علامہ احسان الہی ظہیر رحمۃ اللہ علیہ کی شخصیت کسی تعارف کی محتاج نہیں ہے آپ ایک ہمہ گیر شخصیت کے مالک تھے. آپ کی آفاقیت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں تھی آپ نہ صرف پاک و ہند کے عظیم سرمایہ تھے بلکہ عالم اسلام کی متاع عزیز تھے. اللہ رب العزت نے آپ کو شاہین کا تجسس, عقاب کی نگاہ, شیر کی گرج, چیتے کا سا عزم, اسلامی جرنیلوں کی شجاعت, اہل اللہ کا شوق, اہل فقر کا احساس, رسول عربی صلی اللہ علیہ و سلم و صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی حددرجہ محبت ,مسلک محدثین کی علمبرداری, پہاڑوں کا وقار, سمندر کا تموج, دریاؤں کاشور, آبشاروں کی خروش, پھولوں کی مہک اور طوفانوں کی ہیبت عطاء فرمائی تھی.
تعلیم :-
علامہ احسان الہی ظہیر شہید رحمہ اللہ نے ابتدائی تعلیم محلہ کے اسکول سے مڈل تک حاصل کی. اللہ تعالی نے آپ کو ذہانت و برجستہ گوئی, جرأت و شجاعت کا وافر ملکہ عطاء فرمایا تھا. جس سے آپ کے اساتذہ آپ کے بارے رطب اللسان رہتے تھے. آپ کے والد گرامی جو کہ نہایت متقی, زاہد اور شب زندہ دار تھے انہوں نے آپ کو قرآن مجید حفظ کرنے پر لگادیا تو آپ نے صرف نو سال کی عمر میں حفظ مکمل کرکے اپنی ذہانت کا لوہا منوایا .آپ کے والد گرامی کو چونکہ علم اور اہل علم سے محبت تھی اور ان کی مجالس میں اٹھتے بیٹھتے تھے اس لیے وہی علم کا نور اپنے گھر میں پیدا کرنا چاہتے تھے علماء کے مشورہ سے علامہ شہید کو جامعہ اسلامیہ گوجرانوالہ میں داخل کروایا. آپ بڑی حساس طبیعت کے مالک تھے اپنے فارغ وقت کو ضایع کرنے کی بجائے مطالعہ کیا کرتے تھے پھر علماء کی مجلس میں شریک ہوتے اللہ تعالی کی طرف سے ودیعت کیےگئے گوناگوں اوصاف کو استعمال میں لاتے ہوئے اسلاف کی راہ پر چلنے کے خواہش مند کر درس نظامی جو کہ آٹھ سالہ نصاب ہے چھ سال میں مکمل کیا. حضرت علامہ شہید نے علم میں رسوخ پیدا کرنے کے لیے ہر فن کی ایک بنیادی کتاب زبانی یاد کی تھی. چنانچہ نحو میں " الفیہ " علم الصرف میں " صرف میر " اصول تفسیر میں " الفوزالکبیر " مصطلح الحدیث میں "نخبۃ الفکر " معانی میں " تلخیص المفتاح " منطق میں " مرقاۃ " زبانی یاد کی تھی. آپ زمانہ طالب علمی میں گوجرانوالہ کے علمی حلقون میں حاضری دیتے اور ان سے اپنی علمی برتری کا لوہا منواتے تھے. آپ نے صرف دین کی تعلیم ہی حاصل نہیں کی بلکہ عربی, اردو اور فارسی پر عبور حاصل کرنے کے لیے پنجاب یونیورسٹی سے فاضل عربی, فاضل اردو اور فاضل فارسی کے امتحان نمایاں پوزیشن سے پاس کیے اور ان تینون زبانون کے مدوجزر اور نشیب و فراز سے خوب واقفیت حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ ان میں ایم اے بھی کیا. اس طرح سے انگلش میں بھی ایم اے کیا اور قانون کی ڈگری بھی حاصل کی. آپ نے اپنی علمی تشنگی بجھانے اور مزید رسوخ و پختگی اور درائے علم میں مزید غوطہ زن ہونے کے لیے سرزمین حجاز کا سفر کیا اور عالم اسلام کی عظیم دانش گاہ جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ میں داخلہ لیا اور وہاں کے علمی ماحول سے خوب استفادہ کیا.
اساتذہ کرام :-
علامہ احسان الہی ظہیر شہید نے جن پاکستانی عبقری رجال سے اپنی علمی پیاس بجھائی ان کے اسماء گرامی یہ ہیں. شیخ الحدیث ابوالبرکات, حافظ محمد محدث گوندلوی, شیخ المنقولات والمعقولات مولانا شریف اللہ خان, شیخ الحدیث حافظ محمد عبداللہ بڈھیمالوی اور شیخ الحدیث مولانا محمد اسماعیل سلفی رحمہم اللہ علیہم اجمعین کے اسماء گرامی قابل ذکر ہیں ان کے علاوہ مدینہ یونیورسٹی کے جن اساتذہ کرام سے علمی اکتساب کیا ان میں مجسمہ زہدوورع شیخ ابن باز اور محدث العصر علامہ ناصرالدین البانی رحمہمااللہ سرفہرست ہیں.
اعزاز :-
حضرت علامہ شہید نے مدینہ یونیورسٹی میں ذہانت و فطانت کی وجہ سے یونیورسٹی کے تمام اعزازات حاصل کیے مدینہ یونیورسٹی میں ہر سال اپنی کلاس میں ٹاپ کرتے رہے آخری سال کے امتحان میں 92 ممالک کے طلبہ میں علامہ شہید نے 93.50 نمبر حاصل کرکے پہلی پوزیشن حاصل کی.
اسی طرح سے مدینہ یونیورسٹی میں " الفرق والملل " کے موضوع پر لیکچر ہوتا تھا جب قادیانیت کی باری آئی تو اساتذہ نے حضرت علامہ شہید سے کہا کہ آپ پاکستانی ہیں اور وہاں کے سلفی علماء نے اس فتنہ کی سرکوبی کےلیے عظیم جدوجہد کی ہے. لہذا اس عنوان پر آپ لیکچر دیں آپ نے اس پیشکش کو قبول کیا اور قادیانیوں کے پس منظر, تہہ منظر اور پیش منظر, ملحدانہ افکار اور لن ترانیوں کو خوب آشکار کیا اور یہ پہلی اور آخری روایت تھی کہ مدینہ یونیورسٹی کے طالب علم کو دوران تعلیم اساتذہ کی صف میں شمار کیا گیا. ان دروس کو جمع کرکے آپ نے " القادیانیت " کے عنوان سے کتاب ترتیب دی. جب 1967 میں یہ کتاب چھپنے لگی تو پبلشر نے علامہ صاحب کو مشورہ دیا کہ اگر اس کتاب پر فاضل مدینہ یونیورسٹی کے الفاظ لکھ دیے جائیں تو کتاب کی اہمیت میں خاطر خواہ اضافہ ہوگا. آپ نے یہ بات وائس چانسلر مجسمہ زہد و تقوی علامہ ابن باز رحمہ اللہ سے کی تو انہوں نے اجازت دے دی علامہ صاحب نے کہا کہ! اے شیخ محترم اگر میں فیل ہوگیا ؟تو شیخ محترم نے فرمایا کہ میں اپنا عہدہ چھوڑ دوں گا.
مسلکی حمیت و غیرت :-
شہید ملت علامہ احسان الہی ظہیر رحمہ اللہ کے دل میں مسلک اہل حدیث کی حمیت و غیرت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی. اس سلسلہ میں آپ کسی بھی مداہنت کا رویہ اپنانے کےلیے کبھی بھی تیار نہ ہوتے تھے بلکہ اپنے مسلک اور اسلاف کے بارے میں ایک حرف سننا بھی گوارہ نہ کرتے تھے. غالباً 1984 کی بات ہے عظیم مادرعلمی جامعہ ابی بکر الاسلامیہ کراچی کے زیراہتمام تین روزہ سیدین شہیدین کانفرنس منعقد ہوئی حضرت علامہ شہید بھی اس کانفرنس میں مدعو تھے اور جامعہ کی مہمان خانہ میں تشریف فرماتھے اس دوران ڈاکٹر اسراراحمد صاحب تقریر کررہے تھے انہون نے دوران تقریر سیدین شہیدین کی تحریک پر نکتہ چینی کی علامہ صاحب فورا اٹھے اور اسٹیج پر آکر بیٹھ گئے حالانکہ اس وقت آپ کے خطاب کا وقت نہ تھا. ڈاکٹر صاحب کے فورا بعد علامہ صاحب مائیک پر تشریف لائے اور اس دوران ڈاکٹراسرار صاحب نے چلے جانے میں ہی عافیت سمجھی علامہ صاحب نے اس وقت فرمایا کہ کاش! ڈاکٹر صاحب بیٹھتے اور میری تقریر سنتے تاکہ انہیں پتہ چلتا کہ سیدین شہیدین کی تحریک جہاد کے ورثاء زندہ موجود ہیں. اسی طرح سے ایک دفعہ قاری طیب مرحوم مہتمم دارالعلوم دیوبند سعودیہ تشرہف لے گئے اور مدینہ یونیورسٹی کے طلبہ سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے اہل حدیث کے ساتھ ہم آہنگی کا اظہار کیا علامہ شہید فورا اٹھ کھڑے ہوئے اور کہا کہ 1954 مین دارالعلوم دیوبند سے جس کے آپ مہتمم تھے اور اب بھی ہیں 60 طلبہ کو محض اہل حدیث ہونے کی وجہ سے نکال دیا گیا یہ کیسی اہلحدیثوں کے ساتھ ہم آہنگی ہے اس طرح حقیقت سے پردہ اٹھ گیا اور ان کے خطاب کا رنگ پھیکا پڑ گیا.
میدان خطابت کا شہسوار :-
علامہ احسان الہی ظہیر شہید جب جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ سے فراغت حاصل کرکے ملک واپس لوٹے تو انہی ایام میں لاہور کی مشہور و معروف اور قدیمی مسجد چینیاں والی کا منبر و محراب کسی خطیب اسلام کا منتظر تھا. مفکر اسلام شیخ الحدیث مولانا محمد اسماعیل سلفی رحمۃ اللہ علیہ آپ کو شیخ محمد اشرف کے پاس لے گئے اور کہا کہ میں ایک ہیرا تمہارے پاس لایا ہوں اس کی حفاظت کرنا ان شاءاللہ ایک وقت آئے گا اور پورا ملک ان کی ضیاءپاشیوں سے مستفیض ہوگا. اور آپ اس مسجد کے خطیب مقرر ہوگئے. رب العالمین نے جہاں ذہانت و کردار و گفتار سے نوازا تھا وہاں خطابت کا حظ وافر بھی عطاء کیا تھا. آپ جب خطاب کرتے تو گویا شیر گرج رہا ہو. ذہانت و وجاہت, جرات, فصاحت و بلاغت, ادب, بدیہہ گوئی, حاضر جوابی, بےباکی, سیرت و کردار کی بلندی, زبان پر دسترس یہ تمام چیزیں آپ کی خطابت کے اجزائے ترکیبی تھے. مسجد چینیانولی میں خطابت کرتے ابھی تھوڑا ووت گذرا تھا کہ مسجد تنگی داماں کا شکوہ کرتے نظر آئی.
1968 میں جب ایوب خاں کی آمریت میں قادیانی چھائے ہوئے تھے اور آغا شورش کاشمیری کو پابند سلاسل کردیا گیا تو خطیبوں کی زبانیں گنگ ہوگئیں تھیں. اس ہو کے عالم میں علامہ شہید نے مسلسل چھ خطبے ختم نبوت کے موضوع پر دیے بس آپ کا اس موضوع پر خطاب کرنے کی دیر تھی کہ کارکنوں کے دلوں میں مسرت کی لہر دوڑ گئی اور پھر دیکھا دیکھی ہر کوئی میدان میں اتر آیا.
1968 کا واقعہ ہے آپ چینیانوالی مسجد کے منصب خطابت پر فائز تھے ان دنوں فیلڈ لارشل ایوب خان کے خلاف تحریک چل رہی تھی اقبال پارک کی نماز عید کی امامت مسجد چینیانوالی کے خطیب کی حیثیت سے آپ کو وراثتا ملی تھی اقبال پارک میں نماز عید کا اجتماع مولانا سید محمد داؤد غزنوی رحمہ اللہ کے زمانہ سے ہی لاہور میں عید آزادگان کا اجتماع کہلاتا تھا اور اس کا شمار لاہور میں نماز عید کے چند بڑے اجتماعات میں ہوتا تھا. 1968 مین جب اس ملک کے عوام فیلڈ مارشل ایوب خان سے انتہائی برگشتہ تھے اور ان کی حکومت کے خلاف تحریک چلا رہے تھے عید سے چند روز پہلے مولانا عبیداللہ انور کے خلاف پولیس کاروئی کے باعث لاہور شہر میں حکومت کے خلاف شدید غیظ و غضب کا عالم تھا ہیجان تھا اور لوگ توقع رکھتے تھے کہ عید آزادگان کے خطبہ میں ایوب خان کی حکومت کو ہدف تنقید بنایا جائے گا اس سلسلہ میں آپ کے پاس عید سے پہلے ہی لوگوں کے وفود آنا شروع ہوگئے بعض لوگوں کا خیال تھا کہ چونکہ آپ سیاسی آدمی نہیں ہیں اگر آپ اجازت دیں تو اس مرتبہ وہ عید آزادگان کے خطبہ کےلیے کسی ایسی شخصیت کو لے آئیں جو اس عیدگاہ کے مقام و منصب کا حق ادا کرسکے اس پر آپ نے ان دوستوں سے کہا کہ وہ مطمئن رہیں مولانا داؤد غزنوی کی روایات کو قائم رکھا جائے گا. نماز عید کے خطبہ میں آپ نے جو تقریر کی اس کا تاثر اس قدر گہرا تھا کہ بہت سے لوگوں نے شدت جذبات میں آکر اپنے گریبان چاک کرلیے. آغاشورش کاشمیری مرحوم بھی نماز عید کا خطبہ سننے والوں میں موجود تھے. نماز عید کے بعد وہ آپ سے میاں عبدالمجید مالواڈہ بارایٹ لاء کے ہمراہ ملے اور کہنے لگے کہ میں خود بھی فن خطابت میں بہت دسترس رکھتا ہوں مگر میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ احسان الہی اگر تم آئندہ خطابت چھوڑ دو تو تمہاری صرف ایک تقریر سے تمہیں پاک و ہند کے چند بڑے خطیبوں میں شمار کیا جاسکے گا.
علامہ شہید کی خطابت کی ایک خوبی یہ تھی کہ آپ بکھرے ہوئے مجمع کو چند لمحوں میں قابو کرلیتے تھے. ایک دفعہ مولانا محمد یوسف بنوری کی صدارت میں بادشاہی مسجد لاہور میں مجلس عمل تحفظ ختم نبوت کا جلسہ تھا سید ابوالاعلی مودودی کی تقریر کے دوران مولانا مفتی محمود صدر دروازے سے مسجد میں داخل ہو کر اسٹیج کی طرف بڑھے مفتی صاحب ذوالفقار علی بھٹو کو عام انتخابات میں شکست دینے, اپوزیشن کا قائمقام قائد حزب اختلاف ہونے اور پارلیمنٹ میں مرزا ناصر قادیانی کی تقریر کا موثر جواب دینے کی وجہ سے عوام میں خاصے مقبول تھے لہذا لوگ مولانا مودودی کی تقریر سننے کے بجائے مفتی صاحب کو دیکھنے کےلیے کھڑے ہوگئے اسٹیج سیکریٹری اور دیگر حضرات نے لاکھ کوشش کی کہ سامعین آرام سے بیٹھ جائیں تاکہ لوگ مولانا مودودی کی آرام سے سنیں اس صورتحال پر جماعت اسلامی اور اسلامی جمعیت طلبہ کے کارکن خاصے برہم تھے اس طرح سے جلسہ بد نظمی کا شکار ہوگیا. پھر اچانک حضرت علامہ شہید مائیک پر تشریف لائے اور شیر کی طرح گرج کر دومنٹ میں جلسہ کنٹرول کرلیا یہ آپ کی خطابت کی اثر آفرینی تھی.
میدان صحافت میں :-
علامہ احسان الہی ظہیر شہید مختلف ادوار میں ہفت روزہ " الاعتصام " لاہور, ہفت روزہ "اہل حدیث " لاہور اور ماہنامہ" ترجمان الحدیث " لاہور کے مدیر رہے. آپ نے ہفت روزہ اہل حدیث میں زوردار مضامین اور اداریے لکھ کر قادیانیوں کی ناک میں دم کر دیا تھا قادیانی گروہ کے متعلق آپ کی معلومات نہایت وسیع تھیں. آپ کی تحریریں مرزائیوں کےلیے سوہان روح بن گئیں. آپ نے ختم نبوت پر " ترجمان الحدیث " میں جس انداز سے لکھا اور قادیانی راز افشاں کیے انہیں پڑھ کر قادیانی قلمکار ہمیشہ کےلیے خاموش ہوگئے. علامہ شہید سلجھے ہوئے عالمانہ انداز میں گفتگو کرتے اور اپنی بات آسانی سے سامعین کے گوش گذار کرتے آپ کی بات کو عام آدمی بھی اچھی طرح سے سمجھ لیتا.
میدان تصنیف :-
علامہ احسان الہی ظہیر شہید جس طرح سے میدان خطابت کے شہسوار تھے اسی طرح سے میدان تصنیف میں بھی اپنے ہم عصروں سے ممتاز نظر آتے ہیں. آپ نے عربی زبان میں " فرق " کے موضوع پر قلم اٹھایا اور ایسی اہم کتب تصنیف کیں کہ وہ کتب دنیا کے لیے مرجع و مصادر کی حیثیت ٹہریں کئی زبانوں میں ترجمے ہوئے اور دنیا کی بڑی بڑی یونیورسٹیوں مین بطور نصاب پڑھائی جاتی ہیں. کتب کے نام یہ ہیں. القادیانیۃ, البریلویہ, الشیعۃ والسنۃ, الشیعۃ و اھل البیت, الشیعۃ والتشیع, البھائیہ نقد و عرض, الاسماعیلیۃ, التصوف المنشاءوالمصادر, دراسۃ فی التصوف, مرزائیت اور اسلام, بین اھل الشیعۃ واھل السنۃ یہ کتب متعدد مرتبہ طبع ہو کر اہل علم سے داد تحسین وصول کرچکی ہیں.
میدان سیاست :-
حضرت علامہ شہید کو اللہ تعالی نے بےپناہ خوبیوں سے نوازا تھا. آپ بیک وقت مصنف, مولف, ادیب, مفکر, خطیب بے مثال, صحافی اور عالم باعمل ہونے کے ساتھ ساتھ سیاست کے میدان میں بھی کسی سے پیچھے نہ رہے. درحقیقت علامہ شہید نے میدان سیاست میں بھی اپنا لوہا منوایا اور آپ کی جماعت جمعیت اہل حدیث پاکستان بھی سیاسی میدان میں دیگر جماعتوں سے ممتاز نظر آتی ہے اور آپ نے قلیل عرصہ میں ملک کے طول و عرض میں سیاسی جلسہ ہائے عام منعقد کرکے یہ ثابت کردیا تھا کہ اہل حدیث پاکستان کی ایک بہت بڑی قوت ہے. آپ نے مرزائیوں کے خلاف تحریک میں بھرپور کردار ادا کیا اسی طرح تحریک بنگلہ دیش نامنظور میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا آپ نے تحریک استقلال میں باقاعدہ شمولیت اختیار کی اور مرکزی سیکریٹری اطلاعات مقرر ہوئے. اسی طرح سے 1973 میں ممتاز علی بھٹو نے سندہ میں لسانی فسادات کروائے تو آپ نے نوب زادہ نصراللہ خان اور دیگر سیاسی قائدین کے ساتھ مل کر سندہ کا بھر پور دورہ کیا اور حقیقت سے پردہ اٹھایا. آپ کو ملتان میں غلام مصطفی کھر کے حکم سے گرفتار کیا گیا اور ڈرایا دھمکایا گیا لیکن آپ کہتے رہے!
ہم قید و مشقت کیا سمجھین ہم طوق و سلاسل کیا جانے
اک ساز نغمہ پر گو ہم شور سلاسل کیا جانے
آپ نے بھٹو کے خلاف انتخابات میں حصہ لیا اور قومی اتحاد کی طرف سے ضلع قصورکے ایک دیہاتی حلقے سے امیدوار کے طور پر سامنے آئے.
جذبہ محبت رسول :-
علامہ احسان الہی ظہیر شہید سچے محب رسول صلی اللہ علیہ و سلم تھے آپ کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے محبت کا یہ عالم تھا کہ اکثر تقاریر میں سیرت طیبہ بیان کرتے ہوئے نظر آتے جناح ہال لاہور میں 1986 میں سیرت النبی صلی اللہ علیہ و سلم پر آپ کی تقریر اس کی بہترین مثال ہے جس میں آپ کی کئی بار شدت جذبات سے آنکھیں اشکبار ہوگئیں اور آواز بھی بھرا گئی.
جو کہا کر دکھایا :-
علامہ احسان الہی ظہیر شہید نے 1986 کو جناح ہال لاہور میں خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ " ہمارا راستہ دو طرف جاتا ہے مگر منزل ایک ہے یا سر بلند رکھ کر غازی بن کے جیئو یا سر کٹا کر شہید بن کر مرو " آپ جب تک زندہ رہے سربلند رہے اور جب گئے تو شہادت کا عظیم الشان تاج سر پر رکھ کر اس دنیاء فانی سے رخصت ہوئے.
جفا کی تیغ سے گردن وفا شعاروں کی
کٹی ہے بر سر میدان مگر جھکی تو نہیں
شریعت بل :-
بعض متعصب اور غیر شریعت کو شریعت ماننے والے مولویوں نے قومی اسمبلی میں شریعت بل پیش کیا تو علامہ شہید اس کی تحریر و تقرہر کے ذریعہ سے دھجیاں اڑائیں روزنامہ نوائے وقت نے آپ کا بھرپور موقف شایع کیا اسی طرح سے جنگ فورم کے مذاکرے میں بھی آپ پوری محفل پر چھاگئے.
جماعتی و تنظیمی زندگی :-
شہید ملت حضرت علامہ احسان الہی ظہیر تحریک اور جدوجہد پر یقین رکھتے تھے بھٹو دور میں تحریک استقلال میں شامل ہوئے 1977 کا الیکشن بھی اسی پلیٹ فارم سے لڑا. لیکن جب تحریک استقلال کے سربراہ ایئر مارشل اصغر خان پاکستان قومی اتحاد سے علیحدہ ہوئے تو حضرت علامہ شہید نے تحریک کو خیر باد کہہ دیا. ضیاءالحق کے دور کے ابتدائی سالوں میں مرکزی جمعیت اہل حدیث کے ساتھ چلتے رہے آپ چونکہ سبک رفتار تھے اور تھوڑے وقت میں زیادہ کام کرنا چاہتے تھے. اس کےلیے گوجرانوالہ میں اکابر اہل حدیث علماء کے مشورہ سے 1981 میں جمعیت اہل حدیث پاکستان کے نام علیحدہ جماعت بنائی. شیخ الحدیث مولانا محمد عبداللہ گوجرانوالہ امیر اور مولانا محمد حسین صاحب شیخوپوری ناظم اعلی بنائے گئے جنہوں نے کچھ ہی عرصہ بعد بوجوہ استعفی دیدیا تو جمعیت اہل حدیث کی مجلس شوری نے حضرت علامہ احسان الہی ظہیر شہید کو ناظم اعلی منتخب کرلیا. آپ نے اپنی قیادت میں علماء کو ایک نیا ولولہ اور نوجوانون کو حوصلہ دیا. حضرت علامہ شہید ابھی جرأت مندی اور حوصلہ مندی کے زینے چڑھ رہے تھے کہ مارچ 1986 کا عظیم سانحہ رونما ہوگیا.
شادی و اولاد :-
علامہ احسان الہی ظہیر شہید کی شادی محدث زماں حافظ محمد گوندلوی رحمۃ اللہ علیہ کی صاحبزادی سے ہوئی تھی.اللہ تعالی نے تین بیٹے اور پانچ بیٹیاں عطاء کیں تھیں. بیٹوں کے نام
حافظ ابتسام الہی ظہیر صاحب
حافظ ہشام الہی ظہیر صاحب
معتصم الہی ظہیر صاحب
آخری خطبہ جمعہ :-
علامہ احسان الہی ظہیر نے سعودیہ سے 1967 کو واپسی کے بعد جامع مسجد چینیانوالی میں خطبہ جمعہ کا آغاز کیا تھا اور مستقل طور پر یہاں خطبہ جمعہ ارشاد فرماتے رہے. جب 20 مارچ 1987 کو آخری خطبہ جمعہ جو کہ آپ کی زندگی کا بھی آخری خطبہ تھا. آپ نے خطبہ میں فرمایا کہ آئندہ خطبہ لارنس روڈ ہوا کرے گا تو ہزاروں سامعین اشکبار ہوگئے اور رونے لگے.
وفات :
23مارچ 1987 کو شہید ملت علامہ احسان الہی ظہیر قلعہ لچھمن سنگھ سیرت النبی صلی اللہ علیہ و سلم کانفرنس سے خطاب کرنے کے لیے تشریف لائے تو ہجوم عاشقاں دیدنی تھا آپ سے قبل خطیب ایشیا قاری عبدالحفیظ فیصل آبادی صاحب حفظہ اللہ خطاب کرچکے تھے اور خطیب اسلام مولانا حبیب الرحمن یزدانی رحمۃ اللہ علیہ خطاب کررہے تھے جب یزدانی صاحب مرحوم خطاب کرکے واپس جانے لگے تو علامہ شہید نے فرمایا کہ بیٹھ جاو اکٹھے چلیں گے اس کے بعد آپ نے شیر کی سی گرج کے ساتھ خطاب شروع کیا اور مخالفین اسلام اور حکمرانوں کو خوب رگیدا. اسی دوران کسی ظالم اور درندہ صفت, شقی القلب انسان نے ریموٹ کنٹرول بم چلادیا جس سے ایک قیامت بپا ہوگئی اور عالم اسلام یتیم ہوگیا اس دھماکہ میں آٹھ انسان فورا شہید ہوگئے جن میں شہید اسلام مولانا حبیب الرحمن یزدانی مفکر اسلام مولانا عبدالخالق قدوسی نوجوان قائد محمد خان نجیب رحمہم اللہ علیہم اجمعین سو سے زائد زخمی ہوگئے علامہ شہید کو فورا ہسپتال داخل کرادیا گیا دھماکے کی خبر سے عالم اسلام میں صف ماتم بچھ گئی انہی ایام میں والی حرمین شریفین شاہ فہد بن عبدالعزیز رحمہ اللہ لندن کے دورہ پر تھے انہوں نے پیشکش کی کہ علامہ صاحب کا علاج ریاض کے ملٹری ہسپتال میں کیا جائے سعودیہ والے طیارہ لے کر پہنچے تو عراق کے صدر صدام حسین کی طرف سے پیغام آیا کہ آپ کا علاج ملٹری ہسپتال بغداد میں ہوگا اور میرے وزیر مذہبی امور طیارہ لے کر کھڑے ہیں لیکن آپ نے سعودی عرب جانے کو ترجیح دی. 29 مارچ کو آپ سعودیہ پہنچ گئے وہاں پر ماہر اور اسپیشلسٹوں کی نگرانی میں آپ کا علاج شروع کردیا گیا. پاکستان کے علاوہ سعودی عرب کی 29 ہزار مساجد میں آپ کےلیے خصوصی دعائیں کی جانے لگیں. سعودی عرب کے حکمرانوں اور ڈاکٹروں نے آپ کےعلاج میں کوئی کمی نہ چھوڑی لیکن رب العالمین کو کچھ اور ہی منظور تھا بالآخر 30 مارچ کی صبح اسلام کے اس سچے سپاہی اور محب رسول کی روح جسد عنصری سے داعی اجل کو لبیک کہتے ہوئے پرواز کرگئی
اناللہ وانا الیہ راجعون
علامہ شہید کے سانحہ ارتحال کی خبر سعودی ریڈیو اور ٹلیویژن نے جاری کرکے عالم اسلام کو مغموم و محزون کردیا. ریاض کی یونیورسٹیوں اور دینی اداروں میں چھٹی ہوگئی. سرکاری دفاتر بند ہوگئے عالم اسلام کے دینی و روحانی پیشوا اور علامہ شہید کے استاد مکرم الشیخ عبدالعزیز بن باز رحمہ اللہ نے آہوں اور سسکیوں کے سائے میں نماز جنازہ پڑھائی. ریاض کا یہ تاریخی جنازہ تھا کہ ہر آنکھ اشک بار اور پرنم تھی آپ کا دوسرا جنازہ مسجد نبوی میں ادا کیا گیا پوری سعودی قوم وہاں امڈ آئی تھی اور پاکستانی احباب بھی پہنچے ہوئے تھے. نماز جنازہ میں سروں کا ایک ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر تھا پھر آپ کو جنت البقیع میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم والے حصہ میں امام مالک کے قریب دفن کردیا گیا.
پہنچی وہیں پہ خاک جہاں کا خمیر تھا
پاکستان بھر میں اہل حدیث حضرات نے غائبانہ نماز جنازہ ادا کی اور آپ کے لیے مغفرت اور بلندی درجات کی دعائیں کیں ملکی و غیرملکی اخبارات و رسائل, مجلدات و جرائد نے علامہ شہید کی شہادت پر خصوصی ایڈیشن شایع کیے. ممتاز صحافی جاوید جمال ڈسکوی نے علامہ شہید کی مختصر سوانح حیات مرتب کی. قاضی محمد اسلم سیف فیروزپوری رحمۃ اللہ علیہ نے" علامہ احسان الہی ظہیر ایک عہد ایک تحریک "کے نام سے مفصل کتاب لکھی اسی طرح سے انڈیا کے ایک عالم نے ایک کتاب علامہ شہید کی سیرت پر لکھی. قاضی محمد اسلم سیف اور محترم بشیر احمد انصاری نے مل کر ایک کتاب " ارمغان ظہیر " مرتب کی. تمام اخبارات کے ایڈیٹروں اور کالم نگاروں نے مثلا مجید نظامی, مجیب الرحمن شامی, ارشاد حقانی, صلاح الدین مرحوم اور خوشنود خان وغیرہ نے اپنے اپنے انداز میں حضرت علامہ شہید کو خراج تحسین پیش کیا. سیاسی لیڈروں نے اپنے اپنے بیانات کے ذریعے خراج عقیدت پیش کیا اور قاتلوں کی گرفتاری کا مطالبہ کیا. پاکستان کے علاوہ سعودی عرب, کویت, افغانستان, انڈونیشیا, ملائیشیا, بھارت, بنگلہ دیش, عراق, مراکش ,مصر, لندن, یورپ, امریکہ اور افریقہ کے کئی ممالک نے زبردست خراج تحسین پیش کیا آپ کی مظلومیت کی حمایت اور قاتلوں کی گرفتاری کا مطالبہ کیا.
آپ کی شہادت پر پنجاب اسمبلی کا اجلاس برخاست ہوگیا آپ کے اعزاز میں پانچ منٹ کی خاموشی اختیار کی گئی. اس واقعہ کی وجہ سے لوگ غم و غصہ سے بپھرے ہوئے تھے. پرنٹ میڈیا پر آپ کے رفقاء اور جانشین ایک وقت تک چھائے رہے جب تک کہ حکومت نے بذریعہ حکم اخبارات کو روک نہ دیا تھا. آپ کے غائبانہ نماز جنازہ کے بعد تحریک چلی احتجاجی جلسے اور جلوس نکالے گئے جلسہ عام منعقد کیے گئے اور یہ تحریک ایک عرصہ تک چلتی رہی. اور یہ شعر عام تھا
تمہارے ہاتھوں پر جم گیا ہے لہو جو اس کے بدن سے نکلا
وہ چاند طیبہ میں جا کر ڈوبا جو چاند میرے وطن سے نکلا
جمع و ترتیب : عبدالرحمن ثاقب
امام العصر شہید ملت علامہ احسان الہی ظہیر رحمة الله عليه
تاریخ انسانیت کے صفحہ قرطاس کا مطالعہ کیا جائے تو اس بات کا پتہ چلتا ہے کہ کتنی ہی ایسی نامور شخصیات اس کارخانہ عالم میں تشریف لائیں اور انہوں نے کائنات کے نظام میں عظیم انقلاب برپا کردیے اور وہ بےسروسامانی کے عالم میں بڑے بڑے جابروں اور ظالموں سے ٹکرائے اور ان کو ریزہ ریزہ کردیا. ڈر اور خوف کی ماری ہوئی قوم میں ایسی روح پھونکی کہ وہ قوم دوسری قوموں سے ممتاز نظر آنے لگی. ہم جب عبقری شخصیات کا مطالعہ کرتے ہیں تو جسم میں ایک تلاطم پیدا ہوجاتا ہے کہ ہم بھی اپنے اسلاف کی طرح دین حنیف کےلیے کچھ کر جائیں.
علامہ احسان الہی ظہیر 31 مئی 1945 کو سیالکوٹ کے محلہ احمدپورہ میں حاجی ظہور الہی کے گھر صبح کے وقت پیدا ہوئے. آپ کا نام مولائےمیر علامہ محمد ابراہیم میر سیالکوٹی رحمہ اللہ کے مشورہ سے احسان الہی رکھا گیا اور عقیقہ مسنونہ کیا گیا. لیکن کس کو علم تھا کہ یہ بچہ جوان ہو کر مفکراسلام,مجسمہ عزم مصمم ,پیکرشجاعت اور اسلام کی آواز بن کر سوئی ہوئی قوم کو جھنجھوڑ کر بیدار کرے گا اور اس قوم کو روحانیت کا درس دے کر ہر باطل قوت سے ٹکرا جانے کا سبق سکھلائے گا اور آگے چل کر خود شہید اسلام بن جائے گا.
شخصیت :-
امام العصر شہید ملت حضرت علامہ احسان الہی ظہیر رحمۃ اللہ علیہ کی شخصیت کسی تعارف کی محتاج نہیں ہے آپ ایک ہمہ گیر شخصیت کے مالک تھے. آپ کی آفاقیت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں تھی آپ نہ صرف پاک و ہند کے عظیم سرمایہ تھے بلکہ عالم اسلام کی متاع عزیز تھے. اللہ رب العزت نے آپ کو شاہین کا تجسس, عقاب کی نگاہ, شیر کی گرج, چیتے کا سا عزم, اسلامی جرنیلوں کی شجاعت, اہل اللہ کا شوق, اہل فقر کا احساس, رسول عربی صلی اللہ علیہ و سلم و صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی حددرجہ محبت ,مسلک محدثین کی علمبرداری, پہاڑوں کا وقار, سمندر کا تموج, دریاؤں کاشور, آبشاروں کی خروش, پھولوں کی مہک اور طوفانوں کی ہیبت عطاء فرمائی تھی.
تعلیم :-
علامہ احسان الہی ظہیر شہید رحمہ اللہ نے ابتدائی تعلیم محلہ کے اسکول سے مڈل تک حاصل کی. اللہ تعالی نے آپ کو ذہانت و برجستہ گوئی, جرأت و شجاعت کا وافر ملکہ عطاء فرمایا تھا. جس سے آپ کے اساتذہ آپ کے بارے رطب اللسان رہتے تھے. آپ کے والد گرامی جو کہ نہایت متقی, زاہد اور شب زندہ دار تھے انہوں نے آپ کو قرآن مجید حفظ کرنے پر لگادیا تو آپ نے صرف نو سال کی عمر میں حفظ مکمل کرکے اپنی ذہانت کا لوہا منوایا .آپ کے والد گرامی کو چونکہ علم اور اہل علم سے محبت تھی اور ان کی مجالس میں اٹھتے بیٹھتے تھے اس لیے وہی علم کا نور اپنے گھر میں پیدا کرنا چاہتے تھے علماء کے مشورہ سے علامہ شہید کو جامعہ اسلامیہ گوجرانوالہ میں داخل کروایا. آپ بڑی حساس طبیعت کے مالک تھے اپنے فارغ وقت کو ضایع کرنے کی بجائے مطالعہ کیا کرتے تھے پھر علماء کی مجلس میں شریک ہوتے اللہ تعالی کی طرف سے ودیعت کیےگئے گوناگوں اوصاف کو استعمال میں لاتے ہوئے اسلاف کی راہ پر چلنے کے خواہش مند کر درس نظامی جو کہ آٹھ سالہ نصاب ہے چھ سال میں مکمل کیا. حضرت علامہ شہید نے علم میں رسوخ پیدا کرنے کے لیے ہر فن کی ایک بنیادی کتاب زبانی یاد کی تھی. چنانچہ نحو میں " الفیہ " علم الصرف میں " صرف میر " اصول تفسیر میں " الفوزالکبیر " مصطلح الحدیث میں "نخبۃ الفکر " معانی میں " تلخیص المفتاح " منطق میں " مرقاۃ " زبانی یاد کی تھی. آپ زمانہ طالب علمی میں گوجرانوالہ کے علمی حلقون میں حاضری دیتے اور ان سے اپنی علمی برتری کا لوہا منواتے تھے. آپ نے صرف دین کی تعلیم ہی حاصل نہیں کی بلکہ عربی, اردو اور فارسی پر عبور حاصل کرنے کے لیے پنجاب یونیورسٹی سے فاضل عربی, فاضل اردو اور فاضل فارسی کے امتحان نمایاں پوزیشن سے پاس کیے اور ان تینون زبانون کے مدوجزر اور نشیب و فراز سے خوب واقفیت حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ ان میں ایم اے بھی کیا. اس طرح سے انگلش میں بھی ایم اے کیا اور قانون کی ڈگری بھی حاصل کی. آپ نے اپنی علمی تشنگی بجھانے اور مزید رسوخ و پختگی اور درائے علم میں مزید غوطہ زن ہونے کے لیے سرزمین حجاز کا سفر کیا اور عالم اسلام کی عظیم دانش گاہ جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ میں داخلہ لیا اور وہاں کے علمی ماحول سے خوب استفادہ کیا.
اساتذہ کرام :-
علامہ احسان الہی ظہیر شہید نے جن پاکستانی عبقری رجال سے اپنی علمی پیاس بجھائی ان کے اسماء گرامی یہ ہیں. شیخ الحدیث ابوالبرکات, حافظ محمد محدث گوندلوی, شیخ المنقولات والمعقولات مولانا شریف اللہ خان, شیخ الحدیث حافظ محمد عبداللہ بڈھیمالوی اور شیخ الحدیث مولانا محمد اسماعیل سلفی رحمہم اللہ علیہم اجمعین کے اسماء گرامی قابل ذکر ہیں ان کے علاوہ مدینہ یونیورسٹی کے جن اساتذہ کرام سے علمی اکتساب کیا ان میں مجسمہ زہدوورع شیخ ابن باز اور محدث العصر علامہ ناصرالدین البانی رحمہمااللہ سرفہرست ہیں.
اعزاز :-
حضرت علامہ شہید نے مدینہ یونیورسٹی میں ذہانت و فطانت کی وجہ سے یونیورسٹی کے تمام اعزازات حاصل کیے مدینہ یونیورسٹی میں ہر سال اپنی کلاس میں ٹاپ کرتے رہے آخری سال کے امتحان میں 92 ممالک کے طلبہ میں علامہ شہید نے 93.50 نمبر حاصل کرکے پہلی پوزیشن حاصل کی.
اسی طرح سے مدینہ یونیورسٹی میں " الفرق والملل " کے موضوع پر لیکچر ہوتا تھا جب قادیانیت کی باری آئی تو اساتذہ نے حضرت علامہ شہید سے کہا کہ آپ پاکستانی ہیں اور وہاں کے سلفی علماء نے اس فتنہ کی سرکوبی کےلیے عظیم جدوجہد کی ہے. لہذا اس عنوان پر آپ لیکچر دیں آپ نے اس پیشکش کو قبول کیا اور قادیانیوں کے پس منظر, تہہ منظر اور پیش منظر, ملحدانہ افکار اور لن ترانیوں کو خوب آشکار کیا اور یہ پہلی اور آخری روایت تھی کہ مدینہ یونیورسٹی کے طالب علم کو دوران تعلیم اساتذہ کی صف میں شمار کیا گیا. ان دروس کو جمع کرکے آپ نے " القادیانیت " کے عنوان سے کتاب ترتیب دی. جب 1967 میں یہ کتاب چھپنے لگی تو پبلشر نے علامہ صاحب کو مشورہ دیا کہ اگر اس کتاب پر فاضل مدینہ یونیورسٹی کے الفاظ لکھ دیے جائیں تو کتاب کی اہمیت میں خاطر خواہ اضافہ ہوگا. آپ نے یہ بات وائس چانسلر مجسمہ زہد و تقوی علامہ ابن باز رحمہ اللہ سے کی تو انہوں نے اجازت دے دی علامہ صاحب نے کہا کہ! اے شیخ محترم اگر میں فیل ہوگیا ؟تو شیخ محترم نے فرمایا کہ میں اپنا عہدہ چھوڑ دوں گا.
مسلکی حمیت و غیرت :-
شہید ملت علامہ احسان الہی ظہیر رحمہ اللہ کے دل میں مسلک اہل حدیث کی حمیت و غیرت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی. اس سلسلہ میں آپ کسی بھی مداہنت کا رویہ اپنانے کےلیے کبھی بھی تیار نہ ہوتے تھے بلکہ اپنے مسلک اور اسلاف کے بارے میں ایک حرف سننا بھی گوارہ نہ کرتے تھے. غالباً 1984 کی بات ہے عظیم مادرعلمی جامعہ ابی بکر الاسلامیہ کراچی کے زیراہتمام تین روزہ سیدین شہیدین کانفرنس منعقد ہوئی حضرت علامہ شہید بھی اس کانفرنس میں مدعو تھے اور جامعہ کی مہمان خانہ میں تشریف فرماتھے اس دوران ڈاکٹر اسراراحمد صاحب تقریر کررہے تھے انہون نے دوران تقریر سیدین شہیدین کی تحریک پر نکتہ چینی کی علامہ صاحب فورا اٹھے اور اسٹیج پر آکر بیٹھ گئے حالانکہ اس وقت آپ کے خطاب کا وقت نہ تھا. ڈاکٹر صاحب کے فورا بعد علامہ صاحب مائیک پر تشریف لائے اور اس دوران ڈاکٹراسرار صاحب نے چلے جانے میں ہی عافیت سمجھی علامہ صاحب نے اس وقت فرمایا کہ کاش! ڈاکٹر صاحب بیٹھتے اور میری تقریر سنتے تاکہ انہیں پتہ چلتا کہ سیدین شہیدین کی تحریک جہاد کے ورثاء زندہ موجود ہیں. اسی طرح سے ایک دفعہ قاری طیب مرحوم مہتمم دارالعلوم دیوبند سعودیہ تشرہف لے گئے اور مدینہ یونیورسٹی کے طلبہ سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے اہل حدیث کے ساتھ ہم آہنگی کا اظہار کیا علامہ شہید فورا اٹھ کھڑے ہوئے اور کہا کہ 1954 مین دارالعلوم دیوبند سے جس کے آپ مہتمم تھے اور اب بھی ہیں 60 طلبہ کو محض اہل حدیث ہونے کی وجہ سے نکال دیا گیا یہ کیسی اہلحدیثوں کے ساتھ ہم آہنگی ہے اس طرح حقیقت سے پردہ اٹھ گیا اور ان کے خطاب کا رنگ پھیکا پڑ گیا.
میدان خطابت کا شہسوار :-
علامہ احسان الہی ظہیر شہید جب جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ سے فراغت حاصل کرکے ملک واپس لوٹے تو انہی ایام میں لاہور کی مشہور و معروف اور قدیمی مسجد چینیاں والی کا منبر و محراب کسی خطیب اسلام کا منتظر تھا. مفکر اسلام شیخ الحدیث مولانا محمد اسماعیل سلفی رحمۃ اللہ علیہ آپ کو شیخ محمد اشرف کے پاس لے گئے اور کہا کہ میں ایک ہیرا تمہارے پاس لایا ہوں اس کی حفاظت کرنا ان شاءاللہ ایک وقت آئے گا اور پورا ملک ان کی ضیاءپاشیوں سے مستفیض ہوگا. اور آپ اس مسجد کے خطیب مقرر ہوگئے. رب العالمین نے جہاں ذہانت و کردار و گفتار سے نوازا تھا وہاں خطابت کا حظ وافر بھی عطاء کیا تھا. آپ جب خطاب کرتے تو گویا شیر گرج رہا ہو. ذہانت و وجاہت, جرات, فصاحت و بلاغت, ادب, بدیہہ گوئی, حاضر جوابی, بےباکی, سیرت و کردار کی بلندی, زبان پر دسترس یہ تمام چیزیں آپ کی خطابت کے اجزائے ترکیبی تھے. مسجد چینیانولی میں خطابت کرتے ابھی تھوڑا ووت گذرا تھا کہ مسجد تنگی داماں کا شکوہ کرتے نظر آئی.
1968 میں جب ایوب خاں کی آمریت میں قادیانی چھائے ہوئے تھے اور آغا شورش کاشمیری کو پابند سلاسل کردیا گیا تو خطیبوں کی زبانیں گنگ ہوگئیں تھیں. اس ہو کے عالم میں علامہ شہید نے مسلسل چھ خطبے ختم نبوت کے موضوع پر دیے بس آپ کا اس موضوع پر خطاب کرنے کی دیر تھی کہ کارکنوں کے دلوں میں مسرت کی لہر دوڑ گئی اور پھر دیکھا دیکھی ہر کوئی میدان میں اتر آیا.
1968 کا واقعہ ہے آپ چینیانوالی مسجد کے منصب خطابت پر فائز تھے ان دنوں فیلڈ لارشل ایوب خان کے خلاف تحریک چل رہی تھی اقبال پارک کی نماز عید کی امامت مسجد چینیانوالی کے خطیب کی حیثیت سے آپ کو وراثتا ملی تھی اقبال پارک میں نماز عید کا اجتماع مولانا سید محمد داؤد غزنوی رحمہ اللہ کے زمانہ سے ہی لاہور میں عید آزادگان کا اجتماع کہلاتا تھا اور اس کا شمار لاہور میں نماز عید کے چند بڑے اجتماعات میں ہوتا تھا. 1968 مین جب اس ملک کے عوام فیلڈ مارشل ایوب خان سے انتہائی برگشتہ تھے اور ان کی حکومت کے خلاف تحریک چلا رہے تھے عید سے چند روز پہلے مولانا عبیداللہ انور کے خلاف پولیس کاروئی کے باعث لاہور شہر میں حکومت کے خلاف شدید غیظ و غضب کا عالم تھا ہیجان تھا اور لوگ توقع رکھتے تھے کہ عید آزادگان کے خطبہ میں ایوب خان کی حکومت کو ہدف تنقید بنایا جائے گا اس سلسلہ میں آپ کے پاس عید سے پہلے ہی لوگوں کے وفود آنا شروع ہوگئے بعض لوگوں کا خیال تھا کہ چونکہ آپ سیاسی آدمی نہیں ہیں اگر آپ اجازت دیں تو اس مرتبہ وہ عید آزادگان کے خطبہ کےلیے کسی ایسی شخصیت کو لے آئیں جو اس عیدگاہ کے مقام و منصب کا حق ادا کرسکے اس پر آپ نے ان دوستوں سے کہا کہ وہ مطمئن رہیں مولانا داؤد غزنوی کی روایات کو قائم رکھا جائے گا. نماز عید کے خطبہ میں آپ نے جو تقریر کی اس کا تاثر اس قدر گہرا تھا کہ بہت سے لوگوں نے شدت جذبات میں آکر اپنے گریبان چاک کرلیے. آغاشورش کاشمیری مرحوم بھی نماز عید کا خطبہ سننے والوں میں موجود تھے. نماز عید کے بعد وہ آپ سے میاں عبدالمجید مالواڈہ بارایٹ لاء کے ہمراہ ملے اور کہنے لگے کہ میں خود بھی فن خطابت میں بہت دسترس رکھتا ہوں مگر میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ احسان الہی اگر تم آئندہ خطابت چھوڑ دو تو تمہاری صرف ایک تقریر سے تمہیں پاک و ہند کے چند بڑے خطیبوں میں شمار کیا جاسکے گا.
علامہ شہید کی خطابت کی ایک خوبی یہ تھی کہ آپ بکھرے ہوئے مجمع کو چند لمحوں میں قابو کرلیتے تھے. ایک دفعہ مولانا محمد یوسف بنوری کی صدارت میں بادشاہی مسجد لاہور میں مجلس عمل تحفظ ختم نبوت کا جلسہ تھا سید ابوالاعلی مودودی کی تقریر کے دوران مولانا مفتی محمود صدر دروازے سے مسجد میں داخل ہو کر اسٹیج کی طرف بڑھے مفتی صاحب ذوالفقار علی بھٹو کو عام انتخابات میں شکست دینے, اپوزیشن کا قائمقام قائد حزب اختلاف ہونے اور پارلیمنٹ میں مرزا ناصر قادیانی کی تقریر کا موثر جواب دینے کی وجہ سے عوام میں خاصے مقبول تھے لہذا لوگ مولانا مودودی کی تقریر سننے کے بجائے مفتی صاحب کو دیکھنے کےلیے کھڑے ہوگئے اسٹیج سیکریٹری اور دیگر حضرات نے لاکھ کوشش کی کہ سامعین آرام سے بیٹھ جائیں تاکہ لوگ مولانا مودودی کی آرام سے سنیں اس صورتحال پر جماعت اسلامی اور اسلامی جمعیت طلبہ کے کارکن خاصے برہم تھے اس طرح سے جلسہ بد نظمی کا شکار ہوگیا. پھر اچانک حضرت علامہ شہید مائیک پر تشریف لائے اور شیر کی طرح گرج کر دومنٹ میں جلسہ کنٹرول کرلیا یہ آپ کی خطابت کی اثر آفرینی تھی.
میدان صحافت میں :-
علامہ احسان الہی ظہیر شہید مختلف ادوار میں ہفت روزہ " الاعتصام " لاہور, ہفت روزہ "اہل حدیث " لاہور اور ماہنامہ" ترجمان الحدیث " لاہور کے مدیر رہے. آپ نے ہفت روزہ اہل حدیث میں زوردار مضامین اور اداریے لکھ کر قادیانیوں کی ناک میں دم کر دیا تھا قادیانی گروہ کے متعلق آپ کی معلومات نہایت وسیع تھیں. آپ کی تحریریں مرزائیوں کےلیے سوہان روح بن گئیں. آپ نے ختم نبوت پر " ترجمان الحدیث " میں جس انداز سے لکھا اور قادیانی راز افشاں کیے انہیں پڑھ کر قادیانی قلمکار ہمیشہ کےلیے خاموش ہوگئے. علامہ شہید سلجھے ہوئے عالمانہ انداز میں گفتگو کرتے اور اپنی بات آسانی سے سامعین کے گوش گذار کرتے آپ کی بات کو عام آدمی بھی اچھی طرح سے سمجھ لیتا.
میدان تصنیف :-
علامہ احسان الہی ظہیر شہید جس طرح سے میدان خطابت کے شہسوار تھے اسی طرح سے میدان تصنیف میں بھی اپنے ہم عصروں سے ممتاز نظر آتے ہیں. آپ نے عربی زبان میں " فرق " کے موضوع پر قلم اٹھایا اور ایسی اہم کتب تصنیف کیں کہ وہ کتب دنیا کے لیے مرجع و مصادر کی حیثیت ٹہریں کئی زبانوں میں ترجمے ہوئے اور دنیا کی بڑی بڑی یونیورسٹیوں مین بطور نصاب پڑھائی جاتی ہیں. کتب کے نام یہ ہیں. القادیانیۃ, البریلویہ, الشیعۃ والسنۃ, الشیعۃ و اھل البیت, الشیعۃ والتشیع, البھائیہ نقد و عرض, الاسماعیلیۃ, التصوف المنشاءوالمصادر, دراسۃ فی التصوف, مرزائیت اور اسلام, بین اھل الشیعۃ واھل السنۃ یہ کتب متعدد مرتبہ طبع ہو کر اہل علم سے داد تحسین وصول کرچکی ہیں.
میدان سیاست :-
حضرت علامہ شہید کو اللہ تعالی نے بےپناہ خوبیوں سے نوازا تھا. آپ بیک وقت مصنف, مولف, ادیب, مفکر, خطیب بے مثال, صحافی اور عالم باعمل ہونے کے ساتھ ساتھ سیاست کے میدان میں بھی کسی سے پیچھے نہ رہے. درحقیقت علامہ شہید نے میدان سیاست میں بھی اپنا لوہا منوایا اور آپ کی جماعت جمعیت اہل حدیث پاکستان بھی سیاسی میدان میں دیگر جماعتوں سے ممتاز نظر آتی ہے اور آپ نے قلیل عرصہ میں ملک کے طول و عرض میں سیاسی جلسہ ہائے عام منعقد کرکے یہ ثابت کردیا تھا کہ اہل حدیث پاکستان کی ایک بہت بڑی قوت ہے. آپ نے مرزائیوں کے خلاف تحریک میں بھرپور کردار ادا کیا اسی طرح تحریک بنگلہ دیش نامنظور میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا آپ نے تحریک استقلال میں باقاعدہ شمولیت اختیار کی اور مرکزی سیکریٹری اطلاعات مقرر ہوئے. اسی طرح سے 1973 میں ممتاز علی بھٹو نے سندہ میں لسانی فسادات کروائے تو آپ نے نوب زادہ نصراللہ خان اور دیگر سیاسی قائدین کے ساتھ مل کر سندہ کا بھر پور دورہ کیا اور حقیقت سے پردہ اٹھایا. آپ کو ملتان میں غلام مصطفی کھر کے حکم سے گرفتار کیا گیا اور ڈرایا دھمکایا گیا لیکن آپ کہتے رہے!
ہم قید و مشقت کیا سمجھین ہم طوق و سلاسل کیا جانے
اک ساز نغمہ پر گو ہم شور سلاسل کیا جانے
آپ نے بھٹو کے خلاف انتخابات میں حصہ لیا اور قومی اتحاد کی طرف سے ضلع قصورکے ایک دیہاتی حلقے سے امیدوار کے طور پر سامنے آئے.
جذبہ محبت رسول :-
علامہ احسان الہی ظہیر شہید سچے محب رسول صلی اللہ علیہ و سلم تھے آپ کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے محبت کا یہ عالم تھا کہ اکثر تقاریر میں سیرت طیبہ بیان کرتے ہوئے نظر آتے جناح ہال لاہور میں 1986 میں سیرت النبی صلی اللہ علیہ و سلم پر آپ کی تقریر اس کی بہترین مثال ہے جس میں آپ کی کئی بار شدت جذبات سے آنکھیں اشکبار ہوگئیں اور آواز بھی بھرا گئی.
جو کہا کر دکھایا :-
علامہ احسان الہی ظہیر شہید نے 1986 کو جناح ہال لاہور میں خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ " ہمارا راستہ دو طرف جاتا ہے مگر منزل ایک ہے یا سر بلند رکھ کر غازی بن کے جیئو یا سر کٹا کر شہید بن کر مرو " آپ جب تک زندہ رہے سربلند رہے اور جب گئے تو شہادت کا عظیم الشان تاج سر پر رکھ کر اس دنیاء فانی سے رخصت ہوئے.
جفا کی تیغ سے گردن وفا شعاروں کی
کٹی ہے بر سر میدان مگر جھکی تو نہیں
شریعت بل :-
بعض متعصب اور غیر شریعت کو شریعت ماننے والے مولویوں نے قومی اسمبلی میں شریعت بل پیش کیا تو علامہ شہید اس کی تحریر و تقرہر کے ذریعہ سے دھجیاں اڑائیں روزنامہ نوائے وقت نے آپ کا بھرپور موقف شایع کیا اسی طرح سے جنگ فورم کے مذاکرے میں بھی آپ پوری محفل پر چھاگئے.
جماعتی و تنظیمی زندگی :-
شہید ملت حضرت علامہ احسان الہی ظہیر تحریک اور جدوجہد پر یقین رکھتے تھے بھٹو دور میں تحریک استقلال میں شامل ہوئے 1977 کا الیکشن بھی اسی پلیٹ فارم سے لڑا. لیکن جب تحریک استقلال کے سربراہ ایئر مارشل اصغر خان پاکستان قومی اتحاد سے علیحدہ ہوئے تو حضرت علامہ شہید نے تحریک کو خیر باد کہہ دیا. ضیاءالحق کے دور کے ابتدائی سالوں میں مرکزی جمعیت اہل حدیث کے ساتھ چلتے رہے آپ چونکہ سبک رفتار تھے اور تھوڑے وقت میں زیادہ کام کرنا چاہتے تھے. اس کےلیے گوجرانوالہ میں اکابر اہل حدیث علماء کے مشورہ سے 1981 میں جمعیت اہل حدیث پاکستان کے نام علیحدہ جماعت بنائی. شیخ الحدیث مولانا محمد عبداللہ گوجرانوالہ امیر اور مولانا محمد حسین صاحب شیخوپوری ناظم اعلی بنائے گئے جنہوں نے کچھ ہی عرصہ بعد بوجوہ استعفی دیدیا تو جمعیت اہل حدیث کی مجلس شوری نے حضرت علامہ احسان الہی ظہیر شہید کو ناظم اعلی منتخب کرلیا. آپ نے اپنی قیادت میں علماء کو ایک نیا ولولہ اور نوجوانون کو حوصلہ دیا. حضرت علامہ شہید ابھی جرأت مندی اور حوصلہ مندی کے زینے چڑھ رہے تھے کہ مارچ 1986 کا عظیم سانحہ رونما ہوگیا.
شادی و اولاد :-
علامہ احسان الہی ظہیر شہید کی شادی محدث زماں حافظ محمد گوندلوی رحمۃ اللہ علیہ کی صاحبزادی سے ہوئی تھی.اللہ تعالی نے تین بیٹے اور پانچ بیٹیاں عطاء کیں تھیں. بیٹوں کے نام
حافظ ابتسام الہی ظہیر صاحب
حافظ ہشام الہی ظہیر صاحب
معتصم الہی ظہیر صاحب
آخری خطبہ جمعہ :-
علامہ احسان الہی ظہیر نے سعودیہ سے 1967 کو واپسی کے بعد جامع مسجد چینیانوالی میں خطبہ جمعہ کا آغاز کیا تھا اور مستقل طور پر یہاں خطبہ جمعہ ارشاد فرماتے رہے. جب 20 مارچ 1987 کو آخری خطبہ جمعہ جو کہ آپ کی زندگی کا بھی آخری خطبہ تھا. آپ نے خطبہ میں فرمایا کہ آئندہ خطبہ لارنس روڈ ہوا کرے گا تو ہزاروں سامعین اشکبار ہوگئے اور رونے لگے.
وفات :
23مارچ 1987 کو شہید ملت علامہ احسان الہی ظہیر قلعہ لچھمن سنگھ سیرت النبی صلی اللہ علیہ و سلم کانفرنس سے خطاب کرنے کے لیے تشریف لائے تو ہجوم عاشقاں دیدنی تھا آپ سے قبل خطیب ایشیا قاری عبدالحفیظ فیصل آبادی صاحب حفظہ اللہ خطاب کرچکے تھے اور خطیب اسلام مولانا حبیب الرحمن یزدانی رحمۃ اللہ علیہ خطاب کررہے تھے جب یزدانی صاحب مرحوم خطاب کرکے واپس جانے لگے تو علامہ شہید نے فرمایا کہ بیٹھ جاو اکٹھے چلیں گے اس کے بعد آپ نے شیر کی سی گرج کے ساتھ خطاب شروع کیا اور مخالفین اسلام اور حکمرانوں کو خوب رگیدا. اسی دوران کسی ظالم اور درندہ صفت, شقی القلب انسان نے ریموٹ کنٹرول بم چلادیا جس سے ایک قیامت بپا ہوگئی اور عالم اسلام یتیم ہوگیا اس دھماکہ میں آٹھ انسان فورا شہید ہوگئے جن میں شہید اسلام مولانا حبیب الرحمن یزدانی مفکر اسلام مولانا عبدالخالق قدوسی نوجوان قائد محمد خان نجیب رحمہم اللہ علیہم اجمعین سو سے زائد زخمی ہوگئے علامہ شہید کو فورا ہسپتال داخل کرادیا گیا دھماکے کی خبر سے عالم اسلام میں صف ماتم بچھ گئی انہی ایام میں والی حرمین شریفین شاہ فہد بن عبدالعزیز رحمہ اللہ لندن کے دورہ پر تھے انہوں نے پیشکش کی کہ علامہ صاحب کا علاج ریاض کے ملٹری ہسپتال میں کیا جائے سعودیہ والے طیارہ لے کر پہنچے تو عراق کے صدر صدام حسین کی طرف سے پیغام آیا کہ آپ کا علاج ملٹری ہسپتال بغداد میں ہوگا اور میرے وزیر مذہبی امور طیارہ لے کر کھڑے ہیں لیکن آپ نے سعودی عرب جانے کو ترجیح دی. 29 مارچ کو آپ سعودیہ پہنچ گئے وہاں پر ماہر اور اسپیشلسٹوں کی نگرانی میں آپ کا علاج شروع کردیا گیا. پاکستان کے علاوہ سعودی عرب کی 29 ہزار مساجد میں آپ کےلیے خصوصی دعائیں کی جانے لگیں. سعودی عرب کے حکمرانوں اور ڈاکٹروں نے آپ کےعلاج میں کوئی کمی نہ چھوڑی لیکن رب العالمین کو کچھ اور ہی منظور تھا بالآخر 30 مارچ کی صبح اسلام کے اس سچے سپاہی اور محب رسول کی روح جسد عنصری سے داعی اجل کو لبیک کہتے ہوئے پرواز کرگئی
اناللہ وانا الیہ راجعون
علامہ شہید کے سانحہ ارتحال کی خبر سعودی ریڈیو اور ٹلیویژن نے جاری کرکے عالم اسلام کو مغموم و محزون کردیا. ریاض کی یونیورسٹیوں اور دینی اداروں میں چھٹی ہوگئی. سرکاری دفاتر بند ہوگئے عالم اسلام کے دینی و روحانی پیشوا اور علامہ شہید کے استاد مکرم الشیخ عبدالعزیز بن باز رحمہ اللہ نے آہوں اور سسکیوں کے سائے میں نماز جنازہ پڑھائی. ریاض کا یہ تاریخی جنازہ تھا کہ ہر آنکھ اشک بار اور پرنم تھی آپ کا دوسرا جنازہ مسجد نبوی میں ادا کیا گیا پوری سعودی قوم وہاں امڈ آئی تھی اور پاکستانی احباب بھی پہنچے ہوئے تھے. نماز جنازہ میں سروں کا ایک ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر تھا پھر آپ کو جنت البقیع میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم والے حصہ میں امام مالک کے قریب دفن کردیا گیا.
پہنچی وہیں پہ خاک جہاں کا خمیر تھا
پاکستان بھر میں اہل حدیث حضرات نے غائبانہ نماز جنازہ ادا کی اور آپ کے لیے مغفرت اور بلندی درجات کی دعائیں کیں ملکی و غیرملکی اخبارات و رسائل, مجلدات و جرائد نے علامہ شہید کی شہادت پر خصوصی ایڈیشن شایع کیے. ممتاز صحافی جاوید جمال ڈسکوی نے علامہ شہید کی مختصر سوانح حیات مرتب کی. قاضی محمد اسلم سیف فیروزپوری رحمۃ اللہ علیہ نے" علامہ احسان الہی ظہیر ایک عہد ایک تحریک "کے نام سے مفصل کتاب لکھی اسی طرح سے انڈیا کے ایک عالم نے ایک کتاب علامہ شہید کی سیرت پر لکھی. قاضی محمد اسلم سیف اور محترم بشیر احمد انصاری نے مل کر ایک کتاب " ارمغان ظہیر " مرتب کی. تمام اخبارات کے ایڈیٹروں اور کالم نگاروں نے مثلا مجید نظامی, مجیب الرحمن شامی, ارشاد حقانی, صلاح الدین مرحوم اور خوشنود خان وغیرہ نے اپنے اپنے انداز میں حضرت علامہ شہید کو خراج تحسین پیش کیا. سیاسی لیڈروں نے اپنے اپنے بیانات کے ذریعے خراج عقیدت پیش کیا اور قاتلوں کی گرفتاری کا مطالبہ کیا. پاکستان کے علاوہ سعودی عرب, کویت, افغانستان, انڈونیشیا, ملائیشیا, بھارت, بنگلہ دیش, عراق, مراکش ,مصر, لندن, یورپ, امریکہ اور افریقہ کے کئی ممالک نے زبردست خراج تحسین پیش کیا آپ کی مظلومیت کی حمایت اور قاتلوں کی گرفتاری کا مطالبہ کیا.
آپ کی شہادت پر پنجاب اسمبلی کا اجلاس برخاست ہوگیا آپ کے اعزاز میں پانچ منٹ کی خاموشی اختیار کی گئی. اس واقعہ کی وجہ سے لوگ غم و غصہ سے بپھرے ہوئے تھے. پرنٹ میڈیا پر آپ کے رفقاء اور جانشین ایک وقت تک چھائے رہے جب تک کہ حکومت نے بذریعہ حکم اخبارات کو روک نہ دیا تھا. آپ کے غائبانہ نماز جنازہ کے بعد تحریک چلی احتجاجی جلسے اور جلوس نکالے گئے جلسہ عام منعقد کیے گئے اور یہ تحریک ایک عرصہ تک چلتی رہی. اور یہ شعر عام تھا
تمہارے ہاتھوں پر جم گیا ہے لہو جو اس کے بدن سے نکلا
وہ چاند طیبہ میں جا کر ڈوبا جو چاند میرے وطن سے نکلا