• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ترمذی کی حدیث سے نماز میں زیر ناف ہاتھ باندھنے پر استدلال [انتظامیہ]

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
سنن الترمذي - (ج 1 / ص 426)
وَرَأَى بَعْضُهُمْ أَنْ يَضَعَهُمَا فَوْقَ السُّرَّةِ وَرَأَى بَعْضُهُمْ أَنْ يَضَعَهُمَا تَحْتَ السُّرَّةِ
اس میں امام ترمذیؒ نے اپنا مشاہدہ کہاں بیان فرمایا ہے؟ یہ تو مذاہب کا بیان ہے۔
 
شمولیت
نومبر 27، 2014
پیغامات
221
ری ایکشن اسکور
62
پوائنٹ
49
اشماریہ بھائی اور عبد الرحمٰن بھائی کیوں لفظی بحث میں الجھ رہے ہیں ۔ آگے چلیں ۔
 
شمولیت
ستمبر 21، 2015
پیغامات
2,697
ری ایکشن اسکور
760
پوائنٹ
290
اشماریہ بہائی کب لفظی بحث کر رہے ہیں ! انکی تمامتر بحث علمی ہے اور آگے کہاں چلیں تمام طرق مسدود ہیں سوائے ایک طریق کے جو احادیث ثابتہ اور اسلاف کے اقوال اور اعمال پر ہی لیجانیوالی ہے ۔ آگے ایک ہی موقف (پڑاو) بچ رہا ہے وہ ہے اعتراف اور رجوع کا ، وہ بہی اللہ کی خوشنودی کی خاطر ۔ اب اللہ ہی ہم سبکو ہدایت دینے والا هے ۔
 
شمولیت
مئی 17، 2015
پیغامات
153
ری ایکشن اسکور
16
پوائنٹ
60
صحيح وضعيف سنن الترمذي - (ج 1 / ص 252) ( سنن الترمذي )
252 حدثنا قتيبة حدثنا أبو الأحوص عن سماك بن حرب عن قبيصة بن هلب عن أبيه قال كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يؤمنا فيأخذ شماله بيمينه قال وفي الباب عن وائل بن حجر وغطيف بن الحارث وابن عباس وابن مسعود وسهل بن سعد قال أبو عيسى حديث هلب حديث حسن والعمل على هذا عند أهل العلم من أصحاب النبي صلى الله عليه وسلم والتابعين ومن بعدهم يرون أن يضع الرجل يمينه على شماله في الصلاة ورأى بعضهم أن يضعهما فوق السرة ورأى بعضهم أن يضعهما تحت السرة وكل ذلك واسع عندهم واسم هلب يزيد بن قنافة الطائي .

تحقيق الألباني : حسن صحيح

ابو عیسیٰ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ــــــــــــــ بعض ہاتھوں کو ناف کے اوپر باندھتے تھے اور بعض ناف کے نیچے ــــــ ــــــــــ الحدیث
محدث نے صرف ناف کے محاذات کا ذکر کیا۔
اس طرح صحیح مسلم میں بھی محدث نے وضاحت سے لکھا ؛

صحيح مسلم: كِتَاب الصَّلَاةِ:
بَاب وَضْعِ يَدِهِ الْيُمْنَى عَلَى الْيُسْرَى بَعْدَ تَكْبِيرَةِ الْإِحْرَامِ تَحْتَ صَدْرِهِ فَوْقَ سُرَّتِهِ وَوَضْعُهُمَا فِي السُّجُودِ عَلَى الْأَرْضِ حَذْوَ مَنْكِبَيْهِ


تکبیر تحریمہ کے بعد سیدھا ہاتھ الٹے ہاتھ پر سینہ کے نیچے ناف کے اوپر باندھنا ـــــــــــــــــــــــــــ
Untitled.jpg
 
شمولیت
مئی 17، 2015
پیغامات
153
ری ایکشن اسکور
16
پوائنٹ
60
محترم! نہ تو کسی نے اس کو حدیث کا حصہ بنایا ہے اور نہ ہی دھوکہ دہی کی ہے یہ کام صرف یہود کے شکار لوگوں کاہے۔
لکھنے کا مقصد یہ ہے کہ اس حدیث میں گو ہاتھ باندھنے کی کیفیت مذکور ہے مقام کا ذکر نہیں۔ دیکھنے کی بات یہ ہے کہ محدث نے اس کے ذیل میں جو لکھا کیا وہ صحیح ہے یا غلط۔
محترم! صرف یہی محدث نہیں بلکہ صحیح مسلم میں بھی حدیث جس میں ہے کہ ”ثُمَّ وَضَعَ يَدَهُ الْيُمْنَى عَلَى الْيُسْرَى ــ الحدیث“ اس کا عنوان بھی امام مسلم نے اس طرح باندھا ہے؛

صحيح مسلم: كِتَاب الصَّلَاةِ: بَاب وَضْعِ يَدِهِ الْيُمْنَى عَلَى الْيُسْرَى بَعْدَ تَكْبِيرَةِ الْإِحْرَامِ تَحْتَ صَدْرِهِ فَوْقَ سُرَّتِهِ وَوَضْعُهُمَا فِي السُّجُودِ عَلَى الْأَرْضِ حَذْوَ مَنْكِبَيْهِ
تکبیر تحریمہ کے بعد سیدھا ہاتھ الٹے ہاتھ پر سینہ کے نیچے ناف کے اوپر باندھنا ـــ الخ
دونوں جلیل القدر محدثین سینہ پر ہاتھ باندھنے کی بجائے سینہ سے نیچے ہاتھ باندھنے کی دلیل لارہے ہیں اور ناف کو محور بتاتے ہیں۔
کیا یہ دونوں جلیل القدر محدثین غلط سمجھے ہیں؟
محترم البانی نے بھی امام ترمذی کے اس قول سمیت اس کو ”حسن صحیح“ کہا ہے۔
اس کے رد کے لئے کوئی صحیح حدیث لائیں یا کسی محدث یا فقیہ کا قول ۔


ناف کے نیچے ہاتھ باندھنے کی صراحت ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ سے ملتی ہے۔ ان کے زمانہ تک یہ ضعیف راوی تھا ہی نہیں تو اس کا ضعف ان تک کیسے پہنچ گیا۔عبد الرحمن بن إسحاق الواسطي جس سے حدیث لے رہے ہیں وہ ہے سيار أبي الحكم اور ان کی وفات 122 ہجری ہے۔
بفرضِ محال اگر یہ ضعیف ہے تو سینہ پر ہاتھ باندھنے کی بھی کوئی حدیث صحیح نہیں۔


فیصلہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف لے جاتے ہیں؛
مَنْ يَعِشْ مِنْكُمْ بَعْدِي فَسَيَرَى اخْتِلَافًا كَثِيرًا فَعَلَيْكُمْ بِسُنَّتِي وَسُنَّةِ الْخُلَفَاءِ الْمَهْدِيِّينَ الرَّاشِدِينَ ــــ الحدیث
آخری خلیفہ راشد علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرما رہے ہیں کہ ناف کے نیچے ہاتھ باندھنا سنت ہے۔
زیر ناف ہاتھ باندھنے کی مزید احادیث؛

1:صحيح مسلم: كِتَاب الصَّلَاةِ:
بَاب وَضْعِ يَدِهِ الْيُمْنَى عَلَى الْيُسْرَى بَعْدَ تَكْبِيرَةِ الْإِحْرَامِ تَحْتَ صَدْرِهِ فَوْقَ سُرَّتِهِ وَوَضْعُهُمَا فِي السُّجُودِ عَلَى الْأَرْضِ حَذْوَ مَنْكِبَيْهِ
تکبیر تحریمہ کے بعد سیدھا ہاتھ الٹے ہاتھ پر سینہ کے نیچے ناف کے اوپر باندھنا ــــــــــ الخ

2 :سنن الترمذي:كِتَاب الصَّلَاةِ: بَاب مَا جَاءَ فِي وَضْعِ الْيَمِينِ عَلَى الشِّمَالِ فِي الصَّلَاةِ:
حدثنا قتيبة حدثنا أبو الأحوص عن سماك بن حرب عن قبيصة بن هلب عن أبيه قال ثم كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يؤمنا فيأخذ شماله بيمينه

قال وفي الباب عن وائل بن حجر وغطيف بن الحارث وابن عباس وابن مسعود وسهل بن سعد
قال أبو عيسى حديث هلب حديث حسن والعمل على هذا ثم أهل العلم من أصحاب النبي صلى الله عليه وسلم والتابعين ومن أن يضع الرجل يمينه على شماله في الصلاة ورأى بعضهم أن يضعهما فوق السرة ورأى بعضهم أن يضعهما تحت السرة وكل ذلك واسع عندهم واسم هلب يزيد بن قنافة الطائي

ابو عیسیٰ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ــــــــــــــ بعض ہاتھوں کو ناف کے اوپر باندھتے تھے اور بعض ناف کے نیچے (سینہ کا ذکر ہی نہیں)ــــــ ــــــــــ الحدیث

3: ابوداؤد:كِتَاب الصَّلَاةِ: بَاب وَضْعِ الْيُمْنَى عَلَى الْيُسْرَى فِي الصَّلَاةِ:
حدثنا محمد بن محبوب حدثنا حفص بن غياث عن عبد الرحمن بن إسحق عن زياد بن زيد عن أبي جحيفة أن عليا رضي الله عنه قال من السنة وضع الكف على الكف في الصلاة تحت السرة

بے شک علی رضی الله تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ ہتھیلی پر ہتھیلی ناف کے نیچے رکھنا سنت ہے۔

4 : ابوداؤد: كِتَاب الصَّلَاةِ: بَاب وَضْعِ الْيُمْنَى عَلَى الْيُسْرَى فِي الصَّلَاةِ:
حدثنا محمد بن قدامة يعني ابن أعين عن أبي بدر عن أبي طالوت عبد السلام عن ابن جرير الضبي عن أبيه قال رأيت عليا رضي الله عنه يمسك شماله بيمينه على الرسغ فوق السرة

علی رضی الله تعالیٰ عنہ کو دیکھا کہ انہوں نے بائیں ہاتھ کو دائیں ہاتھ سے ناف کے اوپر گٹ سے پکڑے ہوئے تھے۔
قال أبو داود وروي عن سعيد بن جبير فوق السرة قال أبو مجلز تحت السرة وروي عن أبي هريرة وليس بالقوي
ابو داؤد رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ سعيد بن جبيرناف کے اوپر روایت کرتے ہیں اور أبو مجلز ناف کے نیچے (یہاں بھی سینہ کا ذکر تک نہیں)۔ ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بھی روایت ہے اور وہ قوی نہیں۔

5 : ابوداؤد: كِتَاب الصَّلَاةِ: بَاب وَضْعِ الْيُمْنَى عَلَى الْيُسْرَى فِي الصَّلَاةِ:
حدثنا مسدد حدثنا عبد الواحد بن زياد عن عبد الرحمن بن إسحق الكوفي عن سيار أبي الحكم عن أبي وائل قال قال أبو هريرة أخذ الأكف على الأكف في الصلاة تحت السرة

ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ نماز میں ناف کے نیچے ہتھیلی سے ہتھیلی پکڑیں۔ اس روایت کو ابو داؤد رحمۃ اللہ نے کہا کہ صحیح نہیں۔

6 سنن الكبرى للبيهقي: باب وضع اليدين على الصدر في الصلوة من السنة:
وأخبرنا أبو زكريا بن أبي إسحاق أنبأ الحسن بن يعقوب ثنا يحيى بن أبي طالب أنبأ زيد ثنا سفيان عن بن جريج عن أبي الزبير قال ثم أمرني عطاء أن أسأل سعيد أين تكون اليدان في الصلاة فوق السرة أو أسفل من السرة فينبغي عنه فقال فوق السرة يعني به سعيد بن جبير

سعيد بن جبير (رحمۃ اللہ علیہ) سے پوچھا گیا کہ کہ نماز میں ہاتھ کہاں باندھے جائیں ناف کے اوپر یا ناف کے نیچے؟ ـــــــــــــــــــــ (سعيد بن جبيررحمۃ اللہ علیہ) نے فرمایا کہ ناف کے اوپر۔

وكذلك قاله أبو مجلز ولاحق بن حميد وأصح أثر روي في هذا الباب أثر سعيد بن جبير وأبي مجلز وروي عن علي رضي الله عنه تحت السرة وفي إسناده ضعف

7 : سنن الكبرى للبيهقي: باب وضع اليدين على الصدر في الصلوة من السنة:
أخبرنا أبو بكر بن الحارث الفقيه أنبأ علي بن عمر الحافظ ثنا محمد بن القاسم بن زكريا ثنا أبو كريب ثنا يحيى بن أبي زائدة عن عبد الرحمن بن إسحاق حدثني زياد بن زيد السوائي عن أبي جحيفة عن على رضي الله عنه قال ثم إن من السنة في الصلاة وضع الكف على الكف تحت السرة

علی رضی الله تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ ہتھیلی پر ہتھیلی ناف کے نیچے رکھنا سنت ہے۔

وكذلك رواه أبو معاوية عن عبد الرحمن ورواه حفص بن غياث عن عبد الرحمن

8 : سنن الكبرى للبيهقي: باب وضع اليدين على الصدر في الصلوة من السنة:

كما أخبرنا أبو بكر بن الحارث أنبأ علي بن عمر الحافظ ثنا محمد بن القاسم ثنا أبو كريب ثنا حفص بن غياث عن عبد الرحمن بن إسحاق عن النعمان بن سعيد عن علي رضي الله عنه أنه كان يقول ثم إن من سنة الصلاة وضع اليمين على الشمال تحت السرة

علی رضی الله تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ ہتھیلی پر ہتھیلی ناف کے نیچے رکھنا سنت ہے۔

عبد الرحمن بن إسحاق هذا هو الواسطي القرشي جرحه أحمد بن حنبل ويحيى بن معين والبخاري وغيرهم ورواه أيضا عبد الرحمن عن يسار عن أبي وائل عن أبي هريرة كذلك وعبد الرحمن بن إسحاق متروك
واضح رہے کہ عبد الرحمن بن إسحاق کا ضعف ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کو نہیں پہنچتا۔

آثار
9 : مصنف ابن أبي شيبة:
حدثنا وكيع عن ربيع عن أبي معشر عن إبراهيم:
قال يضع يمينه على شماله في الصلاة تحت السرة

إبراهيم (رحمۃ اللہ علیہ) فرماتے ہیں کہ نماز میں دایاں ہاتھ بائیں پر ناف کے نیچے باندھیں۔

10: حدثنا يزيد بن هارون قال أخبرنا الحجاج بن حسان قال سمعت أبا مجلز أو سألته قال قلت كيف يصنع قال يضع كف يمينه على ظاهر كف شماله ويجعلها أسفل من السرة

دائیں ہاتھ کی ہتھیلی بائیں ہاتھ کی ہتھیلی کی پشت پر باندھ کر ناف کے نیچے رکھیں۔
محترم! نہ تو کسی نے اس کو حدیث کا حصہ بنایا ہے اور نہ ہی دھوکہ دہی کی ہے یہ کام صرف یہود کے شکار لوگوں کاہے۔
لکھنے کا مقصد یہ ہے کہ اس حدیث میں گو ہاتھ باندھنے کی کیفیت مذکور ہے مقام کا ذکر نہیں۔ دیکھنے کی بات یہ ہے کہ محدث نے اس کے ذیل میں جو لکھا کیا وہ صحیح ہے یا غلط۔
محترم! صرف یہی محدث نہیں بلکہ صحیح مسلم میں بھی حدیث جس میں ہے کہ ”ثُمَّ وَضَعَ يَدَهُ الْيُمْنَى عَلَى الْيُسْرَى ــ الحدیث“ اس کا عنوان بھی امام مسلم نے اس طرح باندھا ہے؛

صحيح مسلم: كِتَاب الصَّلَاةِ: بَاب وَضْعِ يَدِهِ الْيُمْنَى عَلَى الْيُسْرَى بَعْدَ تَكْبِيرَةِ الْإِحْرَامِ تَحْتَ صَدْرِهِ فَوْقَ سُرَّتِهِ وَوَضْعُهُمَا فِي السُّجُودِ عَلَى الْأَرْضِ حَذْوَ مَنْكِبَيْهِ
تکبیر تحریمہ کے بعد سیدھا ہاتھ الٹے ہاتھ پر سینہ کے نیچے ناف کے اوپر باندھنا ـــ الخ
دونوں جلیل القدر محدثین سینہ پر ہاتھ باندھنے کی بجائے سینہ سے نیچے ہاتھ باندھنے کی دلیل لارہے ہیں اور ناف کو محور بتاتے ہیں۔
کیا یہ دونوں جلیل القدر محدثین غلط سمجھے ہیں؟
محترم البانی نے بھی امام ترمذی کے اس قول سمیت اس کو ”حسن صحیح“ کہا ہے۔
اس کے رد کے لئے کوئی صحیح حدیث لائیں یا کسی محدث یا فقیہ کا قول ۔


ناف کے نیچے ہاتھ باندھنے کی صراحت ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ سے ملتی ہے۔ ان کے زمانہ تک یہ ضعیف راوی تھا ہی نہیں تو اس کا ضعف ان تک کیسے پہنچ گیا۔عبد الرحمن بن إسحاق الواسطي جس سے حدیث لے رہے ہیں وہ ہے سيار أبي الحكم اور ان کی وفات 122 ہجری ہے۔
بفرضِ محال اگر یہ ضعیف ہے تو سینہ پر ہاتھ باندھنے کی بھی کوئی حدیث صحیح نہیں۔


فیصلہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف لے جاتے ہیں؛
مَنْ يَعِشْ مِنْكُمْ بَعْدِي فَسَيَرَى اخْتِلَافًا كَثِيرًا فَعَلَيْكُمْ بِسُنَّتِي وَسُنَّةِ الْخُلَفَاءِ الْمَهْدِيِّينَ الرَّاشِدِينَ ــــ الحدیث
آخری خلیفہ راشد علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرما رہے ہیں کہ ناف کے نیچے ہاتھ باندھنا سنت ہے۔
زیر ناف ہاتھ باندھنے کی مزید احادیث؛

1:صحيح مسلم: كِتَاب الصَّلَاةِ:
بَاب وَضْعِ يَدِهِ الْيُمْنَى عَلَى الْيُسْرَى بَعْدَ تَكْبِيرَةِ الْإِحْرَامِ تَحْتَ صَدْرِهِ فَوْقَ سُرَّتِهِ وَوَضْعُهُمَا فِي السُّجُودِ عَلَى الْأَرْضِ حَذْوَ مَنْكِبَيْهِ
تکبیر تحریمہ کے بعد سیدھا ہاتھ الٹے ہاتھ پر سینہ کے نیچے ناف کے اوپر باندھنا ــــــــــ الخ

2 :سنن الترمذي:كِتَاب الصَّلَاةِ: بَاب مَا جَاءَ فِي وَضْعِ الْيَمِينِ عَلَى الشِّمَالِ فِي الصَّلَاةِ:
حدثنا قتيبة حدثنا أبو الأحوص عن سماك بن حرب عن قبيصة بن هلب عن أبيه قال ثم كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يؤمنا فيأخذ شماله بيمينه

قال وفي الباب عن وائل بن حجر وغطيف بن الحارث وابن عباس وابن مسعود وسهل بن سعد
قال أبو عيسى حديث هلب حديث حسن والعمل على هذا ثم أهل العلم من أصحاب النبي صلى الله عليه وسلم والتابعين ومن أن يضع الرجل يمينه على شماله في الصلاة ورأى بعضهم أن يضعهما فوق السرة ورأى بعضهم أن يضعهما تحت السرة وكل ذلك واسع عندهم واسم هلب يزيد بن قنافة الطائي

ابو عیسیٰ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ــــــــــــــ بعض ہاتھوں کو ناف کے اوپر باندھتے تھے اور بعض ناف کے نیچے (سینہ کا ذکر ہی نہیں)ــــــ ــــــــــ الحدیث

3: ابوداؤد:كِتَاب الصَّلَاةِ: بَاب وَضْعِ الْيُمْنَى عَلَى الْيُسْرَى فِي الصَّلَاةِ:
حدثنا محمد بن محبوب حدثنا حفص بن غياث عن عبد الرحمن بن إسحق عن زياد بن زيد عن أبي جحيفة أن عليا رضي الله عنه قال من السنة وضع الكف على الكف في الصلاة تحت السرة

بے شک علی رضی الله تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ ہتھیلی پر ہتھیلی ناف کے نیچے رکھنا سنت ہے۔

4 : ابوداؤد: كِتَاب الصَّلَاةِ: بَاب وَضْعِ الْيُمْنَى عَلَى الْيُسْرَى فِي الصَّلَاةِ:
حدثنا محمد بن قدامة يعني ابن أعين عن أبي بدر عن أبي طالوت عبد السلام عن ابن جرير الضبي عن أبيه قال رأيت عليا رضي الله عنه يمسك شماله بيمينه على الرسغ فوق السرة

علی رضی الله تعالیٰ عنہ کو دیکھا کہ انہوں نے بائیں ہاتھ کو دائیں ہاتھ سے ناف کے اوپر گٹ سے پکڑے ہوئے تھے۔
قال أبو داود وروي عن سعيد بن جبير فوق السرة قال أبو مجلز تحت السرة وروي عن أبي هريرة وليس بالقوي
ابو داؤد رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ سعيد بن جبيرناف کے اوپر روایت کرتے ہیں اور أبو مجلز ناف کے نیچے (یہاں بھی سینہ کا ذکر تک نہیں)۔ ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بھی روایت ہے اور وہ قوی نہیں۔

5 : ابوداؤد: كِتَاب الصَّلَاةِ: بَاب وَضْعِ الْيُمْنَى عَلَى الْيُسْرَى فِي الصَّلَاةِ:
حدثنا مسدد حدثنا عبد الواحد بن زياد عن عبد الرحمن بن إسحق الكوفي عن سيار أبي الحكم عن أبي وائل قال قال أبو هريرة أخذ الأكف على الأكف في الصلاة تحت السرة

ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ نماز میں ناف کے نیچے ہتھیلی سے ہتھیلی پکڑیں۔ اس روایت کو ابو داؤد رحمۃ اللہ نے کہا کہ صحیح نہیں۔

6 سنن الكبرى للبيهقي: باب وضع اليدين على الصدر في الصلوة من السنة:
وأخبرنا أبو زكريا بن أبي إسحاق أنبأ الحسن بن يعقوب ثنا يحيى بن أبي طالب أنبأ زيد ثنا سفيان عن بن جريج عن أبي الزبير قال ثم أمرني عطاء أن أسأل سعيد أين تكون اليدان في الصلاة فوق السرة أو أسفل من السرة فينبغي عنه فقال فوق السرة يعني به سعيد بن جبير

سعيد بن جبير (رحمۃ اللہ علیہ) سے پوچھا گیا کہ کہ نماز میں ہاتھ کہاں باندھے جائیں ناف کے اوپر یا ناف کے نیچے؟ ـــــــــــــــــــــ (سعيد بن جبيررحمۃ اللہ علیہ) نے فرمایا کہ ناف کے اوپر۔

وكذلك قاله أبو مجلز ولاحق بن حميد وأصح أثر روي في هذا الباب أثر سعيد بن جبير وأبي مجلز وروي عن علي رضي الله عنه تحت السرة وفي إسناده ضعف

7 : سنن الكبرى للبيهقي: باب وضع اليدين على الصدر في الصلوة من السنة:
أخبرنا أبو بكر بن الحارث الفقيه أنبأ علي بن عمر الحافظ ثنا محمد بن القاسم بن زكريا ثنا أبو كريب ثنا يحيى بن أبي زائدة عن عبد الرحمن بن إسحاق حدثني زياد بن زيد السوائي عن أبي جحيفة عن على رضي الله عنه قال ثم إن من السنة في الصلاة وضع الكف على الكف تحت السرة

علی رضی الله تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ ہتھیلی پر ہتھیلی ناف کے نیچے رکھنا سنت ہے۔

وكذلك رواه أبو معاوية عن عبد الرحمن ورواه حفص بن غياث عن عبد الرحمن

8 : سنن الكبرى للبيهقي: باب وضع اليدين على الصدر في الصلوة من السنة:

كما أخبرنا أبو بكر بن الحارث أنبأ علي بن عمر الحافظ ثنا محمد بن القاسم ثنا أبو كريب ثنا حفص بن غياث عن عبد الرحمن بن إسحاق عن النعمان بن سعيد عن علي رضي الله عنه أنه كان يقول ثم إن من سنة الصلاة وضع اليمين على الشمال تحت السرة

علی رضی الله تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ ہتھیلی پر ہتھیلی ناف کے نیچے رکھنا سنت ہے۔

عبد الرحمن بن إسحاق هذا هو الواسطي القرشي جرحه أحمد بن حنبل ويحيى بن معين والبخاري وغيرهم ورواه أيضا عبد الرحمن عن يسار عن أبي وائل عن أبي هريرة كذلك وعبد الرحمن بن إسحاق متروك
واضح رہے کہ عبد الرحمن بن إسحاق کا ضعف ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کو نہیں پہنچتا۔

آثار
9 : مصنف ابن أبي شيبة:
حدثنا وكيع عن ربيع عن أبي معشر عن إبراهيم:
قال يضع يمينه على شماله في الصلاة تحت السرة

إبراهيم (رحمۃ اللہ علیہ) فرماتے ہیں کہ نماز میں دایاں ہاتھ بائیں پر ناف کے نیچے باندھیں۔

10: حدثنا يزيد بن هارون قال أخبرنا الحجاج بن حسان قال سمعت أبا مجلز أو سألته قال قلت كيف يصنع قال يضع كف يمينه على ظاهر كف شماله ويجعلها أسفل من السرة

دائیں ہاتھ کی ہتھیلی بائیں ہاتھ کی ہتھیلی کی پشت پر باندھ کر ناف کے نیچے رکھیں۔
12036768_10207205819237574_746181226725559652_n.jpg
12038239_10207205797357027_4323984734625312910_n.jpg
 
شمولیت
مئی 17، 2015
پیغامات
153
ری ایکشن اسکور
16
پوائنٹ
60
سیدنا ابو ہریرہ t اور سیدنا علی t سے روایت ہے کہ نماز میں سنت یہ کہ ہتھیلی کو ہتھیلی پر ناف کے نیچے رکھا جائے۔ (سنن ابی داؤد ۴۸۰/۱، ۴۸۱ ح ۷۵۸، ۷۵۶)
جائزہ:
اس روایت کا دارومدار عبدالرحمن بن اسحاق الکوفی پر ہے۔
عبدالرحمن بن اسحاق الکوفی علمائے اسماء الرجال کی نظر میں
۱۔ ابوزرعہ الرازی نے کہا: لیس بالقوی (الجرح والتعدیل ۲۱۳/۵)
۲۔ ابو حاتم الرازی نے کہا: ھوضعیف الحدیث ، منکر الحدیث یکتب حدیثہ ولا یحتج بہ (الجرح والتعدیل ۲۱۳/۵)
۳۔ ابن خزیمہ نے کہا: ضعیف الحدیث (کتاب التوحید ص ۲۲۰)
۴۔ ابن معین نے کہا: ضعیف ، لیس بشیء (الجرح والتعدیل ۲۱۳/۵ وسندہ صحیح ، تاریخ ابن معین ۱۵۵۹، ۳۰۷۰)
۵۔ احمد بن حنبل نے کہا: منکر الحدیث (کتاب الضعفاء للبخاری ۲۰۳، التاریخ الکبیر ۲۵۹/۵)
۶۔ بزار نے کہا: لیس حدیثہ حدیث حافظ (کشف الاستار: ۸۵۹)
۷۔ یعقوب بن سفیان نے کہا: ضعیف (کتاب المعرفۃ والتاریخ ۵۹/۳)
۸۔ عقیلی نے کہا: ذکرہ فی کتاب الضعفاء (۳۲۲/۲)
۹۔ العجلی نے کہا: ضعیف جائز الحدیث یکتب حدیثہ (تاریخ العجلی : ۹۳۰)
۱۰۔ بخاری نے کہا: ضعیف الحدیث (العلل للترمذی ۲۲۷/۱)
اور کہا:فیہ نظر (الکامل لابن عدی۱۶۱۳/۴ وسندہ صحیح)
۱۱۔ نسائی نے کہا: ضعیف (کتاب الضعفاء للنسائی: ۳۵۸)
اور کہا: لیس بثقۃ (سنن النسائی ۹/۶ ح۳۱۰۱)
۱۲۔ ابن سعد نے کہا: ضعیف الحدیث (طبقات ابن سعد ۳۶۱/۶)
۱۳۔ ابن حبان نے کہا: کان ممن یقلب الاخبار والاسانید وینفرد بالمناکیر عن المشاھیر ، لا یحل الاحتجاج بخیرہ (کتاب المجروحین ۵۴/۲)
۱۴۔ دارقطنی نے کہا: ضعیف (سنن دارقطنی ۱۲۱/۲ ح ۱۹۸۲)
۱۵۔ بیہقی نے کہا: متروک (السنن الکبری ۳۲/۲)
۱۶۔ ابن جوزی نے اس کو الضعفاء والمتروکین میں ذکر کیا اور کہا:
"وویحدث عن النعمان عن المغیرۃ احادیث مناکیر" (۸۹/۲ ت ۱۸۵۰)
اور کہا: "المتھم بہ عبدالرحمٰن بن اسحاق" (الموضوعات ۲۵۷/۳)
۱۷۔ الذہبی نے کہا: ضعفوہ (الکاشف ج ۲ ص ۲۶۵)
۱۸۔ ابن حجر نے کہا: کوفی ضعیف (تقریب التہذیب : ۳۷۹۹)
۱۹۔ نووی نے کہا: ھو ضعیف بالاتفاق (شرح مسلم ج۴ ص ۱۱۵، نصب الرایہ ج ۱ ص ۳۱۴)
۲۰۔ ابن الملقن نے کہا: فانہ ضعیف (البدر المنیر ۱۷۷/۴)
الزرقانی نے بھ شرح مؤطا امام مالک (ج۱ ص ۳۲۱) میں کہا: "واسنادہ ضعیف"
اس تفصیل سے معلوم ہواکہ عبدالرحمٰن بن اسحاق جمہور محدثین کرام کے نزدیک ضعیف و مجروح ہے بعض نے اس کو متہم اور متروک بھی کہا لہٰذا اس کی روایت مردود ہے، اسی لیے حافظ ابن حجر نے کہا: "واسنادہ ضعیف" (الدرایہ ۱۶۸/۱)
بیہقی نے کہا: "لایثبت اسنادہ"
نووی نے کہا: "ھو حدیث متفق علی تضعیفہ" (نصب الرایہ ج۱ ص۳۱۴)
زیلعی حنفی نے تو اس کی کوئی تردید نہیں کی مگر نصب الرایہ کے متعصب محشی فرماتے ہیں:
"ترمذی نے عبدالرحمٰن بن اسحاق کی حدیث کی تحسین اور ھاکم نے تصحیح کی ہے" حالانکہ ترمذی اور حاکم دونوں ان لوگوں کے نزدیک تساہل کے ساتھ مشہور ہیں۔ ترمذی نے کثیر بن عبداللہ کی حدیث کی تصحیح کی ہے جبکہ کثیر کو کذاب بھی کہا گیا ہے ، اسی لیے بقول حافظ ذہبی "علماء ترمذی کی تصحیح پر اعتماد نہیں کرتے۔" (میزان الاعتدال ۴۰۷/۳)
حاکم نے مستدرک میں عبدالرحمٰن بن زید بن اسلم کی حدیث کی تصحیح کی ہے ، حالانکہ یہی حاکم اپنی کتاب "المدخل الی الصحیح" میں لکھتے ہیں:
"روی عن ابیہ احادیث موضوعۃ لا یخفی علی من تاملھا من اھل الصنعۃ ان الحمل فیھا علیہ" (ص۱۰۴)
زیلعی حنفی لکھتے ہیں کہ: "وتصحیح الحاکم لا یعتد بہ" (نصب الرایہ ۳۴۴/۱)
یعنی حنفیوں کے نزدیک حاکم کی تصحیح کسی شمار وقطار میں نہیں ہے، اس کا کوئی اعتبار نہیں۔ ابن خزیمہ نے تو عبدالرحمٰن پر جرح کی ہے۔ دیکھئے کتاب التوحید (ص۲۲۰)
یاد رہے کہ عبدالرحمٰن مذکور کی تحت السرۃ والی روایت کو کسی محدث وامام نے صحیح یا حسن نہیں کہا، لہٰذا امام نووی کی بات صحیح ہے کہ یہ حدیث بالاتفاق ضعیف ہے۔
عبدالرحمٰن کے اساتذہ میں زیاد بن مجہول ہے۔ (تقریب التہذیب: ۲۰۷۸)
نعمان بن سعد کی توثیق سوائے ابن حبا کے کسی نے نہیں کی اور اس سے عبدالرحمٰن روایت میں تنہا ہے لہٰذا حافظ ابن حجر نے کہا: "فلا یحتج بخیرہ" (تہذیب التہذیب ۴۰۵/۱۰)
عبدالرحمٰن الواسطی نے "عن سیار ابی الحکم عب ابی وائل قال قال ابو ھریرۃ۔۔۔"
کی ایک سند فٹ کی ہے، اس کے بارے میں امام ابو داؤد نے کہا:
"وروی عن ابی ھریرۃ ولیس بالقوی"
اور ابوہریرہ (t) سے مروی ہے اور وہ قوی نہیں ہے۔
(سنن ابی داؤد ج ۱ ص۴۸۰ حدیث ۷۵۷)
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
@محمد کاشف بھائی۔ آپ کی صرف پہلی صحیح ابن خزیمہ والی حدیث ہی آپ کے دعوی پر صریح ہے لیکن اس میں مومل بن اسماعیل ضعیف ہیں۔
حضرت علی رض کی تفسیر کی روایت کی سند کی تحقیق پیش فرمائیں گے؟
 
Top