امیر حمزہ
رکن
- شمولیت
- جنوری 08، 2017
- پیغامات
- 15
- ری ایکشن اسکور
- 4
- پوائنٹ
- 36
ترک رفع الیدین کی حدیث ابن عباس رضی اللہ کا جائزہ
احناف کی ترک رفع الیدین کی سب سے مضبوط دلیل حضرت عبداللہ ابن عباس کی حدیث ہے
’’قَالَ الْاِمَامُ الْحَافِظُ الْمُحَدِّثُ اَحْمَدُ بْنُ شُعَیْبِ النِّسَائِیُّ اَخْبَرَ نَا سُوَیْدُ بْنُ نَصْرٍ حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّہِ بْنُ الْمُبَارَکِ عَنْ سُفْیَانَ عَنْ عَاصِمِ بْنِ کُلَیْبٍ عَنْ عَبْدِالرَّحْمٰنِ بْنِ الْاَسْوَدِ عَنْ عَلْقَمَۃَ عَنْ عَبْدِاللّٰہِ رضی اللہ عنہما قَالَ اَلَااُخْبِرُکُمْ بِصَلٰوۃِ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ و سلم قَالَ؛ فَقَامَ فَرَفَعَ یَدَیْہِ اَوَّلَ مَرَّۃٍ ثُمَّ لَمْ یُعِدْ۔‘‘(سنن النسائی ج۱ص۱۵۸،سنن ابی داؤدج۱ص۱۱۶ )
اسکو امام ترمذی رحمہ اللہ نے حسن کہا
باقی اس حدیث پر جرح کے بغیر امام ترمذی کی تحسین پر بات کرتے ہیں کہ
کیا احناف امام ترمذی کی تحسین کو مانتے ہیں یا صرف دعوی کرتے ہیں اگر کوئی حدیث اپنے مسلک کے موافق ہو تو امام ترمذی کی تحسین قابل قبول اور اگر مخالف ہو تو اسکو رد کر دیتے ھیں,
آئیے ہم وہ اقوال پیش کرتے ہیں جن میں احناف نے امام ترمذی کی تحسین کو قبول نہیں کیا
مثال کے طور پر فاتحہ خلف الامام کی حدیث کو امام ترمذی رحمہ اللہ نے حسن کہا اور ایک محدثین کی جماعت نے حسن یا صحیح کہا ھے تفصیل کے لیے دیکھیں (توضیح الکلام ۲۲۲)
اس کے باوجود مولانا سرفراز صفدر لکھتے ہیں کہ اس حدیث کا وجود اور عدم وجود برابر ہے
احسن الکلام ۷۰;۷۷
محمود الحسن نے لکھا ہے کہ یہ حدیث اول تو انکے مدعا پر نص نہیں اگر اس سے بھی درگزر کیا جائے تو قوی نہیں اگرچہ ترمذی اسکو حسن کہتے ہیں
تقاریر شیخ الہند ۶۸
سعید احمد پالنپوری دیوبندی نے لکھا ہے کہ امام ترمذی کا *حسن• حسن لذاتہ سے فروتر ہے معمولی ضعیف حدیث کو بھی حسن کہہ دیتے ہیں
تسہیل ادلہ کاملہ ص ۶۵
سرفراز خان نے لکھا ہے کہ امام ترمذی حدیث کی تحسین وتصیح میں بڑے متساہل ہیں
الکلام المفید ۳۲۹
سنن ترمذی میں آیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جرابوں پر مسح کیا
مفتی تقی عثمانی اس حدیث کے متعلق لکھتے ھیں کہ
اس حدیث میں امام ترمذی کو تسامح ہوا ہے
درس ترمذی ج۱ ۳۳۶
اسی حدیث کے متعلق امین اوکاڑوی نے لکھا ہے کہ امام ترمذی اس بارے متساہل ہیں
تجلیات صفدر ج۲ ص۱۷۶
اسکے علاوہ حضرت ابوحمید الساعدی رضی اللہ عنہ کی حدیث جو انہوں نے دس صحابہ کرام کی موجودگی میں بیان کی اس میں چار مقامات پر رفع الیدین کا ثبوت ہے اور امام ترمذی نے اسکو حسن کہا ہے اور صحیح بھی کہا ہے
سنن ترمذی ص ۶۷
اسکے باوجود امین اوکاڑوی نے اسکو ضعیف کہا
تجلیات صفدر ج۲ ص ۲۹۷
مذکورہ تفصیل سے واضح ہوگیا کہ آل دیوبند کے نزدیک امام ترمذی کا حدیث کو حسن یا صحیح کہنا حجت نہیں ھے اور نہ صحابہ کے وہ اقوال جو انہوں نے بلا سند صحابہ سے نقل کیے ہیں
مثلا امام ترمذی نے حضرت عبادہ بن صامت کی حدیث حسن ہے اور یہ روایت زہری نے محمود بن ربیع سے نقل کی اور انہوں نے عبادہ بن صامت سے نقل کی اور انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل کی کہ اس شخص کی نماز نہیں جو نماز میں سورۃ فاتحہ نہیں پڑھتا اور یہ روایت بہت صحیح اور اسی پر عمل ہے امام کے پیچھے قرآن پڑھنے کے باب میں اکثر صحابہ وتابعین کا یہی قول ہے مالک بن انس ابن مبارک امام شافعی واحمد واسحاق کا بھی یہی قول وعمل ہے
ترمذی مترجم از بدیع الزماں ج۱ ص۱۵۴
لیکن آل دیوبند اسکو صحیح ماننے کے لیے تیار نہیں اسی طرح نماز جنازہ کی تکبیرات میں رفع الیدین کے بارے امام ترمذی نے فرمایا
اکثر اہل علم صحابہ کرام اور دیگر حضرات کا خیال ہے کہ ہر تکبیر کے ساتھ رفع الیدین کرنی چاہیے
ترمذی ج۱ ص۲۴۴
لیکن آل دیوبند اسکو ماننے کے لیے تیار نہیں ہیں
اسی طرح ماسٹر امین اوکاڑوی نے لکھا ہے کہ امام بخاری نے نہ کسی صحابی کا زمانہ پایا ہے نہ کسی تابعی کا اس لیے صحابہ کرام کے بارے اور تابعین کے بارے انکے بے سند اقوال قابل قبول نہیں
جزءرفع الیدین ۳۰۷
جب دیوبند کے نزدیک امام بخاری کے اقوال حجت نہیں تو امام ترمذی کے اقوال کیونکر حجت ہوسکتے ہیں?
امام ترمذی سے پہلے کسی بھی محدث نے اس حدیث کو صحیح نہیں کہا بلکہ اکثر محدثین نے اسے ضعیف یا معلول قرار دیا ہے تفصیل کے لیے دیکھیے نورالعینین ص ۱۳۰
اسکے علاوہ امین اوکاڑوی نے ابن حزم کے حوالے سے لکھا کہ امام ابن حزم نے اس حدیث کو صحیح کہا ہے
تجلیات صفدر ج۲ ص ۳۵۳
ماسٹر امین اوکاڑوی نے اور جگہ لکھا کہ کسی امتی کی رائے سے کسی حدیث کو صحیح یا ضعیف کہنا اہل الرائے کا کام ہے نہ کہ اہل حدیث کا اور یہ تقلید ہے
تجلیات صفدر ج۷ ص۱۷۱
ماسٹر امین اوکاڑوی لکھتے ہیں کہ
ابن حزم تو جھوٹا ہے(استغفراللہ)
فتوحات صفدر ج۲ص۶۳
اب جب اوکاڑوی صاحب کے نزدیک امام ابن حزم جھوٹے ہیں تو جھوٹے کی بات کیسے مان لی اور ایک جھوٹے کے مقلد بن گئے........
احناف کی ترک رفع الیدین کی سب سے مضبوط دلیل حضرت عبداللہ ابن عباس کی حدیث ہے
’’قَالَ الْاِمَامُ الْحَافِظُ الْمُحَدِّثُ اَحْمَدُ بْنُ شُعَیْبِ النِّسَائِیُّ اَخْبَرَ نَا سُوَیْدُ بْنُ نَصْرٍ حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّہِ بْنُ الْمُبَارَکِ عَنْ سُفْیَانَ عَنْ عَاصِمِ بْنِ کُلَیْبٍ عَنْ عَبْدِالرَّحْمٰنِ بْنِ الْاَسْوَدِ عَنْ عَلْقَمَۃَ عَنْ عَبْدِاللّٰہِ رضی اللہ عنہما قَالَ اَلَااُخْبِرُکُمْ بِصَلٰوۃِ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ و سلم قَالَ؛ فَقَامَ فَرَفَعَ یَدَیْہِ اَوَّلَ مَرَّۃٍ ثُمَّ لَمْ یُعِدْ۔‘‘(سنن النسائی ج۱ص۱۵۸،سنن ابی داؤدج۱ص۱۱۶ )
اسکو امام ترمذی رحمہ اللہ نے حسن کہا
باقی اس حدیث پر جرح کے بغیر امام ترمذی کی تحسین پر بات کرتے ہیں کہ
کیا احناف امام ترمذی کی تحسین کو مانتے ہیں یا صرف دعوی کرتے ہیں اگر کوئی حدیث اپنے مسلک کے موافق ہو تو امام ترمذی کی تحسین قابل قبول اور اگر مخالف ہو تو اسکو رد کر دیتے ھیں,
آئیے ہم وہ اقوال پیش کرتے ہیں جن میں احناف نے امام ترمذی کی تحسین کو قبول نہیں کیا
مثال کے طور پر فاتحہ خلف الامام کی حدیث کو امام ترمذی رحمہ اللہ نے حسن کہا اور ایک محدثین کی جماعت نے حسن یا صحیح کہا ھے تفصیل کے لیے دیکھیں (توضیح الکلام ۲۲۲)
اس کے باوجود مولانا سرفراز صفدر لکھتے ہیں کہ اس حدیث کا وجود اور عدم وجود برابر ہے
احسن الکلام ۷۰;۷۷
محمود الحسن نے لکھا ہے کہ یہ حدیث اول تو انکے مدعا پر نص نہیں اگر اس سے بھی درگزر کیا جائے تو قوی نہیں اگرچہ ترمذی اسکو حسن کہتے ہیں
تقاریر شیخ الہند ۶۸
سعید احمد پالنپوری دیوبندی نے لکھا ہے کہ امام ترمذی کا *حسن• حسن لذاتہ سے فروتر ہے معمولی ضعیف حدیث کو بھی حسن کہہ دیتے ہیں
تسہیل ادلہ کاملہ ص ۶۵
سرفراز خان نے لکھا ہے کہ امام ترمذی حدیث کی تحسین وتصیح میں بڑے متساہل ہیں
الکلام المفید ۳۲۹
سنن ترمذی میں آیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جرابوں پر مسح کیا
مفتی تقی عثمانی اس حدیث کے متعلق لکھتے ھیں کہ
اس حدیث میں امام ترمذی کو تسامح ہوا ہے
درس ترمذی ج۱ ۳۳۶
اسی حدیث کے متعلق امین اوکاڑوی نے لکھا ہے کہ امام ترمذی اس بارے متساہل ہیں
تجلیات صفدر ج۲ ص۱۷۶
اسکے علاوہ حضرت ابوحمید الساعدی رضی اللہ عنہ کی حدیث جو انہوں نے دس صحابہ کرام کی موجودگی میں بیان کی اس میں چار مقامات پر رفع الیدین کا ثبوت ہے اور امام ترمذی نے اسکو حسن کہا ہے اور صحیح بھی کہا ہے
سنن ترمذی ص ۶۷
اسکے باوجود امین اوکاڑوی نے اسکو ضعیف کہا
تجلیات صفدر ج۲ ص ۲۹۷
مذکورہ تفصیل سے واضح ہوگیا کہ آل دیوبند کے نزدیک امام ترمذی کا حدیث کو حسن یا صحیح کہنا حجت نہیں ھے اور نہ صحابہ کے وہ اقوال جو انہوں نے بلا سند صحابہ سے نقل کیے ہیں
مثلا امام ترمذی نے حضرت عبادہ بن صامت کی حدیث حسن ہے اور یہ روایت زہری نے محمود بن ربیع سے نقل کی اور انہوں نے عبادہ بن صامت سے نقل کی اور انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل کی کہ اس شخص کی نماز نہیں جو نماز میں سورۃ فاتحہ نہیں پڑھتا اور یہ روایت بہت صحیح اور اسی پر عمل ہے امام کے پیچھے قرآن پڑھنے کے باب میں اکثر صحابہ وتابعین کا یہی قول ہے مالک بن انس ابن مبارک امام شافعی واحمد واسحاق کا بھی یہی قول وعمل ہے
ترمذی مترجم از بدیع الزماں ج۱ ص۱۵۴
لیکن آل دیوبند اسکو صحیح ماننے کے لیے تیار نہیں اسی طرح نماز جنازہ کی تکبیرات میں رفع الیدین کے بارے امام ترمذی نے فرمایا
اکثر اہل علم صحابہ کرام اور دیگر حضرات کا خیال ہے کہ ہر تکبیر کے ساتھ رفع الیدین کرنی چاہیے
ترمذی ج۱ ص۲۴۴
لیکن آل دیوبند اسکو ماننے کے لیے تیار نہیں ہیں
اسی طرح ماسٹر امین اوکاڑوی نے لکھا ہے کہ امام بخاری نے نہ کسی صحابی کا زمانہ پایا ہے نہ کسی تابعی کا اس لیے صحابہ کرام کے بارے اور تابعین کے بارے انکے بے سند اقوال قابل قبول نہیں
جزءرفع الیدین ۳۰۷
جب دیوبند کے نزدیک امام بخاری کے اقوال حجت نہیں تو امام ترمذی کے اقوال کیونکر حجت ہوسکتے ہیں?
امام ترمذی سے پہلے کسی بھی محدث نے اس حدیث کو صحیح نہیں کہا بلکہ اکثر محدثین نے اسے ضعیف یا معلول قرار دیا ہے تفصیل کے لیے دیکھیے نورالعینین ص ۱۳۰
اسکے علاوہ امین اوکاڑوی نے ابن حزم کے حوالے سے لکھا کہ امام ابن حزم نے اس حدیث کو صحیح کہا ہے
تجلیات صفدر ج۲ ص ۳۵۳
ماسٹر امین اوکاڑوی نے اور جگہ لکھا کہ کسی امتی کی رائے سے کسی حدیث کو صحیح یا ضعیف کہنا اہل الرائے کا کام ہے نہ کہ اہل حدیث کا اور یہ تقلید ہے
تجلیات صفدر ج۷ ص۱۷۱
ماسٹر امین اوکاڑوی لکھتے ہیں کہ
ابن حزم تو جھوٹا ہے(استغفراللہ)
فتوحات صفدر ج۲ص۶۳
اب جب اوکاڑوی صاحب کے نزدیک امام ابن حزم جھوٹے ہیں تو جھوٹے کی بات کیسے مان لی اور ایک جھوٹے کے مقلد بن گئے........
Last edited by a moderator: