محمد عامر یونس
خاص رکن
- شمولیت
- اگست 11، 2013
- پیغامات
- 17,117
- ری ایکشن اسکور
- 6,800
- پوائنٹ
- 1,069
ترکی کی اسرائیل دوستی
اور مزعوم "خليفة المسلمين" كى منافقت
اور مزعوم "خليفة المسلمين" كى منافقت
بقلم : ڈاکٹر اجمل منظور
میں نے اس مضمون کے ذریعے کوشش کی ہے کہ ترکی کی اصل حقیقت کھل کر لوگوں کے سامنے آجائے، اس کی اسرائیل دوستی کا پردہ فاش ہو جائے نیز تحریکیوں کے مزعوم روحانی قائد اردگان کے حقیقی چہرے سے بھی پردہ اٹھ جائے اور تحریکیوں کی تمام قلعی اتر جائے۔
چنانچہ یہ سچ ہے کہ اردگان دین پسند ہیں لیکن کس منہج کا دین ؟
وہ تقلیدی صوفی منہج جس میں تحریکیت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے اور ساتھ ہى لبرل كا بھى ليبل لگا ہوا ہے؛ کیونکہ نجم الدین اربکان ان کے پکے پیر ومرشد رہ چکے ہیں۔ ترکی میں تبدیلی آئی ہے ۔ اقتصادی ترقی ہوئی ہے۔ اب اسلام پسندوں کیلئے بھی جگہ مل رہی ہے۔ لیکن کیا ترکی اس لائق ہوگیا ہے کہ دینی اعتبار سے مسلمانوں کی سربراہی کرسکے؟ کیا وہاں سے مغرب زدہ اباحیت نواز معاشرے کو بدلا جا چکا ہے؟ کیا بددینی اور الحاد جسے وہاںفخر کی بات سمجھی جاتی ہے اسے ختم کیا جاسکتا ہے؟ کیا قحبہ خانوں اور شراب کی بھٹیوں کو بند کر دیا گیا ہے؟ یہ ضرور ہوا ہے کہ مسجدوں کے ساتھ وہ سارے مزارات ، درگاہیں اور خانقاہیں بھی کھول دیئے گئے ہیں جو مصطفی کمال اتاترک سے پہلے شرک وخرافات کا اڈہ تھے۔ اور انہیں درگاہوں اور خانقاہوں نے اسے لے ڈوبا تھا۔ ویسے جدید ترکی مشرق وسطی کا اہم ترین ملک ہے جو ایشیا اور یورپ کے سنگم پرواقع ہے۔ ترکی کی سرحدیں آٹھ ممالک سے ملتی ہیں جن میں بلغاریہ ، یونان، جارجیا ، آرمینیا،اذربائیجان، ایران، عراق اور شام شامل ہیں۔ ترکی معاشی ، دفاعی اور محل وقوع کے لحاظ سے دنیا میں اہم مقام رکھتا ہے لیکن اس کے باوجود عرب اور مسلم ممالک سے زیادہ اسرائیل اور یورپی ممالک کا محافظ ہے۔
آج کل اردگان کو سارے تحریکی اور تقلیدی جس طرح فلسطین کا ہمددر بناکر دنیا کے سامنے پروجیکٹ کر رہے ہیں ۔ ایسا لگتا ہے فلسطینیوں کا سارا درد انہیں کے اندر ہے ۔ یہودیوں کے سب سے بڑے دشمن یہی ہیں۔ مسجد اقصی کی سب سے زیادہ فکر انہیں کو ہے۔ اہل فلسطین کے سب سے بڑے معاون اور مددگار یہی ہیں۔ لیکن کیا واقعی سب کچھ ایسا ہی ہے یا پردے کے پیچھے ایک بھیانک دوسرا سین بھی ہے جسے مسلم دنیا کے سامنے نہیں پیش کیا جاتا؟
چنانچہ یہ ایک تاریخی تلخ حقیقت ہے کہ مشرق وسطی کے اندر روس ، چین، جاپان اور کمنسٹ رجحان کو ختم کرنے کیلئے بیسویں صدی کے نوے کی دہائی میں امریکہ کوجب لبر ل اسلام پسندوں کی ضرورت محسوس ہوئی تو ان کی نظرِکرم رجب طیب اردگان پر پڑی جو اس وقت نجم الدین اربکان کی رفاہ پارٹی کی طرف سے استنبول کے میئر تھے۔ (تحریکیوں کو معلوم ہونا چاہئیے کہ لبرل اسلام کی اصطلاح امریکی ہے جوسب سے پہلے ان کے لبرل امیر جماعت اردگان کیلئے استعمال کی گئی ہے۔ لہذا انہیں چاہئیے کہ اس حقیقت کو چھپا کر بن سلمان کے خلاف اس اصطلاح کو پھیلا کر غلط پروپیگنڈہ سے بچیں کیونکہ بن سلمان نے متوسط اسلام کی بات کہی ہے جو کہ مطلوب بھی ہے اور لبرل اسلام سے بالکل مختلف اور متضاد ہے )۔کیونکہ موجودہ حالات کے پیش نظر ملحد اور بد دین قسم کے لوگوں پر امریکہ کا اعتماد ختم ہوچکا ۔ چنانچہ ترکی میں امریکی (یہودی ) سفیر مورٹن ابرامووچ (Morton Isaac Abramowitz) نے نوے کی دہائی میں اردگان کی ملاقات امریکہ کے ایک اہم سیاست دان پال وولفووچ (Paul Wolfowitz) سے کرائی جو ورلڈ بینک کے صدر ، انڈونیسیا میں امریکی سفیر اور امریکہ کے وزارت دفاع میں ڈپٹی سیکریٹری کے طور پر کام کرچکے ہیں۔ اور یہ سچ ہے کہ امریکہ جہاں ایک طرف اسرائیل کا مضبوط محافظ ہے وہیں دوسری طرف خطے میں ترکی کا بھی محافظ ہے۔ اسی لئے جب 2010ء کے بعد ترکی اور اسرائیل میں تلخی پیدا ہوئی تو2013ء میں امریکہ سے اوباما نے آکر دونوں میں صلح کرائی تھی۔
-مذکورہ تاریخی حقیقت کی روشنی میں یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ سیکولر اور ملحد ترکی میں اردگان کی لبرل سیاست در اصل صہیونی اور امریکی رحم وکرم پر پروان چڑھی ہے۔ امریکہ میں یہودی لابی کی طرف سے آنجناب کو ہمیشہ زبردست حمایت حاصل رہی ہے۔ بلکہ 2004ء میں یہودیوں کی بہت ہی ایک اہم تنظیم امریکی یہودی کانگریس (American Jews Congress) نے ایک نادر تاریخی قدم اٹھاکر جناب اردگان کو بہادری کا تمغہ پیش کیا اور تنظیم کی طرف سے باقاعدہ یہ اعلان کیا گیا کہ امریکہ کیلئے بہترین خدمات انجام دینے ، اسرائیل کے حق میں بھلا ثابت ہونے اور عالمی پیمانے پر یہودی کمیونٹی کے تعلق سے عمدہ موقف رکھنے کی وجہ سے یہ تمغہ نوازا گیا ہے۔
مذکورہ عبارت سے واضح ہوا کہ اردگان کو باقاعدہ امریکہ واسرائیل کی خدمت اور ان کی مصلحتوں کو مشرق وسطی میں پورا کرنے کیلئے بہت پہلے سے تیار کیا جارہا ہے۔ اسرائیل نواز یہودی کیسے امریکی اہلکار سے استنبول میں اردگان سے ملاقات کراتے ہیں پھر آنجناب کو امریکہ کے یہودی بہادری کے تمغے سے نوازتے ہیں جوکہ اپنی نوعیت کا پہلا تمغہ ہے ؛ کیونکہ اس سے پہلے اور بعد میں کسی بھی مسلمان کو یہ تمغہ نہیں دیا گیا۔
-یہ بھی تاریخی حقیقت ہے کہ ترکی نے قیام اسرائیل کے پہلے ہی سے یہودیوں سے تعلقات پیدا کرکے جہاں ایک طرف یورپی اتحاد اور امریکہ سے قربت حاصل کرنا تھا وہیں دوسری طرف خلافت عثمانیہ کے روایتی آثار سے پیچھا چھڑا کر خود کو دنیا کے سامنے جدید اور سیکولر بناکر پیش کرنا تھا۔ اور یقینا یہودیوں نے ترکی کو اس کے دونوں مقصد میں کامیاب کردیا؛ چنانچہ جہاں ایک طرف یورپی اتحاد اور امریکہ سے قریب اور مسلم دنیا سے دور کر کے آپس میں دشمنی پیدا کرادی وہیں دوسری طرف اسے سیکولر اور ملحد بناکر اسلام سے کوسوں دور کردیا۔
انہیں یہودیوں کے ساتھ جناب اردگان کے کیسے تعلقات ہیں اور ترکی حکومت صہیونی ریاست اسرائیل کے ساتھ کتنے مجالات میں باہم تعاون رکھتی ہے درج ذیل سطور سے واضح ہوگا:
سفارتی تعلقات:
ترکی نے پہلے اسرائیل کو 28/مارچ 1949میں ایک آزاد ریاست کے طور پر تسلیم کیا پھر اس کے محض پانچ ہی ہفتے کے اند3/مئی 1950 میں اس وقت کے ترکی وزیر اعظم عدنان مندریس نے اپنا پہلا سفیر سیف اللہ اسین کو اسرائیل بھیج دیا۔ترکی سفارت خانہ تل ابیب کے اندر (Rehov Hayarkon 202) نامی مشہور جگہ پر واقع ہے ۔ فی الحال موجودہ ترکی سفیر (کمال اوکیم) ہیں ۔ ماضی میں درج ذیل ترکی سفراءنے اسرائیل میں سفارتی خدمات انجام دی ہیں:
1991سے 1995تک (Onur Gökçe)، 1995 سے 1999تک (Barlas Özener)، 2003سے 2006 تک (Feridun Sinirlioglu)، 2007 سے 2009تک (Namik Tan)، 2009سے2010تک (Ahmet Oguz Çelikkol)، 2010سے 2010تک (Kerim Uras) سفارتی امور انجام دیتے رہے ہیں۔ لیکن اس کے بعد ترکی کی بحری امدادی جہاز پر اسرائیلی فورسیز کی طرف سے حملے کے بعد سفارتی تعلقات کو اے گریڈ سے کم کردیا گیا اور سفیر کو واپس بلالیا گیا لیکن پھر 2016میں سفارتی تعلقات بحال کرکے نئے سفیر کو متعین کردیا گیا۔ بیچ میں کئی ایک بار دونوں ملکوں کے درمیان تلخیاں پیدا ہوئی ہیں لیکن جلد ہی دوستی بحال ہوگئی ہے۔
اقتصادی، تجارتی اور سرمایہ کاری تعلقات:
ترکی اور اسرائیل کے درمیان تجارتی تبادلے کا حجم3/ارب امریکی ڈالر سالانہ رہا ہے لیکن آخری پانچ سالوں میں یہ حجم بڑھ کر دو گنا ہوچکا ہے۔ ایک سروے کے مطابق 2002 سے پہلے یعنی اردگان کے حکومت میں آنے سے پہلے دونوں ملکوں کے درمیان یہ حجم چند ملین ڈالر سے زیادہ نہیں تھا لیکن اردگان کے آنے کے بعد بے تحاشہ یہ حجم بڑھکر صرف دس سالوں کے اندر پانچ ارب ڈالر ہوگیا ہے۔ اور اس میں صرف اسرائیل کا فائدہ ہوا ہے کیونکہ اس بیچ اسرائیل سے ترکی نے زیادہ تر اسلحوں کا سودا کیا ہے۔
یکم جنوری/2002سے ترکی اور اسرائیل دونوں ملکوں کے مابین مشترکہ آزاد تجارتی معاہدہ کے تحت ٹیکس فری تجارت کا عمل جاری ہوگیا ہے۔
-ایک طرف اہل فلسطین کے پانی کا انحصار مکمل اسرائیل پر ہے، وہ جب چاہ لے انہیں ایک ایک بوند کیلئے تڑپا کر مار ڈالے ۔ اسی لئے بیچ میں جب کئی دفعہ اس طرح کی ابتر صورت حال پیدا کرنے کی کوشش کی گئی تو 2013 میں امریکہ کے توسط سے فلسطین اور اسرائیل کے بیچ یہ معاہدہ طے پایا کہ حالات کیسے بھی ہوں پانی کا بحران نہیں ہونا چاہئیے۔ دوسری طرف مسلم ملک ترکی ہے کہ شام کے راستے اسرائیل کو پانی فروخت کرنے کا بڑا پلان بنا رہا ہے(جوکہ ترکی کے علاقوں میں کافی حد تک پورا بھی ہوچکا ہے) جس کی تفصیل کچھ اس طرح ہے:
اردگان کی ترقی وانصاف پارٹی کے حکومت میں آنے کے سال ہی ترکی اور اسرائیل کے مابین (مشروع أنابیب السلام) کے نام سے پانی کا معاہدہ ہواہے جس کے تحت ترکی اسرائیل کو شام کے راستے سالانہ پچاس ملین ٹن پانی سپلائی کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ 1991میں ترکی صدر تورگوت اوزال نے کہا تھا: (جس طرح عرب پٹرول بیچتے ہیں ترکی بھی اپنا پٹرول بیچے گا یعنی پانی کو)۔ لیکن کسے بیچا جائے گا اس بات کو پوشیدہ رکھا گیا یہاں تک کہ2002میں مذکورہ معاہدے پر ترکی اور اسرائیل کے مابین دسخط کر دیئے گئے۔
اگر ترکی کو فلسطینیوں کی اتنی بھی فکر ہوتی جتنا میڈیا میں پرچار کیا جارہا ہے تو کم سے کم اسرائیل کو پانی فروخت کرنے کا معاہدہ نہ کیا ہوتا بلکہ وہی پانی فلسطین کو فروخت کرتا۔ ترکی کے اس موقف اور عمل پر ترکی نواز تحریکی کیا تبصرہ کریں گے؟
-عراقی صوبہ کردستان کے کردوں سے اسرائیل کے گہرے تعلقات ہیں ، اسی بنا پر اسرائیل ان سے پٹرول خریدتا ہے اور ترکی کے راستے سے اپنے ملک میں سپلائی کرتا ہے۔امریکہ کی سرپرستی میں اور ترکی ہی کو مہرہ بناکر اور اسی کی سرزمین کو استعمال کرکے کردستان، عراق اور شام سے عالمی مارکیٹ سے چھپ کرغیر قانونی طور پر بہت ہی معمولی قیمت پر (ایک رپورٹ کے مطابق صرف دس ڈالر فی بیرل کے حساب سے) گیس اور تیل کی اسمگلنگ کرتا ہے۔ پھر دوسرے ممالک میں منہ مانگی قیمت پر فروخت کرتا ہے۔
فوجی اور عسكرى تعاون:
-فروری1996 میں دونوں حکومتوں کے مابین عسکری تعاون کے معاہدے پر باقاعدہ دستخط کیا گیا جس کے بعد دونوں ملکوں کے درمیان مشترکہ اسٹراٹیجک ریسرچ گروپ کی تشکیل عمل میں لائی گئی۔ بحری اور فضائی مشترکہ مشقیں شروع کی گئیں۔ اس کے علاوہ ترکی میں موجود (امریکی انجرلیک فوجی بیس) میں اسرائیل امریکہ کے ساتھ مل کر اپنی فوجی مشقیں کرتا رہتا ہے۔ آخر تحریکی اس وقت کہاں ہیں ترکی میں اس امریکی فوجی اڈہ کے خلاف آواز کیوں نہیں اٹھاتے جبکہ انہیں تحریکیوں نے بہت پہلے سعودی میں موجود امریکی فوجی اڈے کے خلاف آسمان سر پر اٹھا لیا تھا اور اسی کو کفر واسلام کا مسئلہ بنا دیا تھا۔ آج وہی آڈہ تحریکی نواز قطر میں چلا گیا تو اس پر بھی زبان نہیں کھلتی بالکل اسی طرح اپنے دار الخلافہ ترکی میں بھی موجود امریکی فوجی اڈہ پر خاموش ہیں۔
-ترکی مسلح افواج میں باقاعدہ اسرائیلی فوجی صلاح کار موجود ہیں۔ ترکی فوجی شعبے میں اسرائیل سے مختلف انواع کے جدید اسلحوں کی خریداری کرتا ہے۔ دونوں ملکوں کے مابین اس بات پر بھی اتفاق ہے کہ دونوں ایک دوسرے کے فضائی راستوں کو بلا اجازت کبھی بھی استعمال کرسکتے ہیں۔
- اسرائیل اور ترکی کے بیچ سفارتی پیمانے پر کئی بار تلخی پیدا ہوئی ہے البتہ فوجی ، عسکری اور اسٹراٹیجک پیمانے پر ذرا بھی فرق نہیں آیا ہے۔ چنانچہ2009میں غزہ پر بھیانک حملے اور2010میں ترکی امدادی جہاز پر حملہ کرکے دس ترک امدادی اہل کاروں کو مار دینے کے بعد دونوں ملکوں کے درمیان جو بھی تلخی ہوئی لیکن اسرائیلی وزیر اعظم یہود باراک نے 2010میں انقرہ کے اندر اردگان سے ملاقات کی اور اسی ملاقات کے اندر دونوں ملکوں کے درمیان سلامتی اور عسکری میدان میں ساٹھ (60) معاہدے عمل میں آئے۔
سیکورٹی اور سلامتی تعاون:
-سیکورٹی اور سلامتی کے میدان میں ترکی کا اسرائیل کے ساتھ بہت ہی اہم تعاون رہاہے ۔ اس نے امریکہ اور اسرائیل کے ساتھ مل کر خطے میں اپنے اثر ورسوخ کو بڑھانے کیلئے امن معاہدہ کر رکھا ہے جس کی رو سے اسرائیل کے ساتھ مل کر خطے میں عراق ، شام اور کسی دوسرے ملک کے دبدبے کو ختم کرنا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ترکی نے عراق اور شام کے اندر کبھی بھی مضبوط حکومتوں کی حمایت نہیں کی ہے بلکہ ان کے کمزور ہونے یا حکومت گر جانے ہی کی خواہش کی ہے۔ اسی طرح ترکی فوجوں نے عراق اور شام کے اندر کبھی بھی داعش جیسی دہشت گرد تنظیموں کا مقابلہ نہیں کیا ہے ۔کیونکہ اصل مقصد اسرائیل کے ساتھ مل کر خطے میں تجارتی اثرورسوخ کوبڑھانا نیز داعش جیسی تنظیموں اور مختلف قسم كے باغيوں کے ذریعے گیس اور تیل کی کالا بازاری کرکے منافع کمانا ہے۔
-سیکورٹی اور امن وسلامتی ہی کے نام پر ترکی نے مشرقی علاقے ملاطیہ شہر (Malatya City)میں کوراجیک نامی مشہور جگہ میں ایک تنبیہی ائیر بیس (Early Warning Base)بنا رکھا ہے جس کا واحد مقصد اسرائیل کی حمایت ہے اور خطے میں اسے تمام ممالک کی خفیہ نگرانی کرنے کا موقع فراہم کرنا ہے۔ اس پر ترکی کو اندرون ملک اور بیرونی ممالک میں کافی نقد وجرح اور فضیحت کا سامنا کرنا پڑا ہے پھر بھی اسکی اسرائیل نوازی میں ذرہ برابر بھی فرق نہیں پڑا ہے ۔
-1996کے اندر پہلی مرتبہ کھل کر انقرہ اور تل ابیب کے مابین اسٹراٹیجک شراکت کا معاہدہ ہوا جس کے تحت دونوں ملکوں کے مابین مخابراتی معلومات، عسکری تعاون ، باہمی فوجی مشقوں، انٹلی جنس شیئرنگ اور دیگر کئی میدان میں مختلف امور کے اندر تبادلے پر اتفاق کیا گیا۔
-2002میں کینیا کے اندرسے لیبر پارٹی کے کرد رہنما عبد اللہ اوجلان کو گرفتار کرنے میں اسرائیل نے ترکی حکومت کی پوری پوری مدد کی تھی۔
ہنگامی اور ايمرجنسى تعاون:
1999 میں جب ترکی میں زبردست زلزلہ آیا تھا اور بڑے پیمانے پر تباہی ہوئی تھی اس موقع پر دوسرے دوست ممالک کی طرح اسرائیل نے بھی بھرپور تعاون پیش کیا تھا بلکہ اسرائیل نے باقاعدہ اپنی فوج بھیجی تھی۔ اور ساتھ ہی اسرائیل نے منہدم شدہ گھروں کی جگہ پر بہت سارے گھر اپنے خرچے پر بنوائے جنہیں بعد میں اسرائیلی گاوں سے جانا جانے لگا۔
اسی طرح جب گزشتہ سال 2016 میں اسرائیل کے اندر بڑے پیمانے پر آگ بھڑک اٹھی جس پر قابو پانا ناممکن ہوگیا تو ترکی نے بھی اپنی دوستی کا صلہ دینے کیلئے ہاتھ بڑھایا اور پوری ایک فوجی ٹکڑی بھیج دی ساتھ ہی آگ بجھانے والا جیٹ طیارہ بھی روانہ کیاجس پر اسرائیلی وزیر اعظم نے رجب طیب اردگان کا شکریہ بھی ادا کیا۔
مذکورہ میادین اور مجالات کے علاوہ سیاحتی میدان میں بھی دونوں ملکوں کا کافی تعاون رہا ہے۔ نیز جس طرح ایک اچھے دوست اور اچھے پڑوس ملک سے تعلق رکھنا چاہئیے ترکی کا تعلق بالکل اسرائیل سے ویسے ہی ہے ۔
کیا دوستی اور نفاق دونوں ایک ساتھ چل سکتے ہیں؟
- ترکی کی مسلمانوں کے ساتھ سب سے بڑی غداری اور دھوکہ سب سے پہلے یہی ہے کہ مسلم ملکوں میں صرف اسی نے 28/مارچ 1949 میں اسرائیل کے بننے کے محض دس مہینے کے بعد اسے فلسطین میں یہودی وطن اور آزاد ریاست کے طور پر تسلیم کرلیا۔ اور اسرائیل کے ساتھ وہ سارے تعلقات بحال کرلئے جو ایک دوست ممالک کے ساتھ ہوتے ہیں۔
- معروف یمنی نزاد اسرائیلی یہودیہ صحافیہ ڈاکٹر عفراء بنگو(D. Afra Bengo)نے ترکی اور اسرائیل کے مابین خفیہ گہرے سیاسی رشتوں کے بارے میں2005کے اندر (العلاقات الترکیة الإسرائیلیة) کے عنوان سے لکھا ہے: (إن إسرائيل کانت حریصة جدا علی إقامة علاقات جیدة مع ترکیا لأنها بذلک تکسر عزلتها الإقليمیة، وتوازن، وعلی هذا الصعید قام بن غوریان بزیارات سریة متعددة إلی ترکیا، أهمها علی الإطلاق فی 29/أغسطس 1958 حیث عقد لقاء قمة سریاُ مع رئیس الحکومة الترکیة عدنان مندریس۔ وأعد العديد من المسؤولين فی الجانبین لهذه القمة۔ من ذلک لقاء وزیر الخارجیة الترکی فطین رشدی زورلو مرتین نظیرته الإسرائیلیة غولدا مائیر، واجتماع رئیس الأركان الترکي إبراهيم فوزی مینگیتش فی روما مع السفیر الإسرائيلي فی إيطاليا إلياهو ساسون ۔ وکان لرئیس الموساد (الأول) حینها رﺅفن شیلواح دور مرکزی فی الاتصالات الدبلوماسیة السریة)ترجمہ: یقینا اسرائیل کی شدت سے یہ خواہش تھی کہ ترکی کے ساتھ اسکے تعلقات بہتر رہیں؛ کیونکہ اس سے خطے میں اسکے الگ تھلگ پڑنے کا خاتمہ ہوگا اور ایک حد تک معاملے میں توازن پیدا ہوگا۔ اسی بنیاد پر ڈیوڈ بن گوریان نے ترکی کا کئی خفیہ سفر کیا جن میں سب سے اہم29/ اگست 1958کا وہ مشہور سفر ہے جس میں بن گوریان نے ترکی صدر عدنان مندریس کے ساتھ خفیہ ملاقات کی جہاں دونوں طرف سے کئی سرکاری ذمیداروں نے آپس میں ملاقاتیں کیں۔ ان میں ترکی وزیر خارجہ فطین رشدی نے اسرائیلی وزیر خارجہ گولڈ مائیر سے ملاقات کی۔ اسی وقت ترکی کے ارکان صدر ابراہیم فوزی نے روم میں اسرائیلی سفیر الیاہو ساسون سے ملاقات کی۔ ان ساری سیاسی اور سفارتی ملاقاتوں میں اسرائیلی خفیہ ایجنسی موساد کے صدر ریوفن شیلواح کا ہی مرکزی کردار تھا۔ تفصیل کیلئے دیکھیں:
(عدنان_مندریسhttps://www.marefa.org/ شروع میں اس رشتے کو عام نہیں کیا گیا تھا ۔ لیکن بعد میں رشتوں کی گہرائی کے بعد ساری باتیں منظر عام پر آئی ہیں۔)
- 1958 کے اندر اسرائیلی وزیر اعظم ڈیوڈ بن گوریان اور ترکی وزیر اعظم عدنان مندریس نے ملاقات کرکے خطے میں شدت پسندی اور دہشت گردی کے خلاف آپسی تعاون کا معاہدہ کیا۔سوال یہ ہے کہ اسرائیلیوں کو اس وقت کس قسم کے لوگوں کی طرف سے دہشت گردی کی توقع تھی کہ اسے ترکی بہادر کے ساتھ مل کر اس کے خلاف معاہدہ کرنا پڑا؟ کیا اس وقت خطے میں اسرائیل کے خلاف مسلمانوں کے علاوہ کوئی اور تھا؟ اور کیا موجودہ وقت میں ترکی نے اپنی یہ پالیسی ترک کر دی ہے۔
-2001 میں ترکی کے اندر ایک یہودی میوزیم بنایا گیا ہے جس کے ذریعے ترکی میں یہودیوں کی پانچ سو سالہ تاریخ کا اجمالی خاکہ پیش کیا جاتا ہے، ان کے کارناموں اور مذہبی تاریخی اشیاءکو سراہا جاتا ہے۔ اس میوزیم کو در اصل ایک تنظیم (Quincentennial Foundation) نے بنایا ہے جسے یہودیوں نے ترکی میں1989کے اندر 113 /ممبران کے ساتھ- جن میں مسلمان بھی شامل ہیں -قائم کیا تھا۔ سوال یہ ہیکہ کیا اس طرح کا یہودی میوزیم کھولنے کی اجازت کوئی مسلم ملک دے سکتا ہے؟ کیا پھر ترکی ایسی حرکت کرنے کے بعد بھی اہل فلسطین کا حقیقی ہمدرد ہوسکتا ہے؟
- اسرائیل کے اندر بئر السبع (Beersheba) نامی شہر میں اور اسی طرح یہود مونوسون (Yehud-Monosoon)نامی شہر میں مصطفی کمال اتاترک کامجسمہ اور اسکے نام پر میموریل بلڈنگ تعمیر ہے جس میں اس منحوس کی بہادری اور کمالات کو پیش کیا جاتاہے۔ اسی طرح بئر السبع کے اندر ہی عثمانی خلافت کے فوجیوں کی بہادری کے نام پر بھی میموریل بلڈنگ اور انکے نام پر بھاری مجسمہ بنایا گیا ہے۔ دونوں شہر میں سیاحت وتفریح کے نام پر ترکی سے مسلمان سالانہ لاکھوں کی تعداد میں سیر کرنے آتے ہیں اور اسرائیل کو بھاری اقتصادی فائدہ پہونچاتے ہیں۔
- حالیہ ترکی کے اسلام پسند رہنما اردگان نے مسلمانوں کے ساتھ ایک بہت بڑی غداری اور دھوکہ یہ کیا کہ اسرائیل جاکر جون/2016 میں بیت المقدس کو اسرائیلی راجدھانی تسلیم کر لی ہے۔ پھر کیا یہ دھوکہ نہیں ہے کہ دکھاوے کیلئے بیت المقدس کا دورہ کر کے اہل فلسطین سے مل کر انہیں جھوٹا دلاسا دیا جائے کہ بیت المقدس فلسطین کی راجدھانی ہے؟ کیا دین پسند ترکی رہنما میں اتنی ہمت ہے کہ اسرائیل کو آزاد یہودی ریاست کے طور پر نہ مان کر اس سے سارے تعلقات ختم کرلیں؟ نیز گزشتہ سال کے اپنے فیصلے پر نظر ثانی کرکے بیت المقدس کو اسرائیل کا نہیں بلکہ فلسطین کی راجدھانی کے طور پر اعلان کر دیں؟
-جون2016میں خالد مشعل نے جب ترکی کا سفر کیا تو اکثر اخبار ات نے یہی ظاہر کیا کہ اسرئیل کے مظالم کا دکھڑا سنانے گئے ہیں لیکن پس پردہ فلسطین کے تاجروں نے کیا کیا وہ سنیئے: اسرائیلی اخبار (بدیعوت احرنوت) کے مطابق اس ملاقات میں باقاعدہ ترکی، اسرائیل اور فلسطین تینوں کے بیچ ایک معاہدہ ہوا جس کی رو سے چار اہم اتفاقات کئے گئے: (۱) اسرائیل کی نگرانی میں غزہ پٹی کے اندر ایک ایئر پورٹ کی تعمیر عمل میں لائی جائے گی۔ (۲) غزہ پٹی کے ساحل پر بحری گزرگاہوں کو کھول دیا جائے گا تاکہ ترکی اور اسرائیل کی نگرانی میں ترکی ، قبرص اور اسرائیل سے فلسطینی تجارتی سفر کرسکیں۔ (۳) مذکورہ اجازت کے بدلے حماس کو یہ یقینی بنانا پڑے گا کہ اسرائیلی حدود پر سرنگوں کا کھودنا فلسطینی بند کردیں۔ (۴) اسرائیل کے ساتھ حماس نے ایک خفیہ معاہدہ کیا جس کی رو سے کم از کم آٹھ سال تک مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں اسرائیلی اہداف پر میزائیل نہیں داغا جائے گا۔ (www.alhagigah.net/?p=1930)
- 2016کے جون ہی میں رجب طیب اردگان نے فلسطینی صدر محمود عباس کے پاس فون کرکے مسجد اقصی کے خلاف اسرائیلی زیادتی کی مذمت کی جبکہ اس سے صرف تین مہینے پہلے کی خبر ہے کہ ترکی نے انقرہ میں اسی مشہور دہشت گرد اور شدت پسند مسلمانوں کے دشمن نمبر ایک یہودی حاخام یہودا گلیک(Yehuda Glick)کی ضیافت کی ہے جسے ان سخت گیر یہودیوں میں سے مانا جاتا ہے جو مسجد اقصی کو گرا کر اسکی جگہ یہودی ہیکل بنانے کی تحریک چلا رہے ہیں جس کا نام جبل ہیکل تحریک ہے۔ اور یہ شخص خود اسی مقصد سے ایک الگ تنظیم حلیبہ (HALIBA) نام کا چلا رہا ہے۔ (مصدر سابق)
- جناب اردگان کو ایک طرف برما کے مسلمانوں کا جھوٹا مسیحا بنا کے پیش کیا جاتا ہے ، فلسطینیوں کیلئے مستقبل کی امید بنا کر دکھایا جاتا ہے اور دور حاضر کے تمام مسلمانوں کیلئے نجات دہندہ ، اسوہ ، نمونہ، آئیڈیل بلکہ امیر المسلمین کا کردار ادا کرنے والا بتایا جاتا ہے۔ وہیں دوسری طرف ترکی کے خلیفہ وقت کا بھیانک چہرہ چھپا دیا جاتا ہے یعنی یورپ وامریکہ کی ناٹو فوج جس نے عراق اور افغانستان کو تباہ کیا اس میں ترکی بھی اپنی فوج برابر بھیجتا رہا ہے اور اب بھی شامل ہے بلکہ ترکی اپنی فوج کی شمولیت کو فخر سمجھتا ہے جسے مسلمانوں کی تباہی اور بربادی کیلئے بنایا گیا ہے۔ایک طرف دانستہ طور پر مسلمانوں کی تباہی کا باعث بننا اوردوسری طرف مسلمانوں کا مسیحابھی بننے کی کوشش کرناکیا دونوں بیک وقت مسلمان برداشت کریں گے؟
- مسلم ملکوں سے ہزاروں گنا زیادہ یورپی ممالک سے ترکی کے اقتصادی تعلقات ہیں بلکہ ترکی نے یورپی یونین میں شمولیت کیلئے بارہا کوشش کی ہے لیکن یورپی یونین کے اکثر ممبرممالک نے اسے درخور اعتنا نہ سمجھ کر اسکے خلاف ہمیشہ ووٹنگ کی ہے اور ترکی کی خواہش اور حسرت اب تک پوری نہ ہوسکی ۔ ترکی نے ان کے اکثر مطالبات کو پورا کرنے کی کوشش بھی کی لیکن کثرت آبادی، ترک آبادی کا ممبر ممالک کی طرف ہجرت کا سیلاب اور یورپی مارکٹ کے ڈی ویلو ویشن ہونے جیسے مختلف بہانے کرکے اسے شامل ہونے سے روک دیا۔ آخر یہ مسلمانوں کے ساتھ دھوکہ اور نفاق نہیں ہے تو اسے کیا کہیں گے۔ ایک طرف مغرب پرستی اور دوسری طرف اسلام کا ڈھونڈھورا پیٹ کر مسلمانوں کا خیر خواہ بننے کی کوشش کیا دونوں بیک وقت چل سکتا ہے؟
خصوصی طور پر جدید ترکی صہیونی ریاست اسرائیل کے ساتھ دشمنی اور دوستی ساتھ ساتھ کیوں رکھتی ہے؟ کیا یہ نفاق نہیں ہے؟ مسلم عوام کو دھوکہ میں رکھنا نہیں ہے؟ چند تلخ حقائق ملاحظہ کریں:
- اسی سال(2017) فروری میں ترکی اور اسرائیل کے وفود کے مابین مشرق وسطی کی صورتحال ، توانائی، اقتصادیات، سیاسیات، ثقافت اور سیاحت جیسے شعبوں میں تعاون کرنے پر اتفاق کیا گیا۔ علاوہ ازیں ترکی اور اسرائیل کے تعلقات کی علاقائی استحکام اور سلامتی کے لحاظ سے اہمیت کا بھی جائزہ لیا گیا۔ سیاسی مذاکرات کے آغاز سے لیکر ہر شعبے میں تعلقات کو فروغ دینے کیلئے اقدامات کرنے اور دوطرفہ دوروں میں اضافہ کرنے کے فیصلے بھی عمل میں آئے۔ اسی زمرے میں وزیر ثقافت وسیاحت نبی عاوجی نے دوسرے ہفتے میں اسرائیل کا دورہ کیا۔ دوسری جانب یہی ترکی ہے جس نے ترک عوام کو دھوکے میں رکھ کر ترک وزارت خارجہ نے اسرائیل کی طرف سے مقبوضہ فلسطین میں غیر قانونی یہودی بستیوں میں مزید ۳ ہزار مکانات کی تعمیر کی منظوری دینے کی مذمت بھی کردی۔ اس طرح ایک ہی دن میں دنیا بھر کے مسلمانوں کے اعلانیہ اور ازلی دشمن اسرائیل سے مذاکرات اور مذمت کرکے ترکی نے عالم اسلام کو الجھن میں ڈال دیا۔
- 2010 میں جب اسرائیلی کمانڈوز نے مرمرہ نامی ترکی امدادی جہاز پر حملہ کرکے دس ترک عملہ کے افراد کو موت کے گھاٹ اتار دیا تھا تو اس وقت ترکی نے اسرائیل کے ساتھ معمول کے سفارتی تعلقات کو سیکنڈ سیکریٹری کی سطح تک کم کردیئے تھے حالانکہ دنیا میں یہ مشہور کیا گیا کہ ترکی نے سارے تعلقات ختم کر لئے ہیں۔ لیکن 2015 میں دوبارہ سارے تعلقات پھر سے معمول پر کر دئیے گئے ۔ صہیونی حکومت کی وزارت خارجہ کے ایک اعلی عہدیدار آفیف شیرون نے باقاعدہ ٹیلی ویزن پر آکر اس بات کااعلان کیا۔
-2011میں امریکہ کے اندر موجود ترکی سفیر سلیم اینل کا وہ بیان بہت ہی معنی خیز ہے جس سے بآسانی سمجھا جاسکتا ہے کہ ترکی اسرائیل دوستی کس قدر گہری ہے۔ ترکی سفیر نے اپنے بیان میں کہا: واشنگٹن میں قیام کے دوران ہم نے ان (اسرائیلی وفد)سے کہا کہ ہمیں اس معاملے کو طے کرنا چاہیئے۔ اگر امریکہ اس سلسلے میں اپنا اثر ورسوخ استعمال کر سکتا ہے تو اور بھی اچھا ہوگا ۔ ہم موجودہ صورت حال کا حل تلاش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن اگر ہم دوست ہیں تو کسی نہ کسی کو معذرت کرنی چاہئیے۔ ترک شہری ہلاک ہوئے ہیں اور میں سمجھتا ہوں کہ بہترین حل یہ ہوگا کہ اسرائیل معذرت کرے اور معاوضہ ادا کرے، جیسا کہ دوستوں کو کرنا چاہئیے۔ صرف اسی صورت میں ہم ماضی کو بھول سکتے ہیں۔
- 2014 میں ترکی نے بڑے زور شور سے اعلان کیا کہ اسرائیل غزہ محاصرہ جب تک ختم نہیں کرے گا اس وقت تک تعلقات بحال نہیں ہوسکتے۔ لیکن خفیہ مذاکرات کے ذریعے اسرائیل نے ترکی کے صرف ایک ہی شرط کو قبول کیا یعنی مرمرہ کشتی میں صہیونی کمانڈوز کے ہاتھوں مرنے والے افراد کے اہل خانہ کو بیس ملین ڈالر تاوان دینا۔ لیکن ساتھ میں اسرائیل نے ترکی سے دو شرائط منوالئے: ترکی میں حماس کی سرگرمیوں کو محدود کرنا اور ترکی میں صہیونی حکومت کے خلاف دائر کئے گئے مقدموں کو خارج کرنا۔لیکن جس شرط کا تعلق فلسطین سے تھا اسے سختی سے رد کردیا یعنی غزہ محاصرہ کو ختم کرنا۔کیونکہ یہ شرط محض دکھاوا تھی ۔ در اصل اردگان اس شرط سے یہ ظاہر کرنا چاہتے تھے کہ انہیں بیچارے مظلوم فلسطینیوں کی بہت زیادہ فکر ہے لیکن صہیونی وزیر اعظم بنیامن نیتن یاہو نے اس شرط کو مسترد کردیا اور کہا کہ وہ غزہ کا محاصرہ ختم کرنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتے۔
- یہ پوری دنیا جانتی ہے کہ ترکی ان تمام کردوں کے خلاف ہے جو اپنی آزاد ریاست قائم کرنا چاہتے ہیں۔ اسی لئے اسی سال 25/ اگست کو عراق کے شمالی صوبے کردستان کی قیادت نے جب آزادی ریفرینڈم کرایا تو ترکی، عراق اور ایران نے اس ریفرینڈم کو قومی سلامتی کیلئے سنگین خطرہ قرار دیکر رد کردیا۔ ترکی نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ مشرق وسطی میں آزاد کردستان ریاست کا قیام ایک اور اسرائیل کے قیام کے مترادف ہے۔ دوسری طرف اسرائیل نے جو برسوں سے فلسطینی قوم کے حق خود ارادیت کو فوجی طاقت سے کچلنے کی پالیسی اپنا رکھی ہے کرد ریاست کے قیام کی حمایت کردی اور کہا کہ کردوں کو اپنی آزاد مملکت بنانے کا حق ہے۔ چنانچہ ترکی ذرائع ابلاغ کے ذریعے اس بات کا خوب پرچار کیا گیا کہ اگر اسرائیل کی طرف سے کرد ریاست کے قیام کی حمایت کا سلسلہ بند اور فلسطینیوں کے حقوق دبائے رکھنے کی پالیسی پر عمل جاری رہا تو تل ابیب اور انقرہ کے درمیان کشیدگی بڑھ جائے گی۔ لیکن یہ صرف پروپیگنڈہ ثابت ہوا اور تعلقات جوں کے توں بنے رہے۔
- اسی مہینہ6/دسمبر کو جب ٹرمپ نے بیت المقدس کو اسرائیل کی راجدھانی بننے کا اعلان کیا تو ایک بار پھر ترکی کی طرف سے اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو توڑنے کی دھمکی دی گئی۔ لیکن تاریخ یہی بتاتی ہے کہ نفاق پر قائم یہ حکومت عوام کو صرف دھوکہ دینے کیلئے دھمکی دی ہے ورنہ صہیونی ریاست کے ساتھ تعلقات میں کوئی فرق پڑنے والا نہیں ہے۔
کیا ترکی اسرائیل سے اپنے تعلقات ختم کرسکتا ہے؟
میں پورے وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ ترکی اپنے سارے تعلقات صہیونی غاصب یہودی ریاست اسرائیل سے کبھی نہیں ختم کر سکتا ہے اسکے کچھ مضبوط وجوہات ہیں جو درج ذیل ہیں:
۱- ترکی اقتصادی پیمانے پر دن بدن مزید مضبوط بننے کی کوشش میں ہے تاکہ یورپی یونین میں شمولیت کیلئے راہ ہموار ہوسکے ۔ ترکی توانائی کے میدان میں خود کفیل نہیں ہے چنانچہ اسے اس میدان میں گیس وغیرہ دوسرے ممالک خصوصا روس سے در آمد کرنا پڑتا ہے ۔ حالیہ دنوں میں ترکی اور اسرائیل کے مابین توانائی کے سیکٹر میں زبردست معاہدہ ہوا ہے جس کے تحت آئندہ ترکی اپنا سارا گیس اسرائیل سے در آمد کرے گا ۔قریب ہونے کی وجہ سے نیز پڑوسی ہونے کی وجہ سے اسرائیل سے گیس خریدنا ترکی کیلئے سستا اور آسان (Cheap $ Best) ہوگا۔ نیز معاہدے کے تحت اسرائیل ترکی کے راستے اپنا سارا گیس یورپی ممالک میں بھی سپلائی کرے گاجس سے ترکی کرایہ بھی وصول کرے گا پھر تو اسرائیلی گیس ترکی کیلئے مزید سستا ہوگا۔ اس طرح توانائی سیکٹر میں اسرائیل ترکی کیلئے کسی نعمت غیر مترقبہ سے کم ثابت نہیں ہوگا۔
۲- ترکی کے باڈر پر عراق ، شام اور لبنان کے اندر اسرائیل نے کرد علاحدگی پسندوں کو اسلحہ دیکر اور سیاسی سپورٹ کرکے دہشت کا ایسا ماحول بنا کر رکھا ہوا ہے کہ جن سے نپٹنے کیلئے اسرائیل سے دوستی ناگزیر ہے۔ ایک طرف اسرائیل کرد علاحدگی پسندوں کی مدد بھی کرتا ہے اور دوسری طرف ترکی کو ان سے نپٹنے کیلئے طریقے بھی بتاتا ہے۔ اس طرح یہودی ایک طرف دولت بھی کما رہے ہیں دوسری طرف ترکی کو سیاسی پیمانے پر تعلقات بھی بنانے پر مجبور کررہے ہیں۔
۳- ترک-عراق-ایران باڈر پر کردستان کے عدم قیام کیلئے اسرائیل کو ساتھ میں لینا ترکی کی مجبوری ہے۔ کیونکہ ترکی کو اس بات کا احساس ہے کہ مالی اور فوجی مدد دیکر اسرائیل کسی بھی وقت کردستان بنا سکتا ہے۔ جس کے بعد خود ترکی میں بھی کرد علاحدگی پسندوں کی سورش بڑھنے کا خطرہ شدید ہوجائیگا۔
4-مشرق وسطی بالخصوص ایران، شام اور عراق کی کشیدہ صورتحال ترکی کیلئے انتہائی خطرناک ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ترکی نے عراق اور شام سے ملحقہ علاقوں میں شورش سے بچاو کیلئے بڑے پیمانے پر فوجیں لگا رکھی ہیں۔اسرائیل جسے اس خطے میں شدت پسندوں سے نپٹنے کا اچھا تجربہ ہے ترکی اس سے انٹلیجنس شیئرنگ ، اسٹراٹیجک اور فوجی تعاون حاصل کرتا ہے۔ مذکورہ شعبوں میں اسرائیلی تعاون کے بغیر ترکی سیاسی ، فوجی اور اقتصادی پیمانے پر زبردست نقصان اٹھائے گا۔ یہ بھی ترکی کی ایک مجبوری ہے۔
5- عبد الحمید ثانی کے دور سے لیکر پہلی جنگ عظیم تک(دس پندرہ سالوں کے درمیان) ترکی حکومت کی طرف سے ارمن قوم کی بڑے پیمانے پر نسل کشی کی گئی۔ ایک اندازے کے مطابق دس سے پندرہ لاکھ عیسائی ارمن قوم کو اجتماعی طور پر موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ ہٹلر کے ہاتھوں یہودیوں کی نسل کشی کے بعد اسے دنیا کی سب سے بڑی نسل کشی (Arminian Genocide/Holocaust)مانی جاتی ہے۔یونان اور آرمینیا کے ساتھ تقریبا بیس یورپی ممالک نے مل کر ترکی حکومت کے خلاف اقوام متحدہ میں متعدد بار ریزولیوشن پاس کروا چکے ہیں جس میں ترکی حکومت پر دباو ڈالا گیا ہے کہ وہ اسے ارمن قوم کے خلاف نسل کشی کے اعتراف کے ساتھ انہیں ہرجانہ ادا کرنے پر راضی ہوجائے۔ لیکن ترکی حکومت نے اسکا ہر بار سختی سے انکار کیا ہے۔ نیز اسرائیلی حکومت سے مل کریہودی لابی کے ذریعے اس کے خلاف یورپ وامریکہ کے اندر زبردست مہم چلا رکھی ہے تاکہ ترکی کے خلاف ارمن قوم اسے استعمال نہ کرسکیں جس طرح اسرائیل نے جرمنی کے خلاف یہودی ہولوکاسٹ کا جرم اعتراف کروا کر اس سے بھاری قیمت وصول کر لی ہے اور ساتھ ہی عالمی پیمانے پر جرمنی حکومت کی رسوائی بھی ہوئی ہے۔ ترکی کی یہ ایک بہت بڑی مجبوری ہے کہ اسرائیلی یہودیوں کے ذریعے ہی یہ اس عظیم گناہ سے چھٹکارا حاصل کر سکتا ہے۔ صرف اسی ایک ایشو کو لیکر اگر یہودی لابی چاہ لے تو ترکی حکومت کا تیا پانچا کردے۔
6- تزویراتی، عسکری، مخابراتی اور ٹیکنیکی پیمانے پر اسرائیل نے ترکی کی جس طرح مدد کی ہے یہ کسی سے ڈھکی چھپی نہیں رہ گئی ہے۔ اسی بنیاد پر اسرائیل نے عراق اور سیریا کے پاس ترکی کے حدود میں آزادفضائی بیس بنا رکھا ہے تاکہ علاقائی خصوصاً عرب ممالک پر کڑی نگرانی کرسکے۔ یہی ہوائی بیس ہے جہاں سے اسرائیل نے عراق ایران جنگ کے وقت عراق کے ایٹمی پلانٹ کو تباہ کیا تھا۔ یہ بھی ترکی کی مجبوری ہے جسے معاہدے کے تحت کبھی ختم نہیں کرسکتا جو بلا شبہ تمام مسلمانوں کے حق میں ایک بہت بڑا دھوکہ او ر انکی پیٹھ میں ترکی چھرا ہے۔
7- ترکی کے اندر یہودیوں کی جڑ بہت پرانی اور مضبوط ہے ۔ حالیہ جدید ترکی حکومت کے قیام میں انہیں کا اہم رول رہا ہے۔ صحافت کے ذریعے ترکی میں اخلاقی فساد پھیلانے میں ان کا اہم کردار ہے۔ سیاسی پیمانے پر اسلام پسندوں کے خلاف یہ ہمیشہ لام بند رہتے ہیں۔ سیاسی ، سماجی اور اقتصادی اعتبار سے یہ اتنا طاقتور ہیں کہ ترکی حکومت اسرائیل اور یہودیوں کے خلاف کوئی بھی بڑا غلط فیصلہ نہیں لے سکتی۔ یہی ترک یہودی ہیں جنہوں نے فلسطین کی سرزمین پر یہودی وطن بنانے میں بھاری مدد کی تھی۔ بلکہ ترک یہودی جتنا صہیونی محافل اور تنظیموں کے ذمیدار ہوں گے شاید خود اسرائیل کے یہود بھی نہ ہوں۔
اسرائیل عظمی کے قیام کے مقاصد کو پورا کرنے میں ترکی کے اندر مشرقی اناضول کے علاقے میں ترک یہودیوں نے زمین کی خریداری اور وہاں یہودیوں کو بسانے میں بہت پہلے سے کام شروع کردیا ہے کیونکہ یہودیوں کے مزاعم کے حساب سے شمال مشرق میں ان کے عزائم یہیں سے شروع ہوتے ہیں۔ سب کچھ جاننے کے باوجود ترکی حکومت ان یہودیوں کے خلاف کچھ نہیں کرسکتی۔ اور یہی ترک یہودی ہیں جنہوں نے ایک طرف ترکوں کو ارمن مسیحیوں کے خلاف ابھار کر ان کی نسل کشی کرائی وہیں دوسری طرف انہیں عربوں کے خلاف ابھار کر خود مسلمانوں کے اندر آپسی دشمنی پیدا کرادی۔
حاصل کلام:
میرا کہنا صرف اتنا ہے کہ یہودیوں کا جو دوست ہو اسے دوست سمجھا جائے اور جو انکا دشمن ہو اسے دشمن سمجھا جائے۔ صہیونی غاصب ریاست اسرائیل سے جس کے ہر سطح پر تعلقات ہوں اسے سامنے لایا جائے اور جن کا اس سے کوئی تعلق نہ ہو اسکے خلاف جھوٹا پروپیگنڈہ بند کیا جائے۔ اہل فلسطین کے جذبات سے جو کھیلتے ہوں اور مسجد اقصی کے نام پر تجارت کرتے ہوں انہیں بے نقاب کیا جائے اور جو اہل فلسطین کے حقیقی ہمدرد ہوں اسے دنیا کے سامنے پیش کیاجائے۔ اب بھی وقت ہے کہ اپنے آپ کو مسلمان کہنے والے مسلمانوں کودھوکہ دینے سے باز آجائیں، ان کے ساتھ نفاق اور سازش کی پالیسی ترک کردیں اور اپنی ساری طاقت مسلمانوں کے مشترکہ دشمن (اہل کفر ، شرک اور رفض) کے خلاف استعمال کریں۔
https://www.facebook.com/sfes1974/posts/10213777681468367