السلام علیکم
ان احادیث کی تحقیق درکار ہے ،علماء رہنمائی فرمائیں ،
(1) الامام الدارقطني (م385ھ) روایت کرتے ہیں :
[رَوی عَبد الرَّحِيمِ بن سُلَيمان عَن أَبِي بَكرٍ النَّهشَلِيِّ عَن عاصِمِ بنِ كُلَيبٍ ، عَن أَبِيہ] عَن عَلِيٍّ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى الله عَلَيه وسَلم : أَنَّهُ كان يَرفَعُ يَدَيهِ فِي أَوَّلِ الصَّلاَةِ ثُمّ لا يَعُودُ.
(کتاب العلل للدارقطنی ج4ص106سوال457)
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ
جناب علی رضی اللہ عنہ کی جو روایت عدم ِرفع الیدین میں علل الدارقطنیؒ سے پیش کی گئی ہے ، اس میں بھی خیانت و دھوکہ سے کام لیا گیا ہے ،
یہ روایت علل الدارقطنیؒ میں اس طرح ہے :
وسئل عن حديث كليب بن شهاب، عن علي، عن النبي صلى الله عليه وسلم؛ أنه كان يرفع يديه في أول الصلاة ثم لا يعود.
یعنی امام أبو الحسن علي بن عمر دارقطنی (المتوفى: 385هـ) سے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مروی اس روایت کے متعلق پوچھا گیا جس میں جناب علی فرماتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نماز کے شروع میں رفع یدین کرتے ،اور پھر نہ کرتے ۔
فقال: هو حديث يرويه أبو بكر النهشلي، ومحمد بن أبان وغيرهما، عن عاصم بن كليب.
واختلف عن أبي بكر النهشلي، واسمه لا يصح، فرواه عبد الرحيم بن سليمان عنه، عن عاصم بن كليب، عن أبي، عن علي، عن النبي صلى الله عليه وسلم.
ووهم في رفعه.وخالفه جماعة من الثقات، منهم: عبد الرحمن بن مهدي، وموسى بن داود، وأحمد بن يونس، وغيرهم، عن عاصم، فرووه عن أبي بكر النهشلي موقوفا على علي، وهو الصواب.
تو اس کے جواب میں امام دارقطنیؒ نے فرمایا کہ : یہ روایت ابوبکر النھشلی اور محمد بن ابان دونوں عاصم بن کلیب سے نقل کرتے ہیں ،اور ابو بکر نہشلی سے سن کر آگے نقل کرنے والوں نے اختلاف کیا ہے ،
عبدالرحیم بن سلیمان نے ابوبکر نہشلی سے روایت کیا ،ابوبکر نے عاصم بن کلیب سے ،اور عاصم نے اپنے والد کلیب سے ، اور کلیب نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے ،اور جناب علی نے نبی اکرم ﷺ سے ۔۔۔۔
امام دارقطنیؒ فرماتے اس حدیث کو مرفوع یعنی نبی اکرم ﷺ کا عمل بتانے والے کو وہم ہوا ،یعنی اسے غلطی لگی ہے ،کیونکہ ثقہ رواۃ کی ایک جماعت نے یہ روایت موقوفاً روایت کی ہے ، یعنی حضرت علی کا عمل بتایا ہے ،
اسے عبد الرحمن بن مهدي، موسى بن داود، أحمد بن يونس، موقوفاً روایت کیا ہے ، اور اس اصل صورت بھی یہی ہے ؛ ۔انتہی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تو اسے اسی کتاب سے مرفوع بنا کر پیش کرنا کھلا دھوکہ اور فریب ہے ،
یہ اصل میں موقوف تھی یعنی جناب علی رضی اللہ عنہ کا عمل بیان کیا گیا تھا ،جسے اصطلاح محدثین میں "اثر " کہتے ہیں ، اور یہ موقوفاً بھی صحیح اور ثابت نہیں ، اس کے ثابت نہ ہونے دلائل درج ذیل ہیں :
اس کے متعلق امام بخاریؒ "جزء رفع الیدین " میں لکھتے ہیں : قال عبد الرحمن بن مهدي: ذكرت للثوري حديث النهشلي، عن عاصم بن كليب، فأنكره
یعنی امام عبدالرحمن بن مہدیؒ فرماتے ہیں کہ میں نے جناب علی رضی اللہ عنہ سے منقول عدم رفع یدین کی یہ روایت امام سفیان الثوریؒ کے سامنے پیش کی تو انہوں نے اس (کی صحت ) کا انکار فرمایا ؛
اور امام ابو بکر البیہقیؒ نے "السنن الکبریٰ " میں بسندہ نقل فرمایا ہے کہ :
أخبرناه محمد بن عبد الله الحافظ، أنبأ أبو الحسن العنبري، ثنا عثمان بن سعيد الدارمي، ثنا أحمد بن يونس، ثنا أبو بكر النهشلي، فذكره قال عثمان الدارمي: فهذا قد روي من هذا الطريق الواهي، عن علي "
یعنی امام عثمان بن سعید الدارمی (المتوفی 280 ھ) نے سیدنا علی کی یہ عدم رفع یدین والی روایت ذکر فرمائی اور فرمایا کہ :یہ روایت نہایت واہی (کمزور ،ناکارہ ) اسناد سے مروی ہے ۔
خود امام بیہقیؒ فرماتے ہیں :
ولكن ليس أبو بكر النهشلي ممن يحتج بروايته أو تثبت به سنة لم يأت بها غيره
ابوبکر نہشلی اس درجہ کا راوی نہیں جس کی روایت سے دلیل لی جائے ، یا اس کی روایت سے کوئی ایسی سنت ثابت ہو جو اس کے علاوہ کسی اور نے روایت نہ کی ہو ۔
اور امام بیہقیؒ نے اس روایت کو نقل کرکے ساتھ امام شافعیؒ کا اس کے متعلق یہ تبصرہ بھی نقل فرمایا ہے کہ : قال
الزعفراني قال: الشافعي في القديم: ولا يثبت عن علي وابن مسعود، يعني ما رووه عنهما من أنهما كانا لا يرفعان أيديهما في شيء من الصلاة إلا في تكبيرة الافتتاح.
امام شافعیؒ فرماتے ہیں : حضرت علی اور حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما سے جو روایت کیا جاتا ہے کہ وہ تکبیر تحریمہ کے علاوہ نماز میں کسی مقام پر رفع الیدین نہ کرتے تھے ،تو ان دونوں صحابہ سے یہ عدم رفع یدین کی بات ثابت نہیں ہوتی ۔
اور محدث کبیر امام سراج الدين أبو حفص عمر بن علي ابن الملقن(المتوفى: 804هـ) لکھتے ہیں :
فأثر علي رضي الله عنه ضعيف لا يصح عنه، وممن ضعفه البخاري ثم روي تضعيفه عن سفيان الثوري، (البدر المنیر 3/499 )
یعنی حضرت علی رضی اللہ عنہ سے منقول اثر (جس میں بتایا گیا ہے کہ وہ تکبیر تحریمہ کے علاوہ رفع یدین نہیں کرتے تھے ) تو یہ روایت ان سے ثابت نہیں ، اسے کئی ائمہ نے ضعیف کہا ہے ، اس کو ضعیف کہنے والوں میں امام بخاریؒ جیسا عظیم محدث بھی ہیں ،
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے صحیح اسناد سے رفع الیدین کرنے کی حدیث ثابت ہے
امام ابوبکر محمد بن إسحاق بن خزيمة (المتوفى: 311هـ) روایت کرتے ہیں کہ :
عن علي بن أبي طالب، عن النبي صلى الله عليه وسلم أنه كان إذا قام إلى الصلاة المكتوبة كبر ورفع يديه حذو منكبيه، ويصنع مثل ذلك إذا قضى قراءته وأراد أن يركع، ويصنعه إذا رفع من الركوع، ولا يرفع يديه في شيء من صلاته وهو قاعد، وإذا قام من السجدتين رفع يديه كذلك وكبر "
[التعليق] 584 - قال الأعظمي: إسناده حسن
صحیح ابن خزیمہ پر تعلیق و تخریج لکھنے والے حنفی دیوبندی مولوی محمد مصطفی الاعظمی اس حدیث کی تعلیق میں لکھتے ہیں کہ :
اس کی اسناد حسن ہے "
https://archive.org/stream/waq69577/shuzaima1#page/n294/mode/2up
ترجمہ :
سیدناعلی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ جب نماز ادا کرنے کے لئے کھڑے ہوتے تو تکبیر کہہ کر کندھوں تک ہاتھ اٹھاتے اورپھر قراءت ختم کر کے رکوع جاتے ہوئے بھی اسی طرح کرتے ، اور رکوع سے اٹھ کر بھی اسی طرح کرتے اور بیٹھنے کی حالت میں کسی بھی جگہ رفع الیدین نہ کرتے اور جب سجدتین (دورکعتیں) پڑھ کر کھڑے ہوتے تو اسی طرح رفع الیدین کرتے اور تکبیر کہتے تھے۔
صحیح ابن خزيمة (ح 854) واللفظ له ،صحیح ابن حبان کمافی العمدۃ للعینی (5/277) سنن الترمذي (3423 )
وقال:” هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ ۔۔۔۔۔۔سَمِعْت أَبَا إِسْمَاعِيلَ التِّرْمِذِيَّ مُحَمَّدَ بْنَ إِسْمَاعِيلَ بْنِ يُوسُفَ يَقُولُ: سَمِعْتُ سُلَيْمَانَ بْنَ دَاوُدَ الهَاشِمِيَّ يَقُولُ: وَذَكَرَ هَذَا الحَدِيثَ، فَقَالَ: هَذَا عِنْدَنَا مِثْلُ حَدِيثِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَالِمٍ، عَنْ أَبِيهِ "
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲ میں نے ابواسماعیل ترمذی محمد بن اسماعیل بن یوسف کو کہتے ہوئے سنا ہے کہ میں نے (امام احمد بن حنبلؒ کے استاذ) امام سلیمانؒ بن داود ہاشمی کو کہتے ہوئے سنا ، وہ فرماتے تھے کہ: یہ حدیث میرے نزدیک ایسے ہی مستند اور قوی ہے، جیسے مشہور امام زہریؒ کی وہ حدیث قوی و مستند ہوتی ہے جسے وہ سیدناسالمؒ بن عبداللہ بن عمر سے اور سیدناسالمؒ اپنے والد گرامی سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت کرتے ہیں۔
(یہ بخاری و مسلم کی اعلیٰ ترین اسانید میں سے ہے )
وصححه احمد بن حنبل كما في نصب الراية 1/412 ، والدراية 1/153،والتلخيص الحبير1/ 219 ، وابن تیمیہ کما في الفتاوی الکبری 1/105 ،ومجموع الفتاوی 22/453 )
اس حدیث کو امام احمد بن حنبلؒ نے صحیح کہا ہے جیسا کہ "نصب الرایہ " اور الدرایہ " اور "التلخیص الحبیر" میں ہے ،
اور اسے شیخ الاسلام امام ابن تیمیہؒ نے بھی صحیح کہا ہے ،دیکھئے "مجموع الفتاویٰ "
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔