• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ترک رفع الیدین

سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔

آفتاب

مبتدی
شمولیت
مئی 20، 2011
پیغامات
132
ری ایکشن اسکور
718
پوائنٹ
0




تارکین رفع الیدین کا تاریخی دندان شکن جواب کے نام سے ایک تھریڈ شروع ہوا تھا ۔ میں نے کچھ پوسٹ اس میں کی تھیں لیکن والد صاحب کے آپریشن ، میرے چھوٹے بیٹے کی بار بار بیماری اور آفس میں آڈٹ کی وجھ سے میں کچھ دن پوسٹ نہ کرسکا جب لاگ ان ہوا تو دیکھا کہ وہ تھریڈ کلوز ہو چکا ہے ۔
اس تھریڈ میں کئی لوگ پوائنٹ پر نہ رہے اور دیگر معاملوں کو چھیڑا مثلا تقلید ۔ مجھے کہا گیا کہ آپ مقلد ہو کر تحقیق کیون کر رہے ہیں وغیرہ وغیرہ۔
میری سب سے درخواست ہے کہ اس تھریڈ کو رفع الیدین کے متعلق ہی رہنے دیں اور باقی اختلافی مسائل کے لیئے نیا تھریڈ شروع کریں
اب آتا ہوں محترم کفایت اللہ صاحب کی پوسٹ کی طرف جنہوں نے میرے اعتراضات کے مفصل جوابات دیے
میری پہلی دلیل تھی
1- عن عبد الله بن مسعود ، أنه قال : ألا أصلي لكم صلاة رسول الله صلى الله عليه وسلم . فصلى ، فلم يرفع يديه إلا في أول مرة
(اس روایت کو ترمذی ، ابو داؤد ، نسائی کے علاوہ کئی حدیث کی دوسری کتب نے بھی نقل کیا ہے )
کفایت اللہ صاحب کا جواب تھا
محترم آفتاب صاحب اب آپ بتائیے کہ اس حدیث میں رکوع والے رفع الیدین کے متروک ہونے کی دلیل کہاں ہے؟؟؟ اس میں تو صرف یہ ہے کہ عبداللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ نے ایک بار رفع الیدین والی نماز پڑھ کربتلائی ہے ، اس سے بقیہ رفع الیدین کا ترک کہاں لازم آیا؟؟؟
میرا جواب
اگر رفع الیدین نماز کا حصہ ہوتا اور نبی پاک صلی اللہ علیہ و سلم نے اس عمل کو آخری عمر تک کیا ہوتا تو عبد اللہ بن مسعود کبھی بھی بغیر رفع الیدین والی نماز نہ پڑہاتے ۔ اگر ترک رفع الیدین کے ساتھ نماز کا طریقہ بیان کرنا متروک کی دلیل نہیں تو بھر رفع الدیدن کی روایت ذکر کرنے پر ہم کہ سکتے ہیں کہ یہ رفع الیدین کی دلیل نہیں ۔ یہ تو میں تو نہ مانوں والی بات ہے۔
دوسرا آپ نے اس حدیث کو ضعیف بتایا
جبکہ اس حدیث کو امام ترمذی ،علامہ ابن حزم ظاہری نے صحیح قرار دیا ہے ۔
آپ نے اس حدیث پر امام ابو حاتم کا کلام ذکر کیا
ان کی جرح مفسر کی حیثیت کچھ یوں ہے
آپ نےامام ابو حاتم کا قول ذکر کیا
انہوں نے کہا کہ وهِم فِيهِ الثّورِيُّ جبکہ یہی امام الثوري ہیں جن کی روایت کو آمیں الجہر میں نہ صرف قبول کیا گیا بلکہ دوسرے راوی پر ترجیح دی گئی ۔ کیا یہ مسلک پرستی نہیں ۔ کیا یہ ہر صورت میں اپنا مسلک ثابت کرنا نہیں ۔ ایک جگہ ایک راوی کی حدیث کو صحیح مانا جائے اور دوسری جگہ اس کی روایت کو ضعیف کہا جائے
ملاحضہ ہو اہلحدیث حضرات کی یہ تحقیق ۔
مقتدی کا آمین بلند آواز سے کہنا
یہاں سفیان الثوری کی حدیث سے دلیل کیوں پکڑی گئی؟

یہاں ویسے بھی عبد اللہ بن ادریس اور سفیان الثوری کی احادیث دو مختلف موضوعات پر ہیں ۔ عبد اللہ بن ادریس کی حدیث مسئلہ تطبیق اور سفیان ااثوری کی حدیث ترک رفع الیدین کے متعلق ہے ۔ ان دو حدیثوں کا سیاق خود بتا رہا ہے کہ یہ دو مستقل حدیثیں ہیں اور سرے سے ان میں کوئی مخالفت نہیں کہ ایک کو صواب اور دوسرے کو خطا قرار دی جائے

دوسری دلیل
دوسری دلیل میں نے صحیح مسلم کی پیش کی اور اس میں الفاظ اسکنوا فی الصلاہ سی بتایا کہ نماز میں رفح الیدین سے منع کیا کیا ۔ یہاں في الصلاہ کہا گیا نہ کہ عند افتتاح الصلاہ کہا گیا۔
کفایت اللہ صاحب نے اس کا مطب یہ لیا کہ نماز کا ابتدائی حصہ بھی نماز میں داخل ہے۔
جناب کسی بھی چیز کا اتدائی اور آخری حصہ کی حیثیت الگ ہوتی ہے ۔ جیسے اگر کوئی کہے چلتی ٹرین سے چھلانگ لگاو ایک شخص نے جب ٹرین اسٹیشن سے چلی تو چھلانگ لگائی اور دوسرے شخص نے ٹرین کی اسپیڈ کے دوران چھلاگ لکائی تو دونوں کو نقصان پہچنے کی کیفیت مختلف ہوگی جبکہ دونوں نے چلتی ٹرین سے چھلاگ لگائی ۔ ایک نے ابتداء میں دو سرے نے بیچ میں۔ تو دخول في العمل اور فی العمل دونوں کے احکامات الگ ہوتے ہیں۔
دوسرا میں نے پوچھا کہ اس وقت صحابہ کون سا والا رفح الیدین کررہے تھے جس سے منع کیا گیا۔
کفایت اللہ صاحب نے دوسری روایت سے ثابت کرنا چاہا کہ وہ سلام کے وقت والا رفع الیدین ہے ۔ جبکہ صحیح مسلم اسکنوا فی الصلاہ والی حدیث اور سلام کے وقت والی حدیث میں بہت فرق ہے ۔
صحیح حدیث والی حدیث میں صحابہ نماز پڑہ رہے تھے اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم تشریف لائے جبکہ آپ والی حدیث میں باجماعت نماز کا ذکر ہے ۔
دو الگ واقعات کو تڑوڑ مڑوڑ کربغیر دلیل کہ ایک حدیث ثابت کرنا صرف دل کی تسلی کہ لیئے ہو سکتا کسی کو قائل کرنے کے لئیے نہیں ۔
اس کہ علاوہ آپ نے عبداللہ بن عمر کے حوالہ سے رفع الیدین ثابت کرنے کی کوشش کی اس کی بھی تحقیق ملاحظہ فرمایں
عبد اللہ بن عمر رفع الیدین نہیں کرتے تھے
مصنف ابن ابی شیبہ کی دو روایات ہیں ایک میں حضرت عبداللہ ابن عمررضی اللہ عنہ کے شاگر امام مجاہد کہتے ہیں کہ حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہ صرف نماز کے شروع میں رفع یدین کرتے تھے اور کسی اور جگہ نہیں کرتے تھے ۔ اور دوسری روایت میں اسود کہتے ہیں کہ انہوں نے حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہ کے ساتھ نماز پڑھی اور انہوں نے صرف نماز کے شروع میں رفع یدین کیا
اس کا مطلب ہے عبداللہ بن عمر رفع الیدین ترک کرجکے تھے

کچھ مذید ملاحظہ فرمائین
ترکِ رفع پر غیر مقلدین کے گھر سے دلایل:۔

غیرمقلدین جو ہر وقت یہ شور مچاتے ہیں کہ جو رفع یدین نہ کرے اسکی نماز نہیں ہوتی آیے دیکھتے ہیں کہ انکے بڑے اس بارے میں کیا کہتے ہیں ۔

مولانا سید نذیر حسین صاحب دہلوی اپنے فتاویٰ نذیریہ جلد1 صفحہ 141 میں فرماتے ہیں

کہ رفع یدین میں جھگڑاکرنا تعصب اور جہالت کی بات ہے ، کیونکہ آنحضور اکرم صلیٰ اللہ علیہ وسلم سے دونوں ثابت ہیں ، دلایل دونوں طرف ہیں۔

نواب صدیق حسن خاں صاحب بھوپالی جماعتِ غیر مقلدین کے بڑے اونچے عالم اور مجدد وقت تھے ، ان کی کتاب روضہ الندیہ غیر مقلدین کے یہاں بڑی معتبر کتاب ہے، نواب صاحب اس کتاب میں حضرت شاہ ولی اللہ صاحب سے نقل کرتے ہوے فرماتے ہیں۔

۔"رفع یدین و عدم رفع یدین نماز کے ان افعال میں سے ہے جن کو آنحضور صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے کبھی کیا ہے اور کبھی نہیں کیا ہے ، اور سب سنت ہے ، دونوں بات کی دلیل ہے ، حق میرے نزدیک یہ ہے کہ دونوں سنت ہیں۔۔۔(صفحہ 148)"۔

اور اسی کتاب میں حضرت شاہ اسماعیل شہید کا یہ قول بھی نقل کرتے ہیں ولا یلام تارکہ و ان ترکہ مد عمرہ (صفحہ 150)۔ یعنی رفع یدین کے چھوڑنے والے کو ملامت نہیں کی جاے گی اگرچہ پوری زندگی وہ رفع یدین نہ کرے۔

غیر مقلدین کے بڑے اکابر بزرگوں کی ان باتوں سے پتا چلا کہ ان لوگوں کے نزدیک رفع یدین کرنا اور نہ کرنا دونوں آنحضور اکرم صلیٰ اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہیں اور دونوں سنت ہیں، اب سچے اہلحدیث ہونے کا تقاضا یہ تھا کہ یہ حضرات دونوں سنتوں پر عامل ہوتے مگر ان کا عمل یہ ہے کہ ایک سنت پر تو اصرار ہے اور دوسری سنت سے انکار ہے، بلکہ دوسری سنت پر جو عمل کرتا ہے اسکو برا بھلا کہا جاتا ہے ، سنت پر عمل کرنے والوں کو برا بھلا کہنا کتنی بڑی گمراہی ہے ، آپ نے کبھی نہیں سنا ہو گا کسی حنفی نے رفع یدین کرنے والوں کو اس کے رفع یدین کرنے پر برا بھلا کہا ہو۔
 

ابوعمر

رکن
شمولیت
مارچ 11، 2011
پیغامات
66
ری ایکشن اسکور
358
پوائنٹ
71
السلام وعلیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ

دوسری دلیل
دوسری دلیل میں نے صحیح مسلم کی پیش کی اور اس میں الفاظ اسکنوا فی الصلاہ سی بتایا کہ نماز میں رفح الیدین سے منع کیا کیا ۔ یہاں في الصلاہ کہا گیا نہ کہ عند افتتاح الصلاہ کہا گیا۔
کفایت اللہ صاحب نے اس کا مطب یہ لیا کہ نماز کا ابتدائی حصہ بھی نماز میں داخل ہے۔
جناب کسی بھی چیز کا اتدائی اور آخری حصہ کی حیثیت الگ ہوتی ہے ۔ جیسے اگر کوئی کہے چلتی ٹرین سے چھلانگ لگاو ایک شخص نے جب ٹرین اسٹیشن سے چلی تو چھلانگ لگائی اور دوسرے شخص نے ٹرین کی اسپیڈ کے دوران چھلاگ لکائی تو دونوں کو نقصان پہچنے کی کیفیت مختلف ہوگی جبکہ دونوں نے چلتی ٹرین سے چھلاگ لگائی ۔ ایک نے ابتداء میں دو سرے نے بیچ میں۔ تو دخول في العمل اور فی العمل دونوں کے احکامات الگ ہوتے ہیں۔
کیا حنفی وتر کا طریقہ اس حدیث سے باہر ہے؟
 

آفتاب

مبتدی
شمولیت
مئی 20، 2011
پیغامات
132
ری ایکشن اسکور
718
پوائنٹ
0
آپ نے وتر کی تکبیر اور وتر میں احناف کے ہاتھ اٹھانے کی وجہ سے اعتراض کیا ہے اس صحیح مسلم کی حدیث مین خیل شمس کی قید ھے اور اس کی حرکت کا یہ انداز ھوتا ھے کہ وہ اپنی دم اٹھا کر اچھلتا ھے۔یعنی اس کا بدن اور دم ایک ساتھ حرکت میں آتے ھیں۔ دیکھیے امام لغت عربی ابو منصور ثعلبی فقھ اللغہ وسر العربیہ میں فرماتے ھیں۔ فاذا کان مانعا ظھرہ فھو شموس اس کے علاوہ نووی شرح مسلم میں لکھا ھے التی لا تسقربل تضطرب و تتھرک باذنا بھا وارجلھا (ج١ ص ١٨١) اور جنآب وتر اور عیدین کی رفع یدین کے وقت صرف ھاتھ ھلتے ھیں بدن نہیں ھلتا۔
ابو عمر بھائی میرے باقی اعتراضات کے جواب کا بھی انتظار ہے
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,555
پوائنٹ
641
١۔
میں نے کچھ پوسٹ اس میں کی تھیں لیکن والد صاحب کے آپریشن ، میرے چھوٹے بیٹے کی بار بار بیماری اور آفس میں آڈٹ کی وجھ سے میں کچھ دن پوسٹ نہ کرسکا جب لاگ ان ہوا تو دیکھا کہ وہ تھریڈ کلوز ہو چکا ہے ۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ آپ کے والد محترم اور بچے کو شفائے کاملہ عاجلہ نصیب فرمائے ۔
٢۔
مولانا سید نذیر حسین صاحب دہلوی اپنے فتاویٰ نذیریہ جلد1 صفحہ 141 میں فرماتے ہیں:
کہ رفع یدین میں جھگڑاکرنا تعصب اور جہالت کی بات ہے ، کیونکہ آنحضور اکرم صلیٰ اللہ علیہ وسلم سے دونوں ثابت ہیں ، دلایل دونوں طرف ہیں۔
نواب صدیق حسن خاں صاحب بھوپالی جماعتِ غیر مقلدین کے بڑے اونچے عالم اور مجدد وقت تھے ، ان کی کتاب روضہ الندیہ غیر مقلدین کے یہاں بڑی معتبر کتاب ہے، نواب صاحب اس کتاب میں حضرت شاہ ولی اللہ صاحب سے نقل کرتے ہوے فرماتے ہیں۔
”رفع یدین و عدم رفع یدین نماز کے ان افعال میں سے ہے جن کو آنحضور صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے کبھی کیا ہے اور کبھی نہیں کیا ہے ، اور سب سنت ہے ، دونوں بات کی دلیل ہے ، حق میرے نزدیک یہ ہے کہ دونوں سنت ہیں۔۔۔(صفحہ 148)"۔
اور اسی کتاب میں حضرت شاہ اسماعیل شہید کا یہ قول بھی نقل کرتے ہیں ولا یلام تارکہ و ان ترکہ مد عمرہ (صفحہ 150)۔ یعنی رفع یدین کے چھوڑنے والے کو ملامت نہیں کی جاے گی اگرچہ پوری زندگی وہ رفع یدین نہ کرے۔
غیر مقلدین کے بڑے اکابر بزرگوں کی ان باتوں سے پتا چلا کہ ان لوگوں کے نزدیک رفع یدین کرنا اور نہ کرنا دونوں آنحضور اکرم صلیٰ اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہیں اور دونوں سنت ہیں، اب سچے اہلحدیث ہونے کا تقاضا یہ تھا کہ یہ حضرات دونوں سنتوں پر عامل ہوتے
جب آپ ایسی باتیں کرتے ہیں جو آپ کے مد مقابل کے نزدیک دلیل نہیں ہوتیں تو آپ اپنا مقدمہ کمزور کر دیتے ہیں ۔ اہل الحدیث کے نزدیک اصل کتاب وسنت ہے اور وہ اہل علم کی آراء سے استفادہ کے ضرور قائل ہیں لیکن ان آراء کو بائنڈنگ یا حجت نہیں سمجھتے ہیں ، پس اہل الحدیث کو ایسی جذباتی تقریروں سے قائل نہیں کیا جا سکتا ہے۔ اہل الرائے کے نزدیک ان کے اکابر کی آراء بائنڈنگ ہوتی ہیں لہذا اہل الرائے کو تو ان کے اکابر کے فتاوی بطور دلیل پیش ے جا سکتے ہیں لیکن اہل الحدیث کو نہیں۔ہم اس بارے پہلے ایک جگہ وضاحت کر چکے ہیں کہ بعض مسائل میں اہل الحدیث کے نزدیک بھی اختلاف ہو جاتا ہے لیکن ان کا منہج استدلال ایک ہوتا ہے ، اس وجہ سے وہ اہل الحدیث کہلاتے ہیں اور ان میں سے ہر ایک کے نزدیک اصل شیئ یا حجت وہ منہج استدلال ہوتا ہے جس بنیاد پر آپ بحث کر رہے ہوتے ہیں۔ذیل میں ہم اپنی ایک سابقہ تحریر کا ایک حصہ پیش کر رہے ہیں، امید ہے اس سے آپ کو کافی کچھ وضاحت ہو جائے گی:
باقی اہل الحدیث میں اختلافات موجود ہیں جس طرح اہل الرائے میں بھی ہیں۔ اصل شیئ منہج ہے جو اس منہج کا قائل ہے کہ ہر دور میں موجود اہل علم ہی اس دور کے عوام کی رہنمائی کریں گے اور ان کے یہ اجتہادات صرف اسی دور کے لیے ہوں تو وہ اہل الحدیث ہے، چاہے ان کے اختلافات آپس میں کس قدر ہی کیوں نہ ہوں۔اہل الرائے میں آپ امام محمد اور امام ابو یوسف رحمہما اللہ کے اختلافات دیکھیں کہ امام ابو حنیفہ سے کس قدر ہیں لیکن وہ فقہ حنفی سے باہر نہیں نکلتے کیونکہ ان کا منہج استدلال وہی ہے جو امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کا ہے۔ پس اہل الحدیث وہ ہے جو منہج وفکر میں ان سے متفق ہے۔
آسان الفاظ میں یوں سمجھیں کہ اگر کوئی عالم دین عدم تقلید کا قائل ہے اور منہج سلف صالحین کے مطابق اپنی تحقیق کی روشنی میں وہ جہری نمازوں میں فاتحہ خلف الامام کا قائل نہیں ہوتا یا ایک مجلس کی تین طلاقوں کو ایک تین شمار کرتا ہے وغیرہ ذلک تو اس سے وہ اہل الحدیث سے خارج نہیں ہو جاتا ہے۔
ان شاء اللہ تفصیل سے اس بارے ذرا فرصت ملنے پر عرض کروں گا کہ اہل الحدیث چند مسائل کا نام نہیں ہے کہ جو ان مسائل کا قائل نہیں ہے تو وہ اہل الحدیث نہیں ہے بلکہ اہل الحدیث ایک منہج کا نام ہے اور جو بھی اس منہج پر ہے تو اس کے نتائج تحقیق چاہے حنفی فقہ ہی سے ملتے ہوں تو وہ اہل الحدیث ہی شمار ہو گا اور وہ منہج ہم بیان کر چکے ہیں کہ وہ ضرورت کے وقت یعنی نص کی عدم موجودگی میں حالت اضطرار میں اجتہاد کا قائل ہو اور پھر اجتہاد کرنے کے بعد اسے دائمی نہ سمجھے بلکہ صرف اپنے دور کے لوگوں کے لیے اس اجتہاد سے استفادہ کرنے کا قائل ہو۔
 

آفتاب

مبتدی
شمولیت
مئی 20، 2011
پیغامات
132
ری ایکشن اسکور
718
پوائنٹ
0
ابو الحسن علوی صاحب
کسی بھی عالم کا فتوی حتمی نہیں ہوتا ۔ یہ احناف کی بھی رائے ہے۔
اگر آپ کو ان حضرات کے فتاوی سے انکار ہے تو کیا کبھی آپ میں کسی نہ ان علماء کی اس غلطی کی نشاندہی کی تاکہ عام اہل الحدیث حضرات میں سے کوئی اس غلطی میں مبتلا نہ ہوجائے اگر ایسا ہے تو کتاب کی نشاندہی ضرور کریں۔
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,555
پوائنٹ
641
١۔کسی بھی عالم کا فتوی حتمی نہیں ہوتا ۔ یہ احناف کی بھی رائے ہے۔
میں نے حتمی کے الفاظ استعمال نہیں کیے بلکہ بائنڈنگ اور حجت کے الفاظ استعمال کیے ہیں۔ میں نے حنفی اہل علم سے حنفی مدارس میں استفادہ کیا ہے اور حنفی کتب کا مطالعہ بھی رہتا ہے اور میرے خیال میں آپ اس بارے تھوڑا سوچ وبچار اور حنفی اہل علم سے مشورہ کر لیں تو پھر اس پر بات آگے بڑھائی جا سکتی ہے ۔امر واقعہ یہ ہے کہ حنفیہ کے نزدیک حنفی عوام الناس کے لیے اہل ترجیح کی رائے بائنڈنگ ہے اور اہل ترجیح سے مراد فقہائے اہل ترجیح ہیں بلکہ حنفی اصول کی کتب میں تو یہاں تک بحث موجود ہے کہ کم علم والے کے لیے زیادہ علم والے کی رائے بائنڈنگ ہے یا نہیں ، اس بارے امام ابوحنفیہ رحمہ اللہ کم علم والے پر زیادہ علم والے کی رائے کے التزام کے قائل ہیں جبکہ صاحبین رحمہما اللہ کا موقف اس کے برعکس ہے ۔آپ اگر اپنے موقف پر قائم رہتے ہیں تو حنفی فقہ کی کتب سے حوالہ جات پیش کیے جا سکتے ہیں۔یہ بھی ممکن ہے کہ آپ اپنا موقف مکمل طور واضح نہ کر سکے ہوں ، اگر ایسا ہے تو تفصیل سے لکھین کہ آپ کے کہنے کا کیا مقصد ہے۔
٢۔تو کیا کبھی آپ میں کسی نہ ان علماء کی اس غلطی کی نشاندہی کی تاکہ عام اہل الحدیث حضرات میں سے کوئی اس غلطی میں مبتلا نہ ہوجائے اگر ایسا ہے تو کتاب کی نشاندہی ضرور کریں۔
اہل الحدیث اپنے اہل علم کے بارے یہ عقیدہ نہیں رکھتے ہیں کہ ان سے خطا نہیں ہو سکتی یا نہیں ہوئی ہے لیکن وہ ان میں خیر کا پہلو غالب ہونے کی وجہ سے عوامی نکیر کے قائل نہیں ہیں کیونکہ قاعدہ یہی ہےکہ جس میں خیر کا پہلو غالب ہو تو اس پر عوامی نکیر نہیں ہونی چاہیے تاکہ لوگوں کے دلوں میں اہل حق علماء کی عزت واحترام باقی رہے ۔
باقی اہل الحدیث اہل علم ایک دوسرے کی خطا پر ایک دوسرے کو کثرت سے متنبہ کرتے ہیں لیکن ایسے تعاقبات خیرخواہی کے جذبے کے تحت کیے گئے ہیں اور اگر ہم یہاں انہیں پیش کریں تو ہر شخص کا ظرف شاید اتنا نہ ہو کہ وہ اسے مثبت مقاصد کے لیے ہی استعمال کر سکے کیونکہ یہ اوپن فورم ہے اور کوئی بھی شخص ایسی تنبیہات کوان کے سیاق و سباق سے علیحدہ کر کے اپنی مناظرانہ ومجادلانہ طبیعت کی تسکین کے لیے بطور ہتھیار استعمال کر سکتا ہے۔ یہ واضح رہے کہ یہ آپ کے بارے نہیں کہا جا رہا ہے بلکہ آپ کے بارے تو ہمارا حسن ظن قائم ہے لیکن ہر کسی کی گارنٹی شاید آپ بھی نہیں دے سکتے ہیں۔پس اس قسم کے اختلافات یا تنبیہات یا تعاقبات کو یہاں پیش کرنا کوئی عقل مندی نہیں ہے۔
 

آفتاب

مبتدی
شمولیت
مئی 20، 2011
پیغامات
132
ری ایکشن اسکور
718
پوائنٹ
0
آپ حضرات اگر کسی مسئلہ متعلق کے متعلق حدیث بیان کرتے ہیں اور جمھور محدثین نے اس کو صحیح قرار دیا ہو اور ایک دو محدثین نے ضعیف کہا ہو تو آپ ان محدثین کی بات اپنے فورمز پر رد کرتے ہیں ۔ جیسا کہ اس فورم پر بھی ہے ۔ کتب میں علانیہ ان کی تحقیق کو خطا قرار دیتے ہیں (اور ایسا کرنا بھی چاہئیے کہ آگر کسی محدث نے واقعی حدیث کی جرح و تعدیل میں خطا کی ہے تو اس کو بیان بھی کرنا چاہئیے تاکہ عوام غلطی کا شکار نہ ہو)
لیکن یہاں اپنے ہم مسلک علماء کی خطا کو کیوں عوام الناس میں بیان نہیں کیا جاتا کہ عوام الناس کسی غلطی کا شکار نہ ہوں۔
کیا یہ علماء امام ترمذی یا امام نسائی وغیرہ سے بڑھ کر ہیں یا وہ محدثین آپ کے مسلک کے نہیں تھے؟
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
5,001
ری ایکشن اسکور
9,805
پوائنٹ
773
تارکین رفع الیدین کا تاریخی دندان شکن جواب کے نام سے ایک تھریڈ شروع ہوا تھا ۔ میں نے کچھ پوسٹ اس میں کی تھیں لیکن والد صاحب کے آپریشن ، میرے چھوٹے بیٹے کی بار بار بیماری اور آفس میں آڈٹ کی وجھ سے میں کچھ دن پوسٹ نہ کرسکا جب لاگ ان ہوا تو دیکھا کہ وہ تھریڈ کلوز ہو چکا ہے ۔
اس تھریڈ میں کئی لوگ پوائنٹ پر نہ رہے اور دیگر معاملوں کو چھیڑا مثلا تقلید ۔ مجھے کہا گیا کہ آپ مقلد ہو کر تحقیق کیون کر رہے ہیں وغیرہ وغیرہ۔
میری سب سے درخواست ہے کہ اس تھریڈ کو رفع الیدین کے متعلق ہی رہنے دیں اور باقی اختلافی مسائل کے لیئے نیا تھریڈ شروع کریں
اب آتا ہوں محترم کفایت اللہ صاحب کی پوسٹ کی طرف جنہوں نے میرے اعتراضات کے مفصل جوابات دیے
محترم آفتاب صاحب یہ کیا بات ہوئی کہ آپ میری تحریر کا جواب ایک الگ تھریڈ بنا کر دے رہے ہیں مجھے اطلاع کئے بغیر ! کم از ایک ذاتی پیغام ارسال کرنا تھا کہ آپ کی فلاں تحریر کا جواب فلاں جگہ ہے بہر حال:
میرا جواب
اگر رفع الیدین نماز کا حصہ ہوتا اور نبی پاک صلی اللہ علیہ و سلم نے اس عمل کو آخری عمر تک کیا ہوتا تو عبد اللہ بن مسعود کبھی بھی بغیر رفع الیدین والی نماز نہ پڑہاتے ۔ اگر ترک رفع الیدین کے ساتھ نماز کا طریقہ بیان کرنا متروک کی دلیل نہیں تو بھر رفع الدیدن کی روایت ذکر کرنے پر ہم کہ سکتے ہیں کہ یہ رفع الیدین کی دلیل نہیں ۔ یہ تو میں تو نہ مانوں والی بات ہے۔
اولا:
عجیب بات ہے ، ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی مذکورہ روایت میں نسخ یا دائمی ترک کی دلیل کہاں ہے اس سے زیادہ سے زیادہ یہ ثابت کیا جاسکتا ہے کہ کبھی کبھار ترک رفع بھی جائز ہے ، یعنی ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی حدیث سے ترک کا ثبوت لیا جائے اور دیگر صحابہ کی روایت سے مشروعیت کا ثبوت لیا جائے کیونکہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی روایت میں نسخ یا اخیر حیاۃ کی کوئی صراحت نہیں ہے۔
لیکن آپ کا دعو ی نسخ کا ہے اورآپ کے اس دعوی پر یہ حدیث قطعادلیل نہیں بن سکتی اس سے زیادہ سے زیادہ جواز الامرین پر استدلال کیا جاسکتا ہے نہ کہ نسخ یا ترک پر۔
ثانیا:
ہم نے یہ بھی تو کہا تھا :
آپ کومعلوم ہونا چاہے کہ نمازظہر سے قبل کتنی رکعات سنت مؤکدہ ہیں اس سلسلے میں ایک حدیث میں آتاہے کہ چاررکعت، اورایک دوسری حدیث میں آتاہے کہ دورکعت ، توکیا اس دوسری حدیث سے آپ یہ نتیجہ اخذکریں گے کہ ظہرسے قبل چاررکعت پڑھنا متروک ہے صرف دو ہی پڑھیں گے؟؟؟
جناب اس طرح کی احادیث سے متروک کا دعوی ثابت نہیں ہوتا کوئی ایسی روایت تلاش کریں جس میں متروک کی دلیل ہو۔
اس کا جواب کون دے گا؟؟؟
ثالثا:
ہماری طرف سے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کی روایت پیش کی جاتی ہے تو آپ حضرات شور مچاتے ہیں کہ تاحیاۃ کا لفظ دکھاؤ، ہمیشگی کی صراحت دکھاؤ وغیرہ وغیرہ ، خود اپنی باری میں یہ اصول کیوں فراموش کردیا؟
رابعا:
عبداللہ بن مسود رضی اللہ عنہ وفات رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد بھی تطبیق کرتے تھے حوالہ پہلے پیش کیا جاچکا ہے ، اس بارے میں کیا خیال ہے؟؟؟

دوسرا آپ نے اس حدیث کو ضعیف بتایا
جبکہ اس حدیث کو امام ترمذی ،علامہ ابن حزم ظاہری نے صحیح قرار دیا ہے ۔
کیا دلائل کے ساتھ تضعیف کا جواب یہی ہوتا ہے کہ فلاں نے اس کو صحیح کہا ہے ؟ اگر ایسا ہی ہے تو بیسوں محدثین کے حوالے پیش کئے جاسکتے ہیں جنہوں نے اس روایت کو ضعیف قرار دیا ہے ایسی صورت میں آپ کیا کہیں گے۔

آپ نے اس حدیث پر امام ابو حاتم کا کلام ذکر کیا
ان کی جرح مفسر کی حیثیت کچھ یوں ہے
آپ نےامام ابو حاتم کا قول ذکر کیا
انہوں نے کہا کہ وهِم فِيهِ الثّورِيُّ جبکہ یہی امام الثوري ہیں جن کی روایت کو آمیں الجہر میں نہ صرف قبول کیا گیا بلکہ دوسرے راوی پر ترجیح دی گئی ۔ کیا یہ مسلک پرستی نہیں ۔ کیا یہ ہر صورت میں اپنا مسلک ثابت کرنا نہیں ۔ ایک جگہ ایک راوی کی حدیث کو صحیح مانا جائے اور دوسری جگہ اس کی روایت کو ضعیف کہا جائے
ملاحضہ ہو اہلحدیث حضرات کی یہ تحقیق ۔
مقتدی کا آمین بلند آواز سے کہنا
یہاں سفیان الثوری کی حدیث سے دلیل کیوں پکڑی گئی؟
اولا:
محترم امام سفیان ثوری رحمہ اللہ کو غیر حجت کسی نے نہیں کہا ہے وہ فی نفسہ ثقہ ہیں ، لیکن کبھی کبھار ثقہ سے بھی غلطی ہوجاتی ہے اصول حدیث میں یہ معروف بات ہے، اورجب اہل فن کسی خاص روایت کے بارے میں یہ مفسرجرح کردیں کہ یہاں اس ثقہ راوی کو وہم ہوا ہے تو اہل فن کی یہ بات حجت ہوگی، اسے اسی صورت میں نظر انداز کیا جاسکتا ہے جب دیگر محدثین اس جرح مفسر کی صراحت کے ساتھ تردید کردیں ، آپ کم از کم دو ایسے ثقہ محدثین کے حوالے پیش کریں جنہوں صراحت کے ساتھ یہ کہا ہوں کہ امام سفیان ثوری کو اس روایت میں وہم نہیں ہوا۔

ثانیا:
ہم نے ضعف کا ایک اورسبب پیش کیا تھا سفیان الثوری کا عنعنہ، اس کا آپ نے کوئی جواب نہیں دیا۔

یہاں ویسے بھی عبد اللہ بن ادریس اور سفیان الثوری کی احادیث دو مختلف موضوعات پر ہیں ۔ عبد اللہ بن ادریس کی حدیث مسئلہ تطبیق اور سفیان ااثوری کی حدیث ترک رفع الیدین کے متعلق ہے ۔ ان دو حدیثوں کا سیاق خود بتا رہا ہے کہ یہ دو مستقل حدیثیں ہیں اور سرے سے ان میں کوئی مخالفت نہیں کہ ایک کو صواب اور دوسرے کو خطا قرار دی جائے
تو کیا آپ کے نزدیک تطبیق کا عمل منسوخ نہیں ہے ؟؟؟

دوسری دلیل
دوسری دلیل میں نے صحیح مسلم کی پیش کی اور اس میں الفاظ اسکنوا فی الصلاہ سی بتایا کہ نماز میں رفح الیدین سے منع کیا کیا ۔ یہاں في الصلاہ کہا گیا نہ کہ عند افتتاح الصلاہ کہا گیا۔
کفایت اللہ صاحب نے اس کا مطب یہ لیا کہ نماز کا ابتدائی حصہ بھی نماز میں داخل ہے۔
ذرا ملون الفاظ پر غور کریں آپ نے ’’فی الصلوٰۃ ‘‘ سے استدلال کیا تھا اور ہم نے بھی جوابا ایسی احادیث پیش کی تھیں جن میں تکبیر تحریمہ ولاے رفع الیدین کے لئے بھی ’’فی الصلاۃ ‘‘ کا لفظ استعمال ہے ان احادیث کا آپ نے کوئی جواب نہیں دیا۔

جناب کسی بھی چیز کا اتدائی اور آخری حصہ کی حیثیت الگ ہوتی ہے ۔
اورپہلے ثابت کیا چکا ہے کہ آپ کی مستدل حدیث مسلم میں ممنوعہ عمل کا تعلق بھی نماز کے آخری حصہ سے ہے، مزید تفصیل آگے بھی آرہی ہے۔

جیسے اگر کوئی کہے چلتی ٹرین سے چھلانگ لگاو ایک شخص نے جب ٹرین اسٹیشن سے چلی تو چھلانگ لگائی اور دوسرے شخص نے ٹرین کی اسپیڈ کے دوران چھلاگ لکائی تو دونوں کو نقصان پہچنے کی کیفیت مختلف ہوگی جبکہ دونوں نے چلتی ٹرین سے چھلاگ لگائی ۔ ایک نے ابتداء میں دو سرے نے بیچ میں۔ تو دخول في العمل اور فی العمل دونوں کے احکامات الگ ہوتے ہیں۔
ابتسامہ۔
اولا:
یہ کیا کہہ رہے ہیں بھائی ؟ کہاں نماز کی رفتار اور کہاں ٹرین کی رفتار؟ دونوں میں بڑا فرق ہے اس فرق کو ملحوظ رکھیں گے تو آپ کو معلوم ہوگا کہ یہ مثال خود آپ ہی کے خلاف ہے ، جناب ٹرین کی رفتارشروع میں کم ہوتی ہے مگر بعد میں اس کی رفتار بڑھتی جاتی ہے ، اب آپ سے مؤدبانہ سوال ہے کہ کیا نماز بھی اسی طرح کی رفتار ہوتی ہے یعنی شروع میں کم اوربعد میں تیز ہوتی چلی جاتی ہے؟؟؟
محترم نماز میں تعدیل ارکان کا حکم ہے جس کامطلب ہے نماز پوری کی پوری ایک ہی انداز (آپ کے الفاظ میں رفتار) سے پڑھی جاتی ہے پھر تو آپ ہی کی مثال کے مطابق اس کے شروع کا حصہ ہو یا اخیر کا رفتار یکساں رہتی ہے۔
ثانیا:
محترم مذکورہ مثال کو سامنے رکھتے ہوئے ذرا اپنے نماز وتر والے رفع الیدین کا انجام سوچ لیں ، وترمیں آپ کا رفع الیدین یقنا ایسے وقت میں ہوگا جب آپ کی مثال کے بموجب آپ کی نماز کی رفتار بہت تیز ہوگی ، ایسی صورت میں رفع الیدین کرنے والے کا وہی حشر ہونا چاہئے جو تیز رفتار سے چلتی ہوئی ٹرین سے چھلانگ لگانے والے کا ہوتا۔
ثالثا:
محترم بھائی ! نماز میں رفع الیدین کرنا کیا ٹرین سے چھلانگ لگانے کی طرح ہے ، ابتسامہ مع استغفراللہ ۔
بھائی جی ٹرین سے چھلانگ لگانے کے بعد آدمی ٹرین سے الگ ہوجاتا ہے تو کیا آپ حضرات بھی پہلا رفع الیدین کرکے نماز سے الگ ہوجاتے ہیں ۔

دوسرا میں نے پوچھا کہ اس وقت صحابہ کون سا والا رفح الیدین کررہے تھے جس سے منع کیا گیا۔
یہ سوال آپ سے بھی کیا گیا گیا تھا مسلم کی مستدل حدیث میں کون سا رفع الیدین مراد ہے مگر آپ نے بغیر دلیل کے اسے رکوع والا رفع الیدین مان لیا ، آپ سے گذارش ہے کہ اس بات کا ثبوت دیں کہ اس سے مراد رکوع والا رفع الیدین ہے ۔
واضح رہے کہ دعاء کے لئے ہاتھ اٹھانے پر بھی رفع الیدین کا اطلاق ہوتا ہے اسی طرح بوقت سلام صحابہ رضی اللہ عنہم نے ہاتھ اٹھایا اس پر بھی رفع الیدین کا اطلاق ہوا۔
کفایت اللہ صاحب نے دوسری روایت سے ثابت کرنا چاہا کہ وہ سلام کے وقت والا رفع الیدین ہے ۔ جبکہ صحیح مسلم اسکنوا فی الصلاہ والی حدیث اور سلام کے وقت والی حدیث میں بہت فرق ہے ۔
صحیح حدیث والی حدیث میں صحابہ نماز پڑہ رہے تھے اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم تشریف لائے جبکہ آپ والی حدیث میں باجماعت نماز کا ذکر ہے ۔
دو الگ واقعات کو تڑوڑ مڑوڑ کربغیر دلیل کہ ایک حدیث ثابت کرنا صرف دل کی تسلی کہ لیئے ہو سکتا کسی کو قائل کرنے کے لئیے نہیں ۔
محترم آپ کے پیش کردہ نکتہ سے زیادہ سے زیادہ یہ ثابت ہوسکتاہے کہ کہ یہ دو الگ الگ واقعات ہیں لیکن ان واقعات کی نوعیت بھی الگ الگ ہے یہ ہرگز ثابت نہیں ہوسکتا، ہم مان لیتے ہیں کہ دونوں حدیثوں میں دو واقعہ کا ذکر ہے لیکن اس سے یہ کہاں ثابت ہوتا ہے کہ پہلے واقعہ میں جس رفع الیدین کا ذکر ہے وہ دوسرے واقعہ میں مذکور رفع الیدین سے الگ ہے؟؟؟
محترم پہلے دوسری حدیث کے الفاظ ملاحظہ فرمائیں:
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ، ثنا أَبُو نُعَيْمٍ، ثنا مِسْعَرٌ، عَنْ عُبَيْدِ اللهِ بْنِ الْقِبْطِيَّةِ، قَالَ: سَمِعْتُ جَابِرَ بْنَ سَمُرَةَ، يَقُولُ: كُنَّا إِذَا صَلَّيْنَا خَلْفَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قُلْنَا: السَّلَامُ عَلَيْكُمِ السَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَأَشَارَ مِسْعَرٌ بِيَدِهِ عَنْ يَمِينِهِ وَعَنْ شِمَالِهِ، فَقَالَ: «مَا بَالُ هَؤُلَاءِ يَرْفَعُونَ أَيْدِيَهُمْ كَأَنَّهَا أَذْنَابُ الْخَيْلِ الشُّمُسِ، أَمَا يَكْفِي أَحَدَكُمْ، أَوْ أَحَدَهُمْ، أَنْ يَضَعَ يَدَهُ عَلَى فَخِذِهِ، ثُمَّ يُسَلِّمُ عَلَى أَخِيهِ مِنْ عَنْ يَمِينِهِ وَشِمَالِهِ» (المعجم الكبير للطبراني :2/ 205 رقم 1836 واسنادہ صحیح)
ملون اورخط کشیدہ الفاظ پر دھیان دیں یہاں پررفع الیدین کے الفاظ ہیں ، نیز اسی حدیث میں یہ بھی وضاحت ہے کہ یہ رفع الیدین بوقت سلام والا تھا، اب اس بات پر غور کریں کہ اس بوقت سلام والے رفع الیدین کو ’’ كَأَنَّهَا أَذْنَابُ الْخَيْلِ الشُّمُسِ‘‘ سے تعبیر کیا گیا، اس سے پتہ چلا کہ ’’ كَأَنَّهَا أَذْنَابُ الْخَيْلِ الشُّمُسِ‘‘ ولا رفع الیدین بوقت سلام واے رفع الیدین ہی کو کہا گیاہے۔
اب اپنی مستدل حدیث مسلم پر پلٹ کر غور کریں، یہاں بھی ممنوعہ رفع الیدین کے لئے ’’ كَأَنَّهَا أَذْنَابُ الْخَيْلِ الشُّمُسِ‘‘ کے الفاظ ہیں اس سے ثابت ہوا کہ اس حدیث میں بھی ممنوعہ رفع الیدین سے مراد وہی رفع الیدین ہے جس کی وضاحت دوسری حدیث میں ہوگئی ہے۔
الغرض یہ کہ دونوں حدیث کو الگ الگ واقعہ پر تو محمول کیا جاسکتا ہے مگر الگ الگ رفع الیدین پر محمول ہرگز نہیں کیا جاسکتاہے۔

اس کہ علاوہ آپ نے عبداللہ بن عمر کے حوالہ سے رفع الیدین ثابت کرنے کی کوشش کی اس کی بھی تحقیق ملاحظہ فرمایں
عبد اللہ بن عمر رفع الیدین نہیں کرتے تھے
مصنف ابن ابی شیبہ کی دو روایات ہیں ایک میں حضرت عبداللہ ابن عمررضی اللہ عنہ کے شاگر امام مجاہد کہتے ہیں کہ حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہ صرف نماز کے شروع میں رفع یدین کرتے تھے اور کسی اور جگہ نہیں کرتے تھے ۔
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ عَيَّاشٍ، عَنْ حُصَيْنٍ، عَنْ مُجَاهِدٍ، قَالَ: «مَا رَأَيْتُ ابْنَ عُمَرَ، يَرْفَعُ يَدَيْهِ إِلَّا فِي أَوَّلِ مَا يَفْتَتِحُ»
[مصنف ابن أبي شيبة 1/ 214 رقم 2452 ]
امام بخاری فرماتے ہیں :
قَالَ يَحْيَى بْنُ مَعِينٍ حَدِيثُ أَبِي بَكْرٍ عَنْ حُصَيْنٍ إِنَّمَا هُوَ تَوَهُّمٌ مِنْهُ لَا أَصْلَ لَهُ.
[رفع اليدين في الصلاة ص: 20]

امام احمدبن حنبل اس روایت کے بارے میں فرماتے ہیں:
رواه أبو بكر بن عياش، عن حصين، عن مجاهد، عن ابن عمر، وهو باطل.
[ سوالات ابن ہانی :١ / ٥٠ موسوعة أقوال الإمام أحمد في الجرح والتعديل ١٠/ ٣٤٧]

یہ جرح مفسر ہے اب آپ پر لازم ہے کہ کم ازکم تین ایسے ناقدین کے ثابت اقوال پیش کریں جنہوں نے اس جرح مفسرکا ازالہ کیاہو۔

اور دوسری روایت میں اسود کہتے ہیں کہ انہوں نے حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہ کے ساتھ نماز پڑھی اور انہوں نے صرف نماز کے شروع میں رفع یدین کیا
اس کا مطلب ہے عبداللہ بن عمر رفع الیدین ترک کرجکے تھے
یہ روایت میں کافی کوشش کے باوجود بھی مصنف ابن ابی شیبہ میں تلاش نہیں کرسکا اگر آپ الفاظ مع حوالہ نقل کردیں توبڑی مہربانی ہوگی۔

کچھ مذید ملاحظہ فرمائین
ترکِ رفع پر غیر مقلدین کے گھر سے دلایل:۔
غیرمقلدین جو ہر وقت یہ شور مچاتے ہیں کہ جو رفع یدین نہ کرے اسکی نماز نہیں ہوتی آیے دیکھتے ہیں کہ انکے بڑے اس بارے میں کیا کہتے ہیں ۔
مولانا سید نذیر حسین صاحب دہلوی اپنے فتاویٰ نذیریہ جلد1 صفحہ 141 میں فرماتے ہیں
کہ رفع یدین میں جھگڑاکرنا تعصب اور جہالت کی بات ہے ، کیونکہ آنحضور اکرم صلیٰ اللہ علیہ وسلم سے دونوں ثابت ہیں ، دلایل دونوں طرف ہیں۔
نواب صدیق حسن خاں صاحب بھوپالی جماعتِ غیر مقلدین کے بڑے اونچے عالم اور مجدد وقت تھے ، ان کی کتاب روضہ الندیہ غیر مقلدین کے یہاں بڑی معتبر کتاب ہے، نواب صاحب اس کتاب میں حضرت شاہ ولی اللہ صاحب سے نقل کرتے ہوے فرماتے ہیں۔
۔"رفع یدین و عدم رفع یدین نماز کے ان افعال میں سے ہے جن کو آنحضور صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے کبھی کیا ہے اور کبھی نہیں کیا ہے ، اور سب سنت ہے ، دونوں بات کی دلیل ہے ، حق میرے نزدیک یہ ہے کہ دونوں سنت ہیں۔۔۔(صفحہ 148)"۔
اور اسی کتاب میں حضرت شاہ اسماعیل شہید کا یہ قول بھی نقل کرتے ہیں ولا یلام تارکہ و ان ترکہ مد عمرہ (صفحہ 150)۔ یعنی رفع یدین کے چھوڑنے والے کو ملامت نہیں کی جاے گی اگرچہ پوری زندگی وہ رفع یدین نہ کرے۔
غیر مقلدین کے بڑے اکابر بزرگوں کی ان باتوں سے پتا چلا کہ ان لوگوں کے نزدیک رفع یدین کرنا اور نہ کرنا دونوں آنحضور اکرم صلیٰ اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہیں اور دونوں سنت ہیں، اب سچے اہلحدیث ہونے کا تقاضا یہ تھا کہ یہ حضرات دونوں سنتوں پر عامل ہوتے مگر ان کا عمل یہ ہے کہ ایک سنت پر تو اصرار ہے اور دوسری سنت سے انکار ہے،
محترم اس طرح کے گھریلو دلائل تو آپ کے گھر سے پیش کئے جاسکتے ہیں مگر اس سے کیا فائدہ اس لئے صرف دلائل پر بات کریں۔

بلکہ دوسری سنت پر جو عمل کرتا ہے اسکو برا بھلا کہا جاتا ہے ، سنت پر عمل کرنے والوں کو برا بھلا کہنا کتنی بڑی گمراہی ہے
واہ بھائی ! ذار اپنی طرف بھی دیکھ لیں آپ خود رکوع والے رفع الیدین کو گھوڑوں کی دم سے تشبیہ دیں ، بلکہ آپ کے امام اڑان بھرنے کی بات کہہ کر مذاق اڑائیں ، یہ سب کیا ہے؟؟؟

آپ نے کبھی نہیں سنا ہو گا کسی حنفی نے رفع یدین کرنے والوں کو اس کے رفع یدین کرنے پر برا بھلا کہا ہو۔
برابھلا تو دور کی بات ہے ہم نے تو یہاں تک سنا ہے کہ رفع الیدین کرنے والوں کو قتل تک کی دھمکی دی گئی ہے۔

قارئین سے گذارش ہے کہ ذرا درج ذیل صفحہ پر جاکر ہماری مکمل تحریر مطالعہ کریں پھر فیصلہ کریں کہ کیا واقعی آفتاب صاحب نے ہماری اصل باتوں کا جواب دیا ہے:
تارکین رفع الیدین کے تمام شبہات کا ایک تاریخی اوردندان شکن جواب۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
5,001
ری ایکشن اسکور
9,805
پوائنٹ
773
السلام وعلیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
کیا حنفی وتر کا طریقہ اس حدیث سے باہر ہے؟
آپ نے وتر کی تکبیر اور وتر میں احناف کے ہاتھ اٹھانے کی وجہ سے اعتراض کیا ہے اس صحیح مسلم کی حدیث مین خیل شمس کی قید ھے اور اس کی حرکت کا یہ انداز ھوتا ھے کہ وہ اپنی دم اٹھا کر اچھلتا ھے۔یعنی اس کا بدن اور دم ایک ساتھ حرکت میں آتے ھیں۔ دیکھیے امام لغت عربی ابو منصور ثعلبی فقھ اللغہ وسر العربیہ میں فرماتے ھیں۔ فاذا کان مانعا ظھرہ فھو شموس اس کے علاوہ نووی شرح مسلم میں لکھا ھے التی لا تسقربل تضطرب و تتھرک باذنا بھا وارجلھا (ج١ ص ١٨١) اور جنآب وتر اور عیدین کی رفع یدین کے وقت صرف ھاتھ ھلتے ھیں بدن نہیں ھلتا۔
ابو عمر بھائی میرے باقی اعتراضات کے جواب کا بھی انتظار ہے
محترم آفتاب صاحب سب سے پہلے درج ذیل حدیث کو بہت ہی غور سے پڑھیں:
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ، ثنا أَبُو نُعَيْمٍ، ثنا مِسْعَرٌ، عَنْ عُبَيْدِ اللهِ بْنِ الْقِبْطِيَّةِ، قَالَ: سَمِعْتُ جَابِرَ بْنَ سَمُرَةَ، يَقُولُ: كُنَّا إِذَا صَلَّيْنَا خَلْفَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قُلْنَا: السَّلَامُ عَلَيْكُمِ السَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَأَشَارَ مِسْعَرٌ بِيَدِهِ عَنْ يَمِينِهِ وَعَنْ شِمَالِهِ، فَقَالَ: «مَا بَالُ هَؤُلَاءِ يَرْفَعُونَ أَيْدِيَهُمْ كَأَنَّهَا أَذْنَابُ الْخَيْلِ الشُّمُسِ، أَمَا يَكْفِي أَحَدَكُمْ، أَوْ أَحَدَهُمْ، أَنْ يَضَعَ يَدَهُ عَلَى فَخِذِهِ، ثُمَّ يُسَلِّمُ عَلَى أَخِيهِ مِنْ عَنْ يَمِينِهِ وَشِمَالِهِ» (المعجم الكبير للطبراني :2/ 205 رقم 1836 واسنادہ صحیح)

اس حدیث میں چار چیزوں پر دھیان دیں:
١: رفع الیدین کی صراحت ہے۔
٢: ’’ كَأَنَّهَا أَذْنَابُ الْخَيْلِ الشُّمُسِ‘‘ کے الفاظ ہیں ۔
٣: بوقت سلام کی صراحت ہے۔
٤: حدیث کے شروع میں راوی نے یہ وضاحت کی ہے کہ ’’وَأَشَارَ مِسْعَرٌ بِيَدِهِ عَنْ يَمِينِهِ وَعَنْ شِمَالِهِ‘‘ یعنی صحابہ دائیں بائیں ہاتھ کو ہلاتے تھے۔

اب عرض ہے:

اولا:
آپ نے یہ تو تسلیم کرلیا ہے کہ بوقت سلام والے رفع الیدین پر بھی ’’ كَأَنَّهَا أَذْنَابُ الْخَيْلِ الشُّمُسِ‘‘ کے الفاظ بولے گئے ہیں، جیسا کہ ابھی میں نے پھر حدیث پیش کردی ہے اب آپ سے سوال ہے کہ ، بوقت سلام والے رفع الیدین میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم صرف ہاتھ اٹھاتے تھے یا ساتھ میں بدن بھی حرکت کرتے تھے ؟؟؟؟
اس کا جواب اسی حدیث میں موجود ہے اوروہ ہے راوی کی یہ تشریح :
وَأَشَارَ مِسْعَرٌ بِيَدِهِ عَنْ يَمِينِهِ وَعَنْ شِمَالِهِ یعنی امام مسعرنے صرف ہاتھ ہلاکر بوقت سلام والے اس ممنوعہ رفع الیدین کی کیفیت بیان کی ہےاور راوي الحديثِ أَدرى بمرويِّه من غيرِه۔
معلوم ہوا کہ اگر رفع الیدین کے ساتھ بدن کو حرکت نہ دیا جائے تواسے بھی اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ’’ كَأَنَّهَا أَذْنَابُ الْخَيْلِ الشُّمُسِ ‘‘ سے تعبیرکیاہے۔
اب اگر بدن کی حرکت کے بغیر والے رفع الیدین پر ’’كَأَنَّهَا أَذْنَابُ الْخَيْلِ الشُّمُسِ ‘‘ کا الفاظ صادق نہیں آتے تو کہہ دیجئے کہ بوقت سلام ولی احادیث میں اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے صحیح تعبیر استعمال نہیں کی !!!!!

ثانیا:
پیش کردہ حدیث میں ہے وَأَشَارَ مِسْعَرٌ بِيَدِهِ عَنْ يَمِينِهِ وَعَنْ شِمَالِهِ اس سے ثابت ہوا کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان الفاظ سے ایسے رفع الیدین کو تعبیر کیا ہے جن میں ہاتھ کودائیں اوربائیں طرف ہلایا جاتاہے نہ کہ اوپر نیچے جیسا کہ رکوع والے رفع الیدین کا معاملہ ہے۔
بوقت سلام والی اس حدیث سے یہ ثابت ہوگیا کہ ’’كَأَنَّهَا أَذْنَابُ الْخَيْلِ الشُّمُسِ‘‘ کے الفاظ اسی رفع الیدین پر صادق آسکتے ہیں جس میں ہاتھ دائیں بائیں ہلایا جائے، ایسی صورت میں رکوع والا رفع الیدین اس تعبیر کی زد میں آتا ہی نہیں کیونکہ اس میں ہاتھ کو اوپر نیچے اٹھا یا جاتا ہے ۔
 

آفتاب

مبتدی
شمولیت
مئی 20، 2011
پیغامات
132
ری ایکشن اسکور
718
پوائنٹ
0
محترم آفتاب صاحب یہ کیا بات ہوئی کہ آپ میری تحریر کا جواب ایک الگ تھریڈ بنا کر دے رہے ہیں مجھے اطلاع کئے بغیر ! کم از ایک ذاتی پیغام ارسال کرنا تھا کہ آپ کی فلاں تحریر کا جواب فلاں جگہ ہے بہر حال:
بھائی الگ تھریڈ بنانے کے لئيے معذرت ۔ اصل میں میری غیر حاضری میں پچھلا تھریڈ کلوز ہو گیا تھا ۔ اب یہ میری خطا ہے کہ میں آپ کو مطلع نہیں کیا ۔ کیوں کہ یہ خطا ایک اوپن جگہ ہوئی اس لئیے اس کی معذرت بھی اوپن جگہ پر ہی کرہا ہوں ۔ امید ہے معذرت قبول کریں گے
اولا:
عجیب بات ہے ، ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی مذکورہ روایت میں نسخ یا دائمی ترک کی دلیل کہاں ہے اس سے زیادہ سے زیادہ یہ ثابت کیا جاسکتا ہے کہ کبھی کبھار ترک رفع بھی جائز ہے ، یعنی ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی حدیث سے ترک کا ثبوت لیا جائے اور دیگر صحابہ کی روایت سے مشروعیت کا ثبوت لیا جائے کیونکہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی روایت میں نسخ یا اخیر حیاۃ کی کوئی صراحت نہیں ہے۔
لیکن آپ کا دعو ی نسخ کا ہے اورآپ کے اس دعوی پر یہ حدیث قطعادلیل نہیں بن سکتی اس سے زیادہ سے زیادہ جواز الامرین پر استدلال کیا جاسکتا ہے نہ کہ نسخ یا ترک پر۔
ایک بات تک تو آپ پہنچے کہ اگر یہ روایت صحیح ثابت ہوجائے تو عدم رفع الیدین کےجواز کے قائل ہوجائیں گے۔ جب جواز الامرین ہو تو ایک فریق اس راستے پر چلتا ہے تو جس کو بہتر سمجھتا ہے لیکن دوسرے فریق سے اعراض نہیں کرتا ہے ۔ یہی افضل اور غیر افضل کہلاتا ہے ۔ میں نے شرو‏ع میں کہا تھا میں اس معاملہ کو حلال و حرام کا فرق نہیں بلکہ افضل اور غیر افضل کا فرق سمجھتا ہوں۔ میں نے کسی بھی موقع پر منسوخ نہیں کہا البتہ متروک ضرور کہا ہے ۔ منسوخ کا مطلب ہے جس کام سے منع کردیا گیا ہو۔ یہ میں نے کہیں بھی نہ کہا ۔ البتہ متروک ضرور کہا ۔ یعنی اس کو ترک کیا گیا ۔ اگر رفع الیدین کرنے کے مقابلے میں عدم رفع الیدین کی روایت زیادہ مضبوط ثابت ہوں تو کہا جائے گا کہ رفع الیدین کرنا افضل اور راجح ہے ۔ اور اس حدیث سے ثابت ہے رفع الیدین کو ترک کیا گيا ۔ہاں اس بات سے میں اتفاق کرتا ہوں دائمی ترک کی دلیل اس میں نہیں اور نہ میں نے اس کا دعوی کیا۔

ثانیا:
ہم نے یہ بھی تو کہا تھا :
آپ کومعلوم ہونا چاہے کہ نمازظہر سے قبل کتنی رکعات سنت مؤکدہ ہیں اس سلسلے میں ایک حدیث میں آتاہے کہ چاررکعت، اورایک دوسری حدیث میں آتاہے کہ دورکعت ، توکیا اس دوسری حدیث سے آپ یہ نتیجہ اخذکریں گے کہ ظہرسے قبل چاررکعت پڑھنا متروک ہے صرف دو ہی پڑھیں گے؟؟؟
جناب اس طرح کی احادیث سے متروک کا دعوی ثابت نہیں ہوتا کوئی ایسی روایت تلاش کریں جس میں متروک کی دلیل ہو۔
اس کا جواب کون دے گا؟؟؟
یہاں بھی وہ جواب ہوگا جو "اولا" کے جواب میں لکھا ۔
ثالثا:
ہماری طرف سے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کی روایت پیش کی جاتی ہے تو آپ حضرات شور مچاتے ہیں کہ تاحیاۃ کا لفظ دکھاؤ، ہمیشگی کی صراحت دکھاؤ وغیرہ وغیرہ ، خود اپنی باری میں یہ اصول کیوں فراموش کردیا؟
یہ دلیل ان سے طلب کی باتی ہے جن کا دعوی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے کبھی رفع الیدین ترک نہیں کیا ، اگر آپ کا بھی یہ دعوی ہے تو آپ سے بھی دلیل مانگی جائے گی۔ اگر آپ جواز الامرین کے قائل ہں تو ایسی دلیل کا مطالبہ نہیں ہوگا۔
رابعا:
عبداللہ بن مسود رضی اللہ عنہ وفات رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد بھی تطبیق کرتے تھے حوالہ پہلے پیش کیا جاچکا ہے ، اس بارے میں کیا خیال ہے؟؟؟
اس مسئلہ پر میری پہلے سے تحقیق نہیں ۔ میں اپنی طرف سے کچھ کہنا نہیں چاہوں گا اور خواخواہ باتیں نہیں کروں گا ۔ کیوں کہ یہ پھر بحث برائے بـحث ہو گی ۔ کچھ کتب کے مطالعہ کے بعد ہی کچھ لکھوں گا۔ في الحال اس میں کچھ وقت لگے گا
کیا دلائل کے ساتھ تضعیف کا جواب یہی ہوتا ہے کہ فلاں نے اس کو صحیح کہا ہے ؟ اگر ایسا ہی ہے تو بیسوں محدثین کے حوالے پیش کئے جاسکتے ہیں جنہوں نے اس روایت کو ضعیف قرار دیا ہے ایسی صورت میں آپ کیا کہیں گے۔
یہاں پھر وہی بات آئی جو میں کہ رہا ہوں ۔ اگر دو محدثین اگر دو مختلف بات کہ رہے تو ایک محقق کو جس کی بات راجح لگے اس کو قبول کرے اور اس کوافضل سمجھے ۔ حلال و حرام کا معاملہ نہ بنائے۔
محترم امام سفیان ثوری رحمہ اللہ کو غیر حجت کسی نے نہیں کہا ہے وہ فی نفسہ ثقہ ہیں ، لیکن کبھی کبھار ثقہ سے بھی غلطی ہوجاتی ہے اصول حدیث میں یہ معروف بات ہے، اورجب اہل فن کسی خاص روایت کے بارے میں یہ مفسرجرح کردیں کہ یہاں اس ثقہ راوی کو وہم ہوا ہے تو اہل فن کی یہ بات حجت ہوگی، اسے اسی صورت میں نظر انداز کیا جاسکتا ہے جب دیگر محدثین اس جرح مفسر کی صراحت کے ساتھ تردید کردیں ، آپ کم از کم دو ایسے ثقہ محدثین کے حوالے پیش کریں جنہوں صراحت کے ساتھ یہ کہا ہوں کہ امام سفیان ثوری کو اس روایت میں وہم نہیں ہوا۔
جناب آپ نے مجھ سے تو صراحت کے ساتھ دو محدثین کے نام مانگے جنہوں نے یہاں کہا ہو کہ امام سفیان کو یہاں وہم نہیں ہوا لیکن خود ایک محدث کا نام بھی صراحت کے ساتھ نہ دیا کہ جس نے امام سفیان کی اس ورایت کے متعلق کہا ان کو وہم ہوا ہے ۔ابو حاتم کے بیان میں الفاظ ہیں "قال أبِي : ہذا خطأٌ ، يُقالُ : وہِم فیہا الثوری " يقال ۔ یہ کس کا قول ہے یقال سے ثابت ہوتا کہا جاتا ہے لیکں کون کہتا ہے یہ واضح نہیں ۔ یہ الفاظ مبہم ہیں ۔ آپ کس بنیاد پر اسے جرح مفسر کہ رہے میں جب کہ محدث کا نام تک معلوم نہیں۔

ثانیا:
ہم نے ضعف کا ایک اورسبب پیش کیا تھا سفیان الثوری کا عنعنہ، اس کا آپ نے کوئی جواب نہیں دیا۔
پہلے آپ نے سفیان کو مدلس کہا ۔ جب میں آمیں بالجہر میں آپ حضرات کی تحقیقی دکھائی تو آپ نے ان فی نفسہ ثقہ کہا ۔ پھر آپ نے ان کے عن سے روایت کرنے پر اعتراض کیا ، آپ اپنے حضرات کی سینے پر ہاتھ باندھنے والی روایت دیکھ لیں ۔ وہاں اپ حضرات ان کی روایت سے حجت بھی پکڑ رہے ہیں اور سفیان عن سے روایت کررہے ہیں ۔ یہ کیوں ؟

تو کیا آپ کے نزدیک تطبیق کا عمل منسوخ نہیں ہے ؟؟؟
اس کے متعلق پہلے لکھ چکا ہوں
ملون الفاظ پر غور کریں آپ نے ’’فی الصلوٰۃ ‘‘ سے استدلال کیا تھا اور ہم نے بھی جوابا ایسی احادیث پیش کی تھیں جن میں تکبیر تحریمہ ولاے رفع الیدین کے لئے بھی ’’فی الصلاۃ ‘‘ کا لفظ استعمال ہے ان احادیث کا آپ نے کوئی جواب نہیں دیا۔
یہ ميں مثال سے کہ چکا ہوں فی الصلاہ اور الدخول في الصلاہ میں بہت فرق ہے ۔ اگر کہا جائے گھر میں داخل ہو اور گھر میں بلا حرکت کھڑے رہو تو ایک شخص في الیبت تو بلا حرکت کھڑا ہوگا اور جب داخل ہو گا تو لازمی حرکت کرے گا لیکن اس کو کہا جائے گا دخل في البیت ۔ یہاں بھی فی کا لفظ ہے لیکن کوئی بھی یہ نہ کہے گا کہ اس نے گھرمیں کوئی حرکت کی ۔
اورپہلے ثابت کیا چکا ہے کہ آپ کی مستدل حدیث مسلم میں ممنوعہ عمل کا تعلق بھی نماز کے آخری حصہ سے ہے، مزید تفصیل آگے بھی آرہی ہے۔
اس کا جواب بھی اس تفصیل کے بعد ہے ۔

اولا:
یہ کیا کہہ رہے ہیں بھائی ؟ کہاں نماز کی رفتار اور کہاں ٹرین کی رفتار؟ دونوں میں بڑا فرق ہے اس فرق کو ملحوظ رکھیں گے تو آپ کو معلوم ہوگا کہ یہ مثال خود آپ ہی کے خلاف ہے ، جناب ٹرین کی رفتارشروع میں کم ہوتی ہے مگر بعد میں اس کی رفتار بڑھتی جاتی ہے ، اب آپ سے مؤدبانہ سوال ہے کہ کیا نماز بھی اسی طرح کی رفتار ہوتی ہے یعنی شروع میں کم اوربعد میں تیز ہوتی چلی جاتی ہے؟؟؟
محترم نماز میں تعدیل ارکان کا حکم ہے جس کامطلب ہے نماز پوری کی پوری ایک ہی انداز (آپ کے الفاظ میں رفتار) سے پڑھی جاتی ہے پھر تو آپ ہی کی مثال کے مطابق اس کے شروع کا حصہ ہو یا اخیر کا رفتار یکساں رہتی ہے۔
جب کسی چیز سے مثال دی جاتی ہے تو اس کہ یہ مطلب نہیں کہ وہ چیز ہو بہو ویسے ہی ہو گی۔ قرآن میں منافقین کے اعمال کی ایک مثال آگ جلانے والے سے دی گئی اس کی مذید تفصیل آپ تفاسیر میں دیکھ سکتے ہیں تو کیا منافقین کے لئیے سردیاں اچھی ہوتی ہیں اور معاذ اللہ ہر ایک کو سردیوں میں منافق ہوجانا چاہئیے۔ ٹرین والی اس مثال سے بتانا مقصود ہے کہ ہر عمل کے ابتدائی بیچ اور آخری حصہ کی کیفیت الگ ہوتی ہے۔
ثانیا:
محترم مذکورہ مثال کو سامنے رکھتے ہوئے ذرا اپنے نماز وتر والے رفع الیدین کا انجام سوچ لیں ، وترمیں آپ کا رفع الیدین یقنا ایسے وقت میں ہوگا جب آپ کی مثال کے بموجب آپ کی نماز کی رفتار بہت تیز ہوگی ، ایسی صورت میں رفع الیدین کرنے والے کا وہی حشر ہونا چاہئے جو تیز رفتار سے چلتی ہوئی ٹرین سے چھلانگ لگانے والے کا ہوتا۔
وتر کا رفع الیدین اس سے مستثنی ہے
عَنْ عَبْدِ اللہِ بن مسعود –رضي اللہ عنہ- : (( أَنّہُ كَانَ يَرْفَعُ يَدَيْہِ فِي قُنُوتِ الْوِتْرِ ))(رواه ابن أبي شيبہ (2/307) ، والبخاري في جزء رفع اليدين (91) ، وابن المنذر في الاوسط رقم (2671) ، والبيہقي في سننہ رقم (5062)
وتر کے رفع الیدین کے اثبات میں صحیح حدیث موجود ہے لیکن ترک میں کوئی صحیح حدیث میرے ناقص عمل کس مطابق نہیں تو یہ رفع الیدن کیا جائے گا ۔ اسکنوا في الصلاہ عام حکم ہے لیکن وتر کا استثناء حدیث میں مزکور ہے تو وتر میں رفع الیدین کیا جائے گا۔
ثالثا:
محترم بھائی ! نماز میں رفع الیدین کرنا کیا ٹرین سے چھلانگ لگانے کی طرح ہے ، ابتسامہ مع استغفراللہ ۔
بھائی جی ٹرین سے چھلانگ لگانے کے بعد آدمی ٹرین سے الگ ہوجاتا ہے تو کیا آپ حضرات بھی پہلا رفع الیدین کرکے نماز سے الگ ہوجاتے ہیں ۔
میں بتاچکا ہوں کہ مثال کیوں پیش کی۔ اس کا جواب اوپر آچکا ہے۔
یہ سوال آپ سے بھی کیا گیا گیا تھا مسلم کی مستدل حدیث میں کون سا رفع الیدین مراد ہے مگر آپ نے بغیر دلیل کے اسے رکوع والا رفع الیدین مان لیا ، آپ سے گذارش ہے کہ اس بات کا ثبوت دیں کہ اس سے مراد رکوع والا رفع الیدین ہے ۔
واضح رہے کہ دعاء کے لئے ہاتھ اٹھانے پر بھی رفع الیدین کا اطلاق ہوتا ہے اسی طرح بوقت سلام صحابہ رضی اللہ عنہم نے ہاتھ اٹھایا اس پر بھی رفع الیدین کا اطلاق ہوا۔
محترم آپ کے پیش کردہ نکتہ سے زیادہ سے زیادہ یہ ثابت ہوسکتاہے کہ کہ یہ دو الگ الگ واقعات ہیں لیکن ان واقعات کی نوعیت بھی الگ الگ ہے یہ ہرگز ثابت نہیں ہوسکتا، ہم مان لیتے ہیں کہ دونوں حدیثوں میں دو واقعہ کا ذکر ہے لیکن اس سے یہ کہاں ثابت ہوتا ہے کہ پہلے واقعہ میں جس رفع الیدین کا ذکر ہے وہ دوسرے واقعہ میں مذکور رفع الیدین سے الگ ہے؟؟؟
محترم پہلے دوسری حدیث کے الفاظ ملاحظہ فرمائیں:
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ، ثنا أَبُو نُعَيْمٍ، ثنا مِسْعَرٌ، عَنْ عُبَيْدِ اللهِ بْنِ الْقِبْطِيَّةِ، قَالَ: سَمِعْتُ جَابِرَ بْنَ سَمُرَةَ، يَقُولُ: كُنَّا إِذَا صَلَّيْنَا خَلْفَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قُلْنَا: السَّلَامُ عَلَيْكُمِ السَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَأَشَارَ مِسْعَرٌ بِيَدِهِ عَنْ يَمِينِهِ وَعَنْ شِمَالِهِ، فَقَالَ: «مَا بَالُ هَؤُلَاءِ يَرْفَعُونَ أَيْدِيَهُمْ كَأَنَّهَا أَذْنَابُ الْخَيْلِ الشُّمُسِ، أَمَا يَكْفِي أَحَدَكُمْ، أَوْ أَحَدَهُمْ، أَنْ يَضَعَ يَدَهُ عَلَى فَخِذِهِ، ثُمَّ يُسَلِّمُ عَلَى أَخِيهِ مِنْ عَنْ يَمِينِهِ وَشِمَالِهِ» (المعجم الكبير للطبراني :2/ 205 رقم 1836 واسنادہ صحیح)
ملون اورخط کشیدہ الفاظ پر دھیان دیں یہاں پررفع الیدین کے الفاظ ہیں ، نیز اسی حدیث میں یہ بھی وضاحت ہے کہ یہ رفع الیدین بوقت سلام والا تھا، اب اس بات پر غور کریں کہ اس بوقت سلام والے رفع الیدین کو ’’ كَأَنَّهَا أَذْنَابُ الْخَيْلِ الشُّمُسِ‘‘ سے تعبیر کیا گیا، اس سے پتہ چلا کہ ’’ كَأَنَّهَا أَذْنَابُ الْخَيْلِ الشُّمُسِ‘‘ ولا رفع الیدین بوقت سلام واے رفع الیدین ہی کو کہا گیاہے۔
اب اپنی مستدل حدیث مسلم پر پلٹ کر غور کریں، یہاں بھی ممنوعہ رفع الیدین کے لئے ’’ كَأَنَّهَا أَذْنَابُ الْخَيْلِ الشُّمُسِ‘‘ کے الفاظ ہیں اس سے ثابت ہوا کہ اس حدیث میں بھی ممنوعہ رفع الیدین سے مراد وہی رفع الیدین ہے جس کی وضاحت دوسری حدیث میں ہوگئی ہے۔
الغرض یہ کہ دونوں حدیث کو الگ الگ واقعہ پر تو محمول کیا جاسکتا ہے مگر الگ الگ رفع الیدین پر محمول ہرگز نہیں کیا جاسکتاہے۔
اگر دو الگ واقعات کے بیان میں ایک جیسے القاظ ہوں تو آپ کے نذیک وہ ایک واقعہ ہے۔ یہ عجیب دلیل سنی میں نے۔
اگر آپ یہ کہتے تو زیادہ بہتر تھا کہ یہ احتمال ہے کہ دونوں حدیثیں سلام کے وقت والے رفع الیدین کی نہیں ہیں ۔ اس سے بھی دونوں امور کا جواز بیدا ہوتا ہے اور جواز الامرین کے متعلق میں لکھ چکا ہوں۔
میں نے بھی اس سے مراد عدم رفع الیدن کا احتمال لیا ہے ۔ 100٪ دعوی نہیں ۔ اگر میں 100٪ فیصد دعوی کروں تو میں رفع الیدین کو حرام کہوں گا لیکن میں افضل اور غیر افضل کا معاملہ کہہ رہا ہوں ۔
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ عَيَّاشٍ، عَنْ حُصَيْنٍ، عَنْ مُجَاهِدٍ، قَالَ: «مَا رَأَيْتُ ابْنَ عُمَرَ، يَرْفَعُ يَدَيْهِ إِلَّا فِي أَوَّلِ مَا يَفْتَتِحُ»
[مصنف ابن أبي شيبة 1/ 214 رقم 2452 ]
امام بخاری فرماتے ہیں :
قَالَ يَحْيَى بْنُ مَعِينٍ حَدِيثُ أَبِي بَكْرٍ عَنْ حُصَيْنٍ إِنَّمَا هُوَ تَوَهُّمٌ مِنْهُ لَا أَصْلَ لَهُ.
[رفع اليدين في الصلاة ص: 20]

امام احمدبن حنبل اس روایت کے بارے میں فرماتے ہیں:
رواه أبو بكر بن عياش، عن حصين، عن مجاهد، عن ابن عمر، وهو باطل.
[ سوالات ابن ہانی :١ / ٥٠ موسوعة أقوال الإمام أحمد في الجرح والتعديل ١٠/ ٣٤٧

یہ جرح مفسر ہے اب آپ پر لازم ہے کہ کم ازکم تین ایسے ناقدین کے ثابت اقوال پیش کریں جنہوں نے اس جرح مفسرکا ازالہ کیاہو۔
امام بخاری 194 ہجری میں پیدا ہو‎ئے اور امام یحیی بن معین 157 ہجری میں پیدا ہوئے ۔ امام یحیی بن معین کا قول امام بخاری تک کیسے پہنچا ۔ سند بتائیے ۔
یہاں امام احمد کا باطل کہنا جرح مفسر نہیں ۔ کیوں انہوں نے باطل کہنے کی وجہ بیان نہیں کی ۔ اس کوجرح مبہم کہا جاسکتا ہے ۔ اس کے خلاف تین ناقدین کے قول کی وجہ ۔ میں آپ سے سوال کرتا ہوں کہ اس روایت کو جرح مفسر کے ساتھ بیان کرنے والے تین محدثین کے اقوال نقل کریں۔
مذید کیا ان راویوں میں کوئی ضعیف ہے ؟ کیا یہ بخاری کے راوی نہیں ؟

محترم اس طرح کے گھریلو دلائل تو آپ کے گھر سے پیش کئے جاسکتے ہیں مگر اس سے کیا فائدہ اس لئے صرف دلائل پر بات کریں۔
اگر آپ حضرات کو ان اہلحدیث علماء کی تحقیق حق نہیں لگتی تو کوئی بات نہیں کیوں کہ خطا تو کسی سے بھی ہوسکتی ہے ۔لیکن کیا آپ نے اپنی عوام کو غلطی سے بچانے کے لئیے اس خطا کی طرف کسی کتاب میں رہنمائی کی۔
واہ بھائی ! ذار اپنی طرف بھی دیکھ لیں آپ خود رکوع والے رفع الیدین کو گھوڑوں کی دم سے تشبیہ دیں ، بلکہ آپ کے امام اڑان بھرنے کی بات کہہ کر مذاق اڑائیں ، یہ سب کیا ہے؟؟؟
ہم مذاق نہیں اڑاتے صرف حدیث کے الفاظ كَأَنَّهَا أَذْنَابُ الْخَيْلِ الشُّمُسِ کا ترجمہ کرتے ہیں
برابھلا تو دور کی بات ہے ہم نے تو یہاں تک سنا ہے کہ رفع الیدین کرنے والوں کو قتل تک کی دھمکی دی گئی ہے۔
ثبوت بیش کریں ۔ اورکسی شخص کے انفرادی عمل کو پوری جماعت پر چپپاں نہ کریں۔
 
سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔
Top