تارکین رفع الیدین کا تاریخی دندان شکن جواب کے نام سے ایک تھریڈ شروع ہوا تھا ۔ میں نے کچھ پوسٹ اس میں کی تھیں لیکن والد صاحب کے آپریشن ، میرے چھوٹے بیٹے کی بار بار بیماری اور آفس میں آڈٹ کی وجھ سے میں کچھ دن پوسٹ نہ کرسکا جب لاگ ان ہوا تو دیکھا کہ وہ تھریڈ کلوز ہو چکا ہے ۔
اس تھریڈ میں کئی لوگ پوائنٹ پر نہ رہے اور دیگر معاملوں کو چھیڑا مثلا تقلید ۔ مجھے کہا گیا کہ آپ مقلد ہو کر تحقیق کیون کر رہے ہیں وغیرہ وغیرہ۔
میری سب سے درخواست ہے کہ اس تھریڈ کو رفع الیدین کے متعلق ہی رہنے دیں اور باقی اختلافی مسائل کے لیئے نیا تھریڈ شروع کریں
اب آتا ہوں محترم کفایت اللہ صاحب کی پوسٹ کی طرف جنہوں نے میرے اعتراضات کے مفصل جوابات دیے
میری پہلی دلیل تھی
1- عن عبد الله بن مسعود ، أنه قال : ألا أصلي لكم صلاة رسول الله صلى الله عليه وسلم . فصلى ، فلم يرفع يديه إلا في أول مرة
(اس روایت کو ترمذی ، ابو داؤد ، نسائی کے علاوہ کئی حدیث کی دوسری کتب نے بھی نقل کیا ہے )
کفایت اللہ صاحب کا جواب تھا
محترم آفتاب صاحب اب آپ بتائیے کہ اس حدیث میں رکوع والے رفع الیدین کے متروک ہونے کی دلیل کہاں ہے؟؟؟ اس میں تو صرف یہ ہے کہ عبداللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ نے ایک بار رفع الیدین والی نماز پڑھ کربتلائی ہے ، اس سے بقیہ رفع الیدین کا ترک کہاں لازم آیا؟؟؟
میرا جواب
اگر رفع الیدین نماز کا حصہ ہوتا اور نبی پاک صلی اللہ علیہ و سلم نے اس عمل کو آخری عمر تک کیا ہوتا تو عبد اللہ بن مسعود کبھی بھی بغیر رفع الیدین والی نماز نہ پڑہاتے ۔ اگر ترک رفع الیدین کے ساتھ نماز کا طریقہ بیان کرنا متروک کی دلیل نہیں تو بھر رفع الدیدن کی روایت ذکر کرنے پر ہم کہ سکتے ہیں کہ یہ رفع الیدین کی دلیل نہیں ۔ یہ تو میں تو نہ مانوں والی بات ہے۔
دوسرا آپ نے اس حدیث کو ضعیف بتایا
جبکہ اس حدیث کو امام ترمذی ،علامہ ابن حزم ظاہری نے صحیح قرار دیا ہے ۔
آپ نے اس حدیث پر امام ابو حاتم کا کلام ذکر کیا
ان کی جرح مفسر کی حیثیت کچھ یوں ہے
آپ نےامام ابو حاتم کا قول ذکر کیا
انہوں نے کہا کہ وهِم فِيهِ الثّورِيُّ جبکہ یہی امام الثوري ہیں جن کی روایت کو آمیں الجہر میں نہ صرف قبول کیا گیا بلکہ دوسرے راوی پر ترجیح دی گئی ۔ کیا یہ مسلک پرستی نہیں ۔ کیا یہ ہر صورت میں اپنا مسلک ثابت کرنا نہیں ۔ ایک جگہ ایک راوی کی حدیث کو صحیح مانا جائے اور دوسری جگہ اس کی روایت کو ضعیف کہا جائے
ملاحضہ ہو اہلحدیث حضرات کی یہ تحقیق ۔
مقتدی کا آمین بلند آواز سے کہنا
یہاں سفیان الثوری کی حدیث سے دلیل کیوں پکڑی گئی؟
یہاں ویسے بھی عبد اللہ بن ادریس اور سفیان الثوری کی احادیث دو مختلف موضوعات پر ہیں ۔ عبد اللہ بن ادریس کی حدیث مسئلہ تطبیق اور سفیان ااثوری کی حدیث ترک رفع الیدین کے متعلق ہے ۔ ان دو حدیثوں کا سیاق خود بتا رہا ہے کہ یہ دو مستقل حدیثیں ہیں اور سرے سے ان میں کوئی مخالفت نہیں کہ ایک کو صواب اور دوسرے کو خطا قرار دی جائے
دوسری دلیل
دوسری دلیل میں نے صحیح مسلم کی پیش کی اور اس میں الفاظ اسکنوا فی الصلاہ سی بتایا کہ نماز میں رفح الیدین سے منع کیا کیا ۔ یہاں في الصلاہ کہا گیا نہ کہ عند افتتاح الصلاہ کہا گیا۔
کفایت اللہ صاحب نے اس کا مطب یہ لیا کہ نماز کا ابتدائی حصہ بھی نماز میں داخل ہے۔
جناب کسی بھی چیز کا اتدائی اور آخری حصہ کی حیثیت الگ ہوتی ہے ۔ جیسے اگر کوئی کہے چلتی ٹرین سے چھلانگ لگاو ایک شخص نے جب ٹرین اسٹیشن سے چلی تو چھلانگ لگائی اور دوسرے شخص نے ٹرین کی اسپیڈ کے دوران چھلاگ لکائی تو دونوں کو نقصان پہچنے کی کیفیت مختلف ہوگی جبکہ دونوں نے چلتی ٹرین سے چھلاگ لگائی ۔ ایک نے ابتداء میں دو سرے نے بیچ میں۔ تو دخول في العمل اور فی العمل دونوں کے احکامات الگ ہوتے ہیں۔
دوسرا میں نے پوچھا کہ اس وقت صحابہ کون سا والا رفح الیدین کررہے تھے جس سے منع کیا گیا۔
کفایت اللہ صاحب نے دوسری روایت سے ثابت کرنا چاہا کہ وہ سلام کے وقت والا رفع الیدین ہے ۔ جبکہ صحیح مسلم اسکنوا فی الصلاہ والی حدیث اور سلام کے وقت والی حدیث میں بہت فرق ہے ۔
صحیح حدیث والی حدیث میں صحابہ نماز پڑہ رہے تھے اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم تشریف لائے جبکہ آپ والی حدیث میں باجماعت نماز کا ذکر ہے ۔
دو الگ واقعات کو تڑوڑ مڑوڑ کربغیر دلیل کہ ایک حدیث ثابت کرنا صرف دل کی تسلی کہ لیئے ہو سکتا کسی کو قائل کرنے کے لئیے نہیں ۔
اس کہ علاوہ آپ نے عبداللہ بن عمر کے حوالہ سے رفع الیدین ثابت کرنے کی کوشش کی اس کی بھی تحقیق ملاحظہ فرمایں
عبد اللہ بن عمر رفع الیدین نہیں کرتے تھے
مصنف ابن ابی شیبہ کی دو روایات ہیں ایک میں حضرت عبداللہ ابن عمررضی اللہ عنہ کے شاگر امام مجاہد کہتے ہیں کہ حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہ صرف نماز کے شروع میں رفع یدین کرتے تھے اور کسی اور جگہ نہیں کرتے تھے ۔ اور دوسری روایت میں اسود کہتے ہیں کہ انہوں نے حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہ کے ساتھ نماز پڑھی اور انہوں نے صرف نماز کے شروع میں رفع یدین کیا
اس کا مطلب ہے عبداللہ بن عمر رفع الیدین ترک کرجکے تھے
کچھ مذید ملاحظہ فرمائین
ترکِ رفع پر غیر مقلدین کے گھر سے دلایل:۔
غیرمقلدین جو ہر وقت یہ شور مچاتے ہیں کہ جو رفع یدین نہ کرے اسکی نماز نہیں ہوتی آیے دیکھتے ہیں کہ انکے بڑے اس بارے میں کیا کہتے ہیں ۔
مولانا سید نذیر حسین صاحب دہلوی اپنے فتاویٰ نذیریہ جلد1 صفحہ 141 میں فرماتے ہیں
کہ رفع یدین میں جھگڑاکرنا تعصب اور جہالت کی بات ہے ، کیونکہ آنحضور اکرم صلیٰ اللہ علیہ وسلم سے دونوں ثابت ہیں ، دلایل دونوں طرف ہیں۔
نواب صدیق حسن خاں صاحب بھوپالی جماعتِ غیر مقلدین کے بڑے اونچے عالم اور مجدد وقت تھے ، ان کی کتاب روضہ الندیہ غیر مقلدین کے یہاں بڑی معتبر کتاب ہے، نواب صاحب اس کتاب میں حضرت شاہ ولی اللہ صاحب سے نقل کرتے ہوے فرماتے ہیں۔
۔"رفع یدین و عدم رفع یدین نماز کے ان افعال میں سے ہے جن کو آنحضور صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے کبھی کیا ہے اور کبھی نہیں کیا ہے ، اور سب سنت ہے ، دونوں بات کی دلیل ہے ، حق میرے نزدیک یہ ہے کہ دونوں سنت ہیں۔۔۔(صفحہ 148)"۔
اور اسی کتاب میں حضرت شاہ اسماعیل شہید کا یہ قول بھی نقل کرتے ہیں ولا یلام تارکہ و ان ترکہ مد عمرہ (صفحہ 150)۔ یعنی رفع یدین کے چھوڑنے والے کو ملامت نہیں کی جاے گی اگرچہ پوری زندگی وہ رفع یدین نہ کرے۔
غیر مقلدین کے بڑے اکابر بزرگوں کی ان باتوں سے پتا چلا کہ ان لوگوں کے نزدیک رفع یدین کرنا اور نہ کرنا دونوں آنحضور اکرم صلیٰ اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہیں اور دونوں سنت ہیں، اب سچے اہلحدیث ہونے کا تقاضا یہ تھا کہ یہ حضرات دونوں سنتوں پر عامل ہوتے مگر ان کا عمل یہ ہے کہ ایک سنت پر تو اصرار ہے اور دوسری سنت سے انکار ہے، بلکہ دوسری سنت پر جو عمل کرتا ہے اسکو برا بھلا کہا جاتا ہے ، سنت پر عمل کرنے والوں کو برا بھلا کہنا کتنی بڑی گمراہی ہے ، آپ نے کبھی نہیں سنا ہو گا کسی حنفی نے رفع یدین کرنے والوں کو اس کے رفع یدین کرنے پر برا بھلا کہا ہو۔