اگر رفع الیدین کرنے کے مقابلے میں عدم رفع الیدین کی روایت زیادہ مضبوط ثابت ہوں تو کہا جائے گا کہ رفع الیدین کرنا افضل اور راجح ہے ۔
؟؟؟؟؟۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟؟؟؟؟
اگر رفع الیدین کرنے کے مقابلے میں عدم رفع الیدین کی روایت زیادہ مضبوط ثابت ہوں تو کہا جائے گا کہ رفع الیدین کرنا افضل اور راجح ہے ۔
اصل جملہ یوں ہے ۔اگر رفع الیدین کرنے کے مقابلے میں عدم رفع الیدین کی روایت زیادہ مضبوط ثابت ہوں تو کہا جائے گا کہ رفع الیدین کرنا افضل اور راجح ہے ۔
جزاک اللہ خیرابھائی الگ تھریڈ بنانے کے لئيے معذرت ۔ اصل میں میری غیر حاضری میں پچھلا تھریڈ کلوز ہو گیا تھا ۔ اب یہ میری خطا ہے کہ میں آپ کو مطلع نہیں کیا ۔ کیوں کہ یہ خطا ایک اوپن جگہ ہوئی اس لئیے اس کی معذرت بھی اوپن جگہ پر ہی کرہا ہوں ۔ امید ہے معذرت قبول کریں گے
میں نے بطورتنزل ایک بات کہی تھی کہ زیادہ سے زیادہ یہ استدلال کیا جاسکتا ہے لیکن اس سے میرا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ اس کی صحت ثابت ہوجائے تو جواز الامرین کا ثبوت فراہم ہوجائے گا، کیونکہ صحت کے ثبوت کے باوجود بھی یہ روایت جواز الامر ین کی دلیل نہیں ہوگی ، جیساکہ بہت سے اہل علم نے اسے صحیح فرض کرنے کے باوجود بھی جواز الامرین کی دلیل نہیں مانا ہے کیونکہ دیگر کئی چیزوں کے احتمالات ہیں، مثلا:ایک بات تک تو آپ پہنچے کہ اگر یہ روایت صحیح ثابت ہوجائے تو عدم رفع الیدین کےجواز کے قائل ہوجائیں گے۔
جن کا دعوی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے کبھی رفع الیدین ترک نہیں کیا آپ ان سے بھی یہ مطالبہ نہیں کرسکتے ، کیونکہ ان کا یہ بھی تو دعوی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تکبیرتحریمہ والا رفع الیدین بھی کبھی ترک نہیں کیا ہے ، پھر آپ اس رفع الیدین سے متعلق یہی مطالبہ کیونکہ نہیں کرتے ؟؟؟ اسی طرح احناف کا بھی یہی دعوی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے کبھی تکبیر تحریمہ والا رفع الیدین ترک نہیں کیا ، پھر کیا احناف سے یہ مطالبہ درست ہوگا کہ وہ تکبیر تحریمہ والے رفع الیدین سے متعلق تاحیاۃ کی صراحت دکھلائیں ؟؟؟یہ دلیل ان سے طلب کی باتی ہے جن کا دعوی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے کبھی رفع الیدین ترک نہیں کیا ، اگر آپ کا بھی یہ دعوی ہے تو آپ سے بھی دلیل مانگی جائے گی۔
کوئی بات نہیں ہمیں کوئی جلدی نہیں ہے آپ اطمئنان سے تحقیق کریں اورجب بھی آپ کے سامنے کوئی موقف راجح قرار پائے اس سے آگاہ کریں، بارک اللہ فیک۔اس مسئلہ پر میری پہلے سے تحقیق نہیں ۔ میں اپنی طرف سے کچھ کہنا نہیں چاہوں گا اور خواخواہ باتیں نہیں کروں گا ۔ کیوں کہ یہ پھر بحث برائے بـحث ہو گی ۔ کچھ کتب کے مطالعہ کے بعد ہی کچھ لکھوں گا۔ في الحال اس میں کچھ وقت لگے گا۔
محترم ہم یہاں ایک مسئلہ پر تحقیقی گفتگوکررہے ہیں ، کیا صحیح ہے اورکیا غلط ، اس لئے دلائل پر بات کریں تصحیح وتضعیف کسی دلیل کا نام نہیں ہے۔یہاں پھر وہی بات آئی جو میں کہ رہا ہوں ۔ اگر دو محدثین اگر دو مختلف بات کہ رہے تو ایک محقق کو جس کی بات راجح لگے اس کو قبول کرے اور اس کوافضل سمجھے ۔ حلال و حرام کا معاملہ نہ بنائے۔کیا دلائل کے ساتھ تضعیف کا جواب یہی ہوتا ہے کہ فلاں نے اس کو صحیح کہا ہے ؟ اگر ایسا ہی ہے تو بیسوں محدثین کے حوالے پیش کئے جاسکتے ہیں جنہوں نے اس روایت کو ضعیف قرار دیا ہے ایسی صورت میں آپ کیا کہیں گے۔
اولا:جناب آپ نے مجھ سے تو صراحت کے ساتھ دو محدثین کے نام مانگے جنہوں نے یہاں کہا ہو کہ امام سفیان کو یہاں وہم نہیں ہوا لیکن خود ایک محدث کا نام بھی صراحت کے ساتھ نہ دیا کہ جس نے امام سفیان کی اس ورایت کے متعلق کہا ان کو وہم ہوا ہے ۔ابو حاتم کے بیان میں الفاظ ہیں "قال أبِي : ہذا خطأٌ ، يُقالُ : وہِم فیہا الثوری " يقال ۔ یہ کس کا قول ہے یقال سے ثابت ہوتا کہا جاتا ہے لیکں کون کہتا ہے یہ واضح نہیں ۔ یہ الفاظ مبہم ہیں ۔ آپ کس بنیاد پر اسے جرح مفسر کہ رہے میں جب کہ محدث کا نام تک معلوم نہیں۔اولا:
محترم امام سفیان ثوری رحمہ اللہ کو غیر حجت کسی نے نہیں کہا ہے وہ فی نفسہ ثقہ ہیں ، لیکن کبھی کبھار ثقہ سے بھی غلطی ہوجاتی ہے اصول حدیث میں یہ معروف بات ہے، اورجب اہل فن کسی خاص روایت کے بارے میں یہ مفسرجرح کردیں کہ یہاں اس ثقہ راوی کو وہم ہوا ہے تو اہل فن کی یہ بات حجت ہوگی، اسے اسی صورت میں نظر انداز کیا جاسکتا ہے جب دیگر محدثین اس جرح مفسر کی صراحت کے ساتھ تردید کردیں ، آپ کم از کم دو ایسے ثقہ محدثین کے حوالے پیش کریں جنہوں صراحت کے ساتھ یہ کہا ہوں کہ امام سفیان ثوری کو اس روایت میں وہم نہیں ہوا۔
اولا:پہلے آپ نے سفیان کو مدلس کہا ۔ جب میں آمیں بالجہر میں آپ حضرات کی تحقیقی دکھائی تو آپ نے ان فی نفسہ ثقہ کہا
نوٹ: ہمارے نزدیک راجح یہی قرار پایا ہے کہ سفیان ثوری کا عنعنہ عام حالات میں مقبول ہے الا یہ کہ تدلیس کی دلیل مل جائے ۔ اس بناپر سینے پر ہاتھ باندھنے والی روایت کو سفیان ثوری کے عنعنہ کی وجہ سے ضعیف قراردینا درست نہیں ہے۔پھر آپ نے ان کے عن سے روایت کرنے پر اعتراض کیا ، آپ اپنے حضرات کی سینے پر ہاتھ باندھنے والی روایت دیکھ لیں ۔ وہاں اپ حضرات ان کی روایت سے حجت بھی پکڑ رہے ہیں اور سفیان عن سے روایت کررہے ہیں ۔ یہ کیوں ؟
اولا:یہ ميں مثال سے کہ چکا ہوں فی الصلاہ اور الدخول في الصلاہ میں بہت فرق ہے ۔
مثال دینے سے پہلے حرکت کی نوعیت کا تعین کرلیں ، ورنہ آپ کی مثال بے محل ہوگی، زیر بحث حدیث میں حرکت سے مراد ہاتھ اٹھانا ہے ، اب اپنی مثال پر آئے کسی کو کہا جائے کہ’’ گھر میں‘‘ داخل ہوجاؤ اور’’گھر میں‘‘ ہاتھ مت اٹھانا پھر اگر وہ گھر کے ابتدائی حصہ میں ہاتھ اٹھائے تو کیا وہ ممنوعہ فعل کا مرتکب ہوگا کہ نہیں۔اگر کہا جائے گھر میں داخل ہو اور گھر میں بلا حرکت کھڑے رہو تو ایک شخص في الیبت تو بلا حرکت کھڑا ہوگا اور جب داخل ہو گا تو لازمی حرکت کرے گا لیکن اس کو کہا جائے گا دخل في البیت ۔ یہاں بھی فی کا لفظ ہے لیکن کوئی بھی یہ نہ کہے گا کہ اس نے گھرمیں کوئی حرکت کی ۔
یہ سب کو پتہ لیکن وجہ مماثلت میں تو یکسانیت ہونی چاہئے، لیکن آپ کی مثال میں یہ مفقود ہے۔جب کسی چیز سے مثال دی جاتی ہے تو اس کہ یہ مطلب نہیں کہ وہ چیز ہو بہو ویسے ہی ہو گی۔
اولا:قرآن میں منافقین کے اعمال کی ایک مثال آگ جلانے والے سے دی گئی اس کی مذید تفصیل آپ تفاسیر میں دیکھ سکتے ہیں تو کیا منافقین کے لئیے سردیاں اچھی ہوتی ہیں اور معاذ اللہ ہر ایک کو سردیوں میں منافق ہوجانا چاہئیے۔
اولا:ٹرین والی اس مثال سے بتانا مقصود ہے کہ ہر عمل کے ابتدائی بیچ اور آخری حصہ کی کیفیت الگ ہوتی ہے۔
چلئے آپ نے یہ تسلیم کرلیا کہ اس حکم سے استثنا ء بھی ہوسکتا ہے پھر تو سارامعاملہ ختم کیونکہ رکوع والے رفع الیدین کا استثناء بھی موجود ہے ، حدیث پہلے پیش کی جاچکی ہے۔وتر کا رفع الیدین اس سے مستثنی ہے
عَنْ عَبْدِ اللہِ بن مسعود –رضي اللہ عنہ- : (( أَنّہُ كَانَ يَرْفَعُ يَدَيْہِ فِي قُنُوتِ الْوِتْرِ ))(رواه ابن أبي شيبہ (2/307) ، والبخاري في جزء رفع اليدين (91) ، وابن المنذر في الاوسط رقم (2671) ، والبيہقي في سننہ رقم (5062)
وتر کے رفع الیدین کے اثبات میں صحیح حدیث موجود ہے لیکن ترک میں کوئی صحیح حدیث میرے ناقص عمل کس مطابق نہیں تو یہ رفع الیدن کیا جائے گا ۔ اسکنوا في الصلاہ عام حکم ہے لیکن وتر کا استثناء حدیث میں مزکور ہے تو وتر میں رفع الیدین کیا جائے گا۔
اولا:میں بتاچکا ہوں کہ مثال کیوں پیش کی۔ اس کا جواب اوپر آچکا ہے۔ثالثا:
محترم بھائی ! نماز میں رفع الیدین کرنا کیا ٹرین سے چھلانگ لگانے کی طرح ہے ، ابتسامہ مع استغفراللہ ۔
بھائی جی ٹرین سے چھلانگ لگانے کے بعد آدمی ٹرین سے الگ ہوجاتا ہے تو کیا آپ حضرات بھی پہلا رفع الیدین کرکے نماز سے الگ ہوجاتے ہیں ۔
یہ عجیب سمجھ ہے میں نے کہاں کہا ہے یہ دونوں ایک ہی واقعہ ہے میں نے بحث کو مختصر کرنے کے لئے بطور تنزل یہ کہہ رکھا ہے اگر دو واقعہ مان لیں تب بھی دوسرے واقعہ سے پہلے واقعہ کی توضیح ہوجاتی ہے، کیونکہ دونوں واقعات کی اصل نوعیت ایک ہی ہے، میری پوری بات پھر سے پڑھیں، اس کے بعد کچھ لکھیں۔اگر دو الگ واقعات کے بیان میں ایک جیسے الفاظ ہوں تو آپ کے نذیک وہ ایک واقعہ ہے۔ یہ عجیب دلیل سنی میں نے۔
ابھی تک صرف پہلی حدیث سلام سے متعلق یہ احتمال تھا کہ وہ سلام سے متعلق نہیں ہے اب دوسری حدیث سے متعلق بھی یہی کہا جانے لگا کہ اس کے سلام سے متعلق ہونے میں احتمال ہے۔ نصوص سے روگردانی کی یہ بہت بڑی مثال ہے کیونکہ دوسری حدیث میں بوقت سلام کی صراحت موجودہے اورکسی چیز کے صراحت مذکور ہونے کے بعد بھی اس کے عدم پر احتمال پیش کرنا معلوم نہیں کہاں کی سمجھ ہے۔اگر آپ یہ کہتے تو زیادہ بہتر تھا کہ یہ احتمال ہے کہ دونوں حدیثیں سلام کے وقت والے رفع الیدین کی نہیں ہیں
إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَامام بخاری 194 ہجری میں پیدا ہوئے اور امام یحیی بن معین 157 ہجری میں پیدا ہوئے ۔ امام یحیی بن معین کا قول امام بخاری تک کیسے پہنچا ۔ سند بتائیے ۔
امام احمد رحمہ اللہ کا پورا کلام یہ ہے :یہاں امام احمد کا باطل کہنا جرح مفسر نہیں ۔ کیوں انہوں نے باطل کہنے کی وجہ بیان نہیں کی ۔
یہ سوال آپ تب کریں جب کم از کم دو ائمہ ناقدین سے تعدیل مفسرثابت کردیں۔میں آپ سے سوال کرتا ہوں کہ اس روایت کو جرح مفسر کے ساتھ بیان کرنے والے تین محدثین کے اقوال نقل کریں۔
وہم ، شذوذ اورتدلیس کی بات ہو تو راوی کے ثقہ ہونے اوربخاری میں ہونے سے کوئی فائدہ نہیں ہے ، یہ عام اصول ہے معلوم نہیں کیونکہ آپ نظرپوشی کررہے ہیں ۔مذید کیا ان راویوں میں کوئی ضعیف ہے ؟ کیا یہ بخاری کے راوی نہیں ؟
آپ نے میری اس بات کا جوا ب نہیں دیا !!!یہ روایت میں کافی کوشش کے باوجود بھی مصنف ابن ابی شیبہ میں تلاش نہیں کرسکا اگر آپ الفاظ مع حوالہ نقل کردیں توبڑی مہربانی ہوگی۔اور دوسری روایت میں اسود کہتے ہیں کہ انہوں نے حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہ کے ساتھ نماز پڑھی اور انہوں نے صرف نماز کے شروع میں رفع یدین کیااس کا مطلب ہے عبداللہ بن عمر رفع الیدین ترک کرجکے تھے
رفع الیدین جیسی سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر عمل کرنے والوں پر منطبق کرتے ہوئے اس حدیث کا ترجمہ کرنا بھی کسی گستاخی سے کم نہیں ہے احناف سمیت پوری امت مسلمہ کو یہ تسلیم ہے کہ رکوع والے رفع الیدین پر اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی عمل کیا ہے تو کیا جب جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سنت پر عمل کیا ہے تب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل پر بھی یہ الفاظ منطبق ہوں گے؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟ہم مذاق نہیں اڑاتے صرف حدیث کے الفاظ كَأَنَّهَا أَذْنَابُ الْخَيْلِ الشُّمُسِ کا ترجمہ کرتے ہیں
ابن العربي المالكي فرماتے ہیں:ثبوت بیش کریں ۔ اورکسی شخص کے انفرادی عمل کو پوری جماعت پر چپپاں نہ کریں۔برابھلا تو دور کی بات ہے ہم نے تو یہاں تک سنا ہے کہ رفع الیدین کرنے والوں کو قتل تک کی دھمکی دی گئی ہے۔
خواہ مخواہ نہیں میرے بھائی یہ تقلید کی بیماری ہے جس سے مجبور ہوکر قرآن و حدیث میں بھی تاویلات اور مغالطے پیدا کر دئے جاتے ہیں۔ اللہ ہم سب کو کتاب و سنت پر چلنے کی توفیق دے۔ آمینصحیح مسلم کی حدیث کو بعض لوگ خواہ مخواہ رکوع والے مسنون رفع الیدین پر فٹ کرتے ہیں
کبھی آپ کہ رہے ہیں کہ جواز الامرین کی دلیل ہو سکتی ہے اور اب کہ رہے ہیں کہ نہیں ہو گی ۔میں نے بطورتنزل ایک بات کہی تھی کہ زیادہ سے زیادہ یہ استدلال کیا جاسکتا ہے لیکن اس سے میرا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ اس کی صحت ثابت ہوجائے تو جواز الامرین کا ثبوت فراہم ہوجائے گا، کیونکہ صحت کے ثبوت کے باوجود بھی یہ روایت جواز الامر ین کی دلیل نہیں ہوگی
یہ احتمال کن محدثین سے لیئے ہیں حوالہ دیں ۔ جو محدثین اس حدیث کو صحیح بھی کہ رہے ہوں اور عدم رفع الیدین کے قائل بھی نہ ہوں۔ ان کے نام ضرور بتائیں، جیساکہ بہت سے اہل علم نے اسے صحیح فرض کرنے کے باوجود بھی جواز الامرین کی دلیل نہیں مانا ہے کیونکہ دیگر کئی چیزوں کے احتمالات ہیں، مثلا:
١:عبداللہ ابن مسعودرضی اللہ عنہ یہ روایت بیان کرتے وقترفع الیدین کرنا بھول گئے ہوں جیسے اوربھی بہت سی چیزیں آپ رضی اللہ عنہ بھول گئے تھے، کیونکہ تمام صحابہ میں سے کسی ایک نے بھی تر ک کی بات نہیں روایت کی ہے حتی کہ سب سے زیادہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی معیت کا شرف حاصل کرنے والے خلیفہ اول ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے بھی ایسی کوئی روایت نقل نہیں کی ہے بلکہ اس کے برعکس اثبات رفع کی روایت نقل کی ہے، بلکہ بعض اہل علم کے بقول خودا بن مسعود رضی اللہ عنہ کی طرف اثبات رفع کی روایت بھی منسوب ہے امام ابن االملقن فرماتے ہیں:
قَالَ الْبَيْهَقِيّ فِي «خلافياته» ويعارضه بِأَنَّهُ قد رَوَى حَدِيثا مسلسلًا عَن عَلْقَمَة، عَن عبد الله، عَن النَّبِي - صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسلم - ذكر فِيهِ الرّفْع عِنْد الرُّكُوع وَالرَّفْع مِنْهُ [البدر المنير 3/ 492]
لیکن اس روایت تک ہماری رسائی نہیں ہوسکی ، واللہ اعلم۔
٢:عدم رفع سے سے مراد تکبیر تحریمہ کے وقت ایک سے زائد والا رفع ہو جیساکہ عیدین کی نماز میں ہوتاہے۔
٣: عدم رفع کا یہ عمل اس وقت کا ہو جب تطبیق مشروع تھی اور تطبیق کے نسخ کے ساتھ ساتھ یہ کیفیت بھی منسوخ ہوئی اورابن مسعورضی اللہ عنہ ان دونوں سے لاعلم رہے جیساکہ اوربھی بہت سی چیزوں سے آپ واقف نہ ہوسکے۔
اصل میں کئی متشدد یہ سوال کرتے ہیں کہ صحیح حدیث سے صراحت کے ساتھ دکھاؤ کہ امام ابو حنیفہ کی تقلید کرنی چاھئیے اس طرح کے سوالات کے جوابات میں کچھ حنفی یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ حدیث دکھاؤ جس میں صراحت کے ساتھ ذکر ہو کہ رکوع والا رفع الیدین ہمیشہ کرنا ہے ۔ میرے حساب سے دونوں اطراف کے یہ سوالات غلط ہیں۔یہ دلیل ان سے طلب کی باتی ہے جن کا دعوی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے کبھی رفع الیدین ترک نہیں کیا ، اگر آپ کا بھی یہ دعوی ہے تو آپ سے بھی دلیل مانگی جائے گی۔
جن کا دعوی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے کبھی رفع الیدین ترک نہیں کیا آپ ان سے بھی یہ مطالبہ نہیں کرسکتے ، کیونکہ ان کا یہ بھی تو دعوی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تکبیرتحریمہ والا رفع الیدین بھی کبھی ترک نہیں کیا ہے ، پھر آپ اس رفع الیدین سے متعلق یہی مطالبہ کیونکہ نہیں کرتے ؟؟؟ اسی طرح احناف کا بھی یہی دعوی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے کبھی تکبیر تحریمہ والا رفع الیدین ترک نہیں کیا ، پھر کیا احناف سے یہ مطالبہ درست ہوگا کہ وہ تکبیر تحریمہ والے رفع الیدین سے متعلق تاحیاۃ کی صراحت دکھلائیں ؟؟؟
واضح رہے کہ خود کو مسلمان کہنے والا ایک فرقہ تکبیر تحریمہ والے رفع الیدین کو بھی منسوخ مانتا ہے اور اس مسئلہ پر ان کی طرف سے مستقل کتابیں لکھی جاچکی ہیں جو نیٹ کے متعدد صفحات پر موجود ہیں، بلکہ یہی بات بعض تابعین کی طرف بھی منسوب ہے اولطف تو یہ ہے کہ خود عبداللہ بن مسعور رضی اللہ عنہ سے بھی تکبرتحریمہ والے رفع الیدین کے ترک کی ایک روایت منقول ہے ، اگر اس موقف کے حاملین آپ سے مطالبہ کریں کہ تکبیر تحریمہ والے رفع الیدین کے دوام کی صراحت دکھلائیں تو کیا یہ مطالبہ درست ہے؟؟؟
لطف تو یہ ہے کہ تکبیر تحریمہ والے رفع الیدین کے تارکین بھی اس کے ترک پر وہی حدیث مسلم پیش کرتے ہیں جسے آپ پیش کررہے ہیں۔
تکبیر تحریمہ والے رفع الیدین پر اختلاف سے متعلق ہم ایک الگ مضمون جلد ہی پیش کریں گے۔
نیزاسی طرح مالکیہ قیام میں ارسال یدین کے قائل ہیں اب اگر وہ وضع یدین کی احادیث سے متعلق یہ مطالبہ کریں کہ ان میں تاحیات کی صراحت دکھلاؤ تو کیا کہ مطالبہ درست ہے؟؟؟
محترم جو شخص اعمال صلاۃ میں سے کسی عمل کی بابت تاحیات کا قائل ہے اس کے لئے بس یہی کافی ہے کی کسی صحیح حدیث سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل پیش کردے ، تاحیاۃ کی صراحت پیش کرنا اس کے ذمہ نہیں ہے ، بلکہ جو ترک یا نسخ کا مدعی ہے اسی پر لازم ہے کہ ترک یا نسخ کی دلیل پیش کرے اور اگر نہ پیش کرسکے تو اعمال صلاۃ میں سے یہ عمل اصلا دائمی ہی تسلیم کیا جائے گا۔
مثال کے طور پر قیام نماز ، میں ارسال یدین کا مسئلہ ہے میرے ناقص علم کی حدتک کسی بھی حدیث میں اس عمل سے متعلق تاحیاۃ کی صراحت نہیں ہے ، تو کیا آپ اسے دائمی تسلیم نہیں کریں گے؟؟؟
اگر کوئی محدث کسی حدیث کو بیان کرکے اس صحیح یا ضعیف کہے اور کوئی دلیل بیان نہ کرے تو آپ کے نذدیک اس کا حوالہ بطور دلیل کے نہیں دیا جاسکتا ۔ کیا میں صحیح سمجھا ؟محترم ہم یہاں ایک مسئلہ پر تحقیقی گفتگوکررہے ہیں ، کیا صحیح ہے اورکیا غلط ، اس لئے دلائل پر بات کریں تصحیح وتضعیف کسی دلیل کا نام نہیں ہے۔
میں نے جب بھی کوئی ایسا قول پیش کیا جس میں امام نے کسی دوسرے محدث کا قول ذکر کیا تو آپ کے فورم پر حضرات نے مجھ سے اس امام تک اس محدث کے قول کی سند پوچھی اور یہ بات درست بھی ہے ۔اور آپ ایک نامعلوم محدث کے ذکر شدہ قول سے حجت پکڑ رہے ہیں ۔ حیرت ہےامام ابوحاتم رحمہ اللہ متاخرین میں سے کوئی عام امام نہیں ہیں ، بلکہ متقدمین میں سے امام ناقد اورامام حجت ہیں ، فن رجال میں امام حجت کا مطلب ہے جسے رواۃ پر جرح کی اٹھارٹی حاصل ہو ، اس پایہ کے ائمہ فن اگر برضاء رغب کسی کا قول نقل کریں تو اس کا مطلب ہوتا ہے کہ یہ امام اس قول سے متفق ہیں اب پیش رو قائل کوئی بھی ہو اس سے بحث نہیں کیونکہ ایک دوسرے امام حجت نے اسے برضاء رغبت نقل کیا ہے لہٰذا اس امام کی طرف سے بھی یہی جرح تسلیم کی جائے گی، اورمذکورہ عبارت پڑھ کرعام آدمی بھی سمجھ سکتا ہے کہ امام ابوحاتم نے مذکورہ بات سے متفق ہیں ۔
آپ کوان حنفی علماء کی تحقیق نظر کیوں نہ آئی جنہوں نے اسی حدیث پر سفیان انثوری کے "وہم " کا دفاع کیا ۔ میں نے بھی اہل حدیث حضرات کے قول بطور دلیل نقل کیے تھے تو آپ نے یکسر رد کرتے ہوئے کہا تھا ایسے دلائل ہم بھی دیسکتے ہیں تو اب جنفی علماء سے دلائل کیوں ؟امام زیلعی فرماتے ہیں :
قال ابن أبي حاتم في " كتاب العلل ( ٨ ) " : سألت أبي عن حديث رواه سفيان الثوري عن عاصم بن كليب عن عبد الرحمن بن الأسود عن علقمة عن عبد الله أن النبي صلى الله عليه و سلم قام فكبر فرفع يديه ثم لم يعد فقال أبي : هذا خطأ يقال : وهم فيه الثوري فقد رواه جماعة عن عاصم وقالوا كلهم : إن النبي صلى الله عليه و سلم افتتح فرفع يديه ثم ركع فطبق وجعلهما بين ركبتيه ولم يقل أحمد ما روى الثوري انتهى . فالبخاري . وأبو حاتم جعلا الوهم فيه من سفيان [نصب الراية 1/ 293]
اب دیکھیں بعینہ اسی اقتباس کو نقل کرکے حنفیت کے ایک بہت بڑے امام یہ اقرار کررہے ہیں کہ امام ابوحاتم نے سفیان ثوری کو زیرنظر حدیث میں واہم قرار دیا ہے اور آپ کو اس اقتباس میں قائل کا نام ہی نظر ہی نہیں آتا، اب کس کی فہم عبارت کو درست سمجھے آپ کی یا آپ کے امام ذیلی امام زیلعی رحمہ اللہ کی ؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟
اس میں سفیان الثوری کے وہم کے متعلق کوئی صریح الفاظ نہیں ۔مذکورہ تفصیل سے یہ بات واضح ہوگئی کہ امام ابوحاتم نے بھی زیر نظر حدیث کی روایت میں سفیان ثوری کو واہم قرار دیاہے، اگر اب بھی تسلی نہ ہو تو ’’یقال‘‘ کے قائلین سے بعض کے نام بھی سن لیں :
امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ
امام ابن آدم رحمہ اللہ
امام بخای رحمہ اللہ۔
وَقَالَ أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ: عَنْ يَحْيَى بْنِ آدَمَ قَالَ: نَظَرْتُ فِي كِتَابِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ إِدْرِيسَ عَنْ عَاصِمِ بْنِ كُلَيْبٍ لَيْسَ فِيهِ: ثُمَّ لَمْ يَعُدْ . فَهَذَا أَصَحُّ لِأَنَّ الْكِتَابَ أَحْفَظُ عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ لِأَنَّ الرَّجُلَ رُبَّمَا حَدَّثَ بِشَيْءٍ ثُمَّ يَرْجِعُ إِلَى الْكِتَابِ فَيَكُونُ كَمَا فِي الْكِتَابِ .[رفع اليدين في الصلاة ص: 33]
مذکورہ عبارت کا مفاد یہی ہے کہ عاصم بن کلیب سے دیگر رواۃ نے سفیان ثوری کے برعکس روایت کیا ہے ، بالفاظ دیگر سفیان ثوری کو اپنی روایت میں وہم ہوا ہے۔
وہاں پر بطور اعتراض اور روایت کی رد میں کہا تھا ۔ اگر آپ کے ہاں مدلس کی روایت مردود نہیں تو پھر روایت کے رد مین اس وقت مدلس کیوں کہا ۔ سفیان کو مدلس کہنے کی اس وقت کیا ضرورت تھی ۔تعجب ہے آپ کیا کہہ رہے ہیں ، محترم بھائی کیا مدلس اور ثقہ میں تضاد ہے ؟ محترم کسی کو مدلس کہہ دینے سے اس کی ثقاہت کا انکار لازم نہیں آتا۔
لفظ "في " میں ہماری بات چیت کجھ بحث برائے بحث میں داخل ہو گئی ۔ اس کا ذمہ دار کوئی بھی ہو اس سے قطع نظر بات کو آکے بڑہاتے ہیں ۔ اسکنوا في الصلاہ سے تمام رفع الیدین مراد لے لیتے ہیں۔ تکبیرہ تحریمہ والا رفع الیدین اس لئيے استثناء ہے کے اس کے ترک پر کوئی صحیح حدیث وارد نہیں ۔ تو کیا رکوع والس رفع الیدین کے استثناء پر بھی کوئی صحیح حدیث ہے۔پ نے لفظ ٍ ’’فی الصلاۃ‘‘ سے استدلال کیا تھا ہم نے ایسی احادیث پیش کردیں جن میں تکبیر تحریمہ کے لئے بھی ’’فی الصلاۃ‘‘ کے الفاظ ہیں ، اب آپ فرق کی بات کررہے ہیں کیا فرق ثابت ہوجانے سے وہ یہ چیز نماز سے خارج ہوجائے گی۔
" ابوبکر بن عیاش پہلے اسی روایت کو دوسرے انداز سے روایت کرتے تھے مگر اس سیاق میں ان سے وہم ہوا ہے اسی کو امام احمد رحمہ اللہ نے باطل کہا ہے۔" یہ کس کا قول ہے ؟ حوالہ دیںامام احمد رحمہ اللہ کا پورا کلام یہ ہے :
رواه أبو بكر بن عياش، عن حصين، عن مجاهد، عن ابن عمر، وهو باطل.
یعنی امام احمد رحمہ اللہ نے باطل کہنے سے پہلے اس کی متغیر سند پیش کی ہے یعنی سند کے اس سیاق کوباطل کہا ہے کیونکہ ابوبکر بن عیاش پہلے اسی روایت کو دوسرے انداز سے روایت کرتے تھے مگر اس سیاق میں ان سے وہم ہوا ہے اسی کو امام احمد رحمہ اللہ نے باطل کہا ہے۔
انشاء اللہ کل تک دوں گآاور دوسری روایت میں اسود کہتے ہیں کہ انہوں نے حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہ کے ساتھ نماز پڑھی اور انہوں نے صرف نماز کے شروع میں رفع یدین کیااس کا مطلب ہے عبداللہ بن عمر رفع الیدین ترک کرجکے تھے
یہ روایت میں کافی کوشش کے باوجود بھی مصنف ابن ابی شیبہ میں تلاش نہیں کرسکا اگر آپ الفاظ مع حوالہ نقل کردیں توبڑی مہربانی ہوگی۔
آپ نے میری اس بات کا جوا ب نہیں دیا !!!
میں نے کہا بھی تھا کہ کچھ افراد کا عمل پورے مسلک پر نہ تھوپیں ۔ پھر بھی آپ نے ثبوت میں چند افراد کا قول پیش کیابرابھلا تو دور کی بات ہے ہم نے تو یہاں تک سنا ہے کہ رفع الیدین کرنے والوں کو قتل تک کی دھمکی دی گئی ہے۔
ثبوت بیش کریں ۔ اورکسی شخص کے انفرادی عمل کو پوری جماعت پر چپپاں نہ کریں۔
میں پہلے وضاحت کرچکا ہوں کہ میں نے بطور تنزل یہ بات کہی تھی۔کبھی آپ کہ رہے ہیں کہ جواز الامرین کی دلیل ہو سکتی ہے اور اب کہ رہے ہیں کہ نہیں ہو گی ۔
ہم نے اہل علم کی طرف یہ بات منسوب کی تھی اور یقینا بعض اہل علم نے کہا ہے کہ اگر اس حدیث کو صحیح بھی مان لیں جب بھی یہ روایت ترک رفع کی دلیل نہیں بن سکتی مثلا علامہ شوکانی فرماتے ہیں:یہ احتمال کن محدثین سے لیئے ہیں حوالہ دیں ۔ جو محدثین اس حدیث کو صحیح بھی کہ رہے ہوں اور عدم رفع الیدین کے قائل بھی نہ ہوں۔ ان کے نام ضرور بتائیں
جی ہاں ۔اگر کوئی محدث کسی حدیث کو بیان کرکے اس صحیح یا ضعیف کہے اور کوئی دلیل بیان نہ کرے تو آپ کے نذدیک اس کا حوالہ بطور دلیل کے نہیں دیا جاسکتا ۔ کیا میں صحیح سمجھا ؟
اپنی وہی بات پھر مت دہرائے میں نے جو جواب دیا ہے اس کے بارے میں لب کشائی کریں ، جواب پھر سے نقل کرہا ہوں :میں نے جب بھی کوئی ایسا قول پیش کیا جس میں امام نے کسی دوسرے محدث کا قول ذکر کیا تو آپ کے فورم پر حضرات نے مجھ سے اس امام تک اس محدث کے قول کی سند پوچھی اور یہ بات درست بھی ہے ۔اور آپ ایک نامعلوم محدث کے ذکر شدہ قول سے حجت پکڑ رہے ہیں ۔ حیرت ہے
۔
ائمہ ناقدین کے مقابلہ میں حنفی علماء کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔آپ کوان حنفی علماء کی تحقیق نظر کیوں نہ آئی جنہوں نے اسی حدیث پر سفیان انثوری کے "وہم " کا دفاع کیا ۔
حنفی علماء کا کوئی قول میں دلیل میں نہیں پیش کررہا ہوں بلکہ ایک عربی عبارت ہے جسے سمجھنے میں آپ غلطی کررہے ہیں میں نے فہم عبارت میں امام زیلعی کا حوالہ پیش کیا تھا، عبارت سے جو مفہوم میں سمجھ رہا ہوں وہی مفہوم امام زیلعی نے بھی سمجھا ہے ، یہاں امام زیلعی کا کوئی قول نہیں پیش کیا گیا بلکہ قول تو امام ناقد کا ہے اور یہ قول عربی زبان میں ہے اور اس کا مفہوم سمجھانے کے لئے میں نے امام زیلعی کی عربی دانی کا حوالہ پیش کیا ہے۔میں نے بھی اہل حدیث حضرات کے قول بطور دلیل نقل کیے تھے تو آپ نے یکسر رد کرتے ہوئے کہا تھا ایسے دلائل ہم بھی دیسکتے ہیں تو اب جنفی علماء سے دلائل کیوں ؟
آپ ذرا اپنی یہ بات پڑھ لیں :اس میں سفیان الثوری کے وہم کے متعلق کوئی صریح الفاظ نہیں ۔مذکورہ تفصیل سے یہ بات واضح ہوگئی کہ امام ابوحاتم نے بھی زیر نظر حدیث کی روایت میں سفیان ثوری کو واہم قرار دیاہے، اگر اب بھی تسلی نہ ہو تو ’’یقال‘‘ کے قائلین سے بعض کے نام بھی سن لیں :
امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ
امام ابن آدم رحمہ اللہ
امام بخای رحمہ اللہ۔
وَقَالَ أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ: عَنْ يَحْيَى بْنِ آدَمَ قَالَ: نَظَرْتُ فِي كِتَابِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ إِدْرِيسَ عَنْ عَاصِمِ بْنِ كُلَيْبٍ لَيْسَ فِيهِ: ثُمَّ لَمْ يَعُدْ . فَهَذَا أَصَحُّ لِأَنَّ الْكِتَابَ أَحْفَظُ عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ لِأَنَّ الرَّجُلَ رُبَّمَا حَدَّثَ بِشَيْءٍ ثُمَّ يَرْجِعُ إِلَى الْكِتَابِ فَيَكُونُ كَمَا فِي الْكِتَابِ .[رفع اليدين في الصلاة ص: 33]
مذکورہ عبارت کا مفاد یہی ہے کہ عاصم بن کلیب سے دیگر رواۃ نے سفیان ثوری کے برعکس روایت کیا ہے ، بالفاظ دیگر سفیان ثوری کو اپنی روایت میں وہم ہوا ہے۔
یہی غلطی آپ یہاں کررہے ہیں اور لفظ ’’وہم ‘‘ کی صراحت تلاش کررہے ہیں ، جناب مذکورہ عبارت میں آپ کی مستدل روایت پر جرح ہے کی نہیں ؟ اگر نہیں تو دنیا میں پہلے شخص ہیں جو اس عبارت کا یہ مفہوم لے رہے ورنہ آپ کسی ایک عالم کا حوالہ دیں جس نے یہ کہا ہو کی اس عبارت میں آپ کی مستدل روایت پر جرح نہیں ہے۔اصل میں کئی متشدد یہ سوال کرتے ہیں کہ صحیح حدیث سے صراحت کے ساتھ دکھاؤ کہ امام ابو حنیفہ کی تقلید کرنی چاھئیے اس طرح کے سوالات کے جوابات میں کچھ حنفی یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ حدیث دکھاؤ جس میں صراحت کے ساتھ ذکر ہو کہ رکوع والا رفع الیدین ہمیشہ کرنا ہے ۔ میرے حساب سے دونوں اطراف کے یہ سوالات غلط ہیں۔
کیا ان دونوں باتوں میں تضاد ہے؟؟؟پہلے آپ نے سفیان کو مدلس کہا ۔ جب میں آمیں بالجہر میں آپ حضرات کی تحقیقی دکھائی تو آپ نے ان فی نفسہ ثقہ کہا
جی ہاں جس طرح تکبیر تحریمہ والے رفع الیدین کا اثبات موجود ہے اسی طرح رکوع والے رفع الیدین کا اثبات بھی موجود ہے ملاحظہ ہو:لفظ "في " میں ہماری بات چیت کجھ بحث برائے بحث میں داخل ہو گئی ۔ اس کا ذمہ دار کوئی بھی ہو اس سے قطع نظر بات کو آکے بڑہاتے ہیں ۔ اسکنوا في الصلاہ سے تمام رفع الیدین مراد لے لیتے ہیں۔ تکبیرہ تحریمہ والا رفع الیدین اس لئيے استثناء ہے کے اس کے ترک پر کوئی صحیح حدیث وارد نہیں ۔ تو کیا رکوع والس رفع الیدین کے استثناء پر بھی کوئی صحیح حدیث ہے۔
اچھا یہ اعتراف کرنے کے بعد کیا بات ختم ہوگئی ؟؟؟میں پہلا پوسث ورڈ میں ٹائپ کرتا ہوں پھر فورم پر کاپی کرتا ہوں ۔ امام بخاری اور یحیی بن معین والا سوال کچھ غلط انفارمیشن کی وجہ سے ٹائپ کیا لیکن ڈیلیٹ کرنا بھول گیا ۔ پھر بھی آپ نے مفصل و مدلل جواب دیا ۔ جزاک اللہ خیرا ۔
یہ قول امام بیہقی رحمہ اللہ کا ہے ملاحظہ ہو:۔امام احمد رحمہ اللہ کا پورا کلام یہ ہے :
رواه أبو بكر بن عياش، عن حصين، عن مجاهد، عن ابن عمر، وهو باطل.
یعنی امام احمد رحمہ اللہ نے باطل کہنے سے پہلے اس کی متغیر سند پیش کی ہے یعنی سند کے اس سیاق کوباطل کہا ہے کیونکہ ابوبکر بن عیاش پہلے اسی روایت کو دوسرے انداز سے روایت کرتے تھے مگر اس سیاق میں ان سے وہم ہوا ہے اسی کو امام احمد رحمہ اللہ نے باطل کہا ہے
" ابوبکر بن عیاش پہلے اسی روایت کو دوسرے انداز سے روایت کرتے تھے مگر اس سیاق میں ان سے وہم ہوا ہے اسی کو امام احمد رحمہ اللہ نے باطل کہا ہے۔" یہ کس کا قول ہے ؟ حوالہ دیں
آپ نے سب سے پہلے کیا کہا تھا اسے ملاحظہ فرمالیں:میں نے کہا بھی تھا کہ کچھ افراد کا عمل پورے مسلک پر نہ تھوپیں ۔ پھر بھی آپ نے ثبوت میں چند افراد کا قول پیش کیا
آپ نے کسی کی بات کی تھی اور ہم نے کسی کاحوالہ پیش کردیا ہے۔آپ نے کبھی نہیں سنا ہو گا کسی حنفی نے رفع یدین کرنے والوں کو اس کے رفع یدین کرنے پر برا بھلا کہا ہو۔
یعنی اگر یہ حدیث اگر صحیح ثابت ہوجائےتو بھی اپ اس میں مختلف احتمالات تلاش کریں گے ؟ یہ بات اگر کوئی حنفی کہتا تو کہا جاتا کہ یہ تقلید کی وجہ سے ہے ۔میں پہلے وضاحت کرچکا ہوں کہ میں نے بطور تنزل یہ بات کہی تھی۔
حدیث ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے ذکر کرنے کے بعد امام ترمذی کا قول ديکھیںامام ابوحاتم رحمہ اللہ متاخرین میں سے کوئی عام امام نہیں ہیں ، بلکہ متقدمین میں سے امام ناقد اورامام حجت ہیں ، فن رجال میں امام حجت کا مطلب ہے جسے رواۃ پر جرح کی اٹھارٹی حاصل ہو ، اس پایہ کے ائمہ فن اگر برضاء رغب کسی کا قول نقل کریں تو اس کا مطلب ہوتا ہے کہ یہ امام اس قول سے متفق ہیں اب پیش رو قائل کوئی بھی ہو اس سے بحث نہیں کیونکہ ایک دوسرے امام حجت نے اسے برضاء رغبت نقل کیا ہے لہٰذا اس امام کی طرف سے بھی یہی جرح تسلیم کی جائے گی، اورمذکورہ عبارت پڑھ کرعام آدمی بھی سمجھ سکتا ہے کہ امام ابوحاتم نے مذکورہ بات سے متفق ہیں ۔
اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ سفیان الثوری کو وہم ہوا ہے اور امام ابو حاتم کہ رہے ہیں تو اس کی تائید میں جو انہوں نے دلیل دی کہمیرا اقتباس ایک بار پھر ملاحظہ ہو:
وسألتُ أبِي عَن حدِيثٍ ؛ رواهُ الثّورِيُّ ، عن عاصِمِ بنِ كُليبٍ ، عن عَبدِ الرّحمنِ بنِ الأسودِ ، عن علقمة ، عن عَبدِ اللهِ أنَّ النّبِيّ صلى الله عليه وسلم قام فكبّر فرفع يديهِ ، ثُمّ لم يعُد.قال أبِي : هذا خطأٌ ، يُقالُ : ’’وهِم فِيهِ الثّورِيُّ‘‘.وروى هذا الحدِيث عن عاصِمٍ جماعةٌ ، فقالُوا كُلُّهُم : أنَّ النّبِيّ صلى الله عليه وسلم افتتح فرفع يديهِ ، ثُمّ ركع فطبّق وجعلها بين رُكبتيهِ ، ولم يقُل أحدٌ ما رواهُ الثّورِيُّ. علل الحديث [1 /96 رقم 258]
خط کشید الفاظ اور ملون بلون الاحمر الفاظ پر دھیان دیجئے اس کے بعد صدق دل سے بتائیے کہ یہ الفاظ کن کے ہیں ، محترم یقال کے ذریعہ جو بات نقل کی گئی ہے وہ بس اتنی ہے جتنی میں نے ہرے رنگ سے ملون اور واوین کے درمیان کیا ہے۔ ؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟
يحی بن معین اور امام احمد بن حنبل کا یہاں اعتراض اصل میں راوی ابو بکر بن عیاش کی وجہ سے ہے ۔ جیسا کہ امام بہیقی کے قول سے بھی پتا چلتا ہےمحتر م جب یہ ثابت ہوگیا کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے امام یحیی بن معین سے سن رکھاہے تو اب امام ابن معین کا وہ قول بھی صحیح سند سے ثابت ہوا جسے میں نے پہلے پیش کیا تھا ، ملاحظہ ہو:
امام بخاری فرماتے ہیں :
قَالَ يَحْيَى بْنُ مَعِينٍ حَدِيثُ أَبِي بَكْرٍ عَنْ حُصَيْنٍ إِنَّمَا هُوَ تَوَهُّمٌ مِنْهُ لَا أَصْلَ لَهُ. [رفع اليدين في الصلاة ص: 20]
اب یہاں پر امام ناقد امام یحیی بن معین رحمہ اللہ پوری صراحت کے ساتھ جرح مفسر کرتے ہوئے مذکورہ روایت میں ابوبکر بن عیاش کے وہم کی صراحت کررہے ہیں ، اس جرح مفسر کا جواب کون دے گا؟؟؟؟؟؟؟؟
امام احمد رحمہ اللہ کا پورا کلام یہ ہے :
رواه أبو بكر بن عياش، عن حصين، عن مجاهد، عن ابن عمر، وهو باطل.
یعنی امام احمد رحمہ اللہ نے باطل کہنے سے پہلے اس کی متغیر سند پیش کی ہے یعنی سند کے اس سیاق کوباطل کہا ہے کیونکہ ابوبکر بن عیاش پہلے اسی روایت کو دوسرے انداز سے روایت کرتے تھے مگر اس سیاق میں ان سے وہم ہوا ہے اسی کو امام احمد رحمہ اللہ نے باطل کہا ہے
۔
" ابوبکر بن عیاش پہلے اسی روایت کو دوسرے انداز سے روایت کرتے تھے مگر اس سیاق میں ان سے وہم ہوا ہے اسی کو امام احمد رحمہ اللہ نے باطل کہا ہے۔" یہ کس کا قول ہے ؟ حوالہ دیں
یہ قول امام بیہقی رحمہ اللہ کا ہے ملاحظہ ہو:
قال الشيخ أحمد ، وهذا الحديث في القديم كان يرويه أبو بكر بن عياش ، عن حصين ، عن إبراهيم ، عن ابن مسعود مرسلا . موقوفا ، ثم اختلط عليه حين ساء حفظه ، فروى ما قد خولف فيه ، فكيف يجوز دعوى النسخ في حديث ابن عمر بمثل هذا الحديث الضعيف ؟ [معرفة السنن والآثار للبيهقي 2/ 498، ]