• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

"تزکیہ نفس" کیلئے اھلحدیث کے کرنے کام ؟

Hasan

مبتدی
شمولیت
جون 02، 2012
پیغامات
103
ری ایکشن اسکور
428
پوائنٹ
0
ہاں متصوفین کو اہل حدیث سے یہ شکایت ضرور ہو سکتی ہے کہ ان کے معاصر اہل علم نے تصوف کے متبادل کے طور پر کتاب و سنت کا تصور تزکیہ نفس اور اصلاح باطن ایک جامع پروگرام کی صورت میں متعارف نہیں کروایا جس وجہ سے متصوفین کو یہ غلط فہمی پیدا ہوئی کہ شاید اہلحدیثیت خشکی کا دوسرا نام ہے۔ میرے خیال میں یہ وقت کی ایک اہم ضرورت ہے کہ کتاب وسنت کے تصور تزکیہ نفس اور اصلاح احوال کے پروگرام کو ایک مکمل نظریہ کی صورت میں پیش کیا جائے تا کہ اہل حدیث کے بارے یہ بدگمانی ختم ہو سکے کہ وہ اپنی طبیعتوں اور مزاج میں زہد و تقوی سے دور ہوتے ہیں۔
تجاویز؟

مخالفین اھلحدیث سے گزارش ہے اس دھاگے میں تنقیدی اور منفی مشارکت نہ کریں- قریشی صاحب سے بھی یہی التماس ہے-
 

راجا

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 19، 2011
پیغامات
733
ری ایکشن اسکور
2,574
پوائنٹ
211
حسن بھائی،
آپ ہی کچھ تجاویز عنایت کریں ابتدائی طور پر تو پھر ان شاء اللہ دیگر علمائے کرام سے بھی کچھ تجاویز موصول ہونا شروع ہو جائیں گی۔ ان شاء اللہ۔
 

Hasan

مبتدی
شمولیت
جون 02، 2012
پیغامات
103
ری ایکشن اسکور
428
پوائنٹ
0
حسن بھائی،
آپ ہی کچھ تجاویز عنایت کریں ابتدائی طور پر تو پھر ان شاء اللہ دیگر علمائے کرام سے بھی کچھ تجاویز موصول ہونا شروع ہو جائیں گی۔ ان شاء اللہ۔
سب سے پہلے یہ وضاحت کہ 'دیگر علمائے کرام ' سے شبہ ہوسکتا ہے کہ ناچیز بھی کوئی عالم ہے حالانکہ ایسا قطعا نہیں ہے-

اردو زبان لکھ پڑھ لینے اور قرآن ناظرہ جاننے والے طبقے کیلئے کچھ تجاویز میرے ذہن میں ہیں-

١- ایسے لوگ مقررہ وقت پر آپسی محفل رکھیں اور اس میں مختصر بیان یا درس کے بعد فرائض جیسا کہ باجماعت پنج وقتہ نماز اور جھوٹ وغیرہ کے متعلق ایک دوسرے سے پوچھیں- مرتکب معاصی پر مناسب سزا یا کوئی جرمانہ لگایا جائے- بیان بھی اکثر اخلاق حسنہ و اخلاق رذیلہ پر ہو- اگر ہوسکےتو عالم کو بلاکر بیان کروائیں ورنہ کوئی ریکارڈڈ تقریر ہی ہو-

٢-مساجد ومدارس میں اس طبقے کیلئے مسنون اذکار اور آخری سپارے کے حفظ بمع ترجمہ و تشریح کا کورس کرایا جائے-

٣- بچوں اور نوجوان طبقے جو آج کل موبائیل اور نیٹ کے مارے ہوئےہیں ان پر خاص توجہ دی جائے-

میرے خیال میں پھلے کتب کے لحاظ سے بھی اھلحدیث کی جانب سے کچھ کوتاہی ضرور تھی- مگر امین اللہ البشاوری کی الفوائد(اردو) جلد اول الفوائد(اردو) جلد دوم اور شیخ ابو حمزہ عبدالخالق صدیقی کی بعض کتب نے اس کا کسی حد تک تدارک کیا ہے- اسی طرح شیخ فضل الھی کی کتابیں بھی ہیں-

گزارش: کتاب و سنت ڈاٹ کام پر سلوک یا تزکیہ نفس کے نام سے کتب کی ایک الگ فیلڈ بھی ہونی چاہیئے-
 
شمولیت
نومبر 10، 2012
پیغامات
112
ری ایکشن اسکور
237
پوائنٹ
49
اصل پیغام ارسال کردہ از: ابوالحسن علوی پیغام دیکھیے
ہاں متصوفین کو اہل حدیث سے یہ شکایت ضرور ہو سکتی ہے کہ ان کے معاصر اہل علم نے تصوف کے متبادل کے طور پر کتاب و سنت کا تصور تزکیہ نفس اور اصلاح باطن ایک جامع پروگرام کی صورت میں متعارف نہیں کروایا جس وجہ سے متصوفین کو یہ غلط فہمی پیدا ہوئی کہ شاید اہلحدیثیت خشکی کا دوسرا نام ہے۔ میرے خیال میں یہ وقت کی ایک اہم ضرورت ہے کہ کتاب وسنت کے تصور تزکیہ نفس اور اصلاح احوال کے پروگرام کو ایک مکمل نظریہ کی صورت میں پیش کیا جائے تا کہ اہل حدیث کے بارے یہ بدگمانی ختم ہو سکے کہ وہ اپنی طبیعتوں اور مزاج میں زہد و تقوی سے دور ہوتے ہیں۔
احسن بھائی آپ نے دھاگہ مجھے ٹیگ کیا ہے تو مجھےکچھ نہ کچھ لکھنا پڑھے گا، آپ جان چکے ہوں گے یعنی میں پہلے قریشی نام سے جو کہ اصل تھا انٹر تھا،پھر میں نے فورم چھوڑ دیا تھا مگر ایک حوالے کی ضرورت کے لیے فرضی نام سے انٹر ہوا،یہ تو خیر ایک ضمنی بات جو تھی جو لکھنی پڑ گئی

اصل بات یہ ہے کہ یہ کہنا کہ علماء اہلحدیث تزکیہ نفس یا تصوف سلوک سے ان واقف تھے ،یہ مسلک ایلحدیث کو نہ جاننے کی دلیل ہے ،اکابرین علماء اہلحدیث کے ہاں بیعت سلوک اور تربیت سب کچھ موجود تھی اس پر میں جلد ہی کوئی مراسلہ بیھج دوں گا ،اکابرین اہلحدیث کے ہاں تربیت تزکیہ نفس یا سلوک بعنیہی وہی تھا جو حضرات نقشبندیہ یا شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ؒ قول جمیل یا دیگر کتب میں بیان کیا ہے،میں سر دست امام العصر مولانا ابراھیم میرؒ سیالکوٹی کی تصوف و سیرت نبویﷺ پر لکھی ہوئی کتاب کہ اقتباس پیش کرتا ہوں پڑھیے اور جوم اٹھیے۔
ضرورت مرشد
تمہید نمبر۳:۔ جس طرح جسمانی جنم کے بعد جسمانی پرورش کی نگہداشت اور کفالت مہربان ماں باپ کرتے ہیں ۔ اسی طرح روحانی جنم یعنی بیعت کے بعد روحانی پرورش و اصلاح کی نگہداشت مرشد مشفق کرتا ہے ۔ پس جس طرح بچہ جسمانی پرورش کے زمانہ میں ماں باپ پر اعتماد کرکے جوانی کی عمر کو پہنچتا ہے ۔ اسی طرح مرید کو بھی چاہیے کہ وہ روحانی تربیت کے زمانہ میں یعنی جبکہ وہ مرشد کی زیر نگرانی روحانی عملیات مسنونہ کی مشق کرتاہو ۔اپنے مرشد سے خلوص و عقیدت رکھے اور اس کی تعلیم کردہ ہدایتوں پر عمل کرتا رہے تاکہ اپنی قسمت و کو شش کی مقدر منزلت کو حاصل کر سکے۔
اب یہ بھی جانیے کہ مرشد سے کیا ملتا ہے اور کیسے ملتا ہے مولانا میرؒ فرماتے ہیں
"اخلاقی صفائی :۔ اس ظاہر ی اور حسی طہارت وصفائی کے بعد اپنے دل کو حسد و بعض اورکبر و عجب اور نخوت و خود نمائی اور ریاکاری اور مخلوق کی لجاجت اور مطلب پرستی اور خود غرضی اور لالچ کی تیرگی سے صاف رکھے کیونکہ یہ سب باطنی عیوب ہیں اور ان سے دل کا آئینہ مکدروسیاہ ہو جاتا ہے اور آئینہ کی صفائی نہایت ضروری ہے تاکہ اس پر سراجا منیر ا کا عکس جلوہ ریز ہوسکے اور اس آئینہ نورانی جمال محمدی ﷺ کی سعادت حاصل کر سکے۔
تمثیل
اس امر کو آپ بجلی کی تمثیل سے بآسانی سمجھ سکیں گے ۔ بجلی کی روشنی کے لئے چند چیزوں کی ضرورت ہے ۔
اول : خزانہ روشنی یعنی پاورہاؤس مع انجن واسباب ضروریہ ۔
دوم : اس خزانہ روشنی سے گھر کے بلب تک وائرنگ کے ذریعے کنکشن ۔
سوم : بلب کے اندر کی تار جو بجلی سے متکیف ہوتی ہے ۔
چہارم : اس تار کے گرد بلب کا زجاجی خول
اگر ان میں سے کسی شے کی بھی کمی ہو ۔ تو روشنی کا حصول ناممکن ، یعنی اگر خزانہ روشنی کا انجن کام نہ کرتا ہو ۔ یا وائرنگ درست نہ ہو ۔ یا بلب کی تار فیوز شدہ ہو ۔ یا اس تار کے باہر کا زجاجی خول نہ ہو ۔ تو روشنی نہیں مل سکتی ۔
توضیح تمثیل

ا
سی طرح ذات بابرکات آں سرورکائنات ﷺ تو سراجامنیرا ہونے کی وجہ سے خزانہ روشنی ہیں اور وائرنگ مرشدو شیخ یا پیراستاد ہے ۔ جس کی ایک جانب تو ذات گرامی صفات آنحضرت ﷺ ہے اور دوسری طرف بلب ہے ۔ جو اپنا ۔یا فیض کے طالب مرید کا دل ہے ۔

اوصاف شیخ یا مرید
پس اس مرشد کا متبع سنت ۔ صحیح العقیدہ اور صالح العمل ہونا ضروریات سے ہے اور یہ بھی کہ کفر وشرک الحاد وبدعت ، فسق وفجور اور اعمال سئیہ کی آلودگیوں سے پاک ہوا اور یہ بھی کہ وہ فرائض و سنن اور مستجات کا ادا کرنے والا محرمات اور مکروہات اور مشتبہات سے پرہیز کرنے والا ہو ۔ پس ایسا پاکباز متبع سنت شیخ آنحضرت ﷺ (خزانہ روشنی) سے قلبی تعلق رکھتے ہو ئے آنحضر ت ﷺ سے نو ر حاصل کرے اور اس کی انعکاسی شعاعیں مرید کے آئینہ صافی پر ڈالے ۔
۲۔
بلب کے اندر کی تار
:۔ اور یہ تو آپ جانتے ہی ہیں کہ بلب کا خالی خول وائرنگ سے روشنی نہیں حاصل کرتا بلکہ اس کے اندر ایک باریک سی تارہوتی ہے اور بجلی کی کیفیت سے متکیف ہوتی ہے تو پھر جا کر روشنی لیتی ہے ۔ پس دل کا زندہ ہونا بھی ضروری ہے ۔
۳۔دل سے مراد :۔دل دومعنی پر بولاجاتا ہے ایک تو صنبوبر ی شکل کا گوشت کا ٹکڑاہے اس کی بیماری کا سمجھنا اور علاج کرنا اطباء کے متعلق ہے ۔ دوم دل اس لطیفہ غیبی اور نور ربانی پر بولا جاتا ہے ۔جو خالق حکیم نے اس گوشت کے ٹکڑے میں رکھا ہے ،یہ دل ربانی لوگوں کا مقصود ہوتاہے ۔پس اس کی زندگی بھی لازمی ہے
باقی رہا بلب کا خول ۔سودہ ظاہر شرع کے احکام ہیں ۔جو اس نورربانی کے حامل ہیں ۔پس اگر دل میں جو انوارربانی کا محل ہے ۔ ایمان و خلوص نیت اور اللہ کی اطاعت و محبت ہے ۔ تو وہ زندہ اور تندرست ہے اور اگر اس میں ایمان نہیں ہے تو وہ مردہ ہے اور اگر خلوص واطاعت نہیں ہے تو وہ بیمار ہے والذین فی قلوبھم مرض اور اس قسم کی دیگر آیات میں ایسے ہی امراض کا ذکر ہے ۔
درجہ استکمال و تکمیل :۔ شرائط مذکور ہ بالا کو پورا کرنے والا بلب ایک روشن اور چمکتا ہوا چراغ ہے کہ جس کہ کمرے میں موجود ہو ۔ ۔اس کمرے کو بھی اور جو لوگ اس کمرے میں موجود ہوں اور ان کی آنکھیں اس بلب کے سامنے ہوں ۔ روشن کر دیتا ہے ۔ اس طرح وہ دل جو شرائط مذکورہ بالا سے صحیح کنکشن کے ذریعے نور حاصل کرتا ہے ۔ خود بھی روشن ہوتا ہے اور اپنے پاس بیٹھنے والوں کو بھی روشنی بخشتا ہے ۔
بلب کے اندر اور باہر
:۔ پھر آپ نے یہ بھی دیکھا ہوگا کہ باورچی خانے کے بلب عموماً دھوئیں اور مکھیوں کی وجہ سے باہر کی طرف سے گندے ہو جاتے ہیں ،وہ بلب جملہ شرائط مذکورہ بالا کے پورا ہونے پر بھی دھندلی سی روشنی دیتا ہے ۔اس معلوم ہوا کہ جس طرح بلب کے خول کی اندرونی سطح کا صاف وبے داغ ہونا ضروری ہے ۔ اسی طرح اس کی بیرونی سطح کی صفائی بھی بہت ضروری ہے اسی طرح بعض دل بذات خود تو روشن ہوتے ہیں ۔لیکن ان کی انعکاسی شعاعیں دوسروں پر نہیں پڑسکتیں کیونکہ بہت سی نفسانی کدورتیں اور حجاب ہیں کہ انہوں نے دل کو گندہ کردیا ہوتا ہے ۔ پس وہ دل باوجود روشن ہونے کے روشنی بخش نہیں ہو سکتا ۔ پس کمال اسی دل میں ہے ۔جو بشرائط مذکورہ بالاخزانہ روشنی لیتا ہے اور ظاہر وباطن یعنی شریعت و طریقت کی باتباع سنت پابندی کر کے کامل طرح کی صفائی حاصل کر کے استکمال کے بعد تکمیل ناقصین بھی کرتاہے ۔اللھم اجعلنی ھادیامھدیا ۔"(ص22تا25)
فیض سینہ بسینہ
مسلمانوں کی زبان سے ایک لفظ سینہ بسینہ اکثر سنا جاتا ہے جو ان معنوں میں بولا اور سمجھا جاتا ہے کہ کوئی علم ایسا بھی ہے ۔ جو آنحضرت ﷺ نے الفاظ میں نہیں بیان کیا۔ اس لئے وہ احادیث میں منقول نہیں ہوا۔ بلکہ وہ آپﷺ خاص اوقات میں شاہ ولایت حضرت علی کرم اللہ وجہہ اوران جیسے بعض دیگر صحابہ کے سینہ پر القاکیا ۔ جس سے وہ منور ہو گئے ۔انہی کے فیض و برکت سے سلسلہ بسلسلہ وہ علم مشائح طریقت میں چلا آیا اور اب بھی وہ علم اسی طرح سے ا۔ب۔ت حروف تہجی والے الفاظ کے بغیر ایک سینے سے دوسرے سینے میں منتقل ہوتا ہے بلکہ بعض اوقات ان سے ایسے امور بھی واقع ہوجاتے ہیں جو اہل ظاہر کی نظر میں خلاف شریعت ہوتے ہیں ۔
محبان طریقت تو اسے تسلیم کرتے ہیں ۔بلکہ اپنے طریق کی بنا ہی اس پر سمجھتے ہیں لیکن پیروان ،شریعت اس کا انکار کرتے ہیں کہ کوئی ایسا علم جو قرآن و حدیث میں صریحاًیا اشارۃمذکور نہ ہو ۔ آنحضرت ﷺ کی طرف منسوب ہو سکے کیو نکہ حق جل وعلانے ذات
یہ حا شیہ ہے1۔ ؂ گناہوں کی نجاست تو بہت بری بلاہے ۔پرانے اہل دہلی میں تو یہ بھی مشہور تھا کہ حضرت شاہ عبد العزیز صاحب ؒ کو حضور سرورکائنات ﷺ کی حضوری کا مرتبہ حاصل تھا ۔ ایک دفعہ آپ کے ہاں کوئی مہمان آیااور وہ حقہ پیتاتھا ۔خادم اس کے لئے کہیں سے حقہ لے آئے۔لیکن خادمیوں کو اس حقہ کا مکان سے نکال دینا یاد نہ رہا۔کئی روزکے بعد حضرت شاہ صاحب سے آنحضرت ﷺ نے فرمایا ۔مکان میں حقہ ہے ۔اس لئے ہم اس جگہ تشریف فرمانہیں ہوسکتے ۔۱۲منہ
قدسی کو اپنے اور اپنےبندوں کے درمیان اپنا رسول اور سفیر بنایا اور اپنی خصوصی وحی سے آپﷺ کو علم دیا ۔اپنا پاک کلام آپﷺ پر اتارا اور ان پیغامات و احکام کی تبلیغ آپﷺ کا فرض قرار دیا۔ چنانچہ فرمایا ۔
یا یھاالرسول بلغ ما انزصل الیک من ربک وان لم تفعل فما بلغت رسالتہ (مائدہ پ۶)
یعنی اے ( میرے عظیم الشان )رسول ﷺ جو کچھ آپﷺ کی طرف آپ کے رب کی جانب سے اتارا جاتاہے ۔وہ (سب کا سب ) پہنچا دیں ۔یعنی اس کی تبلیغ (بندوں کو ) کر دیں ۔اور اگر آپﷺ نے ایسانہ کیا ۔ یعنی اگر تبلیغ نہ کی ۔تو آپ ﷺ نے اللہ تعالیٰ کی رسالت کی تبلیغ نہیں کی ۔‘‘
یعنی اس کے پیغامات اس کے بندوں تک پہنچا دینے کے منصب کو سر انجام نہ دیا ۔اور اپنا منصب تبلیغ رسالت پورا نہ کیا۔
اسی وجہ سے آنحضرت ﷺ نے حجہ الوداع میں سب حاضرین سے جن کی تعداد (کم وبیش)ایک لاکھ یا سوالاکھ تھی ۔بطورشہادت لینے کے پوچھا ۔ھل بلغت یعنی کیا میں نے تم کو تبلیغ کر دی ! تو صحابہؓ نے جواب میں کہا کہ ہا ں حضور !آپ نے دین الہی پہنچا دیا اور کامل خیر خواہی سے پہنچایا۔(صحیح بخاری ؒ وغیرہ)
پس صحابہؓ نے جن میں حضرت علیؓ بھی موجود تھے ۔اسی وصیت کی رو سے دین کی تبلیغ کی اورانہی کی تبلیغی روایات کا نام حدیث ہے جن کی باقاعدہ تدوین خلیفہ عمر بن عبد العزیزؒ نے حکم سے شروع ہوئی اورآج وہ ہمارے پاس موطاامام مالک ؒ اور صحیح بخاری ؒ اور صحیح مسلم ؒ وغیرہ کتابوں کی صورت میں موجود ہیں ۔پس کوئی ایسا علم جو قرآن وحدیث میں مذکور نہیں یا اس سے ماخوذ نہیں ذات اقدس ﷺکی طرف منسوب نہیں ہو سکتا ۔لہذا بغیر زبان کی گو یائی اور کان کی شنوائی کے آنحضرت ﷺ سے کو علم منقول نہیں ۔
فیض سینہ بسینہ کا صحیح مفہوم :۔ہاں آپ ﷺ کے سینہ فیض گنجینہ کے انوارجو دوسرے قابل دلوں پر منعکس ہوتے تھے اوران میں ایک باطنی کیف پیدا کر کے اسے منور کر دیتے تھے۔ان سے انکار نہیں ہو سکتا اور ہم فیض سینہ بسینہ کے ان معنوں میں ہونے اور سلسلہ بسلسلہ بزرگان دین میں برابر چلے آنے کو برابر مانتے ہیں اور اسی کے ثابت کرنے اور سمجھانے کے لئے ہم نے عنوان کو مقرر کیاہے ۔واللہ الھادی !
طریقت اور شریعت میں مخالفت نہیں ہو سکتی :۔شریعت و طریقت میں مخالفت کا ہونا گو کبھی ہو ۔ یہ امر بھی باطل ہے کیونکہ جس امر کو خدا تعالیٰ نے بواسطہ اپنے رسولوں کے علی الاعلان الفاظ میں ظاہر کیا اور اس کی فرمانبرداری بندوں پر لازم کر دی اوراس کی نا فرمانی سے اپنی ناراضی صاف و صریح الفاظ میں ذکر کردی ۔اس کی خلاف ورزی اس کو کس طرح پسند آسکتی ہے ۔ پس اگر طریقت خدا رسی کے طریق کا نام ہے ۔تو اس کا شریعت کے مطابق و موافق ہونا لازمی ہے ۔اسی لئے اہل طریقت بزرگوں کا (اللہ تعالی ان سے راضی ہو)متفقہ قول کہ طریقت بغیرشریعت کے زند قہ و بیدینی ہے ۔
یہ بات اتنی مسلم اور مشہور ہے کہ ہم کو اس کے لئے ان اقوال کے نقل کرنے اور کتابوں کے حوالے ذکر کرنے کی ضرورت نہیں ۔مولا نا روم صاحبؒ نے مثنوی شریف میں اور خواجہ علی ہجویری ؒ لاہوری نے کشف المحجوب میں اور سید عبدالقادر جیلانی ؒ نے غنیۃالطالبین اور فتوخ الغیب میں اور حضرت مجدد صاحبؒ نے اپنے مکتوبات میں نہایت صفائی سے اسے بیان کیاہے ۔

محاکمہ
ی
ہ ذرہ بے مقدار (بد نام کنندۂ نکونا مے چند ) متبع سنت ہو کر اہل طریقت سے بھی عقیدت و محبت رکھتا ہے ۔ ان دونو ں فریقوں کی نزاع کو یوں مٹانا چاہتا ہے کہ اس میں تو کوئی شک نہیں کہ ہمارے پاس آنحضرت ﷺکی تبلیغ صرف قرآن و حدیث کی صورت میں ہے اور ان ہر دو سے باہر ہم کسی چیز کو آنحضرت ﷺ کی طرح منسوب نہیں کرسکتے ۔
کیو نکہ جب ہر دو منجانب اللہ ہیں اور ہر دو اللہ کے پاس پہنچنے کی سبلییں ہیں تو ان میں مخالفت کیو ں ہوگی ؟ اگر کسی کو نظرآتی ہے تو ہر دو (اہل شریعت و اہل طریقت ) میں سے کسی طرف کی غلط فہمی ہے اگر ہر دومقام صحت پر کھڑے ہو ں تو دونوں مخالف نہیں ہو سکتی لیکن یہ کہنا یا سمجھنا کہ ایک سینہ سے دوسرے سینہ سے سینہ میں بغیر حرفوں کی تعلیم کے کچھ آنہیں سکتا ۔یہ خشکی اور بے ذوقی ہے
قدر ایں بادہ ندانی بخدا تا نچشی
کامعاملہ ہے کیو نکہ کیفیات وو جدانیات کا احساس صاحب کیفیت اور صاحب وجدان کے سوا کو ئی دوسرا نہیں سمجھ سکتا اور یہ وہ حقیقت ہے جو الفاظ میں بیان نہیں ہو سکتی ۔ حضرت شاہ ولی اللہ صاحب ؒ کے والد ماجد حضرت شاہ عبدالرحیم صاحب ؒ جو عالم عامل اور ولی کا مل تھے
بیان توجہ میں فرماتے ہیں :۔
ومن لم یزق لم یدر ۔یعنی جس نے چکھا ہی نہیں وہ کیا جانے اور کیا سمجھے ؟اسی اصول پر اللہ تعالیٰ نے منکرین نبوت محمدیہﷺ کو یوں خطاب کیا ہے ۔ افتمارونہ عل مایری (النجم پ 27)’’یعنی تو کیا تم اس نبی ﷺ سے ایسے امر میں جھگڑاکرتے ہو ۔جسے وہ( عیاناًسامنے) دیکھ رہاہے ‘‘

اب اس امر کو اسی علم (معقول ومنقول ) سے سمجھئے۔ جس سے آپ مانوس ہیں کہ علم دو طرح پر ہوتاہے ۔ حروف سے اور قلب سے کتابی علم حرفوں کے ذریعے اہل علم استاد سے حاصل ہوتا ہے اور قلبی علم اہل دل مرشد سے قلبی مناسبت پیدا کرنے اور زہدوعبادت اور مجاہدہ و ریاضت سے ملتا ہے اور ان سب میں آداب شرعیہ کی رعایت اور اتباع سنت اس حد سے بڑھ کر کرنی پڑتی ہے جس حد تک آپ اپنی نماز وغیرہ عبادت کی صحت کے لئے کا فی جانتے ہیں ۔یہ تو خلاصہ مطلبب ہے ۔اب معقولا و منقولا اس کی تشریح کی مطالعہ فرمایئے :
جس طرح اس مادی عالم میں ایک شے موثر بھی ہے کہ دیگر شے اثر ڈالتی ہے اور کسی دوسری چیز کا اثر قبول بھی کرتی ہے ۔اسی طرح ایک قلب وروح انسانی دوسرے دل پر اثر ڈالتا بھی ہے اور دوسرے قلب سے اثر کو قبول کرتا ہے ۔اصل چیز تاثیر وتاثر کے لئے یہی دل ہے ۔باقی سب اعضااس کے تابع ہیں کہ بلا تر دوتاملاور بلا وقفہ و مہلت اور بلا انکا ر و کراہت اسکی اطاعت کرتے ہیں ۔اس خاکدان دنیامیں ایسی اطاعت کسی اور جگہ نہیں ملے گی ۔بس یہی سمجھ لیجئے کہ خالق حکیم نے لشکر اعضا کی فطرت میں اپنے سلطان یعنی قلب کی نافرمانی رکھی ہی نہیں ۔اسی لئے کہتے ہیں ۔ القلب سلطان البدن یعنی ’’ دل بدن کے باقی اعضا کا بادشاہ ہے ۔‘‘ پس اعضا پر جو بھی اثر ہوتاہے ، وہ سب اسی کی و ساطت سے ہوتا ہے اور اگر وہ بھی کسی دوسرے پر اثر ڈالتے ہیں تو اسی کے فیض سے ڈالتے ہیں ۔
زبان کی تاثیر مسلم ہے ۔ اس کی افسون گری دل پر ایسا قبضہ جمالیتی ہے کہ اسے کسی اور اپنے کے مطلب کا نہیں رہنے دیتی سرورکائنات ﷺخو دافصح العرب تھے۔ کسی شاعر کی تقریر سن کر فرمانے لگے ۔ان من البیان لسحرا ۔ یعنی بیان میں بھی جادو کا اثر ہوتاہے ۔
مولانا ثنا ء اللہ صاحب امر تسری ۱؂(مدظلہ ) نے امرتسرمیں اس عاجزی کی سب سے پہلی تقریر۲؂سن کر فرمایا تھا۔
اثرلبھانے کا پیارے ! تیرے بیان میں ہے
کسی کی آنکھ میں جادو تیری زبان میں ہے
لیکن جب اسکے بولے ہوئے الفا ظ میں بولنے والے کی قلبی کیفیت بھی بسی ہوئی ہو ۔تو اس کا جذب لو ہے کی زنجیر سے طاقتور ہوجاتا ہے ، اسی معنی میں کہاگیاہے۔
سخنے کہ از دل بیروں آیددردل جامی گیرد ۔’’ یعنی جو بات دل سے نکلتی ہے ۔وہ دل میں جگہ پکڑتی ۳؂ہے ‘‘
اسی طرح آنکھ کی مقناطیسی کشش سے کون انکار کر سکتاہے ۔جو ایک نظارے سے تڑپادے اور ایک اشارے سے گھائل اور آسیب زدہ کی
طرح حیران و ششدر کر کے کھڑا دے ۔زمین پر ٹپکا دے۔
1
۔آپ بمقام سرگودھا انتقال فرماچکے ہیں۔(15اپریل 1948 ؁ء (؂
2۔ اس سے پیشر آب کو میری تقریر سننے کا موقع نہیں ملا تھا۔یہ واقعہ اسلامی مجلس مناظرہ کے سالانہ جلسہ پر ہوا۔جو گھنٹہ گھر کے قریب ہوا۔جو کھنٹہ گھر کے قریب ہوا تھا۔12منہ۔
۲۳ علامہ اقبال مرحومؒ نے فرمایا ہے’’ دل سے جو بات نکلتی ہے اثر رکھتی ہے‘ یہ بھی حاشیہ ہے


اب سوال یہ ہے کہ زبان اور آنکھ محض اپنے گوشت اور جسم مادی سے اثر ڈالتے ہیں یا دل کی کیفیت سے متکیف ہو کر اپنا جادوچلاتے
ہیں ۔اگر پہلی صورت ہے یعنی بغیر دل کے خود بخود موثر ہیں ۔تو یہ تاثیر ہر وقت کیوں نہیں اور اگر دوسری صورت ہے ۔جو واقعی ہے
تو سلسلہ اسباب میں اصل موثر دل ہو اور دل آنکھ زبان وغیرہ اس کے آلات تاثیر ہوئے ۔وھذاھوالمراد۔
جب یہ معلوم ہو گیا کہ تمام اعضادل کے فرمانبردار اور تحت ہیں اور وہ اسی سے اثر پذیر ہو کر حرکت کرتے اور اپنے فعل انجام دیتے ہیں ۔تو اب سمجھناچاہیے کہ سینہ ،آنکھ اور کان کی نسبت دل کے بہت قریب ہے بلکہ جملہ اعضائے بدن سے نزدیک ہے کیو نکہ سینہ ظرف اور دل مظر وف چنانچہ خالق اکبرفرماتاہے :۔فانھالا تعمی الابصارولکن تعمی القلوب التی فی الصدور۔’’یعنی (ان بصیرتوں کی ) آنکھیں اندھی نہیں ہوتیں ۔بلکہ دل اندھے ہیں ۔جو سینوں کے اندر ہیں ‘‘
اور ظاہر ہے کہ ظرف و مظروف میں جو قرب واتصال ہوتاہے ۔ دوسروں کو حاصل نہیں ہو سکتا ۔پس سینہ دل کے جذبات کوائف سے نسبت دیگر اعضا کے بہت جلد اور بہت زیادہ متکیف ہو جاتاہے اور چونکہ سینہ میں نہ تو زبان کی طرح گویائی ہے کہ بول کر اثر ڈالے اور نہ آنکھ کی مثل بینائی ہے کہ دیکھ کر اور آنکھ سے آنکھ ملا کر کسی کو کھینچ سکے ۔اس لئے یہ کلام اور نظرسے اثرانداز نہیں ہوتا۔بلکہ خالق حکیم نے اس میں دودیگر قوتیں ودیعت کی ہیں۔جن سے اپنے اعضائے بدن کے علاوہ بیرونی اشیاء (اجسام وقلوب ) کو بھی مسخر کے ان پر حکومت جمالیتا ہے اور ا ن کو اپنی کیفیت سے متکیف کر دیتاہے ۔
پہلی یہ کہ اللہ تعالیٰ نے اس کے اعصاب حاسہ (حس والے پٹھوں )میں قلبی کیفیات کو جذب کرنے کی دیگر سب اعصاب سے زیادہ رکھی ہے ۔اس لئے یہ قوت لا مسہ کے ذریعے بھی اثر ڈالتا ہے ۔ یعنی اگر عامل اپنے معمول کے سینے کو اپنے سینے سے لگا دے اور پوری توجہ سے دبادے ۔تو عامل کے دل کی کیفیتیں معمول کے دل میں منعکس ہو جاتی ہیں ۔ بشرطیکہ ان میں جذب و انجذاب کی قابلیت ہو ۔ دوسری یہ کہ خدا ئے جبار نے اس میں ایک ایسا و صف بھی رکھا ہے کہ جب یہ خود نور ومحبت الہی سے بھر جاتاہے تو اس کے اندر ایک انبعاث (ابھار) پیدا ہوتاہے ۔جو کبھی رقت کی صورت میں ظاہر ہوتاہے اور صاحب دل زور زور سے رونے اور گڑ گڑانے لگتا ہے اور کبھی جو ش کی صورت میں نمودار ہوتاہے اور یہ اس کی جلالی حالت ہوتی ہے ایسی حالت میں اس سے نور کی شعاعیں نکلتی ہیں ۔جو فیض کی خواہش اور قابلیت رکھنے والے دل پر اس کے سینہ کے گوشت اور ہڈیوں کو چیرتی ہوئی منعکس ہوجاتی ہیں ۔ ایسی حالت میں لمس اور مس ۔یعنی سینے سے لگانے یا چھونے کی بھی ضرورت نہیں ہوتی۔بس ایک جلالی توجہ ہی کام کرجاتی ہے ۔بلکہ ایسی حالت میں شیخ کے سامنے ہونے کی بھی حاجت نہیں ۔بلکہ مسافت بعیدہ سے بھی اثر ہو سکتاہے

وجر بت ذلک مرار والحمداللہ ۔یشھدبذلک من وقع علیہ ھذاالحال من مخلص ھذا العبدالائیم ۱؂
ا
گر مرشد کے دل کی کیفیتیں اور اس کے جذبات پاک ہیں اور وہ انوار قدسیہ سے منور ہے اور مرید کا دل بھی کدورت نفسانیہ سے پاک ہوتے ہوئے انوارقدسیہ کا طالب و خواہشمند اور اس کے فیض کے حاصل کرنے کے قابل ہے ۔تو اس میں بھی اس کی رسائی بھر نوربھر جاتا ہے ۔چنانچہ یہ مضمون اہل طریقت و اشارات کے طریق پر اس آیت سے سمجھاجا سکتا ہے ۔

انذل من السماء ما ء فسالت اودیتہ بقدر ھا ۔(رعد پ 13(
’’یعنی حق تعالیٰ آسمان کی طرف سے بارش اتارتاہے ۔تو وادیوں میں بقداران کی وسعت کے پانی بہ پڑتاہے ۔
اس اثر کو اہل طریقت کے ہاں تصرف کرنا یا فیض و برکت بخشنا کہتے ہیں اور آئندہ ہم اسے اسی نام سے ذکر کریں گے انشاء اللہ۔
تنبیہ :۔حضرت شاہ ولی اللہ صاحب کے والد ماجد شاہ عبدالرحیم صاحب ارشادات رحیمیہ ‘‘ میں فرماتے ہیں:۔ طریقہ تو جہ خواجگان (قدس اللہ اسرار ہم(
و آں توجہ راتصرف نامند بریں وجہ است کہ بدل متوجہ دل طالب شوند و ازراہ گذران ارتباط اتصال و اتحاد سے میان دل ایشاں و باطن آں طالب واقع می شود، و بطریق انعکاس ازول ایشاں پر تو بر باطن دے می تابداویں صفتے است کہ ناشی از استعداد ایشاں ست ،کہ بطریق انکاس درآئینہ استعداد آں طالب ظاہر شدہ ، اگر ایں ارتباط متصل شود آنچہ بطریق انعکاس حاصل شدہ بعد صفت دوام پذیر د، وتبین شرائط تصرف دوقائق آں و تفصیل روش آں بگفتن مرشد تعلق دارد۔ ومنقول است از حضرت خواجہ محمدیحیٰ پسر حضرت خواجہ عبیداللہ احرار(قدس
۔
تعالیٰ اسرار ھما) کہ ارباب تصرف بر انواع اند ، بعضے ماذون و مختارکہ باذن حق سبحانہ و تعالیٰ و باخیتار خود ہر گاہ کہ خواہندہ تصرف کنندہ واور ابمقام فنا بیخودی رسانند و بعضے دیگر ازاں قبیل اند کہ با جود قوت تصرف جزبامر غیبی تصرف نکتند ۔تا از پیشگاہ مامور نشوند بکسے توجہ نکتندو بعضے دیگر آنچنا ں کہ گاہ گاہ صفتے و حالتے بر ایشاں غالب شود ودرغلبہ آں حال درباطن مرید تصرف کنندہ واز حال خود ایشاں رامتاثر سازند ۔پس
کسے کہ نہ مختار بو دونہ ماذون ونہ مغلوب ،ازوچشم تصرف نبایدادشت (ارشادات رحیمہ(
(ترجمہ) تو جہ خواجگان کا طریقہ (اللہ تعالیٰ ان کے بھیدوں کو پاک کر دے ) اور وہ اس توجہ کا نام تصرف رکھتے ہیں ۔یہ ہے کہ اپنے
۱؂ الحمداللہ میں نے اس کا کئی بار تجربہ کیاہے ۔اس گنہگار بندے کے مخلص دوستوں میں سے جن پر یہ کیفیت گزری ہے ۔وہ اس کی گواہی دیں گے
سارے دل سے طالب کے دل کی طرف متوجہ ہونے ہیں اور ارتباط کی وجہ سے ان کے دل میں اور طالب کے دل میں اتصال و اتحاد پیدا ہو جاتاہے ۔اور بطریق انعکاس ان کے دل سے اس (طلب )کے باطن پر پر تو پڑتا ہے اور یہ ایک ایسی صفت ہے جو ان (بزرگوں )کی استعداد کے آئینہ میں ظاہر ہوجاتی ہے ۔اگر یہ ارتباط متصل ہو جائے ۔توجو کچھ بطریق انعکاس حاصل ہواتھا وہ دوام کی صفت پکڑتا لیتاہے اور شرائط تصرف اور اس کی بایکیوں کا بیان اور اس کے طریقہ کی تفصیل مرشد کے بتانے کے متعلق ہے ۔اور حضرت خواجہ محمد یحیٰ بن حضرت عبیداللہ (قدس اللہ اسراراھما)سے منقول ہے کہ اصحاب تصرف کئی قسم پر ہیں ۔بعضے ماذون و مختار ہیں کہ حق سبحانہ وتعالیٰ کے اذن اور اپنے اختیار سے جب چاہتے ہیں تصرف کرتے ہیں اور اس (طالب ) کو مقام فنا اور بیخودی پر پہنچادیتے ہیں اور بعض دوسرے اس قسم کے ہیں کی باوجود قوت تصرف کے سوائے امر غیبی کے تصرف نہیں کرتے ۔جب تک درگاہ الہی سے مامور نہ ہو ں کسی کو توجہ نہیں دیتے اوربعض دیگر اس طرح کے ہیں کہ ان پر کبھی کبھی کوئی صفت یا کوئی حالت غالب ہو جاتی ہے ۔تو اس غلبہ حال کے وقت مرید کے باطن میں تصرف کرتے ہیں اور انکو اپنے حال سے متاثر کر دیتے ہیں ۔جو شخص نہ مختار ہو اور نہ ماذون ہو اور نہ مغلوب ہو اس سے تصرف کی امید نہیں رکھنی چاہیے۔‘‘
تنبیہہ:۔اس فیض وبرکت کا ذکر کتب سابقہ میں حضرت ابراہیم علیہ السلام اور آپ کی نسل کے انبیائے بنی اسرائیل کے حالات میں بھی ۱؂ ملتا ہے اور اسے انگریزی میں (تو گو بلیسنگس) To Give Blessings کہتے ہیں ۔یعنی کسی کو فیض و برکت بخشنا۔
تقریب مقصد

گذشتہ تمہید اور تفہیم کے بعد ہم اپنے مقصود کو احادیث صحیحہ اور واردات نبویہ سے ثابت کرتے ہیں :۔
حدیث اول :۔ ( صحیح بخاری کتاب الوحی و کتاب التفسیر) غارحرا میں جب آنخضرت سرورانبیا ء ﷺ کو خلعت نبوت سے نوازگیا حضرت جبرائیل ؑ نے آپ سے کہا ۔اقراء ۔یعنی پڑھئے تو آنخضرت ﷺنے فرمایا ۔ماانابقاری ء ۔’’یعنی میں پڑھاہوانہیں ۔‘‘ اس پر جبرائیل ؑ نے آپﷺ کو تین دفعہ (یکے بعد دیگر ے ) اپنے سینے سے لگایا اور زور سے دبایا ۔اس طرح تین بار کرنے کے بعد اقراء باسم ربک الخ یعنی سورت علق کی پانچ ابتدائی آیتیں پڑھائیں عطائے نبوت پر یہ سب سے پہلی وحی ہے ۔ حضرت شاہ عبدالعزیز صاحب ؒ اس سینے سے لگانے اور دبانے کے متعلق سورت علق کی تفسیر میں فرماتے ہیں :۔
-
--------------------------------------------------------------
۱؂حضرت مولانا ثنا ء اللہ صاحب (رحمتہ اللہ )نے اس موقع پر جلدی سے کام لیا کہ اخبا ر اہل حدیث کے اس پرچہ میں یہ مضمون شائع ہواتھا ۔یہ نوٹ لکھ دیا ۔’’سنت مظہرہ سے اس کا ثبوت چاہیے ‘‘ (اہلحدیث ) گزارش ہے کہ اگر آنجناب اگلا صفحہ ملا حظہ فرمالیتے ہیں تو آپ کو یہ لکھنے کی ضرورت نہ پڑتی۔کیونکہ اگلے صفحہ پر اسی مطالبہ کو سنتمطہرہ سے ثابت کیا گیاہے ۔فافہم 12منہ یہ بھی حاشیہ ہے
نکتہ) دوم آنکہ تاثیر حضرت جبرئیل ؑ در روح ایشاں بواسطہ افشرون در گر فتن نہایت مرتبہ کمال ثابت وراسخ کردند ۔ (ص 245(
)ترجمہ )دوسرا (نکتہ ) یہ ہے کہ حضرت جبرئیل فرشتہ کی تاثیر آنخضرت ﷺ کی روح پاک میں جھنجھوڑنے اور بغل میں لینے کے ذریعے
کمال کے آخر ی مرتبہ میں جائے گیر و پختہ کر دی ۔ (245 (
اس کے بعد تاثیر و توجہ کے اقسام اربعہ باتفصیل بیان کرتے ہیں کہ وہ چار ہیں ۔
اول دوم سوم چہارم
القائی اصلاحی ا تحادی
پھر اس قسم چہارم یعنی اتحادی کی تفصیل میں فرماتے ہیں ۔ چہارم تاثیر اتحادی کہ شیخ روح خود دراکہ حامل کمالست باروح مستفید بقوت تمام سازد۔تاکمال روح شیخ باروح مستفید انتقال نماید ،وایں مرتبہ اقویٰ ترین انواع تاثیراست چہ ظاہر است کہ بحکم اتحاد روحین ہر چہ درروح شیخ بروح تلمیذمیر سد۔ وباربارحاجت استقادہ نمی ماند ودر اولیاء اللہ ایں قسم تاثیر بہ ندرت واقع شدہ ۔(صفحہ 245(
)ترجمہ ) چوتھی قسم تاثیر اتحادی ہے کہ شیخ (پیر حقانی )اپنی روح کو جو کمال کی حامل ہے ،فیض حاصل کرنے والے(مرید)کی روح کے ساتھ پوری قوت سے متحد کردیناہے ۔تاکہ شیخ کی روح کا کمال مستفیدکی روح میں منتقل ہو جائے اور یہ مرتبہ تاثیر کی اقسام میں سے سب سے زیادہ قوی ہے کیونکہ ظاہر ہے کہ ہر دور وحوں کے اتحاد سے جو کمال کے شیخ کی روح میں ہے وہ تلمیذ( مرید باصفاو شاگرد رشید) کی روح میں پہنچ جاتاہے اور بارباراستفادہ کی حاجت نہیں رہتی اور اس قسم کی تاثیر اولیاء اللہ میں بھی گا ہے بگاہے واقع ہو جاتی ہے”
حضرت مجدد صاحب رحمۃاللہ علیہ کے مرشد کامل حضرت خواجہ باقی باللہ صاحب رحمۃاللہ علیہ کا ایسا ہی ایک واقعہ نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں :۔
’’بالجملہ تا ثیر حضرت جبرئیل ؑ دریں افشردن تا ثیر اتحادی بو کہ روح لطیف خودراازراہ مسام بدن درون آنحضرت ﷺ داخل فرمودہ باروع مبارک متحدسا خنتندوچوں شیر و شکر بہم آمخیتندو حالت عجیب درمیان بشریت و ملکیت پیدا شد نمی آید ۔(صفحہ 245,246(
(ترجمہ )غرضیکہ اس جھنجھوڑنے میں حضرت جبرائیل ؑ کی تاثیر اتحادی تھی کہ انہوں نے اپنی لطیف روح کو آنحضرتﷺکے بدن مبارک میں مساموں کے رستے آپﷺ کی روح مبارک کے ساتھ متحد کر دیاہے اور ان کو شیروشکر کی طرح ملا دیا اور بشریت و ملکیت کے درمیان ایک ایسی عجیب حالت پیدا ہوگئی جو زبان قال میں نہیں آسکتی ۔‘
بس اسے وہی دل سمجھ سکتا ہے جس پر وہ حالت طاری ہوتی ہے کیو نکہ زبان کوائف سے ناآشنا ہے ۔خداتعالیٰ نے وجدان کے لئے دل پیدا کیا ہے ۔نہ زبان ۔
حضرت شاہ عبدالعزیر صاحب ؒ کے جد امجد شاہ عبدالرحیم صاحب ؒ ارشادات رحیمیہ صفحہ ۲۲ میں فرماتے ہیں :۔
ومن لم یذق لم یدر
یعنی جس نے چکھا ہی نہیں وہ نہیں جان سکتا؟
زبان محسوسات کا مزہ چکھنے کے لئے ہے ۔دماغ معقولات کے سمجھنے کے لئے ہے اور وجدانیات و کوائف روحانیہ و لطائف قلبیہ کے لئے خالق اکبر نے دل پیدا کیا ہے
۔ غرض اللہ تعالیٰ نے ہر عضو کا فعل الگ الگ رکھا ہے ۔ایک کو دوسرے کے فعل سے کوئی واسطہ نہیں ۔
اللھم اذقنا من حلا وۃ افضالک وافض علینا من برکا تک و اشرح صدورنا و نو ر قلوبنا بانو ارک
لذیذ بود حکایت دراز تر گفتم !
چنانکہ حرف عصاگفت مو سیٰ اندر طور
حدیث دوم :۔ چشمہ فیض وبرکت رسول کریمﷺ کے چچازاد بھائی حضرت عبداللہ بن عباس کہتے ہیں :۔
ضمنی النبی صلے اللہ علیہ وسلم الی صدرہ وقال اللھم علمہ الحکمۃ ومن طریق ابی معمراللھم علمہ الکتاب۱؂
’’یعنی مجھ کو (مصدر فیض و کرم ) حضرت نبی کریم ﷺ نے اپنے سینے مبارک سے لگایا ۔اور یہ دعادی ۔باری تعالیٰ ! اسے حکمت (سمجھ کی درستی ) عطا کراور ابو معمر کی روایت میں یو ں ہے کہ اسے اپنی کتاب (قرآن مجید ) کی سمجھ عطاکر۔‘‘
چنانچہ حضرت عبداللہ بن عباسؓ قرآن شریف کے فہم میں صحابہؓ میں ممتاز تھے ۔یہ سب کچھ ٓانحضرتﷺ کے سینہ مبارک سے لگنے اور آپ ﷺ کی دعا کی برکت تھی ۔ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ مجہتدین صحابہؓ میں سے ہیں ۔ان کا قول فتح الباری میں منقول ہے ۔
نعم ترجمان القران ابن عباسؓ ۲؂’’ یعنی حضرت ابن عباسؓ بہت اچھے ترجمان قرآن ہیں ۔
-------------------------------------------------------------------------
۱؂ صحیح بخاری کتاب المناقب ۔۱۲منہ
؂ فتح الباری جز۲۲۷ مطبوعہ دہلی ۱۲منہ
الغرض یہ احادیث اور ان جیسی دیگر احادیث ہمارے مقصد صدری کے ثابت وواضح کرنے میں بالکل صاف ہیں ۔اس کے بعد ہم یہ
بھی کہتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ کا سینہ مبارک تو تھا ہی مصدر فیض و کرم ۔ آپ کی یہ فیض گستری تو اتنی زبر دست اور مو ثر تھی کہ آپ ﷺ ایک ایک جزوبدن اطہر حتی کہ آپ کا بال بال بلکہ آپ ﷺ کے جسد مبارک کے عوارض و متعلقات و فضلات بھی موجب فیض و برکت تھے (ص27تا 39)
الغرض حضو ر انور ﷺسراپا برکت تھے اور سب انبیاء علیہم السلام اللہ تعالیٰ کی وحی کے سبب ہر امر میں یمن و برکت والے ہوتے ہیں۔چنانچہ حضرت عیسیٰ کی زبانی نقل کیا کہ انہوں نے آغوش مادر میں کہا۔ وجعلنی مبارکا اینماکنت ۔ یعنی اللہ تعالیٰ نے مجھ کو صاحب برکت بنایا ہے ۔جہاں کہیں میں ہوں ۔(زمین پر یا آسمان پر ۔ سفر میں یا حضرمیں )اور حضرت ابراہیم و اسحاق (علیہاالسلام ) کے حق میں فرمایا :۔ وبارکنا علیہ وعلے اسحق۔(صافات پ 23 ) یعنی ’’ ہم نے برکت رکھی اس پر یعنی ابراہیم ؑ پر اور اسحاق پر (بھی )‘‘۔
اور اہل صلاحیت کے دم قدم کی برکت سے بیماریوں اور آفتوں کا دور ہونا اور بارشوں کا بوقت ضرورت برسنا اور رزق ومال میں افزائش احادیث صحیحہ مرفو عہ اور آثار صحابہ اور دیگر بزرگان دین کے واقعات سے ثابت ہے اور یہ متواتر ات کی جنس سے ہے اس سے انکار کی گنجائش نہیں ۔ھذا واللہ الھادی ۔
اسی طرح اللہ تعالیٰ نے اپنے پاک کلام قرآن مجید کی نسبت فرمایا:۔
کتاب انذلنہ الیک مبارک ۔(ص پ ۲۳)یعنی (اے پیغمبرﷺ!) ہم نے (یہ ) برکت والی کتاب آپ کی طر ف اتاری ہے۔‘‘
نیز فرمایا:۔وھذا ذکر مبارک انذلنہ(انبیا پ 17 )یعنی یہ برکت والا ذکر (نصحت نامہ)ہے ،جسے ہم نے مقام عظمت سے) اتاراہے ۔‘‘
نیز فرمایا:۔وھذاکتاب انذل مبارک ۔ (انعام پے ۷)یعنی یہ کتاب برکت والی کتاب ہے جسے ہم نے (مقام عظمت سے )نازل کیا ہے
۔الغرض یہ برکت والی کتاب حضور ﷺ کے قلب پاک پر اتاری گئی جیسا کہ فرمایا ۔
فانہ نذلہ علے فلبک باذن اللہ(بقرہ پ)
’’یعنی حضرت جبرئیلؑ تو یہ قرآن آپ ﷺ کے قلب پر اللہ تعالیٰ کے حکم سے لے کر آئے ہیں (پھر ان کی دشمنی کے کیا معنی ؟)
نیزفرمایا :۔نذل بہ الروح الامین علے قلبک (الشعر اپ 19 )یعنی ’’اے پیغمبر !)آپ ﷺ کے قلب پر اس قرآن کو الروح الامین لیکر آئے ہیں ۔‘‘
ان آیات سے واضح ہو گیاکہ حضورﷺ کا قلب فیوض و برکات رحمانیہ کا خزینہ اور انوار واسرار رہا نیہ کا گنجینہ ہے ۔ جس کسی کو عبداللہ بن عباسؓ وغیرہ کی طرح اس سے اتصال و انصمام نصیب ہو گیا ۔ اس کا سینہ نور و سکینہ سے بھر گیا اور جس کی کسی پر آپ ﷺ کی نظر کرم پڑ گئی ۔اس کا دل خدا کی طرف متوجہ ہو گیا ۔

چنا نچہ تفسیر سراج منیر میں خطیب شربیتی ؒ آیت ویزکبھم ( جمعہ پ 28)کے ضمن میں فرماتے ہیں :۔
ویذکیھم’ یعنی یہ نبی امی ﷺپاک کرتا ہے ۔ان کو شرک اور رذیلے اخلاق اورٹیڑھے عقائد سے اور آنحضرت ﷺ کا یہ تزکیہ اپنی حیات طیبہ میں ان لو گوں کی طرف نظر (کرم) کرنے اور ان کو علم دین کے سکھانیاور ان پر قرآن شریف کے تلاوت کرنے سے تھا ۔پس کبھی ایسا بھی ہوتا کہ آپﷺ کسی انسان کی طرف نظر محبت سے دیکھتے تواللہ تعالیٰ اس کی قابلیتوں کے موافق اور ان امور کے مطابق جن کی نسبت اللہ تعالیٰ نے عالم قضا و قدرمیں مقرر رکھا ہے ۔‘‘ کہ وہ عالم اسباب میں مہیا ہو ں۔اس شخص کا تزکیہ کرد یتا۔ پس وہ شخص آپ ﷺ کا نہایت درجے کا عاشق (صادق )اور آپﷺ کی اتباع (پیروی ) کو اچھی طرح سے لازم پکڑنے والا اور اللہ کی کتاب اور آپ ﷺ کی سنت میں نہایت درجہ کا راسخ و پختہ ہو جاتا۔(انتہی مترجما)
یہ اثر بالمشافہ ان ارباب عقیدہ پر تھا جن کو اللہ تعالی ٰ نے آپ ﷺ کی پاک صحبت کے لئے منتخب کرلیا تھا اور اب بعد وفات شریف کے آپ ﷺ کے انوارکی برکت کے لئے اللہ کی کتاب تو وہی ہے اور آپ ﷺکے نفس طیبہ کی بجائے آپ ﷺ کے انفاس طیبہ ہیں ۔جو آپﷺ کے علمی اور تعلیمی فیوض و برکات کے حامل ہیں اور اسفار حدیث قلب کو پاک صاف کرنا نزول برکات موجب ہے اور جو لوگ شب وروز آپ ﷺ کے آثار و احادیث طیبہ کا شغل و ذکر کر رکھتے ہیں ۔ان کو آپﷺ کی معنوی صحبت کا رتبہ ملتا ہے ۔چنانچہ اسی معنی میں کہا گیاہے ۔
اھل الحدیث ھمواھل النبی وان
لم یضحبوا نفسہ انفا سہ صحبوا ۱؂
یعنی اہل حدیث ۔نبی کریم ﷺ کے اہل ہیں ۔اگر چہ انہوں نے آپ ﷺ کی ذات گرامی کی صحبت کا شرف نہیں پایا۔ لیکن آپ ﷺ کے انفاس طیبہ کی صحبت تو حاصل ہے ۔‘‘
حضرت شاہ عبداللہ مجد وی ؒ المعروف شاہ غلام علی صاحب ؒ مقامات مظہری میں بضمن ذکر حاجی محمد افضل ۲؂صاحب سیالکوٹی حضرت مرزا مظہر جانجا نا ں شہید کا قول نقل فرماتے ہیں ۔
-
-----------------------------------------------------------------------
۱؂ نفس ف کی سکون کے ساتھ بزوزن فلس ۔بمعی تن و ذات اس کی جمع نفوس آتی ہے اور نفس ف کے نتیجہ کے ساتھ بزوزن فرس بمعنی دم سانس ،اس کی جمع انفاس آتی ہے ( صراح منتہی الا رب ) حاصل اس شعر کا یہ ہے کہ اہل حدیث کو اگر چہ بعد زمانہ کے سبب پیغمبر ﷺ کے جسد مبارک کی مصاجت حاصل نہیں ہوسکی ۔لیکن آپﷺ کے انفاس طیبہ سے پیدا شدہ کلام یعنی احادیث شریف سے تو صحبت حاصل ہے کہ وہ آپ ﷺ کے ارشادات کی برکات کے حامل ہیں اللھم اجعلنا منھم ۔12منہ یہ بھی حا شیہ ہے
۲؂ حاجی محمد افضل صاحب سیالکوٹی اکا بردین سے تھے۔اپنے وطن سیالکوٹ سے دہلی میں وطن پذیر ہو گئے اور وہیں وفات پائی ،آپ کا مزرا حضرت خواحہ باقی بااللہ کے مزار سے متصل ہے ۔حدیث میں حضرت مظہر جان جاناں ؒ کے علاوہ حضرت شاہ ولی اللہ صاحب ؒ کے بھی استاد ہیں ۔آپ نے شیخ سالم بن عبداللہ بصری ؒ ثم المکی سے مکہ شریف میں علم حدیث حاصل کیا۔ علاوہ علوم ظاہری کے باطنی کمالات میں بھی کامل تھے ۔ان کے کچھ حالات مقامات مظہری کے فضل سوم میں مزکور ہیں ۔رحمہ اللہ ۱۲منہ۔
حضرت (مرزاجان جاناں ؒ )صاحب فرماتے تھے کہ اگرچہ میں نے حضرت (حاجی محمد افضل ) صاحبؒ سے بظاہر (سلوک فقر ) کا
حضرت (حاجی ) صاحب کاستفادہ نہیں کیا ۔ لیکن حدیث شریف کے سبق کے ضمن میں آپ کے باطن شریف سے فیوض فائض ہوتے تھے اور عر ض نسبت ۱؂ میں قوت پہنچی تھی ۔ حضرت (حاجی )صاحب کو حد یث شریف کے بیان میں رسو ل اللہﷺ کی نسبت میں استغرق ہو جاتاہے تھا اور بہت سے انوار و برکات ظاہر ہوتے تھے گویا کہ معنوی طور پر پیغمبر خدا ﷺ کی صحبت حاصل کی صحبت حاصل ہو جاتی تھی ۔ الخ ( مقامات مظہری (
الغرض حضور اکرم ﷺ چشمہ فیض کے و برکت ہیں اورآپ ﷺ کا فیض بو جہ آپ ﷺ کے خاتم النبین ہونے کے تاقیام دنیا جاری ہے اور ان فیوض کے حصول کے ذرائع قرآن و حدیث کی اتباع اور محد ثین عظام کی صحبت ہے قرآن و حدیث تو اصل منبع و مخزن شریعت ہیں اور محدثین و الیا ء اللہ آنحضرت ﷺ کے علوم و اعمال کے محافظ و رہنما ہیں ۔بس ان کی رہنمائی میں سیدھے چلے جاؤ اور دائیں بائیں نہ دیکھو ۔پھر اللہ تعالیٰ کے فضل سے اپنی محبت بھر ثمر ہ بالو گے ۔ حضرت مرزا مظہرجان جاناں فرماتے ہیں:۔
اللہ تعالیٰ طبیعت مرارد رغایت اعتدال آفرید ہ است ، و در طینت من رغبت اتباع سنت نبوی ﷺ و دیعت نہادہ ۔(مقامات مظہری صفحہ ۱۶(
روحانی استعداد میں ترقی:۔روحانی ترقی کی صورت یہ ہے کہ روح میں جذب الی اللہ کی صفت حاصل ہو جائے اور یہ بات دائمی توجہ الی اللہ اور کثرت ذکر سے حاصل ہوتی ہے ۔حضرت شاہ ولی اللہ صاحب حقیقت نسبت کے بیان میں فرماتے ہیں ۔
اس کی تفصیل اس طرح ہے کہ جب بندہ طاعات اور طہارت اورا ذکار پر ہمیشگی کرتا ہے تو اس کو ایک صفت حاصل ہوتی ہے جس کا قیام نفس ناطقہ میں ہوتا ہے اور اس توجہ کا ملکہ راسخہ پیدا ہو جا تا ہے ۔(انتہی مترجماً القول الجمیل )
پھر حضرت شاہ صاحب اس شبہ کا حل کہ متا خرین صو فیہ ؒ کا طریق ذکر صحابہ و تابعین سے منقول نہیں ہے یوں کرتے ہیں :۔
میرے نزدیک ظن غالب یہ ہے کہ حضرات صحابہ اور تابعین سکینہ یعنی نسبت کو اور ہی طریقوں سے حاصل کرتے تھے ۔سو منجملہ ان کے مواظبت (ہمیشگی ) ہے ۔صلوات اورتسبیحات پر خلوت میں خشوع اور خضوع کی شرط کے ساتھ اور منجملہ ان کے مواظبت ہے طہارت پر اورلذتوں کی تو ڑ نے والی (موت) کی یاد پر ،اور (یادکرنا) اسکو جو حق تعالیٰ نے مطیعوں کے واسطے ثواب تیار کر رکھا ہے نیز (یاد کرنا اس کو جو نافرمانوں (گنہگاورں ) کے لئے عذاب معین کر رکھاہے تو اس مواظبت اور یادسے لذات حسیہ سے جدائی اور انقطاع ہو جاتاہے اور منجملہ ان کے مواظبت ہے قرآن مجید کی تلاوت پراور اس کے معانی میں تدبرکرنے پر اور واعظین کی پندو

1
۔؂ حضرت صوفیا ئے کرام کے نزدیک نسبت سے مراد خداتعالیٰ سے ارتباط قلب کا نام ہے اور وہ اس کا نام سکینہ اور نور بھی رکھتے ہیں ۔ مستفادازرسالہ القول الجمیل مصنفہ شاہ ولی اللہ صاحب ؒ ۱۲منہ یہ بھی حاشیہ ہے
عظت سننے پر اور ان حدیث کے سننے سمجھنے پر جن سے دل نرم ہو جاتے ہیں ۔حاصل کلام یہ کہ (صحابہؓ اورتابعین ) اشیائے مذکورہ پر مدت دراز تک (پختگی سے) مواظبت کرتے تھے ۔پس ان کو اس سے ملکہ سے راسخہ اور ہیات نفسانیہ حاصل ہو جاتی تھی ۔پھر باقی تمام عمر تک اس کی محا فظت کرتے تھے ۔(کہ متاع بے بہاکہیں ضائع نہ ہو جائے ) اور یہ معنی متوارث ہے رسول کریم ﷺ سے ہمارے مشائخ کے طریق سے ،اس میں کسی قسم کا شک نہیں رہتا ہے اگر چہ رنگ مختلف ہیں اور حاصل کرنے کے طریقے جداجدا ہیں

ّّّّّّّّّّّّّّّّّّّّّّمولانا خرم علی صاحب القول الجمیل کے ترجمہ شفاء العلمین میں اس عبارت کے ترجمہ کے بعد فرماتے ہیں:۔
خلاصہ جواب یہ ہے کہ جس امر کے واسطے اولیائے طریقت رضی اللہ عنہم نے یہ اشغال مقرر کئے ہیں ۔وہ زبان رسالت سے اب تک برابر چلاآیا ہے ۔گو یا طریق اس کی تحصیل کے مختلف ہیں ۔تو فی الو اقع اولیائے طریقت مجتہدین شریعت کے مانندہوئے ۔

(45 تا 50)
اشغال صوفیا ءکہ متعلق لکھتے ہیں
"تہلیل کے معنی لا الہ الا اللہ کہنا ۔یعنی الوہیت کو صرف اللہ تعالیٰ کے لئے مخصوص کرنا ۔دین اسلام کی اصل بنیاد یہی ہے اور یہی اس کا طرہ امتیاز ہے ۔قرآن شریف میں سب زیادہ اسی کی تاکید ہے اور جملہ دیگر مذاہب میں جو شرک پھیلا۔وہ اسی کو صحیح طور پر نہ سمجھنے اور قائم نہ رکھنے کی وجہ سے پھیلا ۔یہی شرک سوز کلمہ توحید ہے اور اس کے صحیح رکھے بغیر کوئی شخص مسلمان نہیں ہوسکتا ۔صوفیا ئے کرام ؒ نے ذکر الہی کی مشق کے لئے اسی کو منتخب کیا ہے اور ان کے نزدیک اس کا نام نفی اثبات کا ذکر ہے ۔یعنی لا الہ میں غیر اللہ کی الوہیت کی نفی ہے اور الا اللہ میں خاص اللہ کے لئے اس کا اثبات ہے اور حدیث شریف میں افضل الذکر اسی کو قرار دیا ہے (مشکوٰۃ شریف صفحہ ۱۹۳)"
اور اپنے متعلق فرماتے ہیں
"میں عاجز محمد ابراہیم میر بوجہ کثرت اشغال کے ذکر کے وقت پوری توجہ سے دل نہیں باندھ سکتا ۔جب کبھی اپنے دل کو بے لذت پاتا ہوں،تو ا سی کلمہ توحید کا ذکر کرتا ہوں پھر اللہ تعالیٰ کے فضل سے دل سنبھل جاتا ہے ۔اس اثر کی وجہ سے عاجز نے اپنے نزدیک اس کا نام مھی القلب رکھا ہواہے "

کہنے اور لکھنے کو بہت کچھ ہے,انشاء اللہ جلد ہی یہ مکمل کتاب آپکی خدمت میں پیش کر دی جائے گی،میں انظامیہ سے گذارش کروں گا کہ اس تھریڈ کو ڈیلیٹ نہ کرنا ،اگر کو ئی صاحب تصوف سلوک کے معاملے میں سنجیدہ ہو ں تو یہاں مجھ سے بات کر سکتے ہیں
facebook.com/aqeel.qureshi.5680
 
Top