قلت: وهذا إسناد رجاله ثقات رجال مسلم؛ لكن فيه علل:
علامہ البانی رح کے اس جملے سے پتا چلتا ہے کہ وہ بھی اس کی سند کو صحیح مانتے ہیں-
رہی یہ بات ابو الجوزاء کا عائشہ رض سے سماع کرنا
ابو الجوزاء المتوفی 83 ھ
عائشہ رض المتوفی 57 ھ--قیل 58 ھ
تاریخ وفات سے پتا چلتا ہے کہ ابو الجوزاء نے عائشہ رض کا زمانہ پایا ہے اور محدثین کے ہاں یہ اصول ہے کہ جس کی ملاقات ممکن ہو وہ سند متصل ہوتی ہے
اور لگتا ہے کہ اسی وجہ سے امام مسلم رح جیسے بڑے محدث نے ابو الجوزاء سے عائشہ رض والی روایت کو قبول کیا ہے
کیونکہ اگر اسے صحیح نہ مانیں تو صحیح مسلم کی حدیث نمبر 498 پر آپ کیا حکم لگائیں گے
240 - ( 498 ) حدثنا محمد بن عبدالله بن نمير حدثنا أبو خالد ( يعني الأحمر ) عن حسين المعلم ح قال وحدثنا إسحاق بن إبراهيم ( واللفظ له ) قال أخبرنا عيسى بن يونس حدثنا حسين المعلم عن بديل بن ميسرة
عن أبي الجوزاء عن عائشة قالت
: كان رسول الله صلى الله عليه و سلم يستفتح الصلاة بالتكبير والقراءة بالحمد لله رب العالمين وكان إذا ركع لم يشخص رأسه ولم يصوبه ولكن بين ذلك وكان إذا رفع رأسه من الركوع لم يسجد حتى يستوي قائما وكان إذا رفع رأسه من السجدة لم يسجد حتى يستوي جالسا وكان يقول في كل ركعتين التحية وكان يفرش رجله اليسرى وينصب رجله اليمنى وكان ينهى عن عقبة الشيطان وينهى أن يفرش الرجل ذراعيه افتراش السبع وكان يختم الصلاة بالتسليم
وفي رواية ابن نمير عن أبي خالد وكان ينهى عن عقب الشيطان
ابو الجوزاء کو ثقہ کہنے والے محدثین
1-ابو حاتم رازی
2-ابو زرعہ رازی
3-امام ذھبی وقال فی تاریخ الاسلام؛ کان قویا
4- ابن حبان
5-امام ابن حجر رح بھی ابو الجوزاء کو ثقہ مانتے ہیں-اور مرسل راوی بھی کہتے ہیں-جب یہ ثابت ہوتا ہے کہ ابو الجوزاء نے عائشہ رض کا زمانہ پایا ہے تو یہ انقطاع ختم ہو گیا
الأولى مخالفة أبي معمر لغيره من الثقات في متنه؛ فقال ابن أبي شيبة في «المصنف» (1 / 296) : حدثنا عبد السلام به، ولفظه:
كان يقول في الركعتين التحيات. لم يذكر «لا يزيد»
محدثین ثقہ راوی کی زیادتی قبول کرتے ہیں تو یہ اعتراض خطا پر مبنی ہے
ایک سوال-
اگر آپ اس حدیث کو ضعیف مانتے ہیں تو صحیح مسلم کی حدیث جو میں نے اوپر ذکر کی ہے اس پر آپ کیا حکم لگاتے ہیں؟
کیا اسے بھی آپ ابو الجوزاء کی وکہ سے ضعیف مانتے ہیں؟