حرب بن شداد
سینئر رکن
- شمولیت
- مئی 13، 2012
- پیغامات
- 2,149
- ری ایکشن اسکور
- 6,345
- پوائنٹ
- 437
اسلام میں ایک عقیدے کی داغ بیل عبداللہ بن سبا یہودی نے ڈالی تھی یہ شخص یمن کے شہر صنعاء کا رہنے والا تھا اور نہایت ذہن وفطین آدمی تھا قرون اولی میں یہودیوں کو جو ذلت نصیب ہوئی اسکا انتقام لینے کے لئے منفقانہ طور پر مسلمان ہوا مسلمانوں کے عقائد میں تفقہ کے بیج بوکر تشتت وانتشار پیدا کرنا چاہتا تھا یہ شخص درویشی کا لبادہ اوڑھ کر زہد وتقوٰی کے روپ میں سامنے آیا اسلام کے جسم پر اس نے دو طرح کے وار کئے اور اپنی سازشوں میں کامیابی کے لئے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو بطور رہبر منتخب کیا۔۔۔
١۔ تو مسلم عجمی لوگوں کو یہ تاثر دیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے قرابت داری کی بناء پر خلافت کے اصل حقدار سیدنا علی رضی اللہ عنہ ہیں اور پہلے تینوں خلیفوں نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کا حق غصب کیا۔۔۔
٢۔ چونکہ خود درویشی کے روپ میں آیا تھا لہذا ظاہر وباطن کی تفریق کر کے اور شریعت و طریقیت کے رموز بتلا کر ان نو مسلموں میں دین طریقیت کے ملحدانہ اور کافرانہ نظریات داخل کئے اور بتلایا کے حضرت علی رضی اللہ عنہ خدا کی ذات کا مظہر ہیں اور خدا ان کے بدن میں حلول کر گیا ہے (ایضا صفحہ ٦٧)۔۔۔
عبداللہ بن سباء کا یہ عقیدہ اس کے پیروکاوں نصیریہ، کیسانیہ، قرامطیہ اور باطنیہ سے ہوتا ہوا صوفیاء کے اندر داخل ہوگیا حسین بن منصور حلاج اس عقیدے کے علم بردار اعلٰی تسلیم کئے جاتے ہیں اس عقیدے کو شہرت دوام حلاج سے ہی ہوئی اسکا دعوٰی تھا کہ خدا س کے اپنے اندر حلول کر گیا ہے(ایضاء ٦٨)۔۔۔
ابن عربی نے حلاج کے متعلق فتوحات مکیہ میں ایک واقعہ لکھا ہے مشہور بزرگ شیخ ابوعمر عثمان مکی حلاج کے سامنے سے گزرے اور پوچھا کہ کیا لکھ رہے ہو؟؟؟۔۔۔ حلاج نے جواب دیا قرآن کا جواب لکھ رہا ہوں حسین بن منصور حلاج جو قرآن کا جواب لکھ رہے تھے اسکی تعریف مولانا روم حضرت علی ھجویری خواجہ نظام الدین نے کی ہے مگر سلیمان ندوی نے رسالہ معارف جلد ٢ شمارہ ٤ میں حسین بن منصور حلاج پر شدید تنقید کی ہے اور ابن سعد قرطبی ابن موقل ابن ندیم ابن مسکویہ مسعودی ابن جوزی ابن اثیر اور امام الحرمین کی تواریخ سے ثابت کیا ہے کہ حلاج ایک گمراہ اور شعبدہ باز شخص تھا۔۔۔
تصوف میں چار چاند ان نقشبندیہ، قادریہ، چشتیہ، سہروردیہ اور انکے ذیلی چودہ خانوادے ہیں جن میں رفاعیہ، شطاریہ، مولویہ، بندگیہ، کبرویہ، نوشاہیہ، شاذلیہ، جنیدیہ، قلندریہ زیادہ مشور ہیں حضرت مجدد الف ثانی رحمہ اللہ علیہ کی ذات میں چاروں خاندانوں کا فیض جمع ہوگیا ہے ان کے احوال ومقامات طرف سلوک اور تربیت سالکین میں کچھ تفاوت اور اختلاف کار فرما ہیں ویسے منزل چونکہ سب کی ایک ہے راہ کی اکثر گھاٹیاں اورموڑ مشترک واقع ہوئے ہیں۔۔۔
اکثر سلاسل کا واسطہ علی رضی اللہ عنہ سے حسن بصری کے ذریعہ ہے (جبکہ محدثین نے حسن بصری اور علی رضی اللہ عنہ کی ملاقات اور سماع کو غیریقینی کہا ہے)۔
شجرہ خواجگاہ نمبر!۔
١۔ چشتیہ!
١۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم ٢ حضرت امیر المومنین علی رضی اللہ عنہ ٣ حسن بصری رحمہ اللہ علیہ یہ سلسلہ حضرت علی کے ذریعہ سے ہے۔
٢۔ نقشبندیہ!
١۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ٢ صدیق اکبر رضی اللہ عنہ ٣ سلمان فارسی رضی اللہ عنہ ٤ قاسم بن مجتبٰی ٥ امام جعفر صادق۔
٣۔ قادریہ امامیہ!
١۔ محمد صلی اللہ علیہ وسلم ٢ امیرالمومنین حضرت علی رضی اللہ عنہ ٣ امام حسن مجتبی ٤ امام حسین رضی اللہ عنہ ٥ زین العابدین ٦ امام باقر۔۔۔
سہروردیہ!۔
١ محمد صلی اللہ علیہ وسلم ٢ امیرالمومنین علی رضی اللہ عنہ ٣ حسن بصری تصوف سے متعلق یہ مختصر احوال ونظریات قارئین کی نظر کی ہیں اور ان کی شناعت سے پر عیاں ہے ان کا قرآن وسنت تعامل صحابہ رضی اللہ عنہ وتابعین آئمہ اربعہ رحمھم اللہ سے تعارض بھی مخفی نہیں ہے کشف والہام اور علم باطنی وعلم سینہ کے ذریعہ ختم نبوت کے عقیدہ کو تار تار کر لیا گیا ہے صحیح اسلام کے مقابل روافض کا خود ساختہ یا یہود سے اخذ کردہ متوازی دین تصوف کے نام سے رائج کر لیا گیا ہے یہ تو اسلام کے دشمنوں کی سازش تھی جسے علامہ اقبال نے غیر اسلامی پودا کہا مگر افسوس کی بات یہ ہے کہ دین حق کی تبلیغ کے دعوے دار عقیدہ ختم نبوت کے علمبرداروں اس کے خباف کچھ کرنے کی بجائے خود اس بیماری میں مبتلا ہوگئے سوائے چند ایک کے اکثریت نے اسے اسلامی ثابت کرنے اور خود کو ان سلاسل میں پرونے کی کوشش کی۔۔۔
قدر آفاقی نے تصوف کے مخالفت سے متعلق اہلسنت کا رویہ ذکر کیا ہے لکھتے ہیں اہلسنت والجماعت نے صوفیاء کے خلاف اپنا طرز عمل کافی آہستگی سے ظاہر کیا نیز وہ کبھی ان کو مطعون کرنے میں متفق رائے نہیں ہوئے سُنیوں کے صرف دو گروہوں نے تصوف پر تنقید کی۔۔۔
امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے تصوف پر یہ تنقید کی کہ وہ ظاہر عبادت کے مقابلہ میں مراقبہ پر زور دیتا ہے اور روح کیلئے ذات خداوندی سے آزاد کر دیتا ہے چنانچہ آپ رحمہ اللہ کے شاگردوں نے تصوف کو زنادقہ کے کفر والحاد کی ایک شاخ الروحانیہ میں شامل کیا ہے۔۔۔
ان کے علاوہ دوسرا گروہ معتزکہ اور ظاہریوں پر مشتمل ہے یہ عشق کے ذریعے خالق ومخلوق کے تقریب کو لایعنی سمجھتا ہے کیونکہ یہ عقیدہ نظریاتی طور پر تشبیہ اور عمل ہر لحاظ سے ملامست کے حلول کے مترادف ہے اسی طرح ابن الجوزی رحمہ اللہ، ابن تیمیہ رحمہ اللہ ابن قیم رحمہ اللہ نے بھی تصوف پر تنقید کی ہے۔۔۔
ابن الجوزی رحمہ اللہ کی تنقید دیگر تمام آئمہ کی بنسبت زیادہ مفصل اور عام فہم ہے۔۔۔
قدر آفاقی لکھتے ہیں!۔
ابن الجوزی رحمہ اللہ سے تھوڑے ہی عرصہ کے بعد امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے بھی تصوف کو ہدف تنقید بنایا لیکن ان کی تنقید فلسفہ تصوف اور تصوف کی فکری ونظری اساسوں پر تھی ان کے مقابلہ مین ابن الجوزی رحمہ اللہ نے تصوف کا ایک معاشرتی ادارے اور ایک مخصوص طرز زندگی کی حیثیت سے جائزہ لیا ہے ابن تیمیہ کا رول ایک فلسفہ اور مفکر کے ساتھا اور ابن الجوزی کا ایک معاشرتی مصلح کا سا (ایضاء ٢٢٦)۔۔۔
ابن الجوزی رحمہ اللہ نے صوفیا کے اقوال، اعمال، اور اصطلاحات کا موازنہ قرآن حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام کے عمل وزندگی سے کیا اور یہ ثابت کیا ہے کہ ان کے تمام اقوال واعمال نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین کے اسوہ کے خلاف ہیں اس کی وجہ ابن الجوزی رحمہ اللہ نے یہ بیان کی ہے کہ صوفیا کے عدم توازن کا اصل سبب علم دین سے اُن کی غلفت ہے فرماتے ہیں!۔۔۔
ابلیس نے صوفیاء پر اس طرح جادو چلایا کہ علم سے انہیں روک دیا اور انہیں باور کرایا کہ مقصود اصلی تو عمل ہے پھر جب علم کا چراغ بجھ گیا تو وہ اندھیرے میں خبط مارنے لگے (ایضاٰ ٢٥٢)۔۔۔
صوفیاء کی ایک جماعت نے تو اس سلسلہ میں اس حد تک غلو کیا علم شریعت اور طریقیت وتصوف کو جدا جدا بلکہ متضاد قرار دیا یہاں تک کہ اپنی کتابیں جو علم کا خزانہ تھیں دفن کردیں یا دریابُرد کردیں یا جلا ڈالیں کیونکہ ان کے نزدیک حب مقصود اصلی عمل ہے تو عمل بیکار ہے بلکہ حقیقت پرستوں کے لئے باعث ننگ وعار ہے (صفحب ٤٥٦-٤٥٧)۔۔۔
اس علم دشمنی کا نتیجہ یہ نکلا کہ تصوف اسلام کے مفہوم کی حقیقی تعبیر بننے کی بجائے ایک متوازی نظام زندگی بن گیا ابن الجوزی رحمہ اللہ اصطلاحات کی بابت کہتے ہیں۔۔۔
جاری ہے۔۔۔
١۔ تو مسلم عجمی لوگوں کو یہ تاثر دیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے قرابت داری کی بناء پر خلافت کے اصل حقدار سیدنا علی رضی اللہ عنہ ہیں اور پہلے تینوں خلیفوں نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کا حق غصب کیا۔۔۔
٢۔ چونکہ خود درویشی کے روپ میں آیا تھا لہذا ظاہر وباطن کی تفریق کر کے اور شریعت و طریقیت کے رموز بتلا کر ان نو مسلموں میں دین طریقیت کے ملحدانہ اور کافرانہ نظریات داخل کئے اور بتلایا کے حضرت علی رضی اللہ عنہ خدا کی ذات کا مظہر ہیں اور خدا ان کے بدن میں حلول کر گیا ہے (ایضا صفحہ ٦٧)۔۔۔
عبداللہ بن سباء کا یہ عقیدہ اس کے پیروکاوں نصیریہ، کیسانیہ، قرامطیہ اور باطنیہ سے ہوتا ہوا صوفیاء کے اندر داخل ہوگیا حسین بن منصور حلاج اس عقیدے کے علم بردار اعلٰی تسلیم کئے جاتے ہیں اس عقیدے کو شہرت دوام حلاج سے ہی ہوئی اسکا دعوٰی تھا کہ خدا س کے اپنے اندر حلول کر گیا ہے(ایضاء ٦٨)۔۔۔
ابن عربی نے حلاج کے متعلق فتوحات مکیہ میں ایک واقعہ لکھا ہے مشہور بزرگ شیخ ابوعمر عثمان مکی حلاج کے سامنے سے گزرے اور پوچھا کہ کیا لکھ رہے ہو؟؟؟۔۔۔ حلاج نے جواب دیا قرآن کا جواب لکھ رہا ہوں حسین بن منصور حلاج جو قرآن کا جواب لکھ رہے تھے اسکی تعریف مولانا روم حضرت علی ھجویری خواجہ نظام الدین نے کی ہے مگر سلیمان ندوی نے رسالہ معارف جلد ٢ شمارہ ٤ میں حسین بن منصور حلاج پر شدید تنقید کی ہے اور ابن سعد قرطبی ابن موقل ابن ندیم ابن مسکویہ مسعودی ابن جوزی ابن اثیر اور امام الحرمین کی تواریخ سے ثابت کیا ہے کہ حلاج ایک گمراہ اور شعبدہ باز شخص تھا۔۔۔
تصوف میں چار چاند ان نقشبندیہ، قادریہ، چشتیہ، سہروردیہ اور انکے ذیلی چودہ خانوادے ہیں جن میں رفاعیہ، شطاریہ، مولویہ، بندگیہ، کبرویہ، نوشاہیہ، شاذلیہ، جنیدیہ، قلندریہ زیادہ مشور ہیں حضرت مجدد الف ثانی رحمہ اللہ علیہ کی ذات میں چاروں خاندانوں کا فیض جمع ہوگیا ہے ان کے احوال ومقامات طرف سلوک اور تربیت سالکین میں کچھ تفاوت اور اختلاف کار فرما ہیں ویسے منزل چونکہ سب کی ایک ہے راہ کی اکثر گھاٹیاں اورموڑ مشترک واقع ہوئے ہیں۔۔۔
اکثر سلاسل کا واسطہ علی رضی اللہ عنہ سے حسن بصری کے ذریعہ ہے (جبکہ محدثین نے حسن بصری اور علی رضی اللہ عنہ کی ملاقات اور سماع کو غیریقینی کہا ہے)۔
شجرہ خواجگاہ نمبر!۔
١۔ چشتیہ!
١۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم ٢ حضرت امیر المومنین علی رضی اللہ عنہ ٣ حسن بصری رحمہ اللہ علیہ یہ سلسلہ حضرت علی کے ذریعہ سے ہے۔
٢۔ نقشبندیہ!
١۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ٢ صدیق اکبر رضی اللہ عنہ ٣ سلمان فارسی رضی اللہ عنہ ٤ قاسم بن مجتبٰی ٥ امام جعفر صادق۔
٣۔ قادریہ امامیہ!
١۔ محمد صلی اللہ علیہ وسلم ٢ امیرالمومنین حضرت علی رضی اللہ عنہ ٣ امام حسن مجتبی ٤ امام حسین رضی اللہ عنہ ٥ زین العابدین ٦ امام باقر۔۔۔
سہروردیہ!۔
١ محمد صلی اللہ علیہ وسلم ٢ امیرالمومنین علی رضی اللہ عنہ ٣ حسن بصری تصوف سے متعلق یہ مختصر احوال ونظریات قارئین کی نظر کی ہیں اور ان کی شناعت سے پر عیاں ہے ان کا قرآن وسنت تعامل صحابہ رضی اللہ عنہ وتابعین آئمہ اربعہ رحمھم اللہ سے تعارض بھی مخفی نہیں ہے کشف والہام اور علم باطنی وعلم سینہ کے ذریعہ ختم نبوت کے عقیدہ کو تار تار کر لیا گیا ہے صحیح اسلام کے مقابل روافض کا خود ساختہ یا یہود سے اخذ کردہ متوازی دین تصوف کے نام سے رائج کر لیا گیا ہے یہ تو اسلام کے دشمنوں کی سازش تھی جسے علامہ اقبال نے غیر اسلامی پودا کہا مگر افسوس کی بات یہ ہے کہ دین حق کی تبلیغ کے دعوے دار عقیدہ ختم نبوت کے علمبرداروں اس کے خباف کچھ کرنے کی بجائے خود اس بیماری میں مبتلا ہوگئے سوائے چند ایک کے اکثریت نے اسے اسلامی ثابت کرنے اور خود کو ان سلاسل میں پرونے کی کوشش کی۔۔۔
قدر آفاقی نے تصوف کے مخالفت سے متعلق اہلسنت کا رویہ ذکر کیا ہے لکھتے ہیں اہلسنت والجماعت نے صوفیاء کے خلاف اپنا طرز عمل کافی آہستگی سے ظاہر کیا نیز وہ کبھی ان کو مطعون کرنے میں متفق رائے نہیں ہوئے سُنیوں کے صرف دو گروہوں نے تصوف پر تنقید کی۔۔۔
امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے تصوف پر یہ تنقید کی کہ وہ ظاہر عبادت کے مقابلہ میں مراقبہ پر زور دیتا ہے اور روح کیلئے ذات خداوندی سے آزاد کر دیتا ہے چنانچہ آپ رحمہ اللہ کے شاگردوں نے تصوف کو زنادقہ کے کفر والحاد کی ایک شاخ الروحانیہ میں شامل کیا ہے۔۔۔
ان کے علاوہ دوسرا گروہ معتزکہ اور ظاہریوں پر مشتمل ہے یہ عشق کے ذریعے خالق ومخلوق کے تقریب کو لایعنی سمجھتا ہے کیونکہ یہ عقیدہ نظریاتی طور پر تشبیہ اور عمل ہر لحاظ سے ملامست کے حلول کے مترادف ہے اسی طرح ابن الجوزی رحمہ اللہ، ابن تیمیہ رحمہ اللہ ابن قیم رحمہ اللہ نے بھی تصوف پر تنقید کی ہے۔۔۔
ابن الجوزی رحمہ اللہ کی تنقید دیگر تمام آئمہ کی بنسبت زیادہ مفصل اور عام فہم ہے۔۔۔
قدر آفاقی لکھتے ہیں!۔
ابن الجوزی رحمہ اللہ سے تھوڑے ہی عرصہ کے بعد امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے بھی تصوف کو ہدف تنقید بنایا لیکن ان کی تنقید فلسفہ تصوف اور تصوف کی فکری ونظری اساسوں پر تھی ان کے مقابلہ مین ابن الجوزی رحمہ اللہ نے تصوف کا ایک معاشرتی ادارے اور ایک مخصوص طرز زندگی کی حیثیت سے جائزہ لیا ہے ابن تیمیہ کا رول ایک فلسفہ اور مفکر کے ساتھا اور ابن الجوزی کا ایک معاشرتی مصلح کا سا (ایضاء ٢٢٦)۔۔۔
ابن الجوزی رحمہ اللہ نے صوفیا کے اقوال، اعمال، اور اصطلاحات کا موازنہ قرآن حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام کے عمل وزندگی سے کیا اور یہ ثابت کیا ہے کہ ان کے تمام اقوال واعمال نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین کے اسوہ کے خلاف ہیں اس کی وجہ ابن الجوزی رحمہ اللہ نے یہ بیان کی ہے کہ صوفیا کے عدم توازن کا اصل سبب علم دین سے اُن کی غلفت ہے فرماتے ہیں!۔۔۔
ابلیس نے صوفیاء پر اس طرح جادو چلایا کہ علم سے انہیں روک دیا اور انہیں باور کرایا کہ مقصود اصلی تو عمل ہے پھر جب علم کا چراغ بجھ گیا تو وہ اندھیرے میں خبط مارنے لگے (ایضاٰ ٢٥٢)۔۔۔
صوفیاء کی ایک جماعت نے تو اس سلسلہ میں اس حد تک غلو کیا علم شریعت اور طریقیت وتصوف کو جدا جدا بلکہ متضاد قرار دیا یہاں تک کہ اپنی کتابیں جو علم کا خزانہ تھیں دفن کردیں یا دریابُرد کردیں یا جلا ڈالیں کیونکہ ان کے نزدیک حب مقصود اصلی عمل ہے تو عمل بیکار ہے بلکہ حقیقت پرستوں کے لئے باعث ننگ وعار ہے (صفحب ٤٥٦-٤٥٧)۔۔۔
اس علم دشمنی کا نتیجہ یہ نکلا کہ تصوف اسلام کے مفہوم کی حقیقی تعبیر بننے کی بجائے ایک متوازی نظام زندگی بن گیا ابن الجوزی رحمہ اللہ اصطلاحات کی بابت کہتے ہیں۔۔۔
جاری ہے۔۔۔