کلیم حیدر
ناظم خاص
- شمولیت
- فروری 14، 2011
- پیغامات
- 9,747
- ری ایکشن اسکور
- 26,381
- پوائنٹ
- 995
بسم اللہ الرحمن الرحیم
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
میرا نام حافظ کلیم اللہ فاروقی ہے، اور ابو کا نام حیدر خان ہے۔ اس لیے فورمی نیم کلیم حیدر رکھا ہے۔ لیہ شہر سے کوئی 27 کلومیٹر کے فاصلہ پر کروڑ لعل عیسن کے نام سے ایک شہر ہے، اس شہر کی مغربی جانب 3 کلومیٹر کے فاصلہ پر حافظ آباد گاؤں ہے۔اس گاؤں سے میرا تعلق ہے۔
ہم دادکے خاندان کی طرف سے بریلوی مسلک سے تعلق رکھتے تھے۔ اور نانکے خاندان سے دیوبندی مسلک سے وابستہ تھے۔ یعنی دیوبندی اور بریلوی مکس۔۔ہمارے ڈیرے پہ مولانا دوست محمد قریشی صاحب آئے اور ان کے وعظ ونصحیت سے دادکا خاندان بھی دیوبندی مسلک سے وابستہ ہوگیا۔
اللہ کاکرنا ایسا ہوا کہ میرے ماموں جان عمرہ پہ چلے گئے۔ وہاں جب انہوں نے نمازیں پڑھیں، تو رفع الیدین کرنا، اونچی آواز سے آمین کہنا۔وغیرہ جیسے اختلافی مسائل سامنے آئے۔ ماموں نے سوچا کہ ہم تو ایسے لوگوں کے سخت خلاف ہیں۔ لیکن یہاں کعبہ میں بھی رفع الیدین اور آمین وغیرہ۔۔یہ کیا بات ہے؟۔ ماموں نے وہاں پوچھ گوچھ شروع کردی۔ جب واپس آئے تو اہل حدیث بن چکے تھے۔الحمدللہ
واپس آتے ہی ڈیرہ غازیخان حافظ عبد الکریم حفظہ اللہ کے ساتھ مرکز المودۃ میں کام کرنا شروع کردیا۔اور یہاں رہ کر مزید تحقیق وتشفی کرتے رہے۔ اور چند اختلافی مسائل پر دلائل وغیرہ کی چھان بین میں لگے رہے۔
کچھ عرصہ بعد خاندان والوں کو ماموں کے مسلک بارے معلوم ہوگیا۔ جو کہ اُن پر سخت ناگوار گزرا۔ المختصر ماموں نے اپنے بھائیوں یعنی میرے ماموں لوگوں کو چیلنج کردیا کہ جس بھی عالم کو تم اپنا معتبر عالم سمجھتے ہو، اس کو بلا لاؤ، اگر وہ ان مسائل میں میری تشفی قرآن وحدیث کے دلائل سے کرا دے۔ تو میں دوبارہ اپنے مسلک پہ واپس آجاؤں گا۔ ورنہ آپ لوگوں کو اہل حدیث ہونا پڑے گا۔
ان دنوں نانکے گاؤں میں مولانا حافظ عبد الستار تونسوی رحمہ اللہ کا راج تھا۔تونسوی صاحب سے ٹائم لیا گیا۔ ماموں کی اور تونسوی صاحب کی باتیں ہوئیں، نتیجہ یہ نکلا کہ تونسوی صاحب نے کہہ دیا کہ جو یہ کہتا ہے۔ وہ بھی درست ہے۔ اس پر میرے دو ماموں اور اہل حدیث ہوگئے۔گاؤں میں مسجد بنام مسجد محمدی اہل حدیث کی بنیاد رکھی گئی۔ بعد میں اسی کو مدرسہ میں منتقل کردیا گیا۔جس پر ہونے والا تمام خرچ کلیۃ البنات ڈی جی خان والے برداشت کرتے تھے۔
اہل حدیث مسلک پہ لانے کےلیے ماموں نے میرے نانکے اور پھر دادکے خاندان میں بہت محنت کی، اور تمام بچوں کو اسی مدرسہ میں حفظِ قرآن کےلیے داخل کروا دیا۔جن میں میرا نام بھی تھا۔ میں نے الحمد للہ اسی مدرسہ سے قرآنی تعلیم کی ابتداء کی۔ اور ساتھ ہی واقع گورنمنٹ پرائمری سکول میں دنیاوی تعلیم کےحصول کےلیے ایڈمیشن بھی لے لیا۔
تمام بچے صبح قرآن پاک کا سبق پڑھتے تھے، اور پھر سکول ٹائم سکول چلے جاتے۔ پھر شام کی نماز سے عشاء تک قرآن کی کلاس ہوا کرتی تھی۔یوں کرتے کرتے میں نے 1998 میں قرآن پاک حفظ کرلیا اور 1999 میں پانچویں کلاس کے ایگزام کو بھی کلیئر کیا۔الحمدللہ
مدرسہ میں صرف حفظ قرآن کی تعلیم دی جاتی تھی اور سکول پہلے سے ہی پرائمری تھا۔ اس لیے مجھے پھر واپس اپنے گاؤں آنا پڑا۔ صبح گھر پہ ہی منزل پڑھ لیا کرتا تھا۔
2000ء میں چچا نے فوج سے ریٹائر منٹ لی، اور لاہور جامعہ لاہور الاسلامیہ کے قریب ہی دوبارہ نوکری جوائن کرلی۔ مجھے اور میرے کزن کو بھی اپنے ساتھ مزید تعلیم حاصل کروانے کی غرض سے لیتے آئے۔ اور ہمیں 2001ء میں جامعہ لاہور الاسلامیہ میں داخل کرا دیا۔
2001ء سے 2008ء تک جامعہ لاہور الاسلامیہ کےشعبہ کلیۃ القرآن والعلوم الاسلامیہ میں پڑھا۔ وفاق کے امتحان کے بعد استاد محترم قاری حمزہ مدنی صاحب نے مجھے میرے کزن کے واسطے سے بلایا۔ اور مجلس التحقیق الاسلامی میں کام کرنے کو کہا۔۔۔میرا دل خوشی سے باغ باغ ہوگیا۔ کہ مجھے مادر علمی میں ہی کام کرنے کا موقع مل گیا ہے۔ الحمدللہ تب سے آج تک اسی ہی ادارہ میں کام کرتا چلا آرہا ہوں۔
یہاں آکر سب سے پہلے میں نے استاد محترم قاری اختر علی ارشد صاحب کے ساتھ ملکر محدث لائبریری پہ کام شروع کیا۔اور شاکر بھائی کے ساتھ بھی ان دونوں تھوڑا بہت رابطہ ہوتا تھا۔کسی وجہ سے استاد محترم قاری اختر صاحب تو ادارہ سے چلے گئے۔ ان کےتمام کام مجھے سبنھالنے پڑے، اور ہاں تب تک شاکر بھائی کے ساتھ بھی تعلقات مضبوط ہوچکے تھے۔ اور پھر ادارہ مجلس التحقیق الاسلامی کی ذمہ داری استاد محترم قاری حمزہ صاحب کے بجائے استاد محترم حافظ انس نضر مدنی صاحب کو سونپ دی گئی۔ استاد محترم حافظ انس نضر مدنی صاحب کی خصوصی شفقت ومحبت، شاکر بھائی کے خاص تعاون اور میری کچھ معاونت سے ہم نےمحدث لائبریری کو ترقی دی، پھر محدث فورم کا اجراء کیا گیا، پھر فتویٰ سائٹ منظر عام پر آئی۔اس کے بعد میگزین سائٹ کا بھی اجراء کیا گیا۔اور الحمدللہ یہ چاروں ویب سائٹس آپ قارئین کی نظر میں ہیں۔
اسی ادارہ میں اب منتظمِ اعلیٰ کے سیکرٹری کے طور پہ کام کررہا ہوں۔اور ساتھ ساتھ جاری پراجیکٹ پر بھی ادارہ کی طرف سے دی جانے والی ذمہ داریوں کو نبھا رہا ہوں۔ اور جب تک قسمت ہے، ان شاءاللہ یہاں پر ہی کام کرنے کا جذبہ ہے۔ اللہ تعالی سے مزید دعا بھی کرتا ہوں کہ اللہ تعالی زیادہ سے زیادہ دین کی خدمت کرنے کی توفیق دے۔ آمین ثم آمین
اور ساتھ یہ بھی بتاتا چلوں کہ گاؤں حافظ آباد میں جامع مسجد ام حسنین کے نام سے مسجد بھی بنوائی ہوئی ہے۔ جہاں پر اس وقت 90 کے قریب طلباء وطالبات قرآن پاک کی ناظرہ وحفظ کی تعلیم لے رہے ہیں۔ اس کےلیے اپنے گاؤں کے ہی ایک قاری صاحب کی ڈیوٹی لگائی ہوئی ہے۔۔۔ اور بھرپور کوشش ہے کہ اس مسجد کو بھی مدرسہ وسکول میں منتقل کردیا جائے۔ اللہ تعالیٰ ہی سے توفیق کا سوال ہے۔
نوٹ:
تعارف کو دوبارہ اپ ڈیٹ کیا گیا ہے۔