- شمولیت
- جنوری 08، 2011
- پیغامات
- 6,595
- ری ایکشن اسکور
- 21,397
- پوائنٹ
- 891
تعارُف علم قراء ات… اہم سوالات وجوابات--قسط دوم
حافظ حمزہ مدنی حفظہ اللہ
ماخذ: ماہنامہ رشد: علم قراءت نمبر : حصہ دوم
سوال نمبر20: کیا قراء ات میں ہر ہر حرف کی سندموجود ہے ؟ اور کیا ان کے ثبوت کا ذریعہ قطعی و حتمی ہے؟
جواب: قرآن مجید کی سند ایک ایک آیت کے طور پر یا ایک ایک لفظ کے طور پر یا ایک ایک سورت کے طور پر اس طرح موجود نہیں ہوا کرتی،جس طرح اُسوہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم متعدد احادیث سے ثابت ہوتا ہے اور ساری روایات کو ملا کرواقعہ کی تصویر مکمل کی جاتی ہے۔ اس کی بنیادی وجہ اس سے پہلے ذکر کی جاچکی ہے کہ قرآن مجید ایک نظم میں پرو کر اُمت محمدیہ کو دیا گیاہے، جبکہ سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم اُمت کو اس شکل میں موصول نہیں ہوئی۔ قرآن مجید کو نظم کے اندر پُرو کر دینے کی وجہ صرف یہ ہے کہ قرآن مجید کی تلاوت اُمت کو کرناتھی اور اس تلاوت کو ایک منظم کلام کی صورت دینا ضروری تھا کہ اگر کوئی آدمی آدھ گھنٹہ یاگھنٹہ تلاوت کرنا چاہے تو ایک ترتیب سے پڑھ سکے، جبکہ حدیث میں ایسی کوئی ضرورت موجود نہیں ہے کہ اس کی تلاوت کی جائے، دوسرا فرق وحی باللفظ اور وحی بالمعنی کا ہے۔
رہا یہ مسئلہ کہ کیا قرآن کے ہر ہر حرف یا ہرہر آیت کی کوئی سند ہے ؟ تو یہ بات پچھلی بات سے واضح ہے کہ اس طرح کرکے قرآن مجید کی سند نہیں ہوا کرتی، لیکن امر واقعہ میں ایک بات موجود ہے کہ کسی چیز کو ثابت کرنے کے لیے علماء کے ہاں دو طریقے معروف ہیں :
۱۔ کسی چیز کو بیان کیا جائے اور اس کی سند پیش کردی جائے، جس سے وہ روایت ثابت ہو۔
۲۔ ایک چیز کو مجموعہ روایات کی روشنی میں دیکھا جائے کہ وہ ثابت ہے یا نہیں ، چاہے کسی ایک روایت یا سند کی رو سے وہ غیر ثابت شدہ ہی کیوں نہ ہو۔
اس بحث کے لیے محدثین کے ہاں تواتر کے اندر ایک بحث موجود ہے، جس کا پہلے بھی ذکر کیا جاچکا ہے کہ محدثین قدر مشترک کی بنیاد پر بھی کسی بات کو ثابت کرتے ہیں ، چاہے وہ بات اپنی ذات کے اعتبار سے خبر واحد ہی کیوں نہ ہو۔ اسی طرح بسا اوقات ایک روایت اپنی انفرادی روایت کی جہت سے تو ضعیف ہوتی ہے، لیکن اس روایت کا قدر مشترک والا معنی، جب دیگر روایات سے ثابت ہوجاتاہے تو محدثین اس روایت کو ’حسن لغیرہ‘ کہہ کر یااس روایت کو ’سنداً ضعیف و مفہوماً صحیح‘ کہہ کر قبول کرلیتے ہیں ، جیسا کہ معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کی اجتہاد کے حوالے سے معروف روایت، جس میں انہوں نے فرمایا کہ میں قرآن مجید سے فیصلہ کروں گا اور اگر قرآن میں مجھے فیصلہ نہ ملا تو میں سنت سے فیصلہ کروں گا اور اگر سنت میں حل نہ پاؤں گا تو اپنے اجتہاد کے ساتھ دین میں غور کرکے رائے دوں گا… الخ [سنن الترمذي:۱۳۲۷،أبوداود:۳۵۹۲]، کے بارے میں امام ابن قیم رحمہ اللہ وغیرہ فرماتے ہیں کہ یہ حدیث اگرچہ اپنی سند کے اعتبارسے ثابت نہیں ہے، لیکن اس کے باوجود چونکہ مسئلہ اجتہاد کے بارے میں دین کے اندر بے شمار دلائل موجود ہیں ، اسی وجہ سے اس حدیث کا خلاصہ دیگر احادیث کی تائید کی وجہ سے ثابت ہے۔ بالکل اسی طرح قرآن مجیدکا ایک ایک حرف اور ایک ایک آیت اور ایک ایک لفظ اس قسم کے تواترسے ثابت ہے۔ جیسے سورۃ الفاتحہ کی پہلی آیت ’بسم اﷲ الرحمن الرحیم‘ قراء ات عشرہ کبری کے اَسّی طرق سے ثابت ہے۔ تمام کے تمام طرق میں میں بسم اللہ قدر مشترک کے ساتھ نقل کی گئی ہے۔ یہی حال بعد کی آیات کا ہے۔ الرحمن اور پھر الرحیم اَسّی کے اَسّی طرق میں یوں ہی ثابت ہوا ہے۔ اس طرح سے ایک ایک لفظ، ایک ایک کلمہ کو قدرِمشترک کا تواتر حاصل ہوا ہے اور جن جگہوں پر دو یازائد قراء ات ہیں ،وہاں اسی طرق کو تقسیم کرکے دیکھ لیا جائے۔ اگر دو قراء ات ہیں تو چالیس چالیس کی نسبت سے اسی کوتقسیم کیاجاسکتا ہے اور اگر تین قراء ات ہیں تواَسّی کو۲۶، ۲۶ کی نسبت سے تقریباً تقسیم کیا جاسکتا ہے ۔ اس پہلو سے ہم کہہ سکتے ہیں کہ قرآن کاایک ایک حرف اور ایک ایک شوشہ اپنے ثبوت کے اعتبار سے متواترۃ و ثابت ہے۔
سوال نمبر21: تواتر کی شروط سے کیا مراد ہے اور محدثین اورقراء کے ہاں تواتر میں کیافرق ہے؟ اسی طرح واضح فرمائیے کہ ثبوتِ قرآن کے سلسلہ میں شرطِ تواتر کے حوالے سے قراء اور عام علماء میں کوئی اختلاف ہے؟
جواب: سوال نمبر ۱۸ کے ضمن میں گذر چکا ہے کہ ثبوتِ قراء ات کے لیے کن چیزوں کا ہونا ضروری ہے یا بالفاظ دیگر ثبوتِ قراء ات کا ضابطہ کیا ہے؟اس ضمن میں ہم یہ واضح کرچکے ہیں کہ تواتر کی تعریف کے ضمن میں آئمہ حدیث و ماہرینِ علم المصطح کے ہاں اِختلاف ہے۔
عام متاخرین اہل علم کے ہاں تواتر چار شروط پر مشتمل مجموعہ کا نام ہے، جوکہ یہ ہیں :
۱۔ مارواہ عَدَدٌ کثیرٌ یا ما رَوَاہُ جماعۃٌ یعنی جسے ایک کثیر تعداد یا بالفاظ دیگر ایک جماعت نقل کرے۔
۲۔ یہ افراد اتنے ہوں کہ اس روایت میں جھوٹ کا احتمال ختم ہوجائے۔
۳۔ اس خبر کا ذریعہ حس ہو۔
۴۔ یہ صورت حال جمیع طبقاتِ سند میں موجود رہے ۔
ان چاروں شرائط کو شروطِ تواترکے نام سے بیان کیا جاتاہے۔ ان چاروں شروط کا اگر تجزیہ کیا جائے تو ان کا خلاصہ یہ سامنے آتا ہے کہ تیسری شرط وصفِ عمومی ہے جوکہ خبر واحد ہو یا متواتر دونوں میں مشترک ہے، جبکہ چوتھی شرط بھی کوئی امتیازی شرط نہیں ،کیونکہ وہ سند کی متعدد کڑیوں میں خصوصی معیارِ ثبوت کے تسلسل کے لیے لگائی گئی ہے۔ اگر سند کی کڑیاں زیادہ نہ ہوتیں تو یہ شرط بھی نہ لگائی جاتی۔ باقی رہیں پہلی دو شرطیں ، تو یہ دونوں بظاہر دو محسوس ہوتی ہیں جبکہ حقیقتاً ایک ہی ہیں اور ایک دوسرے سے مربوط ہیں یعنی ما رواہ عدد کثیر یستحیل العادۃ تواطئہم علی الکذب یعنی وہ خبر جس کے ناقلین اس قدر ہوں ، کہ روایت وخبر میں جھوٹ کا احتمال ختم ہوجائے۔ حاصل یہ ہے کہ مذکورہ چاروں شرطوں میں اصل شے علم قطعی کا حصول ہے۔ بعض لوگوں نے اسی وجہ سے شرائطِ تواتر میں ’علم قطعی ‘کومستقلاً پانچویں شرط کے طور پر بھی پیش کیا ہے، جس کی ضرورت نہیں تھی، کیونکہ یہ بات شرط ثانی سے از خود مفہوم ہے۔
واضح رہے کہ تواتر کی مذکورہ تعریف کے قائلین میں سے بھی بعض محتاط اہل علم پہلی شرط کے ضمن میں عددِ کثیر یا ’جماعت‘ کے افراد کی تعیین نہیں کرتے، کیونکہ بسااوقات تھوڑے افراد سے بھی مختلف وجوہات کی بنا پر خبرو روایت میں علم قطعی حاصل ہوجاتا ہے اور بسا اوقات بہت سارے افراد بھی مل جائیں ، تو یقین کامل پیدا نہیں ہوپاتا۔ یہی وجہ ہے کہ تحقیقی مذہب یہی ہے کہ متنوع روایات میں جس عدد سے یقین حاصل ہوجائے پس وہی عدد اُس متعین روایت میں معین عدد قرار پائے گا۔ یہ ممکن نہیں کہ تمام مجموعۂ روایات میں کسی ایک متعین عدد کی تعیین بالعموم کی جاسکے، جیساکہ بعد کے زمانوں میں بعض افراد نے کیا ہے۔
اس تعریف کے بالمقابل محققین اہل علم نے تواتر کی تعریف میں درج بالا تعریفِ تواتر کے خلاصہ یعنی حصولِ علم قطعی کو اصل قرار دیا ہے یعنی ان چار شرطوں کو اصل بنانے کے بجائے ان کے نتیجہ کو اصل بنایا ہے اور کہا ہے کہ ’’ما أفاد القطعی فھو المتواتر‘‘ یعنی جو روایت بھی علم قطعی کافائدہ دے وہ متواتر کہلائے گی، برابر ہے کہ اس میں یہ چار شرطیں پائی جائیں یانہ پائی جائیں ۔ جیساکہ عام طور پر جب یہ چار شرطیں پائی جاتی ہیں تو اس سے بھی علم قطعی حاصل ہوتا ہے اور بسا اوقات جب یہ چار شرطیں نہ پائی جائیں اور روایت خبر واحد کے طریق پر مروی ہو اور صحیح ہو ، اگر وہ کچھ قرائن سے مقرون ہو تو ایسی روایت بھی ماہرین فن حدیث کے ہاں علم قطعی کا فائدہ دیتی ہے۔ الغرض اِن محققین اہل علم کے مطابق تواتر کی تعریف میں اصل شے ’علم قطعی‘ کا حصول ہے، جبکہ بعد ازاں تدوینِ فن تواتر کی ایک ایسی فنی تعریف سامنے آگئی ہے، جو محققین اہل علم کی طرف سے ذکر کردہ تعریف تواتر کے اعتبار سے کچھ خاص ہے، جبکہ محققین والی تعریفِ تواتر میں عمومیت پائی جاتی ہے، جوکہ چار شروط والی متواتر روایت کو لازما اور خبر واحد کو بعض مخصوص صورتوں میں شامل ہوگی۔
اب آتے ہیں اس بحث کی طرف کہ محدثین اور قراء کے ہاں تعریفِ تواتر میں کوئی فرق ہے؟ اسی طرح یہ کہ قراء اور علماء کے مابین ثبوتِ قرآن کے لیے تواتر کی مشروطیت کے بارے میں کیا اختلاف ہے؟
ہمارا کہنا یہ ہے کہ محدثین اور قراء کے یہاں تعریفِ تواتر میں کوئی فرق نہیں ہے اور اسی طرح ان کے مابین ثبوت قرآن کے لیے تواتر کی شرط لگانے میں بھی کوئی اختلاف نہیں ۔ جو تعریف محدثین کرام کے ہاں تواتر کی کی جاتی ہے، اس میں چونکہ محدثین کے ہاں خود دو آراء ہیں ، اسی نسبت سے قراء کرام کے ہاں بھی ثبوتِ قرآن کے ضابطہ کے بیان میں تعبیر کااختلاف ہواہے ۔ عملی بات یہ ہے کہ تمام قراء ، جن کا ثبوتِ قرآن کے ضمن میں تواتر کی شرط لگانے کے بارے میں اختلاف ہے، ان کے ہاں ثبوتِ قرآن کے ضمن میں جس بات کے حوالے سے اتفاق ہے، وہ ایسا ’علم قطعی‘ ہے،جسے محققین اہل علم کے ہاں ’تواتر‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔
محدثین کرام میں تعریفِ تواتر کے حوالے سے موجود اختلاف کو مد نظر نہ رکھنے کی وجہ سے بعض لوگ یہ بات سمجھ رہے ہیں کہ قرآن کے ثبوت کے ضمن میں ’شرط تواتر‘ کے بارے میں قراء حضرات عام علماء سے مختلف رائے رکھتے ہیں ،جبکہ امر واقعہ میں ایسا نہیں ہے۔ عام قراء قرآن مجید کے حوالے سے محققین محدثین، جوکہ تواتر کو علم قطعی سے مربوط کرتے ہیں ، کے موقف کے مطابق یہ رائے رکھتے ہیں کہ قرآن مجیدتواتر یعنی علم قطعی سے ثابت ہے یا بالفاظ دیگریوں کہاجاسکتاہے کہ قراء کے ہاں قرآن مجید کے ثبوت کے لیے’علم قطعی ‘کا حصول ضروری ہے، جو اکثر اوقات عام علمائے محدثین کی تعریفِ تواتر کی رو سے ثابت ہوتا ہے اور بسا اَقات الخبر الواحد المحتف بالقرائن کے قبیل سے ہوتا ہے، جبکہ محققین محدثین کے ہاں اس دوسری صورت کو بھی نتیجہ کے اعتبارسے تواتر ہی سے تعبیر کیا جاتاہے۔ بہرحال آپ تواتر کی دونوں تعریفوں میں کوئی تعریف بھی لے لیں ، ثبوتِ قرآن میں تواتر کی مشروطیت یا عدم مشروطیت کے بارے میں قراء اور علماء کے مابین پایا جانے والا مذکورہ سارا اختلاف لفظی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بعض معاصر اہل علم،جوکہ ثبوت قرآن کے ضمن میں تواتر کی مشروطیت کے بارے میں اختلاف رکھتے ہیں ، وہ بھی موجودہ قراء ات عشرہ کو ’تواتر حکمی‘ سے ضرور ثابت شدہ مانتے ہیں ۔
المختصر قراء کرام کے ہاں بالعموم یہ بات طے شدہ ہے کہ قرآن مجیدکا ثبوت الخبرالواحد المحتف بالقرائن کے ذریعے سے ممکن ہے۔ اب آپ ا یسی خبر کو ’خبرمتواتر‘ کہیں یا ’خبرواحد‘ ، بہرحال قراء کے ہاں یہ مسئلہ متعین ہے کہ قرآن مجید کا ثبوت عام آئمہ حدیث کے ہاں طے کردہ چار شروطِ تواتر سے ہونا ضروری نہیں ہے،بلکہ قرآن مجیدکے ثبوت کے لیے ’علم قطعی‘ ضروری ہے۔ اب اس ’علم قطعی‘ کے حوالے سے آپ محققین محدثین کی تعبیر پیش کریں یا عام محدثین کی، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اس اختلاف کے حوالے سے ہم یہ کہہ سکتے ہیں یہ سارا اختلاف لفظی ہے، چنانچہ قراء کرام کے ہاں بس ایک بات کا تعین ہے کہ قرآن مجید کے ثبوت میں ’’ قطعی الثبوت‘ ذریعہ چاہیے، برابر ہے کہ وہ محققین کی تعریفِ تواتر کے نام سے سامنے آئے یا عام محدثین کی تعریفِ خبر واحد کا مصداق بن کر آئے۔ اس ضمن میں جو باتیں سامنے آتی ہیں اس سے بعض لوگوں کا یہ خیال ہے کہ محدثین اور قراء کے ہاں تواتر کی تعریف میں فرق ہے۔ اسی ضمن میں یہ لوگ سمجھتے ہیں کہ قراء کے مابین بھی ثبوت قرآن کے لیے تواتر کو بطور شرط ماننے میں اتفاق نہیں ، حالانکہ یہ سارا اختلاف مسئلہ کا گہرائی سے جائزہ نہ لینے کا نتیجہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آئمہ قراء ات بھی اس معاملہ میں الجھے ہیں ۔ امام الفن حافظ ابن جزری رحمہ اللہ ، جو علم قراء ات و علم حدیث دونوں کے مسلمہ امام ہیں ، کبھی یہ کہتے ہیں کہ ثبوت قراء ات کے لیے تواتر ضروری ہے اور کبھی کہتے ہیں کہ تواتر کے بجائے اگرقراء ت صحت سند سے ثابت ہوجائے اور وہ لغات عرب و رسم عثمانی کے موافق ہو، نیز اہل فن کے ہاں اسے قبولیت عامہ یعنی تلقّی بالقبول بھی حاصل ہو تو وہ ثابت قرار پائے گی۔ ہم کہتے ہیں کہ دوسری صورت وہی ہے جسے ماہرین علم المصطلح کے بیانات میں الخبر الواحد المحتف بالقرائن کہا جاتا ہے، جس کے بارے میں ان کا اتفاق ہے کہ وہ علم قطعی کا فائدہ دیتی ہے۔
مذکورہ بحث کے ضمن میں یہ بات ضرور مد نظر رہنی چاہیے کہ’علم قطعی‘ یا ’تواتر‘ کے حصول کی کچھ صورتیں ایسی ہیں ، جو علم الحدیث میں نہیں پائی جاتیں ،بلکہ صرف علم القراء ت میں موجود ہیں ، جیساکہ ثبوتِ قراء ات میں ’تواترِ طبقہ‘ کا معاملہ ہے، جس کے بارے میں اہل علم کا کہنا یہ ہے کہ ثبوت میں قوت کے اعتبار سے ایسا تواتر ’تواتر اسنادی‘ سے زیادہ قوی ہوتا ہے۔
سوال نمبر22: کیاقراء کے ہاں خبر واحد سے قرآن مجید ثابت ہوتا ہے؟
جواب: پیچھے وضاحت ہوچکی ہے کہ بنیادی چیز خبر واحد یا خبر متواتر نہیں ہے، بلکہ بنیادی شئے علم قطعی ہے۔ علم قطعی ہی وہ بنیادی شے ہے جو خبر متواتر کا ماحصل ہے اور اگر خبر واحد بھی علم قطعی کا فائدہ دے جائے تو ایسی روایت کو اگر متاخرین کی اصطلاح کے مطابق ’خبر واحد‘ بھی کہہ لیا جائے تو بھی نفس مسئلہ پر کوئی اثر نہیں پڑتا، کیونکہ خبر متواتر کا ماحصل اور خلاصہ بھی ’علم قطعی‘ ہی ہے۔ اگر کوئی ایسی قراء ت، جو کہ خبر واحد سے ثابت ہو، لیکن اس کا ماحصل ’قطعیت‘ ہو تو ایسی روایت اپنے ثبوت میں خبر متواتر کے قریب یااس جیسے مضبوط ذریعہ ہی سے ثابت ہوتی ہے، چنانچہ ہم دونوں تعبیرات کے حوالے سے کوئی تحفظ نہیں رکھتے۔ اگر یہ کہا جائے کہ قرآن مجید کا ثبوت تواتر سے ہوا ہے تو ہم اس بات کو بھی غلط نہیں سمجھتے اور اگر کہا جائے کہ نہیں ! بلکہ قرآن کریم کے ثبوت کے لیے روایتی تواتر (تواتر الاسناد) ضروری نہیں بلکہ ’قطعی روایت‘ کافی ہے تو بھی کوئی حرج نہیں ۔ ہمیں اس قسم کے لفظی اختلاف پر کوئی حساسیت نہیں ۔ اس اعتبار سے ہم کہہ سکتے ہیں کہ محققین محدثین کا تصور تواتر ہو یا عام محدثین کی خبر واحد، جو کہ علم قطعی پرمنتج ہو، دونوں میں اختلاف محض تعبیر کا ہے، جس کا حقیقت پرکوئی اثر نہیں پڑتا۔
سوال نمبر23: بعض لوگوں کاخیال ہے کہ قراء ات کی اجازت اوّلاً تھی، بعد میں منسوخ یا موقوف کردی گئی؟ آپ کا اس بارے میں کیا خیال ہے؟
جواب: بعض منکرین قراء ات، جوکہ ابتدائی دور کے لحاظ سے متنوع قراء ات کو تسلیم کرتے ہیں ، کہتے ہیں کہ ابتدائے اسلام میں قرآن کریم کو مختلف اندازوں میں پڑھنے کی اجازت دی گئی تھی، لیکن بعدازاں اس رخصت کو منسوخ کردیا گیا، کیونکہ جس غرض سے ان قراء ات کو پڑھنے کی اجازت دی گئی تھی وہ غرض پوری چکی تھی، چنانچہ ان قراء ات کو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے صحابہ کی رائے کے ساتھ منسوخ یا موقوف کردیا۔ اس نقطہ نظر کے حاملین کے ہاں بنیادی طور پریہ ذہنیت پائی جاتی ہے کہ شریعت کے وہ احکام، جو مصالح ومقاصد کے پیش نظر دیے گئے ہیں وہ وقتی ہوتے ہیں ،جنہیں مقاصد کے حصول کے بعد منسوخ یا موقوف کیا جاسکتا ہے۔ ان لوگوں کے ہاں عام طور احادیث میں مذکور احکامات اسی قبیل سے ہیں ۔
اس بات کی وضاحت یہ ہے کہ بعض لوگوں کی رائے یہ ہے کہ شرع میں ذکر کردہ مصالح سے متعلق اَحکام صرف نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ کی رعائت اور حالات کے اعتبار سے مشروع کیے گئے تھے، چنانچہ اُس دور کے حالات سے منسلک احکامات بنیادی طور پر شریعت سے خارج ہوتے ہیں ۔ شریعت میں مذکور مصالح،جنہیں اصطلاح اصولیین میں ’مصالح معتبرہ‘ کہتے ہیں ،سے متعلق احکام کے بارے میں ان لوگوں کے ذہن کی بنیاد ی غلطی یہ ہے کہ یہ ان شرعی مصالح کو فقہی واجتہادی مصالح، جنہیں اُصولیوں کی اصطلاح میں ’مصالح مرسلہ‘ کہتے ہیں ، کی طرح سمجھتے ہیں ، حالانکہ اہل سنت کے ہاں شرعی مصلحت دائمی وابدی ، جبکہ فقہی مصلحت وقتی وعارضی ہوتی ہے۔
علمائے اصول کے ہاں ’مصالح مرسلہ‘ کی نوعیت یہ ہوتی ہے کہ تمدن کی تبدیلی سے پیدا شدہ نئے حالات میں فقہاء کرام بسا اوقات شریعت کی کسی نص کے انطباق میں شرعی مقاصد ( شریعت کی بیان کردہ عمومی مصالح) کالحاظ رکھتے ہوئے معاملہ کی نوعیت اور مسئلہ کے ہمہ گیر پہلوؤں کی رعائت میں شریعت میں موجود اس واقعہ سے ملتے جلتے واقعات (نظائر)کے بارے میں وارد شرعی نصوص پر قیاس کرکے اجتہادو استنباط سے کچھ حدود و قیود کا اضافہ یا کمی کردیتے ہیں ۔ تمدن کے نئے تقاضوں سے جو انسانی ضروریات سامنے آتی ہیں ، مجتہد کے لیے شرعی مقاصد اور تعلیمات دین کی روشنی میں ان کی رعائت کرنا شارع کا مطلوب ہے، جسے ’اجتہاد‘ کے مبارک عمل سے پورا کیا جاتا ہے۔ فقہاء کے استنباطات و اجتہادی آراء کا شرعی نصوص واحکام سے بنیادی ترین فرق یہ ہے کہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم چونکہ خاتم النبیین ہیں ، اسی لیے آپ کی لائی ہوئی شریعت بھی ابدی ہے، جسے منسوخ یا موقوف کرکے اب نئی شریعت قیامت تک نہیں لائی جاسکتی، برابر ہے کہ وہ کسی نئے حکم کے وجود میں لانے کی صورت میں ہو یاشریعت میں پہلے سے موجود کسی حکم کو ختم کرنے کے کی شکل میں ، لہٰذا شریعت میں مذکور مصالح ورخصتیں بھی روزِ اول سے دائمی حیثیت ہی رکھتی ہیں ، جبکہ فقہاء کے ذکر کردہ مصالح کی حیثیت بہرحال یہ نہیں ہے۔
الغرض اجتہاد کے بنیادی مفہوم میں یہ بات شامل ہے کہ یہ شرع کے اندر ہوتا ہے، باہر نہیں اور یہ شرع کے نسخ کا نام نہیں ، بلکہ اس کا کام نئے تمدنی تقاضوں کے لیے شریعت کی توضیح وتشریح کرنا ہے، چنانچہ شرع میں جن مقاصد اور جزوی یا کلی مصالح کو سامنے رکھ شرعی احکام دیے گئے ہیں ، اب قیامت تک آنے والے انسانوں کے مصالح کا ایک خلاصہ سامنے رکھتے ہوئے ان شرعی احکام کی صورت میں اللہ تعالیٰ نے اپنی ابدی ہدایت پیش کردی ہے، جس میں قیامت تک تمام زمانوں اور لوگوں کی جمیع ضروریات اور طبعی وتمدنی تقاضوں کا لحاظ کرلیا گیا ہے۔یہ کہنا کہ اللہ علیم وخبیرنے جن مقاصد ومصالح کی رعائت کرکے اپنے علم وحکمت کی روشنی میں جو احکامات پیش کردئیے ہیں ، بعد کے زمانوں کے بعض مصالح کی ان میں رعائت نہیں کی گئی انتہائی خطرناک بات ہے۔ اس تناظر میں ہمارا کام بس یہی ہے کہ ہم اپنے مخصوص علاقائی اور وقتی تقاضوں کی رعائت میں شرع کی روشنی میں اپنے مسائل کا حل تلاش کریں ۔اس صورت میں جو فقہی واستنباطی راہنمائی سامنے آئی گی وہ بھی علاقائی اور وقتی ہی ہوگی، اسے ابدی اور کلی قرار دینا انتہائی غلط ہوگا۔ عالمگیریت اور ابدیت صرف شرعی احکامات کا خاصہ ہے، فقہی واجتہادی احکام کی یہ صفت نہیں ہے۔ اسی لیے علمائے اصول کے ہاں شرعی مصلحت کو ’حکمت‘ کہا جاتا ہے، جو رب حکیم کی صفتِ علیم وخبیر کی روشن مثال ہوتی ہے، جبکہ انسانی مصلحت کو ’حکمت‘ کے بجائے ا’جتہادی مصلحت‘ کی متوازی اصطلاح سے بیان کیا جاتا ہے۔ شریعت کی اسی عالمگیریت اور جامعیت کو واضح کرنے کے لیے شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے معارج الوصول فی بیان أنَّ أصولَ الدِّین وفروعَہ قد بیَّنہ الرّسولﷺ کے نام سے ایک کتاب بھی لکھی ہے، جس کا مطالعہ اس ضمن میں انتہائی مفید ہوگا۔
مذکورہ تمہید ی باتوں کے بعد اب ہم آتے ہیں سوال کے جواب کی طرف تو میں واضح کرنا چاہوں گا کہ منکرین قراء ات، جن کی اپنی دینی بنیادیں مضبوط نہیں ، انہوں نے فقہی مصلحت کے انداز پر قراء ات کی توجیہ کرنے کی کوشش کی ہے۔ یہ لوگ کہتے ہیں کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پرجو قرآن نازل ہوا تھا، وہ تو بنیادی طور پر ایک ہی وجہ یا ایک ہی لہجہ کے ساتھ نازل ہوا تھا لیکن محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے متاخرین فقہاء کی طرح قرآن مجید کے اندر لوگوں کی مشکلات یامصلحت وحکمت کی پیش نظر کچھ چیزوں کی گنجائش اپنی طرف سے دے دی تھی۔ ہمارے نقطہ نظر کے مطابق یہ بات اس لیے صحیح نہیں ہے کہ اگر یہ معاملہ ایسے بھی ہو، جیسے ذکر کیا جارہا ہے تو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اگر کوئی بات قرآن یاسنت میں اپنے اجتہاد کی پیش نظر کہیں تو اہل سنت والجماعۃ کے عقیدے کے مطابق چونکہ اس کے اوپر وحی کی نگرانی ہوتی ہے،چنانچہ وہ چیز نتیجتاً وحی بن جاتی ہے، جیسے کہ کنَّا نعزِل والقرآن ینزل[صحیح مسلم:۱۴۴۰] کی مثال ہے۔ اب صحابہ رضی اللہ عنہم اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے تو عزل نہیں کیا کرتے تھے، لیکن زمانہ نزول وحی میں صحابہ رضی اللہ عنہم کا عزل کرنا اور قرآن مجید کا نازل ہونا اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کااس پرخاموش رہنا یہ خود ایک تقریری حدیث کی بنیاد ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس نوع کو اپنی جامع صحیح کے کتاب الاعتصام میں باقاعدہ ایک باب قائم کرکے واضح کیا ہے۔
اس بات کو ایک اور انداز سے یوں بھی سمجھا جاسکتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خاموشی سے شرعی حکم کے قرار (تقریر) پاجانے کی اصل توجیہہ یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سکوت کا معنی یہ بنتا ہے کہ خود اللہ تعالیٰ نے اُس بات پر سکوت فرمایا ہے، جس پر آپ خاموش رہے ہیں ، گویاکہ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس بات کی تصدیق ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کو قبول فرماتے ہیں ، جیساکہ روایات میں موجود ہے کہ بسا اوقات محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اجتہاد فرمایا، لیکن اللہ تعالیٰ نے ان کے اجتہاد کے حوالے سے جو کمزوری کاپہلو تھا اسے بیان فرمادیا، تو اگر اللہ تعالیٰ کمزوری کو بیان فرمادیں تو ایسی صورت میں وہ چیز شریعت نہیں بنتی، لیکن اگر واضح نہ فرمائیں تو ایسی صورت میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی خاموشی سے وہ شے شریعت قرار پاجاتی ہے، جسے اصطلاحا تقریر کہا جاتا ہے، جبکہ اللہ تعالیٰ کاکسی چیز پرخاموش رہ جانے سے جو شے ٹھیک قرار پاتی ہے اسے اِصطلاحا ’استصواب‘ کہا جاتا ہے۔
الغرض جب یہ مقدمہ متعین ہوگیاتو اس حوالے سے یہ سوال کرنا بنیادی طور پر درست نہیں رہتا کہ قراء ات کی اجازت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اجتہاد سے دی تھی اورجب یہ مشکل ختم ہوگئی تو پھر اس اجازت کو بعد از اں حضرت عثمان نے صحابہ سمیت یا بالفاظ دیگر امت نے ختم (منسوخ یا موقوف) کردیا۔ یہ بات اس لیے غلط ہے کہ ان قراء ات کی اجازت وحی سے ملی تھی، وحی کا ذریعہ صراحتاً اللہ کی طرف سے نزول کاہو یا وحی کا تعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اجتہاد اور اس پر اللہ کی تصویب کے قبیل سے ہو، ہر دو صورت میں اس گنجائش کوختم کرنے کے لیے وحی ہی سے نسخ ثابت کرنا ضروری ہے اور اگر وحی سے اس کانسخ ثابت نہ کیاجاسکے تو کسی بنیاد پر یہ نہیں کہا جاسکتا کہ جیسے ہمارے ہاں مصالح مرسلہ اور سد الذرائع کی مباحث چلتی ہیں اور حالات کے تحت اگر پیش نظر وقتی وعارضی مشاکل و مصالح ختم ہوجائیں تو ہم ان اجتہادی آراء کو ختم کردیتے ہیں یا نئے حالات کے مطابق بدل دیتے ہیں ، تو دین و شریعت کی مباحث میں بھی اسی طرح کا معاملہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ اور صحابہ رضی اللہ عنہم نے کیا تھا۔ امام ابن حزم رحمہ اللہ نے الإحکام فی أصول الأحکام اور الفصل فی المِلَل والاھواء والنَّحل میں اس قسم کے عقیدے کو شدید ترین گمراہی قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ اور صحابہ رضی اللہ عنہم نے قطعا ایسا نہیں کیا، بلکہ اگر وہ یوں کرتے تو اس عمل سے ملت اسلامیہ سے خارج ہوجاتے۔[الاحکام:۱؍۵۶۵]
اگر اس معاملے کو کسی اصول کے طور پر تسلیم کرلیا جائے تو دین حنیف کے بے شمار وہ احکامات، جو اللہ تعالیٰ نے قیامت تک کی مشاکل کو سامنے رکھتے ہوئے رخصتوں کے ضمن میں پیش کیے ہیں ، ان کے بارے میں ملحدین کویہ کہنے کا موقعہ مل جائے گا کہ جب وہ مشاکل ومصالح ختم ہوجائیں یاحالات کا پس منظر بدل جائے تو دین کے اس قسم کے اَحکامات کو اجماعی یا انفرادی اجتہاد سے ختم کیا جاسکتاہے۔ ایسا عقیدہ رکھنا اللہ کے علم وحکمت کے اوپر صریح اعتراض اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ختم نبوت کے واضح انکار کے مترادف ہے۔ منکرین حدیث نے اسی مکروفریب سے قرآن میں خصوصا اور حدیثوں میں عموما وارد شدہ بے شمار جزئی احکامات کا اپنے تئیں انکار یا اجتہاد کے نام پر نسخ کرڈالا ہے، جیسے قتال کا انکار، کتاب وسنت میں وارد شدہ حدود وتعزیرات کا انکار، حجاب کا انکار، اسبالِ ازار کا جواز، ڈارھی کا انکار، تصویر اور بت سازی کا جواز اور دیگر وہ کچھ جس سے پورے دین اسلام کا نقشہ الٹ کر رہ گیا ہے اور ایک نئے سیکولر اور لبرل اسلام کی تصویر سامنے آرہی ہے۔میں اس ضمن میں قرآن مجید میں وارد شدہ اللہ تعالی کا یہ ارشاد پیش کرنا ہی بیان کے لیے کافی سمجھتا ہوں :
{لٰکِنِ اللّٰہ یَشْہَدُبِمَا أنْزِلَ اِلَیْکَ أنْزَلَہٗ بِعِلْمِہٖ وَالمَلٰئِکَۃُ یَشْہَدُوْنَوَکَفیٰ بِاللّٰہِ شَہِیْدًا }[النساء:۱۶۶]
نوٹ کرنے کی بات یہ ہے کہ کسی شے کو ثابت کرنے کے لیے اللہ تعالی کو کسی ذات، تمام جن وانس حتی کہ تمام فرشتوں تک کی حاجت نہیں ، چہ جائیکہ ایک شے کو اللہ بطور اپنے حکم کے پیش کردیں اور سمجھا جائے کہ اللہ کے حکم کو پوری امت مل کر ختم کرسکتی ہے۔
سوال نمبر20: کیا قراء ات میں ہر ہر حرف کی سندموجود ہے ؟ اور کیا ان کے ثبوت کا ذریعہ قطعی و حتمی ہے؟
جواب: قرآن مجید کی سند ایک ایک آیت کے طور پر یا ایک ایک لفظ کے طور پر یا ایک ایک سورت کے طور پر اس طرح موجود نہیں ہوا کرتی،جس طرح اُسوہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم متعدد احادیث سے ثابت ہوتا ہے اور ساری روایات کو ملا کرواقعہ کی تصویر مکمل کی جاتی ہے۔ اس کی بنیادی وجہ اس سے پہلے ذکر کی جاچکی ہے کہ قرآن مجید ایک نظم میں پرو کر اُمت محمدیہ کو دیا گیاہے، جبکہ سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم اُمت کو اس شکل میں موصول نہیں ہوئی۔ قرآن مجید کو نظم کے اندر پُرو کر دینے کی وجہ صرف یہ ہے کہ قرآن مجید کی تلاوت اُمت کو کرناتھی اور اس تلاوت کو ایک منظم کلام کی صورت دینا ضروری تھا کہ اگر کوئی آدمی آدھ گھنٹہ یاگھنٹہ تلاوت کرنا چاہے تو ایک ترتیب سے پڑھ سکے، جبکہ حدیث میں ایسی کوئی ضرورت موجود نہیں ہے کہ اس کی تلاوت کی جائے، دوسرا فرق وحی باللفظ اور وحی بالمعنی کا ہے۔
رہا یہ مسئلہ کہ کیا قرآن کے ہر ہر حرف یا ہرہر آیت کی کوئی سند ہے ؟ تو یہ بات پچھلی بات سے واضح ہے کہ اس طرح کرکے قرآن مجید کی سند نہیں ہوا کرتی، لیکن امر واقعہ میں ایک بات موجود ہے کہ کسی چیز کو ثابت کرنے کے لیے علماء کے ہاں دو طریقے معروف ہیں :
۱۔ کسی چیز کو بیان کیا جائے اور اس کی سند پیش کردی جائے، جس سے وہ روایت ثابت ہو۔
۲۔ ایک چیز کو مجموعہ روایات کی روشنی میں دیکھا جائے کہ وہ ثابت ہے یا نہیں ، چاہے کسی ایک روایت یا سند کی رو سے وہ غیر ثابت شدہ ہی کیوں نہ ہو۔
اس بحث کے لیے محدثین کے ہاں تواتر کے اندر ایک بحث موجود ہے، جس کا پہلے بھی ذکر کیا جاچکا ہے کہ محدثین قدر مشترک کی بنیاد پر بھی کسی بات کو ثابت کرتے ہیں ، چاہے وہ بات اپنی ذات کے اعتبار سے خبر واحد ہی کیوں نہ ہو۔ اسی طرح بسا اوقات ایک روایت اپنی انفرادی روایت کی جہت سے تو ضعیف ہوتی ہے، لیکن اس روایت کا قدر مشترک والا معنی، جب دیگر روایات سے ثابت ہوجاتاہے تو محدثین اس روایت کو ’حسن لغیرہ‘ کہہ کر یااس روایت کو ’سنداً ضعیف و مفہوماً صحیح‘ کہہ کر قبول کرلیتے ہیں ، جیسا کہ معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کی اجتہاد کے حوالے سے معروف روایت، جس میں انہوں نے فرمایا کہ میں قرآن مجید سے فیصلہ کروں گا اور اگر قرآن میں مجھے فیصلہ نہ ملا تو میں سنت سے فیصلہ کروں گا اور اگر سنت میں حل نہ پاؤں گا تو اپنے اجتہاد کے ساتھ دین میں غور کرکے رائے دوں گا… الخ [سنن الترمذي:۱۳۲۷،أبوداود:۳۵۹۲]، کے بارے میں امام ابن قیم رحمہ اللہ وغیرہ فرماتے ہیں کہ یہ حدیث اگرچہ اپنی سند کے اعتبارسے ثابت نہیں ہے، لیکن اس کے باوجود چونکہ مسئلہ اجتہاد کے بارے میں دین کے اندر بے شمار دلائل موجود ہیں ، اسی وجہ سے اس حدیث کا خلاصہ دیگر احادیث کی تائید کی وجہ سے ثابت ہے۔ بالکل اسی طرح قرآن مجیدکا ایک ایک حرف اور ایک ایک آیت اور ایک ایک لفظ اس قسم کے تواترسے ثابت ہے۔ جیسے سورۃ الفاتحہ کی پہلی آیت ’بسم اﷲ الرحمن الرحیم‘ قراء ات عشرہ کبری کے اَسّی طرق سے ثابت ہے۔ تمام کے تمام طرق میں میں بسم اللہ قدر مشترک کے ساتھ نقل کی گئی ہے۔ یہی حال بعد کی آیات کا ہے۔ الرحمن اور پھر الرحیم اَسّی کے اَسّی طرق میں یوں ہی ثابت ہوا ہے۔ اس طرح سے ایک ایک لفظ، ایک ایک کلمہ کو قدرِمشترک کا تواتر حاصل ہوا ہے اور جن جگہوں پر دو یازائد قراء ات ہیں ،وہاں اسی طرق کو تقسیم کرکے دیکھ لیا جائے۔ اگر دو قراء ات ہیں تو چالیس چالیس کی نسبت سے اسی کوتقسیم کیاجاسکتا ہے اور اگر تین قراء ات ہیں تواَسّی کو۲۶، ۲۶ کی نسبت سے تقریباً تقسیم کیا جاسکتا ہے ۔ اس پہلو سے ہم کہہ سکتے ہیں کہ قرآن کاایک ایک حرف اور ایک ایک شوشہ اپنے ثبوت کے اعتبار سے متواترۃ و ثابت ہے۔
سوال نمبر21: تواتر کی شروط سے کیا مراد ہے اور محدثین اورقراء کے ہاں تواتر میں کیافرق ہے؟ اسی طرح واضح فرمائیے کہ ثبوتِ قرآن کے سلسلہ میں شرطِ تواتر کے حوالے سے قراء اور عام علماء میں کوئی اختلاف ہے؟
جواب: سوال نمبر ۱۸ کے ضمن میں گذر چکا ہے کہ ثبوتِ قراء ات کے لیے کن چیزوں کا ہونا ضروری ہے یا بالفاظ دیگر ثبوتِ قراء ات کا ضابطہ کیا ہے؟اس ضمن میں ہم یہ واضح کرچکے ہیں کہ تواتر کی تعریف کے ضمن میں آئمہ حدیث و ماہرینِ علم المصطح کے ہاں اِختلاف ہے۔
عام متاخرین اہل علم کے ہاں تواتر چار شروط پر مشتمل مجموعہ کا نام ہے، جوکہ یہ ہیں :
۱۔ مارواہ عَدَدٌ کثیرٌ یا ما رَوَاہُ جماعۃٌ یعنی جسے ایک کثیر تعداد یا بالفاظ دیگر ایک جماعت نقل کرے۔
۲۔ یہ افراد اتنے ہوں کہ اس روایت میں جھوٹ کا احتمال ختم ہوجائے۔
۳۔ اس خبر کا ذریعہ حس ہو۔
۴۔ یہ صورت حال جمیع طبقاتِ سند میں موجود رہے ۔
ان چاروں شرائط کو شروطِ تواترکے نام سے بیان کیا جاتاہے۔ ان چاروں شروط کا اگر تجزیہ کیا جائے تو ان کا خلاصہ یہ سامنے آتا ہے کہ تیسری شرط وصفِ عمومی ہے جوکہ خبر واحد ہو یا متواتر دونوں میں مشترک ہے، جبکہ چوتھی شرط بھی کوئی امتیازی شرط نہیں ،کیونکہ وہ سند کی متعدد کڑیوں میں خصوصی معیارِ ثبوت کے تسلسل کے لیے لگائی گئی ہے۔ اگر سند کی کڑیاں زیادہ نہ ہوتیں تو یہ شرط بھی نہ لگائی جاتی۔ باقی رہیں پہلی دو شرطیں ، تو یہ دونوں بظاہر دو محسوس ہوتی ہیں جبکہ حقیقتاً ایک ہی ہیں اور ایک دوسرے سے مربوط ہیں یعنی ما رواہ عدد کثیر یستحیل العادۃ تواطئہم علی الکذب یعنی وہ خبر جس کے ناقلین اس قدر ہوں ، کہ روایت وخبر میں جھوٹ کا احتمال ختم ہوجائے۔ حاصل یہ ہے کہ مذکورہ چاروں شرطوں میں اصل شے علم قطعی کا حصول ہے۔ بعض لوگوں نے اسی وجہ سے شرائطِ تواتر میں ’علم قطعی ‘کومستقلاً پانچویں شرط کے طور پر بھی پیش کیا ہے، جس کی ضرورت نہیں تھی، کیونکہ یہ بات شرط ثانی سے از خود مفہوم ہے۔
واضح رہے کہ تواتر کی مذکورہ تعریف کے قائلین میں سے بھی بعض محتاط اہل علم پہلی شرط کے ضمن میں عددِ کثیر یا ’جماعت‘ کے افراد کی تعیین نہیں کرتے، کیونکہ بسااوقات تھوڑے افراد سے بھی مختلف وجوہات کی بنا پر خبرو روایت میں علم قطعی حاصل ہوجاتا ہے اور بسا اوقات بہت سارے افراد بھی مل جائیں ، تو یقین کامل پیدا نہیں ہوپاتا۔ یہی وجہ ہے کہ تحقیقی مذہب یہی ہے کہ متنوع روایات میں جس عدد سے یقین حاصل ہوجائے پس وہی عدد اُس متعین روایت میں معین عدد قرار پائے گا۔ یہ ممکن نہیں کہ تمام مجموعۂ روایات میں کسی ایک متعین عدد کی تعیین بالعموم کی جاسکے، جیساکہ بعد کے زمانوں میں بعض افراد نے کیا ہے۔
اس تعریف کے بالمقابل محققین اہل علم نے تواتر کی تعریف میں درج بالا تعریفِ تواتر کے خلاصہ یعنی حصولِ علم قطعی کو اصل قرار دیا ہے یعنی ان چار شرطوں کو اصل بنانے کے بجائے ان کے نتیجہ کو اصل بنایا ہے اور کہا ہے کہ ’’ما أفاد القطعی فھو المتواتر‘‘ یعنی جو روایت بھی علم قطعی کافائدہ دے وہ متواتر کہلائے گی، برابر ہے کہ اس میں یہ چار شرطیں پائی جائیں یانہ پائی جائیں ۔ جیساکہ عام طور پر جب یہ چار شرطیں پائی جاتی ہیں تو اس سے بھی علم قطعی حاصل ہوتا ہے اور بسا اوقات جب یہ چار شرطیں نہ پائی جائیں اور روایت خبر واحد کے طریق پر مروی ہو اور صحیح ہو ، اگر وہ کچھ قرائن سے مقرون ہو تو ایسی روایت بھی ماہرین فن حدیث کے ہاں علم قطعی کا فائدہ دیتی ہے۔ الغرض اِن محققین اہل علم کے مطابق تواتر کی تعریف میں اصل شے ’علم قطعی‘ کا حصول ہے، جبکہ بعد ازاں تدوینِ فن تواتر کی ایک ایسی فنی تعریف سامنے آگئی ہے، جو محققین اہل علم کی طرف سے ذکر کردہ تعریف تواتر کے اعتبار سے کچھ خاص ہے، جبکہ محققین والی تعریفِ تواتر میں عمومیت پائی جاتی ہے، جوکہ چار شروط والی متواتر روایت کو لازما اور خبر واحد کو بعض مخصوص صورتوں میں شامل ہوگی۔
اب آتے ہیں اس بحث کی طرف کہ محدثین اور قراء کے ہاں تعریفِ تواتر میں کوئی فرق ہے؟ اسی طرح یہ کہ قراء اور علماء کے مابین ثبوتِ قرآن کے لیے تواتر کی مشروطیت کے بارے میں کیا اختلاف ہے؟
ہمارا کہنا یہ ہے کہ محدثین اور قراء کے یہاں تعریفِ تواتر میں کوئی فرق نہیں ہے اور اسی طرح ان کے مابین ثبوت قرآن کے لیے تواتر کی شرط لگانے میں بھی کوئی اختلاف نہیں ۔ جو تعریف محدثین کرام کے ہاں تواتر کی کی جاتی ہے، اس میں چونکہ محدثین کے ہاں خود دو آراء ہیں ، اسی نسبت سے قراء کرام کے ہاں بھی ثبوتِ قرآن کے ضابطہ کے بیان میں تعبیر کااختلاف ہواہے ۔ عملی بات یہ ہے کہ تمام قراء ، جن کا ثبوتِ قرآن کے ضمن میں تواتر کی شرط لگانے کے بارے میں اختلاف ہے، ان کے ہاں ثبوتِ قرآن کے ضمن میں جس بات کے حوالے سے اتفاق ہے، وہ ایسا ’علم قطعی‘ ہے،جسے محققین اہل علم کے ہاں ’تواتر‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔
محدثین کرام میں تعریفِ تواتر کے حوالے سے موجود اختلاف کو مد نظر نہ رکھنے کی وجہ سے بعض لوگ یہ بات سمجھ رہے ہیں کہ قرآن کے ثبوت کے ضمن میں ’شرط تواتر‘ کے بارے میں قراء حضرات عام علماء سے مختلف رائے رکھتے ہیں ،جبکہ امر واقعہ میں ایسا نہیں ہے۔ عام قراء قرآن مجید کے حوالے سے محققین محدثین، جوکہ تواتر کو علم قطعی سے مربوط کرتے ہیں ، کے موقف کے مطابق یہ رائے رکھتے ہیں کہ قرآن مجیدتواتر یعنی علم قطعی سے ثابت ہے یا بالفاظ دیگریوں کہاجاسکتاہے کہ قراء کے ہاں قرآن مجید کے ثبوت کے لیے’علم قطعی ‘کا حصول ضروری ہے، جو اکثر اوقات عام علمائے محدثین کی تعریفِ تواتر کی رو سے ثابت ہوتا ہے اور بسا اَقات الخبر الواحد المحتف بالقرائن کے قبیل سے ہوتا ہے، جبکہ محققین محدثین کے ہاں اس دوسری صورت کو بھی نتیجہ کے اعتبارسے تواتر ہی سے تعبیر کیا جاتاہے۔ بہرحال آپ تواتر کی دونوں تعریفوں میں کوئی تعریف بھی لے لیں ، ثبوتِ قرآن میں تواتر کی مشروطیت یا عدم مشروطیت کے بارے میں قراء اور علماء کے مابین پایا جانے والا مذکورہ سارا اختلاف لفظی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بعض معاصر اہل علم،جوکہ ثبوت قرآن کے ضمن میں تواتر کی مشروطیت کے بارے میں اختلاف رکھتے ہیں ، وہ بھی موجودہ قراء ات عشرہ کو ’تواتر حکمی‘ سے ضرور ثابت شدہ مانتے ہیں ۔
المختصر قراء کرام کے ہاں بالعموم یہ بات طے شدہ ہے کہ قرآن مجیدکا ثبوت الخبرالواحد المحتف بالقرائن کے ذریعے سے ممکن ہے۔ اب آپ ا یسی خبر کو ’خبرمتواتر‘ کہیں یا ’خبرواحد‘ ، بہرحال قراء کے ہاں یہ مسئلہ متعین ہے کہ قرآن مجید کا ثبوت عام آئمہ حدیث کے ہاں طے کردہ چار شروطِ تواتر سے ہونا ضروری نہیں ہے،بلکہ قرآن مجیدکے ثبوت کے لیے ’علم قطعی‘ ضروری ہے۔ اب اس ’علم قطعی‘ کے حوالے سے آپ محققین محدثین کی تعبیر پیش کریں یا عام محدثین کی، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اس اختلاف کے حوالے سے ہم یہ کہہ سکتے ہیں یہ سارا اختلاف لفظی ہے، چنانچہ قراء کرام کے ہاں بس ایک بات کا تعین ہے کہ قرآن مجید کے ثبوت میں ’’ قطعی الثبوت‘ ذریعہ چاہیے، برابر ہے کہ وہ محققین کی تعریفِ تواتر کے نام سے سامنے آئے یا عام محدثین کی تعریفِ خبر واحد کا مصداق بن کر آئے۔ اس ضمن میں جو باتیں سامنے آتی ہیں اس سے بعض لوگوں کا یہ خیال ہے کہ محدثین اور قراء کے ہاں تواتر کی تعریف میں فرق ہے۔ اسی ضمن میں یہ لوگ سمجھتے ہیں کہ قراء کے مابین بھی ثبوت قرآن کے لیے تواتر کو بطور شرط ماننے میں اتفاق نہیں ، حالانکہ یہ سارا اختلاف مسئلہ کا گہرائی سے جائزہ نہ لینے کا نتیجہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آئمہ قراء ات بھی اس معاملہ میں الجھے ہیں ۔ امام الفن حافظ ابن جزری رحمہ اللہ ، جو علم قراء ات و علم حدیث دونوں کے مسلمہ امام ہیں ، کبھی یہ کہتے ہیں کہ ثبوت قراء ات کے لیے تواتر ضروری ہے اور کبھی کہتے ہیں کہ تواتر کے بجائے اگرقراء ت صحت سند سے ثابت ہوجائے اور وہ لغات عرب و رسم عثمانی کے موافق ہو، نیز اہل فن کے ہاں اسے قبولیت عامہ یعنی تلقّی بالقبول بھی حاصل ہو تو وہ ثابت قرار پائے گی۔ ہم کہتے ہیں کہ دوسری صورت وہی ہے جسے ماہرین علم المصطلح کے بیانات میں الخبر الواحد المحتف بالقرائن کہا جاتا ہے، جس کے بارے میں ان کا اتفاق ہے کہ وہ علم قطعی کا فائدہ دیتی ہے۔
مذکورہ بحث کے ضمن میں یہ بات ضرور مد نظر رہنی چاہیے کہ’علم قطعی‘ یا ’تواتر‘ کے حصول کی کچھ صورتیں ایسی ہیں ، جو علم الحدیث میں نہیں پائی جاتیں ،بلکہ صرف علم القراء ت میں موجود ہیں ، جیساکہ ثبوتِ قراء ات میں ’تواترِ طبقہ‘ کا معاملہ ہے، جس کے بارے میں اہل علم کا کہنا یہ ہے کہ ثبوت میں قوت کے اعتبار سے ایسا تواتر ’تواتر اسنادی‘ سے زیادہ قوی ہوتا ہے۔
سوال نمبر22: کیاقراء کے ہاں خبر واحد سے قرآن مجید ثابت ہوتا ہے؟
جواب: پیچھے وضاحت ہوچکی ہے کہ بنیادی چیز خبر واحد یا خبر متواتر نہیں ہے، بلکہ بنیادی شئے علم قطعی ہے۔ علم قطعی ہی وہ بنیادی شے ہے جو خبر متواتر کا ماحصل ہے اور اگر خبر واحد بھی علم قطعی کا فائدہ دے جائے تو ایسی روایت کو اگر متاخرین کی اصطلاح کے مطابق ’خبر واحد‘ بھی کہہ لیا جائے تو بھی نفس مسئلہ پر کوئی اثر نہیں پڑتا، کیونکہ خبر متواتر کا ماحصل اور خلاصہ بھی ’علم قطعی‘ ہی ہے۔ اگر کوئی ایسی قراء ت، جو کہ خبر واحد سے ثابت ہو، لیکن اس کا ماحصل ’قطعیت‘ ہو تو ایسی روایت اپنے ثبوت میں خبر متواتر کے قریب یااس جیسے مضبوط ذریعہ ہی سے ثابت ہوتی ہے، چنانچہ ہم دونوں تعبیرات کے حوالے سے کوئی تحفظ نہیں رکھتے۔ اگر یہ کہا جائے کہ قرآن مجید کا ثبوت تواتر سے ہوا ہے تو ہم اس بات کو بھی غلط نہیں سمجھتے اور اگر کہا جائے کہ نہیں ! بلکہ قرآن کریم کے ثبوت کے لیے روایتی تواتر (تواتر الاسناد) ضروری نہیں بلکہ ’قطعی روایت‘ کافی ہے تو بھی کوئی حرج نہیں ۔ ہمیں اس قسم کے لفظی اختلاف پر کوئی حساسیت نہیں ۔ اس اعتبار سے ہم کہہ سکتے ہیں کہ محققین محدثین کا تصور تواتر ہو یا عام محدثین کی خبر واحد، جو کہ علم قطعی پرمنتج ہو، دونوں میں اختلاف محض تعبیر کا ہے، جس کا حقیقت پرکوئی اثر نہیں پڑتا۔
سوال نمبر23: بعض لوگوں کاخیال ہے کہ قراء ات کی اجازت اوّلاً تھی، بعد میں منسوخ یا موقوف کردی گئی؟ آپ کا اس بارے میں کیا خیال ہے؟
جواب: بعض منکرین قراء ات، جوکہ ابتدائی دور کے لحاظ سے متنوع قراء ات کو تسلیم کرتے ہیں ، کہتے ہیں کہ ابتدائے اسلام میں قرآن کریم کو مختلف اندازوں میں پڑھنے کی اجازت دی گئی تھی، لیکن بعدازاں اس رخصت کو منسوخ کردیا گیا، کیونکہ جس غرض سے ان قراء ات کو پڑھنے کی اجازت دی گئی تھی وہ غرض پوری چکی تھی، چنانچہ ان قراء ات کو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے صحابہ کی رائے کے ساتھ منسوخ یا موقوف کردیا۔ اس نقطہ نظر کے حاملین کے ہاں بنیادی طور پریہ ذہنیت پائی جاتی ہے کہ شریعت کے وہ احکام، جو مصالح ومقاصد کے پیش نظر دیے گئے ہیں وہ وقتی ہوتے ہیں ،جنہیں مقاصد کے حصول کے بعد منسوخ یا موقوف کیا جاسکتا ہے۔ ان لوگوں کے ہاں عام طور احادیث میں مذکور احکامات اسی قبیل سے ہیں ۔
اس بات کی وضاحت یہ ہے کہ بعض لوگوں کی رائے یہ ہے کہ شرع میں ذکر کردہ مصالح سے متعلق اَحکام صرف نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ کی رعائت اور حالات کے اعتبار سے مشروع کیے گئے تھے، چنانچہ اُس دور کے حالات سے منسلک احکامات بنیادی طور پر شریعت سے خارج ہوتے ہیں ۔ شریعت میں مذکور مصالح،جنہیں اصطلاح اصولیین میں ’مصالح معتبرہ‘ کہتے ہیں ،سے متعلق احکام کے بارے میں ان لوگوں کے ذہن کی بنیاد ی غلطی یہ ہے کہ یہ ان شرعی مصالح کو فقہی واجتہادی مصالح، جنہیں اُصولیوں کی اصطلاح میں ’مصالح مرسلہ‘ کہتے ہیں ، کی طرح سمجھتے ہیں ، حالانکہ اہل سنت کے ہاں شرعی مصلحت دائمی وابدی ، جبکہ فقہی مصلحت وقتی وعارضی ہوتی ہے۔
علمائے اصول کے ہاں ’مصالح مرسلہ‘ کی نوعیت یہ ہوتی ہے کہ تمدن کی تبدیلی سے پیدا شدہ نئے حالات میں فقہاء کرام بسا اوقات شریعت کی کسی نص کے انطباق میں شرعی مقاصد ( شریعت کی بیان کردہ عمومی مصالح) کالحاظ رکھتے ہوئے معاملہ کی نوعیت اور مسئلہ کے ہمہ گیر پہلوؤں کی رعائت میں شریعت میں موجود اس واقعہ سے ملتے جلتے واقعات (نظائر)کے بارے میں وارد شرعی نصوص پر قیاس کرکے اجتہادو استنباط سے کچھ حدود و قیود کا اضافہ یا کمی کردیتے ہیں ۔ تمدن کے نئے تقاضوں سے جو انسانی ضروریات سامنے آتی ہیں ، مجتہد کے لیے شرعی مقاصد اور تعلیمات دین کی روشنی میں ان کی رعائت کرنا شارع کا مطلوب ہے، جسے ’اجتہاد‘ کے مبارک عمل سے پورا کیا جاتا ہے۔ فقہاء کے استنباطات و اجتہادی آراء کا شرعی نصوص واحکام سے بنیادی ترین فرق یہ ہے کہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم چونکہ خاتم النبیین ہیں ، اسی لیے آپ کی لائی ہوئی شریعت بھی ابدی ہے، جسے منسوخ یا موقوف کرکے اب نئی شریعت قیامت تک نہیں لائی جاسکتی، برابر ہے کہ وہ کسی نئے حکم کے وجود میں لانے کی صورت میں ہو یاشریعت میں پہلے سے موجود کسی حکم کو ختم کرنے کے کی شکل میں ، لہٰذا شریعت میں مذکور مصالح ورخصتیں بھی روزِ اول سے دائمی حیثیت ہی رکھتی ہیں ، جبکہ فقہاء کے ذکر کردہ مصالح کی حیثیت بہرحال یہ نہیں ہے۔
الغرض اجتہاد کے بنیادی مفہوم میں یہ بات شامل ہے کہ یہ شرع کے اندر ہوتا ہے، باہر نہیں اور یہ شرع کے نسخ کا نام نہیں ، بلکہ اس کا کام نئے تمدنی تقاضوں کے لیے شریعت کی توضیح وتشریح کرنا ہے، چنانچہ شرع میں جن مقاصد اور جزوی یا کلی مصالح کو سامنے رکھ شرعی احکام دیے گئے ہیں ، اب قیامت تک آنے والے انسانوں کے مصالح کا ایک خلاصہ سامنے رکھتے ہوئے ان شرعی احکام کی صورت میں اللہ تعالیٰ نے اپنی ابدی ہدایت پیش کردی ہے، جس میں قیامت تک تمام زمانوں اور لوگوں کی جمیع ضروریات اور طبعی وتمدنی تقاضوں کا لحاظ کرلیا گیا ہے۔یہ کہنا کہ اللہ علیم وخبیرنے جن مقاصد ومصالح کی رعائت کرکے اپنے علم وحکمت کی روشنی میں جو احکامات پیش کردئیے ہیں ، بعد کے زمانوں کے بعض مصالح کی ان میں رعائت نہیں کی گئی انتہائی خطرناک بات ہے۔ اس تناظر میں ہمارا کام بس یہی ہے کہ ہم اپنے مخصوص علاقائی اور وقتی تقاضوں کی رعائت میں شرع کی روشنی میں اپنے مسائل کا حل تلاش کریں ۔اس صورت میں جو فقہی واستنباطی راہنمائی سامنے آئی گی وہ بھی علاقائی اور وقتی ہی ہوگی، اسے ابدی اور کلی قرار دینا انتہائی غلط ہوگا۔ عالمگیریت اور ابدیت صرف شرعی احکامات کا خاصہ ہے، فقہی واجتہادی احکام کی یہ صفت نہیں ہے۔ اسی لیے علمائے اصول کے ہاں شرعی مصلحت کو ’حکمت‘ کہا جاتا ہے، جو رب حکیم کی صفتِ علیم وخبیر کی روشن مثال ہوتی ہے، جبکہ انسانی مصلحت کو ’حکمت‘ کے بجائے ا’جتہادی مصلحت‘ کی متوازی اصطلاح سے بیان کیا جاتا ہے۔ شریعت کی اسی عالمگیریت اور جامعیت کو واضح کرنے کے لیے شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے معارج الوصول فی بیان أنَّ أصولَ الدِّین وفروعَہ قد بیَّنہ الرّسولﷺ کے نام سے ایک کتاب بھی لکھی ہے، جس کا مطالعہ اس ضمن میں انتہائی مفید ہوگا۔
مذکورہ تمہید ی باتوں کے بعد اب ہم آتے ہیں سوال کے جواب کی طرف تو میں واضح کرنا چاہوں گا کہ منکرین قراء ات، جن کی اپنی دینی بنیادیں مضبوط نہیں ، انہوں نے فقہی مصلحت کے انداز پر قراء ات کی توجیہ کرنے کی کوشش کی ہے۔ یہ لوگ کہتے ہیں کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پرجو قرآن نازل ہوا تھا، وہ تو بنیادی طور پر ایک ہی وجہ یا ایک ہی لہجہ کے ساتھ نازل ہوا تھا لیکن محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے متاخرین فقہاء کی طرح قرآن مجید کے اندر لوگوں کی مشکلات یامصلحت وحکمت کی پیش نظر کچھ چیزوں کی گنجائش اپنی طرف سے دے دی تھی۔ ہمارے نقطہ نظر کے مطابق یہ بات اس لیے صحیح نہیں ہے کہ اگر یہ معاملہ ایسے بھی ہو، جیسے ذکر کیا جارہا ہے تو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اگر کوئی بات قرآن یاسنت میں اپنے اجتہاد کی پیش نظر کہیں تو اہل سنت والجماعۃ کے عقیدے کے مطابق چونکہ اس کے اوپر وحی کی نگرانی ہوتی ہے،چنانچہ وہ چیز نتیجتاً وحی بن جاتی ہے، جیسے کہ کنَّا نعزِل والقرآن ینزل[صحیح مسلم:۱۴۴۰] کی مثال ہے۔ اب صحابہ رضی اللہ عنہم اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے تو عزل نہیں کیا کرتے تھے، لیکن زمانہ نزول وحی میں صحابہ رضی اللہ عنہم کا عزل کرنا اور قرآن مجید کا نازل ہونا اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کااس پرخاموش رہنا یہ خود ایک تقریری حدیث کی بنیاد ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس نوع کو اپنی جامع صحیح کے کتاب الاعتصام میں باقاعدہ ایک باب قائم کرکے واضح کیا ہے۔
اس بات کو ایک اور انداز سے یوں بھی سمجھا جاسکتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خاموشی سے شرعی حکم کے قرار (تقریر) پاجانے کی اصل توجیہہ یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سکوت کا معنی یہ بنتا ہے کہ خود اللہ تعالیٰ نے اُس بات پر سکوت فرمایا ہے، جس پر آپ خاموش رہے ہیں ، گویاکہ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس بات کی تصدیق ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کو قبول فرماتے ہیں ، جیساکہ روایات میں موجود ہے کہ بسا اوقات محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اجتہاد فرمایا، لیکن اللہ تعالیٰ نے ان کے اجتہاد کے حوالے سے جو کمزوری کاپہلو تھا اسے بیان فرمادیا، تو اگر اللہ تعالیٰ کمزوری کو بیان فرمادیں تو ایسی صورت میں وہ چیز شریعت نہیں بنتی، لیکن اگر واضح نہ فرمائیں تو ایسی صورت میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی خاموشی سے وہ شے شریعت قرار پاجاتی ہے، جسے اصطلاحا تقریر کہا جاتا ہے، جبکہ اللہ تعالیٰ کاکسی چیز پرخاموش رہ جانے سے جو شے ٹھیک قرار پاتی ہے اسے اِصطلاحا ’استصواب‘ کہا جاتا ہے۔
چنانچہ جن لوگوں کے ذہن میں یہ اشکال موجود ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قراء اتِ قرآنیہ کو وحی کے بجائے اپنے اجتہاد سے جائز کردیاتھا، اگر یہ بات بھی کی جائے تو بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اجازت نتیجتاً وحی بن جاتی ہے۔ البتہ امر واقعہ اس کے بالکل خلاف ہے۔ روایات ہمیں یہ بتاتی ہیں کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قراء ات کے اختلاف کو اپنے اجتہاد سے پیش نہیں فرمایا، بلکہ باقاعدہ اللہ تعالیٰ سے ان کے نزول کاتقاضا دعائیں کر کر کے فرمایاتھا، جیسا کہ جبریل اورمیکائیل علیہما السلام کے حوالے سے صحیح روایات میں موجود ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بنی غفار کے تالاب کے پاس دونوں تشریف لائے تھے اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم بار بار تقاضا کرکے اللہ تعالی سے اختلاف قراء ات کو طلب فرماتے رہے، میکائیل مزید تقاضے کا مشورہ دیتے جاتے اور جبریل اللہ تعالیٰ کی طرف سے حروف لے کر آتے جاتے، حتیٰ کہ ہر طلب پر ایک ایک کر کے سات حرف کانزول ہوا ۔[صحیح ابن حبان:۷۳۴] اسی طرح دیگر تمام وہ روایات، جن میں قراء ات کے سلسلہ میں صحابہ رضی اللہ عنہم کے باہمی اختلاف کا ذکر ہے، ان میں موجود ہے کہ جب وہ اپنا اختلاف لے کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش ہوئے توآپ ہر ایک کی قراء ت سننے کے بعدیوں فرمایا: ’’ھکذا أُنزِلَتْ،ہکذا أنزلت‘‘۔[ صحیح البخاري:۵۰۴۱] خصوصا خود حدیث ’سبعۃ أحرف‘ کے الفاظ ’’أنزِلَ القرآنُ علی سبعۃِ أحرُفٍ‘‘میں غور کیا جائے تو سمجھ آتا ہے کہ پہلی روایت کے مطابق ایک حرف کاآسمان سے آنا، پھر دوسرے حرف کا آسمان سے اترنا اور پھر تیسرے حرف کاآسمان سے نازل ہونا، حتی کہ معاملہ کا سات حروف تک اسی نوعیت پر پہنچ جانا،اسی طرح دوسری قسم کی روایات میں صحابہ رضی اللہ عنہم کے مابین مختلف اندازوں سے پڑھنے کے بارے میں ہر ایک کے حوالے سے آپ کا یوں تصدیق کرنا:’’ھکذا أنزلت، ہکذا أنزلت‘‘[صحیح البخاري:۵۰۴۱]اور حدیث ’حروفِ سبعہ‘ میں قرآن کا سات حروف کے ہمراہ نازل ہونے کا ذکر ہونا،یہ سب کچھ بتاتا ہے کہ قراء ات کا یہ تمام اختلاف بنیادی طور پرآسمانوں سے نیچے اترا ہے ، کیونکہ لغت میں نزول کا یہی معنی لکھا ہے کہ شے کا اوپر سے نیچے اترنا۔ ثابت ہوا کہ معاملہ یہ نہیں تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اجتہاد سے ان کو جائز قرار دیااور اللہ کے تصویب کے ساتھ ان کوشریعت کامقام ملا۔اس حوالے سے اُصولیوں کا ایک قاعدہ ہے : ’’السکوت فی مَعْرِضِ البَیَانِ بیانٌ‘‘
’’جب کسی جگہ بیان کی ضرورت ہو اور بیان کرنے والا ضرورتِ بیان ہونے کے باوجود بیان نہ کرے تو عدمِ بیان اس چیز کے شرعی جواز کی دلیل ہوتاہے۔‘‘
الغرض جب یہ مقدمہ متعین ہوگیاتو اس حوالے سے یہ سوال کرنا بنیادی طور پر درست نہیں رہتا کہ قراء ات کی اجازت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اجتہاد سے دی تھی اورجب یہ مشکل ختم ہوگئی تو پھر اس اجازت کو بعد از اں حضرت عثمان نے صحابہ سمیت یا بالفاظ دیگر امت نے ختم (منسوخ یا موقوف) کردیا۔ یہ بات اس لیے غلط ہے کہ ان قراء ات کی اجازت وحی سے ملی تھی، وحی کا ذریعہ صراحتاً اللہ کی طرف سے نزول کاہو یا وحی کا تعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اجتہاد اور اس پر اللہ کی تصویب کے قبیل سے ہو، ہر دو صورت میں اس گنجائش کوختم کرنے کے لیے وحی ہی سے نسخ ثابت کرنا ضروری ہے اور اگر وحی سے اس کانسخ ثابت نہ کیاجاسکے تو کسی بنیاد پر یہ نہیں کہا جاسکتا کہ جیسے ہمارے ہاں مصالح مرسلہ اور سد الذرائع کی مباحث چلتی ہیں اور حالات کے تحت اگر پیش نظر وقتی وعارضی مشاکل و مصالح ختم ہوجائیں تو ہم ان اجتہادی آراء کو ختم کردیتے ہیں یا نئے حالات کے مطابق بدل دیتے ہیں ، تو دین و شریعت کی مباحث میں بھی اسی طرح کا معاملہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ اور صحابہ رضی اللہ عنہم نے کیا تھا۔ امام ابن حزم رحمہ اللہ نے الإحکام فی أصول الأحکام اور الفصل فی المِلَل والاھواء والنَّحل میں اس قسم کے عقیدے کو شدید ترین گمراہی قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ اور صحابہ رضی اللہ عنہم نے قطعا ایسا نہیں کیا، بلکہ اگر وہ یوں کرتے تو اس عمل سے ملت اسلامیہ سے خارج ہوجاتے۔[الاحکام:۱؍۵۶۵]
اگر اس معاملے کو کسی اصول کے طور پر تسلیم کرلیا جائے تو دین حنیف کے بے شمار وہ احکامات، جو اللہ تعالیٰ نے قیامت تک کی مشاکل کو سامنے رکھتے ہوئے رخصتوں کے ضمن میں پیش کیے ہیں ، ان کے بارے میں ملحدین کویہ کہنے کا موقعہ مل جائے گا کہ جب وہ مشاکل ومصالح ختم ہوجائیں یاحالات کا پس منظر بدل جائے تو دین کے اس قسم کے اَحکامات کو اجماعی یا انفرادی اجتہاد سے ختم کیا جاسکتاہے۔ ایسا عقیدہ رکھنا اللہ کے علم وحکمت کے اوپر صریح اعتراض اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ختم نبوت کے واضح انکار کے مترادف ہے۔ منکرین حدیث نے اسی مکروفریب سے قرآن میں خصوصا اور حدیثوں میں عموما وارد شدہ بے شمار جزئی احکامات کا اپنے تئیں انکار یا اجتہاد کے نام پر نسخ کرڈالا ہے، جیسے قتال کا انکار، کتاب وسنت میں وارد شدہ حدود وتعزیرات کا انکار، حجاب کا انکار، اسبالِ ازار کا جواز، ڈارھی کا انکار، تصویر اور بت سازی کا جواز اور دیگر وہ کچھ جس سے پورے دین اسلام کا نقشہ الٹ کر رہ گیا ہے اور ایک نئے سیکولر اور لبرل اسلام کی تصویر سامنے آرہی ہے۔میں اس ضمن میں قرآن مجید میں وارد شدہ اللہ تعالی کا یہ ارشاد پیش کرنا ہی بیان کے لیے کافی سمجھتا ہوں :
{لٰکِنِ اللّٰہ یَشْہَدُبِمَا أنْزِلَ اِلَیْکَ أنْزَلَہٗ بِعِلْمِہٖ وَالمَلٰئِکَۃُ یَشْہَدُوْنَوَکَفیٰ بِاللّٰہِ شَہِیْدًا }[النساء:۱۶۶]
نوٹ کرنے کی بات یہ ہے کہ کسی شے کو ثابت کرنے کے لیے اللہ تعالی کو کسی ذات، تمام جن وانس حتی کہ تمام فرشتوں تک کی حاجت نہیں ، چہ جائیکہ ایک شے کو اللہ بطور اپنے حکم کے پیش کردیں اور سمجھا جائے کہ اللہ کے حکم کو پوری امت مل کر ختم کرسکتی ہے۔