- شمولیت
- جنوری 08، 2011
- پیغامات
- 6,595
- ری ایکشن اسکور
- 21,397
- پوائنٹ
- 891
سوال نمبر36: اگر رسم عثمانی اور اس میں موجود اختلاف توقیفی ہے تو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے ارشاد فاکتبوہ بلغۃ قریش کا کیا معنی ہے؟ اس سے تو معلوم ہوتا ہے کہ رسم عثمانی قریشی اندازِ کتابت پر مشتمل ہے۔
جواب: اوپر ذکر کردہ جواب سے یہ سوال بدیہی طور پر پیدا ہوتا ہے کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے ایک متفقہ مصحف کی تیاری کے لیے جو کمیٹی بنائی تھی، جن کے کام پر بعد ازاں بارہ ہزار صحابہ رضی اللہ عنہم نے اتفاق کیا،اس کمیٹی کو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے یہ ہدایت ارشاد فرمائی تھی، جو صحیح بخاری میں موجود ہے کہ اگر آپ کا کسی بھی شے میں باہمی اختلاف ہوجائے، تو اس صورت میں اس شے کو آپ لغت قریش کے مطابق لکھیں ۔ اگر رسم الخط کااختلاف توقیفی ہوتاتو انہیں یوں کہناچاہئے تھا کہ اختلاف کی صورت میں تم ماضی میں موجود اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے رسم میں سے اسے تلاش کرنا۔ ہم کہتے ہیں کہ آپ کے اس دعوی ہی میں اس بات کا جواب موجود ہے کہ اگر رسم عثمانی کی اَساس صحف ابی بکر اور کتابت نبوی کو نہیں بنایا گیا تو اختلاف کا کوئی معنی ہی نہیں بنتا۔ سیدھی بات ہے کہ جس طرح سے کلمات کو لکھنے سے قرآن کا تعین ممکن ہوتا ویسے لکھ لینا چاہیے تھا، حالانکہ ایسا نہیں ہوا۔ تاریخی روایات اس بارے میں بالکل قطعی ہیں کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے اس کام سے قبل صحف ابی بکر کو منگوایا تھا اور کام کی اساس انہیں کو بنایا تھا۔ اگر لغت قریش میں قرآن کا رسم تیار کرنا اس کمیٹی کاکام ہوتا تو کبھی بھی حضرت عثمان رضی اللہ عنہ حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا سے صحف ابی بکر کو نہ منگواتے، کیونکہ اگر لغت قریش پر لکھنا قرآن مجید کا کوئی اجتہادی انداز ہوتا تو صحف حفصہ کااس میں سرے سے کوئی تعلق نہیں بنتا۔
علاوہ ازیں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے مذکورہ جملہ میں یہ وضاحت موجو دہے کہ آپ رضی اللہ عنہ نے یہ نہیں فرمایا کہ اگر تمہارا اختلاف نہ بھی ہو تو پھر بھی تم لغت قریش کے مطابق لکھتے چلو، بلکہ فرمایا کہ اگر کسی بھی جگہ پر کسی پہلوسے تمہارے مابین اختلاف پیداہوجائے کہ اس جگہ اس کا رسم کیا اختیار کرناہے تو ایسے اختلاف کی صورت میں تم لغت قریش کو معیار بنانا۔اس میں یہ اشارہ موجود ہے کہ اختلاف کے بغیر لکھنے کی قرآن کو لغت قریش کے مطابق لکھنے کی حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے ہدایت نہیں فرمائی تھی۔
اب رہا یہ سوال کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے یہ ارشاد کیوں فرمایا تھا؟ تو ہم یہ بات ذکر کرنا چاہیں گے کہ اس کا سبب تاریخی روایات میں بالصراحت موجود ہے کہ صحف ابی بکر کے اندر بعض چیزیں مرورِ زمانہ کے ساتھ مٹ گئیں تھیں یا ان کی سیاہی مدھم پڑ گئی تھی، چنانچہ اس کمیٹی میں بعض کلمات میں اس قبیل سے اختلاف ہوا توحضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے ایک اجتہادی ضابطے کے طور پر فرما دیا کہ ایسے اختلاف کی صورت میں اگر تمہیں پہلے سے موجود کوئی رسم نہیں ملتا، توقرآن مجید چونکہ بنیادی طور پر لغت قریش کے مطابق نازل ہوا تھا اور قریشی لغت کو یک گونہ دیگر لغات پر جو فوقیت دی گئی ہے، اس اعتبار سے ایسے اختلافی مقامات پرقریش کے طریقہ کتابت کو اختیار کرلینا۔ تاریخی روایات میں وضاحتاً یہ بھی موجود ہے کہ ایسا اختلاف صرف ایک کلمہ میں سامنے آیا تھا اور وہ کلمہ ’تابوت‘ کی’تا‘ ہے۔ امام ابن حجر رحمہ اللہ اور دیگر اہل علم نے لکھا ہے کہ صحفِ ابی بکر میں تابوت کی دوسری تاء بوجوہ مٹ گئی تھی اور یہ معلوم نہیں ہو رہا تھا کہ یہ کلمہ لمبی تاء کے ساتھ لکھا جائے یا چھوٹی تاء سے، تو ان صحابہ رضی اللہ عنہم نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے ارشاد کے مطابق قریش کے طریقۂ کتابت کے مطابق اسے لمبی تاء سے لکھ دیا۔ اب جو بات سامنے آتی ہے وہ یہ ہے کہ قرآن مجید میں ’تابوت‘ کی تا کے علاوہ باقی تمام مقامات صحف ابی بکر اور رسمِ نبوی کے قبیل سے ہی ہیں ۔ صرف ’تابوت‘ کی تا قریش کے طریقۂ کتابت کے مطابق ہے۔
اب ’تابوت ‘ کی’تا‘ کے سلسلہ میں واضح ہونا چاہیے کہ ابتدائی ہدایت کے مطابق تو اجتہاد کرتے ہوئے اسے لغت قریش کے مطابق لکھ دیاگیا تھا،لیکن بعد ازاں بعض روایات میں یہ وضاحت بھی ملتی ہے کہ اسی کمیٹی کو لفظ ’تابوت‘ بعض صحابہ رضی اللہ عنہم کے پاس باقاعدہ طور پر لمبی تاء کے ساتھ لکھا ہوا بھی مل گیاتھا،جس کی وجہ سے ہم برملا کہہ سکتے ہیں کہ کلمہ ’تابوت‘ میں اجتہاد کے ذریعے جو رسم الخط اختیار کیا گیا تھا،بعد ازاں اسے بھی روایات کی موافقت ملنے کی وجہ سے’ توقیفی‘ حیثیت مل گئی۔ اس قسم کی بعض دیگر تفصیلات ماہنامہ رشد’ قراء ات نمبر‘ حصہ اوّل میں قاری محمد مصطفی راسخ حفظہ اللہ کے مضمون میں ملاحظہ کی جاسکتی ہیں ۔ موصوف نے اس قسم کے تمام اشکالات کو رفع کیا ہے اور ان روایات کی تخریج بھی کردی ہے ، جن میں تابوت کی’تا‘ بعض دیگر صحابہ سے مل گئی تھی۔
اس ضمن میں تفصیلی دلائل کے شائقین کو جناب حافظ سمیع اللہ فراز حفظہ اللہ کے ایم فل کی سطح پر لکھے گئے تحقیقی مقالے ’رسم عثمانی اور اس کی شرعی حیثیت‘، مطبوع شیخ زاید اسلامک سینٹر، پنجاب یونیورسٹی، لاہور کا ضرور مطالعہ کرنا چاہیے، جس سے کافی سارے سوالات واشکالات رفع ہوجانے کی امید کی جاسکتی ہے۔
جواب: اوپر ذکر کردہ جواب سے یہ سوال بدیہی طور پر پیدا ہوتا ہے کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے ایک متفقہ مصحف کی تیاری کے لیے جو کمیٹی بنائی تھی، جن کے کام پر بعد ازاں بارہ ہزار صحابہ رضی اللہ عنہم نے اتفاق کیا،اس کمیٹی کو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے یہ ہدایت ارشاد فرمائی تھی، جو صحیح بخاری میں موجود ہے کہ اگر آپ کا کسی بھی شے میں باہمی اختلاف ہوجائے، تو اس صورت میں اس شے کو آپ لغت قریش کے مطابق لکھیں ۔ اگر رسم الخط کااختلاف توقیفی ہوتاتو انہیں یوں کہناچاہئے تھا کہ اختلاف کی صورت میں تم ماضی میں موجود اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے رسم میں سے اسے تلاش کرنا۔ ہم کہتے ہیں کہ آپ کے اس دعوی ہی میں اس بات کا جواب موجود ہے کہ اگر رسم عثمانی کی اَساس صحف ابی بکر اور کتابت نبوی کو نہیں بنایا گیا تو اختلاف کا کوئی معنی ہی نہیں بنتا۔ سیدھی بات ہے کہ جس طرح سے کلمات کو لکھنے سے قرآن کا تعین ممکن ہوتا ویسے لکھ لینا چاہیے تھا، حالانکہ ایسا نہیں ہوا۔ تاریخی روایات اس بارے میں بالکل قطعی ہیں کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے اس کام سے قبل صحف ابی بکر کو منگوایا تھا اور کام کی اساس انہیں کو بنایا تھا۔ اگر لغت قریش میں قرآن کا رسم تیار کرنا اس کمیٹی کاکام ہوتا تو کبھی بھی حضرت عثمان رضی اللہ عنہ حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا سے صحف ابی بکر کو نہ منگواتے، کیونکہ اگر لغت قریش پر لکھنا قرآن مجید کا کوئی اجتہادی انداز ہوتا تو صحف حفصہ کااس میں سرے سے کوئی تعلق نہیں بنتا۔
علاوہ ازیں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے مذکورہ جملہ میں یہ وضاحت موجو دہے کہ آپ رضی اللہ عنہ نے یہ نہیں فرمایا کہ اگر تمہارا اختلاف نہ بھی ہو تو پھر بھی تم لغت قریش کے مطابق لکھتے چلو، بلکہ فرمایا کہ اگر کسی بھی جگہ پر کسی پہلوسے تمہارے مابین اختلاف پیداہوجائے کہ اس جگہ اس کا رسم کیا اختیار کرناہے تو ایسے اختلاف کی صورت میں تم لغت قریش کو معیار بنانا۔اس میں یہ اشارہ موجود ہے کہ اختلاف کے بغیر لکھنے کی قرآن کو لغت قریش کے مطابق لکھنے کی حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے ہدایت نہیں فرمائی تھی۔
اب رہا یہ سوال کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے یہ ارشاد کیوں فرمایا تھا؟ تو ہم یہ بات ذکر کرنا چاہیں گے کہ اس کا سبب تاریخی روایات میں بالصراحت موجود ہے کہ صحف ابی بکر کے اندر بعض چیزیں مرورِ زمانہ کے ساتھ مٹ گئیں تھیں یا ان کی سیاہی مدھم پڑ گئی تھی، چنانچہ اس کمیٹی میں بعض کلمات میں اس قبیل سے اختلاف ہوا توحضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے ایک اجتہادی ضابطے کے طور پر فرما دیا کہ ایسے اختلاف کی صورت میں اگر تمہیں پہلے سے موجود کوئی رسم نہیں ملتا، توقرآن مجید چونکہ بنیادی طور پر لغت قریش کے مطابق نازل ہوا تھا اور قریشی لغت کو یک گونہ دیگر لغات پر جو فوقیت دی گئی ہے، اس اعتبار سے ایسے اختلافی مقامات پرقریش کے طریقہ کتابت کو اختیار کرلینا۔ تاریخی روایات میں وضاحتاً یہ بھی موجود ہے کہ ایسا اختلاف صرف ایک کلمہ میں سامنے آیا تھا اور وہ کلمہ ’تابوت‘ کی’تا‘ ہے۔ امام ابن حجر رحمہ اللہ اور دیگر اہل علم نے لکھا ہے کہ صحفِ ابی بکر میں تابوت کی دوسری تاء بوجوہ مٹ گئی تھی اور یہ معلوم نہیں ہو رہا تھا کہ یہ کلمہ لمبی تاء کے ساتھ لکھا جائے یا چھوٹی تاء سے، تو ان صحابہ رضی اللہ عنہم نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے ارشاد کے مطابق قریش کے طریقۂ کتابت کے مطابق اسے لمبی تاء سے لکھ دیا۔ اب جو بات سامنے آتی ہے وہ یہ ہے کہ قرآن مجید میں ’تابوت‘ کی تا کے علاوہ باقی تمام مقامات صحف ابی بکر اور رسمِ نبوی کے قبیل سے ہی ہیں ۔ صرف ’تابوت‘ کی تا قریش کے طریقۂ کتابت کے مطابق ہے۔
اب ’تابوت ‘ کی’تا‘ کے سلسلہ میں واضح ہونا چاہیے کہ ابتدائی ہدایت کے مطابق تو اجتہاد کرتے ہوئے اسے لغت قریش کے مطابق لکھ دیاگیا تھا،لیکن بعد ازاں بعض روایات میں یہ وضاحت بھی ملتی ہے کہ اسی کمیٹی کو لفظ ’تابوت‘ بعض صحابہ رضی اللہ عنہم کے پاس باقاعدہ طور پر لمبی تاء کے ساتھ لکھا ہوا بھی مل گیاتھا،جس کی وجہ سے ہم برملا کہہ سکتے ہیں کہ کلمہ ’تابوت‘ میں اجتہاد کے ذریعے جو رسم الخط اختیار کیا گیا تھا،بعد ازاں اسے بھی روایات کی موافقت ملنے کی وجہ سے’ توقیفی‘ حیثیت مل گئی۔ اس قسم کی بعض دیگر تفصیلات ماہنامہ رشد’ قراء ات نمبر‘ حصہ اوّل میں قاری محمد مصطفی راسخ حفظہ اللہ کے مضمون میں ملاحظہ کی جاسکتی ہیں ۔ موصوف نے اس قسم کے تمام اشکالات کو رفع کیا ہے اور ان روایات کی تخریج بھی کردی ہے ، جن میں تابوت کی’تا‘ بعض دیگر صحابہ سے مل گئی تھی۔
اس ضمن میں تفصیلی دلائل کے شائقین کو جناب حافظ سمیع اللہ فراز حفظہ اللہ کے ایم فل کی سطح پر لکھے گئے تحقیقی مقالے ’رسم عثمانی اور اس کی شرعی حیثیت‘، مطبوع شیخ زاید اسلامک سینٹر، پنجاب یونیورسٹی، لاہور کا ضرور مطالعہ کرنا چاہیے، جس سے کافی سارے سوالات واشکالات رفع ہوجانے کی امید کی جاسکتی ہے۔