• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تعلیم اور تربیت : تحلیہ اور تخلیہ

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,552
پوائنٹ
641
قرآن مجید میں چار مقامات پر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فریضہ بیان ہوا ہے کہ آپ صحابہ پر آیات کی تلاوت کرتے ہیں، انہیں کتاب اور حکمت کی تعلیم دیتے ہیں اور ان کا تزکیہ کرتے ہیں۔

سورۃ بقرۃ آیت 129 میں بیان ہوا کہ ابو الانبیاء حضرت ابراہیم علیہ السلام نے یہ دعا کی تھی کہ اللہ سبحانہ وتعالی ان کے بیٹے اسمعیل علیہ السلام کی نسل میں ایک ایسا نبی بھیجیں جو ان پر اللہ کی آیات کی تلاوت کرے، انہیں کتاب اور حکمت کی تعلیم دے اور ان کا تزکیہ کرے:
رَبَّنَا وَابْعَثْ فِيهِمْ رَسُولًا مِّنْهُمْ يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِكَ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَيُزَكِّيهِمْ ۚ إِنَّكَ أَنتَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ ﴿١٢٩

جبکہ بقیہ تین مقامات سورہ بقرۃ آیت ۱۵۱، سورۃ آل عمران ۱۶۴، سورۃ الجمعۃ آیت ۲ میں اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بھیجنے کا جو مقصد بیان ہوا ہے، وہاں ان چاروں باتوں کا ذکر تو ہے لیکن تزکیہ کا ذکر پہلے ہے اور تعلیم کا بعد میں۔ ارشاد باری تعالی ہے: هُوَ الَّذِي بَعَثَ فِي الْأُمِّيِّينَ رَسُولًا مِّنْهُمْ يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِهِ وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَإِن كَانُوا مِن قَبْلُ لَفِي ضَلَالٍ مُّبِينٍ ﴿٢

ایک سوال تو یہ ہے کہ کیا تعلیم اور تزکیہ ایک ہی چیز ہیں تو اس کا جواب نفی میں ہے۔ تعلیم اور تزکیہ دو علیحدہ اصطلاحات ہیں۔ تعلیم کا معنی تحلیہ ہے یعنی کسی کو آراستہ کرنا اور تزکیہ کا معنی تخلیہ ہے یعنی کسی کو خالی کرنا۔ مثلا کسی شخص کو اخلاق حسنہ سے آراستہ کرنا مقصود ہو تو تعلیم ہو گی اور رذائل سے پاک کرنا ہو تو تزکیہ ہو گا۔ گویا کہ یہ شخصیت کی تعمیر کے دو رخ ہیں۔

دوسرا سوال یہ پیدا ہوا کہ پہلے تعلیم ہونی چاہیے یا تزکیہ۔ قرآن مجید میں تین مقامات پر جہاں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں بیان ہوا کہ انہوں نے کیا تو اس میں پہلے تزکیہ کا ذکر ہے بعد میں تعلیم کا ہے۔ جبکہ ایک مقام پر جہاں ابراہیم علیہ السلام کی دعا کا ذکر ہے تو ان کی دعا میں پہلے تعلیم کا ذکر ہے اور بعد میں تزکیہ کا۔ بظاہر قرآنی اسلوب سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ تزکیہ کو تعلیم پر مقدم کرنا چاہیے کیونکہ آپ کا منہج یہی بیان ہوا ہے۔ واللہ اعلم

اگر صوفیاء کی بات کریں تو ان میں دونوں اسلوب رائج ہیں۔ چشتیہ کا موقف یہ ہے کہ تخلیہ کو تحلیہ پر مقدم کیا جائے یعنی پہلے نفس کو رذائل سے پاک کیا جائے اور پھر تسبیحات ونوافل پر لگایا جائے جبکہ نقشبندیہ کا موقف یہ ہے کہ تحلیہ کو تخلیہ پر مقدم کیا جائے یعنی پہلے نفس کو نوافل اور تسبیحات کی عادت ڈالی جائے، پھر رذائل سے پاک کرنے کی طرف توجہ دی جائے۔ کچھ صوفیاء کا کہنا ہے کہ دونوں ساتھ ساتھ ہونے چاہییں۔ واللہ اعلم

ایک بات یہ بھی ذہن میں آتی ہے کہ اللہ تعالی نے تلاوت آیات کے ساتھ تزکیہ کا ذکر کیا ہے جبکہ تعلیم کتاب کے ساتھ حکمت کا۔ تلاوت آیات کے فورا بعد تزکیہ کا ذکر کرنے سے یہ نکتہ سمجھ میں آتا ہے کہ تلاوت آیات ہی تزکیہ کا سب سے بڑا ذریعہ ہیں۔ واللہ اعلم
 

Dua

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 30، 2013
پیغامات
2,579
ری ایکشن اسکور
4,440
پوائنٹ
463
جزاک اللہ خیرا محترم شیخ!۔۔۔۔لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر پہلی وحی "اقراء" یعنی پڑھ سے ہوئی ، اور یہ علم کی دلیل ہے!واللہ اعلم
 

طاہر اسلام

سینئر رکن
شمولیت
مئی 07، 2011
پیغامات
843
ری ایکشن اسکور
732
پوائنٹ
256
میرا مشورہ یہ ہے کہ اس موضوع پر صوفیہ کے حوالے نہ دیں تو بہتر ہے کہ ان کے ہاں بدعات بہت زیادہ رواج پا گئی ہیں؛کتاب و سنت اور سلف کے اقوال پر ارتکاز رکھیں؛جزاکم اللہ
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,552
پوائنٹ
641
جزاک اللہ خیرا محترم شیخ!۔۔۔۔لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر پہلی وحی "اقراء" یعنی پڑھ سے ہوئی ، اور یہ علم کی دلیل ہے!واللہ اعلم
قراءت اور تعلیم میں فرق ہے۔ پڑھنا لکھنا ایک فن ہے نہ کہ علم۔ اسی لیے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا لقب امی ہے کہ آپ پڑھنا لکھنا نہیں جانتے تھے لیکن عالم سب سے بڑے تھے۔ یہاں بات تعلیم اور تزکیہ کی ہے۔ جزاکم اللہ
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,552
پوائنٹ
641
میرا مشورہ یہ ہے کہ اس موضوع پر صوفیہ کے حوالے نہ دیں تو بہتر ہے کہ ان کے ہاں بدعات بہت زیادہ رواج پا گئی ہیں؛کتاب و سنت اور سلف کے اقوال پر ارتکاز رکھیں؛جزاکم اللہ
صوفیاء کی رائے بیان کرنے کا مقصد ان کے اقوال سے استدلال نہیں ہے بلکہ کسی موضوع پر تقابلی مطالعہ میں اضافہ ہے۔ یہ ایسے ہی ہے کہ جیسا کہ ہم علم فقہ میں حنفیہ، اہل الظاہر، جعفریہ اور اباضیہ وغیرہ تک کی آراء بھی ذکر کر دیتے ہیں۔ یا ہم علم عقیدہ میں جہمیہ، معتزلہ، مرجئہ اور قدریہ وغیرہ کا موقف جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔ اسی طرح علم اخلاق بھی ایک میدان ہے کہ جس میں صوفیاء کی آراء موجود ہیں اور ان کی رائے بیان کر دینے میں ہمیں کوئی وحشت محسوس نہیں ہونی چاہیے جبکہ ہمارے استدلال کی بنیاد کتاب وسنت ہو۔ جزاکم اللہ
 
Top