- شمولیت
- مارچ 08، 2011
- پیغامات
- 2,521
- ری ایکشن اسکور
- 11,555
- پوائنٹ
- 641
قرآن مجید میں چار مقامات پر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فریضہ بیان ہوا ہے کہ آپ صحابہ پر آیات کی تلاوت کرتے ہیں، انہیں کتاب اور حکمت کی تعلیم دیتے ہیں اور ان کا تزکیہ کرتے ہیں۔
سورۃ بقرۃ آیت 129 میں بیان ہوا کہ ابو الانبیاء حضرت ابراہیم علیہ السلام نے یہ دعا کی تھی کہ اللہ سبحانہ وتعالی ان کے بیٹے اسمعیل علیہ السلام کی نسل میں ایک ایسا نبی بھیجیں جو ان پر اللہ کی آیات کی تلاوت کرے، انہیں کتاب اور حکمت کی تعلیم دے اور ان کا تزکیہ کرے:
رَبَّنَا وَابْعَثْ فِيهِمْ رَسُولًا مِّنْهُمْ يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِكَ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَيُزَكِّيهِمْ ۚ إِنَّكَ أَنتَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ ﴿١٢٩﴾
جبکہ بقیہ تین مقامات سورہ بقرۃ آیت ۱۵۱، سورۃ آل عمران ۱۶۴، سورۃ الجمعۃ آیت ۲ میں اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بھیجنے کا جو مقصد بیان ہوا ہے، وہاں ان چاروں باتوں کا ذکر تو ہے لیکن تزکیہ کا ذکر پہلے ہے اور تعلیم کا بعد میں۔ ارشاد باری تعالی ہے: هُوَ الَّذِي بَعَثَ فِي الْأُمِّيِّينَ رَسُولًا مِّنْهُمْ يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِهِ وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَإِن كَانُوا مِن قَبْلُ لَفِي ضَلَالٍ مُّبِينٍ ﴿٢﴾
ایک سوال تو یہ ہے کہ کیا تعلیم اور تزکیہ ایک ہی چیز ہیں تو اس کا جواب نفی میں ہے۔ تعلیم اور تزکیہ دو علیحدہ اصطلاحات ہیں۔ تعلیم کا معنی تحلیہ ہے یعنی کسی کو آراستہ کرنا اور تزکیہ کا معنی تخلیہ ہے یعنی کسی کو خالی کرنا۔ مثلا کسی شخص کو اخلاق حسنہ سے آراستہ کرنا مقصود ہو تو تعلیم ہو گی اور رذائل سے پاک کرنا ہو تو تزکیہ ہو گا۔ گویا کہ یہ شخصیت کی تعمیر کے دو رخ ہیں۔
دوسرا سوال یہ پیدا ہوا کہ پہلے تعلیم ہونی چاہیے یا تزکیہ۔ قرآن مجید میں تین مقامات پر جہاں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں بیان ہوا کہ انہوں نے کیا تو اس میں پہلے تزکیہ کا ذکر ہے بعد میں تعلیم کا ہے۔ جبکہ ایک مقام پر جہاں ابراہیم علیہ السلام کی دعا کا ذکر ہے تو ان کی دعا میں پہلے تعلیم کا ذکر ہے اور بعد میں تزکیہ کا۔ بظاہر قرآنی اسلوب سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ تزکیہ کو تعلیم پر مقدم کرنا چاہیے کیونکہ آپ کا منہج یہی بیان ہوا ہے۔ واللہ اعلم
اگر صوفیاء کی بات کریں تو ان میں دونوں اسلوب رائج ہیں۔ چشتیہ کا موقف یہ ہے کہ تخلیہ کو تحلیہ پر مقدم کیا جائے یعنی پہلے نفس کو رذائل سے پاک کیا جائے اور پھر تسبیحات ونوافل پر لگایا جائے جبکہ نقشبندیہ کا موقف یہ ہے کہ تحلیہ کو تخلیہ پر مقدم کیا جائے یعنی پہلے نفس کو نوافل اور تسبیحات کی عادت ڈالی جائے، پھر رذائل سے پاک کرنے کی طرف توجہ دی جائے۔ کچھ صوفیاء کا کہنا ہے کہ دونوں ساتھ ساتھ ہونے چاہییں۔ واللہ اعلم
ایک بات یہ بھی ذہن میں آتی ہے کہ اللہ تعالی نے تلاوت آیات کے ساتھ تزکیہ کا ذکر کیا ہے جبکہ تعلیم کتاب کے ساتھ حکمت کا۔ تلاوت آیات کے فورا بعد تزکیہ کا ذکر کرنے سے یہ نکتہ سمجھ میں آتا ہے کہ تلاوت آیات ہی تزکیہ کا سب سے بڑا ذریعہ ہیں۔ واللہ اعلم
سورۃ بقرۃ آیت 129 میں بیان ہوا کہ ابو الانبیاء حضرت ابراہیم علیہ السلام نے یہ دعا کی تھی کہ اللہ سبحانہ وتعالی ان کے بیٹے اسمعیل علیہ السلام کی نسل میں ایک ایسا نبی بھیجیں جو ان پر اللہ کی آیات کی تلاوت کرے، انہیں کتاب اور حکمت کی تعلیم دے اور ان کا تزکیہ کرے:
رَبَّنَا وَابْعَثْ فِيهِمْ رَسُولًا مِّنْهُمْ يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِكَ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَيُزَكِّيهِمْ ۚ إِنَّكَ أَنتَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ ﴿١٢٩﴾
جبکہ بقیہ تین مقامات سورہ بقرۃ آیت ۱۵۱، سورۃ آل عمران ۱۶۴، سورۃ الجمعۃ آیت ۲ میں اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بھیجنے کا جو مقصد بیان ہوا ہے، وہاں ان چاروں باتوں کا ذکر تو ہے لیکن تزکیہ کا ذکر پہلے ہے اور تعلیم کا بعد میں۔ ارشاد باری تعالی ہے: هُوَ الَّذِي بَعَثَ فِي الْأُمِّيِّينَ رَسُولًا مِّنْهُمْ يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِهِ وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَإِن كَانُوا مِن قَبْلُ لَفِي ضَلَالٍ مُّبِينٍ ﴿٢﴾
ایک سوال تو یہ ہے کہ کیا تعلیم اور تزکیہ ایک ہی چیز ہیں تو اس کا جواب نفی میں ہے۔ تعلیم اور تزکیہ دو علیحدہ اصطلاحات ہیں۔ تعلیم کا معنی تحلیہ ہے یعنی کسی کو آراستہ کرنا اور تزکیہ کا معنی تخلیہ ہے یعنی کسی کو خالی کرنا۔ مثلا کسی شخص کو اخلاق حسنہ سے آراستہ کرنا مقصود ہو تو تعلیم ہو گی اور رذائل سے پاک کرنا ہو تو تزکیہ ہو گا۔ گویا کہ یہ شخصیت کی تعمیر کے دو رخ ہیں۔
دوسرا سوال یہ پیدا ہوا کہ پہلے تعلیم ہونی چاہیے یا تزکیہ۔ قرآن مجید میں تین مقامات پر جہاں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں بیان ہوا کہ انہوں نے کیا تو اس میں پہلے تزکیہ کا ذکر ہے بعد میں تعلیم کا ہے۔ جبکہ ایک مقام پر جہاں ابراہیم علیہ السلام کی دعا کا ذکر ہے تو ان کی دعا میں پہلے تعلیم کا ذکر ہے اور بعد میں تزکیہ کا۔ بظاہر قرآنی اسلوب سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ تزکیہ کو تعلیم پر مقدم کرنا چاہیے کیونکہ آپ کا منہج یہی بیان ہوا ہے۔ واللہ اعلم
اگر صوفیاء کی بات کریں تو ان میں دونوں اسلوب رائج ہیں۔ چشتیہ کا موقف یہ ہے کہ تخلیہ کو تحلیہ پر مقدم کیا جائے یعنی پہلے نفس کو رذائل سے پاک کیا جائے اور پھر تسبیحات ونوافل پر لگایا جائے جبکہ نقشبندیہ کا موقف یہ ہے کہ تحلیہ کو تخلیہ پر مقدم کیا جائے یعنی پہلے نفس کو نوافل اور تسبیحات کی عادت ڈالی جائے، پھر رذائل سے پاک کرنے کی طرف توجہ دی جائے۔ کچھ صوفیاء کا کہنا ہے کہ دونوں ساتھ ساتھ ہونے چاہییں۔ واللہ اعلم
ایک بات یہ بھی ذہن میں آتی ہے کہ اللہ تعالی نے تلاوت آیات کے ساتھ تزکیہ کا ذکر کیا ہے جبکہ تعلیم کتاب کے ساتھ حکمت کا۔ تلاوت آیات کے فورا بعد تزکیہ کا ذکر کرنے سے یہ نکتہ سمجھ میں آتا ہے کہ تلاوت آیات ہی تزکیہ کا سب سے بڑا ذریعہ ہیں۔ واللہ اعلم