• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تعلیم حدیث : منہج اور وسائل

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
آپ ﷺ نے خود احادیث لکھوائیں:
جیسا کہ اوپر عبد اللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما کی روایت گذر چکی ہے۔

٭…اس لئے ابوشاہ یمنی ، عبد اللہ بن عمرو بن العاص کی احادیث ، اور سیدنا ابوہریرہ ؓ کا مدینہ آنے کے بعد یہ کہنا: عبد اللہ بن عمرو بن العاص لکھا کرتے تھے اور میں خود نہیں لکھتا تھا ۔ یہ سب اجازات پہلی حدیث کی ناسخ ہیں ۔ یعنی یہ حدیث پہلے کی ہے جب امت میں امیت غالب تھی۔ جب لکھنے والے زیادہ ہوگئے اس وقت اجازت دے دی۔نیزیہ بھی قطعی اجماع ہے کہ آپ ﷺ نے اذن کتابت، نہی کے بعد دیا تھا نہ کہ پہلے۔(تقیید العلم از خطیب بغدادی:۳۲،۳۳)

٭…پہلی حدیث میں روایت حدیث کی اجازت ہے جو ظاہر ہے صحابہ کرام کی علمی سمجھ بوجھ اور قرآن وحدیث میں امتیاز کا ایک ٹھیک اندازہ ہے جو جناب رسالت مآب ﷺ نے ان کے بارے میں لگایا۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ جس کا حافظہ مضبوط ہو اور وہ قابل اعتماد بھی ہو اسے آپ ﷺ نے فرمایا ہو کہ تمہیں لکھنے کی کیا ضرورت۔ اس لئے کہ ایسے حضرات پھر حافظہ پر اعتماد کرنے کی بجائے کتابت پر انحصار کر بیٹھتے ہیں۔

٭… یہ کہنا کہ قرآن کا سنت وحدیث سے خلط ملط ہونے کا آپ ﷺ کو خوف تھا جس کی وجہ سے آپ ﷺ نے منع فرمایا۔درست نہیں۔ اس لئے کہ صحابہ کرام جو عربی بلاغت کی انتہاء پر تھے اور فصاحت کے خوگر بھی ، ان کے بارے میں ایسا سوچنا کہ وہ احادیث کو قرآن مجید سے خلط ملط کردیں گے گویا انہیں عربی زبان اور فہم قرآن وحدیث سے عاری سمجھنا ہوگا جو ناانصافی ہوگی۔ ہاں اگر اس پہلو سے دیکھا جائے کہ کہیں یہ اوراق ایسے افراد کے ہاتھ لگ جائیں جو قرآن اور حدیث میں فرق نہ کرسکیں تو ہوسکتا ہے وہ حدیث رسول کو بھی قرآن سمجھ بیٹھیں تو درست ہوگا۔امام ابن قتیبہ رحمہ اللہ نے تَأْوِیْلُ مُخْتَلَفِ الْحَدِیْثِ میں اس کا یہ جواب بھی دیا ہے:
إِنَّ ہَذَا فِی مَعْنَیَیْنِ: أَحَدُہُمَا: أَنْ یَکُوْنَ مِنْ مَنْسُوْخ ِالسُّنَّۃِ بِالسُّنَّۃِ، کَأَنَّہُ نَہَی فِیْ أَوَّلِ الْاَمْرِ عَنْ أَنْ یُکْتَبَ قَوْلُہُ، ثُمَّ رَأَی بَعْدُ۔۔لَمَّا عَلِمَ أََنَّ السُّنَنَ تَکْثُرُ وَتَفُوْتُ الْحِفْظُ۔۔أَنْ تُکْتَبَ وَتُقَیَّدَ۔ وَالْمَعْنَی الآخَرُ: أَنْ یَکُونَ خَصَّ بِہَذَا عَبْدَ اللّٰہِ بْنَ عَمْرٍو لِاَنَّہُ کَانَ قَارِئاً لِلْکُتُبِ الْمُتَقَدِّمَۃِ، وَیَکْتُبُ بِالسُّرْیَانِیَۃِ وَالْعَرَبِیَّۃِ، وَکَانَ غَیْرُہُ مِنَ الصَّحَابَۃِ أُمِّیِّیْنَ۔۔۔۔۔ فَلَمَّا خَشِیَ عَلَیْہِمُ الْغَلَطَ فِیْمَا یَکْتُبُوْنَ نَہَاہُمْ، وَلَمَّا أَمِنَ عَلَی عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عَمْرٍو ذَلِکَ أَذِنَ لَہُ۔ اس اختلاف کے دو معنی ہیں:
پہلا : یہ سنت، سنت کو منسوخ کررہی ہے۔ وہ یوں کہ ابتداء میں آپ ﷺ نے اپنی احادیث لکھنے سے منع فرمایا پھر جب آپ نے یہ محسوس کیا کہ احادیث وسنن میں اضافہ ہورہا ہے اور حفظ رہتا جارہا ہے تو اجازت دے دی کہ وہ لکھی اور قید کرلی جائیں۔
دوسرا معنی: لکھنے کی اجازت صرف عبد اللہ کیلئے تھی کیونکہ وہ قدیم کتب پڑھا کرتے اور سریانی وعربی میں لکھا بھی کرتے۔دوسرے امی تھے ایک یادو ہی احادیث لکھاکرتے تھے۔ کوئی لکھتا بھی تواس کی تحریر اتنی ناپختہ ہوتی کہ حروف تہجی بھی درست نہ ہوتے۔ اس لئے آپ ﷺ نے اس خدشہ کے پیش نظر لکھنے سے منع فرمایااور عبداللہ کاخدشہ نہ ہونے کی بناء پر لکھنے کی اجازت دے دی۔

دونوں احادیث کا یہی درست مفہوم ہے جو سمجھ آتا ہے۔ اس لئے بعد میں حدیث کے لکھنے یا نہ لکھنے پر اختلاف باقی نہ رہا بلکہ پچاس کے قریب صحابہ کے نام ملتے ہیں جنہوں نے خود سنی ہوئی احادیث رسول کو لکھ کر اپنے پاس محفوظ کیا ہوا تھا۔ اسی عمل نے بتدریج تدوین حدیث کی سبیل ازخود نکالی۔ کیونکہ نامور مفکرین کے اقوال ، افعال اور ان کی ذاتی زندگی کے اہم واقعات ضبط کرنا اور ان پر مزید تحقیق کرکے ڈگریاں تقسیم کرنا آج کے تعلیمی اداروں میں ہی نہیں بلکہ قدیم سے یہ سلسلہ چلا آرہا ہے ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
٭…آپ ﷺ کی احادیث کیوں لکھی گئیں؟ اس سوال پر زمین وآسمان کے قلابے ملانا جہالت ہے مگر کیا ایک پڑھا لکھا انسان احادیث لکھنے یا لکھوانے کے دوررس نتائج، بقائے دین اور فوائد کا انکار کرسکتا ہے؟اس لئے تھوڑا عرصہ کی چہ میگوئیوں کے بعد جو نتائج نکلے امام ابنؒ الصلاح ان پرلکھتے ہیں:
ثُمَّ إِنَّہ زَالَ ذَلِکَ الْخَلاَفُ وَأَجْمَعَ الْمُسْلِمُوْنَ عَلَی تَسْوِیْغِ ذَلِکَ۔ أَیِ الْکِتَابَۃِ۔ وَإِبَاحَتِہِ، وَلَولاَ تَدْوِیْنُہُ فِی الْکُتُبِ لَدَرَسَ فِی الْاَعْصُرِ الْاَخِیْرَۃِ۔(مقدمۃ ابن الصلاح:۱۷۱) پھر یہ اختلاف جاتا رہا اور اہل علم متفق ہوگئے کہ کتابت حدیث جائز ہے اگر حدیث کی تدوین نہ ہوتی توبلاشبہ آنے والے عصور میں یہ ختم ہوچکی ہوتی۔

یہ سوال کہ رسول اللہ ﷺ نے یا خلفاء راشدین نے احادیث کو کیوں نہ لکھوالیا؟ لہٰذا بعد میں لکھی گئی احادیث ناقابل قبول ہیں؟ اس کا جواب بھی یہی ہوسکتا ہے کہ جو قرآن کریم اس وقت ہم کتابی شکل میں رکھتے ہیں آپ ﷺ نے قرآن کریم کو کہاں اس کتابی شکل میں دیا تھا اور نہ ہی خلفاء کرام میں بالخصوص حضرات شیخین باوجود خواہش کے اسے کتابی شکل دے سکے۔اس لئے جب بھی انہیں موقع ملا انہوں نے ایک دوسرے پر اعتماد کرکے قرآن کریم بھی لکھا اور احادیث رسول بھی۔

کیا شیخین نے احادیث لکھنے سے سختی سے منع کردیا تھا؟
٭…امام ذہبی رحمہ اللہ ابن ابی ملیکہ کی ایک مرسل روایت لکھتے ہیں:
رسول اکرم ﷺ کی وفات کے بعد سیدنا ابوبکر صدیقؓ نے لوگوں کو جمع کرکے فرمایا: تم احادیث بیان کرتے ہوتو اس میں اختلاف کرتے ہو۔جب تمہارا حال یہ ہے تو بعد میں آنے والے اس سے زیادہ اختلاف کریں گے۔ بہتریہ ہے کہ تم احادیث رسول بیان نہ کرو۔اگر کوئی مسئلہ پوچھے تو کہو ہمارے درمیان اللہ کی کتاب موجود ہے اس کی حلال کی ہوئی چیز کو حلال جانو اور حرام کی ہوئی کو حرام۔

یہ روایت مرسل اور منقطع ہونے کی وجہ سے قابل استدلال نہیں ۔ خود امام ذہبیؒ اس روایت کے بارے فرماتے ہیں:
سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی غرض یہی معلوم ہوتی ہے کہ احادیث بیان کرتے وقت تحقیق اور خوب چھان پھٹک سے کام لیا جائے۔حاشا وکلا ! آپ کا مقصد یہ نہیں تھا کہ عمل بالحدیث کا دروازہ بالکل بند کردیں۔ ابھی آپ نے ملاحظہ فرمایا جب ان کے سامنے دادی کے ورثہ کا مسئلہ پیش آیا اور انہیں یہ مسئلہ کتاب اللہ سے نہ ملا تو لوگوں سے انہوں نے پوچھا : کیا حدیث میں اس کا حل ہے؟ پھر جب ایک ثقہ آدمی نے شہادت دی تو مزید تحقیق کے لئے دوسرے ثقہ شخص سے شہادت لے کر دادی کے حق میں فیصلہ کردیا۔ اور خوارج کی طرح یہ نہیں کہا: ہمیں کتاب اللہ کافی ہے حدیث کی ضرورت نہیں۔

سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ تو حدیث کو حجت سمجھتے تھے۔ سقیفہ بنو ساعدہ میں اور سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کے سوال ترکہ میں انہوں نے حدیث ہی سنا کر نزاع کا خاتمہ کیا تھا۔

٭…یہ بات بھی ان کی طرف منسوب ہے کہ ان کے پاس پانچ سو احادیث کا مجموعہ تھا جو بالآخر انہوں نے یہ کہہ کر جلا دیا : ممکن ہے میں نے ایسے لوگوں سے احادیث اس میں لی ہوں جنہیں میں امین سمجھتا ہوں اور مجھے ان پر وثوق بھی ہے لیکن وہ حدیثیں صحیح بیان نہ کی ہوں۔اس طرح ان کے نقل کرنے کی ذمہ داری مجھ پر آن پڑے گی۔(تذکرۃ الحفاظ)

امام ذہبی ؒ لکھتے ہیں :
لاَ یَصِحُّ ۔ یہ واقعہ ہی صحیح نہیں۔ابن حجرؒاس اثر کی سند میں علی بن صالح راوی کو مستور کہتے ہیں۔ (تقریب: ۴۷۰۲) دوسرا راوی مفضل بن غسان ہے جو مجہول وغیر مقبول ہے۔(تاریخ دمشق: ۷۶۵۰) تیسرا راوی موسیٰ بن عبد اللہ ہے جس کے بارے میں امام بخاریؒ فرماتے ہیں: فیہ نظر۔ یعنی وہ جھوٹ سے متہم ہے جو ایک مفسر جرح ہے۔یہ ایک علمی خیانت ہوتی ہے کہ ایسی روایات کو ذکر کرکے مصنف کی رائے کو حذف کردیا جائے اور صحیح روایات کو ترک کرکے ضعیف روایات سے لوگوں کو گمراہ کیا جائے۔

٭… خلاصۃ التہذیب میں سیدنا ابوبکرؓ کی ایک سو بیالیس احادیث ایسی مذکور ہیں جو انہوں نے خود بھی سنیں اور دیگر صحابہ کے توسط سے بھی انہیں ملیں۔ امام سیوطی ؒنے تاریخ الخلفاء میں ایک سو چار حدیثوں کا ذکر کیا ہے اور شاہ صاحب ؒنے ازالۃ الخفاء میں ایک سو پچاس کا۔


٭…باقی یہ ایک غلط منسوب بات ہے کہ انہوں نے کچھ احادیث کو ناقابل اعتبار سمجھ کر جلا دیا تھا۔امام ذہبی رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ اس روایت کا راوی ابراہیم بن عمر مجہول (Unkown)ساہے ۔اور اسے مرسل قرار دیتے ہوئے یہ ریمارکس دیے ہیں فہذا لا یصح۔مزید یہ کہ جناب صدیق اکبرؓ نے اپنے اس فعل کے بارے میں یہ جواز پیش کیا تھا ولم تکن کما حدثنی یعنی جو احادیث مجھے بیان کی گئی ہیں وہ واقعی ویسی نہ تھیں۔ احتیاط وتورع کا تقاضا محض انہوں نے پورا کیا ہے کہ مشتبہ مجموعہ کو میں کیسے باقی رکھوں۔اس لئے نہیں جلایا تھا کہ خدانخواستہ وہ حدیث نبوی کے منکر تھے۔امام ذہبیؒ کی تصریح کے مطابق تو یہ واقعہ ہی صحیح نہیں ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
٭… اسی طرح سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے بارے میں یہ روایت کہ قرظۃبن کعب کو عراق بھیجتے وقت انہوں نے احادیث میں اہل عراق کو الجھانے سے منع فرمایا اور قرآن سے غافل نہ کرنے کی تاکید فرمائی۔اس واقعہ سے یہ مراد لینا کہ حدیث حجت نہیں؟ یہ معنوی تحریف ہے۔ اسی طرح دیگر ضعیف واقعات ہیں جوڈھٹائی سے تحریفی انداز میں بیان کئے جاتے ہیں مثلاً: صحابہ کا خوف کہ حدیث بیان کی تو درے پڑیں گے۔ یا ابن مسعود، ابو الدرداء اور ابومسعود انصاری کو قید کرلیا تھا۔وغیرہ۔ امام ذہبی رحمہ اللہ اور دیگر نقاد محدثین نے معاملہ اس کے برعکس بتایا ہے۔ابن مسعودؓ کو جناب فاروق اعظمؓ نے خود کوفہ تعلیم حدیث کے لئے روانہ کیا اور وہ وہیں رہے۔سیدنا ابوہریرہؓ جو بکثرت احادیث بیان کرتے تھے وہ مدینہ میں تھے۔ اور آزاد تھے۔ پھر بھی انہیں پڑھنے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ سیدنا عمرؓ کی یہ سختی اس لئے تھی کہ لوگ قرآن سیکھنے اور اس کے معانی پر غور کرنے سے احتراز کرنے لگ جائیں گے نیز کہیں ایسی احادیث بیان نہ کرنے لگ جائیں جو آپ ﷺ نے بیان ہی نہیں فرمائی تھیں۔چونکہ لوگ لکھتے نہیں تھے اس لئے نسیان کا خطرہ تھا۔(فتح الباری ۱۳؍۲۴۴)۔ مگر کیا سیدنا عمر ؒ احادیث سے کام نہیں لیتے تھے؟ اور کیا ان کے دور میں ان پر عمل نہیں ہوتا تھا؟یقیناً حدیث رسول ﷺ ان کے دور میں اہم مصدر خلافت تھی۔

٭…یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ قرآن کو فوری طور پر لکھا گیا اور حدیث رسول کو حفظ اور عمل کے حوالہ کیا گیا۔یہ حفظ ، حفظ کتابت اور حفظ صدر کاتھا اور اس پرعمل نے ہر نومسلم کو ہر روز امید نوبہار کا پیام دیا۔کیا حفاظت صرف کتابت ہی کا نام ہے ؟ ان ہزاروں صحابہ وخواتین کے عمل کو بھی اہمیت دینی چاہئے جسے اہمیت دے کر اللہ تعالیٰ نے رضی اللّٰہ عنہم کا خطاب اس لئے دیا کہ وہ خود بھی رضوا عنہ کی سعادت حاصل کرچکے تھے۔نیز ان کی یادداشت کواپنی یادداشت کی مانند مت سمجھئے وہ تو کسی واقعہ یا بات کو لکھ کر اپنی ذہن میں رکھنا معیوب سمجھتے تھے۔لوگ بھی اسے حافظہ کی کمزوری سمجھتے تھے اس لئے وہ کوئی بات تحریر بھی کرتے اور اسے چھپالیتے۔احادیث کے ساتھ بھی بعض صحابہ نے یہی کچھ کیا۔ سیدنا ابوبکر ؓکی طرف منسوب یہ ضعیف قول کہ انہوں نے پانچ سو احادیث کوجلوادیا تھا اس کے پیچھے یہی سبب تھا۔

٭…ایسا کیوں نہ سوچا گیا کہ اللہ تعالیٰ نے شریعت کے ان دونوں مآخذ(قرآن وحدیث) میں یہ اعجاز ظاہر کردیا کہ ان میں سے ایک کو فصاحت وبلاغت کے درجہ علیا پر فائز کرکے مقصد ، الفاظ اور اپنی ترتیب میں لاثانی بنادیا جس کے مثل پیش کرنا انسانی دسترس سے باہر ہے۔نیز رسول اللہ ﷺ کے صادق وامین ہونے کی دلیل یہ قرآن ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
٭…رہی حدیث وہ بھی قرآن کریم کی شرح وبیان ہونے کے ناطے اپنے جلو میں تمام علوم وتعلیمات کو سمیٹے ہوئے ہے۔ ایسی تعلیمات کو اگر ضبط تحریر میں لایا جاتا توبھی وہ تحریف وتبدیلی سے بچ نہیں سکتی جب تک اس کے بچنے کا الٰہی انتظام نہ ہو۔ قرآن مجید کی طرح نہ لکھنے کے باوجود اس کے خاطر خواہ حصے کا بچ جانا کیا معجزہ نہیں؟ اس عرصہ کی تاریخ میں کتنے حوادث پیش آئے ، کتنے فتنے اٹھیں اور کیسے فکری جھٹکے مسلمانوں کو دینے کی کوشش کی گئی مگر حدیث رسول کی حفاظت کے لئے متعدد اسباب کا مہیا کرنا ۔ جن میں صحابہ وتابعین اور تبع تابعین کی مبارک نسلیں شامل ہیں۔ان کا شوق حفظ ہے، ان کی تعلیم وتعلم ہے، حدیث پر عمل کا ولولہ تازہ ہے، خواہ وہ انفرادی ہو یا اجتماعی یا حکومتی سطح پر، نیز اس کے لئے محدثین کے اسفار علمیہ ہیں، مجالس ہیں، حلقات ہیں، ایک دوسرے کے حفظ کا امتحان ہے، کردار کی پرکھ ہے، تنقید واحتیاط ہے کیا یہ سب تائید غیبی کے بغیر ممکن ہے؟ امام ابن حزم رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
جو یہ سمجھتا ہے کہ آپ ﷺ کی وفات کے بعد آپ کی احادیث منسوخ ہوگئی ہیں اور پھر ایسی نئی شریعت کو ایجاد کرتا ہے جو آپ ﷺ کے دور میں نہ تھی تو اس نے نہ صرف کفر کیا بلکہ شرک کرڈالا۔کیونکہ وہ اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کو جھٹلارہا ہے:
{الْیَوْمَ أَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَأَتْمِمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ وَرِضِیْتُ لَکُمُ الْإِسْلَامَ دِیْنًا۔۔}(المائد ہ: ۳)
اسی طرح {وَمَنْ یَبْتَغِ غَیْرَا لْإِسْلَامِ دِیْنًا فَلَنْ یُّقْبَلُ مِنْہُ وَہُوَ فِی الْآخِرَۃِ مِنَ الْخَاسِرِیْنَ}(آل عمران:۸۵)
جو شے زمانہ رسالت میں کوئی بھی حکم رکھتی تھی مگر آپ ﷺ کی وفات کے بعد اس کے تبدیل ہونے کا کوئی مدعی ہے تو ایسا شخص دراصل غیر اسلام کو اپنا دین بنانا چاہتا ہے۔کیونکہ وہ سب کچھ عبادات، احکام، محرمات، مباحات اور ان واجبات کا نام ہے جو عہد نبوی میں اسلام نام پاتی تھیں اور جن پر اللہ تعالیٰ خوش تھے۔ بغیر دلیل اور نص کے ایسا شخص کاذب ہے ، اللہ پر مفتری ہے ، شریعت کا باغی ہے، ابلیس کے چیلوں میں سے ہے اور اللہ کی راہ سے روکنے والا ہے۔(الإحکام: ۲۹۴؍۲)

۳…حفظ:
آپ ﷺ کی تحریص پر صحابہ رسول آپ ﷺ کی احادیث کو مکمل حزم واحتیاط سے سنتے ، یاد کرتے اور ایک دوسرے کو سناتے بھی۔آخر کیوں نہ احادیث یاد کرتے انہیں کہا گیا تھا:
{وقولوا انظرنا واسمعوا} بلکہ انظرنا کہا کرو اور آپ کی بات کو غور سے سنو۔

انہیں دعائے رسول بھی تو لینا تھی:
نَضَّرَ اللّٰہُ امْرَأً سَمِعَ مَقَالَتِیْ فَوَعَاہَا ثُمَّ أَدَّاہَا کَمَا سَمِعَہَا۔ اللہ اس شخص کو تروتازہ رکھے جو میری احادیث کو بغور سنتا ہے اور انہیں اچھی طرح یاد کرتا ہے پھر انہیں آگے ویسے ہی ادا کرتا ہے جیسے اس نے سنی ہوتی ہیں۔

وہ ایسی تاکید سن کر نہ صرف احادیث یاد کرتے بلکہ اس کو ہمہ وقت آگے پھیلانے اور دوسروں کو اس سے آگاہ کرنے والے بن گئے۔:اِحْفَظُوْا ، وَأَخْبِرُوْہُنَّ مَنْ وَرَائَ کُمْ۔ ان احادیث کو اچھی طرح یاد کرو اور جو تمہارے پیچھے قبیلہ کے افراد ہیں انہیں بھی ان سے باخبر کرو۔انہوں نے قلم، کاغذ وکتب کی عدم دستیابی کے باوجود اپنی قوت حافظہ سے کام لیا۔ آپ ﷺ سے حدیث اس طرح سیکھی جیسے قرآن سیکھا تھا۔ کیونکہ مخفیات قرآن کی صحیح پہچان کا مرکز ِواحد آپ ﷺ ہی کی ذات ِاقدس تھی اور وہ آپ ﷺ کی احادیث ِمبارکہ ہی تھیں جن میں عقائد ، آداب، عبادات ومعاملات ، معاش ومعاشرت وغیرہ کی تعلیم ہوتی اور وہ یاد رکھتے۔

٭…جہاں وہ ہزاروں اشعار ، ضرب الامثال اور واقعات کے حافظ تھے ، گھوڑوں، اونٹوں اور خاندانوں کے شجرہ ہائے نسب تک ان کی نوک زبان پرہوتے وہاں حدیث رسول اور تعلیمات رسول کو ازبر کرنا ان کے لئے کوئی مشکل کام نہیں تھا۔ لاعلمی کی صورت میں آپ ﷺ ہی سے رجوع کرلیتے۔ فیصلہ جات میں آپ ﷺ ہی کی طرف پلٹتے اور آپ ﷺ کے طے شدہ فیصلوں سے ایک دوسرے کو آگاہ کرتے۔ اس طرح حدیث انہیں حفظ اورعمل دونوں اعتبار سے یاد رہتی اور ساتھ رہتی۔

٭٭٭٭٭​

نَظَرُوا بِعَیْنِ عَدَاوَۃٍ لَو أَنَّہَا عَیْنُ الرِّضَا لاَسْتَحْسَنُوا مَا اسْتَقْبَحُوا

انہوں نے ان پاکباز لوگوں کونظر عداوت سے دیکھا اگر رضا کی نظر ہوتی تو انہیں بجائے ہر بات بری لگنے کے اچھی لگتی۔​

سَبِیْلُ الْمَوْتِ غَایَۃُ کُلِّ حَیٍّ وَدَاعِیْہِ لِأَہْلِ الأَرْضِ دَاعِیْ

موت کی منزل ہر زندہ کی آخری منزل ہے اور اس کا پکارنے والا ہر پل اہل زمین کو صدا لگا رہا ہے۔​

٭٭٭٭٭​

عَنْ سُفْیَانَ بْنِ عُیَیْنَۃَ أَنَّہُ کَانَ یَقُوْلُ: إِنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ ﷺ ہُوَ الْمِیْزَانُ الأَکْبَرُ، فَعَلَیْہِ تُعْرَضُ الأَشْیَائُ: عَلٰی خُلُقِہِ، وَسِیْرَتِہِ، وَہَدْیِہِ، فَمَا وَافََقَہَا فَہُوَ الْحَقُّ وَمَا خَالَفَہَا فَہُوَ الْبَاطِلُ۔
( الجامع لأخلاق الراوی: ۸)
سفیان بن عیینہؒکا قول ہے: یقینا رسول اللہ کی ذاتِ مبارکہ ہی سب سے بڑا میزان ہے جن کے اخلاق، سیرت وکردار سے ہی لوگوں کے اخلاق اور عادات و اطوار کا جائزہ لیا جا سکتا ہے۔ جن کے خصائل اس میزان کے مطابق ہوئے تو وہ حق ہے اور جس کے خلاف ہوئے تو وہ باطل ہے۔

٭٭٭٭٭
حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم -حقیقت، اعتراضات اور تجزیہ
 
Top