- شمولیت
- اپریل 27، 2013
- پیغامات
- 26,582
- ری ایکشن اسکور
- 6,751
- پوائنٹ
- 1,207
آپ ﷺ نے خود احادیث لکھوائیں:
جیسا کہ اوپر عبد اللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما کی روایت گذر چکی ہے۔
٭…اس لئے ابوشاہ یمنی ، عبد اللہ بن عمرو بن العاص کی احادیث ، اور سیدنا ابوہریرہ ؓ کا مدینہ آنے کے بعد یہ کہنا: عبد اللہ بن عمرو بن العاص لکھا کرتے تھے اور میں خود نہیں لکھتا تھا ۔ یہ سب اجازات پہلی حدیث کی ناسخ ہیں ۔ یعنی یہ حدیث پہلے کی ہے جب امت میں امیت غالب تھی۔ جب لکھنے والے زیادہ ہوگئے اس وقت اجازت دے دی۔نیزیہ بھی قطعی اجماع ہے کہ آپ ﷺ نے اذن کتابت، نہی کے بعد دیا تھا نہ کہ پہلے۔(تقیید العلم از خطیب بغدادی:۳۲،۳۳)
٭…پہلی حدیث میں روایت حدیث کی اجازت ہے جو ظاہر ہے صحابہ کرام کی علمی سمجھ بوجھ اور قرآن وحدیث میں امتیاز کا ایک ٹھیک اندازہ ہے جو جناب رسالت مآب ﷺ نے ان کے بارے میں لگایا۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ جس کا حافظہ مضبوط ہو اور وہ قابل اعتماد بھی ہو اسے آپ ﷺ نے فرمایا ہو کہ تمہیں لکھنے کی کیا ضرورت۔ اس لئے کہ ایسے حضرات پھر حافظہ پر اعتماد کرنے کی بجائے کتابت پر انحصار کر بیٹھتے ہیں۔
٭… یہ کہنا کہ قرآن کا سنت وحدیث سے خلط ملط ہونے کا آپ ﷺ کو خوف تھا جس کی وجہ سے آپ ﷺ نے منع فرمایا۔درست نہیں۔ اس لئے کہ صحابہ کرام جو عربی بلاغت کی انتہاء پر تھے اور فصاحت کے خوگر بھی ، ان کے بارے میں ایسا سوچنا کہ وہ احادیث کو قرآن مجید سے خلط ملط کردیں گے گویا انہیں عربی زبان اور فہم قرآن وحدیث سے عاری سمجھنا ہوگا جو ناانصافی ہوگی۔ ہاں اگر اس پہلو سے دیکھا جائے کہ کہیں یہ اوراق ایسے افراد کے ہاتھ لگ جائیں جو قرآن اور حدیث میں فرق نہ کرسکیں تو ہوسکتا ہے وہ حدیث رسول کو بھی قرآن سمجھ بیٹھیں تو درست ہوگا۔امام ابن قتیبہ رحمہ اللہ نے تَأْوِیْلُ مُخْتَلَفِ الْحَدِیْثِ میں اس کا یہ جواب بھی دیا ہے:
إِنَّ ہَذَا فِی مَعْنَیَیْنِ: أَحَدُہُمَا: أَنْ یَکُوْنَ مِنْ مَنْسُوْخ ِالسُّنَّۃِ بِالسُّنَّۃِ، کَأَنَّہُ نَہَی فِیْ أَوَّلِ الْاَمْرِ عَنْ أَنْ یُکْتَبَ قَوْلُہُ، ثُمَّ رَأَی بَعْدُ۔۔لَمَّا عَلِمَ أََنَّ السُّنَنَ تَکْثُرُ وَتَفُوْتُ الْحِفْظُ۔۔أَنْ تُکْتَبَ وَتُقَیَّدَ۔ وَالْمَعْنَی الآخَرُ: أَنْ یَکُونَ خَصَّ بِہَذَا عَبْدَ اللّٰہِ بْنَ عَمْرٍو لِاَنَّہُ کَانَ قَارِئاً لِلْکُتُبِ الْمُتَقَدِّمَۃِ، وَیَکْتُبُ بِالسُّرْیَانِیَۃِ وَالْعَرَبِیَّۃِ، وَکَانَ غَیْرُہُ مِنَ الصَّحَابَۃِ أُمِّیِّیْنَ۔۔۔۔۔ فَلَمَّا خَشِیَ عَلَیْہِمُ الْغَلَطَ فِیْمَا یَکْتُبُوْنَ نَہَاہُمْ، وَلَمَّا أَمِنَ عَلَی عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عَمْرٍو ذَلِکَ أَذِنَ لَہُ۔ اس اختلاف کے دو معنی ہیں:
پہلا : یہ سنت، سنت کو منسوخ کررہی ہے۔ وہ یوں کہ ابتداء میں آپ ﷺ نے اپنی احادیث لکھنے سے منع فرمایا پھر جب آپ نے یہ محسوس کیا کہ احادیث وسنن میں اضافہ ہورہا ہے اور حفظ رہتا جارہا ہے تو اجازت دے دی کہ وہ لکھی اور قید کرلی جائیں۔
دوسرا معنی: لکھنے کی اجازت صرف عبد اللہ کیلئے تھی کیونکہ وہ قدیم کتب پڑھا کرتے اور سریانی وعربی میں لکھا بھی کرتے۔دوسرے امی تھے ایک یادو ہی احادیث لکھاکرتے تھے۔ کوئی لکھتا بھی تواس کی تحریر اتنی ناپختہ ہوتی کہ حروف تہجی بھی درست نہ ہوتے۔ اس لئے آپ ﷺ نے اس خدشہ کے پیش نظر لکھنے سے منع فرمایااور عبداللہ کاخدشہ نہ ہونے کی بناء پر لکھنے کی اجازت دے دی۔
دونوں احادیث کا یہی درست مفہوم ہے جو سمجھ آتا ہے۔ اس لئے بعد میں حدیث کے لکھنے یا نہ لکھنے پر اختلاف باقی نہ رہا بلکہ پچاس کے قریب صحابہ کے نام ملتے ہیں جنہوں نے خود سنی ہوئی احادیث رسول کو لکھ کر اپنے پاس محفوظ کیا ہوا تھا۔ اسی عمل نے بتدریج تدوین حدیث کی سبیل ازخود نکالی۔ کیونکہ نامور مفکرین کے اقوال ، افعال اور ان کی ذاتی زندگی کے اہم واقعات ضبط کرنا اور ان پر مزید تحقیق کرکے ڈگریاں تقسیم کرنا آج کے تعلیمی اداروں میں ہی نہیں بلکہ قدیم سے یہ سلسلہ چلا آرہا ہے ۔
جیسا کہ اوپر عبد اللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما کی روایت گذر چکی ہے۔
٭…اس لئے ابوشاہ یمنی ، عبد اللہ بن عمرو بن العاص کی احادیث ، اور سیدنا ابوہریرہ ؓ کا مدینہ آنے کے بعد یہ کہنا: عبد اللہ بن عمرو بن العاص لکھا کرتے تھے اور میں خود نہیں لکھتا تھا ۔ یہ سب اجازات پہلی حدیث کی ناسخ ہیں ۔ یعنی یہ حدیث پہلے کی ہے جب امت میں امیت غالب تھی۔ جب لکھنے والے زیادہ ہوگئے اس وقت اجازت دے دی۔نیزیہ بھی قطعی اجماع ہے کہ آپ ﷺ نے اذن کتابت، نہی کے بعد دیا تھا نہ کہ پہلے۔(تقیید العلم از خطیب بغدادی:۳۲،۳۳)
٭…پہلی حدیث میں روایت حدیث کی اجازت ہے جو ظاہر ہے صحابہ کرام کی علمی سمجھ بوجھ اور قرآن وحدیث میں امتیاز کا ایک ٹھیک اندازہ ہے جو جناب رسالت مآب ﷺ نے ان کے بارے میں لگایا۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ جس کا حافظہ مضبوط ہو اور وہ قابل اعتماد بھی ہو اسے آپ ﷺ نے فرمایا ہو کہ تمہیں لکھنے کی کیا ضرورت۔ اس لئے کہ ایسے حضرات پھر حافظہ پر اعتماد کرنے کی بجائے کتابت پر انحصار کر بیٹھتے ہیں۔
٭… یہ کہنا کہ قرآن کا سنت وحدیث سے خلط ملط ہونے کا آپ ﷺ کو خوف تھا جس کی وجہ سے آپ ﷺ نے منع فرمایا۔درست نہیں۔ اس لئے کہ صحابہ کرام جو عربی بلاغت کی انتہاء پر تھے اور فصاحت کے خوگر بھی ، ان کے بارے میں ایسا سوچنا کہ وہ احادیث کو قرآن مجید سے خلط ملط کردیں گے گویا انہیں عربی زبان اور فہم قرآن وحدیث سے عاری سمجھنا ہوگا جو ناانصافی ہوگی۔ ہاں اگر اس پہلو سے دیکھا جائے کہ کہیں یہ اوراق ایسے افراد کے ہاتھ لگ جائیں جو قرآن اور حدیث میں فرق نہ کرسکیں تو ہوسکتا ہے وہ حدیث رسول کو بھی قرآن سمجھ بیٹھیں تو درست ہوگا۔امام ابن قتیبہ رحمہ اللہ نے تَأْوِیْلُ مُخْتَلَفِ الْحَدِیْثِ میں اس کا یہ جواب بھی دیا ہے:
إِنَّ ہَذَا فِی مَعْنَیَیْنِ: أَحَدُہُمَا: أَنْ یَکُوْنَ مِنْ مَنْسُوْخ ِالسُّنَّۃِ بِالسُّنَّۃِ، کَأَنَّہُ نَہَی فِیْ أَوَّلِ الْاَمْرِ عَنْ أَنْ یُکْتَبَ قَوْلُہُ، ثُمَّ رَأَی بَعْدُ۔۔لَمَّا عَلِمَ أََنَّ السُّنَنَ تَکْثُرُ وَتَفُوْتُ الْحِفْظُ۔۔أَنْ تُکْتَبَ وَتُقَیَّدَ۔ وَالْمَعْنَی الآخَرُ: أَنْ یَکُونَ خَصَّ بِہَذَا عَبْدَ اللّٰہِ بْنَ عَمْرٍو لِاَنَّہُ کَانَ قَارِئاً لِلْکُتُبِ الْمُتَقَدِّمَۃِ، وَیَکْتُبُ بِالسُّرْیَانِیَۃِ وَالْعَرَبِیَّۃِ، وَکَانَ غَیْرُہُ مِنَ الصَّحَابَۃِ أُمِّیِّیْنَ۔۔۔۔۔ فَلَمَّا خَشِیَ عَلَیْہِمُ الْغَلَطَ فِیْمَا یَکْتُبُوْنَ نَہَاہُمْ، وَلَمَّا أَمِنَ عَلَی عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عَمْرٍو ذَلِکَ أَذِنَ لَہُ۔ اس اختلاف کے دو معنی ہیں:
پہلا : یہ سنت، سنت کو منسوخ کررہی ہے۔ وہ یوں کہ ابتداء میں آپ ﷺ نے اپنی احادیث لکھنے سے منع فرمایا پھر جب آپ نے یہ محسوس کیا کہ احادیث وسنن میں اضافہ ہورہا ہے اور حفظ رہتا جارہا ہے تو اجازت دے دی کہ وہ لکھی اور قید کرلی جائیں۔
دوسرا معنی: لکھنے کی اجازت صرف عبد اللہ کیلئے تھی کیونکہ وہ قدیم کتب پڑھا کرتے اور سریانی وعربی میں لکھا بھی کرتے۔دوسرے امی تھے ایک یادو ہی احادیث لکھاکرتے تھے۔ کوئی لکھتا بھی تواس کی تحریر اتنی ناپختہ ہوتی کہ حروف تہجی بھی درست نہ ہوتے۔ اس لئے آپ ﷺ نے اس خدشہ کے پیش نظر لکھنے سے منع فرمایااور عبداللہ کاخدشہ نہ ہونے کی بناء پر لکھنے کی اجازت دے دی۔
دونوں احادیث کا یہی درست مفہوم ہے جو سمجھ آتا ہے۔ اس لئے بعد میں حدیث کے لکھنے یا نہ لکھنے پر اختلاف باقی نہ رہا بلکہ پچاس کے قریب صحابہ کے نام ملتے ہیں جنہوں نے خود سنی ہوئی احادیث رسول کو لکھ کر اپنے پاس محفوظ کیا ہوا تھا۔ اسی عمل نے بتدریج تدوین حدیث کی سبیل ازخود نکالی۔ کیونکہ نامور مفکرین کے اقوال ، افعال اور ان کی ذاتی زندگی کے اہم واقعات ضبط کرنا اور ان پر مزید تحقیق کرکے ڈگریاں تقسیم کرنا آج کے تعلیمی اداروں میں ہی نہیں بلکہ قدیم سے یہ سلسلہ چلا آرہا ہے ۔