حسین بن محمد
مبتدی
- شمولیت
- اپریل 10، 2021
- پیغامات
- 50
- ری ایکشن اسکور
- 9
- پوائنٹ
- 21
تعلیم میں مار پیٹ کی شرعی حیثیت؛
تحریر؛
فضیلۃ الشیخ، مفتی عبد الولی خان حفظہ اللہ
الحمد للہ بندہ دین کا ایک ادنی طالب علم ہے، اسی حیثیت سے بات کروں گا. مجھے قرآن و سنت میں ایسی کوئی دلیل نہیں ملی جس سے ثابت ہو کہ استاد صاحب اپنے شاگرد کو ہاتھ، لکڑی یا کسی اور چیز کے ساتھ مارسکتا ہے، زخمی کرسکتا ہے اور ہاتھ پاوں توڑ سکتا ہے. ہاں، ماں باپ اپنی اولاد کو برائے تربيت و ادب مارسکتے ہیں. آقا اپنے مملوک کو سزا دے سکتا ہے. خاوند اپنی بیوی کو خاص شروط اور حالات میں مار دے سکتا ہے. اور حاکم و قاضی مجرم کو جسمانی سزا دے سکتا ہے. ان کے سوا سکول یا مدرسے کے استاد، مہتمم اور منتظم کو حق حاصل نہيں کہ اپنے شاگرد کو مارے، ہاتھ پاوں توڑ دے، بالخصوص چہرے پر مارے، اس لیے کہ یہ تو کسی بھی صورت میں جائز نہیں. تو یہ اساتذہ صاحبان جو ضرب و شتم کا سلسلہ چلاتے ہیں ان کی دلیل کیا ہے؟ حالانکہ اس مار سے بے شمار نفسياتی اور معاشرتی مسائل پیدا ہوتے ہیں اور مدارس و تعلیمی ادارے بدنام ہوتے ہیں؟! جبکہ نبی صلی الله عليه وسلم نے فرمايا ہے: كُلُّ الْمُسْلِمِ عَلَى الْمُسْلِمِ ، حَرَامٌ دَمُهُ ، وَمَالُهُ ، وَعِرْضُهُ. صحيح مسلم.
(ختم شدہ)
ترجمہ :مسلمان کی سب چیزیں دوسرے مسلمان پر حرام ہیں اس کا خون، مال، عزت اور آبرو۔
Last edited: