• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تفسير بغوی کے متعلق امام ابن تیمیہ کی رائے اور اس پر محاکمہ

عامر عدنان

مشہور رکن
شمولیت
جون 22، 2015
پیغامات
921
ری ایکشن اسکور
263
پوائنٹ
142
[ تفسير بغوی کے متعلق امام ابن تیمیہ کی رائی اور اس پر محاکمہ]

تحریر : ابو تقی الدین رحیمی

شیخ الاسلام ابن تیمیہ فرماتے ہیں :
"بغوی کی تفسیر ثعلبی کی تفسیر کا اختصار ہے، لیکن انہوں نے اپنی تفسیر کو ثعلبی کے برعکس موضوع احادیث اور مبتدعانہ اقوال و آرا سے محفوظ رکھا ہے" [مقدمة في أصول التفسير].
اسی طرح وہ اپنے فتاوی میں ایک سوال کے جواب میں جس میں ان سے پوچھا گیا تھا کہ زمخشری، قرطبی اور بغوی میں سے کس کی تفسیر کتاب اللہ اور سنتِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے زیادہ نزدیک ہے؟اس استفتا کے جواب میں شیخ الاسلام ابن تیمیہ اپنے فتاوی میں فرماتے ہیں :
"تینوں کتابیں جن کے بارے پوچھا گیا ہے ان میں سب سے زیادہ بدعت سے محفوظ اور احادیث ضعیفہ وموضوعہ سے پاک بغوی کی تفسیر ہے، حالانکہ بغوی کی تفسیر ثعلبی کی تفسیر کا اختصار ہے لیکن انہوں اپنی کتاب میں ثعلبی کی مبتدعانہ آراء اور احادیث موضوعہ کو حذف کر دیا ہے، اس طرح اور بھی بہت سی غیر ضروری چیزیں امام بغوی نے اس میں سے نکال دی ہیں "[فتاوی ابن تیمیہ 193/2]

شیخ الاسلام ابن تیمیہ کے مذکورہ بیان پر محاکمہ:

1علامہ کتانی لکھتے ہیں :
"معالم التنزيل(یعنی تفسیر بغوی) میں ایسے مندرجات وحکایات موجود ہیں جن کو ضعیف وموضوع کہا جا سکتا ہے"[الرسالة المستطرفة ص/19]
چونکہ"معالم التنزيل" ثعلبی کی تفسیر "الكشف والبيان عن تفسير القرآن" کا اختصار ہے، اور ثعلبی کی تفسیر کا امتیاز ہی یہ ہے کہ وہ حاطب اللیل ہیں اور اپنی تفسیر میں انہوں نے احادیث ضعیفہ اور موضوعہ،نیز اسرائیلیات کا انبار جمع کردیا ہے،اس لئے بغوی کی تفسیر کا مکمل طور سے ان خرافات سے پاک ہونا تو ناممکن تھااور یہی ہوا.
چنانچہ ڈاکٹر محمد ابوشہبہ لکھتے ہیں:
"بغوی کی تفسیر میں صحیح اور ضعیف ہر طرح کی حدیثیں موجود ہیں، اور اسرائیلی روایات کی تو اپنی اصل یعنی تفسیر ثعلبی ہی کی طرح کثرت ہے، مثال کے طور پر قصۂ ہاروت وماروت، قصۂ داؤد وسلیمان وغیرہ دیکھیں، چنانچہ وہ آیت {ن والقلم وما يسطرون} - کے تحت لکھتے ہیں:" نون سے مراد مچھلی ہے جس کی پیٹھ پر زمین واقع ہے" - اور بتانے کی ضرورت نہیں ہے کہ یہ خرافات اور اسرائیلیات کی قبیل کی بات ہے"[الإسرائيليات والموضوعات، ص/128]
اسی طرح ڈاکٹر محمد حسین ذہبی فرماتے ہیں:
"اس تفسیر پر میرا تبصرہ یہ ہے کہ اس میں کلبی اور اس جیسے دوسرے ضعیف راویوں کی روایتیں لی گئی ہیں"[التفسير والمفسرون 238/1].
مزید لکھتے ہیں:
"اس تفسیر میں بعض مقامات پر مجھے ایسی اسرائیلی روایات بھی ملی ہیں جن کو انہوں نے ذکر تو کیا ہے، مگر اس پر کوئی نوٹ یا تبصرہ کئے بغیر گزر گئے ہیں"[التفسير والمفسرون 238/1].
تفصیل کے لئے دیکھئے[تفسيروں میں اسرائیلیات، ذکی الرحمن غازی مدنی ،ص/758-778]
3-شیخ الاسلام ابن تیمیہ کا یہ کہنا کہ بغوی کی تفسیر احادیث ضعیفہ وموضوعہ سے پاک ہے تو بیشک اس سے ایک حدتک تو اتفاق کیا جا سکتا ہے کہ سورتوں کے فضائل کے باب میں جو موضوع حدیثیں ثعلبی اور دیگر مفسرین کی کتابوں میں وارد ہوئی ہیں ان سے تفسیر بغوی خالی ہے،اس طرح ابن تیمیہ کے اس بیان کو بھی صحیح تسلیم کیا جاسکتا ہے کہ بغوی کی تفسیر میں زمخشری اور قرطبی کے مقابلے میں مبتدعانہ آرا اور ضعیف اور موضوع احادیث نسبتاً کم ہیں، مگر شیخ الاسلام ابن تیمیہ کا یہ کہنا کہ یہ کتاب ضعیف اور موضوع اور اسرائیلی روایات سے یکسر خالی ہے تو ان کی یہ بات ناقابل تسلیم ہے.
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,472
پوائنٹ
964
ساتھ ساتھ عربی عبارات بھی دی ہوئی ہوں، تو پڑھنے والے کو فیصلہ کرنے میں آسانی رہتی ہے۔
میرے خیال میں تفسیر بغوی کو بدعات و موضوعات سے پاک تفسیر ثعلبی کی نسبت سے کہا گیا ہے۔
بالکل وجود کی نفی اردو عبارت میں ہے، جبکہ عربی عبارت میں گنجائش ہے۔
سئل شيخ الإسلام تقي الدين أحمد بن تيميه رحمه الله تعالى عن أيالتفاسير أقرب إلى الكتاب والسنة: الزمخشري، أن القرطبي، أم البغوي، أم غير هؤلاء؟
فأجاب تغمده الله برحمته ورضوانه: الحمد لله. أما التفاسير التي في أيدي الناس فأصحها (تفسير محمد بن جرير الطبري) . فإنه يذذكر مقالات السلف بالأساانيد الثابتة، وليس فيه بدعة، ولا ينقل عن المتهمين كمقاتل بن بكير، والكلبي.
والتفاسير غير المأثورة بالأسانيد كثيرة: كتفسير عبد الرزاق، وعبد بن حميد، ووكيع، وابن أبي قتيبة، وأحمد بن حنبل، وإسحاق بن راهويه.
وأما التفاسير الثلاثة المسئول عنها فأسلمها من البدعة والأحاديث الضعيفة (البغوي) ، لكنه مختصر من (تفسير الثعلبي) وحذف منه الأحاديث الموضوعة، والبدع التي فيه، وحذف أشياء غير ذلك.
وأما (الواحدي) ، فإنه تلميذ الثعلبي، وهو أخبر منه بالعربية، لكن الثعلبي فيه سلامة من البدع، وإن ذكرها تقليدا لغيره. وتفسيره وتفسير الواحدي البسيط والوسيط والوجيز فيها فوائد جليلة، وفيها غث كثير من المنقولات الباطلة وغيرها.
وأما (الزمخشري) فتفسيره محشو بالبدعة، وعلى طريقة المعتزلة من إنكار الصفات، والرؤية، والقول بخلق القرآن، وأنكر أن الله مريد للكائنات، وخالق لأفعال العباد، وغير ذلك من أصول المعتزلة.

(مقدمة في أصول التفسير لابن تيمية (ص: 51)
 

عامر عدنان

مشہور رکن
شمولیت
جون 22، 2015
پیغامات
921
ری ایکشن اسکور
263
پوائنٹ
142
بالکل وجود کی نفی اردو عبارت میں ہے، جبکہ عربی عبارت میں گنجائش ہے
محترم شیخ عربی عبارت میں جو گنجائش ہے ذرا اس کی وضاحت کر دیں تاکہ ہم اردو داں بھی مستفید ہو سکیں ۔ جزاک اللہ خیرا
 
Top