عامر عدنان
مشہور رکن
- شمولیت
- جون 22، 2015
- پیغامات
- 921
- ری ایکشن اسکور
- 264
- پوائنٹ
- 142
[ تفسير بغوی کے متعلق امام ابن تیمیہ کی رائی اور اس پر محاکمہ]
تحریر : ابو تقی الدین رحیمی
شیخ الاسلام ابن تیمیہ فرماتے ہیں :
"بغوی کی تفسیر ثعلبی کی تفسیر کا اختصار ہے، لیکن انہوں نے اپنی تفسیر کو ثعلبی کے برعکس موضوع احادیث اور مبتدعانہ اقوال و آرا سے محفوظ رکھا ہے" [مقدمة في أصول التفسير].
اسی طرح وہ اپنے فتاوی میں ایک سوال کے جواب میں جس میں ان سے پوچھا گیا تھا کہ زمخشری، قرطبی اور بغوی میں سے کس کی تفسیر کتاب اللہ اور سنتِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے زیادہ نزدیک ہے؟اس استفتا کے جواب میں شیخ الاسلام ابن تیمیہ اپنے فتاوی میں فرماتے ہیں :
"تینوں کتابیں جن کے بارے پوچھا گیا ہے ان میں سب سے زیادہ بدعت سے محفوظ اور احادیث ضعیفہ وموضوعہ سے پاک بغوی کی تفسیر ہے، حالانکہ بغوی کی تفسیر ثعلبی کی تفسیر کا اختصار ہے لیکن انہوں اپنی کتاب میں ثعلبی کی مبتدعانہ آراء اور احادیث موضوعہ کو حذف کر دیا ہے، اس طرح اور بھی بہت سی غیر ضروری چیزیں امام بغوی نے اس میں سے نکال دی ہیں "[فتاوی ابن تیمیہ 193/2]
شیخ الاسلام ابن تیمیہ کے مذکورہ بیان پر محاکمہ:
1علامہ کتانی لکھتے ہیں :
"معالم التنزيل(یعنی تفسیر بغوی) میں ایسے مندرجات وحکایات موجود ہیں جن کو ضعیف وموضوع کہا جا سکتا ہے"[الرسالة المستطرفة ص/19]
چونکہ"معالم التنزيل" ثعلبی کی تفسیر "الكشف والبيان عن تفسير القرآن" کا اختصار ہے، اور ثعلبی کی تفسیر کا امتیاز ہی یہ ہے کہ وہ حاطب اللیل ہیں اور اپنی تفسیر میں انہوں نے احادیث ضعیفہ اور موضوعہ،نیز اسرائیلیات کا انبار جمع کردیا ہے،اس لئے بغوی کی تفسیر کا مکمل طور سے ان خرافات سے پاک ہونا تو ناممکن تھااور یہی ہوا.
چنانچہ ڈاکٹر محمد ابوشہبہ لکھتے ہیں:
"بغوی کی تفسیر میں صحیح اور ضعیف ہر طرح کی حدیثیں موجود ہیں، اور اسرائیلی روایات کی تو اپنی اصل یعنی تفسیر ثعلبی ہی کی طرح کثرت ہے، مثال کے طور پر قصۂ ہاروت وماروت، قصۂ داؤد وسلیمان وغیرہ دیکھیں، چنانچہ وہ آیت {ن والقلم وما يسطرون} - کے تحت لکھتے ہیں:" نون سے مراد مچھلی ہے جس کی پیٹھ پر زمین واقع ہے" - اور بتانے کی ضرورت نہیں ہے کہ یہ خرافات اور اسرائیلیات کی قبیل کی بات ہے"[الإسرائيليات والموضوعات، ص/128]
اسی طرح ڈاکٹر محمد حسین ذہبی فرماتے ہیں:
"اس تفسیر پر میرا تبصرہ یہ ہے کہ اس میں کلبی اور اس جیسے دوسرے ضعیف راویوں کی روایتیں لی گئی ہیں"[التفسير والمفسرون 238/1].
مزید لکھتے ہیں:
"اس تفسیر میں بعض مقامات پر مجھے ایسی اسرائیلی روایات بھی ملی ہیں جن کو انہوں نے ذکر تو کیا ہے، مگر اس پر کوئی نوٹ یا تبصرہ کئے بغیر گزر گئے ہیں"[التفسير والمفسرون 238/1].
تفصیل کے لئے دیکھئے[تفسيروں میں اسرائیلیات، ذکی الرحمن غازی مدنی ،ص/758-778]
3-شیخ الاسلام ابن تیمیہ کا یہ کہنا کہ بغوی کی تفسیر احادیث ضعیفہ وموضوعہ سے پاک ہے تو بیشک اس سے ایک حدتک تو اتفاق کیا جا سکتا ہے کہ سورتوں کے فضائل کے باب میں جو موضوع حدیثیں ثعلبی اور دیگر مفسرین کی کتابوں میں وارد ہوئی ہیں ان سے تفسیر بغوی خالی ہے،اس طرح ابن تیمیہ کے اس بیان کو بھی صحیح تسلیم کیا جاسکتا ہے کہ بغوی کی تفسیر میں زمخشری اور قرطبی کے مقابلے میں مبتدعانہ آرا اور ضعیف اور موضوع احادیث نسبتاً کم ہیں، مگر شیخ الاسلام ابن تیمیہ کا یہ کہنا کہ یہ کتاب ضعیف اور موضوع اور اسرائیلی روایات سے یکسر خالی ہے تو ان کی یہ بات ناقابل تسلیم ہے.
تحریر : ابو تقی الدین رحیمی
شیخ الاسلام ابن تیمیہ فرماتے ہیں :
"بغوی کی تفسیر ثعلبی کی تفسیر کا اختصار ہے، لیکن انہوں نے اپنی تفسیر کو ثعلبی کے برعکس موضوع احادیث اور مبتدعانہ اقوال و آرا سے محفوظ رکھا ہے" [مقدمة في أصول التفسير].
اسی طرح وہ اپنے فتاوی میں ایک سوال کے جواب میں جس میں ان سے پوچھا گیا تھا کہ زمخشری، قرطبی اور بغوی میں سے کس کی تفسیر کتاب اللہ اور سنتِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے زیادہ نزدیک ہے؟اس استفتا کے جواب میں شیخ الاسلام ابن تیمیہ اپنے فتاوی میں فرماتے ہیں :
"تینوں کتابیں جن کے بارے پوچھا گیا ہے ان میں سب سے زیادہ بدعت سے محفوظ اور احادیث ضعیفہ وموضوعہ سے پاک بغوی کی تفسیر ہے، حالانکہ بغوی کی تفسیر ثعلبی کی تفسیر کا اختصار ہے لیکن انہوں اپنی کتاب میں ثعلبی کی مبتدعانہ آراء اور احادیث موضوعہ کو حذف کر دیا ہے، اس طرح اور بھی بہت سی غیر ضروری چیزیں امام بغوی نے اس میں سے نکال دی ہیں "[فتاوی ابن تیمیہ 193/2]
شیخ الاسلام ابن تیمیہ کے مذکورہ بیان پر محاکمہ:
1علامہ کتانی لکھتے ہیں :
"معالم التنزيل(یعنی تفسیر بغوی) میں ایسے مندرجات وحکایات موجود ہیں جن کو ضعیف وموضوع کہا جا سکتا ہے"[الرسالة المستطرفة ص/19]
چونکہ"معالم التنزيل" ثعلبی کی تفسیر "الكشف والبيان عن تفسير القرآن" کا اختصار ہے، اور ثعلبی کی تفسیر کا امتیاز ہی یہ ہے کہ وہ حاطب اللیل ہیں اور اپنی تفسیر میں انہوں نے احادیث ضعیفہ اور موضوعہ،نیز اسرائیلیات کا انبار جمع کردیا ہے،اس لئے بغوی کی تفسیر کا مکمل طور سے ان خرافات سے پاک ہونا تو ناممکن تھااور یہی ہوا.
چنانچہ ڈاکٹر محمد ابوشہبہ لکھتے ہیں:
"بغوی کی تفسیر میں صحیح اور ضعیف ہر طرح کی حدیثیں موجود ہیں، اور اسرائیلی روایات کی تو اپنی اصل یعنی تفسیر ثعلبی ہی کی طرح کثرت ہے، مثال کے طور پر قصۂ ہاروت وماروت، قصۂ داؤد وسلیمان وغیرہ دیکھیں، چنانچہ وہ آیت {ن والقلم وما يسطرون} - کے تحت لکھتے ہیں:" نون سے مراد مچھلی ہے جس کی پیٹھ پر زمین واقع ہے" - اور بتانے کی ضرورت نہیں ہے کہ یہ خرافات اور اسرائیلیات کی قبیل کی بات ہے"[الإسرائيليات والموضوعات، ص/128]
اسی طرح ڈاکٹر محمد حسین ذہبی فرماتے ہیں:
"اس تفسیر پر میرا تبصرہ یہ ہے کہ اس میں کلبی اور اس جیسے دوسرے ضعیف راویوں کی روایتیں لی گئی ہیں"[التفسير والمفسرون 238/1].
مزید لکھتے ہیں:
"اس تفسیر میں بعض مقامات پر مجھے ایسی اسرائیلی روایات بھی ملی ہیں جن کو انہوں نے ذکر تو کیا ہے، مگر اس پر کوئی نوٹ یا تبصرہ کئے بغیر گزر گئے ہیں"[التفسير والمفسرون 238/1].
تفصیل کے لئے دیکھئے[تفسيروں میں اسرائیلیات، ذکی الرحمن غازی مدنی ،ص/758-778]
3-شیخ الاسلام ابن تیمیہ کا یہ کہنا کہ بغوی کی تفسیر احادیث ضعیفہ وموضوعہ سے پاک ہے تو بیشک اس سے ایک حدتک تو اتفاق کیا جا سکتا ہے کہ سورتوں کے فضائل کے باب میں جو موضوع حدیثیں ثعلبی اور دیگر مفسرین کی کتابوں میں وارد ہوئی ہیں ان سے تفسیر بغوی خالی ہے،اس طرح ابن تیمیہ کے اس بیان کو بھی صحیح تسلیم کیا جاسکتا ہے کہ بغوی کی تفسیر میں زمخشری اور قرطبی کے مقابلے میں مبتدعانہ آرا اور ضعیف اور موضوع احادیث نسبتاً کم ہیں، مگر شیخ الاسلام ابن تیمیہ کا یہ کہنا کہ یہ کتاب ضعیف اور موضوع اور اسرائیلی روایات سے یکسر خالی ہے تو ان کی یہ بات ناقابل تسلیم ہے.