• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تفسیر احسن البیان (تفسیر مکی)

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
وَلَوْ يُعَجِّلُ اللَّـهُ لِلنَّاسِ الشَّرَّ‌ اسْتِعْجَالَهُم بِالْخَيْرِ‌ لَقُضِيَ إِلَيْهِمْ أَجَلُهُمْ ۖ فَنَذَرُ‌ الَّذِينَ لَا يَرْ‌جُونَ لِقَاءَنَا فِي طُغْيَانِهِمْ يَعْمَهُونَ ﴿١١﴾
اور اگر اللہ لوگوں پر جلدی سے نقصان واقع کر دیا کرتا جس طرح وہ فائدہ کے لیے جلدی مچاتے ہیں تو ان کا وعدہ کبھی کا پورا ہو چکا ہوتا۔ (١) سو ہم نے ان لوگوں کو جن کو ہمارے پاس آنے کا یقین نہیں ہے ان کے حال پر چھوڑے رکھتے ہیں کہ اپنی سرکشی میں بھٹکتے رہیں۔
١١۔١ اس کے ایک معنی تو یہ ہیں کہ جس طرح انسان خیر کے طلب کرنے میں جلدی کرتا ہے، اسی طرح وہ شر (عذاب) کے طلب کرنے میں بھی جلدی مچاتا ہے، اللہ کے پیغمبروں سے کہتا ہے اگر تم سچے ہو تو وہ عذاب لے کر آؤ جس سے تم ہمیں ڈراتے ہو۔ اللہ تعالٰی فرماتا ہے کہ اگر ان کے اس مطالبے کے مطابق ہم جلدی عذاب بھیج دیتے تو کبھی کے یہ موت اور ہلاکت سے دوچار ہو چکے ہوتے۔ لیکن ہم مہلت دے کر انہیں پورا موقع دیتے ہیں۔ دوسرے معنی یہ ہیں کہ جس طرح انسان اپنے لیے خیر اور بھلائی کی دعائیں مانگتا ہے جنہیں ہم قبول کرتے ہیں۔ اسی طرح جب انسان غصے یا تنگی میں ہوتا ہے تو اپنے لیے اور اپنی اولاد وغیرہ کے لیے بد دعائیں کرتا ہے، جنہیں ہم اس لیے نظر انداز کر دیتے ہیں کہ یہ زبان سے تو ہلاکت مانگ رہا ہے، مگر اس کے دل میں ایسا ارادہ نہیں ہے۔ لیکن اگر ہم انسانوں کی بد دعاؤں کے مطابق، انہیں فوراً ہلاکت سے دوچار کرنا شروع کردیں، تو پھر جلدی ہی لوگ موت اور تباہی سے ہمکنار ہو جایا کریں اس لئے حدیث میں آتا ہے کہ "تم اپنے لیے، اپنی اولاد کے لیے اور اپنے مال و کاروبار کے لیے بد دعائیں مت کیا کرو، کہیں ایسا نہ ہو کہ تمہاری بد دعائیں، اس گھڑی کو پا لیں، جس میں اللہ کی طرف سے دعائیں قبول کی جاتی ہیں، پس وہ تمہاری بد دعائیں قبول فرما لے"۔ (سنن أبی داؤد، کتاب الوتر، باب النهی عن أن یدعو الأنسان علی أهله وماله ومسلم، کتاب الزهد، فی حدیث جابر الطویل)۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
وَإِذَا مَسَّ الْإِنسَانَ الضُّرُّ‌ دَعَانَا لِجَنبِهِ أَوْ قَاعِدًا أَوْ قَائِمًا فَلَمَّا كَشَفْنَا عَنْهُ ضُرَّ‌هُ مَرَّ‌ كَأَن لَّمْ يَدْعُنَا إِلَىٰ ضُرٍّ‌ مَّسَّهُ ۚ كَذَٰلِكَ زُيِّنَ لِلْمُسْرِ‌فِينَ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ ﴿١٢﴾
اور جب انسان کو کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو ہم کو پکارتا ہے لیٹے بھی، بیٹھے بھی، کھڑے بھی. پھر جب ہم اس کی تکلیف اس سے ہٹا دیتے ہیں تو وہ ایسا ہو جاتا ہے کہ گویا اس نے اپنی تکلیف کے لیے جو اسے پہنچی تھی کبھی ہمیں پکارا ہی نہ تھا، (١) ان حد سے گزرنے والوں کے اعمال کو ان کے لیے اسی طرح خوشنما بنا دیا گیا ہے۔ (٢)
١٢۔١ یہ انسان کی اس حالت کا تذکرہ ہے جو انسانوں کی اکثریت کا شیوہ ہے۔ بلکہ بہت سے اللہ کے ماننے والے بھی اس کوتاہی کا عام ارتکاب کرتے ہیں کہ مصیبت کے وقت تو خوب اللہ اللہ ہو رہا ہے، دعائیں کی جا رہی ہیں توبہ استغفار کا اہتمام کیا جا رہا ہے۔ لیکن جب اللہ تعالٰی مصیبت کا وہ کڑا وقت نکال دیتا ہے تو پھر بارگاہ الٰہی میں دعا و گڑگڑانے سے غافل ہو جاتے ہیں اور اللہ نے ان کی دعائیں قبول کر کے جس امتحان اور مصیبت سے نجات دی، اس پر اللہ کا شکر ادا کرنے کی بھی توفیق انہیں نصیب نہیں ہوتی۔
١٢۔٢ یہ تزئین عمل، بطور آزمائش اور مہلت اللہ تعالیٰ کی طرف سے بھی ہو سکتی ہے، وسوسوں کے ذریعے سے شیطان کی طرف سے بھی ہو سکتی ہے اور انسان کے اس نفس کی طرف سے بھی ہو سکتی ہے، جو انسان کی برائی پر امادہ کرتا ہے﴿ إِنَّ النَّفْسَ لَأَمَّارَةٌ بِالسُّوءِ﴾ (يوسف:53) تاہم اس کا شکار ہوتے وہی لوگ ہیں جو حد سے گزر جانے والے ہیں۔ یہاں معنی یہ ہوئے کہ ان کے لیے دعا سے اعراض، شکر الہی سے غفلت اور شہوات و خواہشات کے ساتھ اشتغال کو مزین کر دیا گیا ہے۔ (فتح القدیر)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
وَلَقَدْ أَهْلَكْنَا الْقُرُ‌ونَ مِن قَبْلِكُمْ لَمَّا ظَلَمُوا ۙ وَجَاءَتْهُمْ رُ‌سُلُهُم بِالْبَيِّنَاتِ وَمَا كَانُوا لِيُؤْمِنُوا ۚ كَذَٰلِكَ نَجْزِي الْقَوْمَ الْمُجْرِ‌مِينَ ﴿١٣﴾
اور ہم نے تم سے پہلے بہت سے گروہوں کو ہلاک کر دیا جب کہ انہوں نے ظلم کیا حالانکہ ان کے پاس ان کے پیغمبر بھی دلائل لے کر آئے، اور وہ ایسے کب تھے کہ ایمان لے آتے؟ ہم مجرم لوگوں کو ایسی ہی سزا دیا کرتے ہیں۔ (١)
١٣۔١ یہ کفار کو تنبیہ ہے کہ گزشتہ امتوں کی طرح تم بھی ہلاکت سے دوچار ہو سکتے ہو۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
ثُمَّ جَعَلْنَاكُمْ خَلَائِفَ فِي الْأَرْ‌ضِ مِن بَعْدِهِمْ لِنَنظُرَ‌ كَيْفَ تَعْمَلُونَ ﴿١٤﴾
پھر ان کے بعد ہم نے دنیا میں بجائے ان کے تم کو جانشین کیا (١) تاکہ ہم دیکھ لیں کہ تم کس طرح کام کرتے ہو۔
١٤۔١ خلائف، خلیفہ کی جمع ہے۔ اس کے معنی ہیں، گزشتہ امتوں کا جانشین۔ یا ایک دوسرے کا جانشین۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
وَإِذَا تُتْلَىٰ عَلَيْهِمْ آيَاتُنَا بَيِّنَاتٍ ۙ قَالَ الَّذِينَ لَا يَرْجُونَ لِقَاءَنَا ائْتِ بِقُرْآنٍ غَيْرِ هَـٰذَا أَوْ بَدِّلْهُ ۚ قُلْ مَا يَكُونُ لِي أَنْ أُبَدِّلَهُ مِن تِلْقَاءِ نَفْسِي ۖ إِنْ أَتَّبِعُ إِلَّا مَا يُوحَىٰ إِلَيَّ ۖ إِنِّي أَخَافُ إِنْ عَصَيْتُ رَبِّي عَذَابَ يَوْمٍ عَظِيمٍ ﴿١٥﴾
اور جب ان کے سامنے ہماری آیتیں پڑھی جاتی ہیں (١) جو بالکل صاف صاف ہیں تو یہ لوگ جن کو ہمارے پاس آنے کی امید نہیں ہے یوں کہتے ہیں کہ اس کے سوا کوئی دوسرا قرآن لائیے (٢) یا اس میں کچھ ترمیم کر دیجئے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) یوں کہہ دیجئے کہ مجھے یہ حق نہیں کہ میں اپنی طرف سے اس میں ترمیم کر دوں (٣) بس میں تو اسی کا اتباع کروں گا جو میرے پاس وحی کے ذریعے سے پہنچا ہے، اگر میں اپنے رب کی نافرمانی کروں تو میں ایک بڑے دن کے عذاب کا اندیشہ رکھتا ہوں۔ (٤)
١٥۔١ یعنی جو اللہ تعالیٰ کی الوہیت و واحدیت پر دلالت کرتی ہیں۔
١٥۔٢ مطلب یہ ہے کہ یا تو اس قرآن مجید کی جگہ قرآن ہی دوسرا لائیں یا پھر اس میں ہماری حسب خواہش تبدیلی کر دیں۔
١٥۔ ٣ یعنی مجھ سے دونوں باتیں ممکن نہیں میرے اختیار میں ہی نہیں۔
١٥۔٤ یہ اس کی مزید تاکید ہے۔ میں تو صرف اس بات کا پیرو ہوں جو اللہ کی طرف سے مجھ پر نازل ہوتی ہے۔ اس میں کسی کمی بیشی کا ارتکاب کروں گا تو یوم عظیم کے عذاب سے میں محفوظ نہیں رہ سکتا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
قُل لَّوْ شَاءَ اللَّـهُ مَا تَلَوْتُهُ عَلَيْكُمْ وَلَا أَدْرَ‌اكُم بِهِ ۖ فَقَدْ لَبِثْتُ فِيكُمْ عُمُرً‌ا مِّن قَبْلِهِ ۚ أَفَلَا تَعْقِلُونَ ﴿١٦﴾
آپ یوں کہہ دیجئے کہ اگر اللہ کو منظور ہوتا تو نہ تو میں تم کو وہ پڑھ کر سناتا اور نہ اللہ تعالیٰ تم کو اس کی اطلاع دیتا (١) کیونکہ میں اس سے پہلے تو ایک بڑے حصہ عمر تک تم میں رہ چکا ہوں۔ پھر کیا تم عقل نہیں رکھتے۔ (٢)
۱٦۔۱ یعنی سارا معاملہ اللہ کی مشیت پر موقوف ہے، وہ چاہتا تو میں نہ تمہیں پڑھ کر سناتا نہ تمہیں اس کی کوئی اطلاع دی جاتی، بعض نے أَدْرَاكُمْ بِهِ کے معنی کیے ہیں أَعْلَمَكُمْ بِهِ عَلَى لِسَانِي، کہ وہ تم کو میری زبانی اس قرآن کی بابت کچھ بھی نہ بتلاتا۔
۱٦۔۲ اور تم بھی جانتے ہو کہ دعوائے نبوت سے قبل چالیس سال میں نے تمہارے اندر گزارے کیا میں نے کسی استاذ سے کچھ سیکھا ہے؟ اسی طرح تم میری امانت و صداقت کے بھی قائل رہے ہو۔ کیا اب یہ ممکن ہے کہ میں اللہ پر افترا باندھنا شروع کر دوں؟ مطلب ان دونوں باتوں کا یہ ہے کہ یہ قرآن اللہ ہی کا نازل کردہ ہے نہ میں نے کسی سے سن یا سیکھ کر اسے بیان کیا ہے اور نہ یوں ہی جھوٹ موٹ اسے اللہ کی طرف منسوب کر دیا ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
فَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرَ‌ىٰ عَلَى اللَّـهِ كَذِبًا أَوْ كَذَّبَ بِآيَاتِهِ ۚ إِنَّهُ لَا يُفْلِحُ الْمُجْرِ‌مُونَ ﴿١٧﴾
سو اس شخص سے زیادہ کون ظالم ہو گا جو اللہ پر جھوٹ باندھے یا اس کی آیتوں کو جھوٹا بتلائے، یقیناً ایسے مجرموں کو اصلاً فلاح نہ ہو گی۔

وَيَعْبُدُونَ مِن دُونِ اللَّـهِ مَا لَا يَضُرُّ‌هُمْ وَلَا يَنفَعُهُمْ وَيَقُولُونَ هَـٰؤُلَاءِ شُفَعَاؤُنَا عِندَ اللَّـهِ ۚ قُلْ أَتُنَبِّئُونَ اللَّـهَ بِمَا لَا يَعْلَمُ فِي السَّمَاوَاتِ وَلَا فِي الْأَرْ‌ضِ ۚ سُبْحَانَهُ وَتَعَالَىٰ عَمَّا يُشْرِ‌كُونَ ﴿١٨﴾
اور یہ لوگ اللہ کے سوا (١) ایسی چیزوں کی عبادت کرتے ہیں جو نہ ان کو ضرر پہنچا سکیں اور نہ ان کو نفع پہنچا سکیں (٢) اور کہتے ہیں کہ یہ اللہ کے پاس ہمارے سفارشی ہیں۔ (٣) آپ کہہ دیجئے کہ کیا تم اللہ کو ایسی چیز کی خبر دیتے ہو جو اللہ تعالیٰ کو معلوم نہیں، نہ آسمانوں میں اور نہ زمین میں، (٤) وہ پاک اور برتر ہے ان لوگوں کے شرک سے۔ (٥)
١٨۔١ یعنی اللہ کی عبادت سے تجاوز کر کے نہ کہ اللہ کی عبادت ترک کر کے۔ کیونکہ مشرکین اللہ کی عبادت کرتے تھے۔ اور غیر اللہ کی بھی۔
١٨۔ ٢ جب کہ معبود کی شان یہ ہے کہ وہ اپنے اطاعت گزاروں کو بدلہ اور اپنے نافرمانوں کو سزا دینے پر قادر ہے۔
١٨۔٣ یعنی ان کی سفارش سے اللہ ہماری ضرورتیں پوری کر دیتا ہے ہماری بگڑی بنا دیتا ہے یا ہمارے دشمن کی بنائی ہوئی بگاڑ دیتا ہے۔ یعنی مشرکین بھی اللہ کے سوا جن کی عبادت کرتے تھے ان کو نفع اور ضرر میں مستقل نہیں سمجھتے تھے بلکہ اپنے اور اللہ کے درمیان واسطہ اور وسیلہ سمجھتے تھے۔
١٨۔٤ یعنی اللہ کو تو اس بات کا علم نہیں کہ اس کا کوئی شریک بھی ہے یا اس کی بارگاہ میں سفارشی بھی ہوں گے، گویا یہ مشرکین اللہ کو خبر دیتے ہیں کہ تجھے خبر نہیں۔ لیکن ہم تجھے بتلاتے ہیں کہ تیرے شریک بھی ہیں اور سفارشی بھی ہیں جو اپنے عقیدت مندوں کی سفارش کریں گے۔
١٨۔٥ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ مشرکین کی باتیں بے اصل ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان تمام باتوں سے پاک اور برتر ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
وَمَا كَانَ النَّاسُ إِلَّا أُمَّةً وَاحِدَةً فَاخْتَلَفُوا ۚ وَلَوْلَا كَلِمَةٌ سَبَقَتْ مِن رَّ‌بِّكَ لَقُضِيَ بَيْنَهُمْ فِيمَا فِيهِ يَخْتَلِفُونَ ﴿١٩﴾
اور تمام لوگ ایک ہی امت کے تھے پھر انہوں نے اختلاف پیدا کر لیا (١) اور اگر ایک بات نہ ہوتی جو آپ کے رب کی طرف سے پہلے ٹھہر چکی ہے تو جس چیز میں یہ لوگ اختلاف کر رہے ہیں ان کا قطعی فیصلہ ہو چکا ہوتا۔ (٢)
١٩۔١ یعنی سارا معاملہ اللہ کی مشیت پر موقوف ہے، وہ چاہتا تو میں نہ تمہیں پڑھ کر سناتا نہ تمہیں اس کی کوئی اطلاع دی جاتی، بعض نے أَدْرَاكُمْ بِهِ کے معنی کیے ہیں أَعْلَمَكُمْ بِهِ عَلَى لِسَانِي، کہ وہ تم کو میری زبانی اس قرآن کی بابت کچھ بھی نہ بتلاتا۔
١٩۔٢ اور تم بھی جانتے ہو کہ دعوائے نبوت سے قبل چالیس سال میں نے تمہارے اندر گزارے کیا میں نے کسی استاذ سے کچھ سیکھا ہے؟ اسی طرح تم میری امانت و صداقت کے بھی قائل رہے ہو۔ کیا اب یہ ممکن ہے کہ میں اللہ پر افترا باندھنا شروع کر دوں؟ مطلب ان دونوں باتوں کا یہ ہے کہ یہ قرآن اللہ ہی کا نازل کردہ ہے نہ میں نے کسی سے سن یا سیکھ کر اسے بیان کیا ہے اور نہ یوں ہی جھوٹ موٹ اسے اللہ کی طرف منسوب کر دیا ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
وَيَقُولُونَ لَوْلَا أُنزِلَ عَلَيْهِ آيَةٌ مِّن رَّ‌بِّهِ ۖ فَقُلْ إِنَّمَا الْغَيْبُ لِلَّـهِ فَانتَظِرُ‌وا إِنِّي مَعَكُم مِّنَ الْمُنتَظِرِ‌ينَ ﴿٢٠﴾
اور یہ لوگ یوں کہتے ہیں کہ ان پر ان کے رب کی جانب سے کوئی نشانی کیوں نہیں نازل ہوتی؟ (١) سو آپ انہیں فرما دیجئے کہ غیب کی خبر صرف اللہ کو ہے (٢) سو تم بھی منتظر رہو میں بھی تمہارے ساتھ منتظر ہوں۔
٢٠۔١ یعنی یہ شرک، لوگوں کی اپنی ایجاد ہے ورنہ پہلے پہل اس کا کوئی وجود نہ تھا۔ تمام لوگ ایک ہی دین اور ایک ہی طریقہ پر تھے اور وہ اسلام ہے جس میں توحید کی بنیادی حیثیت حاصل ہے۔ حضرت نوح عليہ السلام تک لوگ اسی توحید پر قائم رہے پھر ان میں اختلاف ہو گیا اور کچھ لوگوں نے اللہ کے ساتھ دوسروں کو بھی معبود، حاجت روا اور مشکل کشا سمجھنا شروع کر دیا۔
٢٠۔ ٢ یعنی اگر اللہ کا فیصلہ نہ ہوتا کہ، تمام حجت سے پہلے کسی کو عذاب نہیں دیتا، اس طرح اس نے مخلوق کے لیے ایک وقت کا تعین نہ کیا ہوتا تو یقینا وہ ان کے مابین اختلافات کا فیصلہ اور مومنوں کو سعادت مند اور کافروں کو عذاب میں مبتلا کر چکا ہوتا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
وَإِذَا أَذَقْنَا النَّاسَ رَ‌حْمَةً مِّن بَعْدِ ضَرَّ‌اءَ مَسَّتْهُمْ إِذَا لَهُم مَّكْرٌ‌ فِي آيَاتِنَا ۚ قُلِ اللَّـهُ أَسْرَ‌عُ مَكْرً‌ا ۚ إِنَّ رُ‌سُلَنَا يَكْتُبُونَ مَا تَمْكُرُ‌ونَ ﴿٢١﴾
اور جب ہم لوگوں کو اس امر کے بعد کہ ان پر کوئی مصیبت پڑ چکی ہو کسی نعمت کا مزہ چکھا دیتے ہیں (١) تو وہ تو فوراً ہی ہماری آیتوں کے بارے میں چالیں چلنے لگتے ہیں، (٢) آپ کہہ دیجئے کہ اللہ چال چلنے میں تم سے زیادہ تیز ہے، (٣) بالیقین ہمارے فرشتے تمہاری سب چالوں کو لکھ رہے ہیں۔
٢١۔١ مصیبت کے بعد نعمت کا مطلب ہے۔ تنگی، قحط سالی اور آلام و مصائب کے بعد، رزق کی فروانی، اسباب معیشت کی ارزانی وغیرہ۔
٢١۔٢ اس کا مطلب ہے کہ ہماری ان نعمتوں کی قدر اور ان پر اللہ کا شکر ادا نہیں کرتے بلکہ کفر اور شرک کا ارتکاب کرتے ہیں۔ یعنی ان کی وہ بری تدبیر ہے جو اللہ کی نعمتوں کے مقابلے میں اختیار کرتے ہیں۔
٢١۔٣ یعنی اللہ کی تدبیر ان سے کہیں زیادہ تیز ہے جو وہ اختیار کرتے ہیں۔ اور وہ یہ ہے کہ ان کا مواخذہ کرنے پر قادر ہے، وہ جب چاہے ان کی گرفت کر سکتا ہے، فوراً بھی اور اس کی حکمت تاخیر کا تقاضا کرنے والی ہو تو بعد میں بھی۔ مکر، عربی زبان میں خفیہ تدبیر اور حکمت عملی کو کہتے ہیں، جو اچھی بھی ہو سکتی ہے اور بری بھی۔ یہاں اللہ کی عقوبت اور گرفت کو مکر سے تعبیر کیا گیا ہے۔
 
Top