• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تفسیر احسن البیان (تفسیر مکی)

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
وَيَوْمَ يُنَادِيهِمْ فَيَقُولُ أَيْنَ شُرَ‌كَائِيَ الَّذِينَ كُنتُمْ تَزْعُمُونَ ﴿٧٤﴾
اور جس دن انہیں پکار کر اللہ تعالٰی فرمائے گا کہ جنہیں تم میرے شریک خیال کرتے تھے وہ کہاں ہیں؟
وَنَزَعْنَا مِن كُلِّ أُمَّةٍ شَهِيدًا فَقُلْنَا هَاتُوا بُرْ‌هَانَكُمْ فَعَلِمُوا أَنَّ الْحَقَّ لِلَّـهِ وَضَلَّ عَنْهُم مَّا كَانُوا يَفْتَرُ‌ونَ ﴿٧٥﴾
اور ہم ہر امت میں سے ایک گواہ الگ کرلیں گے (١) کہ اپنی دلیلیں پیش کرو (٢) پس اس وقت جان لیں گے کہ حق اللہ تعالٰی کی طرف سے (٣) اور جو کچھ بہتان وہ جوڑتے تھے سب ان کے پاس سے کھو جائے گا۔
٧٥۔١ اس گواہ سے مراد پیغمبر ہے۔ یعنی ہر امت کے پیغمبر کو اس امت سے الگ کھڑا کر دیں گے۔
٧٥۔٢ یعنی دنیا میں میرے پیغمبروں کی دعوت توحید کے باوجود میرے شریک ٹھہراتے تھے اور میرے ساتھ ان کی بھی عبادت کرتے تھے، اس کی دلیل پیش کرو۔
٧٥۔٣ یعنی وہ حیران اور ساکت کھڑے ہونگے، کوئی جواب اور دلیل انہیں نہیں سوجھے گی۔
۷۵۔٤ یعنی ان کے کام نہیں آئے گا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
إِنَّ قَارُ‌ونَ كَانَ مِن قَوْمِ مُوسَىٰ فَبَغَىٰ عَلَيْهِمْ ۖ وَآتَيْنَاهُ مِنَ الْكُنُوزِ مَا إِنَّ مَفَاتِحَهُ لَتَنُوءُ بِالْعُصْبَةِ أُولِي الْقُوَّةِ إِذْ قَالَ لَهُ قَوْمُهُ لَا تَفْرَ‌حْ ۖ إِنَّ اللَّـهَ لَا يُحِبُّ الْفَرِ‌حِينَ ﴿٧٦﴾
قارون تھا تو قوم موسیٰ سے، لیکن ان پر ظلم کرنے لگا (١) ہم نے اسے (اس قدر) خزانے دے رکھے تھے کہ کئی کئی طاقتور لوگ بمشکل اس کی کنجیاں اٹھا سکتے تھے (٢) ایک بار اس کی قوم نے کہا کہ اتر امت (٣) اللہ تعالٰی اترانے والوں سے محبت نہیں رکھتا (٤)۔
٧٦۔١ اپنی قوم بنی اسرائیل پر اس کا ظلم یہ تھا کہ اپنے مال و دولت کی فراوانی کی وجہ سے ان کا استخفاف کرتا تھا۔ بعض کہتے ہیں کہ فرعون کی طرف سے یہ اپنی قوم بنی اسرائیل پر عامل مقرر تھا اور ان پر ظلم کرتا تھا۔
٧٦۔٢ تنوء کے معنی تمیل (جھکنا) جس طرح کوئی شخص بھاری چیز اٹھاتا ہے تو بوجھ کی وجہ سے ادھر ادھر لڑکھڑاتا ہے اس کی چابیوں کا بوجھ اتنا زیادہ تھا کہ ایک طاقتور جماعت بھی اسے اٹھاتے ہوئے گرانی محسوس کرتی تھی۔
٧٦۔٣ یعنی تکبر اور غرور مت کرو، بعض نے بخل، معنی کئے ہیں، بخل مت کر۔
۷ ٦ ۔٤ یعنی تکبر اور غرور کرنے والوں کو یا بخل کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
وَابْتَغِ فِيمَا آتَاكَ اللَّـهُ الدَّارَ‌ الْآخِرَ‌ةَ ۖ وَلَا تَنسَ نَصِيبَكَ مِنَ الدُّنْيَا ۖ وَأَحْسِن كَمَا أَحْسَنَ اللَّـهُ إِلَيْكَ ۖ وَلَا تَبْغِ الْفَسَادَ فِي الْأَرْ‌ضِ ۖ إِنَّ اللَّـهَ لَا يُحِبُّ الْمُفْسِدِينَ ﴿٧٧﴾
اور جو کچھ تجھے اللہ تعالٰی نے دے رکھا ہے اس میں سے آخرت کے گھر کی تلاش بھی رکھ (۱) اور اپنے دنیاوی حصے کو نہ بھول جا جیسے کہ اللہ تعالٰی نے تیرے ساتھ احسان کیا ہے تو بھی اچھا سلوک کر (۳) اور ملک میں فساد کا خواہاں نہ ہو (٤) یقین مان کہ اللہ مفسدوں کو ناپسند رکھتا ہے۔
٧٧۔١ یعنی اپنے مال کو ایسی جگہوں اور راہوں پر خرچ کر، جہاں اللہ تعالٰی پسند فرماتا ہے، اس سے تیری آخرت سنورے گی اور وہاں اس کا تجھے اجر ثواب ملے گا۔
۷۷۔۲ یعنی دنیا کے مباحات پر بھی اعتدال کے ساتھ خرچ کر مباحات دنیا کیا ہیں؟ کھانا پینا، لباس، گھر اور نکاح وغیرہ، مطلب یہ ہے کہ جس طرح تجھ پر تیرے رب کا حق ہے، اسی طرح تیرے اپنے نفس کا، بیوی بچوں کا اور مہمانوں وغیرہ کا بھی حق ہے، ہر حق والے کو اس کا حق دے۔
۷۷۔۳ اللہ نے تجھے مال دے کر تجھ پر احسان کیا ہے تو مخلوق پر حرچ کر کے ان پر احسان کر۔
۷۷۔٤ یعنی تیرا مقصد زمین میں فساد پھیلانا نہ ہو۔ اسی طرح مخلوق کے ساتھ حسن سلوک کے بجائے بدسلوکی مت کر، نہ معصیتوں کا ارتکاب کر کہ ان تمام باتوں سے فساد پھیلتا ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
قَالَ إِنَّمَا أُوتِيتُهُ عَلَىٰ عِلْمٍ عِندِي ۚ أَوَلَمْ يَعْلَمْ أَنَّ اللَّـهَ قَدْ أَهْلَكَ مِن قَبْلِهِ مِنَ الْقُرُ‌ونِ مَنْ هُوَ أَشَدُّ مِنْهُ قُوَّةً وَأَكْثَرُ‌ جَمْعًا ۚ وَلَا يُسْأَلُ عَن ذُنُوبِهِمُ الْمُجْرِ‌مُونَ ﴿٧٨﴾
قارون نے کہا یہ سب کچھ مجھے میری اپنی سمجھ کی بنا پر ہی دیا گیا ہے (۱) کیا اسے اب تک یہ نہیں معلوم کہ اللہ تعالٰی نے اس سے پہلے بہت سے بستی والوں کو غارت کر دیا جو اس سے بہت زیادہ قوت والے اور بہت بڑی جمع پونجی والے تھے (۲) اور گنہگاروں کی باز پرس ایسے وقت نہیں کی جاتی (۳)
۷۸۔۱ ان نصیحتوں کے جواب میں اس نے یہ کہا۔ اس کا مطلب ہے کہ مجھے کسب وتجارت کا جو فن آتا ہے، یہ دولت تو اسکا اور ثمر ہے، اللہ کے فضل و کرم سے اسکا کیا تعلق ہے؟ جو سرے معنی یہ کیے گئے ہیں کہ اللہ نے مجھے یہ مال دیا ہے تو اس نے اپنے علم کی وجہ سے دیا ہے کہ میں اس کا مستحق ہوں اور میرے لیے اس نے یہ پسند کیا ہے۔ جیسے دوسرے مقام پر انسانوں کا ایک اور قول اللہ نے نقل فرمایا ہے ‏، جب انسان کو تکلیف پہنچتی ہے تو ہمیں پکارتا ہے، پھر جب ہم اسے اپنی نعمت سے نواز دیتے ہیں تو کہتا ہے ( اِنَّمَآ اُوْتِيْتُهٗ عَلٰي عِلْمٍ عِنْدِيْ) 28۔ القصص:78) أی۔ علی علم من اللہ یعنی مجھے یہ نعمت اس لیے ملی ہے کہ اللہ کے علم میں میں اس کا مستحق تھا، ایک مقام پر ہے،، جب ہم انسان پر تکلیف کے بعد اپنی رحمت کرتے ہیں تو کہتا ہے۔ (ھٰذَا لِي) (41۔فصلت:50) أی۔ ہذا أستحقہ یہ تو میرا استحقاق ہے (ابن کثیر) بعض کہتے ہیں کہ قارون کو کیمیا (سونا بنانے کا) علم آتا تھا، یہاں یہی مراد ہے اسی کیمیا گری سے اس نے اتنی دولت کما‍‍ئی تھی۔ لیکن امام ابن کثیر فرماتے ہیں کہ یہ علم سراسر جھوٹ، فریب اور دھوکہ ہے۔ کوئی شخص اس بات پر قادر نہیں ہے کہ وہ کسی چیز کی ماہیت تبدیل کر دے۔ اس لیے قارون کے لیے بھی یہ ممکن نہیں تھا کہ وہ دوسری دھاتوں کو تبدیل کر کے سونا بنا لیا کرتا اور اس طرح دولت کے انبار جمع کر لیتا۔
٧٨۔۲ یعنی قوت اور مال کی فروانی۔ یہ فضیلت کا باعث نہیں، اگر ایسا ہوتا تو پچھلی قومیں تباہ و برباد نہ ہوتیں۔ اسلئے قارون کا اپنی دولت پر گھمنڈ کرنے اور اسے باعث فضیلت گرداننے کا کوئی جواز نہیں۔
٧٨۔۳ یعنی جب گناہ اتنی زیادہ تعداد میں ہوں کہ ان کی وجہ سے مستحق عذاب قرار دئے گئے ہوں تو پھر ان سے باز پرس نہیں ہوتی، بلکہ اچانک ان کا مواخذہ کر لیا جاتا ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
فَخَرَ‌جَ عَلَىٰ قَوْمِهِ فِي زِينَتِهِ ۖ قَالَ الَّذِينَ يُرِ‌يدُونَ الْحَيَاةَ الدُّنْيَا يَا لَيْتَ لَنَا مِثْلَ مَا أُوتِيَ قَارُ‌ونُ إِنَّهُ لَذُو حَظٍّ عَظِيمٍ ﴿٧٩﴾
پس قارون پوری آرائش کے ساتھ اپنی قوم کے مجمع میں نکلا (١) تو دنیاوی زندگی کے متوالے کہنے لگے (٢) کاش کہ ہمیں بھی کسی طرح وہ مل جاتا جو قارون کو دیا گیا ہے۔ یہ تو بڑا ہی قسمت کا دھنی ہے۔
٧٩۔١ یعنی زینت و آرائش کے ساتھ۔
٧٩۔٢ یہ کہنے والے کون تھے؟ بعض کے نزدیک ایماندار ہی تھے جو اس کی امارت و شوکت کے مظاہرے سے متاثر ہوگئے تھے اور بعض کے نزدیک کافر تھے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
وَقَالَ الَّذِينَ أُوتُوا الْعِلْمَ وَيْلَكُمْ ثَوَابُ اللَّـهِ خَيْرٌ‌ لِّمَنْ آمَنَ وَعَمِلَ صَالِحًا وَلَا يُلَقَّاهَا إِلَّا الصَّابِرُ‌ونَ ﴿٨٠﴾
ذی علم انہیں سمجھانے لگے کہ افسوس! بہتر چیز تو وہ ہے جو بطور ثواب انہیں ملے گی جو اللہ پر ایمان لائیں اور نیک عمل کریں (١) یہ باتیں انہی (۲) کے دل میں ڈالی جاتی ہے جو صبر کرنے والے ہوں۔
٨٠۔١ یعنی جن کے پاس دین کا علم تھا اور دنیا اور اس کے مظاہر کی اصل حقیقت سے باخبر تھے، انہوں نے کہا کہ یہ کیا ہے؟ کچھ بھی نہیں۔ اللہ نے اہل ایمان اور اعمال صالح بجا لانے والوں کے لئے جو اجر و ثواب رکھا ہے وہ اس سے کہیں زیادہ بہتر ہے۔ جیسے حدیث قدسی میں ہے۔ اللہ فرماتا ہے ' میں نے اپنے نیک بندوں کے لئے ایسی ایسی چیزیں تیار کر رکھی ہیں جنہیں کسی آنکھ نے نہیں دیکھا، کسی کان نے نہیں سنا اور نہ کسی کے وہم و گمان میں ان کا ذکر ہوا ' (البخاری کتاب التوحید)
۸۰۔۲ یعنی یلقاھا میں ھا کا مرجع، کلمہ ہے اور یہ قول اللہ کا ہے۔ اور اگر اسے اہل علم ہی کے قول کا تتمہ قرار دیا جائے تو ھا کا مرجع جنت ہوگی یعنی جنت کے مستحق وہ صابر ہی ہوں گے جو دنیاوی لذتوں سے کنارہ کش اور آحرت کی زندگی میں رغبت رکھنے والے ہوں گے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
فَخَسَفْنَا بِهِ وَبِدَارِ‌هِ الْأَرْ‌ضَ فَمَا كَانَ لَهُ مِن فِئَةٍ يَنصُرُ‌ونَهُ مِن دُونِ اللَّـهِ وَمَا كَانَ مِنَ الْمُنتَصِرِ‌ينَ ﴿٨١﴾
(آخرکار) ہم نے اس کے محل سمیت زمین میں دھنسا دیا (۱) اور اللہ کے سوا کوئی جماعت اس کی مدد کے لئے تیار نہ ہوئی نہ وہ خود اپنے بچانے والوں میں سے ہو سکا۔
۸۱۔۱ یعنی قارون کو اس کے تکبر کی وجہ سے اس کے محل اور خزانوں سمیت زمین میں دھنسا دیا۔ حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا‏‏، ایک آدمی اپنی ازار زمین پر لٹکائے جا رہا تھا (اللہ کو اس کا یہ تکبر پسند نہیں آیا) اور اسے زمین میں دھنسا دیا گیا، پس وہ قیامت تک زمین میں دھنستا چلا جائے گا، ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
وَأَصْبَحَ الَّذِينَ تَمَنَّوْا مَكَانَهُ بِالْأَمْسِ يَقُولُونَ وَيْكَأَنَّ اللَّـهَ يَبْسُطُ الرِّ‌زْقَ لِمَن يَشَاءُ مِنْ عِبَادِهِ وَيَقْدِرُ‌ ۖ لَوْلَا أَن مَّنَّ اللَّـهُ عَلَيْنَا لَخَسَفَ بِنَا ۖ وَيْكَأَنَّهُ لَا يُفْلِحُ الْكَافِرُ‌ونَ ﴿٨٢﴾
اور جو لوگ کل اس کے مرتبہ پر پہنچنے کی آرزو مندیاں کر رہے تھے وہ آج کہنے لگے کہ کیا تم نہیں دیکھتے (١) کہ اللہ تعالٰی ہی اپنے بندوں میں سے جس کے لئے چاہے روزی کشادہ کر دیتا ہے اور تنگ بھی؟ اگر اللہ تعالٰی ہم پر فضل نہ کرتا تو ہمیں بھی دھنسا دیتا (٢) کیا دیکھتے نہیں ہو کہ ناشکروں کو کبھی کامیابی نہیں ہوتی (٣)۔
٨٢۔١ مکان سے مراد دنیاوی مرتبہ و منزلت ہے جو دنیا میں عارضی طور پر ملتا ہے۔ جیسے قارون کو ملا تھا، مطلب یہ ہے کہ قارون کی سی دولت و حشمت کی آرزو کرنے والوں نے جب قارون کا عبرت ناک حشر دیکھا تو کہا کہ مال و دولت، اس بات کی دلیل نہیں ہے کہ اللہ تعالٰی اس صاحب مال سے راضی بھی ہے۔ کیا تم نے نہیں دیکھا کہ اللہ تعالٰی کسی کو مال زیادہ دیتا ہے اور کسی کو کم اس کا تعلق اس کی مشیت اور حکمت بالغہ سے ہے جسے اس کے سوا کوئی نہیں جانتا، مال کی فروانی اس کی رضا کی اور مال کی کمی اس کی نارضگی کی دلیل نہیں ہے نہ یہ معیار فضیلت ہے۔
٨٢۔٢ یعنی ہم بھی اسی حشر سے دوچار ہوتے جس سے قارون دو چار ہوا۔
٨٢۔٣ یعنی قارون نے دولت پا کر شکر گزاری کے بجائے ناشکری اور معصیت کا راست اختیار کیا تو دیکھ لو اس کا انجام بھی کیسا ہوا؟ دیکھو مجھے جو دیدہ عبرت نگاہ ہو۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
تِلْكَ الدَّارُ‌ الْآخِرَ‌ةُ نَجْعَلُهَا لِلَّذِينَ لَا يُرِ‌يدُونَ عُلُوًّا فِي الْأَرْ‌ضِ وَلَا فَسَادًا ۚ وَالْعَاقِبَةُ لِلْمُتَّقِينَ ﴿٨٣﴾
آخرت کا یہ بھلا گھر ہم ان ہی کے لئے مقرر کر دیتے ہیں جو زمین میں اونچائی بڑائی اور فخر نہیں کرتے نہ فساد کی چاہت رکھتے ہیں پرہزگاروں کے لئے نہایت ہی عمدہ انجام ہے۔ (۱)
۸۳۔۱ علو کا مطلب ہے ظلم و زیادتی، لوگوں سے اپنے کو بڑا اور برتر سمجھنا اور باور کرانا، تکبر اور فخر غرور کرنا اور فساد کے معنی ہیں ناحق لوگوں کا مال ہتھیانا یا نافرمانیوں کا ارتکاب کرنا کہ ان دونوں باتوں سے زمین میں فساد پھیلتا ہے۔ فرمایا کہ متقین کا عمل و اخلاق ان برائیوں اور کوتاہیوں سے پاک ہوتا ہے اور تکبر کے بجائے ان کے اندر تواضع، فروتنی اور معصیت کیثی کی بجائے اطاعت کیسی ہوتی ہے اور آخرت کا گھر یعنی جنت اور حسن انجام انہی کے حصے میں آئے گا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
مَن جَاءَ بِالْحَسَنَةِ فَلَهُ خَيْرٌ‌ مِّنْهَا ۖ وَمَن جَاءَ بِالسَّيِّئَةِ فَلَا يُجْزَى الَّذِينَ عَمِلُوا السَّيِّئَاتِ إِلَّا مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ ﴿٨٤﴾
جو شخص نیکی لائے گا اسے اس سے بہتر ملے گا (١) اور جو برائی لے کر آئے گا تو ایسے بد اعمالی کرنے والوں کو ان کے انہی اعمال کا بدلہ دیا جائے گا جو وہ کرتے تھے۔ (۲)
٨٤۔١ یعنی کم از کم ہر نیکی کا بدلہ دس گنا تو ضرور ہی ملے گا، اور جس کے لئے اللہ چاہے گا، اس سے بھی زیادہ، کہیں زیادہ، عطا فرمائے گا۔
۸٤۔۲ یعنی نیکی کا بدلہ تو بڑھا چڑھا کر دیا جائے گا لیکن برائی کا بدلہ برائی کے برابر ہی ملے گا۔ یعنی نیکی کی جزا میں اللہ کے فضل و کرم کا اور بدی کی جزا میں اس کے عدل کا مظاہرہ ہوگا۔
 
Top