• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تفسیر احسن البیان (تفسیر مکی)

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
لَّقَدْ كَفَرَ‌ الَّذِينَ قَالُوا إِنَّ اللَّـهَ ثَالِثُ ثَلَاثَةٍ ۘ وَمَا مِنْ إِلَـٰهٍ إِلَّا إِلَـٰهٌ وَاحِدٌ ۚ وَإِن لَّمْ يَنتَهُوا عَمَّا يَقُولُونَ لَيَمَسَّنَّ الَّذِينَ كَفَرُ‌وا مِنْهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ ﴿٧٣﴾
وہ لوگ بھی قطعاً کافر ہو گئے جنہوں نے کہا، اللہ تین میں کا تیسرا ہے، (۱) دراصل اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں۔ اگر یہ لوگ اپنے اس قول سے باز نہ رہے تو ان میں سے جو کفر پر رہیں گے، انہیں المناک عذاب ضرور پہنچے گا۔
٧۳۔١ یہ عیسائیوں کے دوسرے فرقے کا ذکر ہے جو تین خداؤں کا قائل ہے، جن کو وہ ”أَقَانِيمُ ثَلاثَةٌ“ کہتے ہیں۔ ان کی تعبیر و تشریح میں اگرچہ خود ان کے مابین اختلاف ہے۔ تاہم صحیح بات یہی ہے کہ اللہ کے ساتھ، انہوں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور ان کی والدہ حضرت مریم علیہا السلام کو بھی الہیٰ (معبود) قرار دے لیا ہے، جیسا کہ قرآن نے صراحت کی ہے، اللہ تعالیٰ قیامت والے دن حضرت عیسی علیہ السلام سے پوچھے گا۔ ﴿أَأَنْتَ قُلْتَ لِلنَّاسِ اتَّخِذُونِي وَأُمِّيَ إِلَهَيْنِ مِنْ دُونِ اللَّهِ﴾ (المائدۃ: 116) ”کیا تو نے لوگوں سے کہا تھا کہ مجھے اور میری ماں کو، اللہ کے سوا، معبود بنا لینا ؟“۔ اس سے معلوم ہوا کہ عیسیٰ اور مریم علیہما السلام، ان دونوں کو عیساؤں نے الٰہ بنایا، اور اللہ تیسرا الٰہ ہوا، جو ”ثَالِثُ ثَلاثَةٍ“ (تین میں کا تیسرا کہلایا) پہلے عقیدے کی طرح اللہ تعالیٰ نے اسے بھی کفر سے تعبیر فرمایا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
أَفَلَا يَتُوبُونَ إِلَى اللَّـهِ وَيَسْتَغْفِرُ‌ونَهُ ۚ وَاللَّـهُ غَفُورٌ‌ رَّ‌حِيمٌ ﴿٧٤﴾
یہ لوگ کیوں اللہ تعالیٰ کی طرف نہیں جھکتے اور کیوں استغفار نہیں کرتے؟ اللہ تعالیٰ تو بہت ہی بخشنے والا اور بڑا ہی مہربان ہے۔

مَّا الْمَسِيحُ ابْنُ مَرْ‌يَمَ إِلَّا رَ‌سُولٌ قَدْ خَلَتْ مِن قَبْلِهِ الرُّ‌سُلُ وَأُمُّهُ صِدِّيقَةٌ ۖ كَانَا يَأْكُلَانِ الطَّعَامَ ۗ انظُرْ‌ كَيْفَ نُبَيِّنُ لَهُمُ الْآيَاتِ ثُمَّ انظُرْ‌ أَنَّىٰ يُؤْفَكُونَ ﴿٧٥﴾
مسیح ابن مریم سوا پیغمبر ہونے کے اور کچھ بھی نہیں، اس سے پہلے بھی بہت سے پیغمبر ہو چکے ہیں ان کی والدہ ایک راست باز عورت تھیں (١) دونوں ماں بیٹا کھانا کھایا کرتے تھے، (۲) آپ دیکھئے کہ کس طرح ہم ان کے سامنے دلیلیں رکھتے ہیں اور پھر غور کیجئے کہ کس طرح وہ پھرے جاتے ہیں۔
٧٥۔١ صِدِّيقَةٌ کے معنی مومنہ اور ولیہ کے ہیں یعنی وہ بھی حضرت مسیح علیہ السلام پر ایمان لانے والوں اور ان کی تصدیق کرنے والوں میں سے تھیں۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ وہ ”نَبِيَّةٌ“ (پیغمبر) نہیں تھیں۔ جیسا کہ بعض لوگوں کو وہم ہوا ہے اور انہوں نے حضرت مریم علیہا السلام سمیت، حضرت سارہ (ام اسحاق علیہ السلام) اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کی والدہ کو نَبِيَّةٌ قرار دیا ہے۔ استدلال اس بات سے کیا ہے کہ اول الذکر دونوں سے فرشتوں نے آ کر گفتگو کی اور حضرت ام موسیٰ کو خود اللہ تعالیٰ نے وحی کی۔ یہ گفتگو اور وحی نبوت کی دلیل ہے۔ لیکن جمہور علماء کے نزدیک یہ دلیل ایسی نہیں جو قرآن کی نص صریح کا مقابلہ کر سکے۔ قرآن نے صراحت کی ہے کہ ہم نے جتنے رسول بھی بھیجے، وہ مرد تھے۔ (سورۂ یوسف: 109)
٧٥۔۲ یہ حضرت مسیح علیہ السلام اور حضرت مریم علیہا السلام دونوں کی الوہیت (الٰہ ہونے) کی نفی اور بشریت کی دلیل ہے۔ کیونکہ کھانا پینا، یہ انسانی حوائج و ضروریات میں سے ہے۔ جو الٰہ ہو، وہ تو ان چیزوں سے ماورا بلکہ وراء الوراء ہوتا ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
قُلْ أَتَعْبُدُونَ مِن دُونِ اللَّـهِ مَا لَا يَمْلِكُ لَكُمْ ضَرًّ‌ا وَلَا نَفْعًا ۚ وَاللَّـهُ هُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ ﴿٧٦﴾
آپ کہہ دیجئے کہ تم اللہ کے سوا ان کی عبادت کرتے ہو جو نہ تمہارے کسی نقصان کے مالک ہیں نہ کسی نفع کے، اللہ ہی خوب سننے اور پوری طرح جاننے والا ہے۔ (١)
٧٦۔١ یہ مشرکوں کی کم عقلی کی وضاحت کی جا رہی ہے کہ ایسوں کو انہوں نے معبود بنا رکھا ہے جو کسی کو نفع پہنچا سکتے ہیں نہ نقصان، بلکہ نفع نقصان پہنچانا تو کجا، وہ تو کسی کی بات سننے اور کسی کا حال جاننے کی ہی قدرت نہیں رکھتے۔ یہ قدرت صرف اللہ ہی کے اندر ہے۔ اس لیے حاجت روا مشکل کشا بھی صرف وہی ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
قُلْ يَا أَهْلَ الْكِتَابِ لَا تَغْلُوا فِي دِينِكُمْ غَيْرَ‌ الْحَقِّ وَلَا تَتَّبِعُوا أَهْوَاءَ قَوْمٍ قَدْ ضَلُّوا مِن قَبْلُ وَأَضَلُّوا كَثِيرً‌ا وَضَلُّوا عَن سَوَاءِ السَّبِيلِ ﴿٧٧﴾
کہہ دیجئے اے اہل کتاب! اپنے دین میں ناحق غلو اور زیادتی نہ کرو (١) اور ان لوگوں کی نفسانی خواہشوں کی پیروی نہ کرو جو پہلے سے بہک چکے ہیں اور بہتوں کو بہکا بھی چکے ہیں (٢) اور سیدھی راہ سے ہٹ گئے ہیں۔
٧٧۔١ یعنی اتباع حق میں حد سے تجاوز نہ کرو اور جن کی تعظیم کا حکم دیا گیا ہے، اس میں مبالغہ کر کے انہیں منصب نبوت سے اٹھا کر مقام الوہیت پر فائز مت کرو، جیسے حضرت مسیح علیہ السلام کے معاملے میں تم نے کیا۔ غلو ہر دور میں شرک اور گمراہی کا سب سے بڑا ذریعہ رہا ہے۔ انسان کو جس سے عقیدت و محبت ہوتی ہے، وہ اس کی شان میں خوب مبالغہ کرتا ہے۔ وہ امام اور دینی قائد ہے تو اس کو پیغمبر کی طرح معصوم سمجھنا اور پیغمبر کو خدائی صفات سے متصف ماننا عام بات ہے، بدقسمتی سے مسلمان بھی اس غلو سے محفوظ نہیں رہ سکے۔ ا نہوں نے بعض ائمہ کی شان میں بھی غلو کیا اور ان کی رائے اور قول، حتیٰ کہ ان کی طرف منسوب فتویٰ اور فقہ کو بھی حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے مقابلے میں ترجیح دے دی۔
٧٧۔٢ یعنی اپنے سے پہلے لوگوں کے پیچھے مت لگو، جو ایک نبی کو الٰہ بنا کر خود بھی گمراہ ہوئے اور دوسروں کو بھی گمراہ کیا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
لُعِنَ الَّذِينَ كَفَرُ‌وا مِن بَنِي إِسْرَ‌ائِيلَ عَلَىٰ لِسَانِ دَاوُودَ وَعِيسَى ابْنِ مَرْ‌يَمَ ۚ ذَٰلِكَ بِمَا عَصَوا وَّكَانُوا يَعْتَدُونَ ﴿٧٨﴾
بنی اسرائیل کے کافروں پر داؤد (علیہ السلام) اور عیسیٰ بن مریم (علیہ السلام) کی زبانی لعنت کی گئی (١) اس وجہ سے کہ وہ نافرمانیاں کرتے تھے اور حد سے آگے بڑھ جاتے تھے۔ (٢)
٧٨۔١ یعنی زبور میں جو حضرت داود علیہ السلام پر اور انجیل میں جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر نازل ہوئی اور اب یہی لعنت قرآن کریم کے ذریعے سے ان پر کی جا رہی ہے جو حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوا۔ لعنت کا مطلب اللہ کی رحمت اور خیر سے دوری ہے۔
٧٨۔٢ یہ لعنت کے اسباب ہیں:۔
1۔ عصیان، یعنی واجبات کا ترک اور محرمات کا ارتکاب کر کے۔ انہوں نے اللہ کی نافرمانی کی۔
2۔ اور اعْتِدَاءٌ یعنی دین میں غلو اور بدعات ایجاد کر کے انہوں نے حد سے تجاوز کیا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
كَانُوا لَا يَتَنَاهَوْنَ عَن مُّنكَرٍ‌ فَعَلُوهُ ۚ لَبِئْسَ مَا كَانُوا يَفْعَلُونَ ﴿٧٩﴾
آپس میں ایک دوسرے کو برے کاموں سے جو وہ کرتے تھے روکتے نہ تھے (١) جو کچھ بھی یہ کرتے تھے یقیناً بہت برا تھا۔
٧٩۔١ اس پرمستزاد یہ کہ وہ ایک دوسرے کو برائی سے روکتے نہیں تھے۔ جو بجائے خود ایک بہت بڑا جرم ہے۔ بعض مفسرین نے اسی ترک نہی کو عصیان اور اعتدا قرار دیا ہے جو لعنت کا سبب بنا۔ بہرحال دونوں صورتوں میں برائی کو دیکھتے ہوئے برائی سے نہ روکنا، بہت بڑا جرم اور لعنت و غضب الٰہی کا سبب ہے۔ حدیث میں بھی اس جرم پر بڑی سخت وعیدیں بیان فرمائی گئی ہیں۔ ایک حدیث میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سب سے پہلا نقص جو بنی اسرائیل میں داخل ہوا یہ تھا کہ ایک آدمی دوسرے آدمی کو برائی کرتے ہوئے دیکھتا تو کہتا، اللہ سے ڈر اور یہ برائی چھوڑ دے، یہ تیرے لیے جائز نہیں۔ لیکن دوسرے روز پھر اسی کے ساتھ اسے کھانے پینے اور اٹھنے بیٹھنے میں کوئی عار یا شرم محسوس نہ ہوتی، (یعنی اس کا ہم نوالہ و ہم پیالہ اور ہم نشین بن جاتا) درآں حالیکہ ایمان کا تقاضا اس سے نفرت اور ترک تعلق تھا۔ جس پر اللہ تعالیٰ نے ان کے درمیان آپس میں عداوت ڈال دی اور وہ لعنت الہیٰ کے مستحق قرار پائے“ پھر فرمایا کہ ”اللہ کی قسم! تم ضرور لوگوں کو نیکی کا حکم دیا کرو اور برائی سے روکا کرو، ظالم کا ہاتھ پکڑ لیا کرو (ورنہ تمہارا حال بھی یہی ہو گا)...“ الحدیث (ابو داود- كتاب الملاحم نمبر 4336 قال الشيخ الألباني: ضعيف وقال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف ترمذي (3047،3048) ابن ماجه (4006) أبو عبيدة عن أبيه منقطع انوار الصحيفه، صفحه نمبر 154) ایک دوسری راویت میں اس فریضے کے ترک پر یہ وعید سنائی گئی ہے کہ تم عذاب الٰہی کے مستحق بن جاؤ گے، پھر تم اللہ سے دعائیں بھی مانگو گے تو قبول نہیں ہوں گی۔ (مسند احمد، جلد 5،ص 388)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
تَرَ‌ىٰ كَثِيرً‌ا مِّنْهُمْ يَتَوَلَّوْنَ الَّذِينَ كَفَرُ‌وا ۚ لَبِئْسَ مَا قَدَّمَتْ لَهُمْ أَنفُسُهُمْ أَن سَخِطَ اللَّـهُ عَلَيْهِمْ وَفِي الْعَذَابِ هُمْ خَالِدُونَ ﴿٨٠﴾
ان میں سے بہت سے لوگوں کو آپ دیکھیں گے کہ وہ کافروں سے دوستیاں کرتے ہیں، جو کچھ انہوں نے اپنے لیے آگے بھیج رکھا ہے وہ بہت برا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان سے ناراض ہوا اور وہ ہمیشہ عذاب میں رہیں گے۔ (١)
٨٠۔١ یہ اہل کفر سے دوستانہ تعلق کا نتیجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ان پر ناراض ہوا اور اسی ناراضی کا نتیجہ جہنم کا دائمی عذاب ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
وَلَوْ كَانُوا يُؤْمِنُونَ بِاللَّـهِ وَالنَّبِيِّ وَمَا أُنزِلَ إِلَيْهِ مَا اتَّخَذُوهُمْ أَوْلِيَاءَ وَلَـٰكِنَّ كَثِيرً‌ا مِّنْهُمْ فَاسِقُونَ ﴿٨١﴾
اگر انہیں اللہ تعالیٰ پر اور نبی پر اور جو نازل کیا گیا ہے اس پر ایمان ہوتا تو یہ کفار سے دوستیاں نہ کرتے، لیکن ان میں اکژ لوگ فاسق ہیں۔ (١)
٨١۔١ اس کا مطلب یہ ہے کہ جس شخص کے اندر صحیح معنوں میں ایمان ہو گا، وہ کافروں سے کبھی دوستی نہیں کرے گا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
لَتَجِدَنَّ أَشَدَّ النَّاسِ عَدَاوَةً لِّلَّذِينَ آمَنُوا الْيَهُودَ وَالَّذِينَ أَشْرَ‌كُوا ۖ وَلَتَجِدَنَّ أَقْرَ‌بَهُم مَّوَدَّةً لِّلَّذِينَ آمَنُوا الَّذِينَ قَالُوا إِنَّا نَصَارَ‌ىٰ ۚ ذَٰلِكَ بِأَنَّ مِنْهُمْ قِسِّيسِينَ وَرُ‌هْبَانًا وَأَنَّهُمْ لَا يَسْتَكْبِرُ‌ونَ ﴿٨٢﴾
یقیناً آپ ایمان والوں کا سب سے زیادہ دشمن یہودیوں اور مشرکوں کو پائیں گے (١) اور ایمان والوں سے سب سے زیادہ دوستی کے قریب آپ یقیناً انہیں پائیں گے جو اپنے آپ کو نصاریٰ کہتے ہیں، یہ اس لیے کہ ان میں علماء اور عبادت کے لیے گوشہ نشین افراد پائے جاتے ہیں اور اس وجہ سے کہ وہ تکبر نہیں کرتے۔ (٢)
٨٢۔١ اس لیے کہ یہودیوں کے اندر عناد و جحود، حق سے اعراض و استکبار اور اہل علم و ایمان کی تنقیص کا جذبہ بہت پایا جاتا ہے، یہی وجہ ہے کہ نبیوں کا قتل اور ان کی تکذیب ان کا شعار رہا ہے۔ حتیٰ کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قتل کی بھی کئی مرتبہ سازش کی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر جادو بھی کیا اور ہر طرح نقصان پہنچانے کی مذموم سعی کی۔ اور اس معاملہ میں مشرکین کا حال بھی یہی ہے۔
٨٢۔٢ رُھْبَانُ سے مراد نیک، عبادت گزار اور گوشہ نشین لوگ اور قَسِّیْسِیْنَ سے مراد علماء و خطبا ہیں، یعنی ان عیسائیوں میں علم و تواضع ہے، اس لیے ان میں یہودیوں کی طرح جحود و استکبار نہیں ہے۔ علاوہ ازیں دین مسیح میں نرمی اور عفو و درگزر کی تعلیم کو امتیازی حیثیت حاصل ہے، حتیٰ کہ ان کی کتابوں میں لکھا ہے کہ کوئی تمہارے دائیں رخسار پر مارے تو بایاں رخسار بھی ان کو پیش کر دو۔ یعنی لڑو مت۔ ان وجوہ سے یہ مسلمان کے، بہ نسبت یہودیوں کے زیادہ قریب ہیں۔ عیسائیوں کا یہ وصف یہودیوں کے مقابلے میں ہے۔ تاہم جہاں تک اسلام دشمنی کا تعلق ہے، کم و بیش کے کچھ فرق کے ساتھ، اسلام کے خلاف یہ عناد عیسائیوں میں بھی موجود ہے، جیسا کہ صلیب و ہلال کی صدیوں پر محیط معرکہ آرائی سے واضح ہے اور جس کا سلسلہ تاحال جاری ہے۔ اور اب تو اسلام کے خلاف یہودی اور عیسائی دونوں ہی مل کر سرگرم عمل ہیں۔ اسی لیے قرآن نے دونوں سے دوستی کرنے سے منع فرمایا ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
پارہ 07
وَإِذَا سَمِعُوا مَا أُنزِلَ إِلَى الرَّ‌سُولِ تَرَ‌ىٰ أَعْيُنَهُمْ تَفِيضُ مِنَ الدَّمْعِ مِمَّا عَرَ‌فُوا مِنَ الْحَقِّ ۖ يَقُولُونَ رَ‌بَّنَا آمَنَّا فَاكْتُبْنَا مَعَ الشَّاهِدِينَ ﴿٨٣﴾
اور جب وہ رسول کی طرف نازل کردہ (کلام) کو سنتے ہیں تو آپ ان کی آنکھیں آنسو سے بہتی ہوئی دیکھتے ہیں اس سبب سے کہ انہوں نے حق کو پہچان لیا، وہ کہتے ہیں کہ اے ہمارے رب! ہم ایمان لے آئے پس تو ہم کو بھی ان لوگوں کے ساتھ لکھ لے جو تصدیق کرتے ہیں۔

وَمَا لَنَا لَا نُؤْمِنُ بِاللَّـهِ وَمَا جَاءَنَا مِنَ الْحَقِّ وَنَطْمَعُ أَن يُدْخِلَنَا رَ‌بُّنَا مَعَ الْقَوْمِ الصَّالِحِينَ ﴿٨٤﴾
اور ہمارے پاس کون سا عذر ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ پر اور جو حق ہم پر پہنچا ہے اس پر ایمان نہ لائیں اور ہم اس بات کی امید رکھتے ہیں کہ ہمارا رب ہم کو نیک لوگوں کی رفاقت میں داخل کر دے گا۔ (١)
٨٤۔١ حبشے میں، جہاں مسلمان مکی زندگی میں دو مرتبہ ہجرت کر کے گئے۔ أَصْحَمَة نجاشی کی حکومت تھی، یہ عیسائی مملکت تھی۔ یہ آیات حبشے میں رہنے والے عیسائیوں ہی کے بارے میں نازل ہوئی ہیں تاہم روایات کی رو سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمرو بن امیہ ضمری رضی الله عنہ کو اپنا مکتوب دے کر نجاشی کے پاس بھیجا تھا، جو انہوں نے جا کر اسے سنایا، نجاشی نے وہ مکتوب سن کر حبشے میں موجود مہاجرین اور حضرت جعفر بن ابی طالب رضی الله عنہ کو اپنے پاس بلایا اور اپنے علماء اور عباد و زہاد (قسیسین) کو بھی جمع کر لیا، پھر حضرت جعفر رضی الله عنہ کو قرآن کریم پڑھنے کا حکم دیا۔ حضرت جعفر رضی الله عنہ نے سورۂ مریم پڑھی، جس میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی اعجازی ولادت اور ان کی عبدیت و رسالت کا ذکر ہے جس سن کر وہ بڑے متاثر ہوئے اور آنکھوں سے آنسو رواں ہو گئے اور ایمان لے آئے۔ بعض کہتے ہیں کہ نجاشی نے اپنے کچھ علماء نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بھیجے تھے، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں قرآن پڑھ کر سنایا تو بے اختیار ان کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے۔ اور ایمان لے آئے۔ (فتح القدیر) آیات میں قرآن کریم سن کر ان پر جو اثر ہوا اس کا نقشہ کھینچا گیا ہے اور ان کے ایمان لانے کا تذکرہ ہے قرآن کریم میں بعض اور مقامات پر اس قسم کے عیسائیوں کا ذکر کیا گیا ہے۔ مثلاً ﴿وَإِنَّ مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ لَمَنْ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَمَا أُنْزِلَ إِلَيْكُمْ وَمَا أُنْزِلَ إِلَيْهِمْ خَاشِعِينَ لِلَّهِ﴾ (سورة آل عمران: 199) ”یقیناً اہل کتاب میں کچھ ایسے لوگ بھی ہیں جو اللہ پر اور اس کتاب پر جو تم پر نازل ہوئی اور اس پر جو ان پر نازل ہوئی، ایمان رکھتے ہیں اور اللہ کے آگے عاجزی کرتے ہیں“ وَغَيْرهَا مِنَ الآيَاتِ اور حدیث میں آتا ہے کہ جب نجاشی کی موت کی خبر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو پہنچی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ رضی الله عنہم سے فرمایا کہ حبشے میں تمہارے بھائی کا انتقال ہو گیا ہے، اس کی نماز جنازہ پڑھ! چنانچہ ایک صحرا میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی نماز جنازہ (غائبانہ) ادا فرمائی۔ (صحیح بخاری، مناقب الأنصار و كتاب الجنائز، صحيح مسلم، كتاب الجنائز) ایک اور حدیث میں ایسے اہل کتاب کی بابت ، جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت پر ایمان لائے بتلایا گیا ہے کہ انہیں دوگنا اجر ملے گا۔ (بخاری كتاب العلم وكتاب النكاح)
 
Top