• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تفسیر احسن البیان (تفسیر مکی)

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
إِذْ قَالَ الْحَوَارِ‌يُّونَ يَا عِيسَى ابْنَ مَرْ‌يَمَ هَلْ يَسْتَطِيعُ رَ‌بُّكَ أَن يُنَزِّلَ عَلَيْنَا مَائِدَةً مِّنَ السَّمَاءِ ۖ قَالَ اتَّقُوا اللَّـهَ إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ ﴿١١٢﴾
وہ وقت یاد کے قابل ہے جب کہ حواریوں نے عرض کیا کہ اے عیسیٰ بن مریم! کیا آپ کا رب ایسا کر سکتا ہے کہ ہم پر آسمان سے ایک خوان نازل فرما دے؟ (١) آپ نے فرمایا کہ اللہ سے ڈرو اگر تم ایمان والے ہو۔ (٢)
١١٢۔١ مَائِدَةً ایسے برتن (سینی، پلیٹ یا ٹرے وغیرہ) کو کہتے ہیں جس میں کھانا ہو۔ اسی لیے دسترخوان بھی اس کا ترجمہ کر لیا جاتا ہے کیونکہ اس پر بھی کھانا چنا ہوتا ہے۔ سورت کا نام بھی اسی مناسبت سے ہے کہ اس میں اس کا ذکر ہے حَوَارِيِّينَ نے مزید اطمینان قلب کے لیے یہ مطالبہ کیا جس طرح حضرت ابراہیم علیہ السلام نے احیائے موتی کے مشاہدے کی خواہش ظاہر فرمائی تھی۔
٢١۲۔٢ یعنی یہ سوال مت کرو، ممکن ہے یہ تمہاری آزمائش کا سبب بن جائے کیونکہ حسب طلب معجزہ دکھائے جانے کے بعد اس قوم کی طرف سے ایمان میں کمزوری عذاب کا باعث بن سکتی ہے۔ اس لیے حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے انہیں اس مطالبے سے روکا اور انہیں اللہ سے ڈرایا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
قَالُوا نُرِ‌يدُ أَن نَّأْكُلَ مِنْهَا وَتَطْمَئِنَّ قُلُوبُنَا وَنَعْلَمَ أَن قَدْ صَدَقْتَنَا وَنَكُونَ عَلَيْهَا مِنَ الشَّاهِدِينَ ﴿١١٣﴾
وہ بولے کہ ہم یہ چاہتے ہیں کہ اس میں سے کھائیں اور ہمارے دلوں کو پورا اطمینان ہو جائے اور ہمارا یہ یقین اور بڑھ جائے کہ آپ نے ہم سے سچ بولا ہے اور ہم گواہی دینے والوں میں سے ہو جائیں۔

قَالَ عِيسَى ابْنُ مَرْ‌يَمَ اللَّـهُمَّ رَ‌بَّنَا أَنزِلْ عَلَيْنَا مَائِدَةً مِّنَ السَّمَاءِ تَكُونُ لَنَا عِيدًا لِّأَوَّلِنَا وَآخِرِ‌نَا وَآيَةً مِّنكَ ۖ وَارْ‌زُقْنَا وَأَنتَ خَيْرُ‌ الرَّ‌ازِقِينَ ﴿١١٤﴾
عیسیٰ ابن مریم نے دعا کی کہ اے اللہ اے ہمارے پروردگار! ہم پر آسمان سے کھانا نازل فرما! کہ وہ ہمارے لیے یعنی ہم میں جو اول ہیں اور جو بعد کے ہیں سب کے لیے ایک خوشی کی بات ہو جائے (١) اور تیری طرف سے ایک نشانی ہو جائے اور تو ہم کو رزق عطا فرما دے اور تو سب عطا کرنے والوں سے اچھا ہے۔
١١٤۔١ اسلامی شریعتوں میں عید کا مطلب یہ نہیں رہا ہے کہ قومی تہوار کا ایک دن ہو جس میں تمام اخلاقی قیود اور شریعت کے ضابطوں کو پامال کرتے ہوئے بے ہنگم طریقے سے طرب و مسرت کا اظہار کیا جائے، چراغاں کیا جائے اور جشن منایا جائے، جیسا کہ آج کل اس کا یہی مفہوم سمجھ لیا گیا ہے اور اسی کے مطابق تہوار منائے جاتے ہیں۔ بلکہ آسمانی شریعتوں میں اس کی حیثیت ایک ملی تقریب کی ہوتی ہے، جس کا اہم مقصد یہ ہوتا ہے کہ اس روز پوری ملت اجتماعی طور پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرے اور اس کی تکبیر و تحمید کے زمزمے بلند کرے۔ یہاں بھی حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے اس دن کو عید بنانے کی جس خواہش کا اظہار کیا ہے اس سے ان کا مطلب یہی ہے کہ ہم تعریف و تمجید اور تکبیر و تحمید کریں۔ بعض اہل بدعت اس عید مائدہ سے عید میلاد کا جواز ثابت کرتے ہیں۔ حالانکہ اول تو یہ ہماری شریعت سے پہلے کی شریعت کا واقعہ ہے، جسے اگر اسلام برقرار رکھنا چاہتا تو وضاحت کر دی جاتی۔ دوسرے یہ پیغمبر کی زبان سے عید بنانے کی خواہش کا اظہار ہوا تھا اور پیغمبر بھی اللہ کے حکم سے شرعی احکام بیان کرنے کا مجاز ہوتا ہے۔ تیسرے عید کا مفہوم و مطلب بھی وہ ہوتا ہے جو مذکورہ بالا سطروں میں بیان کیا گیا ہے۔ جب کہ عید میلاد میں ان میں سے کوئی بات بھی نہیں ہے۔ لہذا عید میلاد کے بدعت ہونے میں کوئی شک و شبہ نہیں ہے۔ اسلام میں صرف دو ہی عیدیں ہیں جو اسلام نے مقرر کی ہیں، عید الفطر اور عید الاضحیٰ۔ ان کے علاوہ کوئی تیسری عید نہیں ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
قَالَ اللَّـهُ إِنِّي مُنَزِّلُهَا عَلَيْكُمْ ۖ فَمَن يَكْفُرْ‌ بَعْدُ مِنكُمْ فَإِنِّي أُعَذِّبُهُ عَذَابًا لَّا أُعَذِّبُهُ أَحَدًا مِّنَ الْعَالَمِينَ ﴿١١٥﴾
حق تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ میں وہ کھانا تم لوگوں پر نازل کرنے والا ہوں، پھر جو شخص تم میں سے اس کے بعد ناحق شناسی کرے گا تو میں اس کو ایسی سزا دوں گا کہ وہ سزا دنیا جہان والوں میں سے کسی کو نہ دوں گا۔ (١)
١١٥۔١ یہ مَائِدَةٌ (خوان طعام) آسمان سے اترا یا نہیں؟ اس کی بابت کوئی صحیح اور صریح مرفوع حدیث نہیں۔ جمہور علماء (امام شوکانی اور امام ابن جریر طبری سمیت) اس کے نزول کے قائل ہیں اور ان کا استدلال قرآن کے الفاظ ﴿إِنِّي مُنَزِّلُهَا عَلَيْكُمْ﴾ سے ہے کہ یہ اللہ کا وعدہ ہے جو یقیناً سچا ہے لیکن اسے اللہ کی طرف سے یقینی وعدہ قرار دینا اس لیے صحیح نہیں معلوم ہوتا کہ اگلے الفاظ ”فَمَنْ يَكْفُرْ“ اس وعدے کو مشروط ہونے کو ظاہر کرتے ہیں۔ اس لیے دوسرے علماء کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ شرط سن کر انہوں نے کہا کہ پھر ہمیں اس کی ضرورت نہیں۔ جس کے بعد اس کا نزول نہیں ہوا۔ امام ابن کثیر نے ان آثار کی اسانید کو جو امام مجاہد اور حضرت حسن بصری سے منقول ہیں، صحیح قرار دیا ہے۔ نیز کہا ہے کہ ان آثار کی تائید اس بات سے بھی ہوتی ہے کہ نزول مائدہ کی کوئی شہرت عیسائیوں میں ہے، نہ ان کی کتابوں میں درج ہے۔ حالانکہ اگر یہ نازل ہوا ہوتا تو اسے ان کے ہاں مشہور بھی ہونا چاہیے تھا اور کتابوں میں بھی تواتر سے یا کم از کم آحاد سے نقل ہونا چاہیے تھا۔ واللهُ أَعْلَمُ بِالصَّوَابِ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
وَإِذْ قَالَ اللَّـهُ يَا عِيسَى ابْنَ مَرْ‌يَمَ أَأَنتَ قُلْتَ لِلنَّاسِ اتَّخِذُونِي وَأُمِّيَ إِلَـٰهَيْنِ مِن دُونِ اللَّـهِ ۖ قَالَ سُبْحَانَكَ مَا يَكُونُ لِي أَنْ أَقُولَ مَا لَيْسَ لِي بِحَقٍّ ۚ إِن كُنتُ قُلْتُهُ فَقَدْ عَلِمْتَهُ ۚ تَعْلَمُ مَا فِي نَفْسِي وَلَا أَعْلَمُ مَا فِي نَفْسِكَ ۚ إِنَّكَ أَنتَ عَلَّامُ الْغُيُوبِ ﴿١١٦﴾
اور وہ وقت بھی قابل ذکر ہے جب کہ اللہ تعالیٰ فرمائے گا اے عیسیٰ بن مریم! کیا تم نے ان لوگوں سے کہہ دیا تھا کہ مجھ کو اور میری ماں کو بھی علاوہ اللہ کے معبود قرار دے لو! (١) عیسیٰ عرض کریں گے کہ میں تو تجھ کو منزہ سمجھتا ہوں، مجھ کو کسی طرح زیبا نہ تھا کہ میں ایسی بات کہتا جس کو کہنے کا مجھ کو کوئی حق نہیں، اگر میں نے کہا ہو گا تو تجھ کو اس کا علم ہو گا۔ تو تو میرے دل کے اندر کی بات بھی جانتا ہے اور میں تیرے نفس میں جو کچھ ہے اس کو نہیں جانتا۔ (٢) تمام غیبوں کے جاننے والا تو ہی ہے۔
١١٦۔١ یہ سوال قیامت والے دن ہو گا اور مقصد اس سے اللہ کو چھوڑ کر کسی اور کو معبود بنا لینے والوں کی زجر و توبیخ ہے کہ جن کو تم معبود اور حاجت روا سمجھتے تھے، وہ تو خود اللہ کی بارگاہ میں جواب دہ ہیں۔ دوسری بات یہ معلوم ہوئی کہ عیسائیوں نے حضرت مسیح علیہ السلام کے ساتھ حضرت مریم علیہا السلام کو بھی الٰہ (معبود) بنایا ہے۔ تیسری بات یہ معلوم ہوئی کہ مِنْ دُونِ اللهِ (اللہ کے سوا معبود) وہی نہیں ہیں جنہیں مشرکین نے پتھر یا لکڑی کی مورتیوں کی شکل میں بنا کر ان کی پوجا کی، جس طرح آج کل کے قبر پرست علماء اپنےعوام کو یہ باور کرا کے مغالطہ دیتے ہیں۔ بلکہ وہ اللہ کے نیک بندے بھی مِنْ دُونِ اللهِ میں شامل ہیں جن کی لوگوں نے کسی بھی انداز سے عبادت کی۔ جیسے حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور مریم کی عیسائیوں نے کی۔
١١٦۔٢ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کتنے واضح الفاظ میں اپنی بابت علم غیب کی نفی فرما رہے ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
مَا قُلْتُ لَهُمْ إِلَّا مَا أَمَرْ‌تَنِي بِهِ أَنِ اعْبُدُوا اللَّـهَ رَ‌بِّي وَرَ‌بَّكُمْ ۚ وَكُنتُ عَلَيْهِمْ شَهِيدًا مَّا دُمْتُ فِيهِمْ ۖ فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِي كُنتَ أَنتَ الرَّ‌قِيبَ عَلَيْهِمْ ۚ وَأَنتَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ شَهِيدٌ ﴿١١٧﴾
میں نے تو ان سے اور کچھ نہیں کہا مگر صرف وہی جو تو نے مجھ سے کہنے کو فرمایا تھا کہ تم اللہ کی بندگی اختیار کرو جو میرا بھی رب ہے اور تمہارا بھی رب ہے۔ (١) میں ان پر گواہ رہا جب تک ان میں رہا۔ پھر جب تو نے مجھ کو اٹھا لیا تو تو ہی ان پر مطلع رہا۔ (٢)۔ اور تو ہر چیز کی پوری خبر رکھتا ہے۔
١١٧۔١ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے توحید وعبادت رب کی یہ دعوت عالم شیرخوارگی میں بھی دی، جیسا کہ سورۂ مریم میں ہے اور عمر جوانی وکہولت میں بھی۔
١١٧۔٢ تَوَفَّيْتَنِي کا مطلب ہے جب تو نے مجھے دنیا سے اٹھا لیا جیسا کہ اس کی تفصیل سورۃ آل عمران کی آیت 55 میں گزر چکی ہے۔ اس سے یہ بات بھی معلوم ہوئی کہ پیغمبروں کو اتنا ہی علم ہوتا ہے جتنا اللہ کی طرف سے انہیں عطا کیا جاتا ہے یا جس کا مشاہدہ وہ اپنی زندگی میں اپنی آنکھوں سے کرتے ہیں۔ ان کے علاوہ ان کو کسی بات کا علم نہیں ہوتا۔ جب کہ عالم الغیب وہ ہوتا ہے جسے بغیر کسی کے بتلائے ہر چیز کا علم ہوتا ہے اور اس کا علم ازل سے ابد تک پر محیط ہوتا ہے۔ یہ صفت علم اللہ کے سوا کسی اور کے اندر نہیں۔ اس لیے عالم الغیب صرف ایک اللہ ہی کی ذات ہے۔ اس کے علاوہ کوئی عالم الغیب نہیں۔ حدیث میں آتا ہے کہ میدان محشر میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف آپ کے کچھ امتی آنے لگیں گے تو فرشتے ان کو پکڑ کر دوسری طرف لے جائیں گے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرمائیں گے ان کو آنے دو یہ تو میرے امتی ہیں، فرشتے آپ کو بتلائیں گے ”إِنَّكَ لا تَدْرِي مَا أَحْدَثُوا بَعْدَكَ“ اے محمد! (صلی اللہ علیہ وسلم) آپ نہیں جانتے کہ آپ کے بعد انہوں نے دین میں کیا کیا بدعتیں ایجاد کیں جب آپ یہ سنیں گے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں بھی اس وقت یہی کہوں گا جو العبد الصالح (حضرت عیسیٰ علیہ السلام) نے کہا ﴿وَكُنْتُ عَلَيْهِمْ شَهِيدًا مَا دُمْتُ فِيهِمْ فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِي كُنْتَ أَنْتَ الرَّقِيبَ عَلَيْهِمْ﴾ (صحیح بخاری، تفسير سورة المائدة وكتاب الأنبياء- صحيح مسلم، باب فناء الدنيا وبيان الحشر يوم القيامة)۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
إِن تُعَذِّبْهُمْ فَإِنَّهُمْ عِبَادُكَ ۖ وَإِن تَغْفِرْ‌ لَهُمْ فَإِنَّكَ أَنتَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ ﴿١١٨﴾
اگر تو ان کو سزا دے تو یہ تیرے بندے ہیں اور اگر تو ان کو معاف فرما دے تو تو زبردست ہے حکمت والا ہے۔
۱۱۸۔۱ یعنی مطلب یہ کہ یا اللہ! ان کا معاملہ تیری مشیت کے سپرد ہے، اس لیے کہ تو فَعَّالٌ لما يُرِيدُ بھی ہے، (جو چاہے کر سکتا ہے) اور تجھ سے کوئی باز پرس کرنے والا بھی نہیں ہے۔ ﴿لا يُسْأَلُ عَمَّا يَفْعَلُ وَهُمْ يُسْأَلُونَ﴾ (الأنبياء: 23 ) اللہ جو کچھ کرتا ہے، اس سے بازپرس نہیں ہو گی، لوگوں سے ان کے کاموں کی باز پرس ہو گی۔ گویا آیت میں اللہ کے سامنے بندوں کی عاجزی و بے بسی کا اظہار بھی ہے اور اللہ کی عظمت و جلالت اور اس کے قادر مطلق اور مختار کل ہونے کا بیان بھی اور پھر ان دونوں باتوں کے حوالے سے عفو و مغفرت کی التجا بھی۔ سبحان اللہ! کیسی عجیب و بلیغ آیت ہے۔ اسی لیے حدیث میں آتا ہے کہ ایک رات نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر نوافل میں اس آیت کو پڑھتے ہوئے ایسی کیفیت طاری ہوئی کہ بار بار ہر رکعت میں اسے ہی پڑھتے رہے، حتیٰ کہ صبح ہو گئی۔ (مسند احمد جلد ۵ ص ۱۱۹)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
قَالَ اللَّـهُ هَـٰذَا يَوْمُ يَنفَعُ الصَّادِقِينَ صِدْقُهُمْ ۚ لَهُمْ جَنَّاتٌ تَجْرِ‌ي مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ‌ خَالِدِينَ فِيهَا أَبَدًا ۚ رَّ‌ضِيَ اللَّـهُ عَنْهُمْ وَرَ‌ضُوا عَنْهُ ۚ ذَٰلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ ﴿١١٩﴾
اللہ ارشاد فرمائے گا کہ یہ وہ دن ہے کہ جو لوگ سچے تھے ان کا سچا ہونا ان کے کام آئے گا (١) ان کو باغ ملیں گے جن کے نیچے نہریں جاری ہوں گی جن میں وہ ہمیشہ ہمیشہ کو رہیں گے۔ اللہ تعالیٰ ان سے راضی اور خوش اور یہ اللہ سے راضی اور خوش ہیں، یہ بڑی بھاری کامیابی ہے۔
١١٩۔١ حضرت ابن عباس رضی الله عنہ نے اس کے معنی یہ بیان فرمائے ہیں ''يَنْفَعُ الْمُوَحِّدِينَ تَوْحِيدُهُمْ'' وہ دن ایسا ہو گا کہ صرف توحید ہی موحدین کو نفع پہنچائے گی، یعنی مشرکین کی معافی اور مغفرت کی کوئی صورت نہیں ہو گی۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
سورة الأنعام

(سورة انعام مکی ہے اس میں ایک سو پینسٹھ آیتیں اور بیس رکوع ہیں۔)​
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
شروع کرتا ہوں اللہ کے نام سے جو کہ نہایت مہربان بڑا رحم کرنے والا ہے۔

الْحَمْدُ لِلَّـهِ الَّذِي خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْ‌ضَ وَجَعَلَ الظُّلُمَاتِ وَالنُّورَ‌ ۖ ثُمَّ الَّذِينَ كَفَرُ‌وا بِرَ‌بِّهِمْ يَعْدِلُونَ ﴿١﴾
تمام تعریفیں اللہ ہی کے لائق ہیں جس نے آسمانوں کو اور زمین کو پیدا کیا اور تاریکیوں اور نور کو بنایا (١) پھر بھی کافر لوگ (غیر اللہ کو) اپنے رب کے برابر قرار دیتے ہیں۔
١۔١ ظلمات سے رات کی تاریکی اور نور سے دن کی روشنی یا کفر کی تاریکی اور ایمان کی روشنی مراد ہے۔ نور کے مقابلے میں ظلمات کو جمع ذکر کیا گیا ہے، اس لیے کہ ظلمات کے اسباب بھی بہت سے ہیں اور اس کی انواع بھی متعدد ہیں اور نور کا ذکر بطور جنس ہے جو اپنی تمام انواع کو شامل ہے۔ (فتح القدیر) یہ بھی ہو سکتا ہے کہ چونکہ ہدایت اور ایمان کا راستہ ایک ہی ہے، چار یا پانچ یا متعدد نہیں ہیں، اس لیے نور کو واحد ذکر کیا گیا ہے۔
١۔٢ یعنی اس کے ساتھ دوسروں کو شریک ٹھہراتے ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
هُوَ الَّذِي خَلَقَكُم مِّن طِينٍ ثُمَّ قَضَىٰ أَجَلًا ۖ وَأَجَلٌ مُّسَمًّى عِندَهُ ۖ ثُمَّ أَنتُمْ تَمْتَرُ‌ونَ ﴿٢﴾
وہ ایسا ہے جس نے تم کو مٹی سے بنایا (١) پھر ایک وقت معین کیا (٢) اور (دوسرا) معین وقت خاص اللہ ہی کے نزدیک ہے (٣) پھر بھی تم شک رکھتے ہو۔ (٤)
٢۔١ یعنی تمہارے باپ آدم علیہ السلام کو، جو تمہاری اصل ہیں اور جن سے تم سب نکلے ہو۔ اس کا ایک دوسرا مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ تم جو خوارک اور غذائیں کھاتے ہو، سب زمین سے پیدا ہوتی ہیں اور انہی غذاؤں سے نطفہ بنتا ہے جو رحم مادر میں جا کر تخلیق انسانی کا باعث بنتا ہے۔ اس لحاظ سے گویا تمہاری پیدائش مٹی سے ہوئی۔
٢۔٢ یعنی موت کا وقت۔
٢۔٣ یعنی آخرت کا وقت، اس کا علم صرف اللہ ہی کو ہے۔ گویا پہلی اجل سے مراد پیدائش سے لے کر موت تک انسان کی عمر ہے اور دوسری اجل مسمیٰ ہے۔ مراد انسان کی موت سے لے کر وقوع قیامت تک دنیا کی کل عمر ہے، جس کے بعد وہ زوال و فنا سے دوچار ہو جائے گی اور ایک دوسری دنیا یعنی آخرت کی زندگی کا آغاز ہو جائے گا۔
٢۔٤ یعنی قیامت کے وقوع میں جیسا کہ کفار و مشرکین کہا کرتے تھے کہ جب ہم مر کر مٹی میں مل جائیں گے تو کس طرح ہمیں دوبارہ زندہ کیا جا سکے گا؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ”جس نے تمہیں پہلی مرتبہ پیدا کیا دوبارہ بھی وہی اللہ تمہیں زندہ کرے گا“۔ (سورۃ یٰسین)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
وَهُوَ اللَّـهُ فِي السَّمَاوَاتِ وَفِي الْأَرْ‌ضِ ۖ يَعْلَمُ سِرَّ‌كُمْ وَجَهْرَ‌كُمْ وَيَعْلَمُ مَا تَكْسِبُونَ ﴿٣﴾
اور وہی ہے معبود برحق آسمانوں میں بھی اور زمین میں بھی، وہ تمہارے پوشیدہ احوال کو بھی اور تمہارے ظاہر احوال کو بھی جانتا ہے اور تم جو کچھ عمل کرتے ہو اس کو بھی جانتا ہے۔ (١)
٣۔١ اہل سنت یعنی سلف کا عقیدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ خود تو عرش پر ہے جس طرح اس کی شان کے لائق ہے لیکن اپنے علم کے لحاظ سے ہر جگہ ہے یعنی اس کے علم و خبر سے کوئی چیز باہر نہیں۔ البتہ بعض گمراہ فرقے اللہ تعالیٰ کو عرش پر نہیں مانتے اور کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہر جگہ موجود ہے اور وہ اس آیت سے اپنے اس عقیدے کا اثبات کرتے ہیں۔ لیکن یہ عقیدہ جس طرح غلط ہے یہ استدلال بھی صحیح نہیں۔ آیت کا مطلب یہ ہے کہ وہ ذات جس کو آسمانوں اور زمین میں اللہ کہہ کر پکارا جاتا ہے اور آسمانوں اور زمین میں جس کی حکمرانی ہے اور آسمانوں اور زمین میں جس کو معبود برحق سمجھا اور مانا جاتا ہے، وہ اللہ تمہارے پوشیدہ اور ظاہر اور جو کچھ تم عمل کرتے ہو، سب کو جانتا ہے۔ (فتح القدیر) اس کی اور بھی بعض توجیہات کی گئی ہیں جنہیں اہل علم تفسیروں میں ملاحظہ کر سکتے ہیں۔ مثلاً تفسیر طبری و ابن کثیر وغیرہ۔
 
Top