• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تفسیر احسن البیان (تفسیر مکی)

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,764
پوائنٹ
1,207
قُلْ أَرَ‌أَيْتَكُمْ إِنْ أَتَاكُمْ عَذَابُ اللَّـهِ أَوْ أَتَتْكُمُ السَّاعَةُ أَغَيْرَ‌ اللَّـهِ تَدْعُونَ إِن كُنتُمْ صَادِقِينَ ﴿٤٠﴾
آپ کہئے کہ اپنا حال تو بتلاؤ کہ اگر تم پر اللہ کا کوئی عذاب آ پڑے یا تم پر قیامت ہی آ پہنچے تو کیا اللہ کے سوا کسی اور کو پکارو گے۔ اگر تم سچے ہو۔

بَلْ إِيَّاهُ تَدْعُونَ فَيَكْشِفُ مَا تَدْعُونَ إِلَيْهِ إِن شَاءَ وَتَنسَوْنَ مَا تُشْرِ‌كُونَ ﴿٤١﴾
بلکہ خاص اسی کو پکارو گے، پھر جس کے لیے تم پکارو گے اگر وہ چاہے تو اس کو ہٹا بھی دے اور جن کو تم شریک ٹھہراتے ہو ان سب کو بھول بھال جاؤ گے۔ (١)
٤١۔١ أَرَأيْتَكُمْ میں کاف اور میم خطاب کے لیے ہے اس کے معنی أَخْبِرُونِي (مجھے بتلاؤ یا خبر دو) کے ہیں۔ اس مضمون کو بھی قرآن کریم میں کئی جگہ بیان کیا گیا ہے۔ (دیکھیے سورۂ بقرہ آیت 165 کا حاشیہ) اس کا مطلب یہ ہوا کہ توحید انسانی فطرت کی آواز ہے۔ انسانی ماحول، یا آبا و اجداد کی تقلید نا سدید میں مشرکانہ عقائد و اعمال میں مبتلا رہتا ہے اور غیر اللہ کو اپنا حاجت روا و مشکل کشا سمجھتا رہتا ہے، نذر و نیاز بھی انہی کے نام کی نکالتا ہے، لیکن جب کسی ابتلا سے دوچار ہوتا ہے تو پھر یہ سب بھول جاتا ہے اور فطرت ان سب پر غالب آ جاتی ہے اور بے اختیار انسان پھر اسی ذات کو پکارتا ہے جس کو پکارنا چاہیے۔ کاش! لوگ اسی فطرت پر قائم رہیں کہ نجات اخروی تو مکمل طور پر اسی صدائے فطرت یعنی توحید کے اختیار کرنے میں ہی ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,764
پوائنٹ
1,207
وَلَقَدْ أَرْ‌سَلْنَا إِلَىٰ أُمَمٍ مِّن قَبْلِكَ فَأَخَذْنَاهُم بِالْبَأْسَاءِ وَالضَّرَّ‌اءِ لَعَلَّهُمْ يَتَضَرَّ‌عُونَ ﴿٤٢﴾
اور ہم نے اور امتوں کی طرف بھی جو کہ آپ سے پہلے گزر چکی ہیں پیغمبر بھیجے تھے، سو ہم نے ان کو تنگدستی اور بیماری سے پکڑا تاکہ وہ اظہار عجز کر سکیں۔

فَلَوْلَا إِذْ جَاءَهُم بَأْسُنَا تَضَرَّ‌عُوا وَلَـٰكِن قَسَتْ قُلُوبُهُمْ وَزَيَّنَ لَهُمُ الشَّيْطَانُ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ ﴿٤٣﴾
سو جب ان کو ہماری سزا پہنچی تھی تو انہوں نے عاجزی کیوں اختیار نہیں کی؟ لیکن ان کے قلوب سخت ہو گئے اور شیطان نے ان کے اعمال کو ان کے خیال میں آراستہ کر دیا۔ (١)
٤٣۔١ قومیں جب اخلاق و کردار کی پستی میں مبتلا ہو کر ا پنے دلوں کو زنگ آلود کر لیتی ہیں تو اس وقت اللہ کے عذاب بھی انہیں خواب غفلت سے بیدار کرنے اور جھنجھوڑنے میں ناکام رہتے ہیں۔ پھر ان کے ہاتھ طلب مغفرت کے لیے اللہ کے سامنے نہیں اٹھتے، ان کے دل اس کی بارگاہ میں نہیں جھکتے اور ان کے رخ اصلاح کی طرف نہیں مڑتے۔ بلکہ اپنی بد اعمالیوں پر تاویلات و توجیہات کے حسین غلاف چڑھا کر اپنے دل کو مطمئن کر لیتی ہیں۔ اس آیت میں ایسی ہی قوموں کا وہ کردار بیان کیا گیا ہے جسے شیطان نے ان کے لیے خوبصورت بنا دیا ہوتا ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,764
پوائنٹ
1,207
فَلَمَّا نَسُوا مَا ذُكِّرُ‌وا بِهِ فَتَحْنَا عَلَيْهِمْ أَبْوَابَ كُلِّ شَيْءٍ حَتَّىٰ إِذَا فَرِ‌حُوا بِمَا أُوتُوا أَخَذْنَاهُم بَغْتَةً فَإِذَا هُم مُّبْلِسُونَ ﴿٤٤﴾
پھر جب وہ لوگ ان چیزوں کو بھولے رہے جن کی ان کو نصیحت کی جاتی تھی تو ہم نے ان پر ہر چیز کے دروازے کشادہ کر دیئے یہاں تک کہ جب ان چیزوں پر جو کہ ان کو ملی تھیں وہ خوب اترا گئے ہم نے ان کو دفعتًا پکڑ لیا، پھر تو وہ بالکل مایوس ہو گئے۔

فَقُطِعَ دَابِرُ‌ الْقَوْمِ الَّذِينَ ظَلَمُوا ۚ وَالْحَمْدُ لِلَّـهِ رَ‌بِّ الْعَالَمِينَ ﴿٤٥﴾
پھر ظالم لوگوں کی جڑ کٹ گئی اور اللہ تعالیٰ کا شکر ہے جو تمام عالم کا پروردگار ہے۔ (١)
٤٥۔١ اس میں خدا فراموش قوموں کی بابت اللہ تعالیٰ بیان فرماتا ہے کہ ہم بعض دفعہ وقتی طور پر ایسی قوموں پر دنیا کی آسائشوں اور فراوانیوں کے دروازے کھول دیتے ہیں، یہاں تک کہ جب وہ اس میں خوب مگن ہو جاتی ہیں اور اپنی مادی خوش حالی و ترقی پر اترانے لگ جاتی ہیں تو پھر ہم اچانک انہیں اپنے مواخذے کی گرفت میں لے لیتے ہیں اور ان کی جڑ ہی کاٹ کر رکھ دیتے ہیں۔ حدیث میں بھی آتا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ”جب تم دیکھو کہ اللہ تعالیٰ نافرمانیوں کے باوجود کسی کو اس کی خواہشات کے مطابق دنیا دے رہا ہے تو یہ استدراج (ڈھیل دینا) ہے۔ پھر آپ نے یہی آیت تلاوت فرمائی۔“ (مسند أحمد، جلد 4، صفحہ 145) قرآن کریم کی اس آیت اور حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے معلوم ہوا کہ دنیاوی ترقی اور خوش حالی اس بات کی دلیل نہیں ہے کہ جس فرد یا قوم کو یہ حاصل ہو تو وہ اللہ کی چہیتی ہے اور اللہ تعالیٰ اس سے خوش ہے، جیسا کہ بعض لوگ ایسا سمجھتے ہیں بلکہ بعض تو انہیں ﴿أَنَّ الأَرْضَ يَرِثُهَا عِبَادِيَ الصَّالِحُونَ﴾ (الأنبياء: 105) کا مصداق قرار دے کر انہیں (اللہ کے نیک بندے) تک قرار دیتے ہیں۔ ایسا سمجھنا اور کہنا غلط ہے، گمراہ قوموں یا افراد کی دنیاوی خوش حالی، ابتلا اور مہلت کے طور پر ہے نہ کہ یہ ان کے کفر و معاصی کا صلہ ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,764
پوائنٹ
1,207
قُلْ أَرَ‌أَيْتُمْ إِنْ أَخَذَ اللَّـهُ سَمْعَكُمْ وَأَبْصَارَ‌كُمْ وَخَتَمَ عَلَىٰ قُلُوبِكُم مَّنْ إِلَـٰهٌ غَيْرُ‌ اللَّـهِ يَأْتِيكُم بِهِ ۗ انظُرْ‌ كَيْفَ نُصَرِّ‌فُ الْآيَاتِ ثُمَّ هُمْ يَصْدِفُونَ ﴿٤٦﴾
آپ کہئے کہ یہ بتلاؤ اگر اللہ تعالیٰ تمہاری سماعت اور بصارت بالکل لے لے اور تمہارے دلوں پر مہر کر دے تو اللہ تعالیٰ کے سوا اور کوئی معبود ہے کہ یہ تم کو پھر دے۔ آپ دیکھئے تو ہم کس طرح دلائل کو مختلف پہلوؤں سے پیش کر رہے ہیں پھر بھی یہ اعراض کرتے ہیں۔ (١)
٤٦۔١ آنکھیں، کان اور دل، یہ انسان کے نہایت اہم اعضاء و جوارح ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرما رہا کہ اگر وہ چاہے تو ان کی وہ خصوصیات سلب کر لے جو اللہ نے ان کے اندر رکھی ہیں یعنی سننے، دیکھنے اور سمجھنے کی خصوصیات، جس طرح کافروں کے یہ اعضاء ان خصوصیات سے محروم ہوتے ہیں۔ یا اگر وہ چاہے تو اعضاء کو ویسے ہی ختم کر دے، وہ دونوں ہی باتوں پر قادر ہے، اس کی گرفت سے کوئی بچ نہیں سکتا، مگر یہ کہ وہ خود کسی کو بچانا چاہے۔ آیات کو مختلف پہلوؤں سے پیش کرنے کا مطلب ہے کہ کبھی انذار و تبشیر اور ترغیب و ترہیب کے ذریعے سے، اور کبھی کسی اور ذریعے سے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,764
پوائنٹ
1,207
قُلْ أَرَ‌أَيْتَكُمْ إِنْ أَتَاكُمْ عَذَابُ اللَّـهِ بَغْتَةً أَوْ جَهْرَ‌ةً هَلْ يُهْلَكُ إِلَّا الْقَوْمُ الظَّالِمُونَ ﴿٤٧﴾
آپ کہئے کہ یہ بتلاؤ اگر تم پر اللہ تعالیٰ کا عذاب آ پڑے خواہ اچانک یا اعلانیہ تو کیا بجز ظالم لوگوں کے اور بھی کوئی ہلاک کیا جائے گا۔ (١)
٤٧۔١ بَغْتَةً (بے خبری) سے مراد رات اور جَهْرَةً (خبرداری) سے دن مراد ہے، جسے سورۂ یونس میں ﴿بَيَاتًا أَوْ نَهَارًا﴾ (سورة يونس: 50) سے تعبیر کیا گیا ہے یعنی دن کو عذاب آ جائے یا رات کو۔ یا پھر بَغْتَةً وہ عذاب ہے جو اچانک بغیر تمہید اور مقدمات کے آ جائے اور جَهْرَةً وہ عذاب جو تمہید اور مقدمات کے بعد آئے۔ یہ عذاب جو قوموں کی ہلاکت کے لیے آتا ہے۔ ان ہی پر آتا ہے جو ظالم ہوتی ہیں یعنی کفر و طغیان اور معصیت الٰہی میں حد سے تجاوز کر جاتی ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,764
پوائنٹ
1,207
وَمَا نُرْ‌سِلُ الْمُرْ‌سَلِينَ إِلَّا مُبَشِّرِ‌ينَ وَمُنذِرِ‌ينَ ۖ فَمَنْ آمَنَ وَأَصْلَحَ فَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ ﴿٤٨﴾
اور ہم پیغمبروں کو صرف اس واسطے بھیجا کرتے ہیں کہ وہ بشارت دیں ٰ اور ڈرائیں (١) پھر جو ایمان لے آئے وہ درستی کر لے سو ان لوگوں پر کوئی اندیشہ نہیں اور نہ وہ مغموم ہوں گے۔ (٢)
٤٨۔١ وہ اطاعت گزاروں کو ان نعمتوں اور اجر جزیل کی خوشخبری دیتے ہیں جو اللہ تعالیٰ نے جنت کی صورت میں ان کے لیے تیار کر رکھا ہے اور نافرمانوں کو ان عذابوں سے ڈراتے ہیں جو اللہ نے ان کے لیے جہنم کی صورت میں تیار کیے ہوئے ہیں۔
٤٨۔٢ مستقبل (یعنی آخرت) میں پیش آنے والے حالات کا انہیں اندیشہ نہیں اور اپنے پیچھے دنیا میں جو کچھ چھوڑ آئے یا دنیا کی جو آسودگیاں وہ حاصل نہ کر سکے، اس پر وہ مغموم نہیں ہوں گے کیونکہ دونوں جہانوں میں ان کا ولی اور کارساز وہ رب ہے جو دونوں ہی جہانوں کا رب ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,764
پوائنٹ
1,207
وَالَّذِينَ كَذَّبُوا بِآيَاتِنَا يَمَسُّهُمُ الْعَذَابُ بِمَا كَانُوا يَفْسُقُونَ ﴿٤٩﴾
اور جو لوگ ہماری آیتوں کو جھوٹا بتلائیں ان کو عذاب پہنچے گا بوجہ اس کے کہ وہ نافرمانی کرتے ہیں۔ (١)
٤٩۔١ یعنی ان کو عذاب اس لیے پہنچے گا کہ انہوں نے تکفیر و تکذیب کا راستہ اختیار کیا، اللہ کی اطاعت اور اس کے اوامر کی پروا نہیں کی اور اس کے محارم و مناہی کا ارتکاب بلکہ اس کی حرمتوں کو پامال کیا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,764
پوائنٹ
1,207
قُل لَّا أَقُولُ لَكُمْ عِندِي خَزَائِنُ اللَّـهِ وَلَا أَعْلَمُ الْغَيْبَ وَلَا أَقُولُ لَكُمْ إِنِّي مَلَكٌ ۖ إِنْ أَتَّبِعُ إِلَّا مَا يُوحَىٰ إِلَيَّ ۚ قُلْ هَلْ يَسْتَوِي الْأَعْمَىٰ وَالْبَصِيرُ‌ ۚ أَفَلَا تَتَفَكَّرُ‌ونَ ﴿٥٠﴾
آپ کہہ دیجئے کہ نہ تو میں تم سے یہ کہتا ہوں کہ میرے پاس اللہ کے خزانے ہیں اور نہ میں غیب جانتا ہوں اور نہ میں تم سے یہ کہتا ہوں کہ میں فرشتہ ہوں۔ میں تو صرف جو کچھ میرے پاس وحی آتی ہے اس کا اتباع کرتا ہوں (١) آپ کہئے کہ اندھا اور بینا کہیں برابر ہو سکتا ہے۔ (٢) سو کیا تم غور نہیں کرتے؟
٥٠۔ ۱ میرے پاس اللہ کے خزانے بھی نہیں (جس سے مراد ہر طرح کی قدرت و طاقت ہے) کہ میں تمہیں اللہ کے اذن و مشیت کے بغیر کوئی ایسا بڑا معجزہ صادر کر کے دکھا سکوں، جیسا کہ تم چاہتے ہو، جسے دیکھ کر تمہیں میری صداقت کا یقین ہو جائے۔ میرے پاس غیب کا علم بھی نہیں کہ مستقبل میں پیش آنے والے حالات میں تمہیں مطلع کر دوں، مجھے فرشتہ ہونے کا دعویٰ بھی نہیں کہ تم مجھے ایسے خرق عادات امور پر مجبور کرو جو انسانی طاقت سے بالا ہوں۔ میں تو صرف اس وحی کا پیرو ہوں جو مجھ پر نازل ہوتی ہے اور اس میں حدیث بھی شامل ہے، جیسا کہ آپ نے فرمایا: أُوتِيتُ الْقُرْآنَ وَمِثْلَهُ مَعَهُ مجھے قرآن کے ساتھ اس کی مثل بھی دیا گیا یہ مثل حدیث رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) ہی ہے۔
٥٠۔٢ یہ استفہام انکار کے لیے ہے یعنی اندھا اور بینا، گمراہ اور ہدایت یافتہ اور مومن و کافر برابر نہیں ہو سکتے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,764
پوائنٹ
1,207
وَأَنذِرْ‌ بِهِ الَّذِينَ يَخَافُونَ أَن يُحْشَرُ‌وا إِلَىٰ رَ‌بِّهِمْ ۙ لَيْسَ لَهُم مِّن دُونِهِ وَلِيٌّ وَلَا شَفِيعٌ لَّعَلَّهُمْ يَتَّقُونَ ﴿٥١﴾
اور ایسے لوگوں کو ڈرائیے جو اس بات سے اندیشہ رکھتے ہیں کہ اپنے رب کے پاس ایسی حالت میں جمع کیے جائیں گے کہ جتنے غیر اللہ ہیں نہ کوئی ان کا مددگار ہو گا اور نہ کوئی شفیع ہو گا، اس امید پر کہ وہ ڈر جائیں۔ (١)
٥١۔١ یعنی انذار کا فائدہ ایسے ہی لوگوں کو ہو سکتا ہے، ورنہ جو بعث بعد الموت اور حشر و نشر پر یقین ہی نہیں رکھتے، وہ اپنے کفر و جحود پر ہی قائم رہتے ہیں۔ علاوہ ازیں اس میں ان اہل کتاب اور کافروں اور مشرکوں کا رد بھی ہے جو اپنے آبا اور اپنے بتوں کو اپنا سفارشی سمجھتے تھے۔ نیز کارساز اور سفارشی نہیں ہو گا کا مطلب، یعنی ان کے لیے جو عذاب جہنم کے مستحق قرار پا چکے ہوں گے۔ ورنہ مومنوں کے لیے تو اللہ نیک بندے، اللہ کے حکم سے سفارش کریں گے۔ یعنی شفاعت کی نفی اہل کفر و شرک کے لیے ہے اور اس کا اثبات ان کے لیے جو گناہ گار مومن و موحد ہوں گے، اسی طرح دونوں قسم کی آیات میں کوئی تعارض بھی نہیں رہتا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,764
پوائنٹ
1,207
وَلَا تَطْرُ‌دِ الَّذِينَ يَدْعُونَ رَ‌بَّهُم بِالْغَدَاةِ وَالْعَشِيِّ يُرِ‌يدُونَ وَجْهَهُ ۖ مَا عَلَيْكَ مِنْ حِسَابِهِم مِّن شَيْءٍ وَمَا مِنْ حِسَابِكَ عَلَيْهِم مِّن شَيْءٍ فَتَطْرُ‌دَهُمْ فَتَكُونَ مِنَ الظَّالِمِينَ ﴿٥٢﴾
اور ان لوگوں کو نہ نکالیے جو صبح و شام اپنے پروردگار کی عبادت کرتے ہیں، خاص اسی کی رضا مندی کا قصد رکھتے ہیں۔ ان کا حساب ذرا بھی آپ کے متعلق نہیں اور آپ کا حساب ذرا بھی ان کے متعلق نہیں کہ آپ ان کو نکال دیں۔ ورنہ آپ ظلم کرنے والوں میں سے ہو جائیں گے۔
٥٢۔١ یعنی یہ بے سہارا اور غریب مسلمان، جو بڑے اخلاص سے رات دن اپنے رب کو پکارتے ہیں یعنی اس کی عبادت کرتے ہیں، آپ مشرکین کے اس طعن یا مطالبہ سے کہ اے محمد! صلی اللہ علیہ وسلم تمہارے اردگرد توغربا و فقرا کا ہی ہجوم رہتا ہے ذرا انہیں ہٹاو تو ہم بھی تمہارے ساتھ بیٹھیں، ان غربا کو اپنے سے دور نہ کرنا، بالخصوص جب کہ آپ کا کوئی حساب ان کے متعلق نہیں اور ان کا آپ کے متعلق نہیں۔ اگر آپ ایسا کریں گے تو یہ ظلم ہو گا جو آپ کے شایان شان نہیں۔ مقصد امت کو سمجھانا ہے کہ بے وسائل لوگوں کو حقیر سمجھنا یا ان کی صحبت سے گریز کرنا اور ان سے وابستگی نہ رکھنا، یہ نادانوں کا کام ہے۔ اہل ایمان کا نہیں۔ اہل ایمان تو اہل ایمان سے محبت رکھتے ہیں چاہے وہ غریب اور مسکین ہی کیوں نہ ہوں۔
 
Top