مظاہر امیر
مشہور رکن
- شمولیت
- جولائی 15، 2016
- پیغامات
- 1,427
- ری ایکشن اسکور
- 411
- پوائنٹ
- 190
تفسیر ابن کثیر میں بھی ایسے ہی ہے :
پھر فرماتا ہے آیت «وَمَا أُنزِلَ عَلَى الْمَلَكَيْنِ بِبَابِلَ هَارُوتَ وَمَارُوتَ» (البقرہ: 102) الخ بعض تو کہتے ہیں یہاں پر «ما» نافیہ ہے یعنی انکار کے معنی میں ہے اور اس کا عطف «ماکفر سلیمان» پر ہے یہودیوں کے اس دوسرے اعتقاد کی کہ جادو فرشتوں پر نازل ہوا ہے اس آیت میں تردید ہے۔
ہاروت، ماروت لفظ شیاطین کا بدل ہے تثنیہ پر بھی جمع کا اطلاق ہوتا ہے جیسے آیت «فَإِن كَانَ لَهُ إِخْوَةٌ» (4-النساء: 11) میں یا اس لیے جمع کیا گیا کہ ان کے ماننے والوں کو بھی شامل کر لیا گیا ہے اور ان کا نام ان کی زیادہ سرکشی کی وجہ سے سرفہرست دیا گیا ہے قرطبی تو کہتے ہیں کہ اس آیت کا یہی ٹھیک مطلب ہے اس کے سوا کسی اور معنی کی طرف التفات بھی نہ کرنا چاہیئے۔(تفسیر ابن جریر الطبری:419/2) سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں جادو اللہ عزوجل کا نازل کیا ہوا نہیں۔ سیدنا ربیع بن انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ان پر کوئی جادو نہیں اترا۔ (ایضاً) اس بناء پر آیت کا ترجمہ اس طرح پر ہو گا کہ ان یہودیوں نے اس چیز کی تابعداری کی جو سلیمان علیہ السلام کے زمانہ میں شیطان پڑھا کرتے تھے سلیمان علیہ السلام نے کفر نہیں کیا نہ اللہ تعالیٰ نے جادو کو ان دو فرشتوں پر اتارا ہے (جیسے اے یہودیوں تمہارا خیال جبرائیل علیہ السلام و میکائیل علیہ السلام کی طرف ہے) بلکہ یہ کفر شیطانوں کا ہے جو بابل میں لوگوں کو جادو سکھایا کرتے تھے اور ان کے سردار دو آدمی تھے جن کا نام ہاروت و ماروت تھا۔