• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تفسیر سورت الانعام آیت نمبر رہ 109 تا 110۔

Hina Rafique

رکن
شمولیت
اکتوبر 21، 2017
پیغامات
282
ری ایکشن اسکور
18
پوائنٹ
75
قُلْ اِنَّنِىْ هَدَانِىْ رَبِّىٓ اِلٰى صِرَاطٍ مُّسْتَقِيْـمٍۚ دِيْنًا قِيَمًا مِّلَّـةَ اِبْرَاهِيْـمَ حَنِيْفًا ۚ وَمَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِيْنَ ○
سورت الانعام آیت (161)۔
ترجمہ ۔
کہہ دو کہ میرے رب نے مجھے ایک سیدھا راستہ بتلا دیا ہے، ایک صحیح دین ہے ابراہیم کے طریقے پر جو یکسو تھا، اور مشرکوں میں سے نہیں تھا○۔
قُلْ اِنَّ صَلَاتِىْ وَنُسُكِىْ وَمَحْيَاىَ وَمَمَاتِىْ لِلّـٰهِ رَبِّ الْعَالَمِيْنَ ○
سورت الانعام آیت (162)۔
ترجمہ ۔
کہہ دو کہ بے شک میری نماز اور میری قربانی اور میرا جینا اور میرا مرنا اللہ ہی کے لیے ہے جو سارے جہان کا پالنے والا ہے○۔
لَا شَرِيْكَ لَـهٝ ۖ وَبِذٰلِكَ اُمِرْتُ وَاَنَا اَوَّلُ الْمُسْلِمِيْنَ ○
سورت الانعام آیت نمبر (163)۔
ترجمہ ۔
اس کا کوئی شریک نہیں، اور مجھے اسی کا حکم دیا گیا تھا اور میں سب سے پہلے فرمانبردار ہوں○
تشریح و تفسیر
عنوانجینا مرنا اللہ کے لیے۔
سید المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم ہو رہا ہے کہ آپ پر اللہ کی جو نعمت ہے اس کا اعلان کر دیں کہ اس رب نے آپ کو صراط مستقیم دکھا دی ہے جس میں کوئی کجی یا کمی نہیں وہ ثابت اور سالم سیدھی اور ستھری راہ ہے۔
ابراہیم حنیف علیہ السلام کی ملت ہے جو مشرکوں میں نہ تھے اس دین سے وہی ہٹ جاتا ہے جو محض بیوقوف ہو۔
اور آیت میں ہے اللہ کی راہ میں پورا جہاد کرو وہی اللہ ہے جس نے تمہیں برگزیدہ کیا اور کشادہ دین عطا فرمایا جو تمہارے باپ ابراہیم علیہ السلام کا دین ہے۔
ابراہیم علیہ السلام اللہ نے سچے فرمانبردار تھے مشرک نہ تھے اللہ کی نعمتوں کے شکر گزار تھے اللہ کے پسندیدہ تھے راہ مستقیم کی ہدایت پائے ہوئے تھے دنیا میں بھی ہم نے انہیں بھلائی دی تھی اور میدان قیامت میں بھی وہ نیک کار لوگوں میں ہوں گے ۔
پھر ہم نے تیری طرف وحی کی کہ ملت ابراہیم علیہ السلام کی پیروی کر کہ وہ مشرکین میں نہ تھا ۔
یہ یاد رہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو آپ کی ملت کی پیروی کا حکم ہونے سے یہ لازم نہیں آتا کہ خلیل اللہ آپ سے افضل ہوں اس لئے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا قیام اس پر پورا ہوا اور یہ دین آپ ہی کے ہاتھوں کمال کو پہنچا ۔
اسی لئے حدیث میں ہے کہ میں نبیوں کا ختم کرنے والا ہوں اور تمام اولاد آدم علیہ السلام کا علی الاطلاق سردار ہوں اور مقام محمود والا ہوں جس سے ساری مخلوق کو امید ہو گی یہاں تک کہ خلیل اللہ کو بھی ۔
ابن مردویہ میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صبح کے وقت فرمایا کرتے تھے((اصبحنا علی ملتہ الاسلام و کلمتہ الاخلاص و دین نبینا و ملتہ ابینا ابراھیم حنیفا و ما کان من المشرکین))یعنی ہم نے ملت اسلامیہ پر کلمہ اخلاص پر ہمارے نبی کے دین پر اور ملت ابراہیم علیہ السلام حنیف پر صبح کی ہے جو مشرک نہ تھے((مسند احمد حافظ ابن حجر نے اسے حسن کہا ہے ))
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال ہوا کہ سب سے زیادہ محبوب دین اللہ کے نزدیک کونسا ہے؟ ؟
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو یکسوئی اور آسانی والا ہے((صحیح لغیرہ شیخ شعیب ارناوط اسے صحیح لغیرہ کہتے ہیں))
مسند کی حدیث میں ہے کہ جس دن حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مونڈھوں پر منہ رکھ کر حبشیوں کے جنگی کرتب ملاحظہ فرمائے تھے اس دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا تھا کہ یہ اس لئے کہ یہود یہ جان لیں کہ ہمارے دین میں کشادگی ہے اور میں یکسوئی والا آسانی والا دین دے کر بھیجا گیا ہوں ۔
اور حکم ہوتا ہے کہ آپ مشرکوں سے اپنا مخالف ہونا بھی بیان فرما دیں وہ اللہ کے سوا دوسروں کی عبادت کرتے ہیں دوسروں کے نام پر ذبیحہ کرتے ہیں میں صرف اپنے رب کی عبادت کرتا ہوں اسی کے نام پر ذبیحہ کرتا ہوں چنانچہ بقرہ عید کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب دو مینڈھے ذبح کئے تو((انی وجھت))الخ،کے بعد یہی آیت پڑھی((ضعیف ابو داؤد ))۔
آپ ہی اس امت میں اول مسلم تھے اس لئے کہ یوں تو ہر نبی اور ان کی ماننے والی امت مسلم ہی تھی ۔
سب کی دعوت اسلام اسلام ہی کی تھی سب اللہ کی خالص عبادت کرتے رہے جیسے فرمان ہے((و ما ارسلنک من قبلک من رسول الا نوحی الیہ انہ لا الہ الا انا فاعبدون))((سورت الانبیاء ))
یعنی تجھ سے پہلے بھی جتنے بھی رسول ہم نے بھیجے سب کی طرف وحی کی کہ میرے سوا کوئی معبود نہیں تم سب میری ہی عبادت کرو ۔
حضرت نوح علیہ السلام کا فرمان قرآن میں موجود ہے کہ آپ نے اپنی قوم سے فرمایا کہ میں تم سے کوئی اجرت طلب نہیں کرتا میرا اجر تو میرے رب کے ذمہ ہے مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں مسلمانوں میں رہوں اور آیت ہے((و من یرغب عن ملتہ ابراہیم الا من سفہ نفسہ))((سورت البقرہ))الخ،ملت ابراھیمی سے وہی ہٹتا ہے جس کی قسمت پھوٹ گئی ہو ۔
وہ دنیا
بھی برگزیدہ بندہ تھا اور آخرت میں بھی صالح لوگوں میں سے ہے اسے جب اس کے رب نے فرمایا تو تابعداربن جا اس نے اس نے جواب دیا کہ میں رب العالمین کا فرمانبردار ہوں اسی کی وصیت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے بچوں کو کی تھی اور یعقوب علیہ السلام نے اپنی اولاد کو کہ اے میرے بچو اللہ نے تمہارے لئے دین کو پسند فرما لیا ہے ۔

پس تم اسلام ہی پر مرنا ۔
حضرت یوسف علیہ السلام کی آخری دعا میں ہے یا اللہ تونے مجھے ملک عطا فرمایا خواب کی تعبیر سکھائی آسمان و زمین کا ابتدا میں پیدا کرنے والا تو ہے دنیا اور آخرت میں میرا ولی ہے مجھے اسلام کی حالت میں فوت کرنا اور نیک کاروں میں ملا دینا ۔
حضرت موسی علیہ السلام نے اپنی قوم سے فرمایا تھا کہ میرے بھائیو اگر تم ایماندار ہو اگر تم مسلم ہو تو تمہیں اللہ ہی پر بھروسہ کرنا چاہیے سب نے جواب دیا کہ ہم نے اللہ پر ہی توکل رکھا ہے ۔
اللہ ہمیں ظالموں کے لیے فتنہ نہ بنا اور ہمیں اپنی رحمت کے ساتھ ان کافروں سے بچا لے اور آیت میں فرمان باری تعالی ہے((انا انزلنا التورتہ فیھا ھدی و نور))((سورت المائدہ ))الخ،
ہم نے تورات اتاری جس میں ہدایت و نور ہے جس کے مطابق وہ انبیاء حکم کرتے ہیں جو مسلم ہیں یہودیوں کو بھی اور ربانیوں کو بھی احبار کو بھی الخ ۔
اور فرمایا((و اذ اوحیت الی الحوارین ان امنوا بی))سورت المائدہ ))الخ،
میں حواریوں کی طرف وحی کی کہ مجھ پر اور میرے رسول پر ایمان لاو سب نے کہا ہم نے ایمان قبول کیا ہمارے مسلمان ہونے پر تم گواہ رہو۔
یہ آیتیں صاف بتلا رہی ہیں کہ اللہ نے اپنے نبیوں کو اسلام کے ساتھ ہی بھیجا ہے ہاں یہ اور بات ہے کہ وہ اپنی اپنی مخصوص شریعتوں کے ساتھ مختص تھے احکام کا ادل بدل ہوتا رہتا تھا یہاں تک کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دین کے ساتھ پہلے کے کل دین منسوخ ہو گئے اور نہ منسوخ ہونے والا نہ بدلنے والا ہمیشہ رہنے والا دین اسلام آپ کو ملا جس پر ایک جماعت قیامت تک قائم رہے گی۔
اور اس پاک دین کا جھنڈا بدلا ابدالاباد تک لہراتا ریے گا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ ہم انبیاء کرام کی جماعت علاتی بھائی ہیں ۔
ہم سب کا دین ایک ہی ہے((صحیح بخاری کتاب الاحادیث الانبیاء۔ صحیح مسلم کتاب الفضائل ))
بھائیوں کی ایک قسم تو علاتی جن کا باپ ایک ہو اور مائیں الگ الگ ہوں ایک قسم اخیانی بھائی جن کی ماں ایک ہو اور باپ جداگانہ ہوں اور ایک عینی بھائی ہیں جن کا باپ ایک ہو اور ماں بھی ایک ہو۔
پس کل انبیاء کرام کا دین ایک ہے یعنی اللہ وحدہ لا شریک کی عبادت اور شریعت مختلف ہیں بہ اعتبار احکام کے۔
اس لئے انہیں علاتی بھائی فرمایا ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تکبیر اولی کے بعد نماز میں((انی وجھت))سورت انعام ))الخ، اور یہ آیت پڑھتے((اللھم انت الملک لا الہ الا انت، انت ربی و انا عبدک ظلمت نفسی واعترفت بذنبی فاغفرلی ذنوبی جمیعا لا یغفر الذنوب الا انت واھدنی الاحسن الاخلاق لا یھدی الا حسنھا الا انت واصرف عنی سیئتھا لا یصرف عنی سیئتھا الا انت تبارکت و تعالیت ادستغفرک و اتوب الیک))یہ حدیث لمبی ہے اس کے بعد راوی نے رکوع و سجدہ اور تشہد کی دعاوں کا ذکر کیا ہے((صحیح مسلم کتا الصلوۃ المسافرین ۔ابو داؤد کتاب الصلوۃ ۔ترمذی کتاب الدعوات ۔مسند احمد ))

و ما علینا الا البلاغ المبین ۔
 

Hina Rafique

رکن
شمولیت
اکتوبر 21، 2017
پیغامات
282
ری ایکشن اسکور
18
پوائنٹ
75
قُلْ اَغَيْـرَ اللّـٰهِ اَبْغِىْ رَبًّا وَّهُوَ رَبُّ كُلِّ شَىْءٍ ۚ وَلَا تَكْسِبُ كُلُّ نَفْسٍ اِلَّا عَلَيْـهَا ۚ وَلَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِّزْرَ اُخْرٰى ۚ ثُـمَّ اِلٰى رَبِّكُمْ مَّرْجِعُكُمْ فَيُنَبِّئُكُمْ بِمَا كُنْتُـمْ فِيْهِ تَخْتَلِفُوْنَ○
سورت الانعام آیت نمبر (164)
ترجمہ ۔
کہہ دو کہ کیا اب میں اللہ کے سوا اور کوئی رب تلاش کروں حالانکہ وہی ہر چیز کا رب ہے، اور جو شخص کوئی گناہ کرے گا تو وہ اسی کے ذمہ ہے، اور ایک شخص دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گا، پھر تمہارے رب کے ہاں ہی سب کو لوٹ کر جانا ہے سو وہ تمہیں بتلا دے گا جن باتوں میں تم جھگڑتے تھے○۔
وَهُوَ الَّـذِىْ جَعَلَكُمْ خَلَآئِفَ الْاَرْضِ وَرَفَـعَ بَعْضَكُمْ فَوْقَ بَعْضٍ دَرَجَاتٍ لِّيَبْلُوَكُمْ فِىْ مَآ اٰتَاكُمْ ۗ اِنَّ رَبَّكَ سَرِيْعُ الْعِقَابِۖ وَاِنَّهٝ لَغَفُوْرٌ رَّحِيْـمٌ○
سورت الانعام آیت نمبر (165)
ترجمہ ۔
اس نے تمہیں زمین میں نائب بنایا ہے اور بعض کے بعض پر درجے بلند کر دیے ہیں تاکہ تمہیں آزمائے اس میں جو اس نے تمہیں دیا ہے، بے شک البتہ تیرا رب جلدی عذاب دینے والا ہے اور بے شک وہ بخشنے والا مہربان ہے۔○
تشریح و تفسیر
عنوان کیا میں غیر اللہ کو معبود بنا لوں؟؟؟
کافروں کو نہ خلوص عبادت نصیب ہے نہ سچا توکل رب میسر ہے ان سے کہہ دیجئے کہ کیا میں بھی تمہاری طرح اپنے اور اپنے اور سب کے سچے معبود کو چھوڑ کر جھوٹے معبود بنا لوں؟
میری پرورش کرنے والا میری حفاظت کرنے والا، مجھے بچانے والا میرے کام بنانے والا میری بگڑی سنوارنے والا تو اللہ ہی ہے ۔
پھر میں دوسرے کا سہارا کیوں لوں؟؟
مالک خالق کو چھوڑ کر بے بس اور محتاج کے پاس کیوں جاوں؟ ؟
گویا اس آیت میں توکل علی اللہ اور عبادت رب کا حکم ہوتا ہے ۔
یہ دونوں چیزیں عموما ایک ساتھ بیان ہوا کرتی ہیں جیسے((ایاک نعبد و ایاک نستعین))((سورت فاتحہ ))
میں اور سورت ھود میں((فاعبدہ و توکل علیہ))میں اور سورت الملک((قل ھو رحمن امنا بہ و علیہ توکلنا))میں اور سورت مزمل میں((رب المشرق والمغرب لا الہ الا ھو فاتخذوا وکیلا))میں اور دوسری آیتوں میں بھی ۔
پھر قیامت کے دن کی خبر دیتا ہے کہ ہر شخص کو اس کے اعمال کا بدلہ عدل و انصاف سے ملے گا ۔
نیکوں کو نیک اور بدوں کو بد۔
ایک کے گناہ دوسرے پر نہیں جائیں گے ۔
کوئی رشتہ دار دوسرے کے عوض پکڑا نہ جائے گا اس دن ظلم بالکل ہی نہیں ہو گا ۔
نہ کسی کے گناہ بڑھائے جائیں گے اور نہ کسی کی نیکی گھٹائی جائے گی ۔
اپنی اپنی کرنی اپنی اپنی بھرنی ہاں جن کے دائیں ہاتھ میں اعمال نامے ملے ہیں ان کے نیک اعمال کی برکت ان کی اولاد کو بھی پہنچے گی جیسے سورت الطور میں((والذین امنوا واتبعتھم ذریتھم بایمان))
الخ،
یعنی جو ایمان لائے اور انکی اولاد نے بھی ان کے ایمان میں ان کی تابعداری کی ہم ان کی اولاد کو بھی ان کے درجات میں پہنچا دیں گے گو ان کے اعمال اس درجے کے نہ ہوں لیکن چونکہ ان کی ایمان میں شرکت ہے اس لئے درجات میں بھی بڑھا دیں گے ان کے اعمال اس درجے کے نہ ہوں لیکن چونکہ ان کی ایمان میں شرکت ہے اس لئے درجات میں بھی بڑھا دیں گے اور ان کے ماں باپ کے درجے گھٹا کر نہیں بڑھائیں گے بلکہ یہ اللہ کا فضل و کرم ہو گا ۔
ہاں برے لوگ اپنے بد اعمالی کے جھگڑے میں گھرے ہوئے ہوں گے تم بھی عمل کئے جا رہے ہو ہم بھی کئے جا رہے ہیں اللہ کے ہاں سب کو جانا ہے وہاں اعمال کا حساب ہونا ہے پھر معلوم ہو جائے گا کہ اس اختلاف میں حق اور رضائے رب مرضی پرودگار کس کے ساتھ تھی؟؟
ہمارے اعمال سے تم اور تمہارے اعمال سے ہم اللہ کے ہاں پوچھے نہیں جائیں گے ۔
قیامت کے دن اللہ کے ہاں سچے فیصلے ہوں گے اور وہ با علم اللہ ہمارے درمیان سچے فیصلے فرما دے گا ۔
وَهُوَ الَّـذِىْ جَعَلَكُمْ خَلَآئِفَ الْاَرْضِ وَرَفَـعَ بَعْضَكُمْ فَوْقَ بَعْضٍ دَرَجَاتٍ لِّيَبْلُوَكُمْ فِىْ مَآ اٰتَاكُمْ ۗ اِنَّ رَبَّكَ سَرِيْعُ الْعِقَابِۖ وَاِنَّهٝ لَغَفُوْرٌ رَّحِيْـمٌ○
سورت الانعام آیت نمبر (165)
ترجمہ ۔
اس نے تمہیں زمین میں نائب بنایا ہے اور بعض کے بعض پر درجے بلند کر دیے ہیں تاکہ تمہیں آزمائے اس میں جو اس نے تمہیں دیا ہے، بے شک البتہ تیرا رب جلدی عذاب دینے والا ہے اور بے شک وہ بخشنے والا مہربان ہے۔○
تشریح و تفسیر
عاللہنوان کی رحمت غضب پر غالب۔۔۔۔۔!!!
اس اللہ نے تمہیں زمین پر آباد کیا ۔
وہ تمہیں یکے بعد دیگرے پیدا کرتا رہتا ہے ایسا نہیں کیا کہ زمین پر فرشتے بستے ہوں، فرمان الہی ہے سورت اعراف((عسی ربکم ان یھلک عدوکم))الخ،
ممکن ہے کہ تمہارا رب تمہارے دشمن کو غارت کر دے اور تمہیں زمین میں خلیفہ بنا کر آزمائے کہ تم کیسے اعمال کرتے ہو؟؟
اس نے تمہارے درمیان مختلف طبقات بنائے، کوئی امیر ہے کوئی غریب

ہے،کوئی خوش ہے کوئی پریشان ہے، کوئی بد اخلاق ہے کوئی خوبصورت ہے کوئی بد صورت ہے،یہ بھی اسی کی حکمت ہے۔
اسی نے روزیاں تقسیم کی ہیں ایک کو ایک کے ماتحت کر دیا ہے فرمان ہے الاسراء((انظر کیف فضلنا بعضھم))الخ،
دیکھ لے کہ ہم نے ان میں سے ہر ایک کو ایک پر فضیلت دی ہے؟
اس سے منشاء یہ ہے کہ آزمائش و امتحان ہو جائے ۔
امیر آدمیوں کا شکر، فقیروں کا صبر معلوم ہو جائے ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں دنیا میٹھی اور سبز رنگ ہے اللہ تمہیں اس میں خلیفہ بنا کر دیکھ رہا ہے کہ تم کیسے اعمال کرتے ہو؟
پس تمہیں دنیا میں ہوشیار رہنا چاہیے اور عورتوں کے بارے میں بہت احتیاط سے رہنا چاہیے ۔
بنی اسرائیل کا پہلا فتنہ عورتیں ہی تھیں۔((صحیح مسلم کتاب الرقاق ۔ابن ماجہ کتاب الفتن ۔ترمذی کتاب الفتن ))
اس سورت کی آخری آیت میں اپنے دونوں وصف بیان فرمائے ۔
عذاب کا بھی ثواب کا بھی، پکڑ کا بھی اور بخشش کا بھی اپنے نافرمانوں پر ناراضگی کا اور اپنے فرمانبرداروں پر رضا مندی کا۔
عموما قرآن کریم میں یہ دونوں صفات ایک ساتھ ہی بیان فرمائی جاتی ہیں ۔
جیسے فرمان ہے سورت رعد((وان ربک لذو مغفرتہ للناس علی ظلمھم و ان ربک لشدید العقاب))اور سوت الحجرات میں((نبئ عبادی انی انا الغفور الرحیم○و ان عذابی ھو العذاب الالیم))
یعنی تیرا رب اپنے بندوں کے گناہ بخشنے والا بھی ہے اور وہ سخت اور دردناک عذاب دینے والا بھی ہے ۔
پس ان آیتوں میں رغبت رہبت دونوں ہیں ۔
اپنے فضل اور جنت کا لالچ بھی دیتا ہے اور آگ کے عذاب سے دھمکاتا بھی ہے کبھی ان دونوں صفات کو الگ الگ بیان فرماتا ہے تا کہ عذابوں سے بچنے اور نعمتوں کے حاصل کرنے کا خیال پیدا ہو ۔
اللہ تعالی ہمیں اپنے احکامات کی پابندی اور اپنی ناراضگی کے کاموں سے نفرت نصیب فرمائے آمین ۔
اور ہمیں کامل ایمان یقین عطا فرمائے کہ ہم اس کے کلام پر ایمان و یقین رکھیں ۔
وہ قریب و مجیب ہے وہ دعاوں کا سننے والا ہے، وہ جواد کریم اور وہاب ہے،مسند احمد میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں اگر مومن صحیح طور پر اللہ کے عذابوں سے واقف ہو جائے تو اپنے گناہوں کی وجہ سے جنت کے حصول کی آس ہی نہ رہے اور اگر کافر اللہ کی رحمت سے کماحقہ واقف ہو جائے تو کسی کو بھی جنت سے مایوسی نہ ہو ۔
اللہ نے سو رحمتیں بنائی ہیں جن میں سے صرف ایک بندوں کے درمیان رکھی ہے اسی سے ایک دوسرے پر رحم و کرم کرتے ہیں باقی ننانوے تو صرف اللہ ہی کے پاس ہیں۔
یہ حدیث ترمذی اور مسلم شریف میں بھی ہے((صحیح مسلم کتاب التوبتہ۔ترمذی کتاب الدعوات ۔مسند احمد ))
ایک اور روایت میں ہے کہ اللہ تعالی نے مخلوق کی پیدائش کے وقت ایک کتاب لکھی جو اس کے پاس عرش پر ہے کہ میری رحمت میرے غضب پر غالب ہے((صحیح بخاری کتاب التوحید ۔صحیح مسلم کتاب التوبہ ۔))
صحیح مسلم شریف میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں اللہ تعالی نے رحمت کے سو حصے بنائے ہیں جن میں سے ایک کم ایک سو اپنے پاس رکھے اور ایک حصہ زمین پر نازل فرمایا اسی ایک حصے میں مخلوق کو ایک دوسرے پر شفقت و کرم ہے یہاں تک کہ جانور بھی اپنے بچے کے جسم سے اپنا پاوں رحم کھا کر اٹھا لیتا ہے کہ کہیں اسے تکلیف نہ ہو) (صحیح بخاری کتاب الادب ۔صحیح مسلم کتاب التوبہ ))
*و ما علینا الا البلاغ المبین ۔*
*الحمدللہ سورت الانعام کی تفسیر مکمل ہوئی*
*اللہ پاک ہمیں اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور اس کو ہمارے لئے توشہ آخرت بنائے آمین*
 

Hina Rafique

رکن
شمولیت
اکتوبر 21، 2017
پیغامات
282
ری ایکشن اسکور
18
پوائنٹ
75
(7) سورۃ الاعراف (مکی، آیات 206)
بِسْمِ اللّـٰهِ الرَّحْـمٰنِ الرَّحِيْـمِ○
الٓـمٓـص○ٓ (1)
ا ل م صۤ○
كِتَابٌ اُنْزِلَ اِلَيْكَ فَلَا يَكُنْ فِىْ صَدْرِكَ حَرَجٌ مِّنْهُ لِتُنْذِرَ بِهٖ وَذِكْـرٰى لِلْمُؤْمِنِيْنَ ○
سورت الاعراف آیت نمبر (2)
ترجمہ ۔
یہ کتاب تیری طرف بھیجی گئی ہے تاکہ تو اس کے ذریعہ سے ڈرائے اور اس سے تیرے دل میں تنگی نہ ہونی چاہیے اور یہ ایمان والوں کے لیے نصیحت ہے○۔
اِتَّبِعُوْا مَآ اُنْزِلَ اِلَيْكُمْ مِّنْ رَّبِّكُمْ وَلَا تَتَّبِعُوْا مِنْ دُوْنِهٓ ٖ اَوْلِيَآءَ ۗ قَلِيْلًا مَّا تَذَكَّرُوْنَ ○
سورت الاعراف آیت نمبر(3)
ترجمہ ۔
جو چیز تمہارے رب کی طرف سے تم پر اتری ہے اس کا اتباع کرو اور اللہ کو چھوڑ کر دوسرے دوستوں کی تابعداری نہ کرو، تم لوگ بہت ہی کم نصیحت مانتے ہو○۔
وَكَمْ مِّنْ قَرْيَةٍ اَهْلَكْنَاهَا فَجَآءَهَا بَاْسُنَا بَيَاتًا اَوْ هُـمْ قَـآئِلُوْنَ ○
سورت الاعراف آیت نمبر (4)
ترجمہ ۔
اور کتنی بستیاں ہم نے ہلاک کر دی ہیں جن پر ہمارا عذاب رات کو آیا، یا ایسی حالت میں کہ دوپہر کو سونے والے تھے○۔
فَمَا كَانَ دَعْوَاهُـمْ اِذْ جَآءَهُـمْ بَاْسُنَـآ اِلَّآ اَنْ قَالُـوٓا اِنَّا كُنَّا ظَالِمِيْنَ ○
سورت الاعراف آیت نمبر (5)
ترجمہ ۔
جس وقت ان پر ہمارا عذاب آیا پھر ان کی یہی پکار تھی کہتے تھے بے شک ہم ہی ظالم تھے○۔
فَلَـنَسْاَلَنَّ الَّـذِيْنَ اُرْسِلَ اِلَيْـهِـمْ وَلَـنَسْاَلَنَّ الْمُرْسَلِيْنَ ○
سورت الاعراف آیت نمبر(6)
ترجمہ ۔
پھر ہم ان لوگوں سے ضرور سوال کریں گے جن کے پاس پیغمبر بھیجے گئے تھے اور ان پیغمبروں سے ضرور پوچھیں گے۔○
فَلَنَـقُصَّنَّ عَلَيْـهِـمْ بِعِلْمٍ ۖ وَّمَا كُنَّا غَآئِبِيْنَ ○
سورت الاعراف آیت نمبر (7)
ترجمہ ۔
پھر اپنے علم کی بناء پر ان کے سامنے بیان کر دیں گے، اور ہم کہیں غائب نہ تھے۔○
تشریح و تفسیر
اس سورت کی ابتداء میں جو حروف ہیں ان کے متعلق تفصیل پہلے بیان ہو چکی ہے سورت بقرہ کی تفسیر میں معہ اختلاف علماء ۔
ابن عباس رضی اللہ عنہ سے اس کے معنی میں مروی ہے اس سے مراد((انا اللہ افصل))ہے یعنی میں اللہ ہوں میں تفصیل وار بیان فرما بیان فرما رہا ہوں((تفسیر ابن جریر رح ))
سعید بن جبیر رح سے بھی یہی مروی ہے ۔
یہ کتاب قرآن کریم تیری جانب تیرے رب کی طرف سے نازل کی گئی ہے ۔
اس میں کوئی شک نہ کرنا، دل تنگ نہ کرنا اس کے پہنچانے میں کسی سے نہ ڈرنا، نہ کسی کا لحاظ کرنا،بلکہ سابقہ اولوالعزم پیغمبروں علیھم السلام کی طرح صبر و استقامت کے ساتھ کلام اللہ کی تبلیغ مخلوق الہی میں کرنا ۔
اس کا نزول اس لئے ہوا ہے کہ کافروں کو ڈرا کر ہوشیار اور چوکنا کر دے۔
یہ قرآن مومنوں کے لیے نصیحت و عبرت وعظ و پند ہے "اس کے بعد تمام دنیا کو حکم ہوتا ہے کہ اس نبی امی صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کرو۔
اس کے قدم بہ قدم بہ چلو یہ تمہارے رب کا بھیجا ہوا ہے، کلام اللہ تمہارے پاس لایا ہے ۔
وہ اللہ تم سب کا خالق مالک ہے اور تمام جان داروں کا رب ہے ۔
خبردار ہرگز ہرگز نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ہٹ کر دوسرے کی تابعداری نہ کرنا اور ورنہ حکم عدولی پر سزا ملے گی ۔
افسوس تم بہت ہی کم نصیحت حاصل کرتے ہو "
جیسے فرمان ہے کہ گو تم چاہو لیکن اکثر لوگ اپنی بے ایمانی پر اڑے ہی رہیں گے((سورت یوسف))
اور آیت میں ہے((و ان تطع اکثر من فی الارض یضلوک عن سبیل اللہ))((سورت انعام))۔
یعنی اگر تو انسانوں کی کثرت کی طرف جھک جائے گا تو وہ بھی تجھے بہکا کر ہی چین لیں گے "سورت یوسف میں فرنان ہے "اکثر لوگ اللہ کو مانتے ہوئے بھی شرک سے باز نہیں آتے ۔
عنوانسابقہ ہلاک شدہ بستیاں عبرت کا مقام
ان لوگوں کو جو ہمارے رسولوں کی مخالفت کرتے تھے انہیں جھٹلاتے تھے تم سے پہلے ہم ہلاک کر چکے ہیں ۔
دنیا اور آخرت کی ذلت ان پر برس پڑی ہیں ۔
تجھ سے اگلے رسولوں سے بھی مذاق کیا گیا لیکن نتیجہ یہ ہوا کہ مذاق کرنے والوں کے مذاق نے انہیں تہ و بالا کر دیا"
ایک اور آیت میں ہے بہت سی ظالم بستیوں کو ہم نے غارت کر دیا جو اب تک الٹی پڑی ہیں "
اور جگہ ارشاد باری تعالی ہے
بہت سے اتراتے ہوئے لوگوں کے شہر ہم نے ویران کر دییے دیکھ لو کہ اب تک ان کے کھنڈرات تمہاری آنکھوں کے سامنے ہیں جو بہت کم آباد ہوئے ۔
حقیقتا وارث و مالک ہم ہی ہیں ۔
ایسے ظالموں کے پاس ہمارے عذاب اچانک آ گئے اور وہ اپنی غفلتوں اور عیاشیوں میں مشغول تھے ۔
کہیں دن کو دوپہر کے آرام کے وقت کہیں رات سونے کے وقت ۔
چنانچہ سورت اعراف کی آیت میں ہے((افامن اھل القری ان یاتیھم باسنا بیاتا و ھم نائمون○افامن اھل القری ان یاتیھم باسنا ضحی وھم یلعبون○))
یعنی لوگ اس سے بے خوف ہو گئے ہیں کہ ان کے سوتے ہوئے راتوں رات اچانک ہمارا عذاب آ جائے؟ ؟
یا انہیں ڈر نہیں کہ دن دیہاڑے دوپہر کو دن کے آرام کے وقت ان پر ہمارے عذاب آ جائیں؟
آیت میں ہے کیا مکاریوں سے ہماری نافرمانیاں کرنے والے اس بات سے نڈر ہو گئے ہیں کہ اللہ انہیں زمین میں دھنسا دے؟
یا ان کے پاس عذاب الہی اس طرح آ جائیں کہ انہیں پتہ بھی نہ چلے یا اللہ انہیں ان کی بے خبری میں آرام کی گھڑیوں میں ہی پکڑ لے کوئی نہیں جو اللہ کو عاجز کر سکے۔
یہ تو رب کی رحمت و رافت ہے جو گنہگار زمین پر چلتے پھرتے ہیں ۔
عذاب الہی کے آ جانے کے بعد تو یہ خود اپنی زبانوں سے اپنے گناہوں کا اقرار کر لیں گے لیکن اس وقت کیا فائدہ ۔
اسی مضمون کو آیت کو سورت الانبیاء میں بیان کیا ہے((کم قصمنا))الخ،
میں کیا ہے۔
ایک حدیث میں آیا ہے کہ
جب تک اللہ تعالی بندوں کے عذر ختم نہیں کر دیتا انہیں عذاب نہیں کرتا۔
عبد الملک سے جب یہ حدیث ان کے شاگردوں نے سنی تو دریافت کیا کہ اس کی صورت کیا ہے؟ ؟؟
تو آپ نے فرمایا((فما کان دعوھم))الخ، پڑھ کر سنائی ۔
پھر فرمایا امتوں سے بھی ان کے رسولوں سے بھی یعنی سب سے قیامت کے دن سوال ہو گا ۔
جیسے فرمان ہے((و یوم ینادیھم فیقول ماذا اجبتم المرسلین))((قصص))۔
یعنی اس دن ندا کی جائے گی اور دریافت کیا جائے گا کہ تم نے رسولوں کو کیا جواب دیا؟ ؟
اس آیت میں امتوں سے سوال کیا جانا بیان ہوا ہے اور آیت میں ہے((یوم یجمع اللہ الرسل فیقول ماذا اجبتم))الخ،
رسولوں کو قیامت کے دن اللہ تعالی جمع کرے گا اور ان سے پوچھے گا کہ تمہیں کیا جواب ملا؟؟
وہ کہیں گے کہ ہمیں کوئی علم نہیں غیب کا علم تو تو ہی جاننے والا ہے ۔
پس امت سے رسولوں کی قبولیت کی بابت اور رسولوں سے تبلیغ کی بابت قیامت کے دن سوال ہو گا ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں تم میں سے ہر ایک با اختیار ہے اور اپنے زیر اختیار لوگوں کی بابت اس سے سوال کیا جانے والا ہے۔
بادشاہ سے اس کی رعایا کا، ہر آدمی سے اس کے اہل و عیال کا،ہر عورت سے اس کے خاوند کے گھر کا،ہر غلام سے اس کے آقا کے مال کا سوال ہو گا ۔
راوی حدیث حضرت طاوئس رح نے اس حدیث کو بیان فرما کر پھر اسی آیت کی تلاوت کی ۔
اس زیادتی کے بغیر یہ حدیث بخاری و مسلم کی نکالی ہوئی بھی ہے((صحیح بخاری کتاب الجمعہ ۔صحیح مسلم کتاب الامارتہ))
اور زیادتی کے ساتھ ابن مردویہ نے نقل کی ہے ۔
قیامت کے دن اعمال نامے رکھے جائیں گے اور سارے اعمال ظاہر ہو جائیں گے ۔
اللہ تعالی ہر شخص کو اس کے اعمال کی خبر دے گا کسی کے عمل کے وقت اللہ غائب نہ تھا ۔
ہر ایک چھوٹے بڑے، کھلے چھپے عمل کی خبر اللہ کی طرف سے دی جائے گی ۔
اللہ ہر شخص کے اعمال سے با خبر ہے اس پر کوئی چیز پوشیدہ نہیں ۔
نہ وہ کسی چیز سے غافل ہے ۔
آنکھوں کی خیانت سے سینوں کی چھپی ہوئی باتوں کا جاننے والا ہے
ہر پتے کے جھڑنے کا اسے علم ہے۔
زمین کی اندھیریوں میں جو
دا نہ ہوتا ہے اسے بھی وہ جانتا ہے ۔
خشک و تر چیز اس کے پاس کھلی کتاب میں موجود ہے ۔
 

Hina Rafique

رکن
شمولیت
اکتوبر 21، 2017
پیغامات
282
ری ایکشن اسکور
18
پوائنٹ
75
وَالْوَزْنُ يَوْمَئِذِ ِۨ الْحَقُّ ۚ فَمَنْ ثَقُلَتْ مَوَازِيْنُهٝ فَاُولٰٓئِكَ هُـمُ الْمُفْلِحُوْنَ○
سورت الاعراف آیت نمبر (8)
ترجمہ ۔
اور واقعی اس دن وزن بھی ہوگا، جس شخص کا پلہ بھاری ہوگا سو ایسے لوگ کامیاب ہوں گے۔○
وَمَنْ خَفَّتْ مَوَازِيْنُهٝ فَاُولٰٓئِكَ الَّـذِيْنَ خَسِرُوٓا اَنْفُسَهُـمْ بِمَا كَانُـوْا بِاٰيَاتِنَا يَظْلِمُوْنَ○
سورت الاعراف آیت نمبر(9)
ترجمہ ۔
اور جس کا پلہ ہلکا ہوگا سو یہ لوگ ہوں گے جنہوں نے اپنا نقصان کیا اس لیے کہ ہماری آیتوں کا انکار کرتے تھے○۔
وَلَقَدْ مَكَّنَّاكُمْ فِى الْاَرْضِ وَجَعَلْنَا لَكُمْ فِيْـهَا مَعَايِشَ ۗ قَلِيْلًا مَّا تَشْكُرُوْنَ○
سورت الاعراف آیت نمبر(10)
ترجمہ ۔
اور ہم نے تمہیں زمین میں جگہ دی اور اس میں تمہاری زندگی کا سامان بنا دیا، تم بہت کم شکر کرتے ہو۔○
تشریح و تفسیر
عنوان ترازو میں اعمال کا تولا جانا۔
قیامت کے دن نیکی بدی، انصاف و عدل کے ساتھ تولی جائے گی، اللہ تعالی کسی پر ظلم نہیں کرے گا ۔
جیسے فرمان ہے سورت الانعام میں((و نضع الموازین بالقسط لیوم القیامتہ))الخ،
قیامت کے دن ہم عدل کا ترازو رکھیں گے، کسی پر ظلم نہیں ہو گا، رائی کے دانے برابر بھی عمل ہو گا تو ہم اسے لے آئیں گے اور ہم حساب لینے میں کافی ہیں اور آیت میں ہے اللہ تعالی ایک ذرے کے برابر ہے بھی ظلم نہیں کرتا، وہ نیکی کو بڑھاتا ہے اپنے پاس سے اجر عظیم عطا فرماتا ہے ۔((سورت الانبیاء ))
سورت قارعہ میں فرمایا جس کی نیکیوں کا پلڑا بھاری ہو گا اسے عیش و نشاط کی زندگی ملی اور جس کا نیکیوں کا پلڑا ہلکا ہو گیا اسکا ٹھکانہ ہاویہ ہے جو بھڑکتی ہوئی آگ کے خزانے کا نام ہے((قارعہ ))
اسی طرح ایک اور آیت میں ہے((فاذا نفخ فی الصور فلا انساب بینھم یومئذ و لا یتساءلون))۔((سورت القارعتہ ))
یعنی جب نفخہ پھونک دیا جائے گا سب رشتے ناطے حسب ونسب ٹوٹ جائیں گے کوئی کسی کا پرسان حال نہ ہو گا ۔
اگر تول میں نیک اعمال بڑھ گئے تو فلاح پا لی ورنہ خسارے کے ساتھ جہنم میں داخل ہوں گے ۔
فصل ۔
کوئی تو کہتا ہے کہ خود اعمال تولے جائیں گے اور کوئی کہتا ہے کہ نامہ اعمال تولے جائیں گے۔
کوئی کہتا ہے کہ خود عمل کرنے والے تولے جائیں ۔
اب تینوں قولوں کو ہوں جمع کرنا بھی ٹھیک ہے کہ ہم کہیں یہ سب صحیح ہیں ۔
کبھی اعمال تولے جائیں گے اور کبھی نامہ اعمال کبھی خود اعمال کرنے والے ۔واللہ اعلم ۔
ان تینوں باتوں کی دلیلیں موجود ہیں ۔
پہلے قول کا مطلب یہ ہے کہ اعمال گویا ایک بے جسم چیز ہیں لیکن قیامت کے دن اللہ تعالی انہیں جسم عطا فرمائے گا جیسے کہ صحیح حدیث میں ہے کہ سورت بقرہ اور سورت آل عمران قیامت کے دن دو سائبانوں کی یا دو ابر کی یا پر پھیلائے ہوئے پرندوں کے جھنڈ کی صورت میں آئیں گی((صحیح مسلم کتاب الصلوۃ المسافرین))
اور حدیث میں ہے کہ قرآن اپنے قاری اور عامل کے پاس ایک نوجوان خوش شکل نورانی چہرے والے کی صورت میں آئے گا یہ دیکھ کر پوچھے گا کہ تو کون ہے؟ ؟
یہ کہے گا کہ میں قرآن ہوں جو تجھے راتوں کی نیند نہیں سونے دیتا تھا اور دنوں میں پانی پینے سے روکتا تھا((صحیح ابن ماجہ کتاب الادب شیخ البانی رح نے اسے صحیح کہا ہے ))
حضرت براء رضی اللہ عنہ والی حدیث میں جس میں قبر کے سوال و جواب کا ذکر ہے اس میں یہ بھی فرمان ہے کہ میں تیرا نیک عمل ہوں((صحیح مسند احمد ))
اور کافر و منافق کے پاس اس کے بر عکس شخص آنے کا بیان ہے یہ تو تھیں پہلے قول کی دلیلیں ۔
دوسرے قول کی دلیلیں یہ ہیں ۔
ایک حدیث میں ہے کہ ایک شخص کے سامنے اس کے گناہوں کے ننانوے دفتر پھیلائے جائیں گے جس میں سے ہر ایک اتنا بڑا ہو گا جتنی دور تک نظر پہنچے۔
پھر ایک پرچہ نیکی کا لایا جائے گا جس پر((لا الہ الا اللہ ))ہو گا ۔
یہ کہے گا یا اللہ اتنا سا پرچہ ان دفتروں کے مقابلے میں کیا حثیت رکھتا ہے؟ ؟؟
اللہ تعالی فرمائے گا تو اس سے بے خطر رہ کہ تجھ پر ظلم کیا جائے ۔
اب وہ پرچہ ان دفتروں کے مقابلے میں نیکی کے پلڑے میں رکھا جائے گا تو وہ سب دفتر سے اونچے ہو جائیں گے اور یہ سب سے زیادہ وزن دار اور بھاری ہو جائیں گے((صحیح ترمذی کتاب الایمان ۔شیخ البانی رح نے اسے صحیح کہا ہے ))
تیسرا قول بھی دلیل رکھتا ہے حدیث میں ہے ایک بہت موٹا تازہ گنہگار انسان اللہ کے سامنے لایا جائے گا لیکن ایک مچھر کے پر کے برابر بھی وزن اللہ کے پاس اس کا نہیں ہو گا پھر آپ نے یہ تلاوت فرمائی((فلا نقیم لھم یوم القیامتہ وزنا))((سورت سورت کہف))
ہم قیامت کے دن ان کے لیے کوئی وزن قائم نہ کریں گے((صحیح بخاری کتاب التفسیر ۔صحیح مسلم کتاب صفات المنافقین))
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی تعریف میں جو حدیثیں ہیں ان میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ان کی پتلی پنڈلیوں پہ نہ جانا اللہ کی قسم اللہ کے نزدیک یہ احد پہاڑ سے بھی
بھی زیادہ وزن دار ہیں ۔
عنوان اللہ تبارک و تعالی کے احسانات ۔
اللہ تعالی اپنے احسانات بیان فرما رہا ہے کہ اس نے زمین اپنے بندوں کے رہنے سہنے کے لیے بنائی ۔
اس میں مضبوط پہاڑ گاڑ دئیے کہ ہلے جلے نہیں اس میں چشمے جاری کر دئیے اس میں منزلیں اور گھر بنانے کی طاقت انسان کو عطا فرمائی اور بہت ساری نفع بخش چیزیں اس کے لیے بنائیں ۔ابر مقرر کر کے اس میں سے پانی برسا کر ان کے لیے کھیت اور باغات پیدا فرمائے ۔
تلاش معاش کے وسائل مہیا فرمائے ۔
تجارت اور کمائی کے طریقے سکھا دئیے ۔
باوجود اس کے کہ اکثر لوگ پوری شکر ادا نہیں کرتے ایک آیت میں فرمایا ہے سورت ابراہیم((و ان تعدوا نعمتہ اللہ ان الانسان لظلوم کفار))
یعنی اگر تم اللہ کی نعمتوں کو گننے بیٹھو تو یہ بھی تمہارے بس کی بات نہیں ۔
لیکن انسان بڑا ہی نا انصاف اور نا شکرا ہے((معایش))تو جمہور کی قرات ہے لیکن عبدالرحمن بن ہرمزا عرج((معایش))پڑھتے ہیں اور ٹھیک وہی ہے جس پر اکثریت ہے اس لئے کہ معایش جمع ہے((معیشتہ))کی۔
اس کا باب((عاش یعیش عیشا))ہے((معیشتہ))کی اصل((معیشت))ہے کسرہ پر ثقلیل تھا نقل کر کے ماقبل کو دیا((معیشتہ))ہو گیا لیکن جمع کے وقت پھر کسرہ آ گیا کیوں کہ اب نہ ثقل رہا پس مفاعل کے وزن پر معایش ہو گیا کیونکہ اس کلمے میں یا اصلی ہے۔
بخلاف مدائن، صحائف،اور بصائر کے جو مدینہ، صحیفہ اور بصیرہ کی جمع ہے باب مدن صحف ابصر سے ان میں چونکہ یا زائد ہے اس لئے ہمزہ دی جاتی ہے اور مفاعل کے وزن پر جمع آتی ہے ۔واللہ اعلم ۔
وَلَقَدْ خَلَقْنَاكُمْ ثُـمَّ صَوَّرْنَاكُمْ ثُـمَّ قُلْنَا لِلْمَلَآئِكَـةِ اسْجُدُوْا لِاٰدَمَۖ فَسَجَدُوٓا اِلَّآ اِبْلِيْسَۖ لَمْ يَكُنْ مِّنَ السَّاجِدِيْنَ ○
سورت الاعراف آیت نمبر(11)۔
ترجمہ۔
اور ہم نے تمہیں پیدا کیا پھر تمہاری صورتیں بنائیں پھر فرشتوں کو حکم دیا کہ آدم کو سجدہ کرو، پھر سوائے ابلیس کے سب نے سجدہ کیا، وہ سجدہ کرنے والوں میں سے نہ تھا○۔
تشریح و تفسیر
عنوان ابلیس اور آدم علیہ السلام کا تذکرہ ۔
انسان کے شرف کو اس طرح بیان فرماتا ہے کہ تمہارے باپ آدم علیہ السلام کو میں نے خود ہی بنایا اور ابلیس کی عداوت کو بیان فرما رہا ہے کہ اس نے تمہارے باپ آدم علیہ السلام کا حسد کیا ۔
ہمارے فرمان سے سب فرشتوں نے سجدہ کیا مگر اس نے نافرمانی کی پس تمہیں چاہیے کہ دشمن کو دشمن سمجھو اور اس کی چالوں اس کے داو پیچ سے ہوشیار رہو اسی واقعہ کا ذکر آیت((و اذ قال ربک للملائکتہ انی خالق بشرا))((سورت ابراہیم))الخ،
میں بھی ہے ۔
حضرت آدم علیہ السلام کو پرودگار نے اپنے ہاتھ سے مٹی سے بنایا انسانی صورت عطا فرمائی پھر اپنے پاس سے اس میں روح پھونکی پھر اپنی شان کی جلالت منوانے کے لئے فرشتوں کو حکم دیا کہ ان کے سامنے جھک جاو سب نے سنتے ہی اطاعت کی لیکن ابلیس نہ مانا اس واقعہ کو سورہ بقرہ تفسیر میں ہم پہلے بیان کر چکے ہیں ۔
اس آیت کا بھی یہی مطلب ہے اور اسی کو امام ابن جریر رح نے بھی پسند فرمایا ہے۔
ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انسان اپنے باپ کی پیٹھ سے پیدا کیا جاتا ہے اور اپنی ماں کے پیٹ میں صورت دیا جاتا ہے اور بعض سلف نے یہ بھی لکھا ہے کہ آیت میں اس سے مراد اولاد آدم علیہ السلام ہے۔
ضحاک رح کا قول ہے کہ آدم علیہ السلام کو پیدا کیا پھر اس کی اولاد کی صورت بنائی ۔
لیکن یہ سب اقوال غور طلب ہیں کیوں کہ آیت میں اس کے بعد ہی فرشتوں کے سجدے کا ذکر ہوا کہ حضرت آدم علیہ السلام تمام انسانوں کے باپ ہیں آیت((و ظللنا علیکم الغمام))((سورت بقرہ))الخ،
اسی کی نظیر ہے یہاں خطاب ان بنی اسرائیل سے ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں موجود تھے اور دراصل ابر کا سایہ کرنا ان کے سابقوں پر ہوا تھا جو حضرت موسی علیہ السلام کے زمانے میں بھی نہ تھے کہ ان پر حملہ لیکن چونکہ ان کے اکابر پر سایہ کرنا احسان تھا کہ ان کو بھی اس کا شکر گزار ہونا چاہیے تھا اس لئے انہی کو خطاب کر کے اپنی وہ نعمت یاد دلائی ۔
یہاں یہ بات واضح ہے کہ اس کے برعکس آیت((ولقد خلقنا الانسان من سلالتہ من طین))((سورہ مومنون))الخ،
ہے کہ مراد آدم علیہ السلام ہیں کیوں کہ صرف وہی مٹی سے بنائے گئے ان کی کل اولاد نطفے سے پیدا ہوئی اور یہی صحیح ہے کیوں کہ مراد جنس انسان ہے نہ کہ معین۔واللہ اعلم ۔
قَالَ مَا مَنَعَكَ اَلَّا تَسْجُدَ اِذْ اَمَرْتُكَ ۖ قَالَ اَنَا خَيْـرٌ مِّنْهُ خَلَقْتَنِىْ مِنْ نَّارٍ وَّخَلَقْتَهٝ مِنْ طِيْنٍ○
سورت الاعراف آیت نمبر (12)۔
ترجمہ ۔
فرمایا تجھے سجدہ کرنے سے کس چیز نے منع کیا ہے جب کہ میں نے تجھے حکم دیا، کہا میں اس سے بہتر ہوں کہ تو نے مجھے آگ سے بنایا اور اسے مٹی سے بنایا ہے○۔
تشریح و تفسیر
عنوان سجدہ نہ کرنے کا سبب۔
((الا تسجد))لا بقول نحویوں کے زائد ہے اور بعض کے نزدیک انکار کی تاکید کے لیے ہے۔
جیسے شاعر کے قول کے مطابق((و ما ان ریت ولا سمعت بمثلہ))میں((ما))نافیہ پر ان نفی کے لیے صرف تاکید داخل ہوا ہے اسی طرح یہاں بھی ہے کہ پہلے((لم یکن من السجدین))ہے پھر((ما منعک الا تسجد))ہے امام ابن جریر رح نے ان دونوں قولوں کو بیان کر کے ان کا رد کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ((منعک))ایک دوسرے فعل مقدر کا متضمن ہے تقدیر عبارت یوں ہوئی((ما احرجک والزمک واضطرک الا تسجد اذ امرتک))یعنی تجھے کس چیز نے بے بس اور محتاج و ملزم کر دیا کہ تو سجدہ نہ کرے؟؟؟
یہ قول بہت قوی ہے اور بہت عمدہ ہے۔واللہ اعلم ۔
ابلیس نے جو وجہ بتائی سچ تو یہ بے کہ وہ عذر گناہ بد تر از گناہ کی مصداق ہے ۔
گویا وہ اطاعت سے اس لئے باز رہتا ہے کہ اس کے نزدیک فاضل کو مفضول کے سامنے سجدہ کیا جانے کا حکم ہو رہا ہے؟
تو وہ ملعون کہہ رہا ہے کہ میں اس دے بہتر ہوں پھر مجھے اس کے سامنے جھکنے کا حکم ہو رہا ہے؟
پھر اپنے بہترہونے کے ثبوت میں کہتا ہے کہ میں آگ سے بنا یہ مٹی سے۔
ملعون اصل عنصر کو دیکھتا ہے اور اس فضیلت کو بھول جاتا ہے کہ مٹی والے کو اللہ تعالی نے اپنے ہاتھوں سے بنایا اور اپنی روح پھونکی ۔
پس اس طرح اس کے فرمان لہی کے مقابلے میں قیاس فاسد سے کام لیا اور سجدے سے تک گیا اللہ کی رحمتوں سے دور کر دیا گیا اور تمام نعمتوں سےمحروم ہو گیا ۔اس ملعون نے اپنے قیاس اور دعوے میں بھی خطا کی
مٹی کے اوصاف ہیں نرم ہونا حامل شفقت جلا دینا بے چینی پھیلانا پھونک دینا اسی وجہ سے ابلیس اپنے گناہ پر اڑ گیا ۔

اور حضرت آدم علیہ السلام نے اپنے گناہ کا اعتراف کیا رب سے معافی چاہی بخشش کے طالب ہوئے ۔
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا فرشتے نور سے پیدا کیے گئےہیں ابلیس آگ کے شعلے سے انسان اور اس چیز جو تمہارے سامنے بیان کر دی گئی ہے یعنی مٹی سے ۔
((صحیح مسلم ))۔
قَالَ فَاهْبِطْ مِنْـهَا فَمَا يَكُـوْنُ لَكَ اَنْ تَتَكَـبَّـرَ فِيْـهَا فَاخْرُجْ اِنَّكَ مِنَ الصَّاغِرِيْنَ ○(13)
کہا تو یہاں سے اتر جا، تجھے یہ لائق نہیں کہ یہاں تکبر کرے، پس نکل جا، بے شک تو ذلیلوں میں سے ہے○۔
قَالَ اَنْظِرْنِـىٓ اِلٰى يَوْمِ يُبْعَثُوْنَ○ (14)
کہا مجھے اس دن تک مہلت دے جس دن لوگ قبروں سے اٹھائے جائیں گے○۔
قَالَ اِنَّكَ مِنَ الْمُنْظَرِيْنَ ○(15)
فرمایا تجھے مہلت دی گئی ہے○
تشریح و تفسیر
عنوان ابلیس کی بات ماننے کا انجام
ابلیس کو اسی وقت حکم ملا کہ میری نافرمانی اور میری اطاعت سے رکنے کے باعث تو یہاں جنت سے نکل جا تو جنت میں نہیں رہ سکتا،
یہاں سے اتر جا کیوں کہ یہ جگہ تکبر کرنے کی نہیں بعض نے کہا ہے((فیھا))کی ضمیر کا مرجع منزلت ہے یعنی جن ملکوت اعلی میں تو ہے اس مرتبے میں کوئی سرکش رہ نہیں سکتا ۔
جا یہاں سے چلا جا تو اپنی سرکشیکے بدلے ذلیل و خوار ہستیوں میں شامل کر دیا گیا ۔
تیری ضد اور ہٹ دھرمی کی یہی سزا ہے ۔
اب لعین گھبرایا اور اللہ سے مہلت چاہنے لگا کہ مجھے قیامت تک ڈھیل دی جائے ۔
چونکہ جناب باری تعالی جلا جلالہ کی اس میں مصلحتیں اور حکمتیں تھیں بھلے بروں کو دنیا میں ظاہر کرنا تھا اور حجت پوری کرنا تھی اس ملعون کی اس درخواست کو منظور فرما لیا ۔
اس حاکم پر کسی کی حکومت نہیں،
اسکے سامنے بولنے کی کسی کو مجال نہیں ۔
کوئی نہیں جو اس کے ارادے کو ٹال سکے، کوئی نہیں جو اس کے حکم کو بدل سکے ۔
وہ سریع الحساب
یعنی جلد حساب لینے والا ہے ۔
 

Hina Rafique

رکن
شمولیت
اکتوبر 21، 2017
پیغامات
282
ری ایکشن اسکور
18
پوائنٹ
75
قَالَ فَبِمَآ اَغْوَيْتَنِىْ لَاَقْعُدَنَّ لَـهُـمْ صِرَاطَكَ الْمُسْتَقِيْـمَ ○
سورت الاعراف آیت نمبر(16)۔
ترجمہ ۔
کہا جیسا تو نے مجھے گمراہ کیا ہے میں بھی ضرور ان کی تاک میں تیری سیدھی راہ پر بیٹھوں گا○۔
ثُـمَّ لَاٰتِيَنَّـهُـمْ مِّنْ بَيْنِ اَيْدِيْـهِـمْ وَمِنْ خَلْفِهِـمْ وَعَنْ اَيْمَانِـهِـمْ وَعَنْ شَـمَآئِلِهِـمْ ۖ وَلَا تَجِدُ اَكْثَرَهُـمْ شَاكِـرِيْنَ ○
سورت الاعراف آیت نمبر(17)۔
ترجمہ ۔
پھر ان کے پاس ان کے آگے ان کے پیچھے ان کے دائیں اور ان کے بائیں سے آؤں گا، اور تو اکثر کو ان میں سے شکرگزار نہیں پائے گا○۔
قَالَ اخْرُجْ مِنْـهَا مَذْءُوْمًا مَّدْحُوْرًا ۖ لَّمَنْ تَبِعَكَ مِنْـهُـمْ لَاَمْلَاَنَّ جَهَنَّـمَ مِنْكُمْ اَجْـمَعِيْنَ ○
سورت الاعراف آیت نمبر(18)۔
ترجمہ ۔
فرمایا یہاں سے ذلیل و خوار ہو کر نکل جا، جو شخص ان میں سے تیرا کہا مانے گا میں تم سب کو جہنم میں بھر دوں گا○۔
تشریح و تفسیر
عنوان ابلیس کیسے حملے کرتا ہے؟
ابلیس نے جب عہد الہی لے لیا تو اب بڑھ بڑھ کر باتیں بنانے لگا کہ جیسے تونے میری راہ ماری ہے میں بھی اس کی اولاد کی راہ ماروں گا۔ اور حق و نجات کے سیدھے راستے سے انہیں روکوں گا تیری توحید سے بہکا کر تیری عبادت سے سب کو ہٹا دوں گا ۔
بعض نحوی کہتے ہیں کہ((فبما))میں باء قسم کے لیے ہے یعنی مجھے قسم ہے میں اپنی بربادی کے مقابلے میں اس کی اولاد کو برباد کر کے رہوں گا ۔
عون بن عبداللہ کہتے ہیں میں مکہ کے راستے میں بیٹھ جاوں گا لیکن صحیح یہی ہے کہ نیکی کے ہر راستے پر ۔
چنانچہ مسند احمد کی مرفوع حدیث میں ہے کہ شیطان ابن آدم کی تمام راہوں میں بٹھتا ہے وہ اسلام کی راہ میں رکاوٹ بننے کے لیے اسلام لانے والے کے دل میں وسوسے پیدا کرتا ہے کہ تو آپنے اور اپنے باپ دادا کے دین کو کیوں چھوڑتا ہے ۔
اللہ گواہ اگر بہتری منظور ہوتی ہے تو وہ اس کی باتوں میں نہیں آتا اور اسلام قبول کر لیتا ہے ۔
ہجرت کی راہ سے روکنے کے لئے آڑے آتا ہے اور اسے کہتا ہے کہ اپنے وطن کو کیوں چھوڑتا ہے؟ ؟
اپنی زمین و آسمان سے کیوں الگ ہوتا ہے؟ ؟
غربت و بے کسی کی زندگی اختیار کرتا ہے؟ ؟
لیکن مسلمان اس کے بہکاوے میں نہیں آتا اور ہجرت کر گزرتا ہے ۔
پھر جہاد کی زندگی اختیار کرتا ہے؟
پھر جہاد روک کے لیے آتا ہے اور جہاد مال سے بے اور جان سے۔
اس سے کہتا ہے تو کیوں جہاد میں جاتا ہے؟
وہاں قتل کر دیا جائے گا، تیری بیوی دوسرے کے نکاح میں چلی جائے گی، تیرا مال اوروں کے قبضے میں چلا جائے گا لیکن مسلمان اسکی نہیں مانتا اور جہاد میں قدم رکھدیتا ہے پس ایسے لوگوں کا اللہ پر حق ہے کہ وہ انہیں جنت میں لے جائے گی گو وہ جانور سے گر کر مر جائیں((حسن: مسند احمد ۔نسائی کتاب الجہاد ۔حافظ ابن حجر اور حافظ زبیر علی زئی نے اسے حسن کہا ہے ))
اس دوسری آیت کی تفسیر میں ابن عباس رضی اللہ عنہ کا قول ہے کہ آگے سے آنے کا مطلب آخرت کے معاملے میں شک و شبہ میں پیدا کرنا
ہے ۔
دودرے جملے کا مطلب یہ ہے کہ دنیا کی رغبتیں دلاوں گا ۔
دائیں طرف سے آنا امر دین کو مشکوک کرنا ہے بائیں طرف سے آنا گناہوں کو لذیذ بنانا ہے۔
شیطانوں کا یہی کام ہے ۔
ایک اور روایت میں ہے کہ شیطان کہتا ہے میں ان کی دنیا و آخرت ،نیکیاں بھلائیاں سب تباہ کر دینے کی کوشش میں رہوں گا اور برائیوں کی طرف ان کی رہبری کروں گا وہ سامنے سے آ کر کہتا ہے کہ جنت دوزخ قیامت کوئی چیز نہیں ۔
وہ پشت کی جانب سے آ کر کہتا ہے دیکھ دنیا کس قدر زینت دار ہے وہ دائیں سے آ کر کہتا ہے خبردار نیکی کی راہ بہت کھٹن ہے ۔
وہ بائیں جانب سے آ کر کہتا ہے دیکھ گناہ کس قدر لذیذ ہیں پس ہر طرف سے آ کر بہکاتا ہے ہاں یہ اللہ کا کرم ہے کہ وہ اوپر کی طرف سے نہیں آ سکتا ۔
اللہ کے اور بندے کے درمیان حائل ہو کر رحمت الہی کی روک نہیں بن سکتا ۔
پس سامنے یعنی دنیا کے پیچھے یعنی آخرت اور دائیں یعنی اس طرح کہ دیکھیں اور بائیں اس طرح نہ دیکھ سکیں، یہ سب اقوال ٹھیک ہیں ۔
امام ابن جریر رح فرماتے ہیں مطلب یہ ہے کہ تمام خیر کے کاموں سے روکتا ہے اور شر کے تمام کام سمجھا جاتا ہے، اوپر کی سمت کا نام آیت میں نہیں وہ سمت رحمت رب کے آنے کے لیے خالی ہے وہاں شیطان کی روک نہیں ۔
وہ کہتا ہے کہ اکثر کو تو آخر کرنے والا نہیں پائے گا یعنی موحد۔
ابلیس کو یہ وہم ہی وہم تھا لیکن مطابق پاکستان واقعہ جیسے فرمان ہے سورت سبا((ولقد صدق علیھم ابلیس ظنہ))الخ،
یعنی ابلیس نے اپنا گمان پورا کر دکھایا سوائے مومنوں کی پاکباز جماعت کے اور لوگ اس کے مطیع بن گئے حالانکہ شیطان کی کچھ حکومت تو ان پر نہ تھی مگر ہاں ہم صحیح طور پر ایمان رکھنے والوں کو اور شکی لوگوں کو الگ الگ کر دینا چاہتے تھے تیرا رب ہر چیز پر حافظ ہے۔
عنوانابلیس کے تمام اطاعت گزار جہنم میں((18))
اس پر اللہ کی لعنت اس پر نازل ہوئی اور نکال دیا گیا ۔
اور فرمایا گیا ہے کہ تو اور تیرے ماننے والے سب کے سب جہنم کا ایندھن ہیں اور جیسے اور آیت میں ہے((فان جہنم جزاوکم))الخ،
تمہاری سب کی سزا جہنم ہے الخ تو جس طرح چاہ انہیں بہکا لیکن اس سے مایوس ہو جا کہ میرے خاص بندے تیرے وسوسوں میں آ جائیں ان کا وکیل میں آپ ہوں ۔
وَيَآ اٰدَمُ اسْكُنْ اَنْتَ وَزَوْجُكَ الْجَنَّةَ فَكُلَا مِنْ حَيْثُ شِئْتُمَا وَلَا تَقْرَبَا هٰذِهِ الشَّجَرَةَ فَـتَكُـوْنَا مِنَ الظَّالِمِيْنَ ○
سورت الاعراف آیت نمبر(19)۔
ترجمہ ۔
اور اے آدم! تو اور تیری عورت جنت میں رہو پھر جہاں سے چاہو کھاؤ اور اس درخت کے پاس نہ جاؤ ورنہ بے انصافوں میں سے ہو جاؤ گے○۔
فَوَسْوَسَ لَـهُمَا الشَّيْطَانُ لِيُبْدِىَ لَـهُمَا مَا وُوْرِىَ عَنْـهُمَا مِنْ سَوْاٰتِـهِمَا وَقَالَ مَا نَـهَاكُمَا رَبُّكُمَا عَنْ هٰذِهِ الشَّجَرَةِ اِلَّآ اَنْ تَكُـوْنَا مَلَكَيْنِ اَوْ تَكُـوْنَا مِنَ الْخَالِـدِيْنَ○ سورت الاعراف آیت نمبر(20)
ترجمہ ۔
پھر انہیں شیطان نے بہکایا تاکہ ان کی شرم گاہیں جو ایک دوسرے سے چھپائی گئی تھیں ان کے سامنے کھول دے، اور کہا تمہیں تمہارے رب نے اس درخت سے نہیں روکا مگر اس لیے کہ کہیں تم فرشتے ہو جاؤ یا ہمیشہ رہنے والے ہو جاؤ○۔
وَقَاسَـمَهُمَآ اِنِّـىْ لَكُمَا لَمِنَ النَّاصِحِيْنَ ○
سورت الاعراف آیت نمبر(21)
ترجمہ ۔
اور ان کے روبرو قسم کھائی کہ البتہ میں تمہارا خیرا خواہ ہوں○۔
تشریح و تفسیر
عنوان ابلیس نے آدم و حوا علیہم السلام کو بہکا دیا۔
ابلیس کو نکال کر حضرت آدم اور حوا علیہم السلام کو جنت میں پہنچا دیا گیا سوائے ایک درخت کے انہیں ساری جنت کی چیزیں کھانے کی اجازت دے دی گئی ۔
جس کی تفصیل پہلے سورت بقرہ میں بیان کر دی گئی تھی ۔
شیطان کوئی ان سے بڑا ہی حسد محسوس ہوا اور ان کی نعمتوں کو دیکھ کر لعین جل بھن گیا اور ٹھان لی کہ جس طرح سے ہو سکے انہیں بہکا کر اللہ کے خلاف کرا دوں۔
چنانچہ جھوٹ افترا باندھ کر ان سے کہنے لگا کہ دیکھو یہ درخت وہ ہے جس کے کھانے سے تم فرشتے بن جاو گے اور ہمیشہ کی زندگی اسی جنت میں پاو گے ۔
جیسے اور آیت میں ہے کہ ابلیس نے کہا میں تمہیں ایک درخت کا پتہ دیتا ہوں جس سے تمہیں بقا اور ہمیشگی والا ملک مل جائے گا یہاں ہے کہ ان سے کہا تمہیں اس درخت سے روکا گیا ہے کہ کہیں تم فرشتے نہ بن جاو جیسے فرمان ہے((یبین اللہ لکم ان تضلوا))مطلب یہ ہے کہ((لئلا تضلوا))اور آیت میں ہے((ان تمید بکم))یہاں بھی یہی مطلب ہے((ملکین ))کی دوسری قرات((ملکین ))بھی ہے لیکن جمہور کی قرات لام کے زبر کے ساتھ ہے۔
پھر اپنا اعتبار جمانے کے لیے قسمیں کھانے لگا کہ دیکھو میری بات کو سچ مانو میں تمہارا خیر خواہ ہوں تم سے پہلے سے ہی یہاں رہتا ہوں ہر ایک چیز کے خواص سے واقف ہوں تم اسے کھا لو بس پھر یہیں رہو گے بلکہ فرشتے بن جاو گے ۔
پھر اس قسم کی وجہ سے اس خبیث کے بہکاوے میں حضرت آدم علیہ السلام آ گئے ۔
سچ ہے کہ مومن اس وقت دھوکہ کھاجاتا ہے جب کوئی ناپاک انسان اللہ کو بیچ میں لے آتا ہے ۔
چنانچہ سلف کے قول کے مطابق ہم اللہ کے نام کے بعد اپنے ہتھیار ڈال دیا کرتے تھے ۔
فَدَلَّاهُمَا بِغُرُوْرٍ ۚ فَلَمَّا ذَاقَا الشَّجَرَةَ بَدَتْ لَـهُمَا سَوْاٰتُـهُمَا وَطَفِقَا يَخْصِفَانِ عَلَيْـهِمَا مِنْ وَّرَقِ الْجَنَّـةِ ۖ وَنَادَاهُمَا رَبُّـهُمَآ اَلَمْ اَنْـهَكُمَا عَنْ تِلْكُمَا الشَّجَرَةِ وَاَقُلْ لَّكُمَآ اِنَّ الشَّيْطَانَ لَكُمَا عَدُوٌّ مُّبِيْنٌ○
سورت اعراف آیت نمبر(22)۔
ترجمہ۔
پھر انہیں دھوکہ سے مائل کر لیا، پھر جب ان دونوں نے درخت کو چکھا تو ان پر ان کی شرم گاہیں کھل گئیں اور اپنے اوپر بہشت کے پتے جوڑنے لگے، اور انہیں ان کے رب نے پکارا کیا میں نے تمہیں اس درخت سے منع نہیں کیا تھا اور تمہیں کہہ نہ دیا تھا کہ شیطان تمہارا کھلا دشمن ہے○۔
قَالَا رَبَّنَا ظَلَمْنَـآ اَنْفُسَنَاۜ وَاِنْ لَّمْ تَغْفِرْ لَنَا وَتَـرْحَـمْنَا لَنَكُـوْنَنَّ مِنَ الْخَاسِرِيْنَ ○
سورت الاعراف آیت نمبر (23)
ترجمہ ۔
ان دونوں نے کہا اے رب! ہمارے ہم نے اپنی جانوں پر ظلم کیا، اور اگر تو ہمیں نہ بخشے گا اور ہم پر رحم نہ کرے گا تو ہم ضرور تباہ ہوجائیں گے○۔
تشریح و تفسیر
عنوانغلطی کے بعد فورا توبہ۔
ابی بن کعب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت آدم علیہ السلام کا قد مثل کھجور کے بہت لمبا تھا اور سر پر بہت لمبے لمبے بال تھے، درخت کھانے سے پہلے انہیں اپنی شرم گاہ کا علم نہیں تھا نہ ہی کبھی ان کی نظر پڑی تھی ۔
لیکن اس خطا کے ہوتے ہی وہ ظاہر ہو گئی، بھاگنے لگے تو بال ایک درخت میں الجھ گئے کہنے لگے اے درخت مجھے چھوڑ دے درخت سے جواب ملا کہ نا ممکن ہے، اسی وقت اللہ تعالی کی طرف سے وحی آئی کہ اے آدم علیہ السلام مجھ سے بھاگ رہا ہے؟ ؟؟
کہنے لگے یا اللہ شرمندگی ہے شرمسار ہوں ۔
گو یہ روایت مرفوع بھی مروی ہے لیکن زبان صحیح موقوف ہونا ہی ہے ۔
ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں، درخت کا پھل کھا لیا اور چھپانے کی چیز ظاہر ہو گئی جنت کے پتوں سے چھپانے لگے۔
ایک کو ایک پر چپکانے

لگے،حضرت آدم علیہ السلام مارے غیرت کے ادھر ادھر بھاگنے لگے لیکن ایک درخت کے ساتھ الجھ رہ گئے اللہ اللہ تعالی نے ندا دی کہ مجھ سے بھاگتا ہے؟ ؟
آپ نے فرمایا نہیں یا اللہ مگر میں شرماتا ہوں ۔
جناب باری تعالی نے فرمایا آدم علیہ السلام جو کچھ میں نے تجھے دے رکھا تھا کیا وہ تجھے کافی نہ تھا؟ ؟
آپ نے جواب دیا بیشک کافی تھا لیکن یا اللہ مجھے علم نہ تھا کہ کوئی تیرا نام لے کر تیری قسم کھا کر جھوٹ کہے گا ۔
اللہ تعالی نے فرمایا اب تو میری نا فرمانی کا خمیازہ بھگتو تجھے میری نا فرمانی کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا تکلیفیں اٹھانا ہوں گی۔
چنانچہ جنت سے دونوں کو اتار دیا گیا، اب اس کشادگی کے بعد کی یہ تنگی ان پر بہت بھاری اور مشکل گزر رہی تھی کھانے پینے کو ترس گئے پھر انہیں لوہے کی صنعت سکھائی گئی، کھیتی باڑی سکھائی گئی، آپ نے زمین صاف کی دانے بوئے وہ آگے بڑھے، بالیں نکلیں دانے پکے توڑے گئے پھر پیسے گئے آٹا گوندھا پھر روٹی تیار ہوئی، پھر کھائی جب جا کر بھوک کی تکلیف سے نجات پائی ۔
تین کے پتوں سے اپنا آگاہ پیچھا چھپاتے پھرتے تھے جو مثل کپڑے کے تھے وہ نورانی پردے جن سے ایک دوسرے سے یہ اعضاء چھپے ہوئے تھے، نافرمانی ہوتے ہی ہٹ گئے اور وہ نظر آنے لگے۔
حضرت آدم علیہ السلام اسی وقت اللہ کی طرف رغبت کرنے لگے توبہ و استغفار پر جھک پڑے بخلاف ابلیس کے کہ اس نے سزا کا نام سنتے ہی ابلیسی ہھتیار یعنی ہمیشہ کی زندگی وغیرہ طلب کی۔
اللہ نے دونوں کی دعا سنی اور دونوں کی طلب عطا ہوئی ۔
مروی ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام نے جب درخت کھا لیا اسی وقت اللہ تعالی نے فرمایا اس درخت سے میں نے تمہیں روک رکھا تھا پھر تم نے اسے کیوں کھایا؟ ؟؟
کہنے لگے حواء نے مجھے رغبت دلائی ۔
اللہ تعالی نے فرمایا ان کی سزا یہ ہے کہ حمل کی حالت میں بھی تکلیف میں رہیں گی بچہ ہونے کے وقت بھی تکلیف اٹھائیں گی۔
یہ سنتے ہی حضرت حواء علیہ السلام نے گریہ و زاری رونا پیٹنا شروع کر دیا حکم ہوا کہ یہی تجھ پر اور تیری اولاد پر لکھ دیا گیا ہے ۔
حضرت آدم علیہ السلام نے کہا جناب باری تعالی میں عرض کی اور اللہ نے انہیں دعا سکھائی انہوں نے دعا کی جو قبول ہوئی ۔
قصور معاف کر دیا گیا ۔فالحمد للہ۔
 

Hina Rafique

رکن
شمولیت
اکتوبر 21، 2017
پیغامات
282
ری ایکشن اسکور
18
پوائنٹ
75
قَالَ اهْبِطُوْا بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ ۚ وَلَكُمْ فِى الْاَرْضِ مُسْتَقَرٌّ وَّمَتَاعٌ اِلٰى حِيْنٍ ○
سورت الاعراف آیت نمبر(24)۔
ترجمہ ۔
فرمایا یہاں سے اترو تم ایک دوسرے کے دشمن ہو گے، اور تمہارے لیے زمین میں ٹھکانا ہے اور ایک وقت تک نفع اٹھانا ہے○۔
قَالَ فِيْـهَا تَحْيَوْنَ وَفِيْـهَا تَمُوْتُوْنَ وَمِنْـهَا تُخْرَجُوْنَ ○
سورت الاعراف آیت نمبر(25)۔
ترجمہ ۔
فرمایا تم اسی میں زندہ رہو گے اور اسی میں مرو گے اور اسی سے نکالے جاؤ گے○
تشریح و تفسیر
عنوانآدم و حوا علیہم السلام زمین پر ۔
بعض کہتے ہیں یہ خطاب حضرت آدم و حضرت حواء علیہم السلام، شیطان ملعون اور سانپ کو ہے۔
بعض سانپ کا ذکر نہیں کرتے ۔
یہ ظاہر ہے کہ اصل مقصد حضرت آدم علیہ السلام اور شیطان لعین ہے۔
جیسے سورہ طہ میں ہے((اھبطا منھا جمیعا))حواء حضرت آدم علیہ السلام کے تابع تھیں اور سانپ کا ذکر اگر صحت تک پہنچ جائے تو وہ ابلیس کے حکم میں آ گیا ۔
مفسرین نے بہت سے قول ذکر کئے ہیں کہ آدم علیہ السلام کہاں اترے ۔
شیطان کہاں پھینکا گیا وغیرہ ۔
لیکن دراصل ان کا مخرج بنی اسرائیل کی روائیتں ہیں اور ان کی صحت کا علم اللہ ہی کو ہے اور یہ بھی ظاہر ہے کہ اس کی جگہ جان لینے سے کوئی فائدہ نہیں اگر ہوتا تو ان کا بیان قرآن یا حدیث میں ضرور ہوتا ۔
کہہ دیا گیا کہ اب تمہارے قرار یعنی رہنے کی جگہ زمین میں ہے وہیں تم اپنی مقررہ زندگی کے دن پورے کرو گے جیسے کہ ہماری پہلی کتاب لوح محفوظ میں اول سے لکھا ہوا موجود ہے ۔
اسی لئے زمین پر جیو گے اور مرنے کے بعد بھی اسی دعا میں دبائے جاو گے اور پھر حشر و نشر بھی اسی میں ہو گا ۔
جیسے فرمان ہے((منھا خلقنکم و فیھا نعیدکم و منھا نخرجکم تارتہ اخری))((سورہ طہ))
پس اولاد آدم علیہ السلام کے جینے کی جگہ بھی یہی ہے اور مرنے کی بھی یہی، قبریں بھی اسی میں اور قیامت کے دن اٹھیں گے بھی اسی سے پھر بدلہ دئیے جاو گے ۔
يَا بَنِىٓ اٰدَمَ قَدْ اَنْزَلْنَا عَلَيْكُمْ لِبَاسًا يُّوَارِىْ سَوْاٰتِكُمْ وَرِيْشًا ۖ وَلِبَاسُ التَّقْوٰى ذٰلِكَ خَيْـرٌ ۚ ذٰلِكَ مِنْ اٰيَاتِ اللّـٰهِ لَعَلَّهُـمْ يَذَّكَّرُوْنَ ○
سورت الاعراف آیت نمبر(26)
ترجمہ ۔
اے آدم کی اولاد ہم نے تم پر پوشاک اتاری جو تمہاری شرم گاہیں ڈھانکتی ہے اور آرائش کے کپڑے بھی اتارے، اور پرہیزگاری کا لباس وہ سب سے بہتر ہے، یہ اللہ کی قدرت کی نشانیاں ہیں تاکہ وہ نصیحت حاصل کریں○۔
تشریح و تفسیر
عنوانتقوی کا لباس سب سے بہتر ہے ۔
یہاں اللہ تعالی اپنا احسان یاد دلا رہا ہے کہ اس نے لباس اتارا اور ریش بھی۔
لباس تقوی تو وہ ہے جس سے انسان اپنا ستر چھپائے اور ریش وہ ہے جو بطور زینت، رونق اور جمال کے پہنا جائے ۔
اول تو ضروریات زندگی سے ہے اور ثانی زیادتی ہے۔
((لباس تقوی ))سین پیش کے ساتھ کے دوسری قرات((لباس تقوی ))سین زبر سے بھی ہے ۔
عکرمہ رح فرماتے ہیں کہ اس سے مراد قیامت کے دن پرہیزگاروں کو جو لباس دیا جائے گا وہ ہے۔
ابن جریج کا قول ہے "لباس تقوی "ایمان ہے
ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ عمل صالح ہے اور اسی سے ہنس مکھ ہوتا ہے ۔
عروہ رح کہتے ہیں مراد اس سے مشیت ربانی ہے ۔
عبدالرحمن رح کہتے ہیں اللہ کے ڈر سے اپنی ستر پوشی کرنا لباس تقوی ہے۔
یہ کل اقوال آپس میں ایک دوسرے کے خلاف نہیں بلکہ مراد یہ سب کچھ ہے اور یہ سب چیزیں ملی جلی اور آپس میں ایک دوسرے کے قریب قریب ملتی جلتی ہیں ۔
كَمَآ اَخْرَجَ اَبَوَيْكُمْ مِّنَ الْجَنَّـةِ يَنْزِعُ عَنْـهُمَا لِبَاسَهُمَا لِيُـرِيَـهُمَا سَوْاٰتِـهِمَا ۗ اِنَّهٝ يَرَاكُمْ هُوَ وَقَبِيْلُـهٝ مِنْ حَيْثُ لَا تَـرَوْنَـهُـمْ ۗ اِنَّا جَعَلْنَا الشَّيَاطِيْنَ اَوْلِيَآءَ لِلَّـذِيْنَ لَا يُؤْمِنُـوْنَ ○
سورت الاعراف آیت نمبر(27)
ترجمہ ۔
اے آدم کی اولاد تمہیں شیطان نہ بہکائے جیسا کہ اس نے تمہارے ماں باپ کو بہشت سے نکال دیا ان سے ان کے کپڑے اتروائے تاکہ تمہیں ان کی شرمگاہیں دکھائے، وہ اور اس کی قوم تمہیں دیکھتی ہے جہاں سے تم انہیں نہیں دیکھتے، ہم نے شیطانوں کو ان لوگوں کا دوست بنادیا ہے جو ایمان نہیں لاتے○
تشریح و تفسیر
عنوانشیطان بے ایمانوں کے ساتھی۔
تمام انسانوں کو اللہ تعالی خبر دار اور ہوشیار کر رہا ہے کہ دیکھو ابلیس کی مکاریوں اس کی چالوں سے بچتے رہنا وہ تمہارا بڑا دشمن ہے دیکھو اسی نے تمہارے باپ آدم علیہ السلام کو دار سرور یعنی جنت سے نکالا اور اس مصیبت کے قید خانے میں ڈالا ان کی پردہ داری کی ۔
پس تمہیں اسکے ہھتکنڈوں سے بچنا چاہیے ۔
جیسے فرمان ہے((افتتخذونہ و ذریتہ اولیاء من دونی و ھم لکم عدو بئس للظالمین بدلا))((سورہ کہف))
یعنی تمام تم ابلیس اور اس کی قوم کو اپنا دوست بناتے ہو؟
مجھے چھوڑ کر؟ ؟
حالانکہ وہ تو تمہارا کھلا دشمن ہے ظالموں کا بدلہ بہت ہی برا ہے۔
 

Hina Rafique

رکن
شمولیت
اکتوبر 21، 2017
پیغامات
282
ری ایکشن اسکور
18
پوائنٹ
75
وَاِذَا فَعَلُوْا فَاحِشَةً قَالُوْا وَجَدْنَا عَلَيْـهَآ اٰبَآءَنَا وَاللّـٰهُ اَمَرَنَا بِـهَا ۗ قُلْ اِنَّ اللّـٰهَ لَا يَاْمُرُ بِالْفَحْشَآءِ ۖ اَتَقُوْلُوْنَ عَلَى اللّـٰهِ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ○
سورت الاعراف آیت نمبر (28)۔
ترجمہ ۔
اور جب کوئی برا کام کرتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم نے اسی طرح اپنے باپ دادا کو کرتے دیکھا ہے اور اللہ نے بھی ہمیں یہ حکم دیا ہے، کہہ دو بے شک اللہ بے حیائی کا حکم نہیں کرتا، اللہ کے ذمہ وہ باتیں کیوں لگاتے ہو جو تمہیں معلوم نہیں○۔
قُلْ اَمَرَ رَبِّىْ بِالْقِسْطِ ۖ وَاَقِيْمُوْا وُجُوْهَكُمْ عِنْدَ كُلِّ مَسْجِدٍ وَّادْعُوْهُ مُخْلِصِيْنَ لَـهُ الـدِّيْنَ ۚ كَمَا بَدَاَكُمْ تَعُوْدُوْنَ ○
سورت الاعراف آیت نمبر(29)۔
ترجمہ ۔
کہہ دو میرے رب نے انصاف کا حکم دیا ہے، اور ہر نماز کے وقت اپنے منہ سیدھے کرو اور اس کے خالص فرمانبردار ہو کر اسے پکارو، جس طرح تمہیں پہلے پیدا کیا ہے اسی طرح دوبارہ پیدا ہو گے○۔
فَرِيْقًا هَدٰى وَفَرِيْقًا حَقَّ عَلَيْـهِـمُ الضَّلَالَـةُ ۗ اِنَّـهُـمُ اتَّخَذُوا الشَّيَاطِيْنَ اَوْلِيَآءَ مِنْ دُوْنِ اللّـٰهِ وَيَحْسَبُوْنَ اَنَّـهُـمْ مُّهْتَدُوْنَ ○
سورت الاعراف آیت نمبر(30)۔
ترجمہ ۔
ایک جماعت کو ہدایت دی اور ایک جماعت پر گمراہی ثابت ہو چکی، انہوں نے اللہ کو چھوڑ کر شیطانوں کو اپنا دوست بنایا ہے اور خیال کرتے ہیں کہ وہ ہدایت پر ہیں○ ۔
تشریح و تفسیر
عنوانبرہنہ کعبہ کا طواف کرنا۔۔۔۔!!
مشرکین ننگے ہو کر بیت اللہ کا طواف کرتے تھے اور کہتے تھے جس حالت میں ہم پیدا ہوئے تھے اسی حالت میں طواف کریں گے۔
عورتیں بھی آگے کوئی چمڑے کا ٹکڑا یا کوئی چیز رکھ لیتی اور کہتی تھیں ۔
الیوم یبدو و بعضہ اوکلہ
وما بدا منہ فلا احلہ
آج اس کا تھوڑا سا حصہ یا کل ظاہر ہو جائے گا اور جتنا بھی ظاہر میں اس کے لیے جائز نہیں رکھتی ۔
اس پر یہ آیت اتری((اذا فعلوا))الخ،
یہ دستور تھا کہ قریش کے سوا تمام عرب اپنے کپڑوں میں بیت اللہ کا طواف نہیں کرتے تھے سمجھتے تھے یہ کپڑے جنہیں پہن کر اللہ کی نا فرمانیاں کی ہیں اس قابل نہیں رہے کہ انہیں پہن کر طواف کر سکیں ہاں قریش جو اپنے آپ کو حمس کہتے تھے اپنے کپڑوں میں ہی طواف کرتے تھے اور جن لوگوں کو قریش کپڑے بطور ادھار دیں وہ بھی ان کے دئیے ہوئے کپڑے پہن کر طواف کر سکتا تھا یا وہ شخص کپڑے پہنے طواف کر سکتا تھا جس کے پاس نئے کپڑے ہوں ۔
پھر طواف کے بعد ہی انہیں اتار دیتا تھا اب یہ کسی کی مالیت نہیں ہو سکتے تھے ۔
پس جس کے پاس نیا کپڑا نہ ہو اور حمس بھی اس کو اپنا کپڑا نہ دے تو اسے ضروری تھا کہ وہ ننگا طواف کرے ۔
خواہ مرد ہو یا عورت، عورت اپنے آگے کے عضو پر زرا سی چیز رکھ لیتی اور وہ کہتی جس کا بیان اوپر گزرا لیکن عموما عورتیں رات کے وقت طواف کرتی تھیں یہ بدعت انہوں نے خود گھڑ لی تھی اس فعل کی دلیل سوائے باپ دادا کی تقلید کے اور ان کے پاس کچھ نہ تھی لیکن اپنی خوش فہمی اور نیک ظنی سے کہہ دیتے تھے کہ اللہ کا یہی حکم ہے ۔
کیوں کہ ان کا خیال یہ تھا کہ اگر یہ فرمودہ رب نہ ہوتا تو ہمارے بزرگ اس طرح نہ کرتے اس لئے حکم ہوتا ہے کہ اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم آپ ان سے کہہ دیجئے کہ اللہ تعالی بے حیائی کے کاموں کا حکم نہیں کرتا ۔
ایک تو برا کام کرتے ہو دوسرے جھوٹ موٹ اس کی نسبت اللہ کی طرف کرتے ہوئے یہ چوری اور سینہ زوری ہے۔
کہہ دے رب العالمین کا حکم تو عدل کا ہے، استقامت اور دیانت داری کا ہے برائیوں اور گندے کاموں کو چھوڑنے کا ہے، عبادت ٹھیک طور پر بجا لانے کا ہے جو اللہ کے سچے رسولوں کے طریقے کے مطابق ہوں، جن کی سچائی ان کے زبردست معجزوں سے اللہ نے ثابت کر دی ہے،
ان کی لائی ہوئی شریعت پر اخلاص کے ساتھ عمل کرتے ہوں ۔
جب تک اخلاص اور پیغمبروں کی تابعداری کسی کام میں نہ ہو اللہ کے ہاں وہ مقبول نہیں ہوتا ۔
اس نے جس طرح تمہیں اول اول پیدا کیا ہے اسی طرح وہ دوبارہ بھی لوٹائے گا ۔
دنیا میں بھی اسی نے پیدا کیا ۔
آخرت میں بھی وہی قبروں سے دوبارہ پیدا کرے گا ۔
پہلے تم کچھ نہیں تھے اس نے تمہیں بنایا ۔
اب مرنے کے بعد پھر بھی وہ تمہیں زندہ کر دے گا ۔
جیسے اس نے شروع میں تمہاری ابتداء کی تھی اسی طرح پھر سے تمہارا اعادہ کرے گا ۔
چنانچہ حدیث میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ایک واعظ میں فرمایا لوگو تم اللہ کے سامنے ننگے پیروں ننگے بدنوں بے ختنہ جمع کئے جاو گے جیسے کہ ہم نے تمہیں پیدائش میں کیا تھا اسی کو پھر دہرائیں گے ۔
یہ ہمارا وعدہ ہے اور ہم نے اسے کر کے ہی رہنے والے ہیں ۔
یہ روایت بخاری و مسلم میں بھی نکالی گئی ہے((صحیح بخاری کتاب التفسیر ۔صحیح مسلم کتاب الجنتہ))۔
یہ بھی معنی کئے گئے ہیں کہ جیسے ہم نے لکھ دیا ہے ویسے ہی تم پاو گے ۔
ایک روایت میں ہے جیسے تمہارے اعمال تھے
ہوو گے۔
یہ بھی معنی ہیں کہ جس کی ابتداء میں بد قسمتی لکھ دی ہے وہ بد بختی اور بد اعمالی کی طرف ہی لوٹے گا گو درمیان میں نیک ہو گیا ہو،
جس کی تقدیر میں شروع سے ہی نیکی اور سعادت لکھ دی گئی ہے وہ انجام کار میں نیک ہی ہو گا گو اس سے کسی وقت برائی کے اعمال بھی سر زد ہو جائیں گے ۔
جیسے فرعون کے زمانے کے جادو گر کہ ساری عمر سیاہ کاریوں میں گزاری اور کفر میں لیکن آخر وقت میں مسلمان اولیاء ہو کر مرے۔
یہ بھی معنی ہیں کہ اللہ تم میں سے ہر ایک کو ہدایت پر یا گمراہی پر یا پیدا کر چکا ہے ایسے ہی ہو کر تم ماں کے بطن سے نکلو گے۔
یہ بھی مطلب ہے کہ اللہ تعالی نے ابن آدم علیہ السلام کی پیدائش مومن و کافر ہونے کی حالت میں کی جیسے فرمان ہے((ھو الذی خلقکم فمنکم کافر و منکم مومن))((سورہ التغابن))۔
پھر انہیں اسی طرح قیامت کے دن لوٹائے گا یعنی مومن و کافر کے گروہوں میں ۔
اسی قول کی تائید صحیح بخاری کی اس حدیث سے بھی ہوتی ہے جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں اس کی قسم جس کے سوا کوئی معبود نہیں کہ تم میں سے ایک شخص جنتیوں کے اعمال کرتا ہے یہاں تک کہ اس کے اور جنت کے درمیان صرف ایک بام بھر کا یا ہاتھ بھر کا فرق رہ جاتا ہے پھر اس پر لکھا ہوا سبقت کر جاتا ہے اور دوزخیوں کے اعمال شروع کر دیتا ہے اور اسی میں داخل ہو جاتا ہے اور کوئی جہنمیوں کے اعمال کرنے لگتا ہے یہاں تک کہ جہنم سے ایک ہاتھ یا ایک بام دور رہ جاتا ہے کہ تقدیر کا لکھا آگے آ جاتا ہے اور وہ جنتیوں کے اعمال کرنے لگتا ہے اور جنت میں چلا جاتا ہے ۔((صحیح بخاری کتاب القدر۔صحیح مسلم کتاب القدر ))
دوسری روایت بھی اسی طرح کی ہے اس میں یہ بھی ہے کہ اس کے کام لوگوں کی نظروں میں جہنم اور جنت کے ہوتے ہیں ۔اعمال کا دارومدار خاتمے پر ہے((صحیح بخاری کتاب الرقاق ۔صحیح مسلم کتاب الایمان ))
اور حدیث میں ہے کہ ہر نفس اسی پر اٹھایا جائے جس پر تھا((مسلم))
ایک اور روایت میں ہے جس پر مرا((ایضا))
اگر اس آیت سے مراد یہی لی جائے تو اس کے بعد فرمان((فاقم وجھک))
میں بخاری و مسلم کی حدیث میں ہے کہ ہر بچہ فطرت پر پیدا جاتا ہے کہ میں نے اپنے بندوں کو موحدہ و حنیف پیدا کیا پھر شیطان نے ان کے دین سے انہیں بہکا دیا۔((صحیح بخاری کتاب التفسیر ۔صحیح مسلم کتاب القدر ۔ترمذی کتاب القدر ۔مسند احمد ))
اس میں کوئی جمع کی وجہ ہونی چاہئے اور یہ وہ ہے کہ اللہ نے انہیں دوسرے حال میں مومن و کافر ہونے کے لیے پیدا کیا ۔
گو پہلے حال میں تمام مخلوق کو اپنی معرفت و توحید پر پیدا کیا تھا کہ اس کے سوا کوئی معبود برحق نہیں ۔
جیسے کہ اس نے ان سے روز میثاق میں عہد بھی لیا تھا اور اسی وعدے کو ان کی جبلت گھٹی میں رکھ دیا گیا تھا اس کے باوجود اس نے مقدر کیا تھا کہ ان میں سے بعض شقی اور بد بخت ہوں گے اور بعض سعید اور نیک بخت ہوں گے ۔
جیسے فرمان ہے اسی نے تمہیں پیدا کیا پھر تم میں سے بعض کافر ہیں اور بعض مومن اور حدیث میں ہے ہر شخص صبح کرتا ہے پھر اپنے نفس کی خرید و فروخت کرتا ہے کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جو اسے آزاد کرا لیتے ہیں کچھ ایسے ہیں جو اسے ہلاک کر بٹھتے ہیں((صحیح مسلم کتاب الطہارت))
اللہ تعالی کی تقدیر اللہ کی مخلوق میں جاری ہے اسی نے مقدر کیا اسی نے ہدایت کی اسی نے ہر ایک کو پیدائش دی پھر رہنمائی کی ۔
بخاری و مسلم کی حدیث میں ہے کہ لوگ سعادت والوں میں سے ہیں ان پر نیکیوں کے کام آسان ہوں گے اور جو شقاوت والے ہیں ان پر بدیاں آسان ہوں گی۔
چنانچہ قرآن مجید ہے کہ ایک فرقے نے راہ پائی اور ایک فرقے پر گمراہی ثابت ہو چکی ہے ۔
پھر اس کی وجہ بیان فرمائی کہ انہوں نے اللہ کو چھوڑ کر شیطانوں کو دوست بنا لیا ہے ۔
اس آیت سے اس مذہب کی تردید ہوتی ہے جو یہ خیال کرتے ہیں کہ اللہ تعالی کسی شخص کو کسی مصیبت کے عمل پر یا کسی گمراہی کے عقیدے پر عذاب نہیں کرتا تا وقت کہ اس کے پاس صحیح صاف چیز آ جائے اور پھر وہ اپنی برائی پر ضد و عناد سے جما رہے ۔
کیوں کہ اگر یہ مزہب صحیح ہوتا تو جو لوگ گمراہ ہیں لیکن اپنے آپ کو ہدایت پر سمجھتے ہیں اور جو واقعی ہدایت پر ہیں ان میں سے کوئی فرق نہ ہونا چاہیے تھا لیکن اللہ تعالی نے ان دنوں میں فرق کیا ان کے نام میں بھی اور ان کے احکام میں بھی۔
آیت آپ کے سامنے ہے پڑھ لیں ۔
 
Top