Hina Rafique
رکن
- شمولیت
- اکتوبر 21، 2017
- پیغامات
- 282
- ری ایکشن اسکور
- 18
- پوائنٹ
- 75
قُلْ اِنَّنِىْ هَدَانِىْ رَبِّىٓ اِلٰى صِرَاطٍ مُّسْتَقِيْـمٍۚ دِيْنًا قِيَمًا مِّلَّـةَ اِبْرَاهِيْـمَ حَنِيْفًا ۚ وَمَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِيْنَ ○
سورت الانعام آیت (161)۔
ترجمہ ۔
کہہ دو کہ میرے رب نے مجھے ایک سیدھا راستہ بتلا دیا ہے، ایک صحیح دین ہے ابراہیم کے طریقے پر جو یکسو تھا، اور مشرکوں میں سے نہیں تھا○۔
قُلْ اِنَّ صَلَاتِىْ وَنُسُكِىْ وَمَحْيَاىَ وَمَمَاتِىْ لِلّـٰهِ رَبِّ الْعَالَمِيْنَ ○
سورت الانعام آیت (162)۔
ترجمہ ۔
کہہ دو کہ بے شک میری نماز اور میری قربانی اور میرا جینا اور میرا مرنا اللہ ہی کے لیے ہے جو سارے جہان کا پالنے والا ہے○۔
لَا شَرِيْكَ لَـهٝ ۖ وَبِذٰلِكَ اُمِرْتُ وَاَنَا اَوَّلُ الْمُسْلِمِيْنَ ○
سورت الانعام آیت نمبر (163)۔
ترجمہ ۔
اس کا کوئی شریک نہیں، اور مجھے اسی کا حکم دیا گیا تھا اور میں سب سے پہلے فرمانبردار ہوں○
تشریح و تفسیر
عنوانجینا مرنا اللہ کے لیے۔
سید المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم ہو رہا ہے کہ آپ پر اللہ کی جو نعمت ہے اس کا اعلان کر دیں کہ اس رب نے آپ کو صراط مستقیم دکھا دی ہے جس میں کوئی کجی یا کمی نہیں وہ ثابت اور سالم سیدھی اور ستھری راہ ہے۔
ابراہیم حنیف علیہ السلام کی ملت ہے جو مشرکوں میں نہ تھے اس دین سے وہی ہٹ جاتا ہے جو محض بیوقوف ہو۔
اور آیت میں ہے اللہ کی راہ میں پورا جہاد کرو وہی اللہ ہے جس نے تمہیں برگزیدہ کیا اور کشادہ دین عطا فرمایا جو تمہارے باپ ابراہیم علیہ السلام کا دین ہے۔
ابراہیم علیہ السلام اللہ نے سچے فرمانبردار تھے مشرک نہ تھے اللہ کی نعمتوں کے شکر گزار تھے اللہ کے پسندیدہ تھے راہ مستقیم کی ہدایت پائے ہوئے تھے دنیا میں بھی ہم نے انہیں بھلائی دی تھی اور میدان قیامت میں بھی وہ نیک کار لوگوں میں ہوں گے ۔
پھر ہم نے تیری طرف وحی کی کہ ملت ابراہیم علیہ السلام کی پیروی کر کہ وہ مشرکین میں نہ تھا ۔
یہ یاد رہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو آپ کی ملت کی پیروی کا حکم ہونے سے یہ لازم نہیں آتا کہ خلیل اللہ آپ سے افضل ہوں اس لئے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا قیام اس پر پورا ہوا اور یہ دین آپ ہی کے ہاتھوں کمال کو پہنچا ۔
اسی لئے حدیث میں ہے کہ میں نبیوں کا ختم کرنے والا ہوں اور تمام اولاد آدم علیہ السلام کا علی الاطلاق سردار ہوں اور مقام محمود والا ہوں جس سے ساری مخلوق کو امید ہو گی یہاں تک کہ خلیل اللہ کو بھی ۔
ابن مردویہ میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صبح کے وقت فرمایا کرتے تھے((اصبحنا علی ملتہ الاسلام و کلمتہ الاخلاص و دین نبینا و ملتہ ابینا ابراھیم حنیفا و ما کان من المشرکین))یعنی ہم نے ملت اسلامیہ پر کلمہ اخلاص پر ہمارے نبی کے دین پر اور ملت ابراہیم علیہ السلام حنیف پر صبح کی ہے جو مشرک نہ تھے((مسند احمد حافظ ابن حجر نے اسے حسن کہا ہے ))
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال ہوا کہ سب سے زیادہ محبوب دین اللہ کے نزدیک کونسا ہے؟ ؟
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو یکسوئی اور آسانی والا ہے((صحیح لغیرہ شیخ شعیب ارناوط اسے صحیح لغیرہ کہتے ہیں))
مسند کی حدیث میں ہے کہ جس دن حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مونڈھوں پر منہ رکھ کر حبشیوں کے جنگی کرتب ملاحظہ فرمائے تھے اس دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا تھا کہ یہ اس لئے کہ یہود یہ جان لیں کہ ہمارے دین میں کشادگی ہے اور میں یکسوئی والا آسانی والا دین دے کر بھیجا گیا ہوں ۔
اور حکم ہوتا ہے کہ آپ مشرکوں سے اپنا مخالف ہونا بھی بیان فرما دیں وہ اللہ کے سوا دوسروں کی عبادت کرتے ہیں دوسروں کے نام پر ذبیحہ کرتے ہیں میں صرف اپنے رب کی عبادت کرتا ہوں اسی کے نام پر ذبیحہ کرتا ہوں چنانچہ بقرہ عید کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب دو مینڈھے ذبح کئے تو((انی وجھت))الخ،کے بعد یہی آیت پڑھی((ضعیف ابو داؤد ))۔
آپ ہی اس امت میں اول مسلم تھے اس لئے کہ یوں تو ہر نبی اور ان کی ماننے والی امت مسلم ہی تھی ۔
سب کی دعوت اسلام اسلام ہی کی تھی سب اللہ کی خالص عبادت کرتے رہے جیسے فرمان ہے((و ما ارسلنک من قبلک من رسول الا نوحی الیہ انہ لا الہ الا انا فاعبدون))((سورت الانبیاء ))
یعنی تجھ سے پہلے بھی جتنے بھی رسول ہم نے بھیجے سب کی طرف وحی کی کہ میرے سوا کوئی معبود نہیں تم سب میری ہی عبادت کرو ۔
حضرت نوح علیہ السلام کا فرمان قرآن میں موجود ہے کہ آپ نے اپنی قوم سے فرمایا کہ میں تم سے کوئی اجرت طلب نہیں کرتا میرا اجر تو میرے رب کے ذمہ ہے مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں مسلمانوں میں رہوں اور آیت ہے((و من یرغب عن ملتہ ابراہیم الا من سفہ نفسہ))((سورت البقرہ))الخ،ملت ابراھیمی سے وہی ہٹتا ہے جس کی قسمت پھوٹ گئی ہو ۔
وہ دنیا
بھی برگزیدہ بندہ تھا اور آخرت میں بھی صالح لوگوں میں سے ہے اسے جب اس کے رب نے فرمایا تو تابعداربن جا اس نے اس نے جواب دیا کہ میں رب العالمین کا فرمانبردار ہوں اسی کی وصیت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے بچوں کو کی تھی اور یعقوب علیہ السلام نے اپنی اولاد کو کہ اے میرے بچو اللہ نے تمہارے لئے دین کو پسند فرما لیا ہے ۔
پس تم اسلام ہی پر مرنا ۔
حضرت یوسف علیہ السلام کی آخری دعا میں ہے یا اللہ تونے مجھے ملک عطا فرمایا خواب کی تعبیر سکھائی آسمان و زمین کا ابتدا میں پیدا کرنے والا تو ہے دنیا اور آخرت میں میرا ولی ہے مجھے اسلام کی حالت میں فوت کرنا اور نیک کاروں میں ملا دینا ۔
حضرت موسی علیہ السلام نے اپنی قوم سے فرمایا تھا کہ میرے بھائیو اگر تم ایماندار ہو اگر تم مسلم ہو تو تمہیں اللہ ہی پر بھروسہ کرنا چاہیے سب نے جواب دیا کہ ہم نے اللہ پر ہی توکل رکھا ہے ۔
اللہ ہمیں ظالموں کے لیے فتنہ نہ بنا اور ہمیں اپنی رحمت کے ساتھ ان کافروں سے بچا لے اور آیت میں فرمان باری تعالی ہے((انا انزلنا التورتہ فیھا ھدی و نور))((سورت المائدہ ))الخ،
ہم نے تورات اتاری جس میں ہدایت و نور ہے جس کے مطابق وہ انبیاء حکم کرتے ہیں جو مسلم ہیں یہودیوں کو بھی اور ربانیوں کو بھی احبار کو بھی الخ ۔
اور فرمایا((و اذ اوحیت الی الحوارین ان امنوا بی))سورت المائدہ ))الخ،
میں حواریوں کی طرف وحی کی کہ مجھ پر اور میرے رسول پر ایمان لاو سب نے کہا ہم نے ایمان قبول کیا ہمارے مسلمان ہونے پر تم گواہ رہو۔
یہ آیتیں صاف بتلا رہی ہیں کہ اللہ نے اپنے نبیوں کو اسلام کے ساتھ ہی بھیجا ہے ہاں یہ اور بات ہے کہ وہ اپنی اپنی مخصوص شریعتوں کے ساتھ مختص تھے احکام کا ادل بدل ہوتا رہتا تھا یہاں تک کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دین کے ساتھ پہلے کے کل دین منسوخ ہو گئے اور نہ منسوخ ہونے والا نہ بدلنے والا ہمیشہ رہنے والا دین اسلام آپ کو ملا جس پر ایک جماعت قیامت تک قائم رہے گی۔
اور اس پاک دین کا جھنڈا بدلا ابدالاباد تک لہراتا ریے گا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ ہم انبیاء کرام کی جماعت علاتی بھائی ہیں ۔
ہم سب کا دین ایک ہی ہے((صحیح بخاری کتاب الاحادیث الانبیاء۔ صحیح مسلم کتاب الفضائل ))
بھائیوں کی ایک قسم تو علاتی جن کا باپ ایک ہو اور مائیں الگ الگ ہوں ایک قسم اخیانی بھائی جن کی ماں ایک ہو اور باپ جداگانہ ہوں اور ایک عینی بھائی ہیں جن کا باپ ایک ہو اور ماں بھی ایک ہو۔
پس کل انبیاء کرام کا دین ایک ہے یعنی اللہ وحدہ لا شریک کی عبادت اور شریعت مختلف ہیں بہ اعتبار احکام کے۔
اس لئے انہیں علاتی بھائی فرمایا ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تکبیر اولی کے بعد نماز میں((انی وجھت))سورت انعام ))الخ، اور یہ آیت پڑھتے((اللھم انت الملک لا الہ الا انت، انت ربی و انا عبدک ظلمت نفسی واعترفت بذنبی فاغفرلی ذنوبی جمیعا لا یغفر الذنوب الا انت واھدنی الاحسن الاخلاق لا یھدی الا حسنھا الا انت واصرف عنی سیئتھا لا یصرف عنی سیئتھا الا انت تبارکت و تعالیت ادستغفرک و اتوب الیک))یہ حدیث لمبی ہے اس کے بعد راوی نے رکوع و سجدہ اور تشہد کی دعاوں کا ذکر کیا ہے((صحیح مسلم کتا الصلوۃ المسافرین ۔ابو داؤد کتاب الصلوۃ ۔ترمذی کتاب الدعوات ۔مسند احمد ))
و ما علینا الا البلاغ المبین ۔
سورت الانعام آیت (161)۔
ترجمہ ۔
کہہ دو کہ میرے رب نے مجھے ایک سیدھا راستہ بتلا دیا ہے، ایک صحیح دین ہے ابراہیم کے طریقے پر جو یکسو تھا، اور مشرکوں میں سے نہیں تھا○۔
قُلْ اِنَّ صَلَاتِىْ وَنُسُكِىْ وَمَحْيَاىَ وَمَمَاتِىْ لِلّـٰهِ رَبِّ الْعَالَمِيْنَ ○
سورت الانعام آیت (162)۔
ترجمہ ۔
کہہ دو کہ بے شک میری نماز اور میری قربانی اور میرا جینا اور میرا مرنا اللہ ہی کے لیے ہے جو سارے جہان کا پالنے والا ہے○۔
لَا شَرِيْكَ لَـهٝ ۖ وَبِذٰلِكَ اُمِرْتُ وَاَنَا اَوَّلُ الْمُسْلِمِيْنَ ○
سورت الانعام آیت نمبر (163)۔
ترجمہ ۔
اس کا کوئی شریک نہیں، اور مجھے اسی کا حکم دیا گیا تھا اور میں سب سے پہلے فرمانبردار ہوں○
تشریح و تفسیر
عنوانجینا مرنا اللہ کے لیے۔
سید المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم ہو رہا ہے کہ آپ پر اللہ کی جو نعمت ہے اس کا اعلان کر دیں کہ اس رب نے آپ کو صراط مستقیم دکھا دی ہے جس میں کوئی کجی یا کمی نہیں وہ ثابت اور سالم سیدھی اور ستھری راہ ہے۔
ابراہیم حنیف علیہ السلام کی ملت ہے جو مشرکوں میں نہ تھے اس دین سے وہی ہٹ جاتا ہے جو محض بیوقوف ہو۔
اور آیت میں ہے اللہ کی راہ میں پورا جہاد کرو وہی اللہ ہے جس نے تمہیں برگزیدہ کیا اور کشادہ دین عطا فرمایا جو تمہارے باپ ابراہیم علیہ السلام کا دین ہے۔
ابراہیم علیہ السلام اللہ نے سچے فرمانبردار تھے مشرک نہ تھے اللہ کی نعمتوں کے شکر گزار تھے اللہ کے پسندیدہ تھے راہ مستقیم کی ہدایت پائے ہوئے تھے دنیا میں بھی ہم نے انہیں بھلائی دی تھی اور میدان قیامت میں بھی وہ نیک کار لوگوں میں ہوں گے ۔
پھر ہم نے تیری طرف وحی کی کہ ملت ابراہیم علیہ السلام کی پیروی کر کہ وہ مشرکین میں نہ تھا ۔
یہ یاد رہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو آپ کی ملت کی پیروی کا حکم ہونے سے یہ لازم نہیں آتا کہ خلیل اللہ آپ سے افضل ہوں اس لئے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا قیام اس پر پورا ہوا اور یہ دین آپ ہی کے ہاتھوں کمال کو پہنچا ۔
اسی لئے حدیث میں ہے کہ میں نبیوں کا ختم کرنے والا ہوں اور تمام اولاد آدم علیہ السلام کا علی الاطلاق سردار ہوں اور مقام محمود والا ہوں جس سے ساری مخلوق کو امید ہو گی یہاں تک کہ خلیل اللہ کو بھی ۔
ابن مردویہ میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صبح کے وقت فرمایا کرتے تھے((اصبحنا علی ملتہ الاسلام و کلمتہ الاخلاص و دین نبینا و ملتہ ابینا ابراھیم حنیفا و ما کان من المشرکین))یعنی ہم نے ملت اسلامیہ پر کلمہ اخلاص پر ہمارے نبی کے دین پر اور ملت ابراہیم علیہ السلام حنیف پر صبح کی ہے جو مشرک نہ تھے((مسند احمد حافظ ابن حجر نے اسے حسن کہا ہے ))
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال ہوا کہ سب سے زیادہ محبوب دین اللہ کے نزدیک کونسا ہے؟ ؟
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو یکسوئی اور آسانی والا ہے((صحیح لغیرہ شیخ شعیب ارناوط اسے صحیح لغیرہ کہتے ہیں))
مسند کی حدیث میں ہے کہ جس دن حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مونڈھوں پر منہ رکھ کر حبشیوں کے جنگی کرتب ملاحظہ فرمائے تھے اس دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا تھا کہ یہ اس لئے کہ یہود یہ جان لیں کہ ہمارے دین میں کشادگی ہے اور میں یکسوئی والا آسانی والا دین دے کر بھیجا گیا ہوں ۔
اور حکم ہوتا ہے کہ آپ مشرکوں سے اپنا مخالف ہونا بھی بیان فرما دیں وہ اللہ کے سوا دوسروں کی عبادت کرتے ہیں دوسروں کے نام پر ذبیحہ کرتے ہیں میں صرف اپنے رب کی عبادت کرتا ہوں اسی کے نام پر ذبیحہ کرتا ہوں چنانچہ بقرہ عید کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب دو مینڈھے ذبح کئے تو((انی وجھت))الخ،کے بعد یہی آیت پڑھی((ضعیف ابو داؤد ))۔
آپ ہی اس امت میں اول مسلم تھے اس لئے کہ یوں تو ہر نبی اور ان کی ماننے والی امت مسلم ہی تھی ۔
سب کی دعوت اسلام اسلام ہی کی تھی سب اللہ کی خالص عبادت کرتے رہے جیسے فرمان ہے((و ما ارسلنک من قبلک من رسول الا نوحی الیہ انہ لا الہ الا انا فاعبدون))((سورت الانبیاء ))
یعنی تجھ سے پہلے بھی جتنے بھی رسول ہم نے بھیجے سب کی طرف وحی کی کہ میرے سوا کوئی معبود نہیں تم سب میری ہی عبادت کرو ۔
حضرت نوح علیہ السلام کا فرمان قرآن میں موجود ہے کہ آپ نے اپنی قوم سے فرمایا کہ میں تم سے کوئی اجرت طلب نہیں کرتا میرا اجر تو میرے رب کے ذمہ ہے مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں مسلمانوں میں رہوں اور آیت ہے((و من یرغب عن ملتہ ابراہیم الا من سفہ نفسہ))((سورت البقرہ))الخ،ملت ابراھیمی سے وہی ہٹتا ہے جس کی قسمت پھوٹ گئی ہو ۔
وہ دنیا
بھی برگزیدہ بندہ تھا اور آخرت میں بھی صالح لوگوں میں سے ہے اسے جب اس کے رب نے فرمایا تو تابعداربن جا اس نے اس نے جواب دیا کہ میں رب العالمین کا فرمانبردار ہوں اسی کی وصیت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے بچوں کو کی تھی اور یعقوب علیہ السلام نے اپنی اولاد کو کہ اے میرے بچو اللہ نے تمہارے لئے دین کو پسند فرما لیا ہے ۔
پس تم اسلام ہی پر مرنا ۔
حضرت یوسف علیہ السلام کی آخری دعا میں ہے یا اللہ تونے مجھے ملک عطا فرمایا خواب کی تعبیر سکھائی آسمان و زمین کا ابتدا میں پیدا کرنے والا تو ہے دنیا اور آخرت میں میرا ولی ہے مجھے اسلام کی حالت میں فوت کرنا اور نیک کاروں میں ملا دینا ۔
حضرت موسی علیہ السلام نے اپنی قوم سے فرمایا تھا کہ میرے بھائیو اگر تم ایماندار ہو اگر تم مسلم ہو تو تمہیں اللہ ہی پر بھروسہ کرنا چاہیے سب نے جواب دیا کہ ہم نے اللہ پر ہی توکل رکھا ہے ۔
اللہ ہمیں ظالموں کے لیے فتنہ نہ بنا اور ہمیں اپنی رحمت کے ساتھ ان کافروں سے بچا لے اور آیت میں فرمان باری تعالی ہے((انا انزلنا التورتہ فیھا ھدی و نور))((سورت المائدہ ))الخ،
ہم نے تورات اتاری جس میں ہدایت و نور ہے جس کے مطابق وہ انبیاء حکم کرتے ہیں جو مسلم ہیں یہودیوں کو بھی اور ربانیوں کو بھی احبار کو بھی الخ ۔
اور فرمایا((و اذ اوحیت الی الحوارین ان امنوا بی))سورت المائدہ ))الخ،
میں حواریوں کی طرف وحی کی کہ مجھ پر اور میرے رسول پر ایمان لاو سب نے کہا ہم نے ایمان قبول کیا ہمارے مسلمان ہونے پر تم گواہ رہو۔
یہ آیتیں صاف بتلا رہی ہیں کہ اللہ نے اپنے نبیوں کو اسلام کے ساتھ ہی بھیجا ہے ہاں یہ اور بات ہے کہ وہ اپنی اپنی مخصوص شریعتوں کے ساتھ مختص تھے احکام کا ادل بدل ہوتا رہتا تھا یہاں تک کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دین کے ساتھ پہلے کے کل دین منسوخ ہو گئے اور نہ منسوخ ہونے والا نہ بدلنے والا ہمیشہ رہنے والا دین اسلام آپ کو ملا جس پر ایک جماعت قیامت تک قائم رہے گی۔
اور اس پاک دین کا جھنڈا بدلا ابدالاباد تک لہراتا ریے گا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ ہم انبیاء کرام کی جماعت علاتی بھائی ہیں ۔
ہم سب کا دین ایک ہی ہے((صحیح بخاری کتاب الاحادیث الانبیاء۔ صحیح مسلم کتاب الفضائل ))
بھائیوں کی ایک قسم تو علاتی جن کا باپ ایک ہو اور مائیں الگ الگ ہوں ایک قسم اخیانی بھائی جن کی ماں ایک ہو اور باپ جداگانہ ہوں اور ایک عینی بھائی ہیں جن کا باپ ایک ہو اور ماں بھی ایک ہو۔
پس کل انبیاء کرام کا دین ایک ہے یعنی اللہ وحدہ لا شریک کی عبادت اور شریعت مختلف ہیں بہ اعتبار احکام کے۔
اس لئے انہیں علاتی بھائی فرمایا ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تکبیر اولی کے بعد نماز میں((انی وجھت))سورت انعام ))الخ، اور یہ آیت پڑھتے((اللھم انت الملک لا الہ الا انت، انت ربی و انا عبدک ظلمت نفسی واعترفت بذنبی فاغفرلی ذنوبی جمیعا لا یغفر الذنوب الا انت واھدنی الاحسن الاخلاق لا یھدی الا حسنھا الا انت واصرف عنی سیئتھا لا یصرف عنی سیئتھا الا انت تبارکت و تعالیت ادستغفرک و اتوب الیک))یہ حدیث لمبی ہے اس کے بعد راوی نے رکوع و سجدہ اور تشہد کی دعاوں کا ذکر کیا ہے((صحیح مسلم کتا الصلوۃ المسافرین ۔ابو داؤد کتاب الصلوۃ ۔ترمذی کتاب الدعوات ۔مسند احمد ))
و ما علینا الا البلاغ المبین ۔