Hina Rafique
رکن
- شمولیت
- اکتوبر 21، 2017
- پیغامات
- 282
- ری ایکشن اسکور
- 18
- پوائنٹ
- 75
وَهُوَ الَّـذِىٓ اَنْشَاَ جَنَّاتٍ مَّعْـرُوْشَاتٍ وَّغَيْـرَ مَعْـرُوْشَاتٍ وَّالنَّخْلَ وَالزَّرْعَ مُخْتَلِفًا اُكُلُـهٝ وَالزَّيْتُوْنَ وَالرُّمَّانَ مُتَشَابِـهًا وَّغَيْـرَ مُتَشَابِهٍ ۚ كُلُوْا مِنْ ثَمَرِهٓ ٖ اِذَآ اَثْمَرَ وَاٰتُوْا حَقَّهٝ يَوْمَ حَصَادِهٖ ۖ وَلَا تُسْـرِفُـوْا ۚ اِنَّهٝ لَا يُحِبُّ الْمُسْرِفِيْن○
سورت الانعام آیت نمبرَ (141)
ترجمہ ۔
اور اسی نے وہ باغ پیدا کیے جو چھتوں پر چڑھائے جاتے ہیں اور جو نہیں چڑھائے جاتے اور کھجور کے درخت اور کھیتی جن کے پھل مختلف ہیں اور زیتون اور انار پیدا کیے جو ایک دوسرے سے مشابہ بھی ہیں اور جدا جدا بھی، ان کے پھل کھاؤ جب وہ پھل لائیں اور جس دن اسے کاٹو اس کا حق ادا کرو، اور بے جا خرچ نہ کرو، بے شک وہ بے جا خرچ کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا○۔
وَمِنَ الْاَنْعَامِ حَـمُوْلَـةً وَّفَرْشًا ۚ كُلُوْا مِمَّا رَزَقَكُمُ اللّـٰهُ وَلَا تَتَّبِعُوْا خُطُوَاتِ الشَّيْطَانِ ۚ اِنَّهٝ لَكُمْ عَدُوٌّ مُّبِيْن○
سورت الانعام آیت نمبرٌ (142)
ترجمہ ۔
اور (پیدا کیے) بوجھ اٹھانے والے مویشی بھی اور زمین سے لگے ہوئے بھی، اور اللہ کے رزق میں سے کھاؤ اور شیطان کے قدموں پر نہ چلو، وہ تمہارا صریح دشمن ہے○
تشریح و تفسیر۔
عنوانعشر کے مسائل ۔
خالق کل اللہ تعالی ہی ہے کھیتیاں پھل چوپائے سب اسی کے پیدا کئے ہوئے ہیں کافروں کو کوئی حق نہیں کہ حرام حلال کی تقسیم از خود کریں ۔
درخت تو بیل والے ہیں جیسے انگور وغیرہ کہ وہ محفوظ ہوتے ہیں بعض کھڑے درخت ہیں جو جنگلوں اور پہاڑوں پر کھڑے ہوئے ہیں ۔
دیکھنے میں ایک دوسرے سے ملتے جلتے مگر پھلوں کے ذائقے کے لحاظ سے الگ الگ ۔
انگور کھجور یہ درخت تمہیں دیتے ہیں کہ تم کھاو مزی اٹھاو لطف پاو ۔
اس کا اس کے کٹنے اور ناپ تول ہونے کے دن ہی دو یعنی فرض زکوتہ جو اس میں مقرر ہو ادا کر دو ۔
پہلے لوگ کچھ نہیں دیتے تھے شریعت نے دسواں حصہ مقرر کیا اور ویسے بھی مسکینوں اور بھوکوں کا خیال رکھنا ۔
چنانچہ مسند احمد کی حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمان صادر فرمایا تھا کہ جس کی کھجوریں دس وسق سے زیادہ ہوں وہ چند خوشے مسجد میں لا کر لٹکا دے تا کہ مسکین کھا لیں((مسند احمد 3/360۔ابو داود کتاب زکوتہ باب فی حقوق المال۔
شیخ البانی رح نے اسے صحیح کہا ہے اور امام ابن خزیمہ رح نے بھی))
یہ بھی مراد ہے کہ زکوتہ کے سوا اور کچھ سلوک بھی اپنی کھتیوں باڑیوں اور باغات کے پھلوں سے اللہ کے بندوں کے ساتھ کرتے رہو۔
مثلا پھل توڑنے اور کھیت کاٹنے کے وقت عموما مفلس لوگ پہنچ جایا کرتے ہیں انہیں کچھ دے دیا کرو ۔
بالیں پک گئی ہوں، پھل گدرا گئے ہوں اور کوئی محتاج شخص نکل آئے تو خاطر تواضع کرو۔
جس روز کاٹو کچھ چھوڑ دو تا کہ مسکینوں کے کام آئے ان کے جانوروں کا چارہ ہو زکوتہ سے پہلے بھی حقداروں کو کچھ دیتے رہا کرو ۔
پہلے تو یہ بطور وجوب تھا لیکن زکوتہ کی فرضیت کے بعد بطور نقل رہ گیا ۔
زکوتہ میں عشر یا نصف عشر مقرر کر دی گئی لیکن اس سے فسخ نہ سمجھا جائے ۔
پہلے کچھ دینا ہوتا تھا پھر مقدار مقرر کر دی گئی زکوتہ کی مقدار سن 2 ہجری میں مقرر ہوئی ۔۔واللہ اعلم ۔
کھیتی کاٹتے وقت اور پھل اتارتے وقت صدقہ نہ دینے والوں کی اللہ تعالی نے مذمت بیان فرمائی ہے سورت قلم میں ان کا قصہ بیان فرمایا کہ ان باغ والوں نے قسمیں کھا کر کہا صبح ہوتے ہی آج کے پھل ہم اتار لیں گے اس پر انہوں نے ان شاءاللہ بھی نہ کہا ۔
یہ ابھی رات کو بے خبری کی نیند میں تھے وہاں آفت ناگہانی آ گئی اور سارا باغ ایسا ہو گیا کہ پھل گویا توڑ لیا گیا ہے بلکہ جلا کر خاکستر کر دیا گیا ہے ۔
یہ صبح کو اٹھ کر ایک دوسرے کو جگا کر پوشیدہ طور پر چپ چاپ چلے کہ ایسا نہ ہو حسب عادت فقیر و مساکین جمع ہو جائیں اور انہیں کچھ دینا پڑے یہ اپنے دلوں میں یہی سوچتے ہوئے کہ پھل ابھی توڑ لائیں گے بڑے اہتمام کے ساتھ صبح سویرے وہاں پہنچے تو کیا دیکھتے ہیں کہ سارا باغ تو وہ خاک بنا ہوا ہے اولا تو کہنے لگے بھئی ہم راستہ بھول گئے کسی اور جگہ آ گئے ہمارا باغ تو شام تک لہلہا رہا تھا پھر کہنے لگے نہیں باغ تو وہی ہے ہماری قسمت پھوٹ گئی ہم محروم ہو گئے ۔
اس وقت ان میں سے جو با خبر شخص تھا کہنے لگا دیکھو میں تمہیں کہتا نہ تھا کہ اللہ کا شکر کرو اس کی پاکیزگی بیان کرو ۔
اب تو سب کے سب کہنے لگے ہمارا رب پاک ہے یقینا ہم نے ظلم کیا ہے پھر ایک دوسرے کو ملامت کرنے لگے کہ افسوس ہماری بد بختی کہ ہم سرکش حد سے گزر جانے والے بن گئے ۔
ہمیں اب بھی اپنے پرودگار سے امید ہے کہ ہمیں بہتر عطا فرمائے ہم اب صرف اپنے اللہ سے امید رکھتے ہیں کہ وہ ہمیں اس سے بہتر عطا فرمائے ہم اب صرف اپنے اللہ سے رغبت رکھتے ہیں ۔
نا شکری کرنے والے اور تنہا خوری کرنے والوں پر اسی طرح ہمارے عذاب آیا کرتے ہیں اور آخرت کے اور بھی بڑے عذاب باقی ہیں لیکن افسوس کہ یہ سمجھ بوجھ اور علم و عقل سے کام لیتے نہیں لیتے ۔
یہاں اس آیت میں صدقہ دینے کا حکم فرما کر خاتمے پر فرمایا کہ فضول خرچ اللہ کا دوست نہیں ۔
اپنی اوقات سے زیادہ نہ لٹا فخر اور ریاکاری کے لیے اپنا مال برباد نہ کر ۔
حضرت ثابت بن قیس بن شماس رضی اللہ عنہ نے اپنے کھجوروں کے باغ سے کھجوریں اتاریں اور عہد کر لیا کہ آج جو لینے آئے گا میں اسے دوں گا لوگ ٹوٹ پڑے شام تک ان کے پاس ایک کھجور بھی نہ تھی ۔
اس پر یہ فرمان اترا ۔
ہر چیز میں اسراف منع ہے ۔
اللہ کے حکم سے تجاوز کر جانے کا نام اسراف ہے خواہ وہ کسی بارے میں ہو۔
اپنا سارا مال لوٹا کر فقیر ہو کر دوسروں پر اپنا انبار ڈال دینا بھی اسراف ہے ۔اور منع ہے۔
یہ بھی مطلب ہے کہ صدقہ نہ روکو جس سے اللہ کے نا فرمان بن جاو یہ بھی اسراف ہے گو یہ مطلب اس آیت کے ہیں لیکن بہ ظاہر الفاظ یہ معلوم ہوتا ہے کہ پہلے کھانے کا ذکر ہے تو اسراف اپنے کھانے پینے میں کرنے کی ممانت یہاں ہے کیونکہ اس سے عقل میں اور بدن میں ضرر پہنچتا ہے ۔
قرآن کریم کی اور آیت میں ہے((کلوا واشربوا ولا تسرافوا))((سورت الاعراف 31))
کھاو پیو اور اسراف نہ کرو ۔صحیح بخاری شریف میں ہے کہ کھاو پیو پہنو اوڑھو لیکن اسراف اور تکبر سے بچو واللہ اعلم ۔
((صحیح بخاری تعلیقا کتاب اللباس ))اسی اللہ نے تمہارے لئے چوپائے پیدا کئے ہیں ان میں سے بعض تو بوجھ ڈھونے والے ہیں جیسے اونٹ گھوڑے خچر گدھے وغیرہ اور بعض پستہ قد ہیں جیسے بکری وغیرہ ۔
انہیں فرش اس لئے کہا گیا ہے کہ یہ قد و قامت میں پست ہوتے ہیں زمیں سے ملے رہتے ہیں ۔
یہ بھی کہا گیا ہے کہ حمولہ سے مراد سواری کے جانور اور فرشا سے مراد جن کا دودھ پیا جاتا ہے اور جن کا گوشت کھایا جاتا ہے جو سواری کے قابل نہیں ان کے بالوں سے لحاف اور فرش تیار ہوتے ہیں ۔
یہ قول حضرت سدی رح کا ہے۔
اور بہت ہی مناسب ہے خود قرآن کی سورہ یاسین میں موجود ہے کہ کیا انہوں نے اس بات پر نظر نہیں کی؟
کہ ہم نے ان کے لیے چوپائے پیدا کر دئیے ہیں جو ہمارے ہی ہاتھوں کے بنائے ہوئے ہیں اور اب یہ ان کے مالک بن بیٹھے ہیں ہم نے ہی انہیں انکے بس میں کر دیا ہے کہ بعض پر یہ سواریاں کر رکھ ہیں اور بعض کو یہ کھانے کے کام میں لاتے ہیں ۔
اور آیت میں ہے((وان لکم فی الانعام لعبرتہ))((سورہ النخل))
الخ،مطلب یہ ہے کہ ہم تمہیں ان چوپاوں کا دودھ پلاتے ہیں اور ان کے بال اون وغیرہ سے تمہارے اوڑھنے بچھانے اور طرح طرح کے فائدے اٹھانے کی چیزیں بناتے ہیں اور جگہ ہے اللہ وہ ہے جس نے تمہارے لئے چوپائے جانور پیدا کئے تا کہ تم ان پر سواریاں کرو انہیں کھاو اور بھی فائدے اٹھاو ان پر اپنے سفر طے کر کے اپنے کام پورے کرو اسی نے تمہاری سواری کے لیے کشتیاں بنائیں وہ تمہیں اپنی بے شمار نشانیاں دکھا رہا ہے بتاو تو کس کس نشانی کا انکار کرو گے؟ ؟
پھر فرماتا ہے کہ اللہ کی روزی کھاو پھل اناج گوشت وغیرہ ۔
شیطانی راہ پر نہ چلو اس کی تابعداری نہ کرو جیسے کہ مشرکوں نے اللہ کی چیزوں میں از خود حلال کی تقسیم کر دی تم نے بھی یہ کر کے شیطان کے ساتھی نہ بنو وہ تمہارا کھلا دشمن ہے اسے دوست نہ سمجھو۔
وہ تو اپنے ساتھ تمہیں بھی اللہ کے عذابوں میں پھنسانا چاہتا ہے ۔
دیکھو کہیں اس کے بہکاوے میں نہ آ جانا اسی نے تمہارے باپ آدم علیہ السلام کو جنت سے باہر نکلوا دیا ۔
اس کھلے دشمن کو بھولے سے بھی اپنا دوست نہ سمجھنا ۔
اس کی ذریت سے اور اس کے یاروں سے بھی بچو ۔
یاد رکھو ظالموں کو برابر بدلہ ملے گا۔
سورت الانعام آیت نمبرَ (141)
ترجمہ ۔
اور اسی نے وہ باغ پیدا کیے جو چھتوں پر چڑھائے جاتے ہیں اور جو نہیں چڑھائے جاتے اور کھجور کے درخت اور کھیتی جن کے پھل مختلف ہیں اور زیتون اور انار پیدا کیے جو ایک دوسرے سے مشابہ بھی ہیں اور جدا جدا بھی، ان کے پھل کھاؤ جب وہ پھل لائیں اور جس دن اسے کاٹو اس کا حق ادا کرو، اور بے جا خرچ نہ کرو، بے شک وہ بے جا خرچ کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا○۔
وَمِنَ الْاَنْعَامِ حَـمُوْلَـةً وَّفَرْشًا ۚ كُلُوْا مِمَّا رَزَقَكُمُ اللّـٰهُ وَلَا تَتَّبِعُوْا خُطُوَاتِ الشَّيْطَانِ ۚ اِنَّهٝ لَكُمْ عَدُوٌّ مُّبِيْن○
سورت الانعام آیت نمبرٌ (142)
ترجمہ ۔
اور (پیدا کیے) بوجھ اٹھانے والے مویشی بھی اور زمین سے لگے ہوئے بھی، اور اللہ کے رزق میں سے کھاؤ اور شیطان کے قدموں پر نہ چلو، وہ تمہارا صریح دشمن ہے○
تشریح و تفسیر۔
عنوانعشر کے مسائل ۔
خالق کل اللہ تعالی ہی ہے کھیتیاں پھل چوپائے سب اسی کے پیدا کئے ہوئے ہیں کافروں کو کوئی حق نہیں کہ حرام حلال کی تقسیم از خود کریں ۔
درخت تو بیل والے ہیں جیسے انگور وغیرہ کہ وہ محفوظ ہوتے ہیں بعض کھڑے درخت ہیں جو جنگلوں اور پہاڑوں پر کھڑے ہوئے ہیں ۔
دیکھنے میں ایک دوسرے سے ملتے جلتے مگر پھلوں کے ذائقے کے لحاظ سے الگ الگ ۔
انگور کھجور یہ درخت تمہیں دیتے ہیں کہ تم کھاو مزی اٹھاو لطف پاو ۔
اس کا اس کے کٹنے اور ناپ تول ہونے کے دن ہی دو یعنی فرض زکوتہ جو اس میں مقرر ہو ادا کر دو ۔
پہلے لوگ کچھ نہیں دیتے تھے شریعت نے دسواں حصہ مقرر کیا اور ویسے بھی مسکینوں اور بھوکوں کا خیال رکھنا ۔
چنانچہ مسند احمد کی حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمان صادر فرمایا تھا کہ جس کی کھجوریں دس وسق سے زیادہ ہوں وہ چند خوشے مسجد میں لا کر لٹکا دے تا کہ مسکین کھا لیں((مسند احمد 3/360۔ابو داود کتاب زکوتہ باب فی حقوق المال۔
شیخ البانی رح نے اسے صحیح کہا ہے اور امام ابن خزیمہ رح نے بھی))
یہ بھی مراد ہے کہ زکوتہ کے سوا اور کچھ سلوک بھی اپنی کھتیوں باڑیوں اور باغات کے پھلوں سے اللہ کے بندوں کے ساتھ کرتے رہو۔
مثلا پھل توڑنے اور کھیت کاٹنے کے وقت عموما مفلس لوگ پہنچ جایا کرتے ہیں انہیں کچھ دے دیا کرو ۔
بالیں پک گئی ہوں، پھل گدرا گئے ہوں اور کوئی محتاج شخص نکل آئے تو خاطر تواضع کرو۔
جس روز کاٹو کچھ چھوڑ دو تا کہ مسکینوں کے کام آئے ان کے جانوروں کا چارہ ہو زکوتہ سے پہلے بھی حقداروں کو کچھ دیتے رہا کرو ۔
پہلے تو یہ بطور وجوب تھا لیکن زکوتہ کی فرضیت کے بعد بطور نقل رہ گیا ۔
زکوتہ میں عشر یا نصف عشر مقرر کر دی گئی لیکن اس سے فسخ نہ سمجھا جائے ۔
پہلے کچھ دینا ہوتا تھا پھر مقدار مقرر کر دی گئی زکوتہ کی مقدار سن 2 ہجری میں مقرر ہوئی ۔۔واللہ اعلم ۔
کھیتی کاٹتے وقت اور پھل اتارتے وقت صدقہ نہ دینے والوں کی اللہ تعالی نے مذمت بیان فرمائی ہے سورت قلم میں ان کا قصہ بیان فرمایا کہ ان باغ والوں نے قسمیں کھا کر کہا صبح ہوتے ہی آج کے پھل ہم اتار لیں گے اس پر انہوں نے ان شاءاللہ بھی نہ کہا ۔
یہ ابھی رات کو بے خبری کی نیند میں تھے وہاں آفت ناگہانی آ گئی اور سارا باغ ایسا ہو گیا کہ پھل گویا توڑ لیا گیا ہے بلکہ جلا کر خاکستر کر دیا گیا ہے ۔
یہ صبح کو اٹھ کر ایک دوسرے کو جگا کر پوشیدہ طور پر چپ چاپ چلے کہ ایسا نہ ہو حسب عادت فقیر و مساکین جمع ہو جائیں اور انہیں کچھ دینا پڑے یہ اپنے دلوں میں یہی سوچتے ہوئے کہ پھل ابھی توڑ لائیں گے بڑے اہتمام کے ساتھ صبح سویرے وہاں پہنچے تو کیا دیکھتے ہیں کہ سارا باغ تو وہ خاک بنا ہوا ہے اولا تو کہنے لگے بھئی ہم راستہ بھول گئے کسی اور جگہ آ گئے ہمارا باغ تو شام تک لہلہا رہا تھا پھر کہنے لگے نہیں باغ تو وہی ہے ہماری قسمت پھوٹ گئی ہم محروم ہو گئے ۔
اس وقت ان میں سے جو با خبر شخص تھا کہنے لگا دیکھو میں تمہیں کہتا نہ تھا کہ اللہ کا شکر کرو اس کی پاکیزگی بیان کرو ۔
اب تو سب کے سب کہنے لگے ہمارا رب پاک ہے یقینا ہم نے ظلم کیا ہے پھر ایک دوسرے کو ملامت کرنے لگے کہ افسوس ہماری بد بختی کہ ہم سرکش حد سے گزر جانے والے بن گئے ۔
ہمیں اب بھی اپنے پرودگار سے امید ہے کہ ہمیں بہتر عطا فرمائے ہم اب صرف اپنے اللہ سے امید رکھتے ہیں کہ وہ ہمیں اس سے بہتر عطا فرمائے ہم اب صرف اپنے اللہ سے رغبت رکھتے ہیں ۔
نا شکری کرنے والے اور تنہا خوری کرنے والوں پر اسی طرح ہمارے عذاب آیا کرتے ہیں اور آخرت کے اور بھی بڑے عذاب باقی ہیں لیکن افسوس کہ یہ سمجھ بوجھ اور علم و عقل سے کام لیتے نہیں لیتے ۔
یہاں اس آیت میں صدقہ دینے کا حکم فرما کر خاتمے پر فرمایا کہ فضول خرچ اللہ کا دوست نہیں ۔
اپنی اوقات سے زیادہ نہ لٹا فخر اور ریاکاری کے لیے اپنا مال برباد نہ کر ۔
حضرت ثابت بن قیس بن شماس رضی اللہ عنہ نے اپنے کھجوروں کے باغ سے کھجوریں اتاریں اور عہد کر لیا کہ آج جو لینے آئے گا میں اسے دوں گا لوگ ٹوٹ پڑے شام تک ان کے پاس ایک کھجور بھی نہ تھی ۔
اس پر یہ فرمان اترا ۔
ہر چیز میں اسراف منع ہے ۔
اللہ کے حکم سے تجاوز کر جانے کا نام اسراف ہے خواہ وہ کسی بارے میں ہو۔
اپنا سارا مال لوٹا کر فقیر ہو کر دوسروں پر اپنا انبار ڈال دینا بھی اسراف ہے ۔اور منع ہے۔
یہ بھی مطلب ہے کہ صدقہ نہ روکو جس سے اللہ کے نا فرمان بن جاو یہ بھی اسراف ہے گو یہ مطلب اس آیت کے ہیں لیکن بہ ظاہر الفاظ یہ معلوم ہوتا ہے کہ پہلے کھانے کا ذکر ہے تو اسراف اپنے کھانے پینے میں کرنے کی ممانت یہاں ہے کیونکہ اس سے عقل میں اور بدن میں ضرر پہنچتا ہے ۔
قرآن کریم کی اور آیت میں ہے((کلوا واشربوا ولا تسرافوا))((سورت الاعراف 31))
کھاو پیو اور اسراف نہ کرو ۔صحیح بخاری شریف میں ہے کہ کھاو پیو پہنو اوڑھو لیکن اسراف اور تکبر سے بچو واللہ اعلم ۔
((صحیح بخاری تعلیقا کتاب اللباس ))اسی اللہ نے تمہارے لئے چوپائے پیدا کئے ہیں ان میں سے بعض تو بوجھ ڈھونے والے ہیں جیسے اونٹ گھوڑے خچر گدھے وغیرہ اور بعض پستہ قد ہیں جیسے بکری وغیرہ ۔
انہیں فرش اس لئے کہا گیا ہے کہ یہ قد و قامت میں پست ہوتے ہیں زمیں سے ملے رہتے ہیں ۔
یہ بھی کہا گیا ہے کہ حمولہ سے مراد سواری کے جانور اور فرشا سے مراد جن کا دودھ پیا جاتا ہے اور جن کا گوشت کھایا جاتا ہے جو سواری کے قابل نہیں ان کے بالوں سے لحاف اور فرش تیار ہوتے ہیں ۔
یہ قول حضرت سدی رح کا ہے۔
اور بہت ہی مناسب ہے خود قرآن کی سورہ یاسین میں موجود ہے کہ کیا انہوں نے اس بات پر نظر نہیں کی؟
کہ ہم نے ان کے لیے چوپائے پیدا کر دئیے ہیں جو ہمارے ہی ہاتھوں کے بنائے ہوئے ہیں اور اب یہ ان کے مالک بن بیٹھے ہیں ہم نے ہی انہیں انکے بس میں کر دیا ہے کہ بعض پر یہ سواریاں کر رکھ ہیں اور بعض کو یہ کھانے کے کام میں لاتے ہیں ۔
اور آیت میں ہے((وان لکم فی الانعام لعبرتہ))((سورہ النخل))
الخ،مطلب یہ ہے کہ ہم تمہیں ان چوپاوں کا دودھ پلاتے ہیں اور ان کے بال اون وغیرہ سے تمہارے اوڑھنے بچھانے اور طرح طرح کے فائدے اٹھانے کی چیزیں بناتے ہیں اور جگہ ہے اللہ وہ ہے جس نے تمہارے لئے چوپائے جانور پیدا کئے تا کہ تم ان پر سواریاں کرو انہیں کھاو اور بھی فائدے اٹھاو ان پر اپنے سفر طے کر کے اپنے کام پورے کرو اسی نے تمہاری سواری کے لیے کشتیاں بنائیں وہ تمہیں اپنی بے شمار نشانیاں دکھا رہا ہے بتاو تو کس کس نشانی کا انکار کرو گے؟ ؟
پھر فرماتا ہے کہ اللہ کی روزی کھاو پھل اناج گوشت وغیرہ ۔
شیطانی راہ پر نہ چلو اس کی تابعداری نہ کرو جیسے کہ مشرکوں نے اللہ کی چیزوں میں از خود حلال کی تقسیم کر دی تم نے بھی یہ کر کے شیطان کے ساتھی نہ بنو وہ تمہارا کھلا دشمن ہے اسے دوست نہ سمجھو۔
وہ تو اپنے ساتھ تمہیں بھی اللہ کے عذابوں میں پھنسانا چاہتا ہے ۔
دیکھو کہیں اس کے بہکاوے میں نہ آ جانا اسی نے تمہارے باپ آدم علیہ السلام کو جنت سے باہر نکلوا دیا ۔
اس کھلے دشمن کو بھولے سے بھی اپنا دوست نہ سمجھنا ۔
اس کی ذریت سے اور اس کے یاروں سے بھی بچو ۔
یاد رکھو ظالموں کو برابر بدلہ ملے گا۔