• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تفسیر سورۃ الکھف ۔

BilalAhmad

مبتدی
شمولیت
جنوری 22، 2016
پیغامات
4
ری ایکشن اسکور
0
پوائنٹ
6
سبق نمبر ۲
سورۃ الکھف (6 تا 12)
بسم اللہ الرحمان الرحیم
قال اللہ تعالیٰ فی القرآن المجید

فَلَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَّفْسَكَ عَلَىٰ آثَارِهِمْ إِن لَّمْ يُؤْمِنُوا بِهَٰذَا الْحَدِيثِ أَسَفًا (6
اس آیت مبارکہ میں اللہ رب العزت نے بہت پیارے انداز میں بتایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کس طرح رحمۃ للعالمین ہیں ۔فرمایا اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم آپ کہیں اپنے آپ کو ھلاک نہ کر لیجۓ گا کہ وہ اس قرآن پر ایمان کیوں نہیں لے کر آتے یعنی آپکو اتنا شدید غم ھے کہ آپ خود کو ہلاکت میں نہ ڈال لیں
پریشانی کیا تھی؟ کہ کفار آپ پر ایمان کیوں نہیں لا تے ۔۔قریش کے سردار زور لگا رھے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت کو کچل کر رکھ دیں ۔صحابہ کرام جو نومسلم تھے اور غلاموں پرظلم کے پہاڑ توڑ رھے تھے اور اسلام سے پھیرنے کے لیے طرح طرح کی ترکیبیں اختیار کر رھے تھے ۔رسول ﷽صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی اذیتیں دینے میں کوئ کسر نہیں چھوڑ رھے تھے ۔رسول﷽ کو غم یہ نہیں تھا کہ مجھے اتنی تکلیفیں کیوں دی جا رہی ہیں بلکہ رحمۃ للعالمین کو یہ فکر تھی کہ یہ نادانی اور جھالت کی وجہ سے ایمان نہ لاکر خود کو جہنم کا ایندھن بنا رھے ھیں ۔
رسول﷽صلی اللہ علیہ وسلم کی ناقدری کا واقعہ
واقعہ طا ئف رسول﷽صلی اللہ وسلم کی زندگی کا بھت تکلیف ترین مرحلہ تھا جب اللہ کے حکم سے فرشتے نے کہا کہ آپ لبوں کو حرکت دے کر اجازت دے دیں میں اس طائف نام کی بستی کا وجود ختم کردونگا ۔رسول ﷽ نے رحمۃ للعالمین ھونے کا ثبوت دیا اور فرمایا ھو سکتا ھے انکی آنے والی نسلوں میں کوئ اللہ کا نام لینے والا آ جاۓ ۔آج وہی طائف بستی مسلمانوں کی بستی ھے الحمد للہ
عمل کی بات
یہ آیت مبارکہ ھمیں بتاتی ھے کہ داعی دین کے دل میں کفا رکے لیے نفرت نہیں ھونی چاھیے بلکہ خیرخواہی اور محبت کے جذبات ھونے چاھیں ۔یہ فکر ھونی چاھیے کہ کس طرح انکو جہنم کی آگ سے بچانا ھے اور انکی آخرت کو سنوارنا ھے ۔

اس آیت مبارکہ میں اللہ رب العزت نے بہت پیارے انداز میں بتایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کس طرح رحمۃ للعالمین ہیں ۔فرمایا اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم آپ کہیں اپنے آپ کو ھلاک نہ کر لیجۓ گا کہ وہ اس قرآن پر ایمان کیوں نہیں لے کر آتے یعنی آپکو اتنا شدید غم ھے کہ آپ خود کو ہلاکت میں نہ ڈال لیں
پریشانی کیا تھی؟ کہ کفار آپ پر ایمان کیوں نہیں لا تے ۔۔قریش کے سردار زور لگا رھے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت کو کچل کر رکھ دیں ۔صحابہ کرام جو نومسلم تھے اور غلاموں پرظلم کے پہاڑ توڑ رھے تھے اور اسلام سے پھیرنے کے لیے طرح طرح کی ترکیبیں اختیار کر رھے تھے ۔رسول ﷽صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی اذیتیں دینے میں کوئ کسر نہیں چھوڑ رھے تھے ۔رسول﷽ کو غم یہ نہیں تھا کہ مجھے اتنی تکلیفیں کیوں دی جا رہی ہیں بلکہ رحمۃ للعالمین کو یہ فکر تھی کہ یہ نادانی اور جھالت کی وجہ سے ایمان نہ لاکر خود کو جہنم کا ایندھن بنا رھے ھیں ۔
رسول﷽صلی اللہ علیہ وسلم کی ناقدری کا واقعہ
واقعہ طا ئف رسول﷽صلی اللہ وسلم کی زندگی کا بھت تکلیف ترین مرحلہ تھا جب اللہ کے حکم سے فرشتے نے کہا کہ آپ لبوں کو حرکت دے کر اجازت دے دیں میں اس طائف نام کی بستی کا وجود ختم کردونگا ۔رسول ﷽ نے رحمۃ للعالمین ھونے کا ثبوت دیا اور فرمایا ھو سکتا ھے انکی آنے والی نسلوں میں کوئ اللہ کا نام لینے والا آ جاۓ ۔آج وہی طائف بستی مسلمانوں کی بستی ھے الحمد للہ
عمل کی بات
یہ آیت مبارکہ ھمیں بتاتی ھے کہ داعی دین کے دل میں کفا رکے لیے نفرت نہیں ھونی چاھیے بلکہ خیرخواہی اور محبت کے جذبات ھونے چاھیں ۔یہ فکر ھونی چاھیے کہ کس طرح انکو جہنم کی آگ سے بچانا ھے اور انکی آخرت کو سنوارنا ھے ۔ آیت نمبر(۷)

) إِنَّا جَعَلْنَا مَا عَلَى الْأَرْضِ زِينَةً لَّهَا لِنَبْلُوَهُمْ أَيُّهُمْ أَحْسَنُ عَمَلًا (7)


ترجمہ۔۔۔بیشک ھم نے اس زمین کے اوپرجو بنایا ھے وہ زینت ھے ،نمودونما ئش ھے تاکہ ہم آزمائیں کہ کون نیک اعمال کرتا ھے
دنیا کی رعنائی انسان کے لئے بہت بڑی آزمائش ھے ۔جوں جوں مال بڑھتا جاتا ھے ،ماحول فرنشڈ ھوتا جاتا ھے انسان اللہ سے اور دین سے دور ھوتا چلا جاتا ھے ۔نہ نمازوں کی فکر رہتی ھے اور نہ ذکرواذکار کی ۔اگر کہا جائے کہ یہی فتنہ دجال ھے تو غلط نہ ھوگا ۔دنیا کی محبت نے انسان کو جکڑا ھوا ھے اور آج مسلمان اپنی موت سے غافل ھو چکا ھے ۔اللہ نے اسکی حقیقت کو واضح کیا ھوا ھے کہ یہ تو صرف نمودونمائش ھے اور یہ آزمائش ھے کہ کون اسکو چھوڑ کر ہم سے لو لگاتا ھے اور کون اسکی خاطر ہمیں چھوڑتا ھے

آیت نمبر(۸)

وَإِنَّا لَجَاعِلُونَ مَا عَلَيْهَا صَعِيدًا جُرُزًا (8)

پھرآگے فرمایا کہ ہم اس ذمین کو بنجر کرنے والے ھیں ۔آج انسان مقابلے میں آکر ایک دوسرے سے بڑی بڑی بلڈنگز بنا رہا ھے ۔اللہ تعالیٰ نے ایک دن سبکو ختم کرکے چٹیل میدان بنا دینا ھے اور باقی رھنے والی صرف اور صرف اللہ کی ذات ھوگی اور انسان کے کام آنے والے صرف اسکے نیک اعمال ھونگے ۔
[7:08 PM, 12/30/2016] نالج آف اسلام ایڈمن: آیت نمبر (۹)

أَمْ حَسِبْتَ أَنَّ أَصْحَابَ الْكَهْفِ وَالرَّقِيمِ كَانُوا مِنْ آيَاتِنَا عَجَبًا (9)

اس آ یت سے اصحاب الکھف کا واقعہ شروع ھو رھا ھے ۔ مختصر واقعہ کچھ یوں ھے
یہ واقعہ چند نوجوانوں کا ھے جنہوں نے غار میں پناہ لی ۔یہ نوجوان شہر افوس کے رہنے والے تھے اور یہ شہر 11 صدی قبل مسیح میں تعمیر ھوا اور یہ بت پرستی کا بہت بڑا مرکز تھا ۔اس میں ایک دیوی کی پرستش کی جاتی تھی اور رومی سلطنت بھی اسی دیوی کی پرستش کرتی تھی ۔حضرت عیسیٰ کی تعلیم کے بعد جب لوگ عیسایئت کی طرف آنے لگے تو بادشاہ وقت نے سختیاں کرنا شروع کر دی ۔اگر کوئی دین سے نہ پھرتا تو اسکو قتل کر دیتا تھا ۔جب بادشاہ کو ان نوجوانوں کا پتہ چلا ،دربار میں بلایا اور 3 دن کی مہلت دی کہ واپس اپنے دین میں آجاو نہیں تو قتل کر دئیے جاوگے ۔ان نوجوانوں نے بادشاہ کی دربار میں علی الاعلان کہا کہ ھم اللہ کی توحید کو ماننے والے ھیں ۔3 دن کی مہلت سے فائدہ اٹھاتے ھوئے وھاں سے نکلے ۔راستے میں غار نظر آئی اس میں پناہ لے لی ۔راستے میں ایک کتا بھی ساتھ ھو لیا ۔کچھ مفسرین کہتے کہ یہ انکا پالتو تھا ۔جب غار میں لیٹے تو اللہ نے معجزانہ طور پر انکو سلادیا ۔کتا غار کے باہرداخل ھونے والے راستے پر بیٹھ گیا ۔۔آتے جاتے لوگ جب انکو دیکھتے تو خوف کھا کر واپس پلٹ جاتے ۔زمانہ گزرتا رھا اور لوگ عیسا ئیت قبول کرتے رھے.
309 سال بعد اللہ نے انکو دوبارہ بیدارکیا ۔تب اس شہر کے لوگ بت پرستی چھوڑ کر عیسائیت قبول کر چکے تھے ۔ابھی ان لوگوں کا آخرت پر ایمان ابھی پختہ نہیں ھواتھا کہ بھلا مرنے کے بعد دوبارہ اللہ انکو کیسے زندہ کرے گا ۔جب یہ نوجوان بیدار ھوئے تو ایک دوسرے سے سونے کا وقت پوچھا ۔کسی نے کہا ایک دن تو کسی نے کہا اس سے بھی تھوڑا وقت ۔پھر ایک ساتھی کو چاندی کا سکہ دے کر کچھ ھدایات کے ساتھ کھانا لینے کے لئے بھیجا ۔جب دکاندار نے یہ سکہ دیکھا تو بہت حیران ھوا اور پوچھا کہ یہ خزانہ کہاں سے ملا ۔اس نے کہا خزانہ کیا ؟یہ تو میرا اپنا ھے ۔اس دکاندار نے دوسرے لوگوں کو بتایا تو بات اس وقت کے گورنر تک جا پہنچی ۔اس نوجوان کو بتایا کہ یہ تو آج سے صدیوں پہلے کا سکہ ھے اور آپ کہ رھے ھو کہ یہ کل کا ھے ۔۔خیر اسکو لیکر غار تک گئے تو لوگوں نے اسکے ساتھیوں کو بھی دیکھا اور پھر اللہ نے انکو ادھر ھی ھمیشہ کی نیند سلادیا ۔جب یہ بادشاہ کی دربار سے نکلے تھے تو اس نے انکے نام لکھواکر سرکاری خزانے میں جمع کرادئیے تھے ۔یہ معروف تھے اس لئے لوگ انکو پہچان گئے اور ان پر مرنے کے بعد دوبارہ اٹھنے کا عقیدہ واضح ھوگیا ۔اور اسی جگہ پر عالیشان عمارت تعمیر کی گئی آیت نمبر(۱۰)

* إِذْ أَوَى الْفِتْيَةُ إِلَى الْكَهْفِ فَقَالُوا رَبَّنَا آتِنَا مِن لَّدُنكَ رَحْمَةً وَهَيِّئْ لَنَا مِنْ أَمْرِنَا رَشَدًا (10)*
ترجمہ "جب ان نوجوانوں نے پناہ لی تو انہوں نے کہا اے ہمارے رب ہمیں اپنے پاس سے رحمت دے اور ہمارے کام میں ہمارے لئے راہ یابی کو آسان کر دے".
یہ یقین اور اعتماد کی بہت بڑی مثال ھے جب انسان سب کچھ رب کی خاطر چھوڑ دیتا ھے اسکا یقین صرف رب کی ذات پر ہوتا ھے ,رب کی خاطر پوری کا ئنات سے ٹکر لے لیتا ہے اور بادشاہ وقت کے سامنے بھی کھڑا ہونے سے خوف نہیں کھاتا. : آیت نمبر (۱۱)

فَضَرَبْنَا عَلَىٰ آذَانِهِمْ فِي الْكَهْفِ سِنِينَ عَدَدًا (11
ترجمہ "پس تھپکی دی ہم نے انکے کانوں پر ,پھر غار میں کئ سالوں تک انکو سلا دیا "
کانوں کا ذکر خاص اسلئے کیا .جب انسان سوتا ھے تو سب سے پہلے اسکے کان سوتے ہیں .کان بہت حساس بھی ہوتے ہیں ,ہلکی سی آہٹ پر آنکھ کل جاتی ھے ,ہاں کچھ لوگوں کی نیند بہت پختہ ھوتی ھے .نیند میں کانوں کا کردار بہت اہم ہوتا ھے .اگر یہ سوتے رہیں تو انسان بھی کافی دیر سوتا رہتا ھے .اللہ نے ان نوجوانوں کے کانوں کو سلا دیا اور وہ اتنے سال سوئے رھے .

آیت نمبر (۱۲)

* ثُمَّ بَعَثْنَاهُمْ لِنَعْلَمَ أَيُّ الْحِزْبَيْنِ أَحْصَىٰ لِمَا لَبِثُوا أَمَدًا*
"پھر انکو ہم نے اٹھا کھڑا کیا کہ یہ معلوم کر لیں کہ دونوں گروہوں میں سے اس انتہائ مدت کو جو انہوں نے گزاری ھے کس نے زیادہ یاد رکھی ھے "
جب یہ اٹھے تو ان میں سے ایک گروہ کہتا اتنی مدت سوئے دوسرا اسکی نفی کرتا..
جاری ھے
By
shaikh bilal ahmad
 
Top