• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تفسیر سورۃ یوسف

شمولیت
اپریل 13، 2019
پیغامات
80
ری ایکشن اسکور
7
پوائنٹ
41
تفسیر سورۃ یوسف

(پہلا رکوع)
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ ۝
شروع اللہ کے نام سے جو سب پر مہربان ہے، بہت مہربان ہے
الۗرٰ ۣ تِلْكَ اٰيٰتُ الْكِتٰبِ الْمُبِيْنِ ۝ۣ
الر۔ یہ اس کتاب کی آیتیں ہیں جو حق واضح کرنے والی ہے۔
تفسیر: جس کا من عنداللہ ہونا بالکل واضح ہے اور جن احکام و شرائع یا مواعظ و نصائح پر وہ مشتمل ہے نہایت روشن اور صاف ہیں۔
اِنَّآ اَنْزَلْنٰهُ قُرْءٰنًا عَرَبِيًّا لَّعَلَّكُمْ تَعْقِلُوْنَ ۝
ہم نے اس کو ایسا قرآن بنا کر اتارا ہے جو عربی زبان میں ہے، تاکہ تم سمجھ سکو۔
تفسیر: یعنی عربی زبان جو تمام زبانوں میں زیادہ فصیح و وسیع اور منضبط و پرشوکت زبان ہے، نزول قرآن کے لیے منتخب کی گئی۔ جب خود پیغمبر عربی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں تو ظاہر ہے کہ دنیا میں اس کے اولین مخاطب عرب ہوں گے ۔ پھر عرب کے ذریعہ سے چاروں طرف یہ روشنی پھیلے گی۔تمہاری زبان میں اتارنے کی ایک وجہ یہ ہے کہ تم جو پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی قوم ہو اول اس کے علوم و معارف کا مزہ چکھو پھر دوسروں کو چکھاؤ۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا۔
نَحْنُ نَقُصُّ عَلَيْكَ اَحْسَنَ الْقَصَصِ بِمَآ اَوْحَيْنَآ اِلَيْكَ ھٰذَا الْقُرْاٰنَ ڰ وَاِنْ كُنْتَ مِنْ قَبْلِهٖ لَمِنَ الْغٰفِلِيْنَ ۝
(اے پیغمبر) ہم نے تم پر یہ قرآن جو وحی کے ذریعے بھیجا ہے اس کے ذریعے ہم تمہیں ایک بہترین واقعہ سناتے ہیں، جبکہ تم اس سے پہلے اس (واقعے سے) بالکل بےخبر تھے۔
تفسیر: یعنی قرآن میں اس وحی (سورت) کے نزول سے پہلے آپ اس واقعہ سے واقف نہیں تھے۔
اِذْ قَالَ يُوْسُفُ لِاَبِيْهِ يٰٓاَبَتِ اِنِّىْ رَاَيْتُ اَحَدَ عَشَرَ كَوْكَبًا وَّالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ رَاَيْتُهُمْ لِيْ سٰجِدِيْنَ ۝
( یہ اس وقت کی بات ہے) جب یوسف نے اپنے والد (یعقوب (علیہ السلام)) سے کہا تھا کہ : ابا جان ! میں نے (خواب میں) گیارہ ستاروں اور سورج اور چاند کو دیکھا ہے۔ میں نے دیکھا ہے کہ یہ سب مجھے سجدہ کر رہے ہیں۔
تفسیر: مفسرین نے کہا ہے کہ گیارہ ستاروں سے مراد حضرت یوسف (علیہ السلام) کے بھائی ہیں جو گیارہ تھے چاند سورج سے مراد ماں اور باپ ہیں اور خواب کی تعبیر چالیس یا اسی سال کے بعد اس وقت سامنے آئی جب یہ سارے بھائی اپنے والدین سمیت مصر گئے اور وہاں حضرت یوسف (علیہ السلام) کے سامنے سجدہ ریز ہوگئے، جیسا کہ یہ تفصیل سورت کے آخر میں آئے گی۔
قَالَ يٰبُنَيَّ لَا تَقْصُصْ رُءْيَاكَ عَلٰٓي اِخْوَتِكَ فَيَكِيْدُوْا لَكَ كَيْدًا ۭ اِنَّ الشَّيْطٰنَ لِلْاِنْسَانِ عَدُوٌّ مُّبِيْنٌ ۝
انھوں نے کہا : بیٹا ! اپنا یہ خواب اپنے بھائیوں کو نہ بتانا، کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ تمہارے لیے کوئی سازش تیار کریں، کیونکہ شیطان انسان کا کھلا دشمن ہے۔
تفسیر: ۱۔حضرت یعقوب (علیہ السلام) کو معلوم تھا کہ یوسف (علیہ السلام) نے جو خواب دیکھا ہے اس کی تعبیر یہ ہے کہ یوسف (علیہ السلام) کو اتنا اونچا مقام ملنے والا ہے کہ ان کے گیارہ بھائی اور ماں باپ کسی وقت ان کے مطیع اور فرمان بردار ہوجائیں گے، دوسری طرف صورت حال یہ تھی کہ حضرت یعقوب (علیہ السلام) کے کل بارہ بیٹے تھے، ان میں سے دوبیٹے یعنی حضرت یوسف (علیہ السلام) اور بنیامین ایک والدہ سے تھے اور باقی صاحب زادے ان کی دوسری اہلیہ سے تھے، حضرت یعقوب (علیہ السلام) کو اندیشہ ہوا کہ دوسرے سوتیلے بھائیوں کو اس خواب کی وجہ سے حسد نہ ہو، اور شیطان کے بہکائے میں آکر یوسف (علیہ السلام) کے خلاف کوئی کارروائی نہ کر بیٹھیں۔
۲۔ شیطان چونکہ انسان کا ازلی دشمن ہے اس لیے وہ انسانوں کو بہکانے، گمراہ کرنے اور انھیں حسد و بغض میں مبتلا کرنے میں ہر وقت کوشاں اور تاک میں رہتا ہے۔ چنانچہ یہ شیطان کے لیے بڑا اچھا موقع تھا کہ وہ حضرت یوسف (علیہ السلام) کے خلاف بھائیوں کے دلوں میں حسد اور بغض کی آگ بھڑکا دے۔ جیسا کہ فی الواقع بعد میں اس نے ایسا ہی کیا اور حضرت یعقوب (علیہ السلام) کا اندیشہ درست ثابت ہوا۔

وَكَذٰلِكَ يَجْتَبِيْكَ رَبُّكَ وَيُعَلِّمُكَ مِنْ تَاْوِيْلِ الْاَحَادِيْثِ وَيُـــتِمُّ نِعْمَتَهٗ عَلَيْكَ وَعَلٰٓي اٰلِ يَعْقُوْبَ كَمَآ اَتَمَّــهَا عَلٰٓي اَبَوَيْكَ مِنْ قَبْلُ اِبْرٰهِيْمَ وَاِسْحٰقَ ۭ اِنَّ رَبَّكَ عَلِيْمٌ حَكِيْمٌ ۝ۧ
اور اسی طرح تمہارا پروردگار تمہیں (نبوت کے لیے) منتخب کرے گا، (٢) اور تمہیں تمام باتوں کا صحیح مطلب نکالنا سکھائے گا ( جس میں خوابوں کی تعبیر کا علم بھی داخل ہے) اور تم پر اور یعقوب کی اولاد پر اپنی نعمت اسی طرح پوری کرے گا جیسے اس نے اس سے پہلے تمہارے ماں باپ پر اور ابراہیم اور اسحاق پر پوری کی تھی۔ یقینا تمہارا پروردگار علم کا بھی مالک ہے، حکمت کا بھی مالک۔
تفسیر: ۱۔” تَاوِیل الاَحَا دیثِ “ کا مطلب محض تعبیر خواب کا علم نہیں ہے جیسا کہ گمان کیا گیا ہے، بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ تجھے معاملہ فہمی اور حقیقت رسی کی تعلیم دے گا اور وہ بصیرت تجھ کو عطا کرے گا جس سے تو ہر معاملہ کی گہرائی میں اترنے اور اس کی تہہ کو پالینے کے قابل ہوجائے گا۔
۲۔بائیبل اور تلمود کا بیان: بائیبل اور تلمود کا بیان قرآن کے اس بیان سے مختلف ہے۔ ان کا بیان یہ ہے کہ حضرت یعقوب (علیہ السلام) نے خواب سن کر بیٹے کو خوب ڈانٹا اور کہا، اچھا اب تو یہ خواب دیکھنے لگا ہے کہ میں اور تیری ماں اور تیرے سب بھائی تجھے سجدہ کریں گے۔ لیکن ذرا غور کرنے سے بآسانی یہ بات سمجھ میں آسکتی ہے کہ حضرت یعقوب (علیہ السلام) کی پیغمبرانہ سیرت سے قرآن کا بیان زیادہ مناسبت رکھتا ہے نہ کہ بائیبل اور تلمود کا۔ حضرت یوسف (علیہ السلام) نے خواب بیان کیا تھا، کوئی اپنی تمنا اور خواہش نہیں بیان کی تھی خواب اگر سچا تھا، اور ظاہر ہے کہ حضرت یعقوب (علیہ السلام) نے جو اس کی تعبیر نکالی وہ سچا خواب ہی سمجھ کر نکالی تھی، تو اس کے صاف معنی یہ تھے کہ یہ یوسف (علیہ السلام) کی خواہش نہیں تھی بلکہ تقدیر الٰہی کا فیصلہ تھا کہ ایک وقت ان کو یہ عروج حاصل ہوا۔ پھر کیا ایک پیغمبر تو درکنار ایک معقول آدمی کا بھی یہ کام ہوسکتا ہے کہ ایسی بات پر برا مانے اور خواب دیکھنے والے کوالٹی ڈانٹ پلائے ؟ اور کیا کوئی شریف باپ ایسا بھی ہوسکتا ہے جو اپنے ہی بیٹے کے آئندہ عروج کی بشارت سن کر خوش ہونے کے بجائے الٹا جل بھن جائے ؟
 

اٹیچمنٹس

Top