التقليد اتباع الغير علي ظن انه محق بلا نظر في الدليل
(النامي شرح حسامي : 19)
تو میں نے ان سے کہا کہ ظن پر چلنے سے تو منع کیا گیا ہے۔ اور ساتھ یہ آیت انہیں دکھائی۔
وما یتبع اکثرھم الا ظنا ان الظن لا یغنی من الحق شیئا______الخ سورہ الیونس آیت ۳۶
السلام علیکم ورحمۃ اللہ
پہلے سیاق کے ساتھ اس آیت کریمہ کو دیکھ لیں :
قُلْ هَلْ مِنْ شُرَكَائِكُمْ مَنْ يَبْدَأُ الْخَلْقَ ثُمَّ يُعِيدُهُ قُلِ اللَّهُ يَبْدَأُ الْخَلْقَ ثُمَّ يُعِيدُهُ فَأَنَّى تُؤْفَكُونَ﴿34﴾ قُلْ هَلْ مِنْ شُرَكَائِكُمْ مَنْ يَهْدِي إِلَى الْحَقِّ قُلِ اللَّهُ يَهْدِي لِلْحَقِّ أَفَمَنْ يَهْدِي إِلَى الْحَقِّ أَحَقُّ أَنْ يُتَّبَعَ أَمَّنْ لَا يَهِدِّي إِلَّا أَنْ يُهْدَى فَمَا لَكُمْ كَيْفَ تَحْكُمُونَ﴿35﴾ وَمَا يَتَّبِعُ أَكْثَرُهُمْ إِلَّا ظَنًّا إِنَّ الظَّنَّ لَا يُغْنِي مِنَ الْحَقِّ شَيْئًا إِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ بِمَا يَفْعَلُونَ﴿36﴾
ترجمہ :
آپ فرمادیجیئے : کہ کیا تمہارے شرکا میں کوئی ایسا ہے جو پہلی بار بھی پیدا کرے، پھر دوباره بھی پیدا کرے؟ آپ کہہ دیجئے کہ اللہ ہی پہلی بار پیدا کرتا ہے پھر وہی دوباره بھی پیدا کرے گا۔ پھر تم کہاں پھرے جاتے ہو؟۔ (34) آپ کہیے کہ تمہارے شرکا میں کوئی ایسا ہے کہ حق کا راستہ بتاتا ہو؟ آپ کہہ دیجئے کہ اللہ ہی حق کا راستہ بتاتا ہے۔ تو پھر آیا جو شخص حق کا راستہ بتاتا ہو وه زیاده اتباع کے ﻻئق ہے یا وه شخص جس کو بغیر بتائے خود ہی راستہ نہ سوجھے؟ پس تم کو کیا ہوگیا ہے تم کیسے فیصلے کرتے ہو۔ (35) اور ان میں سے اکثر لوگ صرف گمان پر چل رہے ہیں۔ یقیناً گمان حق کے مقابلہ میں کچھ بھی کام نہیں دے سکتا ، یہ جو کچھ کررہے ہیں یقیناً اللہ کو سب خبر ہے۔ (36)
ـــــــــــــــــــــــــــ
ان آیات میں یقیناً تقلید کا رد بلیغ ہے ، اور دلیل و علم کی نفی کرکےظن و گمان کی بنیاد پر شرک و کفر پر ڈٹے رہنے کا رد ہے ،
یہاں
مجرد گمان یعنی گمان محض جو حق کے مقابل واقع ہو اس کا ذکر ہے ۔کیونکہ صاف الفاظ ہیں کہ :
(
إِنَّ الظَّنَّ لَا يُغْنِي مِنَ الْحَقِّ شَيْئًا ۔یقیناً گمان ،حق کے مقابلہ میں کچھ بھی کام نہیں دے سکتا )
علامہ ابن کثیر ؒ ان آیات کی تفسیر میں فرماتے ہیں :
ثُمَّ بَيَّنَ تَعَالَى أَنَّهُمْ لَا يَتَّبِعُونَ فِي دِينِهِمْ هَذَا دَلِيلًا وَلَا بُرْهَانًا، وَإِنَّمَا هُوَ ظَنٌّ مِنْهُمْ، أَيْ: تَوَهُّمٌ وَتَخَيُّلٌ، وَذَلِكَ لَا يُغْنِي عَنْهُمْ شَيْئًا،
یعنی اللہ رب العزت ان آیت میں واضح فرماتا ہے کہ مشرکین اپنے خود ساختہ دین و مذھب میں کسی دلیل و برہان کی پیروی نہیں کرتے ،بلکہ ان کا مذہب محض گمان اور توہم وتخیل پر مبنی ہے جو ان کے کسی کام کی چیز نہیں "
علامہ قاضی ثناء اللہ پانی پتی حنفیؒ اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں :
وَما يَتَّبِعُ أَكْثَرُهُمْ فيما يعتقدونه إِلَّا ظَنًّا غير مستند الى برهان عقلى او نقلى بل الى خيالات فارغة وأقيسة فاسدة كقياس الغائب على الشاهد والخالق على المخلوق بأدنى مشاركة موهومة والمراد بالأكثر المجموع او من ينتمى منهم الى تميز ونظر ولا يرضى بالتقليد الصرف إِنَّ الظَّنَّ لا يُغْنِي اى لا يفيد مِنَ الْحَقِّ من العلم والاعتقاد الحق شَيْئاً من الإغناء او لا يفيد شيئا كائنا من الحق وفيه دليل على انه لا يجوز فى الاعتقاديات الاكتفاء بالظن والتقليد بل لا بد فيه من تحصيل العلم بالبرهان النقلى او العقلي إِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ بِما يَفْعَلُونَ (36) وعيد على الاعراض عن الحجج العقلية والنقلية اتباعا للظن والتقليد-. ( تفسیر مظہری )
ان میں اکثر اپنے عقیدہ کے معاملہ میں کسی عقلی اور نقلی دلیل کی بجائے صرف اپنے ظن و گمان اور نکمے خیالات ،اور فاسد قیاسوں پر چلتے ہیں ،
غائب کو حاضر اورخالق کو مخلوق پر (محض موہوم اشتراک کی بنیاد پر ) قیاس کرنا ایک بے حقیقت گمان کے سوا کچھ نہیں ،
اور یہاں اکثر سے مراد جمیع کفار ہیں (کیونکہ شرک کی دلیل کسی کے پاس نہیں لہذا سب کفار و مشرکین گمان کے پیروکار ہیں ) یا اکثر سے مراد ان میں سے وہ لوگ ہیں جو تمیز اور غور وفکر اہل ہونے کا ،اور اندھی تقلید سے دور ہونے کا دعوی بھی رکھتے ہیں، لیکن حقیقت میں محض گمانوں ہی کی پیروی میں لگے ہیں، (کسی قسم کی دلیل کا علم ان کے پاس بھی نہیں )
(إِنَّ الظَّنَّ لا يُغْنِي ) بلاشبہ حق کے مقابل ظن و گمان کی کوئی حیثیت نہیں ،
اور یہاں اس بات کی واضح دلیل ہے کہ عقائد میں ظن و گمان اور تقلید جائز نہیں ، بلکہ اعتقاد کیلئے علم اور عقلی و نقلی دلیل کا علم ہونا لازم ہے ،
اسی لیئے آیت کے اختتام پر فرمایا کہ (إِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ بِما يَفْعَلُونَ ) کہ اللہ تعالی ان کے اس رویہ کو خوب جانتا ہے ،" جو دراصل ظن و گمان کی پیروی میںعقلی و نقلی دلائل سے اعراض پر ایک وعید (ڈراوا ) ہے ،
(تفسیر مظہری )
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خلاصہ یہ کہ :
اس آیت میں تقلید کا واضح رد ہے ،اور یہ مشرکین و کفار کی اس تقلید کی مذمت ہے جس میں مبتلا ہوکر وہ اپنے کفر و شرک پر ڈٹے ہوئے تھے ،
جس سے یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ :
وہ ظن و گمان کی پیروی اور تقلید اصلاً غلط اور گمراہ کن راستہ ہے جو دلیل اور حق کے مقابل لاتا ہے ،