- شمولیت
- اگست 25، 2014
- پیغامات
- 6,372
- ری ایکشن اسکور
- 2,588
- پوائنٹ
- 791
پیر کرم شاہ الازہری اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں :
وَمَا يَتَّبِعُ أَكْثَرُهُمْ إِلَّا ظَنًّا إِنَّ الظَّنَّ لَا يُغْنِي مِنَ الْحَقِّ شَيْئًا إِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ بِمَا يَفْعَلُونَ﴿36﴾
ترجمہ : اور نہیں پیروی کرتے ان میں سے اکثر مگر محض وہم و گمان کی ، بلاشبہ وہم و گمان بےنیاز نہیں کرسکتا حق سے ذرہ بھر بیشک اللہ تعالیٰ خوب جانتا ہے۔ جو وہ کرتے ہیں۔ 59
لفظ ” ظن “ عربی زبان میں مختلف معانی میں استعمال ہوتا ہے۔ صاحب تاج العروس نے لفظ ” ظن “ کی تحقیق کرتے ہوئے لکھا ہے :۔ وفی البصائر وقدورو الظن فی القرآن مجملا علی اربعۃ وجہ بمعنی الیقین و بمعنی الشک و بمعنی التھمۃ و بمعنی الحسبان۔ ترجمہ :۔ بصائر (لغت کی ایک معتبر کتاب) میں ہے کہ قرآن کریم میں لفظ ” ظن “ چار معنوں میں استعمال ہوا ہے۔ اور وہ معانی یہ ہیں :۔ یقین۔ شک۔ تہمت اور وہم و گمان۔
اس آیت میں ظن کا لفظ حسبان (یعنی وہم و گمان) میں مستعمل ہوا ہے۔ امام زمخشری نے لکھا ہے الظن، الوھم، والخیال۔ یعنی یہاں ظن کا معنی وہم و گمان ہے۔ منکرین حدیث نے اس لفظ سے بڑا غلط فائدہ اٹھانے کی کوشش کی ہے۔ وہ بڑی شدومد سے کہتے ہیں کہ علماء اصول نے تصریح کی ہے کہ خبر واحد (حدیث کی ایک قسم) سے ظن حاصل ہوتا ہے اور ظن کے اتباع سے قرآن نے سختی سے منع کیا ہے اور اسے کفار و مشرکین کا شیوہ بتایا ہے کہ وہ ظن کی پیروی کرتے ہیں تو قرآن کی ان تصریحات سے صاف صاف معلوم ہوا کہ ظن کا اتباع جائز نہیں اور خبر واحد کیونکہ ظن کا فائدہ دیتی ہے اس لیے اس کا اتباع کرنا منشا خداوندی کے خلاف ہے۔ اس لیے وہ احادیث جو خبر واحد ہیں اور بیشتر وہ احادیث جن سے احکام مستنبط ہوتے ہیں وہ خبر واحد ہیں۔ اس لیے وہ ساقط الاعتبار ہوں گی اور واجب العمل نہ ہوں گی۔
اس لیے جاننا چاہیے کہ علمای اصول نے ظن کو ایک مخصوص معنی میں استعمال کیا ہے اور قرآن نے جس ظن کے اتباع سے روکا ہے وہ ظن کا چوتھا معنی ہے۔ اس لیے ہم جس ظن کی پیروی کرتے ہیں وہ اور ہے۔ ہر جگہ ظن کا ایک معنی مراد لینا قرآن کریم کے ساتھ بےانصافی اور عربی لغت کے ساتھ ظلم عظیم ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمارے حال زار پر رحم فرما دے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور تفسیر اشرف الحواشی میں اس آیت کے ذیل میں ہے :
۔ یعنی ان مشرکین میں اکثریت ایسے لوگوں کی ہے جو اللہ تعالیٰ کا قرار تو کرتے ہیں مگر اس اقرار کی بنیاد ظن اور تخمین پر ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ کے متعلق اپنے اسلاف سے سنی سنائی باتوں کی اتباع کرت ہیں۔ ورنہ ان کے پاس کوئی دلیل نہیں ہے۔ اور یہ مطلب بھی ہوسکتا ہے کہ ان کی بت پرستی کی بیاد کسی دلیل پر نہیں ہے بلکہ اپنے باپ دادا کی پیروی کر رہے ہیں اور انہوں نے یہ گمان کرلیا ہے کہ ہمارے باپ دادا ٹھیک تھے۔ اس صورت میں اکثر بمعنی کل ہوگا۔ (کبیر) ۔ یہی حال ہمارے زمانہ کے جاہل مسلمانوں کا ہے جو بزرگوں کی قربیں پوجتے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ بزرگ اور اولیاء اللہ کے کارخانہ کے مختار ہیں۔ ایسے ہی بہت سے احمقوں نے شاہ پری، جن پری وغیرہ بنا رکھے ہیں۔ (از سلفیہ) ۔
ف 3 ۔ یعنی دین کی بنیاد تو یقین پر ہے۔ محض اٹکل پچوا۔ باپ دادا کی اندھی تقلید پر نہیں ہے۔ یہاں ” ظن “ سے مراد وہ ظن ہے جو حسن کے خلاف ہو ورنہ ” ظن “ کے معنی یقین بھی آجاتے ہیں۔ (دیکھئے سورة بقرہ آیت 04) اور جو خبر متواتر نہ ہو اس کو بھی اہل اصول ظنی کہہ دیتے ہیں۔ اگر وہ صحیح اور حسن کے درجہ میں ہو تو واجب العمل ہیں۔ یہ امت محمدیہ کا اجماعی اور متفقہ عقیدہ ہے۔ اس لئے حدیث کو محض ظنی کہہ کر ہم رد نہیں کرسکتے۔
وَمَا يَتَّبِعُ أَكْثَرُهُمْ إِلَّا ظَنًّا إِنَّ الظَّنَّ لَا يُغْنِي مِنَ الْحَقِّ شَيْئًا إِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ بِمَا يَفْعَلُونَ﴿36﴾
ترجمہ : اور نہیں پیروی کرتے ان میں سے اکثر مگر محض وہم و گمان کی ، بلاشبہ وہم و گمان بےنیاز نہیں کرسکتا حق سے ذرہ بھر بیشک اللہ تعالیٰ خوب جانتا ہے۔ جو وہ کرتے ہیں۔ 59
لفظ ” ظن “ عربی زبان میں مختلف معانی میں استعمال ہوتا ہے۔ صاحب تاج العروس نے لفظ ” ظن “ کی تحقیق کرتے ہوئے لکھا ہے :۔ وفی البصائر وقدورو الظن فی القرآن مجملا علی اربعۃ وجہ بمعنی الیقین و بمعنی الشک و بمعنی التھمۃ و بمعنی الحسبان۔ ترجمہ :۔ بصائر (لغت کی ایک معتبر کتاب) میں ہے کہ قرآن کریم میں لفظ ” ظن “ چار معنوں میں استعمال ہوا ہے۔ اور وہ معانی یہ ہیں :۔ یقین۔ شک۔ تہمت اور وہم و گمان۔
اس آیت میں ظن کا لفظ حسبان (یعنی وہم و گمان) میں مستعمل ہوا ہے۔ امام زمخشری نے لکھا ہے الظن، الوھم، والخیال۔ یعنی یہاں ظن کا معنی وہم و گمان ہے۔ منکرین حدیث نے اس لفظ سے بڑا غلط فائدہ اٹھانے کی کوشش کی ہے۔ وہ بڑی شدومد سے کہتے ہیں کہ علماء اصول نے تصریح کی ہے کہ خبر واحد (حدیث کی ایک قسم) سے ظن حاصل ہوتا ہے اور ظن کے اتباع سے قرآن نے سختی سے منع کیا ہے اور اسے کفار و مشرکین کا شیوہ بتایا ہے کہ وہ ظن کی پیروی کرتے ہیں تو قرآن کی ان تصریحات سے صاف صاف معلوم ہوا کہ ظن کا اتباع جائز نہیں اور خبر واحد کیونکہ ظن کا فائدہ دیتی ہے اس لیے اس کا اتباع کرنا منشا خداوندی کے خلاف ہے۔ اس لیے وہ احادیث جو خبر واحد ہیں اور بیشتر وہ احادیث جن سے احکام مستنبط ہوتے ہیں وہ خبر واحد ہیں۔ اس لیے وہ ساقط الاعتبار ہوں گی اور واجب العمل نہ ہوں گی۔
اس لیے جاننا چاہیے کہ علمای اصول نے ظن کو ایک مخصوص معنی میں استعمال کیا ہے اور قرآن نے جس ظن کے اتباع سے روکا ہے وہ ظن کا چوتھا معنی ہے۔ اس لیے ہم جس ظن کی پیروی کرتے ہیں وہ اور ہے۔ ہر جگہ ظن کا ایک معنی مراد لینا قرآن کریم کے ساتھ بےانصافی اور عربی لغت کے ساتھ ظلم عظیم ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمارے حال زار پر رحم فرما دے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور تفسیر اشرف الحواشی میں اس آیت کے ذیل میں ہے :
۔ یعنی ان مشرکین میں اکثریت ایسے لوگوں کی ہے جو اللہ تعالیٰ کا قرار تو کرتے ہیں مگر اس اقرار کی بنیاد ظن اور تخمین پر ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ کے متعلق اپنے اسلاف سے سنی سنائی باتوں کی اتباع کرت ہیں۔ ورنہ ان کے پاس کوئی دلیل نہیں ہے۔ اور یہ مطلب بھی ہوسکتا ہے کہ ان کی بت پرستی کی بیاد کسی دلیل پر نہیں ہے بلکہ اپنے باپ دادا کی پیروی کر رہے ہیں اور انہوں نے یہ گمان کرلیا ہے کہ ہمارے باپ دادا ٹھیک تھے۔ اس صورت میں اکثر بمعنی کل ہوگا۔ (کبیر) ۔ یہی حال ہمارے زمانہ کے جاہل مسلمانوں کا ہے جو بزرگوں کی قربیں پوجتے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ بزرگ اور اولیاء اللہ کے کارخانہ کے مختار ہیں۔ ایسے ہی بہت سے احمقوں نے شاہ پری، جن پری وغیرہ بنا رکھے ہیں۔ (از سلفیہ) ۔
ف 3 ۔ یعنی دین کی بنیاد تو یقین پر ہے۔ محض اٹکل پچوا۔ باپ دادا کی اندھی تقلید پر نہیں ہے۔ یہاں ” ظن “ سے مراد وہ ظن ہے جو حسن کے خلاف ہو ورنہ ” ظن “ کے معنی یقین بھی آجاتے ہیں۔ (دیکھئے سورة بقرہ آیت 04) اور جو خبر متواتر نہ ہو اس کو بھی اہل اصول ظنی کہہ دیتے ہیں۔ اگر وہ صحیح اور حسن کے درجہ میں ہو تو واجب العمل ہیں۔ یہ امت محمدیہ کا اجماعی اور متفقہ عقیدہ ہے۔ اس لئے حدیث کو محض ظنی کہہ کر ہم رد نہیں کرسکتے۔