عبدالمجید رانا
رکن
- شمولیت
- اپریل 23، 2013
- پیغامات
- 46
- ری ایکشن اسکور
- 53
- پوائنٹ
- 31
اسلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکۃ!
مسعود احمد بی ایس سی نے ایک کتاب "تفہیم اسلام" لکھی ہےجو کہ "دو اسلام" کا رد ہے یہ کتاب انکار حدیث کے متعلق تھی۔
لیکن تفہیم اسلام میں مسعود صاحب نے کچھ ایسی باتیں بھی لکھ دی ہے جن کی میں اصل حقیقت جاننا چاہتا ہوں۔
مسعود صاحب نے لکھا ہے کہ:
نیز لکھا کہ:
پھر لکھ دیا کہ:
مزید لکھا کہ:
ایک اور مقام پر لکھا:
مزید لکھ دیا کہ:
مزید رقم طراز ہوئے:
(تفہیم اسلام ص۵۰۵تا۵۰۸)
ازواج مطہرات کی توہین
ایک اور مقام پر لکھا دیا کہ:
مسعود صاحب نے لکھا کہ:
مسعودصاحب لکھتے ہیں کہ قرآن مجید میں ہے کہ:
مسعود صاحب کے ان آیات سے استدلال کرنا کتنی حد تک صحیح ہے اہل علم حضرات سے گزارش ہے کہ رہنمائی فرمائے؟
مسعود احمد بی ایس سی نے ایک کتاب "تفہیم اسلام" لکھی ہےجو کہ "دو اسلام" کا رد ہے یہ کتاب انکار حدیث کے متعلق تھی۔
لیکن تفہیم اسلام میں مسعود صاحب نے کچھ ایسی باتیں بھی لکھ دی ہے جن کی میں اصل حقیقت جاننا چاہتا ہوں۔
مسعود صاحب نے لکھا ہے کہ:
(تفہیم اسلام:ص۴۵)"قرآن مجید اکثر مقامات میں تشریح اصطلاحی کا محتاج ہے۔"
نیز لکھا کہ:
(تفہیم اسلام ص ۴۸،۲۲۶)قرآن مجید کی متعدد آیات پر عمل کرنا ممکن نہیں---غرض کہ اس قسم کی بہت سی آیات ہیں جو ناقابل عمل ہیں----بعض آیتیں ایسی ہیں کہ اگر ان کو حدیث کی روشنی میں نہ دیکھا جائے تو بالکل مہمل نظر آتی ہیں---"قرآن ہر لحاظ سے ایک مکمل کتاب ہے"-یہ ایک خوشنما جملہ تو ضرور ہے لیکن حقیقت کچھ بھی نہیں،نماز کا طریقہ اس میں ہے نہ کسی اور عمل کا،اور پھر بھی وہ ہر لحاظ سے مکمل ہے!یہ عجیب بات ہے۔
پھر لکھ دیا کہ:
(تفہیم اسلام ص ۲۱۵،۲۱۶)حدیث میں ہر چیز کی تفصیل ہے----حدیث کی تشریح کیلئے قرآن مجید کی کیا ضرورت ہے لیکن برخلاف اس کے----قرآن مجید کی تشریح کیلئے حدیث کی ضرورت پیش آئے گی،مطلب یہ کہ قرآن مجید کی تشریح کے لئے حدیث کی احتیاج و ضرورت ہے۔
مزید لکھا کہ:
(تفہیم اسلام ص ۲۱۴،۲۱۵)بہت سی احادیث وحی جلی کے ذریعہ نازل ہوئیں اور بالکل اسی کیفیت سے نازل ہوئیں،جس طرح قرآن مجید نازل ہوا تھا---وحی خفی کا سلسلہ صرف ایک حد تک احادیث پر حاوی ہے ورنہ احادیث کا معتدبہ حصہ وحی جلی کے ذریعہ یعنی وحی مشل قرآن کے ذریعے نازل ہوا تھا۔
ایک اور مقام پر لکھا:
(تفہیم اسلام ص ۲۲۳)حدیث کی کتابت ،حدیث کی حفاظت کیلئے لازمی شے نہیں،بلکہ حدیث پر جو عمل تواتر سے ہر زمانہ میں ہوتا رہا۔یہی اس کی اصل حفاظت ہے اور یہ ایسی حفاظت ہے کہ تقریبا پورا قرآن مجید اس حفاظت میں احادیث کی برابری نہیں کرتا۔
مزید لکھ دیا کہ:
(تفہیم اسلام ص ۲۵۵)قرآن مجید کی قطعیت پر تو قرآن مجید کی آیات سے بھی چوٹ پڑتی ہے
مزید رقم طراز ہوئے:
(تفہیم اسلام ص ۵۰۳)اس قسم کی تقریبا سو آیات پیش کی جا سکتی ہیں جو تعلیمات قرآنی کے خلاف نظر آتی ہیں
رسول اللہﷺ کی توہین
عَبَسَ وَتَوَلَّىٰٓ أَن جَآءَهُ ٱلۡأَعۡمَىٰ
رسول ؐنے تیوری چڑہائی اور منہ پھیر لیا جب کہ اس کے پاس ایک نابینا آیا۔(عبس ۱،۲)
بتائیے کیا اس آیت میں شان رسالت کی توہین نہیں کہ اخلاق کریمانہ کے مجسمہ کو بداخلاق بتایا گیا ہے۔پھر یہ آیت قرآنی تعلیمات کے بھی خلاف ہے۔قرآن مجید کی تعلیم اس آیت میں بیان ہوئی ہے جو درج ذیل ہے:-
وَإِنَّكَ لَعَلَىٰ خُلُقٍ عَظِيمٍ۬
"اور(اے رسولؐ)آپ کے اخلاق عظیم الشان ہیں"(القلم ۴)
لہذا عبس کی مذکورہ بالاآیت دو طرح سے محل نظر ہے اول تو توہین رسول کے لحاظ سے دوم قرآنی تعلیم یعنی سورہ قلم کی مذکورہ بالا آیت سے متعارض ہونے کی لحاظ سے۔
إِنَّا فَتَحۡنَا لَكَ فَتۡحً۬ا مُّبِينً۬ا لِّيَغۡفِرَ لَكَ ٱللَّهُ مَا تَقَدَّمَ مِن ذَنۢبِكَ وَمَا تَأَخَّرَ
ہم نے آپ کو فتح مبین دے دی ہے تاکہ اللہ تعالٰی آپکے اگلے اور پچھلے گناہ معاف کر دے۔(الفتح ۱،۲)
دوسری جگہ ارشاد ہے۔
وَٱسۡتَغۡفِرۡ لِذَنۢبِكَ
"(اے رسول) اپنے گناہوں کی معافی مانگیئے۔"(محمد 19)
خلاصہ
الغرض ان آیات اور ان جیسی آیات سے توہین انبیاء ظاہر ہوتی ہے۔بتایئے ان آیات کے بارے میں کیا کہا جائے گا
(تفہیم اسلام ص۵۰۵تا۵۰۸)
ازواج مطہرات کی توہین
(تفہیم اسلام ص ۵۰۸)دو ازواج مطہرات کے بارے میں قرآن مجید کہتا ہے:-"اگر تم توبہ کرو تو(اچھا ہے)اس لئے کہ تمہارے دل ٹیٹرے ہو گئے ہیں۔
إِن تَتُوبَآ إِلَى ٱللَّهِ فَقَدۡ صَغَتۡ قُلُوبُكُمَاۖ
(التحریم ۴)
یہ وہ جماعت ہے جو تمام عورتوں سے افضل ہے لیکن سورۃ تحریم کی مندرجہ بالاآیت سے ان میں سے بعض کے قلوب کی کجی ظاہر ہوتی ہے کیا یہ ان ازواج مطہرات کی توہین نہیں
مزید ایک اور مقام پر لکھا کہ:
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی توہین
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی توہین
(تفہیم اسلام ص ۵۰۸ تا ۵۱۱)"اللہ نے اپنا وعدہ سچا کر دیا جب کہ تم اس کے حکم سے کافروں کو قتل کر رہے تھے،یہاں تک کہ جب تم نے بردلی دکھائی،اور حکم رسولؐ میں اختلاف کیا اور خاطر خواہ فتح آجانے کے بعد تم نے (رسول کی)نافرمانی کی۔تم میں سے بعض دنیا کے طالب ہیں اور بعض آخرت کے۔"(ال عمران ۱۵۲)
اللہ تعالٰی کا ارشاد ہے:
وَلَقَدۡ صَدَقَڪُمُ ٱللَّهُ وَعۡدَهُ ۥۤ إِذۡ تَحُسُّونَهُم بِإِذۡنِهِۦۖ حَتَّىٰٓ إِذَا فَشِلۡتُمۡ وَتَنَـٰزَعۡتُمۡ فِى ٱلۡأَمۡرِ وَعَصَيۡتُم مِّنۢ بَعۡدِ مَآ أَرَٮٰكُم مَّا تُحِبُّونَۚ مِنڪُم مَّن يُرِيدُ ٱلدُّنۡيَا وَمِنڪُم مَّن يُرِيدُ ٱلۡأَخِرَةَۚ
إِنَّ ٱلَّذِينَ تَوَلَّوۡاْ مِنكُمۡ يَوۡمَ ٱلۡتَقَى ٱلۡجَمۡعَانِ إِنَّمَا ٱسۡتَزَلَّهُمُ ٱلشَّيۡطَـٰنُ بِبَعۡضِ مَا كَسَبُواْۖ وَلَقَدۡ عَفَا ٱللَّهُ عَنۡہُمۡۗ إِنَّ ٱللَّهَ غَفُورٌ حَلِيمٌ۬
"تم میں سے جن لوگوں نے میدان جنگ سے منہ موڑا،یہ اس لئے ہوا کہ شیطان نے ان کے بعض گناہوں کے سبب ان کو پھسلا دیا اور تحقیق اللہ نے انہیں معاف کر دیا اور بے شک اللہ غفور اور حلیم ہے۔"
(العمران ۱۵۵)
گناہ کئے،شیطان نے بہکایا،میدان چھوڑ کر بھاگ گئے،یہ سب کچھ صحابہ رضی اللہ عنہم نے کیا پھر۔اور پھر مزا یہ کہ اللہ تعالیٰ نے بغیر توبہ کے معاف کر دیا۔
ثُمَّ أَنزَلَ عَلَيۡكُم مِّنۢ بَعۡدِ ٱلۡغَمِّ أَمَنَةً۬ نُّعَاسً۬ا يَغۡشَىٰ طَآٮِٕفَةً۬ مِّنكُمۡۖ وَطَآٮِٕفَةٌ۬ قَدۡ أَهَمَّتۡہُمۡ أَنفُسُہُمۡ يَظُنُّونَ بِٱللَّهِ غَيۡرَ ٱلۡحَقِّ ظَنَّ ٱلۡجَـٰهِلِيَّةِۖ
"پھر الله تعالیٰ نے اس غم کے بعد تم پر چین بھیجا (یعنی اونگھ)کہ تم میں سے ایک جماعت پر تو اس کا غلبہ ہوا اورایک جماعت وہ تھی کہ اس کو اپنی جان ہی کی فکر پڑی ہوئی تھی وہ لوگ الله کے متعلق جاہلیت کا گمان کررہے تھے"
(العمران ۱۵۴)
وَإِذَا رَأَوۡاْ تِجَـٰرَةً أَوۡ لَهۡوًا ٱنفَضُّوٓاْ إِلَيۡہَا وَتَرَكُوكَ قَآٮِٕمً۬اۚ
اور یہ لوگ جب کوئی تجارت یا تماشہ دیکھتے ہیں تو اس کی طرف چلے جاتے ہیں اور آپ کو کھڑا چھوڑ جاتے ہیں۔
(الجمعہ ۱۱)
وَيَوۡمَ حُنَيۡنٍۙ إِذۡ أَعۡجَبَتۡڪُمۡ كَثۡرَتُڪُمۡ فَلَمۡ تُغۡنِ عَنڪُمۡ شَيۡـًٔ۬ا----- ثُمَّ وَلَّيۡتُم مُّدۡبِرِينَ
"جب حنین کی لڑائی میں تم نے اپنی کژت پر ناز کیا اور پھر کوئی چیز تمہارے کام نہ آئی----پھر تم پیٹھ پھیر کر بھاگے۔
(آلتوبۃ ۲۵)
إِنَّ فَرِيقً۬ا مِّنَ ٱلۡمُؤۡمِنِينَ لَكَـٰرِهُونَ يُجَـٰدِلُونَكَ فِى ٱلۡحَقِّ بَعۡدَ مَا تَبَيَّنَ كَأَنَّمَا يُسَاقُونَ إِلَى ٱلۡمَوۡتِ وَهُمۡ يَنظُرُونَ
"مؤمنین کی ایک جماعت جہاد سے نفرت کرتی تھی،وہ حق ظاہر ہو جانے کے بعد حق کے معاملہ میں اے رسول آپ سے جھگڑا کر رہے تھے،گویا ان کو ان کی آنکھوں دیکھے موت کے منہ میں دھکیلا جارہا تھا۔"
(الانفال ۵،۶)
یہ ہے جنگ بدر میں صحابہ کی ایک جماعت کا نقشہ ---
عَلِمَ ٱللَّهُ أَنَّڪُمۡ كُنتُمۡ تَخۡتَانُونَ أَنفُسَڪُمۡ فَتَابَ عَلَيۡكُمۡ وَعَفَا عَنكُمۡۖ فَٱلۡـَٔـٰنَ بَـٰشِرُوهُنَّ وَٱبۡتَغُواْ مَا ڪَتَبَ ٱللَّهُ لَكُمۡۚ
اللہ تعالٰی نےمعلوم کر لیا کہ تم اپنی جانوں سے خیانت کرتے تھے۔پس اللہ رحمت کے ساتھ تمہاری طرف متوجہ ہوا۔اور تمہارا قصور معاف کر دیا اب تم اپنی بیویوں سے مل جل سکتے ہو اور جو اللہ تعالٰی نے تمہارے لئے لکھ دیا ہے اس کی جستجو بھی کر سکتے ہو۔"
(البقرۃ: ۱۸۷)
اس آیت سے معلوم ہوا کہ صحابہ کرام روزہ کی حالت مین جماع کر بیٹھے تھے کیا اس آیت میں توہین صحابہ نہیں؟
خلاصہ یہ کہ کیا مندرجہ بالا آیات سے صحابہ کی توہین نہیں ہوتی؟
ایک اور مقام پر لکھا دیا کہ:
(تفہیم اسلام ص ۵۱۷)جو نقصان کافروں سے تمہیں پہنچا تم اس سے دگنا انہیں پہنچا چکے ہو۔(ال عمران آیت نمبر ۱۶۵)
یہ مسلمہ تاریخی واقعہ ہے کہ جنگ بدر میں ستر ۷۰ کافر قتل ہوئے اور جنگ احد میں ستر ۷۰ مسلم شہید ہوئے یعنی دونوں کا نقصان برابر تھا لیکن قرآن مجید کی مذکورہ بالا آیت کافروں کا نقصان دوگنا بتاتی ہے لہذا یہ آیت مسلمہ تاریخی واقعہ کے خلاف ہے اب بتایئے اس آیت کے متعلق کیا کہیں؟
مسعود صاحب نے لکھا کہ:
(تفہیم اسلام ص۵۳۰)اللہ تعالٰی کی شان کے خلاف بات ---قرآن مجید میں ضرور مل جاتی ہے:-مشلا
إِنَّ ٱلَّذِينَ يُؤۡذُونَ ٱللَّهَ وَرَسُولَهُ ۥ لَعَنَہُمُ ٱللَّهُ فِى ٱلدُّنۡيَا وَٱلۡأَخِرَةِ
"بے شک جو لوگ اللہ تعالٰی اور اس کے رسول کو ایذا پہنچاتے ہیں ان پر اللہ کی لعنت ہے،دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی۔"
(الاحزاب ۵۷)
اس آیت میں اللہ تعالٰی کو تکلیف پہنچانا مذکور ہے تو کیا یہ آیت اللہ تعالٰی کی شان کے خلاف ہے۔
ٱللَّهُ يَسۡتَہۡزِئُ بِہِمۡ
اللہ ان سے مذاق کرتا ہے۔
(البقرۃ ۱۵)
وَمَن يُضۡلِلِ ٱللَّهُ فَلَن تَجِدَ لَهُ ۥ سَبِيلاً۬
"اور جس کو اللہ گمراہ کرے اس کے لئے تمہیں ہرگز راستہ نہیں ملے گا۔"
(النساء ۸۸)
ظاہر معنوں کے لحاظ سے تو ہم یہی کہہ سکتے ہیں کہ یہ آیات قرآن مجید میں نہیں ہو سکتیں،کیونکہ یہ اللہ تعالٰی کی شان اقدس کے خلاف ہیں لیکن یہ قرآن مجید کی آیتیں ہیں۔"
مسعودصاحب لکھتے ہیں کہ قرآن مجید میں ہے کہ:
(تفہیم اسلام ص ۵۳۰)
فَلَمَّا جَآءَهَا نُودِىَ أَنۢ بُورِكَ مَن فِى ٱلنَّارِ وَمَنۡ حَوۡلَهَا وَسُبۡحَـٰنَ ٱللَّهِ رَبِّ ٱلۡعَـٰلَمِينَ يَـٰمُوسَىٰٓ إِنَّهُ ۥۤ أَنَا ٱللَّهُ ٱلۡعَزِيزُ ٱلۡحَكِيمُ
"جب موسیٰ علیہ السلام اس آگ کے پاس آئے تو آواز آئی کہ جو ہستی آگ میں ہے وہ برکت والی ہے اور جو اس کے آس پاس ہے وہ بھی برکت والا ہے۔پاک ہے وہ اللہ جو رب العالمین ہے اے موسیٰ وہ ہستی میں ہوں زبردست اور حکمت والا۔"
(النمل ۸،۹)
کیا ان آیات سے آتش پرستی کو تقویت نہیں پہنچتی؟
(تفہیم اسلام ص ۵۳۱ تا ۵۳۲)اگر کوئی حدیث کسی قرآنی آیت کے خلاف ہو تو وہ موضوع ہے تو کیا اگر کوئی قرآنی آیت کسی دوسری آیت کے خلاف ہو تو وہ بھی موضوع ہے یا نہیں؟اگر وہ آیت موضوع نہیں تو حدیث کیوں؟آپ کہیں گے کہ ایسی تو کوئی بھی آیت نہیں جو دوسری آیت کے خلاف ہو ،ہم کہتے ہیں کہ ایسی بہت سی آیات ہیں،ملاحظہ فرمایئے
تَنزِيلٌ۬ مِّن رَّبِّ ٱلۡعَـٰلَمِينَ
۱۔یہ قرآن مجید رب العالمین کی طرف سے نازل ہوا ہے۔
(الحاقۃ ۴۳)
إِنَّهُ ۥ لَقَوۡلُ رَسُولٍ۬ كَرِيمٍ۬
۱۔یہ رسول کریم کا قول ہے۔
(التکویر ۱۹،الحاقۃ ۴۰)
ایک آیت سے معلوم ہوا کہ یہ قرآن مجید اللہ تعالٰی کا کلام ہے دوسری آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہﷺ کا قول ہے یا کسی فرشتہ کا۔
فَلَمَّا جَآءَهَا نُودِىَ أَنۢ بُورِكَ مَن فِى ٱلنَّارِ وَمَنۡ حَوۡلَهَا وَسُبۡحَـٰنَ ٱللَّهِ رَبِّ ٱلۡعَـٰلَمِينَ يَـٰمُوسَىٰٓ إِنَّهُ ۥۤ أَنَا ٱللَّهُ ٱلۡعَزِيزُ ٱلۡحَكِيمُ
۲۔پس جب موسیٰ علیہ السلام آگ کے پاس پہنچے تو آواز آئی کہ جو ہستی آگ میں اور آگ کے اطراف میں ہے وہ برکت والی ہے اور اللہ رب العالمین پاک ہے اے موسیٰ وہ ہستی میں ہوں اللہ زبردست حکمت والا۔
(النمل ۸،۹)
فَلَمَّآ أَتَٮٰهَا نُودِىَ مِن شَـٰطِىِٕ ٱلۡوَادِ ٱلۡأَيۡمَنِ فِى ٱلۡبُقۡعَةِ ٱلۡمُبَـٰرَڪَةِ مِنَ ٱلشَّجَرَةِ أَن يَـٰمُوسَىٰٓ إِنِّىٓ أَنَا ٱللَّهُ رَبُّ ٱلۡعَـٰلَمِينَ
۲۔ پس جب موسیٰ علیہ السلام آگ کے پاس پہنچے تو وادی ایمن کے کنارے سے ایک مبارک مقام میں ایک درخت سے آواز آئی کہ اے ،موسیٰ میں اللہ رب العالمین ہوں۔(القصص:۳۰)
پہلی آیت میں ہے کہ آگ سے آواز آئی اور دوسری میں کہ درخت سے آواز آئی۔
وَإِذۡ وَٲعَدۡنَا مُوسَىٰٓ أَرۡبَعِينَ لَيۡلَةً۬
۳۔اور جب ہم نے موسیٰ سے چالیس رات کا وعدہ لیا۔
(البقرۃ ۵۱)
وَوَٲعَدۡنَا مُوسَىٰ ثَلَـٰثِينَ لَيۡلَةً۬
۳ ۔اور ہم نے موسیٰ ستے تیس رات کا وعدہ لیا۔
(الاعراف ۱۴۲)
مسعود صاحب کے ان آیات سے استدلال کرنا کتنی حد تک صحیح ہے اہل علم حضرات سے گزارش ہے کہ رہنمائی فرمائے؟