• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تفہیم اسلام پر ایک نظر

شمولیت
اپریل 23، 2013
پیغامات
46
ری ایکشن اسکور
53
پوائنٹ
31
اسلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکۃ!
مسعود احمد بی ایس سی نے ایک کتاب "تفہیم اسلام" لکھی ہےجو کہ "دو اسلام" کا رد ہے یہ کتاب انکار حدیث کے متعلق تھی۔
لیکن تفہیم اسلام میں مسعود صاحب نے کچھ ایسی باتیں بھی لکھ دی ہے جن کی میں اصل حقیقت جاننا چاہتا ہوں۔
مسعود صاحب نے لکھا ہے کہ:
"قرآن مجید اکثر مقامات میں تشریح اصطلاحی کا محتاج ہے۔"
(تفہیم اسلام:ص۴۵)
نیز لکھا کہ:
قرآن مجید کی متعدد آیات پر عمل کرنا ممکن نہیں---غرض کہ اس قسم کی بہت سی آیات ہیں جو ناقابل عمل ہیں----بعض آیتیں ایسی ہیں کہ اگر ان کو حدیث کی روشنی میں نہ دیکھا جائے تو بالکل مہمل نظر آتی ہیں---"قرآن ہر لحاظ سے ایک مکمل کتاب ہے"-یہ ایک خوشنما جملہ تو ضرور ہے لیکن حقیقت کچھ بھی نہیں،نماز کا طریقہ اس میں ہے نہ کسی اور عمل کا،اور پھر بھی وہ ہر لحاظ سے مکمل ہے!یہ عجیب بات ہے۔
(تفہیم اسلام ص ۴۸،۲۲۶)
پھر لکھ دیا کہ:


حدیث میں ہر چیز کی تفصیل ہے----حدیث کی تشریح کیلئے قرآن مجید کی کیا ضرورت ہے لیکن برخلاف اس کے----قرآن مجید کی تشریح کیلئے حدیث کی ضرورت پیش آئے گی،مطلب یہ کہ قرآن مجید کی تشریح کے لئے حدیث کی احتیاج و ضرورت ہے۔
(تفہیم اسلام ص ۲۱۵،۲۱۶)
مزید لکھا کہ:


بہت سی احادیث وحی جلی کے ذریعہ نازل ہوئیں اور بالکل اسی کیفیت سے نازل ہوئیں،جس طرح قرآن مجید نازل ہوا تھا---وحی خفی کا سلسلہ صرف ایک حد تک احادیث پر حاوی ہے ورنہ احادیث کا معتدبہ حصہ وحی جلی کے ذریعہ یعنی وحی مشل قرآن کے ذریعے نازل ہوا تھا۔
(تفہیم اسلام ص ۲۱۴،۲۱۵)
ایک اور مقام پر لکھا:


حدیث کی کتابت ،حدیث کی حفاظت کیلئے لازمی شے نہیں،بلکہ حدیث پر جو عمل تواتر سے ہر زمانہ میں ہوتا رہا۔یہی اس کی اصل حفاظت ہے اور یہ ایسی حفاظت ہے کہ تقریبا پورا قرآن مجید اس حفاظت میں احادیث کی برابری نہیں کرتا۔
(تفہیم اسلام ص ۲۲۳)
مزید لکھ دیا کہ:


قرآن مجید کی قطعیت پر تو قرآن مجید کی آیات سے بھی چوٹ پڑتی ہے
(تفہیم اسلام ص ۲۵۵)
مزید رقم طراز ہوئے:


اس قسم کی تقریبا سو آیات پیش کی جا سکتی ہیں جو تعلیمات قرآنی کے خلاف نظر آتی ہیں
(تفہیم اسلام ص ۵۰۳)
رسول اللہﷺ کی توہین
عَبَسَ وَتَوَلَّىٰٓ أَن جَآءَهُ ٱلۡأَعۡمَىٰ

رسول ؐنے تیوری چڑہائی اور منہ پھیر لیا جب کہ اس کے پاس ایک نابینا آیا۔(عبس ۱،۲)
بتائیے کیا اس آیت میں شان رسالت کی توہین نہیں کہ اخلاق کریمانہ کے مجسمہ کو بداخلاق بتایا گیا ہے۔پھر یہ آیت قرآنی تعلیمات کے بھی خلاف ہے۔قرآن مجید کی تعلیم اس آیت میں بیان ہوئی ہے جو درج ذیل ہے:-
وَإِنَّكَ لَعَلَىٰ خُلُقٍ عَظِيمٍ۬
"اور(اے رسولؐ)آپ کے اخلاق عظیم الشان ہیں"(القلم ۴)
لہذا عبس کی مذکورہ بالاآیت دو طرح سے محل نظر ہے اول تو توہین رسول کے لحاظ سے دوم قرآنی تعلیم یعنی سورہ قلم کی مذکورہ بالا آیت سے متعارض ہونے کی لحاظ سے۔
إِنَّا فَتَحۡنَا لَكَ فَتۡحً۬ا مُّبِينً۬ا لِّيَغۡفِرَ لَكَ ٱللَّهُ مَا تَقَدَّمَ مِن ذَنۢبِكَ وَمَا تَأَخَّرَ
ہم نے آپ کو فتح مبین دے دی ہے تاکہ اللہ تعالٰی آپکے اگلے اور پچھلے گناہ معاف کر دے۔(الفتح ۱،۲)
دوسری جگہ ارشاد ہے۔
وَٱسۡتَغۡفِرۡ لِذَنۢبِكَ
"(اے رسول) اپنے گناہوں کی معافی مانگیئے۔"(محمد 19)
خلاصہ
الغرض ان آیات اور ان جیسی آیات سے توہین انبیاء ظاہر ہوتی ہے۔بتایئے ان آیات کے بارے میں کیا کہا جائے گا

(تفہیم اسلام ص۵۰۵تا۵۰۸)
ازواج مطہرات کی توہین
دو ازواج مطہرات کے بارے میں قرآن مجید کہتا ہے:-
إِن تَتُوبَآ إِلَى ٱللَّهِ فَقَدۡ صَغَتۡ قُلُوبُكُمَا‌ۖ
"اگر تم توبہ کرو تو(اچھا ہے)اس لئے کہ تمہارے دل ٹیٹرے ہو گئے ہیں۔
(التحریم ۴)
یہ وہ جماعت ہے جو تمام عورتوں سے افضل ہے لیکن سورۃ تحریم کی مندرجہ بالاآیت سے ان میں سے بعض کے قلوب کی کجی ظاہر ہوتی ہے کیا یہ ان ازواج مطہرات کی توہین نہیں
(تفہیم اسلام ص ۵۰۸)
مزید ایک اور مقام پر لکھا کہ:
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی توہین

اللہ تعالٰی کا ارشاد ہے:
وَلَقَدۡ صَدَقَڪُمُ ٱللَّهُ وَعۡدَهُ ۥۤ إِذۡ تَحُسُّونَهُم بِإِذۡنِهِۦ‌ۖ حَتَّىٰٓ إِذَا فَشِلۡتُمۡ وَتَنَـٰزَعۡتُمۡ فِى ٱلۡأَمۡرِ وَعَصَيۡتُم مِّنۢ بَعۡدِ مَآ أَرَٮٰكُم مَّا تُحِبُّونَ‌ۚ مِنڪُم مَّن يُرِيدُ ٱلدُّنۡيَا وَمِنڪُم مَّن يُرِيدُ ٱلۡأَخِرَةَ‌ۚ
"اللہ نے اپنا وعدہ سچا کر دیا جب کہ تم اس کے حکم سے کافروں کو قتل کر رہے تھے،یہاں تک کہ جب تم نے بردلی دکھائی،اور حکم رسولؐ میں اختلاف کیا اور خاطر خواہ فتح آجانے کے بعد تم نے (رسول کی)نافرمانی کی۔تم میں سے بعض دنیا کے طالب ہیں اور بعض آخرت کے۔"(ال عمران ۱۵۲)

إِنَّ ٱلَّذِينَ تَوَلَّوۡاْ مِنكُمۡ يَوۡمَ ٱلۡتَقَى ٱلۡجَمۡعَانِ إِنَّمَا ٱسۡتَزَلَّهُمُ ٱلشَّيۡطَـٰنُ بِبَعۡضِ مَا كَسَبُواْ‌ۖ وَلَقَدۡ عَفَا ٱللَّهُ عَنۡہُمۡ‌ۗ إِنَّ ٱللَّهَ غَفُورٌ حَلِيمٌ۬

"تم میں سے جن لوگوں نے میدان جنگ سے منہ موڑا،یہ اس لئے ہوا کہ شیطان نے ان کے بعض گناہوں کے سبب ان کو پھسلا دیا اور تحقیق اللہ نے انہیں معاف کر دیا اور بے شک اللہ غفور اور حلیم ہے۔"
(العمران ۱۵۵)
گناہ کئے،شیطان نے بہکایا،میدان چھوڑ کر بھاگ گئے،یہ سب کچھ صحابہ رضی اللہ عنہم نے کیا پھر۔اور پھر مزا یہ کہ اللہ تعالیٰ نے بغیر توبہ کے معاف کر دیا۔
ثُمَّ أَنزَلَ عَلَيۡكُم مِّنۢ بَعۡدِ ٱلۡغَمِّ أَمَنَةً۬ نُّعَاسً۬ا يَغۡشَىٰ طَآٮِٕفَةً۬ مِّنكُمۡ‌ۖ وَطَآٮِٕفَةٌ۬ قَدۡ أَهَمَّتۡہُمۡ أَنفُسُہُمۡ يَظُنُّونَ بِٱللَّهِ غَيۡرَ ٱلۡحَقِّ ظَنَّ ٱلۡجَـٰهِلِيَّةِ‌ۖ
"پھر الله تعالیٰ نے اس غم کے بعد تم پر چین بھیجا (یعنی اونگھ)کہ تم میں سے ایک جماعت پر تو اس کا غلبہ ہوا اورایک جماعت وہ تھی کہ اس کو اپنی جان ہی کی فکر پڑی ہوئی تھی وہ لوگ الله کے متعلق جاہلیت کا گمان کررہے تھے"
(العمران ۱۵۴)
وَإِذَا رَأَوۡاْ تِجَـٰرَةً أَوۡ لَهۡوًا ٱنفَضُّوٓاْ إِلَيۡہَا وَتَرَكُوكَ قَآٮِٕمً۬ا‌ۚ
اور یہ لوگ جب کوئی تجارت یا تماشہ دیکھتے ہیں تو اس کی طرف چلے جاتے ہیں اور آپ کو کھڑا چھوڑ جاتے ہیں۔
(الجمعہ ۱۱)
وَيَوۡمَ حُنَيۡنٍ‌ۙ إِذۡ أَعۡجَبَتۡڪُمۡ كَثۡرَتُڪُمۡ فَلَمۡ تُغۡنِ عَنڪُمۡ شَيۡـًٔ۬ا----- ثُمَّ وَلَّيۡتُم مُّدۡبِرِينَ

"جب حنین کی لڑائی میں تم نے اپنی کژت پر ناز کیا اور پھر کوئی چیز تمہارے کام نہ آئی----پھر تم پیٹھ پھیر کر بھاگے۔
(آلتوبۃ ۲۵)
إِنَّ فَرِيقً۬ا مِّنَ ٱلۡمُؤۡمِنِينَ لَكَـٰرِهُونَ يُجَـٰدِلُونَكَ فِى ٱلۡحَقِّ بَعۡدَ مَا تَبَيَّنَ كَأَنَّمَا يُسَاقُونَ إِلَى ٱلۡمَوۡتِ وَهُمۡ يَنظُرُونَ

"مؤمنین کی ایک جماعت جہاد سے نفرت کرتی تھی،وہ حق ظاہر ہو جانے کے بعد حق کے معاملہ میں اے رسول آپ سے جھگڑا کر رہے تھے،گویا ان کو ان کی آنکھوں دیکھے موت کے منہ میں دھکیلا جارہا تھا۔"
(الانفال ۵،۶)
یہ ہے جنگ بدر میں صحابہ کی ایک جماعت کا نقشہ ---
عَلِمَ ٱللَّهُ أَنَّڪُمۡ كُنتُمۡ تَخۡتَانُونَ أَنفُسَڪُمۡ فَتَابَ عَلَيۡكُمۡ وَعَفَا عَنكُمۡ‌ۖ فَٱلۡـَٔـٰنَ بَـٰشِرُوهُنَّ وَٱبۡتَغُواْ مَا ڪَتَبَ ٱللَّهُ لَكُمۡ‌ۚ
اللہ تعالٰی نےمعلوم کر لیا کہ تم اپنی جانوں سے خیانت کرتے تھے۔پس اللہ رحمت کے ساتھ تمہاری طرف متوجہ ہوا۔اور تمہارا قصور معاف کر دیا اب تم اپنی بیویوں سے مل جل سکتے ہو اور جو اللہ تعالٰی نے تمہارے لئے لکھ دیا ہے اس کی جستجو بھی کر سکتے ہو۔"
(البقرۃ: ۱۸۷)
اس آیت سے معلوم ہوا کہ صحابہ کرام روزہ کی حالت مین جماع کر بیٹھے تھے کیا اس آیت میں توہین صحابہ نہیں؟
خلاصہ یہ کہ کیا مندرجہ بالا آیات سے صحابہ کی توہین نہیں ہوتی؟
(تفہیم اسلام ص ۵۰۸ تا ۵۱۱)
ایک اور مقام پر لکھا دیا کہ:
جو نقصان کافروں سے تمہیں پہنچا تم اس سے دگنا انہیں پہنچا چکے ہو۔(ال عمران آیت نمبر ۱۶۵)
یہ مسلمہ تاریخی واقعہ ہے کہ جنگ بدر میں ستر ۷۰ کافر قتل ہوئے اور جنگ احد میں ستر ۷۰ مسلم شہید ہوئے یعنی دونوں کا نقصان برابر تھا لیکن قرآن مجید کی مذکورہ بالا آیت کافروں کا نقصان دوگنا بتاتی ہے لہذا یہ آیت مسلمہ تاریخی واقعہ کے خلاف ہے اب بتایئے اس آیت کے متعلق کیا کہیں؟
(تفہیم اسلام ص ۵۱۷)
مسعود صاحب نے لکھا کہ:
اللہ تعالٰی کی شان کے خلاف بات ---قرآن مجید میں ضرور مل جاتی ہے:-مشلا
إِنَّ ٱلَّذِينَ يُؤۡذُونَ ٱللَّهَ وَرَسُولَهُ ۥ لَعَنَہُمُ ٱللَّهُ فِى ٱلدُّنۡيَا وَٱلۡأَخِرَةِ
"بے شک جو لوگ اللہ تعالٰی اور اس کے رسول کو ایذا پہنچاتے ہیں ان پر اللہ کی لعنت ہے،دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی۔"
(الاحزاب ۵۷)
اس آیت میں اللہ تعالٰی کو تکلیف پہنچانا مذکور ہے تو کیا یہ آیت اللہ تعالٰی کی شان کے خلاف ہے۔
ٱللَّهُ يَسۡتَہۡزِئُ بِہِمۡ

اللہ ان سے مذاق کرتا ہے۔
(البقرۃ ۱۵)
وَمَن يُضۡلِلِ ٱللَّهُ فَلَن تَجِدَ لَهُ ۥ سَبِيلاً۬
"اور جس کو اللہ گمراہ کرے اس کے لئے تمہیں ہرگز راستہ نہیں ملے گا۔"
(النساء ۸۸)
ظاہر معنوں کے لحاظ سے تو ہم یہی کہہ سکتے ہیں کہ یہ آیات قرآن مجید میں نہیں ہو سکتیں،کیونکہ یہ اللہ تعالٰی کی شان اقدس کے خلاف ہیں لیکن یہ قرآن مجید کی آیتیں ہیں۔"
(تفہیم اسلام ص۵۳۰)

مسعودصاحب لکھتے ہیں کہ قرآن مجید میں ہے کہ:

فَلَمَّا جَآءَهَا نُودِىَ أَنۢ بُورِكَ مَن فِى ٱلنَّارِ وَمَنۡ حَوۡلَهَا وَسُبۡحَـٰنَ ٱللَّهِ رَبِّ ٱلۡعَـٰلَمِينَ يَـٰمُوسَىٰٓ إِنَّهُ ۥۤ أَنَا ٱللَّهُ ٱلۡعَزِيزُ ٱلۡحَكِيمُ

"جب موسیٰ علیہ السلام اس آگ کے پاس آئے تو آواز آئی کہ جو ہستی آگ میں ہے وہ برکت والی ہے اور جو اس کے آس پاس ہے وہ بھی برکت والا ہے۔پاک ہے وہ اللہ جو رب العالمین ہے اے موسیٰ وہ ہستی میں ہوں زبردست اور حکمت والا۔"
(النمل ۸،۹)
کیا ان آیات سے آتش پرستی کو تقویت نہیں پہنچتی؟
(تفہیم اسلام ص ۵۳۰)


اگر کوئی حدیث کسی قرآنی آیت کے خلاف ہو تو وہ موضوع ہے تو کیا اگر کوئی قرآنی آیت کسی دوسری آیت کے خلاف ہو تو وہ بھی موضوع ہے یا نہیں؟اگر وہ آیت موضوع نہیں تو حدیث کیوں؟آپ کہیں گے کہ ایسی تو کوئی بھی آیت نہیں جو دوسری آیت کے خلاف ہو ،ہم کہتے ہیں کہ ایسی بہت سی آیات ہیں،ملاحظہ فرمایئے
تَنزِيلٌ۬ مِّن رَّبِّ ٱلۡعَـٰلَمِينَ

۱۔یہ قرآن مجید رب العالمین کی طرف سے نازل ہوا ہے۔
(الحاقۃ ۴۳)
إِنَّهُ ۥ لَقَوۡلُ رَسُولٍ۬ كَرِيمٍ۬
۱۔یہ رسول کریم کا قول ہے۔
(التکویر ۱۹،الحاقۃ ۴۰)
ایک آیت سے معلوم ہوا کہ یہ قرآن مجید اللہ تعالٰی کا کلام ہے دوسری آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہﷺ کا قول ہے یا کسی فرشتہ کا۔
فَلَمَّا جَآءَهَا نُودِىَ أَنۢ بُورِكَ مَن فِى ٱلنَّارِ وَمَنۡ حَوۡلَهَا وَسُبۡحَـٰنَ ٱللَّهِ رَبِّ ٱلۡعَـٰلَمِينَ يَـٰمُوسَىٰٓ إِنَّهُ ۥۤ أَنَا ٱللَّهُ ٱلۡعَزِيزُ ٱلۡحَكِيمُ
۲۔پس جب موسیٰ علیہ السلام آگ کے پاس پہنچے تو آواز آئی کہ جو ہستی آگ میں اور آگ کے اطراف میں ہے وہ برکت والی ہے اور اللہ رب العالمین پاک ہے اے موسیٰ وہ ہستی میں ہوں اللہ زبردست حکمت والا۔
(النمل ۸،۹)
فَلَمَّآ أَتَٮٰهَا نُودِىَ مِن شَـٰطِىِٕ ٱلۡوَادِ ٱلۡأَيۡمَنِ فِى ٱلۡبُقۡعَةِ ٱلۡمُبَـٰرَڪَةِ مِنَ ٱلشَّجَرَةِ أَن يَـٰمُوسَىٰٓ إِنِّىٓ أَنَا ٱللَّهُ رَبُّ ٱلۡعَـٰلَمِينَ
۲۔ پس جب موسیٰ علیہ السلام آگ کے پاس پہنچے تو وادی ایمن کے کنارے سے ایک مبارک مقام میں ایک درخت سے آواز آئی کہ اے ،موسیٰ میں اللہ رب العالمین ہوں۔(القصص:۳۰)
پہلی آیت میں ہے کہ آگ سے آواز آئی اور دوسری میں کہ درخت سے آواز آئی۔
وَإِذۡ وَٲعَدۡنَا مُوسَىٰٓ أَرۡبَعِينَ لَيۡلَةً۬
۳۔اور جب ہم نے موسیٰ سے چالیس رات کا وعدہ لیا۔
(البقرۃ ۵۱)
وَوَٲعَدۡنَا مُوسَىٰ ثَلَـٰثِينَ لَيۡلَةً۬
۳ ۔اور ہم نے موسیٰ ستے تیس رات کا وعدہ لیا۔
(الاعراف ۱۴۲)
(تفہیم اسلام ص ۵۳۱ تا ۵۳۲)
مسعود صاحب کے ان آیات سے استدلال کرنا کتنی حد تک صحیح ہے اہل علم حضرات سے گزارش ہے کہ رہنمائی فرمائے؟
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,397
پوائنٹ
891
وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ،
میں نے چونکہ یہ کتاب تفہیم الاسلام لفظ بہ لفظ پڑھی ہے۔ اس لئے میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ جو اقتباسات آپ نے نقل کئے ہیں، چند ایک کو چھوڑ کر اکثریت الزامی اعتراضات ہیں۔ یعنی مسعود صاحب نے برق صاحب کو یا ان کی نسبت سے منکرین حدیث کو یہ سمجھایا ہے کہ جن اصول و قوانین کی بنیاد پر آپ حضرات احادیث پر اعتراضات کرتے ہیں، بعینہٖ وہی اعتراضات قرآن کی بعض آیات پر بھی کئے جا سکتے ہیں۔ اگر قرآن پر اعتراض ہو تو اس کی تاویل کی جاتی ہے تو احادیث پر اعتراضات کی وجہ سے انہیں رد کرنا انصاف نہیں، ان کی بھی تاویل کی جانی چاہئے۔
لہٰذا قرآنی آیات والے اقتباسات پر مشتمل یہ الزامی اعتراضات ہیں، جو منکرین حدیث کے اصول پر پیش کئے گئے ہیں، نا کہ اس لئے کہ مسعود صاحب یا اہل سنت کا مؤقف ہی یہی ہے۔ واللہ اعلم۔
 
شمولیت
اپریل 23، 2013
پیغامات
46
ری ایکشن اسکور
53
پوائنٹ
31
وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ،
میں نے چونکہ یہ کتاب تفہیم الاسلام لفظ بہ لفظ پڑھی ہے۔ اس لئے میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ جو اقتباسات آپ نے نقل کئے ہیں، چند ایک کو چھوڑ کر اکثریت الزامی اعتراضات ہیں۔ یعنی مسعود صاحب نے برق صاحب کو یا ان کی نسبت سے منکرین حدیث کو یہ سمجھایا ہے کہ جن اصول و قوانین کی بنیاد پر آپ حضرات احادیث پر اعتراضات کرتے ہیں، بعینہٖ وہی اعتراضات قرآن کی بعض آیات پر بھی کئے جا سکتے ہیں۔ اگر قرآن پر اعتراض ہو تو اس کی تاویل کی جاتی ہے تو احادیث پر اعتراضات کی وجہ سے انہیں رد کرنا انصاف نہیں، ان کی بھی تاویل کی جانی چاہئے۔۔
آپ کی بات صحیح ہے۔
لہٰذا قرآنی آیات والے اقتباسات پر مشتمل یہ الزامی اعتراضات ہیں، جو منکرین حدیث کے اصول پر پیش کئے گئے ہیں، نا کہ اس لئے کہ مسعود صاحب یا اہل سنت کا مؤقف ہی یہی ہے۔ واللہ اعلم۔
ہو سکتا ہے لیکن اگر آپ جماعت المسلمین رجسڑڈ کی طرف سے لکھا جانے والا ایک کتابچہ پڑھے جس کا نام ہے"عصمت رسولﷺ" تو اس میں مسعود صاحب نے سلف کی لائن سے انحراف کر دیا ہے۔چنانچہ ان کے کتابچہ میں سے کچھ عبارتیں ملاحظہ کریں۔
مسعود صاحب نے لکھا کہ:
عبس و تولیٰ:تیوری چڑھائی اور منہ پھیر لیا----مندرجہ بالا وہ ترجمہ ہے جو عام طور پر مترجمین و مفسرین کرتے چلے آئے ہیں۔مذکورہ بلا آیات سے ترجمہ کرتے ہوئے رسول اللہﷺ کی شان اقدس کو بھی ملحوظ نہیں رکھا گیا اور ایسا ترجمہ کیا گیا جس سے نتیجہ نکلتا ہے کہ نعوذ بااللہ اللہ کے رسول ﷺ معصوم نہیں تھے بلکہ گناہ گار تھے اور بد اخلاق تھے---بداخلاقی کا جو فعل نبی معصومﷺ کی ذات اقدس کی طرف منسوب کیا گیا ہے اس بہتان عظیم پر کسی نے توجہ نہ کی اور نہ تحقیق کی زحمت گوارا کی---حتی کہ احمد رضا خان صاحب بریلوی جو احترام و عقیدت کے معاملہ میں بڑے محتاط تھے انہوں نے بھی اس بات کی پرواہ نہ کی اور نہ تردید کی اور وہی ترجمہ کیا جو دوسرے کرتے چلے آئے تھے---(رسول اللہﷺ کے) احترام کو اس قدر ملحوظ رکھنے کی تاکید کی گئ ہے کہ اگر اس کی خلاف ورزی کی گئ ہے تو سارے اعمال حبط،گویا عدم تعظیم کو شرک سے جا ملایا کیونکہ شرک کی صورت میں بھی حبط اعمال کی سخت وعید سنائی گئ ہے---اگر بالفرض محال عبس کا فاعل رسول اللہﷺ کو مانا جائے تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر"عبست و تولیت" کیوں نہیں کہا گیا؟---الفرض علماء مفسرین نے ایسی سنگین اور متضاد صورتحال کی کوئی تردید نہیں کی البتہ شیعہ مفسرین نے اس کی سخت تردید کی---گویا فاسد باتوں کی تردید شیعہ مفسرین نے کی لیکن دوسرے علماء مکھی پر مکھی مارتے رہے۔دوسرے علماء میں سے اگر داؤدی نے یہ کہہ بھی دیا"ھوالکافر"تیوری چڑھانے والا کافر تھا تو حافظ ابن حجر نے یہ کہہ کر اسے رد کر دیا:اغرب الداؤدی-داؤدی نے غریب یعنی اجنبی بات کہی----معصوم عن الخطاء نبی برحق ﷺ کو گناہ گار ثابت کرنا اور قرآن مجید کی آیات کو غلط معنی پہنانا زیادتی ہی نہیں بلکہ بہت بڑا کفر ہے۔
(عصمت رسول ﷺ:ص ۱۲،۲۱ تا ۲۵،۲۷،۳۵)
اسی کتاب میں ایک اور جگہ لکھتے ہیں کہ:
عصر حاضر میں کچھ لوگ ایسے بھی پائے جاتے ہیں جو کہتے ہیں کہ اللہ کے رسول ﷺ معصوم نہیں تھے بلکہ گناہگار تھے(نعوذ باللہ من ذلک)---بعض لوگ ایسے بھی ہیں جو کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ کو بحران ہو گیا تھا اور کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ کا مرتبہ بڑے بھائی کے برابر ہے۔اس قسم کے اقوال کفر کے کلمات ہیں بلکہ کفر سے بھی بدتر ہیں-سیاسی اسلام جہاں بھی ہوتا ہے وہاں اس قسم کے نظریات اور کفریہ کلمات لوگوں کی زبانوں سے نکلتے ہیں ---بدقسمتی سے یہ سب کچھ فہم قرآن مجید کے زعم میں ہورہا ہے-اس سلسلہ میں سب سے بڑا ہاتھ ان مترجمین و مفسرین کا ہے جنہوں نے قرآن مجید کے غلط ترجمے کیے---سب سے زیادہ حیرت ان مصنفین و مولفین پر ہوتی ہے جو محض مکھی پر مکھی مارنے پر اکتفا کرتے ہیں اور غلط ترجموں کو ہی نقل کرتے رہتے ہیں جو ان کے پیش رو کرتے چلے آئے۔الغرض قرآن مجید کی بعض آیات کےغلط ترجموں کے سہارے بعض لوگوں نے یہ کہنا شروع کر دیا کہ رسول اللہﷺ معصوم نہیں تھے بلکہ گناہگار تھے----مشلا مولوی محمود الحسن صاحب دیوبندی،ڈپٹی نذیر احمد صاحب اور اشرف علی صاحب تھانوی وغیرہ نے احترام ملحوظ نہیں رکھا اور صاف صاف یہ ترجمہ کیا ہے:آپ کے اگلے اور پچھلے گناہ معاف کر دے۔ان لوگوں کے ترجموں سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ کے رسولﷺ گناہگار تھے معصوم نہیں تھے العیاذ باللہ
(عصمت رسولﷺ : ص ۳،۵)
اور باقی آپ قیاس کر لیں۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
5,001
ری ایکشن اسکور
9,806
پوائنٹ
773
وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ،
میں نے چونکہ یہ کتاب تفہیم الاسلام لفظ بہ لفظ پڑھی ہے۔ اس لئے میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ جو اقتباسات آپ نے نقل کئے ہیں، چند ایک کو چھوڑ کر اکثریت الزامی اعتراضات ہیں۔ یعنی مسعود صاحب نے برق صاحب کو یا ان کی نسبت سے منکرین حدیث کو یہ سمجھایا ہے کہ جن اصول و قوانین کی بنیاد پر آپ حضرات احادیث پر اعتراضات کرتے ہیں، بعینہٖ وہی اعتراضات قرآن کی بعض آیات پر بھی کئے جا سکتے ہیں۔ اگر قرآن پر اعتراض ہو تو اس کی تاویل کی جاتی ہے تو احادیث پر اعتراضات کی وجہ سے انہیں رد کرنا انصاف نہیں، ان کی بھی تاویل کی جانی چاہئے۔
لہٰذا قرآنی آیات والے اقتباسات پر مشتمل یہ الزامی اعتراضات ہیں، جو منکرین حدیث کے اصول پر پیش کئے گئے ہیں، نا کہ اس لئے کہ مسعود صاحب یا اہل سنت کا مؤقف ہی یہی ہے۔ واللہ اعلم۔
شاکربھائی کی بات بالکل درست ہے یہ الزامی اعتراضات ہے اور بات کو سمجھانے کا یہ بہترین اسلوب ہے بلکہ کچھ بدنصیب تو ایسے ہوتے ہیں جب تک انہیں الزامی جواب نہ دیا جائے تب تک ان کی زبان بند نہیں ہوتی۔
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,397
پوائنٹ
891
آپ کی بات صحیح ہے۔

ہو سکتا ہے لیکن اگر آپ جماعت المسلمین رجسڑڈ کی طرف سے لکھا جانے والا ایک کتابچہ پڑھے جس کا نام ہے"عصمت رسولﷺ" تو اس میں مسعود صاحب نے سلف کی لائن سے انحراف کر دیا ہے۔چنانچہ ان کے کتابچہ میں سے کچھ عبارتیں ملاحظہ کریں۔
مسعود صاحب نے لکھا کہ:

(عصمت رسول ﷺ:ص ۱۲،۲۱ تا ۲۵،۲۷،۳۵)
اسی کتاب میں ایک اور جگہ لکھتے ہیں کہ:

(عصمت رسولﷺ : ص ۳،۵)
اور باقی آپ قیاس کر لیں۔
جب مسعود صاحب نے تفہیم الاسلام لکھی تھی، تب وہ اہلحدیث عالم تھے اور انہوں نے ابھی جماعت المسلمین کی بنیاد رکھ کر گمراہی کی بنیاد نہیں ڈالی تھی۔ شومی قسمت کہ مسعود صاحب کی اس کتاب کی وجہ سے مشہور منکر حدیث برق صاحب، جن کی دو اسلام کی تردید میں یہ کتاب لکھی گئی تھی، وہ تو تائب ہو گئے اور خدمت حدیث کے لئے تاریخ حدیث کے نام سے کتاب لکھ کر اپنے گزشتہ گناہوں کا کفارہ ادا کیا۔ اور دوسری جانب مسعود صاحب جو ان کو راہ راست پر لانے کا ذریعہ بنے، خود جماعت المسلمین کی بنیاد رکھ کر ضال و مضل کا مصداق ٹھہرے۔ یا بقول آپ کے سلف کی لائن سے انحراف کر گئے۔

یہی تفہیم الاسلام بعد میں جب جماعت المسلمین کی جانب سے شائع کی گئی تو اس میں بعض مقامات پر عبارات بدل کر مسعود صاحب نے اپنا جدید مؤقف بھی ٹھونسا۔ اسی لئے محدث لائبریری میں پہلے جماعت المسلمین کی شائع کردہ تفہیم الاسلام اپ لوڈ کی گئی تھی، اسے ہٹا کر اہلحدیث اکادمی، لاہور کی شائع کردہ تفہیم الاسلام کو اپ لوڈ کیا گیا ہے۔

آپ کی بات کا مختصر جواب یہ ہے کہ تفہیم الاسلام لکھتے وقت مسعود صاحب بھی دیگر اہلحدیث علماء کی طرح اسی کے قائل و مبلغ تھے، ان کے نظریات میں جو تبدیلیاں ہوئیں، وہ تفہیم الاسلام کی اشاعت کے بعد کی باتیں ہیں۔
 
Last edited by a moderator:
شمولیت
اپریل 23، 2013
پیغامات
46
ری ایکشن اسکور
53
پوائنٹ
31
شاکربھائی کی بات بالکل درست ہے یہ الزامی اعتراضات ہے اور بات کو سمجھانے کا یہ بہترین اسلوب ہے بلکہ کچھ بدنصیب تو ایسے ہوتے ہیں جب تک انہیں الزامی جواب نہ دیا جائے تب تک ان کی زبان بند نہیں ہوتی۔
جی بھائی آپ کی بات درست ہے۔لیکن جس لحاظ سے میں بات کرنا چاہ رہا ہو وہ اس کے بالکل برعکس ہے۔میرا مطلب جماعت المسلمین رجسڑڈ کے لحاظ سے ہیں۔
جب مسعود صاحب نے تفہیم الاسلام لکھی تھی، تب وہ اہلحدیث عالم تھے اور انہوں نے ابھی جماعت المسلمین کی بنیاد رکھ کر گمراہی کی بنیاد نہیں ڈالی تھی۔ شومی قسمت کہ مسعود صاحب کی اس کتاب کی وجہ سے مشہور منکر حدیث برق صاحب، جن کی دو اسلام کی تردید میں یہ کتاب لکھی گئی تھی، وہ تو تائب ہو گئے اور خدمت حدیث کے لئے تاریخ حدیث کے نام سے کتاب لکھ کر اپنے گزشتہ گناہوں کا کفارہ ادا کیا۔ اور دوسری جانب مسعود صاحب جو ان کو راہ راست پر لانے کا ذریعہ بنے، خود جماعت المسلمین کی بنیاد رکھ کر ضال و مضل کا مصداق ٹھہرے۔ یا بقول آپ کے سلف کی لائن سے انحراف کر گئے۔
میں تو اس وجہ سے یہ بات کہہ رہا ہوں کہ جماعت المسلمین رجسڑڈ اپنے امام کے قول کو قرآن وحدیث کا درجہ دے دیتے ہیں۔اور ایسا بھی ممکن ہے کہ جماعت المسلمین رجسڑڈ کا یہی عقیدہ ہو مسعود احمد صاحب کے بعد۔کیونکہ میں نے اراکین جماعت سے اس بارے میں بات کرنے کی کوشش کی ہے لیکن ان کی طرف سے کوئی جواب نہیں آیا۔

آپ کی بات کا مختصر جواب یہ ہے کہ تفہیم الاسلام لکھتے وقت مسعود صاحب بھی دیگر اہلحدیث علماء کی طرح اسی کے قائل و مبلغ تھے، ان کے نظریات میں جو تبدیلیاں ہوئیں، وہ تفہیم الاسلام کی اشاعت کے بعد کی باتیں ہیں۔
جماعت المسلمین کے اراکین کی مسعود صاحب اور انکے بعد آنے والے یعنی محمد اشتیاق صاحب نے جماعت میں شامل افراد کی"ذہن سازی" کرتے ہوئے اپنے متعلق کیا کیا تحریر فرمایا کہ"ہم خود کچھ نہیں کرتے"مسعود صاحب "اپنی کوئی رائے نہیں دیتے""ہم قیاس آرائی نہیں کرتے""ہم تو صرف وہی کہتے ہیں جو قرآن مجید اور حدیث میں ہے"وغیرہ وغیرہ۔اس "ذہن سازی "کا نتیجہ یہ ہے کہ رجسڑڈ جماعت کے لوگ ان کی ہر بات کو قرآن وحدیث ہی سمجھتے ہیں۔انھیں کی کہی ہوئی باتیں بار با ر دہراتے رہتے ہیں اور اس شان سے کہ گویا قرآن و حدیث ہی کی تلاوت فرما رہے ہوں۔اور شاید یہی وجہ ہے کہ رجسڑڈ جماعت کے لوگ ان باتوں کے خلاف کچھ سننے پر کم ہی آمادہ نظر آتے ہیں۔مشلا
مسعود صاحب اپنے بارے میں لکھتے ہیں:
میں اپنے ہر عمل میں قرآن و حدیث اور آثار صحابہ سے دلیل پیش کر سکتا ہوں اور آپ ایسا نہیں کر سکتے،اگر آپ واقعی اپنے دعوے میں سچے ہیں تو مندرجہ ذیل سوالات کی تائید میں ایک ایک صحیح حدیث پیش کر دیجئے
خلاصہ تلاش حق ص۱۷
ایک مقام پر لکھا کہ:
یہاں بھی رسول اللہﷺ کی حدیث ہی سے ہم نے خاص کیا،ہم خود کچھ نہیں کرتے جو آپ کہہ دیتے ہیں ہم تسلیم کر لیتے ہیں ہم قیاس آرائی نہیں کرتے۔
حوالہ بالا ص ۱۷۲
ایک اور جگہ لکھا
مسعود احمد اپنی کوئی رائے دیتے ہی نہیں اور کہتے ہیں کہ کسی کو بھی دین الہٰی میں رائے دینے کا اختیار نہیں
الجماعۃ ص :۴۴
اور ایک مقام پر بڑا ہی تاکیدی بیان دیتے ہوئے لکھا
ہم تو صرف وہی کہتے ہیں جو قرآن مجید اور حدیث میں ہے اپنی طرف سے کچھ نہیں کہتے۔
امیر کی اطاعت ص ۱۵،اشاعت قدیم ص ۲۹
اب ان ارشادات کا نتیجہ کیا نکلا وہ بھی ملاحظہ کر لیں جو چیز بھی رجسڑڈ جماعت کے اراکین کو ان کی کتابوں میں ملتی ہے اس کو خاموشی سے قبول کر لیتے ہیں۔مشلا مسعود صاحب لکھتے ہیں:
بیعت نہ کرنے کی وجہ سے حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ جاہلیت کی موت کیوں نہ مرے؟کیا ان کے لئے اللہ کا قانون بدل جائے گا؟
الجماعۃ ص ۲۰۔۲۱
اسی کتاب پر ایک اور مقام پر لکھتے ہیں کہ:
جماعت المسلمین کے امیر کے ہاتھ پر بیعت نظام باطل کے مٹانے کے لئے ہی کی جاتی ہے تو پھر یا تو ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیعت کر لیجئے یا دور رہتے ہوئے بھی اسکی تائیدوحمایت میں سرگرم ہو جایئے۔
الجماعۃ ص ۵۵۔۵۶
یہ واضح رہے کہ جاہلیت کی موت سے یہ لوگ کفر کی موت مراد لیتے ہیں۔
چنانچہ ان کے ایک کتابچہ میں لکھا ہے کہ
جاہلیت سے مراد اسلام سے پہلے کا زمانہ یعنی کفر کا زمانہ ہے
امیر کی اطاعت ص ۶
اسی طرح ایک اور جگہ لکھا کہ
جاہلیت کی موت مریگا یعنی کفر کی موت مرے گا
وقار علی صاحب کا خروج ص ۸
اب دیکھے کہ ایک طرف تو وہ بیعت کو لازمی قرار دیتے ہیں بلکہ صحابیؓ کو نعوذ باللہ کفر پر مرنے والا کہہ رہے ہیں جبکہ دوسری طرف بیعت نہ کرنے کو بھی جائزکہہ رہے ہیں۔لیکن کسی کو بھی آج تک (جہاں تک میری معلومات ہے) جسارت نہیں ہوئی کہ وہ پوچھ لے کہ کون سا بیان ان کا صحیح ہے پہلا یا دوسرا۔
ایک اور مقام پر مسعود صاحب لکھتے ہیں کہ
اللہ تعالٰی کو یہ تو گوارہ ہے کہ کوئی گھر میں بیٹھ کر بت کی پوجا کرے یا آگ کی یا کسی اور چیزکی
حق کیسے غالب ہوتا ہے؟ص ۱۸
اللہ تعالٰی پر ایسے قول کی نسبت کر دی جس کی خبر کہی بھی نہیں ہے نہ قرآن میں اور نہ حدیث میں۔
ایک اور مقام پر اشتیاق صاحب لکھتے ہیں کہ
ابوذرؓ سے مروی ہے:رسول اللہﷺ نے فرمایا:جو شخص صبح کی فرض نماز کے بعد دو زانو بیھٹے اس سے قبل کہ وہ کسی سے بات کرے یہ دس مرتبہ پڑھ لے----سارا دن برے کاموں سے محفوظ رہتا ہے۔اس کے لئے جائز نہیں کہ وہ سارے دن میں کسی گناہ کو پہنچے سوائے اللہ تعالٰی کے ساتھ شرک کرنے کے۔(رواہ الترمذی وقال ھذا حدیث حسن و صحیح و کتاب الاذکار ص ۱۰۳ للنووی)
دعوات المسلمین حصہ دوم ص ۲۷،اشاعت اول ص ۱۷۔۱۸
الفاظ پر غور کریں اشتیاق صاحب رسول اللہ ﷺ کی طرف جو کچھ منسوب کر چکے ہیں اس سے تو یہ ثابت ہوتا کہ اس دعا کے پڑھنے والے کے لئے باقی گناہ کو پہنچنا یا گناہ کرنا تو جائز نہیں لیکن ایک استثناء ہے کہ وہ"اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کر لے"(نعوذباللہ ثمہ نعوذباللہ) ان کے بقول رسول اللہﷺ نے "ظلم عظیم"اور "اکبر الکبائر"شرک باللہ کو جائز کر دیا۔(استغفراللہ)
اشتیاق صاحب کی یہ کتاب پہلی بار ۲۰۰۵ء میں شائع ہوئی ،اس طرح تقریبا آٹھ سال گزر چکے ہیں۔ان کی جماعت میں سے کسی نے بھی یہ جسارت نہیں کی کہ اپنے"امیر کل عالم" صاحب سے عرض کر لیں کہ جناب!یہ کیا آپ الٹا سیدھا لکھتے رہتے ہیں؟اب آپ کی بیباکی یہ عالم ہے کہ رسول اللہﷺ کی طرف شرک باللہ کے جواز کی باطل نسبت کر دی؟حالانکہ یہ لوگ اپنی طرف شرک کی نسبت کو قطعا پسند نہیں کرتے جیسا کہ اشتیاق صاحب نے لکھا:
"رسالہ حبل اللہ" اشاعت نمبر ۹ص ۳۵ پڑھا۔پڑھ کر حیرت ہوئی کہ خود ساختہ توحید پرست ضد اور ہٹ دھرمی میں جماعت المسلمین کی طرف شرک جیسے قبیح فعل کو منسوب کرکے جماعت المسلمین کو بدنام کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
خلافت ارضی اور فرشتے ص ۲ سال طباعت ۱۴۱۷ھ
اس وقت حیرت کیوں نہیں ہوئی جب خود جناب نے رسول اللہﷺ کی طرف شرک جیسے قبیح فعل کے جواز کو منسوب کر دیا۔اپنے معاملہ میں اتنے حساس اور ہوشیار کہ فورا کتابچہ لکھ ہیٹھے اور سولہ صفحات سیاہ کر دیئے اور رسول اللہﷺ کے معاملہ میں ایسے نادان اور غافل!
ان چیروں کے علاوہ اور بھی چیریں ان کے لڑیچر میں مل جائے گی۔جیسے رسول اللہﷺ کے دو اصحاب رضی اللہ عنھم پر شرک کی تہمت وغیرہم۔
جب ان لوگوں کے یہ عقائد ہے تو کیا وہ مندرجہ بالا عقائد نہیں رکھ سکتے؟(استغفراللہ)
یہ بات بھی واضح رہے کہ ان کے بیان اور اصول کے مطابق جماعت کا ہر ہر فرد ان کی ہر ہر کتاب کی تحریر سے مکمل طور پر متفق ہوتا ہے۔
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,397
پوائنٹ
891
جی بھائی آپ کی بات درست ہے۔لیکن جس لحاظ سے میں بات کرنا چاہ رہا ہو وہ اس کے بالکل برعکس ہے۔میرا مطلب جماعت المسلمین رجسڑڈ کے لحاظ سے ہیں۔

میں تو اس وجہ سے یہ بات کہہ رہا ہوں کہ جماعت المسلمین رجسڑڈ اپنے امام کے قول کو قرآن وحدیث کا درجہ دے دیتے ہیں۔اور ایسا بھی ممکن ہے کہ جماعت المسلمین رجسڑڈ کا یہی عقیدہ ہو مسعود احمد صاحب کے بعد۔کیونکہ میں نے اراکین جماعت سے اس بارے میں بات کرنے کی کوشش کی ہے لیکن ان کی طرف سے کوئی جواب نہیں آیا۔

آپ کی بات بھی بالکل بجا ہے۔ اس لحاظ سے دھاگے کا عنوان تفہیم اسلام پر نظر کے بجائے جماعت المسلمین پر ایک نظر یا مسعود صاحب کے عقائد پر ایک نظر وغیرہ ہونا چاہئے تھا۔
دیکھئے بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ گمراہوں سے بھی دین کی بڑی بڑی خدمت لے لیا کرتا ہے۔ تفہیم اسلام جیسی کتاب احقاق حق اور ابطال باطل میں اپنے موضوع پر بہترین کتاب ہے۔ اس کے بعض اقتباسات پر اعتراض کر کے تشکیک پیدا کرنا درست معلوم نہیں ہوا تھا، اس لئے وضاحت کر دی تھی کہ تفہیم اسلام کی حد تک ان اعتراضات کی اہمیت نہیں ہے۔
آپ کا ماشاءاللہ اس موضوع پر کافی مطالعہ ہے۔ میں نے تو فقط دامانوی صاحب یا وقار صاحب کی بعض کتب ہی پڑھی ہیں۔ اگر ممکن ہو تو آپ جماعت المسلمین کے عقائد و نظریات یا ان کی گمراہی کے حوالے سے اپنے مطالعہ کی روشنی میں ہم سے شیئرنگ کریں۔ کیونکہ فورم پر بھی جماعت المسلمین کی تردید میں بہت کم لکھا گیا ہے۔ جزاکم اللہ خیرا۔
 
شمولیت
اپریل 23، 2013
پیغامات
46
ری ایکشن اسکور
53
پوائنٹ
31
آپ کی بات بھی بالکل بجا ہے۔ اس لحاظ سے دھاگے کا عنوان تفہیم اسلام پر نظر کے بجائے جماعت المسلمین پر ایک نظر یا مسعود صاحب کے عقائد پر ایک نظر وغیرہ ہونا چاہئے تھا۔
میں نے جو دھاگے کا عنوان رکھا ہے وہ بالکل ٹھیک رکھا ہے۔کیونکہ تفہیم اسلام میں کچھ غلط باتیں بھی موجود ہے اور صحیح بھی ہے۔
دیکھئے بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ گمراہوں سے بھی دین کی بڑی بڑی خدمت لے لیا کرتا ہے۔ تفہیم اسلام جیسی کتاب احقاق حق اور ابطال باطل میں اپنے موضوع پر بہترین کتاب ہے۔ اس کے بعض اقتباسات پر اعتراض کر کے تشکیک پیدا کرنا درست معلوم نہیں ہوا تھا، اس لئے وضاحت کر دی تھی کہ تفہیم اسلام کی حد تک ان اعتراضات کی اہمیت نہیں ہے۔
آپ کی بات بجا ہے۔واقعی تفہیم اسلام ساری کی ساری غلط نہیں لکھی ہوئی۔
آپ کا ماشاءاللہ اس موضوع پر کافی مطالعہ ہے۔ میں نے تو فقط دامانوی صاحب یا وقار صاحب کی بعض کتب ہی پڑھی ہیں۔ اگر ممکن ہو تو آپ جماعت المسلمین کے عقائد و نظریات یا ان کی گمراہی کے حوالے سے اپنے مطالعہ کی روشنی میں ہم سے شیئرنگ کریں۔ کیونکہ فورم پر بھی جماعت المسلمین کی تردید میں بہت کم لکھا گیا ہے۔ جزاکم اللہ خیرا۔
ان شاء اللہ تعالیٰ۔میں تو ایک طالب علم ہوں۔میرا علم محدود ہے۔جتنی باتیں مجھےمعلوم ہے اتنی باتیں میں شیئر کر دوں گا۔ان شاء اللہ
اب ذرا تفہیم اسلام میں جو غلط باتیں ہے ان پر بھی ایک نظر ڈال لی جائے۔
مسعود صاحب ایک مقام پر لکھتے ہیں
قرآن مجید میں متعدد جگہ حضرت آدم علیہ السلام کا قصہ بیان ہوا ہے ہر جگہ یہی ہے،کہ ابلیس فرشتہ تھا مشلا
وَإِذۡ قُلۡنَا لِلمَلَـِٰٕٓكَةِ ٱسۡجُدُواْ لِأَدَمَ فَسَجَدُوٓاْ إِلَّآ إِبۡلِيسَ
اور جب ہم نے فرشتوں کو حکم دیا کہ آدم کے آگے سجدہ کرو تو وہ سجدے میں گر پڑے مگر شیطان نے انکار کیا
البقرہ:۳۴
لہذا اس آیت اور اس جیسی اور کئ آیات سے ثابت ہوا کہ ابلیس فرشتہ تھا۔یہ ہے تعلیمات قرآن،اب اس تعلیمات قرآن کے خلاف ہمیں یہ آیت ملتی ہے۔
كَانَ مِنَ ٱلۡجِنِّ
ابلیس جنوں میں سے تھا۔
الکھف:۵۰
بتایئے کیا یہ آیت قرآنی تعلیمات کے منافی ہونے کی وجہ سے جعلی ہو گی؟
تفہیم قرآن ص ۵۰۲
دیگر باتوں سے قطع نظر صرف اتنا عرض کرنا چاہتا ہوں کہ کسی ایک آیت سے بھی یہ قطعا ثابت نہیں ہوتا کہابلیس فرشتہ تھا چہ جائیکہ کئ آیات سے یہ محض مسعود صاحب کا قیاس ہے۔
ایک اور مقام پر لکھا کہ

بَلۡ يَدَاهُ مَبۡسُوطَتَانِ

اللہ تعالٰی کے دونوں ہاتھ کشادہ ہیں۔
(المآئدہ:۶۴)
یہ آیت بتاتی ہے کہ وہ کوئی جسم رکھتا ہے جس میں ہماری طرح کے دو ہاتھ ہیں،لہذا یہ آیت سراسر شان الوہیت اور قرآنی تعلیمات کے منافی ہے۔اب اس آیت کو کیا کہیں؟
تفہیم اسلام ص ۵۰۳
یہ بھی مسعود صاحب کا خالصقیاس ہے کہ یہ آیت بتاتی ہے کہ وہ کوئی جسم رکھتا ہے اورہماری طرح دو ہاتھ ہیں۔آیت میں تو صرف اللہ تعالٰی کے دو ہاتھوں کا ذکر ہےبس ہماری طرح والی بات مسعود صاحب نے اپنی طرف سے بیان کی ہے، جبکہ قرآن مجید سے معلوم ہوتا ہے کہ کوئی چیز اللہ تعالٰی جیسی نہیں۔(مشلا سورۃ الشوریٰ:۱۱)
مسعود صاحب نے لکھا کہ

ٱللَّهُ ٱلَّذِى خَلَقَ سَبۡعَ سَمَـٰوَٲتٍ۬ وَمِنَ ٱلۡأَرۡضِ مِثۡلَهُنَّ

اللہ تعالٰی وہ ہے جس نے سات آسمان بنائے اور ان ہی کے مشل(سات) زمینیں بنائیں۔"
(الطلاق:۱۲)
چونکہ زمین صرف ایک ہے۔
تفہیم اسلام ص ۵۱۱
یہ بھی مسعود صاحب کا قیاس ہے کہ زمین صرف ایک ہے!
اور آیت بالا کے بالکل خلاف ہے۔
مسعود صاحب نے لکھا کہ
کوہ طور آج بھی موجود ہے لیکن قرآن مجید کہتا ہے:

جَعَلَهُ ۥ دَڪًّ۬ا

تجلیات الٰہی نے اسے ریزہ ریزہ کر دیا
(الاعرف:۱۲۳)
تفہیم اسلام ص ۵۱۷
یہ بھی مسعود صاحب کا قیاس ہے کہ طور پہاڑ ریزہ ریزہ ہوا تھا اور اس آیت سے بھی یہ بالکل ثابت نہیں ہوتا۔
مسعود صاحب نے لکھا کہ
ایسی آیات ضرور موجود ہیں جو صرفربنااللہکہنے پر جنت کا وارث بنا دیتی ہے۔سنیئے

إِنَّ ٱلَّذِينَ قَالُواْ رَبُّنَا ٱللَّهُ ثُمَّ ٱسۡتَقَـٰمُواْ تَتَنَزَّلُ عَلَيۡهِمُ ٱلۡمَلَـٰٓٮِٕڪَةُ أَلَّا تَخَافُواْ وَلَا تَحۡزَنُواْ وَأَبۡشِرُواْ بِٱلۡجَنَّةِ

بے شک جن لوگوں نے کہاربنااللہہمارا رب اللہ ہے پھر اس پر جمے رہے تو ان پر فرشتے نازل ہوتے ہیں جو کہتے ہیں نہ ڈرو نہ غم کھاؤ اور جنت کی بشارت سنو!
(حم السجدہ:۳۰)
تفہیم اسلام ص ۵۲۳۔۵۲۷
دیکھ لیں کہ آیت میں تو ہے کہ جنہوں نے کہا ہمارا رب اللہ ہے پھر اس پر ڈٹے رہے،جمے رہے استقامت اختیار کی تو ان کے لئے جنت کی بشارت ہے نہ کہصرفربنااللہ کہہ دینے پر،لہذا یہ صرف والی بات مسعود صاحب کا اپنا اضافہ ہے۔
مسعود صاحب نے لکھا کہ
اب قرآن مجید کی آیت سنیئے
تَغۡرُبُ فِى عَيۡنٍ حَمِئَةٍ۬
سورج کیچڑ کے چشمے میں ڈوبتا ہے۔
(الکھف:۷۶)
بتایئے جو آیت سورج کو کیچڑ میں ڈبوتی ہے
تفہیم اسلام ص ۵۲۸
یہاں پر بھی مسعود صاحب نے دیانت کا تقاضا پورا نہیں کیا کوئی بھی آیت سورج کو کیچڑ میں نہیں ڈبوتی۔یہ آیت اس طرح ہے کہ
حَتَّىٰٓ إِذَا بَلَغَ مَغۡرِبَ ٱلشَّمۡسِ وَجَدَهَا تَغۡرُبُ فِى عَيۡنٍ حَمِئَةٍ۬ وَوَجَدَ عِندَهَا قَوۡمً۬ا‌ۗ قُلۡنَا يَـٰذَا ٱلۡقَرۡنَيۡنِ إِمَّآ أَن تُعَذِّبَ وَإِمَّآ أَن تَتَّخِذَ فِيہِمۡ حُسۡنً۬ا
یہاں تک کہ وہ سورج غروب ہونے کے مقام ہر پہنچا تو اس(ذوالقرنین) نے اسے پایا کہ وہ دلدل کے چشمے میں غروب ہو رہا ہے۔(الکھف:۸۶)
یہ تو ذوالقرنین کے مشاہدہ کا بیان ہے کہ اس نے ایسا پایا۔کوئی قاعدہ بیان نہیں کیا جا رہا کہ سورج کیچڑ کے چشمہ میں غروب ہو رہا ہے۔
مسعود صاحب نے لکھا کہ

فَلَمَّا جَآءَهَا نُودِىَ أَنۢ بُورِكَ مَن فِى ٱلنَّارِ وَمَنۡ حَوۡلَهَا وَسُبۡحَـٰنَ ٱللَّهِ رَبِّ ٱلۡعَـٰلَمِينَ يَـٰمُوسَىٰٓ إِنَّهُ ۥۤ أَنَا ٱللَّهُ ٱلۡعَزِيزُ ٱلۡحَكِيمُ
۲۔پس جب موسیٰ علیہ السلام آگ کے پاس پہنچے تو آواز آئی کہ جو ہستی آگ میں اور آگ کے اطراف میں ہے وہ برکت والی ہے اور اللہ رب العالمین پاک ہے اے موسیٰ وہ ہستی میں ہوں اللہ زبردست حکمت والا۔
(النمل ۸،۹)
پہلی آیت میں ہے کہ آگ سے آواز آئی
تفہیم اسلام ص ۵۳۱
یہ بھی مسعود صاحب نے اپنی طرف سے لکھا ہے کہ آگ سے آواز آئی۔اس آیت میں تو صرف اتنا کہ آواز آئی۔اس آیت یا کسی بھی آیت میں یہ نہیں ہے کہ آگ سے آواز آئی۔
مسعود صاحب نے سورۃ المؤمنون کی آیات ا تا 11 نقل کرنے کے بعد لکھا کہ
ان آیات میں کہیں بھی جہاد کا ذکر نہیں اور باوجود اس کے جنت الفردوس کا وعدہ ہے کیونکہ یہ آیات جہاد کی اہمیت گھٹاتی ہیں
تفہیم اسلام ص ۵۱۸
یہ بھی مسعود صاحب نے قیاس کیا ہے ان آیات میں قطعا کوئی بات نہیں جو جہاد کی اہمیت کو گھٹانے کی وجہ بنے۔
مسعود صاحب نے سورۃ مزمل ۸ آل عمران ۳۵،۳۹ اور ۳۷ نقل کرنے کے بعد لکھا
ان آیات سے معلوم ہوا کہ ترک دنیا اللہ تعالٰی کو پسند ہے اور اگر مرد و عورت راہبانہ زندگی گزاریں تو یہ اس کو محبوب ہے۔یعنی راہب(monk) اور راہبہ (nun) بن جانا اللہ تعالٰی کو پسند ہے
حوالہ بالا ص ۵۲۱
یہ بھی مسعود صاحب کا باطل قیاس ہے اور قرآن مجید کے خلاف غلط بیانی بھی۔
برق صاحب کی باتیں کتنی ہی غلط کیوں نہ ہوں،قرآن مجید کی محولہ بالا آیات کا یہ مفہوم کسی طرح نہیں بنتا کہ(نعوذ باللہ)اللہ تعالٰی کو عورت کا راہبہ(nun) بن جانا پسند ہے۔
مسعود صاحب نے لکھا کہ
قرآن کا اسلام تو بڑا آسان ہے،مشکل تو اس کو ان قیود نے بنا دیا ہے جو احادیث میں مذکور ہیں،ورنہ
(۱)دعا مانگ لو صلٰوۃ ادا ہوگئ
(۲)پاکیزگی اختیار کر لو زکوۃ ادا ہو گئ۔
(۳)صلوۃ میں ریاح خارج ہو جائے۔وضو سلامت رہے۔
(۴)ناچ و رنگ کی محفلیں قائم کرو کوئی ممانعت نہیں۔
(۵)فنون لطیفہ سے دلچسپی لو کوئی حرج نہیں۔
(۶)تاش و شطرنج سے لطف اٹھاؤ کوئی مضائقہ نہیں۔
(۷)قحبہ خانہ کھولو کوئی ممانعت نہیں ہاں کسی عورت کو زبردستی قحبہ خانہ مین مت بٹھاؤ
تفہیم اسلام ص ۲۳۲
دعا مانگ لو صلاۃ ادا ہو گئ
مذکورہ بالا اقتباس میں مسعود صاحب نے یہ بات قرآن مجید کی طرف منسوب کر دی۔یہ ان کی صریح کذب بیانی ہے۔
پاکیزگی اختیار کر لو زکوۃ ادا ہو گئ
یہ بھی اپنی طرح سے اضافہ ہے قرآن مجید کی کسی بھی آیت کا یہ مفہوم نہیں۔
صلوۃ میں ریاح خارج ہو جائے وضو سلامت!
یہ بات بھی قرآن مجید کی کسی آیت سے ثابت نہیں ہوتی اور نہ کسی آیت کا یہ مفہوم ہے کہ ریح خارج ہونے سے وضو سلامت رہتا ہے۔
صد افسوس منکرین حدیث تیش میں آ کر یا اپنی بدنیتی کی وجہ سے حدیث پر جھوٹ بولیں اور مسعود صاحب ضدی بچےکی طرح جوابی کارراوئی میں قرآن مجید پر جھوٹ بول دیں۔حق بات سمجھانے کا یہ اسلوب یقینا باطل ہے۔
ناچ و رنگ کی محفلیں ممنوع نہیں!(استغفراللہ)
افسوس صد افسوس! جھوٹ ،غلط بیانی اور کتمان حق کی حد ہو گئ!
آپ سطور بالا میں مسعود صاحب کی عبارت دوبارہ دیکھ لیں۔بڑی ہی بے باکی کا مظاہرہ کرتے ہوئے مسعود صاحب نے یہ بات قرآن مجید کی طرف منسوب کر رکھی ہے۔حلانکہ یہ محض ان کی غلط بیانی اور باطل قیاس ہے۔قرآن مجید ایسی فحش محفلوں سے یقینا روکتا ہے۔فحاشی و بے حیائی کے خلاف وارد قرآنی آیات (مشلا سورۃ النور :۱۹)یقینا ایسی محفلوں کو ممنوع قرار دیتی ہیں۔
فنون لطیفہ سے دلچسپی لو کوئی حرج نہیں!
یہ بھی کسی آیت کا مفہوم نہیں ہے۔
علمی اردو لغت میں فنون لطیفہ کا درج ذیل مفہوم لکھا ہوا ہے
فنون لطیفہ: وہ فنون یا ہنر جس میں اعلی درجے کی ذہنی کشش پائی جائے اس میں مصوری موسیقی،شاعری اور تعمیر کا فن شامل ہے۔
ص ۱۰۶۰
عام استعمال میں تو ڈرامے،کھیل تماشے بھی فنون لطیفہ کا حصہ سمجھے جاتے ہیں،
تاش و شطرنج سے لطف اٹھاؤ کوئی مضائقہ نہیں
نعوذ باللہ قرآن مجید میں یہ بات کس آیت میں بیان ہوئی ہے؟
قحبہ خانہ کھولو کوئی ممانعت نہیں----!(استغفراللہ)
کتنے جری و بیباک انسان تھے یہ مسعود صاحب!قرآن مجید پر کس قدر جھوٹ بولا اور کتنی گھٹیا ۔رذیل اور بے ہودہ بات قرآن مجید کی طرف منسوب کر دی۔
انا للہ و انا الہ راجعون
واضح رہے کہ قحبہ خانہبدکار،بدچلن ،فاحشہ اور زانیہ عورتوں کے ٹھکانے کو کہتے ہیں۔کیا قرآن مجید کی تلاوت کرنے والا کوئی عام سا فرد بھی ایسی گندی اور بے ہودہ بات قرآن مجید کی طرف منسوب کر سکتا ہے؟اور یہ کتاب رجسڑڈ جماعت کے لٹریچر میں بھی شامل ہے لیکن افسوس صد افسوس یہ تقلید کی شدت ہی تو ہے کہ قول امام کے خلاف زبان نہیں کھولنی،خواہ امام کتاب اللہ پر بکثرت جھوٹ ہی کیوں نہ بول دے۔!
مجھے یہ کتاب سرسری طور پر پڑھتے ہوئے جتنے بھی ایسے قیاس والے واقعات ملے تھے وہ میں نے لکھ دیئے ہیں۔باقی آپ کو معلوم ہی ہے کہ عقل مند کے لئے اشارہ کافی ہوتا ہے۔
 
Top