• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تقدیر پر ایمان لانے کا مفہوم :

شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,800
پوائنٹ
1,069
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ !

الحمد للہ:

"تقدیر" کائنات میں ہونے والے تغیرات کے متعلق اللہ کی طرف سے لگائے گئے اندزاے کا نام ہے، یہ تغیرات پہلے سے اللہ تعالی کے علم میں ہوتے ہیں، اور حکمتِ الہی کے عین مطابق وقوع پذیر ہوتے ہیں۔

تقدیر پر ایمان لانے کیلئے چار امور ہیں:

اول:

اس بات پر ایمان لانا کہ اللہ تعالی تمام چیزوں کے بارے میں اجمالی اور تفصیلی ہر لحاظ سے ازل سے ابد تک علم رکھتا ہے، اور رکھے گا، چاہے اس علم کا تعلق اللہ تعالی کے اپنے افعال کے ساتھ ہو یا اپنے بندوں کے اعمال کے ساتھ۔

دوم:

اس بات پر ایمان لانا کہ اللہ تعالی نے تقدیر کو لوحِ محفوظ میں لکھ دیا ہے۔

مذکورہ بالا دونوں امور کی دلیل فرمانِ باری تعالی ہے:

( أَلَمْ تَعْلَمْ أَنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ مَا فِي السَّمَاءِ وَالأَرْضِ إِنَّ ذَلِكَ فِي كِتَابٍ إِنَّ ذَلِكَ عَلَى اللَّهِ يَسِيرٌ )

ترجمہ: کیا آپ نہیں جانتے کہ اللہ تعالی جو کچھ آسمانوں میں ہے یا زمین پر سب کو بخوبی جانتا ہے، اور یہ سب کچھ کتاب [لوحِ محفوظ] میں لکھا ہوا ہے، اور [ان سب کے بارے میں ]علم رکھنا اللہ کیلئے بہت آسان ہے۔ الحج /70

جبکہ صحیح مسلم (2653) میں عبد اللہ بن عَمرو بن العاص رضی اللہ عنہما سے ہے کہ آپ کہتے ہیں:

میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا، آپ فرما رہے تھے: (اللہ تعالی نے آسمان و زمین کی تخلیق سے پچاس ہزار سال پہلے ہی تمام مخلوقات کی تقدیریں لکھ دی تھیں) اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (سب سے پہلے اللہ تعالی نے قلم کو پیدا فرمایا، اور اسے حکم دیا: "لکھو!" تو قلم نے کہا: یا رب! میں کیا لکھوں؟ اللہ تعالی نے اسے فرمایا: "قیامت قائم ہونے تک آنے والی مخلوقات کی تقدیریں لکھ دو")

أبو داود (4700) نے اسے روایت کیا ہے، اور البانی نے صحيح أبو داود میں اسے صحیح قرار دیا ہے۔

سوم:

اس بات پر ایمان ہو کہ ساری کائنات کے امور مشیئتِ الہی کے بغیر نہیں چل سکتے، چاہے یہ افعال اللہ سبحانہ وتعالی کی ذات سے تعلق رکھتے ہوں یا مخلوقات سے، چنانچہ اپنے افعال کے بارے میں اللہ تعالی فرماتا ہے:

(وَرَبُّكَ يَخْلُقُ مَا يَشَاءُ وَيَخْتَارُ )

ترجمہ: اور آپکا رب جو چاہتا اور پسند کرتا ہے وہی پیدا کردیتا ہے۔ القصص /68

( وَيَفْعَلُ اللَّهُ مَا يَشَاءُ )

ترجمہ: اور اللہ تعالی جو چاہتا ہے، وہی کرتا ہے۔ ابراهيم /27

( هُوَ الَّذِي يُصَوِّرُكُمْ فِي الأَرْحَامِ كَيْفَ يَشَاءُ )

ترجمہ: وہ ہی ہے وہ ذات جو تمہاری شکمِ مادر کے اندر جیسے چاہتا ہے شکلیں بنا دیتا ہے۔ آل عمران /6

جبکہ افعال ِ مخلوقات کے بارے میں فرمایا:

( وَلَوْ شَاءَ اللَّهُ لَسَلَّطَهُمْ عَلَيْكُمْ فَلَقَاتَلُوكُمْ )

ترجمہ: اور اگر اللہ تعالی چاہتا تو انہیں تم پر مسلط کر دیتا، پھر وہ تم سے جنگ کرتے۔ النساء /90

اسی طرح سورہ انعام میں فرمایا:

( وَلَوْ شَاءَ رَبُّكَ مَا فَعَلُوهُ )

ترجمہ:اور اگر تمہارا رب چاہتا تو وہ کچھ بھی نا کرپاتے۔ الأنعام /112

چنانچہ کائنات میں رونما ہونے والے تمام تغیرات اور حرکات وسکنات اللہ کی مشیئت ہی سے وقوع پذیر ہوتے ہیں، اللہ تعالی جو چاہتا ہے وہ ہو جاتا ہے، اور جو نہیں چاہتا وہ نہیں ہوتا۔

چہارم:

اس بات پر ایمان لانا کہ تمام کائنات اپنی ذات، صفات، اور نقل وحرکت کے اعتبار سے اللہ تعالی کی مخلوق ہے، اس بارے میں فرمایا:

( اللَّهُ خَالِقُ كُلِّ شَيْءٍ وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ وَكِيلٌ )

ترجمہ:اللہ تعالی ہی ہر چیز کا خالق ہے، اور وہ ہر چیز پر نگہبان ہے۔ الزمر /62

( وَخَلَقَ كُلَّ شَيْءٍ فَقَدَّرَهُ تَقْدِيراً )

ترجمہ: اور اللہ تعالی ہی نے ہر چیز کو پیدا فرمایا، اور انکا اچھی طرح اندازہ بھی لگایا۔ الفرقان /2

اسی طرح اللہ تعالی نے ابراہیم علیہ السلام کے متعلق بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ انہوں نے اپنی قوم سے کہا تھا:

( وَاللَّهُ خَلَقَكُمْ وَمَا تَعْمَلُونَ )

ترجمہ:اور اللہ تعالی نے تمہیں اور تمہارے اعمال کو پیدا کیا ہے۔ الصافات /96

چنانچہ اگر کوئی شخص مذکورہ بالا امور پر ایمان لے آئے تو اسکا تقدیر پر ایمان درست ہوگا۔

ہم نے تقدیر پر ایمان کے بارے میں جو گفتگو کی ہے یہ اس بات کے منافی نہیں ہے کہ بندے کی اپنے اختیاری افعال میں کوئی بس ہی نا چلے، اور بندہ خود سے کچھ کرنے کے قابل ہی نہ ہو، کہ بندے کو کسی نیکی یا بدی کرنے کا مکمل اختیار نا دیا جائے، یہی وجہ ہے کہ لوگ نیکی بدی سب کرتے ہیں، شریعت اور حقائق اسی بات پر دلالت کرتے ہیں کہ بندے کی اپنی مشیئت بھی ہوتی ہے۔

شریعت سے دلیل یہ ہے کہ اللہ تعالی نے بندے کی مشیئت کے بارے میں فرمایا:

( ذَلِكَ الْيَوْمُ الْحَقُّ فَمَنْ شَاءَ اتَّخَذَ إِلَى رَبِّهِ مَآباً )

ترجمہ: قیامت کا دن سچا دن ہے، چنانچہ جو چاہتا ہے وہ اپنے رب کی طرف لوٹنے کی جگہ مقرر کر لے۔ النبأ /39

اسی طرح فرمایا:

( فَأْتُوا حَرْثَكُمْ أَنَّى شِئْتُمْ )

تم اپنی کھیتی [بیویوں]کو جس طرح سے چاہوآؤ۔ البقرة /223

جبکہ انسانی طاقت کے بارے میں بھی فرمایا:

( فَاتَّقُوا اللَّهَ مَا اسْتَطَعْتُمْ )

ترجمہ: اپنی طاقت کے مطابق ہی اللہ تعالی سے ڈرو۔ التغابن /16

اسی طرح سورہ بقرہ میں فرمایا:

( لا يُكَلِّفُ اللَّهُ نَفْساً إِلا وُسْعَهَا لَهَا مَا كَسَبَتْ وَعَلَيْهَا مَا اكْتَسَبَتْ )

ترجمہ: اللہ تعالی کسی نفس کو اسکی طاقت سے بڑھ کر مکلف نہیں بناتا، چنانچہ جواچھے کام کریگا اسکا فائدہ اُسی کو ہوگا، اور جو برے کام کریگا اسکا وبال بھی اُسی پر ہوگا۔ البقرة /286

مندرجہ بالا آیات میں انسانی ارادہ ، اور استطاعت و قوت کو ثابت کیا گیا ہے، انہی دونوں اشیاء کی وجہ سے انسان جو چاہتا ہے کرتا ہے، اور جو چاہتا ہے اسے چھوڑ دیتا ہے۔

حقائق بھی اسی بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ ہر انسان اس بات کو بخوبی جانتا ہے کہ وہ کام کاج کرنا یا نا کرنا اپنی طاقت اور چاہت کے مطابق ہی کرتا ہے، اسی طرح انسان ان امور میں بھی فرق کر لیتا ہے جو اسکی چاہت کے ساتھ ہوں، جیسے چلنا پھرنا، اور جو اسکی چاہت کے ساتھ نہ ہوں جیسے کپکپی طاری ہونا، لیکن ان تمام چیزوں کے با وجود انسان کی تمام چاہت و قوت اللہ تعالی کی مشیئت اور قدرت کے تابع ہوتی ہیں، اسکی دلیل اللہ تعالی کا فرمان:

( لِمَنْ شَاءَ مِنْكُمْ أَنْ يَسْتَقِيمَ [28] وَمَا تَشَاءُونَ إِلا أَنْ يَشَاءَ اللَّهُ رَبُّ الْعَالَمِينَ )

ترجمہ: تم میں سے جو چاہے سیدھے راستے پر چلے[28] اور تم وہی کچھ چاہ سکتے ہو جو اللہ چاہے جو تمام جہانوں کا رب ہے۔ التكوير /28-29

[عقلی طور پر بھی]یہ ساری کائنات اللہ تعالی کی بادشاہت میں ہے، اس لئے اس کائنات میں کوئی بھی کام اللہ تعالی کے علم و مشیئت کے بغیر نہیں ہوسکتا۔

واللہ تعالی اعلم

دیکھیں: " شرح أصول الإيمان " از شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ .

الاسلام سوال و جواب

http://islamqa.info/ur/34732
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
"تقدیر" کائنات میں ہونے والے تغیرات کے متعلق اللہ کی طرف سے لگائے گئے اندزاے کا نام ہے[/QUOTE]
السلام علیکم ورحمۃ اللہ برکاتہ!
محترم شیخ @اسحاق سلفی صاحب!
لیس کمثلہ شیء وھو السمع البصیر
لا شک کہ اللہ تعالی کی صفات مخلوق جیسی نہیں بلکہ اس کی شان کے مطابق ہیں۔۔
کیا اندازے کی بجائے کوئی اور لفظ استعمال ہو سکتا ہے کہ جس سے یقینی علم کا مفہوم واضح نظر آئے؟
جزاک اللہ خیرا!
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
کیا اندازے کی بجائے کوئی اور لفظ استعمال ہو سکتا ہے کہ جس سے یقینی علم کا مفہوم واضح نظر آئے؟
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ ۔
آپ نے صحیح نشاندہی کی ۔۔۔یعنی جیسے آپ سمجھ رہے ہیں ، واقعی یہاں یہ الفاظ ٹھیک نہیں :
"تقدیر" کائنات میں ہونے والے تغیرات کے متعلق اللہ کی طرف سے لگائے گئے اندزاے کا نام ہے،
جن الفاظ کا یہ ترجمہ کیا گیا ہے وہ یہ ہیں :
(القَدَر: تقدير الله تعالى لكل ما يقع في الكون ، حسبما سبق به علمه ، واقتضته حكمته )
اس کا ترجمہ ہے :کہ ۔قدر ۔ کائنات میں جو کچھ ہونے والا ہے اور جس طرح ہونے والا ہے اس کو ۔اور اس کے بارے پہلے سے اللہ کے علم، اور اس کی حکمت کو کہا جاتا ہے ۔

اس میں اصل سبب تو ’’ اردو کی تنگ دامانی ‘‘ بھی ہے ، اور کچھ مترجم بھائی کی بے دھیانی بھی ہو سکتی ہے ۔جس نے لفظ ’’ تقدیر ‘‘ کا ترجمہ ’’اندازہ لگانا ‘‘ کردیا ۔جو ویسے تو لغت کے لحاظ سے حسب موقع صحیح ہوسکتا ہے لیکن یہاں قضاء و قدر کے باب میں اللہ کی نسبت صحیح نہیں :
آپ کو پہلے لفظ ۔۔تقدیر ۔۔کا اختصار سے ۔ لغۃ ً تعارف کرواتے ہیں ۔
اس کی اصل ’’ ق در ‘‘ ہے ،اور قدر سے بہت سارے اسم و فعل بنتے ہیں ؛
(۱) ۔جیسے (قدَره حقَّ قَدْره: أعطاهُ ما يستحقّه من عناية وتعظيم "قدَرَ أستاذَه حقَّ قدره- {وَمَا قَدَرُوا اللهَ حَقَّ قَدْرِهِ}یعنی قدر کا معنی یہ کہ کسی کی ایسی تعظیم و تکریم جیسی اس شان تھی ،جس کا وہ مستحق تھا ۔اور جیسے قرآن مجید میں ہے کہ مشرکین نے اللہ کی ایسی قدر نہیں کی جیسی اس کی قدر کرنے کا حق تھا ۔
اور ایک معنی اس یہ ہے کہ :
(۲)۔ قدَر اللهُ الأمرَ: قضى وحكم به "قدر اللهُ السَّعادةَ عليه- {فَالْتَقَى الْمَاءُ عَلَى أَمْرٍ قَدْ قُدِرَ}: حُكم به أزلاً" اللہ کے وہ فیصلے اور حکم جو اس نے ازل میں کردیئے ۔جو ہوکر رہیں گے۔اس میں ’’ اندازہ ‘‘کی جگہ نہیں ۔
(۳ ) اور اسی سے بالفعل کسی کام کے کرنے کی استطاعت اور طاقت کو قدرت اور فاعل کو قادر، قدیر کہا جاتا ہے ،اسی سے (إِنَّ اللَّهَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ )
اور عقیدہ تقدیر کے معنی ہیں::
والقدر في الاصطلاح: " ما سبق به العلم، وجرى به القلم مما هو كائن إلى الأبد، وأنه - عز وجل - قدَّر مقادير الخلائق، وما يكون من الأشياء قبل أن تكون في الأزل، وعلم سبحانه أنها ستقع في أوقات معلومة عنده تعالى، وعلى صفات مخصوصة، فهي تقع على حسب ما قدرها " ( عقيدة السفاريني: 1/348.)
یعنی جس کا پہلے سے علم ہے ،ابد تک جو کچھ ’’ ہونے ‘‘ والا ہے اس پر قلم چل چکا ہے ،اور قبل اس کے کہ ازل میں ان کا وجود ہو اللہ عزوجل نے مخلوق کے بارے فیصلے کردیئے ۔اور عالم وجود میں اپنے اپنے وقت پر کس خاص کیفیت میں جو کچھ ہونے والا ہے ،اللہ کو اس کا پہلے سے علم تھا ،لہذا وہ سب کچھ اس سٹیج پر ویسے ہی واقع ہوگا ۔‘‘
مزید تفصیل کیلئے ڈاکٹر عبد الرحمن بن محمود کی کتاب ’’ القضاء والقدر في ضوء الكتاب والسنة ومذاهب الناس فيه ‘‘
مفید رہے گی ۔ان شاء اللہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بالفاظ دیگر : تقدیر اللہ کے اس یقینی علم کو کہا گیا ہے جو مخلوق کے وجود سے پہلے ہی اس کو تھا ۔
ہر چیز ،ہر کام ٹھیک اسی ہوگا جس طرح خالق نے پہلے سے طے کردیا ہے ۔
یعنی تقدیر الہی کا وجود ۔۔مخلوق کے وجود سے پہلے ہے ۔
عــــــــــــــ
کن فیکون تے کل دی گل ہے
 
Last edited:

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
اللہ تعالی آپ کو جزائے خیر سے نوازے۔۔آمین!
 

جوش

مشہور رکن
شمولیت
جون 17، 2014
پیغامات
621
ری ایکشن اسکور
320
پوائنٹ
127
تقدیر پر ایمان لانے کا مفہوم یہ ہے کہ انسان کو تقدیر کے متعلق بحث نہیں کرنی چاہئے بلکہ اس پر صرف ایمان رکھنا چاہئے کیونکہ اسکا علم صرف اللہ کو ہے مخلوق کو نہیں ۔ لہذا جب مخلوق کو اسکے متعلق علم ہی نہیں ہے تو بحث کیسے کریگا۔ اسی لئے حدیث میں آتا ہے :الایمان بالقدر خیرہ و شرہ۔
 
Top