السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ !
شیخ محترم
@اسحاق سلفی بھائی اس حدیث کی مزید وضاحت کر دیں
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ ۔
سنن الترمذی
باب ما جاء في التشديد في الخوض في القدر
باب: تقدیر کے مسئلہ میں بحث و تکرار بڑی بری بات ہے
عن ابي هريرة قال: خرج علينا رسول الله صلى الله عليه وسلم ونحن نتنازع في القدر فغضب حتى احمر وجهه حتى كانما فقئ في وجنتيه الرمان فقال: " ابهذا امرتم ام بهذا ارسلت إليكم إنما هلك من كان قبلكم حين تنازعوا في هذا الامر عزمت عليكم الا تتنازعوا فيه " قال ابو عيسى: وفي الباب عن عمر وعائشة وانس
(سنن الترمذی ،حدیث نمبر: 2133 ۔۔۔۔۔ قال الشيخ الألباني: حسن، المشكاة (98 و 99)
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ (ایک دن) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہماری طرف نکلے، اس وقت ہم سب تقدیر کے مسئلہ میں بحث و مباحثہ کر رہے تھے، آپ غصہ ہو گئے یہاں تک کہ آپ کا چہرہ سرخ ہو گیا اور ایسا نظر آنے لگا گویا آپ کے گالوں پر انار کے دانے نچوڑ دئیے گئے ہوں۔ آپ نے فرمایا: ”کیا تمہیں اسی کا حکم دیا گیا ہے، یا میں اسی واسطے تمہاری طرف نبی بنا کر بھیجا گیا ہوں؟ بیشک تم سے پہلی امتیں ہلاک ہو گئیں جب انہوں نے اس مسئلہ میں بحث و مباحثہ کیا، میں تمہیں قسم دلاتا ہوں کہ اس مسئلہ میں بحث و مباحثہ نہ کرو“ ۱؎۔
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
وضاحت: ۱؎ : تقدیر پر ایمان لانا فرض ہے، یعنی یہ اعتقاد رکھنا کہ بندوں کے اچھے اور برے اعمال کا خالق اللہ تعالیٰ ہے اور ان کا ظہور اللہ کے قضاء و قدر اور اس کے ارادے و مشیئت پر ہے، اور اس کا علم اللہ کو پوری طرح ہے، لیکن ان امور کا صدور خود بندے کے اپنے اختیار سے ہوتا ہے، مگر اللہ تعالیٰ اچھے اعمال کو پسند کرتا ہے، اور برے اعمال کو ناپسند کرتا ہے، اور اسی اختیار کی بنیاد پر جزا و سزا دیتا ہے، تقدیر کے مسئلہ میں عقل سے غور و خوض اور بحث و مباحثہ جائز نہیں، کیونکہ اس کا کوئی فائدہ نہیں بلکہ الٹا گمراہی کا خطرہ ہے۔
علامہ عبد الرحمن مبارکپوری رحمہ اللہ ۔ تحفة الأحوذي۔میں اس حدیث شریف کے تحت لکھتے ہیں :
’’ وإنما غضب لأن القدر سر من أسرار الله تعالى وطلب سره منهي ولأن من يبحث فيه لا يأمن من أن يصير قدريا أو جبريا والعباد مأمورون بقبول ما أمرهم الشرع من غير أن يطلبوا سر ما لا يجوز طلب سره ۔۔الخ
یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس لئے غصہ ہوئے کہ :تقدیر اللہ کے رازوں میں ایک راز ہے ،یعنی پوشیدہ امر ہے ،اور اس کے راز جاننے کی کوشش منع ہے ۔
اور اس لئے بھی کہ جو بھی اس موضوع کی کرید کرے گا ،وہ دو فتنوں سے ایک میں گرفتار ہوسکتا ہے ،یعنی یا تو قدری ہو سکتا ہے ،یعنی تقدیر کا منکر ۔اور یا پھر اس کے جبری ہونے کا ڈر ہے جو بند کے اختیار کی کلی نفی کرتے ہیں ۔
جبکہ :بندے صرف اس بات کے پابند ہیں کہ اللہ تعالی کے احکام کی بجا آوری کریں ۔نہ کہ اس کے رازوں کی تہہ تک پہنچنے کی جرات کرتے پھریں ۔ انتہی ما قالہ المبارکفوری ۔))
مثلاً بے نماز کہے کہ :اگر تقدیر میں میرا نمازی ہونا لکھا ہوتا تو میں نمازی ہوتا ،(اس طرح اپنے اختیار کی نفی کرے ،اور جزاء و سزا کے قانون کو لغو قرار دے )
یا اس کے برعکس بندے کے ہر عمل میں اللہ کی مشیت و ارادہ ،توفیق کی نفی کردے ،اور کہنے لگے کہ بندہ اپنے اعمال و افعال میں مکمل خود مختار اور آزاد ہے ،
تو اس طرح وہ قدری یعنی تقدیر کا منکر ہوجائے ۔