السلام علیکم تمام دوستوں کا کیا حال چال ہے، اللہ تعالیٰ سے امید ہے کہ تمام دوست صحت و ایمان کے ساتھ خوش و خرم ہونگے، اللہ تعالیٰ ہم سب کو پکا اور سچا مسلمان بننے کی توفیق عطا فرمائے۔
کچھ دوستوں نے کہا تھا کہ تقدیر کے موضوع پر جو احادیث میرے پاس ہیں میں ان کو یہاں پر شیئر کروں تو لیجئے جناب میں ان کو یہاں پر پیش کررہا ہوں، اللہ تعالیٰ ہم سب کو دین سمجھنے اور عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
اہل علم حضرات سے گزارش ہے کہ ان احادیث مبارکہ کی روشنی میں مسئلہ تقدیر کو مزید واضح طور پر بیان کیا جائے میں اس موضوع پر اسی ویب سائٹ پر موجود ایک کتاب ’’منکرین حدیث اور مسئلہ تقدیر‘‘ کا مطالعہ بھی کر چکا ہوں مگر پھر بھی تشنگی باقی ہے امید ہے اس پر مزید روشنی ڈالی جائے گی۔
العارض
اعجاز احمد
----------------------------------------------------------
مسئلہ تقدیر کے موضوع پر صحاح ستہ میں سے احادیث پیش خدمت ہیں:
صحیح بخاری:جلد دوم:حدیث نمبر 443 حدیث مرفوع مکررات 12 متفق علیہ 8
حسن بن ربیع ابوالاحوص اعمش زید بن وہب حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اور وہ صادق و مصدوق تھے کہ تم میں سے ہر ایک کی پیدائش ماں کے پیٹ میں پوری کی جاتی ہے چالیس دن تک (نطفہ رہتا ہے) پھر اتنے ہی دنوں تک مضغہ گوشت رہتا ہے پھر اللہ تعالیٰ ایک فرشتہ کو چار باتوں کا حکم دے کر بھیجتا ہے اور اس سے کہا جاتا ہے کہ اس کا عمل اس کا رزق اور اس کی عمر لکھ دے اور یہ (بھی لکھ دے) کہ وہ بد بخت (جہنمی) ہے یا نیک بخت (جنتی) پھر اس میں روح پھونک دی جاتی ہے بیشک تم میں سے ایک آدمی ایسے عمل کرتا ہے کہ اس کے اور جنت کے درمیان (صرف) ایک گز کا فاصلہ رہ جاتا ہے کہ اس کا نوشتہ (تقدیر) غالب آجاتا ہے اور وہ دوزخیوں کے عمل کرنے لگتا ہے اور (ایک آدمی) ایسے عمل کرتا ہے کہ اس کے اور دوزخ کے درمیان (صرف) ایک گز کا فاصلہ رہ جاتا ہے کہ اتنے میں تقدیر (الٰہی) اس پر غالب آجاتی ہے اور وہ اہل جنت کے کام کرنے لگتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
صحیح بخاری:جلد دوم:حدیث نمبر 561 حدیث مرفوع مکررات 12 متفق علیہ 8
عمر بن حفص ان کے والد اعمش زید بن وہب حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا آپ صادق المصدوق ہیں کہ تم میں سے ہر ایک کی پیدائش چالیس دن اس کی ماں کے پیٹ میں پوری کی جاتی ہے پھر چالیس دن میں نطفہ خون بستہ بن جاتا ہے پھر اتنی ہی مدت میں وہ مضغہ گوشت ہوتا ہے پھر اللہ ایک فرشتے کو چار باتوں کا حکم دے کر بھیجتا ہے پس وہ اس کا عمل، اس کی موت، اس کا رزق اور شقاوت یا سعادت لکھ دیتا ہے پھر اس میں روح پھونک دی جاتی ہے اور ایک آدمی دوزخیوں جیسا عمل کرتا ہے حتیٰ کہ اس کے اور دوزخ کے درمیان صرف ایک گز کا فاصلہ رہ جاتا ہے تو فورا اس کا نوشہ تقدیر آگے بڑھتا ہے اور وہ اہل جنت کے سے عمل کرتا ہے اور جنت میں داخل ہوجاتا ہے اور ایک آدمی اہل جنت کے سے عمل کرتا ہے حتیٰ کہ اس کے اور جنت کے درمیان صرف ایک گز کا فاصلہ رہ جاتا ہے کہ اس کا نوشتہ الٰہی آگے بڑھتا ہے اور وہ دوزخیوں جیسے عمل کرنے لگتا ہے اور دوزخ میں چلا جاتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جامع ترمذی:جلد دوم:حدیث نمبر 537 حدیث مرفوع مکررات 1
حسن بن عرفہ، اسماعیل بن عیاش، یحیی بن ابوعمروشیبانی، عبداللہ بن دیلمی، حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنا کہ اللہ تعالی نے اپنی مخلوق کو تاریکی میں پیدا کیا۔ پھر ان پر اپنا نور ڈالا۔ پس جس پر وہ نور پہنچا اس اس نے ہدایت پائی اور جس تک نہیں پہنچا وہ گمراہ ہوگیا۔ اس لیے میں کہتا ہوں کہ اللہ تعالی کے علم پر قلم خشک ہوگیا۔ یہ حدیث حسن ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سنن ابن ماجہ:جلد سوم:حدیث نمبر 750 حدیث مرفوع مکررات 4
محمدبن بشار، ابوداؤد، ابن ابی زناد، ابان بن عثمان، حضرت ابان بن عثمان فرماتے ہیں کہ میں نے سیدنا عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو یہ فرماتے سنا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے سنا جو بندہ بھی ہر روز صبح اور شام کو یہ کلمات کہے ’’بسم اللہ الذی لا یضر مع اسمہ شیء فی الارض ولا فی السماء وھو السمیع العلیم ‘‘ تین بار۔۔ یہ نہیں ہوسکتا کہ اسے کوئی ضرر پہنچے۔ راوی کہتے ہیں کہ حضرت ابان کو فالج تھا۔ ایک شخص انکی طرف (تعجب سے) دیکھنے لگا تو حضرت ابان نے اس سے کہا دیکھتے کیا ہو۔ حدیث ایسے ہی ہے جیسے میں نے بیان کی لیکن ایک روز میں پڑھ نہ سکا (بھول گیا) تاکہ اللہ تعالی اپنی اٹل تقدیر مجھ پر جاری فرما دیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
صحیح مسلم:جلد سوم:حدیث نمبر 2242 حدیث مرفوع مکررات 1 متفق علیہ 1 بدون مکرر
اسحاق بن ابراہیم، عثمان بن عمر عزرہ بن ثابت یحیی بن عقیل یحیی ابن یعمر حضرت ابوالاسود دیلی سے روایت ہے کہ مجھے عمران بن حصین نے کہا کیا تو جانتا ہے کہ آج لوگ عمل کیوں کرتے ہیں اور اس میں مشقت کیوں برداشت کرتے ہیں کیا یہ کوئی ایسی چیز ہے جس کا فیصلہ ہوچکا ہے اور تقدیر الہی اس پر جاری ہو چکی ہے یا وہ عمل ان کے سامنے آتے ہیں جنہیں ان کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی لائی ہوئی شریعت نے دلائل ثابتہ سے واضح کردیا ہے تو میں نے کہا نہیں بلکہ ان کا عمل ان چیزوں سے متعلق ہے جن کا حکم ہو چکا ہے اور تقدیر ان میں جاری ہو چکی ہے تو عمران نے کہا کیا یہ ظلم نہیں ہے راوی کہتے ہیں کہ اس سے میں سخت گھبرا گیا اور میں نے کہا ہر چیز اللہ کی مخلوق اور اس کی ملکیت ہے پس اس سے اس کے فعل کی باز پرس نہیں کی جاسکتی اور لوگوں سے تو پوچھا جائے گا تو انہوں نے مجھے کہا اللہ تجھ پر رحم فرمائے میں نے آپ سے یہ سوال صرف آپ کی عقل کو جانچنے کے لئے ہی کیا تھا قبیلہ مزنیہ کے دو آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا اے اللہ کے رسول آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس بارے میں کیا فرماتے ہیں کہ لوگ آج عمل کس بات پر کرتے ہیں اور کس وجہ سے اس میں مشقت برادشت کرتے ہیں کیا یہ کوئی ایسی چیز ہے جس کے بارے میں حکم صادر ہو چکا ہے اور اس میں تقدیر جاری ہو چکی ہے یا ان کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم جو احکام لے کرئے ہیں اور تبلیغ کی حجت ان پر قائم ہو چکی ہے اس کے مطابق عمل ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نہیں بلکہ ان کا عمل اس چیز کے مطابق ہے جس کا فیصلہ ہو چکا ہے اور تقدیر اس میں جاری ہو چکی ہے اور اس کی تصدیق اللہ کی کتاب میں (وَنَف?سٍ وَمَا سَوَّا?َا فَ?َل??َمَ?َا فْجْورَ?َا وَتَق?وَا?َا) موجود ہے اور قسم ہے انسان کی اور جس نے اس کو بنایا اور اسے اس کی بدی اور نیکی کا الہام فرمایا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
صحیح مسلم:جلد سوم:حدیث نمبر 2254 حدیث مرفوع مکررات 5 متفق علیہ 2
عبدالاعلی بن حماد مالک بن انس، قتیبہ بن سعید مالک زیادہ بن سعید عمرو بن مسلم حضرت طاؤس سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ کے متعدد صحابہ سے ملاقات کی ہے وہ کہتے تھے ہر چیز تقدیر سے وابستہ ہے اور میں نے حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے سنا کہ رسول اللہ نے فرمایا ہر چیز تقدیر سے وابستہ ہے یہاں تک کہ عجز اور قدرت یا قدرت اور عجز۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سنن ابوداؤد:جلد سوم:حدیث نمبر 1181 حدیث مقطوع مکررات 1
محمد بن کثیر، سفیان، عمر بن عبدالعزیز (یہ حدیث تین سند سے مروی ہے۔ سفیان ثوری کہ ایک شخص نے حضرت عمر بن عبدالعزیز کو خط لکھا تقدیر کے بارے میں معلوم کرنے کے لیے۔ دوسری سند۔ سفیان ثوری نضر سے روایت کرتے ہیں کہ۔ تیسری سند) ابورجاء نے ابوالصلت سے روایت کیا کہ ایک شخص نے حضرت عمر بن عبدالعزیز کو خط لکھا تقدیر کے بارے میں پوچھنے کے لیے تو انہوں نے لکھا کہ اما بعد۔ میں تمہیں اللہ سے ڈرنے کی وصیت کرتا ہوں اور اس کے معاملہ میں راہ اعتدال پر چلنے کی۔ اور اس کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت کی اتباع کی وصیت کرتا ہوں اور اہل بدعت و مبتدعین نے جو کچھ دین میں ایجاد کرلیا ہے اسے چھوڑنے کی۔ سنت نبوی رضی اللہ تعالی عنہ کے جاری ساری ہونے کے بعد اور اس کی مشقت سے وہ سبکدوش ہوگئے تھے۔ پس تم پر لازم ہے کہ سنت کو مضبوطی سے تھامے رکھو کیونکہ وہ تمہارے لیے اللہ کے حکم سے بچاؤ ہے پھر جان لو کہ لوگوں نے کوئی بدعت ایسی نہیں ایجاد کی پچھلے زمانہ میں اس کے بطلان پر دلیل نہ ہو۔ یا اس کے اندر لوگوں کو عبرت نہ ہوئی ہو کیونکہ سنت کا اجراء ایسے شخص اور ہستی نے کیا تھا جسے معلوم تھا کہ اس کی سنت کے خلاف میں کیا کیا خطائیں لغزشیں، حماقتیں اور گہرائیاں ہیں پس تم اپنے نفس کے لیے اس چیز کو پسند کیا تھا کیونکہ وہ علم دین سے واقف تھے اور بہت باریک بین تھے اور غور و فکر سے کام لے کر ممنوعات سے رک گئے تھے اور وہ احکام دین کا مطلب سمجھنے پر ہم سے زیادہ اقوی اور قادر تھے اور ان کے اندر جو فضائل تھے ان کی بناء پر وہ اور زیادہ بہتر تھے اور تم جس طریقہ پر رہو اگر اس میں ہدایت ہوتی تو تم ان پر سبقت کر گئے اور اگر تم یہ کہو کہ جس نے ان کے بعد نئی نئی باتیں ایجاد کیں تو وہ ان کے طریقہ پر نہیں چلے اور ان سے اعراض وبیزاری کا اظہار کیا تو بے شک ہم بھی یہی کہتے ہیں کہ وہی سبقت لے جانے والے ہیں پس انہوں نے جتنا کافی ہے اتنا بیان کردیا اس بارے میں جتنا شافی ہے وہ کہہ دیا پس ان کے پیچھے بھی کوئی کمی نہیں اور ان کے اوپر بھی کوئی زیادتی نہیں اور بے شک ایک قوم نے کوتاہی کی ان کے نیچے تو انہوں نے جفا اور ظلم کیا اور بعض لوگ ان سے اونچے ہوگئے تو انہوں نے غلو سے کام لیا۔ اور بے شک اسلام امت ان کے دونوں کے درمیان صراط مستقیم پر تھے تم نے تقدیر کے اقرار کے بارے میں سوال لکھا ہے تو اللہ کے حکم سے تم نے ایک عالم اور ایک باخبر آدمی سے پوچھا ہے تو جہاں تک میرے علم میں ہے لوگوں نے جتنی بدعات اور نئی باتیں ایجاد کی ہیں ان میں تقدیر پر اقرار کا بیان خوب واضح ہے اور مضبوط ہے دورجاہلیت میں اس کا تذکرہ تھا حتی کہ جہلاء اس کے بارے میں کلام کرتے تھے اپنی گفتگو میں اور اپنے اشعار میں اور اس کے ذریعہ سے اپنی ضائع اور فوت ہوجانے والی اشیاء پر صبر کرتے تھے پھر اسلام نے اس میں سوائے شدت کے کوئی اضافہ نہیں کیا۔ اور بے شک رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کا تذکرہ کیا ہے ایک یا دو حدیثوں میں نہیں اور مسلمانوں نے اس کو سنا آپ سے اور اس کے بارے میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیات طیبہ میں اور وفات کے بعد گفتگو بھی کرتے رہے اپنے پروردگار پریقین رکھتے ہوئے اور تسلیم کرتے ہوئے اور اپنے آپ کو کمزور کرتے ہوئے کہ کوئی ایسی چیز ہو جس کو اللہ کا علم محیط نہ ہو اور اس کی کتاب نے اسے شمار نہ کیا ہو اس میں اس کی تقدیر جاری نہ ہوئی ہو اور ان کے اس ایمان کے باوجود اللہ کی محکم کتاب میں تقدیر کا ذکر موجود ہے اس سے ہی انہوں نے اقتباس لیا اس بارے میں اور اس سے تقدیر کا علم سیکھا اور اگر تم یہ کہو کہ اللہ نے فلاں آیت کیوں نازل کی؟ اور فلاں بات کیوں کہی؟ تو بے شک وہ اس میں یہ آیتیں پڑھ چکے ہیں جو تم پڑھتے ہو اور اس کی تاویل ومطلب بھی جانتے تھے جس سے تم جاہل ہو اور اس سب کے باوجود کتاب اللہ اور تقدیر کے قائل رہے اور جو کچھ مقدر کردیا گیا ہے وہ ہو کر رہے گا اور جو اللہ نے چاہا وہ ہوگیا اور جو وہ نہیں چاہے گا نہیں ہوگا اور ہم اپنے آپ کے لیے نفع کے ہیں اور نہ نقصان پر قدرت رکھتے ہیں پھر اسی یقین کے ساتھ اس کے بعد رغبت کرتے رہے اور ڈرتے رہے۔ (اعمال شر سے)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سنن ابوداؤد:جلد سوم:حدیث نمبر 1270 حدیث مرفوع مکررات 11
مسدد، یحیی، عثمان بن غیاث، عبداللہ بن بریدہ، حضرت یعلی بن یعمر اور حضرت حمید بن عبدالرحمن الحمیری دونوں کہتے ہیں کہ ہم دونوں حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہ سے ملے اور انہیں تقدیر کے بارے میں وہ لوگ جو کچھ کہتے ہیں بتلایا آگے سابقہ حدیث کے مانند ذکر کیا اس میں یہ اضافہ ہے کہ آپ سے قبیلہ مزنیہ یاجہینیہ کے ایک شخص نے سوال کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جو کچھ ہم اعمال کرتے ہیں کیا یہ جان کر کریں کہ اس پر تقدیر واقع ہوچکی ہے یا یہ کہ یہ عمل بغیر تقدیر کے بس ابھی ایسا ہوگیا آپ نے فرمایا کہ نہیں بلکہ یہ سمجھ کر تقدیر میں متعین ہوچکا ہے تو اس شخص نے یا چند لوگوں نے کہا کہ پھر عمل کی کیا ضرورت ہے؟ آپ نے فرمایا کہ بے شک اہل جنت کو جنت میں لے جانے والے اعمال کی توفیق ملتی ہے اور اہل دوزخ کو دوزخ میں لے جانے والے اعمال کی توفیق ملتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سنن ابوداؤد:جلد سوم:حدیث نمبر 1273 حدیث مرفوع مکررات 2
محمد بن کثیر، سفیان عن وہب بن خالد حمصی، ابن الدیلمی کہتے ہیں کہ میں حضرت ابی ابن کعب کے پاس حاضر ہوا اور ان سے کہا کہ میرے دل میں تقدیر سے متعلق کچھ شکوک وشبہات پیدا ہوگئے ہیں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس بارے میں مجھے کچھ بتلائیں شاید اللہ تعالی میرے دل سے ان مشتبہات کو نکال دیں تو ابی رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا کہ اگر اللہ آسمان والوں اور زمین والوں کو عذاب دینا چاہیں تو عذاب دے سکتے ہیں اور وہ ان پر ظلم کرنے والے نہیں ہوں گے اور اگر وہ ان پر رحم فرمائیں تو ان کی رحمت ان کے لیے ان کے اپنے اعمال سے بہتر ہوں گے اور اگر تو احد کے پہاڑ کے برابر بھی سونا خرچ کردے تو اللہ کی راہ میں وہ تجھ سے قبول نہیں فرمائیں گے یہاں تک کہ تو تقدیر پر ایمان لے آئے اور یہ نہ جان لے کہ تجھے جو کچھ (مصیبت وغیرہ پہنچی) وہ تجھ سے خطا ہونے والی نہ تھی اور جو تکلیف وغیرہ تجھے نہیں پہنچی وہ تجھے ہرگز پہنچنے والی نہیں تھی اور اگر اس اعتقاد کے بغیر تو مر گیا تو ضرور بالضرور تو آگ میں داخل ہوگا ابن الدیلمی کہتے ہیں کہ پھر میں حضرت عبداللہ بن مسعود کے پاس آیا تو انہوں نے بھی اسی طرح فرمایا پھر میں حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالی عنہ بن یمان کے پاس آیا تو انہوں نے بھی تقریبا یہی کہا پھر میں حضرت زید بن ثابت کے پاس انہوں نے بھی حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے یہی حدیث نقل کی مجھ سے۔
سنن ابوداؤد:جلد سوم:حدیث نمبر 1274 حدیث مرفوع مکررات 2
جعفر بن مسافر ہذلی، حسان، ابولولید، ابورباح، ابراہیم بن ابوعلبہ، ابوحفصہ کہتے ہیں کہ حضرت عبادہ رضی اللہ تعالی عنہ بن صامت نے اپنے بیٹے سے فرمایا کہ اے میرے بیٹے تو ہرگز ایمان کی حقیقت کی حلاوت نہیں پائے گا یہاں تک کہ تو یہ جان لے کہ تجھے جو کچھ (تکلیف یا مال وغیرہ) پہنچا وہ تجھ سے ہرگز چھٹنے والا نہ تھا اور جو تجھ سے رہ گیا وہ ہرگز تجھے ملنے والا تھا میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے تھے کہ پہلی چیز جو اللہ تعالی نے پیداکی وہ قلم ہے پھر اس سے فرمایا کہ لکھ اس نے کہا کہ اے میرے رب میں کیا لکھوں؟ اللہ تعالی نے فرمایا کہ ہر چیز کی تقدیر لکھ یہاں تک کہ قیامت قائم ہوجائے اے میرے بیٹے میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنا ہے کہ جو اس (اعتقاد و یقین کے بغیر) مر گیا تو وہ مجھ سے نہیں ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سنن نسائی:جلد دوم:حدیث نمبر 1468 حدیث مرفوع مکررات 8
محمد بن علاء ، ابن ادریس، شعبہ و ابن جریج، یحیی بن سعید و محمد بن اسحاق، سعد بن اسحاق، زینب بنت کعب، حضرت فارعہ بنت مالک سے روایت ہے کہ اس کا شوہر اپنے غلام کو تلاش کرنے کے واسطے گیا (وہ غلام عجمی تھا) ان کا شوہر وہاں قتل ہو گیا ان غلاموں نے اس کو قتل کر دیا یا کسی دوسرے نے اس کو قتل کر دیا۔ حضرت شعبہ اور حضرت ابن جریح نقل فرماتے ہیں آبادی سے اس خاتون کا مکان فاصلہ پر واقعہ تھا پھر وہ خاتون اپنے بھائی کے ہمراہ خدمت نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں حاضر ہوئی اور اس نے اپنا حال عرض کیا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں اپنے حالات عرض کیے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کو دوسرے مکان میں چلے جانے کی اجازت فرمائی۔ جس وقت وہ خاتون اپنے مکان جانے لگی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کو بلایا اور فرمایا تم اپنے مکان میں بیٹھ جاؤ جب تک کہ (تقدیر کا) لکھا ہوا پورا ہو جائے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سنن نسائی:جلد سوم:حدیث نمبر 1698 حدیث موقوف مکررات 2
محمد بن العلاء ، ابومعاویہ، الاعمش، عمارۃ، ابن عمیر، عبدالرحمن بن یزید، عبداللہ بن یزید سے روایت ہے کہ ایک دن لوگوں نے حضرت عبداللہ بن مسعود سے بہت باتیں کیں۔ انہوں نے فرمایا ایک دور ایسا تھا کہ ہم کسی بات کا حکم نہیں کرتے تھے اور نہ ہی ہم حکم کرنے کے لائق تھے پھر خداوند قدوس نے ہماری تقدیر میں لکھا تھا کہ ہم اس درجہ کو پہنچ گئے کہ جس کو تم دیکھ رہے ہو پس اب آج کے دن سے جس شخص کو تمہارے میں سے فیصلہ کرنے کی ضرورت پیش آجائے تو اس کو چاہیے کہ وہ خداوند قدوس کی کتاب کے مطابق حکم دے اگر وہ فیصلہ کتاب اللہ میں نہ ملے تو اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حکم کے مطابق حکم دے اور وہ فیصلہ کتاب اللہ اور پیغمبروں کے فیصلوں میں بھی نہ ہو تو نیک لوگوں کے فیصلوں کے مطابق فیصلے دے۔ نیک حضرات سے اس جگہ مراد حضرات خلفاء راشدین اور حضرت صحابہ کرام ہیں اور اگر وہ کام ایسا ہو جو کہ خداوند قدوس کی کتاب میں مل سکے اور نہ ہی اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے احکام میں ملے اور نہ ہی نیک حضرات کے فیصلوں میں تو تم اپنی عقل و فہم سے کام لو اور یہ نہ ہو کہ میں ڈرتا ہوں اور میں اس وجہ سے خوف محسوس کرتا ہوں کہ حلال (بھی) کھلا ہوا یعنی ظاہر ہے اور حرام (بھی) کھلا ہوا ہے اور دونوں (یعنی حرام و حلال) کتاب اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حدیث سے معلوم ہوتے ہیں البتہ ان دونوں کے درمیان بعض ایسے کام ہیں کہ جن میں شبہ ہے تو تم اس کام کو چھوڑ دو جو کام تم کو شک و شبہ میں مبتلا کرے حضرت امام نسائی نے فرمایا کہ یہ حدیث جید ہے یعنی یہ حدیث صحیح ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جامع ترمذی:جلد اول:حدیث نمبر 2131 حدیث مرفوع مکررات 2
ابن ابی عمر سفیان، عمرو بن دینار، عروہ، ابن عامر، حضرت عبید بن رفاعہ زرقی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اسماء بنت عمیس نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جعفر کے بیٹوں کو جلدی نظر لگ جاتی ہے۔ کیا میں ان پر دم کر دیا کروں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہاں۔ اگر کوئی چیز تقدیر سے سبقت لے سکتی ہے تو وہ نظر بد ہے۔ اس باب میں حضرت عمران بن حصین اور بریدہ رضی اللہ عنہما سے بھی احادیث منقول ہیں۔ یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ اسے ایوب بھی عمرو بن دینار سے وہ عروہ سے وہ عبید بن رفاعہ سے وہ اسماء بنت عمیس سے اور وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے نقل کرتی ہیں۔ ہم سے اسے حسن بن علی خلال نے عبدالرزاق کے حوالے سے انہوں نے معمر سے اور انہوں نے ایوب سے بیان کیا ہے۔
۔۔۔
جامع ترمذی:جلد دوم:حدیث نمبر 3 حدیث مرفوع مکررات 1
بندار، عبدالرحمن بن مہدی، شعبہ، عاصم بن عبید اللہ، حضرت سالم اپنے والد عبداللہ سے روایت کرتے ہیں کہ عمر نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہم جو عمل کرتے ہیں کیا یہ نیا امر ہے؟ یا عرض کیا کہ نیا شروع ہوا ہے یا یہ پہلے سے تقدیر میں لکھا جا چکا ہے اور اس سے فراغت حاصل کی جا چکی ہے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا پہلے سے لکھا ہوا ہے اور اس سے فراغت ہو چکی ہے اے خطاب کے بیٹے ہر شخص پر وہ آسان کر دی گئی ہے جس کے لئے وہ پیدا کیا گیا ہے لہذا جو نیک بخت لوگ ہیں وہ نیک بختی کے عمل کرتے ہیں اور جو بدبخت ہیں وہ اسی کے لئے عمل کرتے ہیں اس باب میں علی خذیفہ بن اسید انس اور عمران بن حصین سے بھی احادیث منقول ہیں یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جامع ترمذی:جلد دوم:حدیث نمبر 5 حدیث مرفوع مکررات 12
ہناد، ابومعاویہ، اعمش، زید بن وہب، حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ صادق مصدوق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمیں بتایا کہ تم میں ہر ایک ماں کے پیٹ میں چالیس دن تک نطفے کی حالت میں رہتا ہے پھر چالیس دن کے بعد گاڑھا خون بن جاتا ہے پھر چالیس دن میں گوشت کا لوتھڑا بنتا ہے پھر اللہ تعالی اس کی طرف ایک فرشتہ بھیجتا ہے جو اس میں روح پھونکتا ہے اور اسے چار چیزیں لکھنے کا حکم دیا جاتا ہے پس اس ذات کی قسم جس کے سوا کوئی معبود نہیں تم میں سے کوئی اہل جنت کے عمل کرتا ہے یہاں تک کہ اس کے اور جنت کے درمیان بالشت بھر فاصلہ رہ جاتا ہے پھر تقدیر الہی اس کی طرف سبقت کرتی ہے تو اس کا خاتمہ دوزخیوں کے اعمال پر ہوتا ہے اور وہ جہنم میں داخل ہو جاتا ہے اور ایک آدمی جہنمیوں کے اعمال کرتا ہے یہاں تک تقدیر الہی اس کی طرف دوڑتی ہے اور اس کا خاتمہ جنتیوں کے اعمال پر ہوتا ہے پس وہ جنت میں داخل ہو جاتا ہے یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جامع ترمذی:جلد دوم:حدیث نمبر 15 حدیث مرفوع مکررات 1
ابوالخطاب زیاد بن یحیی البصری، عبداللہ بن میمون، جعفر بن محمد، ان کے والد، حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کوئی بندہ اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتا جب تک اچھی اور بری تقدیر پر ایمان نہ لائے یہاں تک کہ وہ جان لے کہ جو چیز اسے ملنے والی تھی وہ اسے ہی ملی کسی اور کے پاس نہیں جا سکتی تھی اور جو چیز اسے نہیں ملنی وہ کسی صورت اسے نہیں مل سکتی اس باب میں حضرت عبادہ جابر اور عبداللہ بن عمرو سے بھی احادیث منقول ہیں یہ حدیث جابر کی حدیث سے غریب ہے ہم اسے صرف عبداللہ بن میمون کی حدیث سے پہچانتے ہیں اور عبداللہ بن میمون منکر حدیث تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جامع ترمذی:جلد دوم:حدیث نمبر 1034 حدیث مرفوع مکررات 4
محمد بن بشار، ابوعامر عقدی عبدالملک بن عمرو، سلیمان بن سفیان، عبداللہ بن دینار، ابن عمر، حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب یہ آیت (فَمِن??ْم? شَقِ?ّ? وَّسَعِ??د?) 11۔ہود:105) نازل ہوئی تو میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ کیا عمل اس چیز کے لئے کرتے ہیں جو لکھی جاچکی ہے ابھی نہیں لکھی ہے (یعنی تقدیر)۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ایسی چیز کے لئے جس سے فراغت حاصل کی جاچکی ہے اور اسے لکھا جاچکا لیکن ہر شخص کے لئے وہی آسان ہے جس کے لئے اسے پیدا کیا گیا۔ یہ حدیث اس سند سے حسن غریب ہے۔ ہم اس کو صرف عبدالملک بن عمرو کی روایت سے جانتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سنن ابن ماجہ:جلد اول:حدیث نمبر 77 حدیث مرفوع مکررات 2
علی بن محمد، اسحاق بن سلیمان، ابوسنان، وہب بن خالد حمصی، حضرت ابن دیلمی فرماتے ہیں کہ میرے جی میں تقدیر کے بارے میں کچھ شبہات پیدا ہوئے مجھے ڈر ہوا کہ کہیں مجھ پر دین اور معاملہ یہ خیالات بگاڑ نہ دیں۔ میں ابی بن کعب کے پاس آیا اور عرض کی ، اے ابوالمنذر، میرے دل میں تقدیر کے بارے میں کچھ شبہات پیدا ہوئے ہیں مجھے اپنے دین اور معاملہ کے خراب ہونے کا ڈر ہوا ہے مجھے تقدیر کے متعلق کوئی حدیث بیان کریں ممکن ہے اللہ مجھے اس سے کوئی نفع دے، انہوں نے بیان کیا اگر اللہ ا ہل سماء و ارض کو عذاب دینا چاہے تو عذاب دے سکتے ہیں ، تب بھی وہ ان پر ظلم کرنے والا نہیں ہے اور اگر ان پر رحم کرنا چاہیں تو اس کی رحمت ان کے لئے ان کے عملوں سے بہتر ہو گی، اور اگر تیرے پاس مثل احد پہاڑ کے سونا ہو یا مثل احد پہاڑ کے مال ہو اور تو اسے اللہ کے راستہ میں خرچ کر دے تو وہ تیری طرف سے قبول نہیں کیا جائے گا یہاں تک کہ تو تقدیر پر ایمان لے آئے، پس جان لے کہ جو مصیبت تجھے پہنچی تجھ سے ٹلنے والی نہیں تھی اور جو مصیبت تجھ سے ٹل گئی وہ تجھے پہنچنے والی نہیں تھی، اگر تو اس یقین کے علاوہ کسی اور یقین پر مر گیا تو جہنم میں داخل ہوگا۔ تجھ پر کوئی حرج نہیں کہ تو میرے بھائی عبداللہ بن مسعود کے پاس جائے اور ان سے سوال کرے، میں عبداللہ بن مسعود کے پاس آیا اور ان سے سوال کیا انہوں نے ابی بن کعب کی طرح فرمایا اور مجھ سے کہا کہ کوئی حرج نہیں کہ تم حذیفہ کے پاس جاؤ اور سوال کرو میں حذیفہ کے پاس آیا اور ان سے سوال کیا انہوں نے اسی طرح کہا جیسے عبداللہ نے کہا تھا اور فرمایا کہ زید بن ثابت کے پاس جاؤ میں زید بن ثابت کے پاس آیا اور ان سے سوال کیا انہوں نے فرمایا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ، اگر اللہ اہل سماء و ارض کو عذاب دینا چاہیں تو وہ ان کو عذاب دے سکتے ہیں تب بھی وہ ان پر ظلم کرنے والے نہیں ہیں ، اور اگر ان پر رحم کرنا چاہیں تو اس کی رحمت ان کے لئے ان کے عملوں سے بہتر ہوگی اور اگر تیرے پاس احد پہاڑ کے برابر بھی سونا ہے یا احد پہاڑ کے برابر مال ہے اور تو اس کو اللہ کے راستے میں خرچ کر دے وہ تیری جانب سے قبول نہیں کیا جائے گا حتی کہ تو تقدیر پر ایمان لے آئے، جان لے کہ جو مصیبت تجھے پہنچی ہے وہ تجھ سے ٹلنے والی نہیں تھی، اور جو مصیبت تجھے نہیں پہنچی وہ تجھ کو پہنچنے والی نہیں تھی، اور اگر تو اس کے علاوہ کسی اور عقیدہ پر مر گیا تو جہنم میں داخل ہو گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سنن ابن ماجہ:جلد سوم:حدیث نمبر 391 حدیث مرفوع مکررات 2
ابوبکر بن ابی شیبہ، سفیان بن عیینہ، عمرو بن دینار، عروہ، عامر، عبیدبن رفاعہ زرقی، حضرت اسمائ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کیا اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! جعفر کے بچوں کو نظر لگ جاتی ہے کیا میں انہیں دم کر دیا کروں ؟ فرمایا ٹھیک ہے کیونکہ تقدیر سے اگر کوئی چیز بڑھ سکتی ہے تو نظر ہی بڑھ سکتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سنن ابن ماجہ:جلد سوم:حدیث نمبر 750 حدیث مرفوع مکررات 4
محمدبن بشار، ابوداؤد، ابن ابی زناد، ابان بن عثمان، حضرت ابان بن عثمان فرماتے ہیں کہ میں نے سیدنا عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو یہ فرماتے سنا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے سنا جو بندہ بھی ہر روز صبح اور شام کو یہ کلمات کہے ِس?مِ اللَّ?ِ الَّذِ? لَا ?َضْرّْ مَعَ اس?مِ?ِ شَ??ئ? فِ? ال??َر?ضِ وَلَا فِ? السَّمَائِ وَ?ْوَ السَّمِ?عْ ال?عَلِ?مْ تین بار۔۔ یہ نہیں ہوسکتا کہ اسے کوئی ضرر پہنچے۔ راوی کہتے ہیں کہ حضرت ابان کو فالج تھا۔ ایک شخص انکی طرف (تعجب سے) دیکھنے لگا تو حضرت ابان نے اس سے کہا دیکھتے کیا ہو۔ حدیث ایسے ہی ہے جیسے میں نے بیان کی لیکن ایک روز میں پڑھ نہ سکا (بھول گیا) تاکہ اللہ تعالی اپنی اٹل تقدیر مجھ پر جاری فرما دیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سنن ابن ماجہ:جلد سوم:حدیث نمبر 1049 حدیث مرفوع مکررات 3
محمد بن صباح، سفیان بن عیینہ، ابن عجلان، اعرج، حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا قوی مسلمان اللہ تعالی کو زیادہ پسند ہے ناتواں مسلمان سے ہر بھلائی میں تو حرص کر پھر اگر تو مغلوب ہو جائے تو کہہ اللہ تعالی کی تقدیر ہے اور جو اس نے چاہا وہ کیا اور ہرگز اگر مگر مت کر اگر شیطان کا دروازہ کھولتا ہے جب اس طور سے ہو کہ تقدیر پر بے اعتمادی نکلے اور انسان کو یہ عقیدہ ہو کہ یہ ہمارے فلاں کام کرنے سے یہ آفت آئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
صحیح بخاری:جلد دوم:حدیث نمبر 443 حدیث مرفوع مکررات 12 متفق علیہ 8
حسن بن ربیع ابوالاحوص اعمش زید بن وہب حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اور وہ صادق و مصدوق تھے کہ تم میں سے ہر ایک کی پیدائش ماں کے پیٹ میں پوری کی جاتی ہے چالیس دن تک (نطفہ رہتا ہے) پھر اتنے ہی دنوں تک مضغہ گوشت رہتا ہے پھر اللہ تعالیٰ ایک فرشتہ کو چار باتوں کا حکم دے کر بھیجتا ہے اور اس سے کہا جاتا ہے کہ اس کا عمل اس کا رزق اور اس کی عمر لکھ دے اور یہ (بھی لکھ دے) کہ وہ بد بخت (جہنمی) ہے یا نیک بخت (جنتی) پھر اس میں روح پھونک دی جاتی ہے بیشک تم میں سے ایک آدمی ایسے عمل کرتا ہے کہ اس کے اور جنت کے درمیان (صرف) ایک گز کا فاصلہ رہ جاتا ہے کہ اس کا نوشتہ (تقدیر) غالب آجاتا ہے اور وہ دوزخیوں کے عمل کرنے لگتا ہے اور (ایک آدمی) ایسے عمل کرتا ہے کہ اس کے اور دوزخ کے درمیان (صرف) ایک گز کا فاصلہ رہ جاتا ہے کہ اتنے میں تقدیر (الٰہی) اس پر غالب آجاتی ہے اور وہ اہل جنت کے کام کرنے لگتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
صحیح بخاری:جلد دوم:حدیث نمبر 561 حدیث مرفوع مکررات 12 متفق علیہ 8
عمر بن حفص ان کے والد اعمش زید بن وہب حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا آپ صادق المصدوق ہیں کہ تم میں سے ہر ایک کی پیدائش چالیس دن اس کی ماں کے پیٹ میں پوری کی جاتی ہے پھر چالیس دن میں نطفہ خون بستہ بن جاتا ہے پھر اتنی ہی مدت میں وہ مضغہ گوشت ہوتا ہے پھر اللہ ایک فرشتے کو چار باتوں کا حکم دے کر بھیجتا ہے پس وہ اس کا عمل، اس کی موت، اس کا رزق اور شقاوت یا سعادت لکھ دیتا ہے پھر اس میں روح پھونک دی جاتی ہے اور ایک آدمی دوزخیوں جیسا عمل کرتا ہے حتیٰ کہ اس کے اور دوزخ کے درمیان صرف ایک گز کا فاصلہ رہ جاتا ہے تو فورا اس کا نوشہ تقدیر آگے بڑھتا ہے اور وہ اہل جنت کے سے عمل کرتا ہے اور جنت میں داخل ہوجاتا ہے اور ایک آدمی اہل جنت کے سے عمل کرتا ہے حتیٰ کہ اس کے اور جنت کے درمیان صرف ایک گز کا فاصلہ رہ جاتا ہے کہ اس کا نوشتہ الٰہی آگے بڑھتا ہے اور وہ دوزخیوں جیسے عمل کرنے لگتا ہے اور دوزخ میں چلا جاتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
صحیح بخاری:جلد سوم:حدیث نمبر 1505 حدیث مرفوع مکررات 12 متفق علیہ 8
ابوالولید، ہشام بن عبدالمالک، شعبہ، سلیمان اعمش وہب عبداللہ سے روایت کرتے ہیں انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ نے جو صادق ومصدوق ہیں فرمایا کہ تم میں سے ہر ایک شخص اپنی ماں کے پیٹ میں چالیس دن تک جمع رہتا ہے پھر یہ چالیس دن میں بستہ خون کی شکل میں ہوجاتا ہے، پھر چالیس دن میں گوشت کا لوتھڑا ہوجاتا ہے، پھر اللہ تعالی فرشتہ کو بھیجتا ہے کہ اور چار چیزوں یعنی رزق، موت، بدبخت یا نیک بخت ہونے کے متعلق لکھنے کا حکم دیا جاتا ہے بخدا تم میں ایک یا ?فرمایاآدمی دوزخیوں کا کام کرتا رہتا ہے یہاں تک کہ اس کے اور دوزخ کے درمیان ایک ہاتھ یا گز کا فاصلہ رہ جاتا ہے اس پر کتاب ?نوشتہ تقدیر غالب آتی ہے پس وہ جنتیوں کے عمل کرتا رہتا ہے اور اس میں داخل ہوجاتا ہے اور ایک شخص جنتیوں کے عمل کرتا رہتا ہے یہاں تک کہ اس کے اور جنت کے درمیان ایک یا دو گز کا فاصلہ رہ جاتا ہے، اس پر کتاب غالب آجاتی ہے پس وہ دوزخیوں کے عمل کرنے لگتا ہے اور دوزخ میں داخل ہوجاتا ہے، آدم نے الاذراع یعنی صرف ایک گز کا لفظ نقل کیا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
صحیح مسلم:جلد سوم:حدیث نمبر 2226 حدیث مرفوع مکررات 12 متفق علیہ 8
ابوبکر بن ابی شیبہ، ابومعاویہ وکیع، محمد بن عبداللہ بن نمیر، ہمدانی ابومعاویہ وکیع، اعمش، زید بن وہب، حضرت عبداللہ سے روایت ہے کہ صادق و مصدوق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم میں سے ہر ایک کا نطفہ اس کی ماں کے پیٹ میں چالیس دن جمع رہتا ہے پھر اسی میں جما ہوا خون اتنی مدت رہتا ہے پھر فرشتہ بھیجا جاتا ہے جو اس میں روح پھونکتا ہے اور اسے چار کلمات لکھنے کا حکم دیا جاتا ہے اس کا رزق، عمر، عمل اور شقی یا سعید ہونا اس ذات کی قسم جس کے سوا کوئی معبود نہیں بے شک تم میں سے کوئی اہل جنت کے عمل کرتا رہتا ہے یہاں تک کہ اس کے اور جنت کے درمیان ایک ہاتھ کا فاصلہ رہ جاتا ہے تو اس پر تقدیر کا لکھا ہوا غالب آجاتا ہے اور وہ اہل جہنم کا سا عمل کر لیتا ہے اور جہنم میں داخل ہو جاتا ہے اور تم میں سے کوئی اہل جہنم جیسے اعمال کرتا رہتا ہے یہاں تک کہ اس کے اور جہنم کے درمیان ایک ہاتھ کا فاصلہ رہ جاتا ہے تو اس پر تقدیر کا لکھا ہوا غالب آجاتا ہے اور وہ اہل جنت والا عمل کر لیتا ہے اور جنت میں داخل ہو جاتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
صحیح مسلم:جلد سوم:حدیث نمبر 2231 حدیث مرفوع مکررات 2 متفق علیہ 2
محمد بن احمد ابن ابی خلف یحیی بن ابی بکیر زہیر ابوخیثمہ عبداللہ بن عطاء ، عکرمہ بن خالد ابوطفیل حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بن اسید غفاری سے روایت ہے کہ میں نے اپنے ان دونوں کانوں سے رسول اللہ کو فرماتے ہوئے سنا کہ نطفہ رحم میں چالیس رات تک رہتا ہے پھر فرشتہ اس پر صورت بناتا ہے زہیر نے کہا میرا گمان ہے کہ انہوں نے کہا اس کی تخلیق کرتا ہے پھر عرض کرتا ہے اے رب یہ مذکر ہے یا مونث پس اللہ اسے مذکر یا مونث بنا دیتے ہیں پھر عرض کرتا ہے اے رب اس کے اعضاء پورے اور برابر ہوں یا ادھورے اور ناہموار پس اللہ اسے کامل الاعضاء یا ادھورے اعضاء والا بناتے ہیں پھر عرض کرتا ہے اے رب اس کا رزق کتنا ہے اس کی عمر کیا ہے اس کے اخلاق کیا ہیں پھر اللہ اسے شقی یا سعید بناتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سنن ابوداؤد:جلد سوم:حدیث نمبر 1282 حدیث مرفوع مکررات 12
حفص بن عمر نمری، محمد بن کثیر، سفیان معنی، سفیان، اعمش، زید بن وہب، حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہم سے بیان کیا کہ آپ صادق ومصدوق ہیں کہ تم میں سے کسی پیدا ہونے والے کانطفہ اپنی ماں کی پیٹ میں چالیس روز تک جمع کیا جاتا ہے پھر وہ اسی طرح گندے خون کا ایک لوتھڑا ہو جاتا ہے پھر اسی طرح (چالیس روز میں) گوشت کا ایک لوتھڑا ہو جاتا ہے پھر اللہ تعالی کے پاس ایک فرشتہ کو بھیجتے ہیں تو اسے چار باتوں کا حکم کیا جاتا ہے تو اس کے رزق کو اس کی موت کے وقت اور اس کے دنیا میں اعمال کو لکھتا ہے پھر لکھتا ہے کہ آیا وہ شقی ہے۔ یا سعات مند پھر اس میں روح پھونکی جاتی ہے بیشک تم میں سے کوئی اہل جنت والے اعمال کرتا رہتا ہے۔ یہاں تک کہ اس کے اور جنت کے درمیان ایک ہاتھ برابر فاصلہ رہ جاتا ہے تو اس کی کتاب کا لکھا ہوا اس پر چل جاتا ہے پھر وہ جہنمیوں کے اعمال کرنے لگ جاتا ہے یہاں تک کہ اس میں داخل ہو جاتا ہے اور بیشک تم میں سے کوئی کام تو اہل دوزخ کے کر رہا ہوتا ہے حتی کہ اس کے درمیان اور دوزخ کے درمیان ایک ہاتھ برابر فاصلہ رہ جاتا ہے تو پھر قلم کا لکھا اس پر سبقت کرتا ہے اور وہ اہل جنت کے اعمال کرنے لگ جاتا ہے پس اس میں داخل ہو جاتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جامع ترمذی:جلد دوم:حدیث نمبر 207 حدیث مرفوع مکررات 2
محمد بن بشار، عبدالرحمن بن مہدی، سفیان، بشیر ابواسماعیل، سیار، طارق بن شہاب، عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جس کو فاقے میں مبتلا کیا گیا اور اس نے اپنی حالت لوگوں سے بیان کرنی شروع کر دی اور چاہا کہ لوگ اس کی حاجت پوری کر دیں تو ایسے شخص کا فاقہ دور نہیں کیا جائے گا لیکن اس نے اپنی آزمائش پر صبر کیا اور اللہ تعالی کی طرف رجوع کیا تو اللہ تعالی جلد یا بدیر اسے رزق عطا فرمائے گا یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے
جامع ترمذی:جلد دوم:حدیث نمبر 225 حدیث مرفوع مکررات 3
علی بن سعید کندی، ابن مبارک، حیوۃ بن شریح، بکر بن عمرو، عبداللہ بن ہبیرۃ، ابوتمیم جیشانی، حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اگر تم اللہ پر اس طرح بھروسہ کرو جس طرح توکل کرنے کا حق ہے تو وہ تمہیں اس طرح رزق دے گا جس طرح پرندوں کو رزق دیتا ہے صبح کو وہ بھوکے نکلتے ہیں اور شام کو پیٹ بھر کر واپس آتے ہیں یہ حدیث حسن صحیح ہے ہم اسے صرف اسی سند سے پہچانتے ہیں ابوتمیم جیشانی کا نام عبداللہ بن مالک ہے
جامع ترمذی:جلد دوم:حدیث نمبر 229 حدیث مرفوع مکررات 3
عباس بن محمد دوری، عبداللہ بن یزید مقری، سعید بن ابی ایوب، شرحبیل بن شریک، ابوعبدالرحمن جبلی، حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا جو شخص اسلام لایا اور اسے کفایت کے بقدر رزق عطا کیا گیا جس پر اللہ تعالی نے اسے قناعت دی تو وہ شخص کامیاب ہوگیا یہ حدیث حسن صحیح ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جامع ترمذی:جلد دوم:حدیث نمبر 384 حدیث قدسی مکررات 6
ہناد، ابوالاحوص، لیث، سہربن حوشب، عبدالرحمن بن غنم، حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالی فرماتا ہے اے میرے بندو تم سب بھٹکے ہوئے ہو مگر جس کو میں ہدایت دوں لہذا مجھ سے ہدایت مانگا کرو تاکہ میں تمہیں دوں، تم سب فقیر ہو مگر یہ کہ میں کسی کو غنی کر دوں لہذا تم لوگ مجھ سے رزق مانگا کرو تاکہ میں تمہیں عطاء کروں اسی طرح تم سب گناہ گار ہو مگر یہ کہ جسے میں محفوظ رکھوں۔ چنانچہ جو شخص جانتا ہے کہ میں مغفرت کی قدرت رکھتا ہوں اور مجھ سے مغفرت طلب کرتا ہے تو میں اسے معاف کر دیتا ہوں۔ مجھے اس کی کوئی پرواہ نہیں ہوتی۔ اور اگر تمہارے اگلے پچھلے زندہ، مردہ، خشک اور تازہ سب کے سب تقوی کی اعلی ترین قدروں پر پہنچ جائیں تو اس سے میری بادشاہت میں مچھر کے پر کے برابر بھی اضافہ نہیں ہوگا۔ اسی طرح اگر یہ تمام کے تمام شقی اور بدبخت ہو جائیں تو اس سے میری سلطنت و بادشاہت میں مچھر کے پر کے برابر بھی کمی نہیں آئے گی۔ نیز اگر تمہارے اگلے، پچھلے، جن، انس، زندہ، مردہ تر یا خشک سب کے سب ایک زمین پر جمع ہو جائیں اور پھر مجھ سے اپنی اپنی منتہائے آرزو کے متعلق سوال کریں پھر میں ہر سائل کو عطاء کر دوں تو بھی میری بادشاہت وسلطنت میں کوئی کمی نہیں آئے گی مگر یہ کہ تم میں سے کوئی سمندر پر سے گزرے تو اس میں سوئی ڈبو کر نکال لے یعنی اتنی کمی آئے جتنا اس سوئی کے ساتھ پانی لگ جائے گا۔ یہ سب اس لیے ہے کہ میں جواد ہوں۔ (جو نہ مانگنے پر خفا ہو جاتا اور بغیر مانگے عطاء کرتا ہے) واجد (جو کبھی فقیر نہیں ہوتا) ہوں اور ماجد (جس کی شرف وعظمت کی کوئی انتہا نہیں) ہوں۔ جو چاہتا ہوں کرتا ہوں۔ میری عطاء اور عذاب دونوں کلام ہیں اس لیے کہ اگر میں کچھ کرنا چاہتا ہوں تو کہہ دیتا ہوں کہ ہو جا، وہ ہو جاتا ہے۔ یہ حدیث حسن ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سنن ابن ماجہ:جلد اول:حدیث نمبر 195 حدیث مرفوع مکررات 5
علی بن محمد، ابومعاویہ، اعمش، عمرو بن مرۃ، ابوعبیدۃ، حضرت ابو موسیٰ فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے (ایک بار) ہم میں کھڑے ہو کر پانچ باتیں ارشاد فرمائیں فرمایا اللہ سوتا نہیں اور سونا اس کے شایان شان نہیں ، اللہ ترازوں کو جھکاتے اور اوپر اٹھاتے ہیں یعنی کسی کا رزق زیادہ، کسی کا کم کر دیتے ہیں۔ دن کے اعمال رات کو (انسان کے) عمل کرنے سے قبل ان کی بارگاہ میں پیش کیے جاتے ہیں اور رات کے اعمال کے دن کے عمل کرنے سے قبل۔ ان کا حجاب نور ہے اگر اسے ہٹا دیں تو ان کے چہرہ کی روشنیاں تاحد نگاہ اس کی مخلوق کو جلا دیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کچھ دوستوں نے کہا تھا کہ تقدیر کے موضوع پر جو احادیث میرے پاس ہیں میں ان کو یہاں پر شیئر کروں تو لیجئے جناب میں ان کو یہاں پر پیش کررہا ہوں، اللہ تعالیٰ ہم سب کو دین سمجھنے اور عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
اہل علم حضرات سے گزارش ہے کہ ان احادیث مبارکہ کی روشنی میں مسئلہ تقدیر کو مزید واضح طور پر بیان کیا جائے میں اس موضوع پر اسی ویب سائٹ پر موجود ایک کتاب ’’منکرین حدیث اور مسئلہ تقدیر‘‘ کا مطالعہ بھی کر چکا ہوں مگر پھر بھی تشنگی باقی ہے امید ہے اس پر مزید روشنی ڈالی جائے گی۔
العارض
اعجاز احمد
----------------------------------------------------------
مسئلہ تقدیر کے موضوع پر صحاح ستہ میں سے احادیث پیش خدمت ہیں:
صحیح بخاری:جلد دوم:حدیث نمبر 443 حدیث مرفوع مکررات 12 متفق علیہ 8
حسن بن ربیع ابوالاحوص اعمش زید بن وہب حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اور وہ صادق و مصدوق تھے کہ تم میں سے ہر ایک کی پیدائش ماں کے پیٹ میں پوری کی جاتی ہے چالیس دن تک (نطفہ رہتا ہے) پھر اتنے ہی دنوں تک مضغہ گوشت رہتا ہے پھر اللہ تعالیٰ ایک فرشتہ کو چار باتوں کا حکم دے کر بھیجتا ہے اور اس سے کہا جاتا ہے کہ اس کا عمل اس کا رزق اور اس کی عمر لکھ دے اور یہ (بھی لکھ دے) کہ وہ بد بخت (جہنمی) ہے یا نیک بخت (جنتی) پھر اس میں روح پھونک دی جاتی ہے بیشک تم میں سے ایک آدمی ایسے عمل کرتا ہے کہ اس کے اور جنت کے درمیان (صرف) ایک گز کا فاصلہ رہ جاتا ہے کہ اس کا نوشتہ (تقدیر) غالب آجاتا ہے اور وہ دوزخیوں کے عمل کرنے لگتا ہے اور (ایک آدمی) ایسے عمل کرتا ہے کہ اس کے اور دوزخ کے درمیان (صرف) ایک گز کا فاصلہ رہ جاتا ہے کہ اتنے میں تقدیر (الٰہی) اس پر غالب آجاتی ہے اور وہ اہل جنت کے کام کرنے لگتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
صحیح بخاری:جلد دوم:حدیث نمبر 561 حدیث مرفوع مکررات 12 متفق علیہ 8
عمر بن حفص ان کے والد اعمش زید بن وہب حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا آپ صادق المصدوق ہیں کہ تم میں سے ہر ایک کی پیدائش چالیس دن اس کی ماں کے پیٹ میں پوری کی جاتی ہے پھر چالیس دن میں نطفہ خون بستہ بن جاتا ہے پھر اتنی ہی مدت میں وہ مضغہ گوشت ہوتا ہے پھر اللہ ایک فرشتے کو چار باتوں کا حکم دے کر بھیجتا ہے پس وہ اس کا عمل، اس کی موت، اس کا رزق اور شقاوت یا سعادت لکھ دیتا ہے پھر اس میں روح پھونک دی جاتی ہے اور ایک آدمی دوزخیوں جیسا عمل کرتا ہے حتیٰ کہ اس کے اور دوزخ کے درمیان صرف ایک گز کا فاصلہ رہ جاتا ہے تو فورا اس کا نوشہ تقدیر آگے بڑھتا ہے اور وہ اہل جنت کے سے عمل کرتا ہے اور جنت میں داخل ہوجاتا ہے اور ایک آدمی اہل جنت کے سے عمل کرتا ہے حتیٰ کہ اس کے اور جنت کے درمیان صرف ایک گز کا فاصلہ رہ جاتا ہے کہ اس کا نوشتہ الٰہی آگے بڑھتا ہے اور وہ دوزخیوں جیسے عمل کرنے لگتا ہے اور دوزخ میں چلا جاتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جامع ترمذی:جلد دوم:حدیث نمبر 537 حدیث مرفوع مکررات 1
حسن بن عرفہ، اسماعیل بن عیاش، یحیی بن ابوعمروشیبانی، عبداللہ بن دیلمی، حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنا کہ اللہ تعالی نے اپنی مخلوق کو تاریکی میں پیدا کیا۔ پھر ان پر اپنا نور ڈالا۔ پس جس پر وہ نور پہنچا اس اس نے ہدایت پائی اور جس تک نہیں پہنچا وہ گمراہ ہوگیا۔ اس لیے میں کہتا ہوں کہ اللہ تعالی کے علم پر قلم خشک ہوگیا۔ یہ حدیث حسن ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سنن ابن ماجہ:جلد سوم:حدیث نمبر 750 حدیث مرفوع مکررات 4
محمدبن بشار، ابوداؤد، ابن ابی زناد، ابان بن عثمان، حضرت ابان بن عثمان فرماتے ہیں کہ میں نے سیدنا عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو یہ فرماتے سنا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے سنا جو بندہ بھی ہر روز صبح اور شام کو یہ کلمات کہے ’’بسم اللہ الذی لا یضر مع اسمہ شیء فی الارض ولا فی السماء وھو السمیع العلیم ‘‘ تین بار۔۔ یہ نہیں ہوسکتا کہ اسے کوئی ضرر پہنچے۔ راوی کہتے ہیں کہ حضرت ابان کو فالج تھا۔ ایک شخص انکی طرف (تعجب سے) دیکھنے لگا تو حضرت ابان نے اس سے کہا دیکھتے کیا ہو۔ حدیث ایسے ہی ہے جیسے میں نے بیان کی لیکن ایک روز میں پڑھ نہ سکا (بھول گیا) تاکہ اللہ تعالی اپنی اٹل تقدیر مجھ پر جاری فرما دیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
صحیح مسلم:جلد سوم:حدیث نمبر 2242 حدیث مرفوع مکررات 1 متفق علیہ 1 بدون مکرر
اسحاق بن ابراہیم، عثمان بن عمر عزرہ بن ثابت یحیی بن عقیل یحیی ابن یعمر حضرت ابوالاسود دیلی سے روایت ہے کہ مجھے عمران بن حصین نے کہا کیا تو جانتا ہے کہ آج لوگ عمل کیوں کرتے ہیں اور اس میں مشقت کیوں برداشت کرتے ہیں کیا یہ کوئی ایسی چیز ہے جس کا فیصلہ ہوچکا ہے اور تقدیر الہی اس پر جاری ہو چکی ہے یا وہ عمل ان کے سامنے آتے ہیں جنہیں ان کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی لائی ہوئی شریعت نے دلائل ثابتہ سے واضح کردیا ہے تو میں نے کہا نہیں بلکہ ان کا عمل ان چیزوں سے متعلق ہے جن کا حکم ہو چکا ہے اور تقدیر ان میں جاری ہو چکی ہے تو عمران نے کہا کیا یہ ظلم نہیں ہے راوی کہتے ہیں کہ اس سے میں سخت گھبرا گیا اور میں نے کہا ہر چیز اللہ کی مخلوق اور اس کی ملکیت ہے پس اس سے اس کے فعل کی باز پرس نہیں کی جاسکتی اور لوگوں سے تو پوچھا جائے گا تو انہوں نے مجھے کہا اللہ تجھ پر رحم فرمائے میں نے آپ سے یہ سوال صرف آپ کی عقل کو جانچنے کے لئے ہی کیا تھا قبیلہ مزنیہ کے دو آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا اے اللہ کے رسول آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس بارے میں کیا فرماتے ہیں کہ لوگ آج عمل کس بات پر کرتے ہیں اور کس وجہ سے اس میں مشقت برادشت کرتے ہیں کیا یہ کوئی ایسی چیز ہے جس کے بارے میں حکم صادر ہو چکا ہے اور اس میں تقدیر جاری ہو چکی ہے یا ان کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم جو احکام لے کرئے ہیں اور تبلیغ کی حجت ان پر قائم ہو چکی ہے اس کے مطابق عمل ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نہیں بلکہ ان کا عمل اس چیز کے مطابق ہے جس کا فیصلہ ہو چکا ہے اور تقدیر اس میں جاری ہو چکی ہے اور اس کی تصدیق اللہ کی کتاب میں (وَنَف?سٍ وَمَا سَوَّا?َا فَ?َل??َمَ?َا فْجْورَ?َا وَتَق?وَا?َا) موجود ہے اور قسم ہے انسان کی اور جس نے اس کو بنایا اور اسے اس کی بدی اور نیکی کا الہام فرمایا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
صحیح مسلم:جلد سوم:حدیث نمبر 2254 حدیث مرفوع مکررات 5 متفق علیہ 2
عبدالاعلی بن حماد مالک بن انس، قتیبہ بن سعید مالک زیادہ بن سعید عمرو بن مسلم حضرت طاؤس سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ کے متعدد صحابہ سے ملاقات کی ہے وہ کہتے تھے ہر چیز تقدیر سے وابستہ ہے اور میں نے حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے سنا کہ رسول اللہ نے فرمایا ہر چیز تقدیر سے وابستہ ہے یہاں تک کہ عجز اور قدرت یا قدرت اور عجز۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سنن ابوداؤد:جلد سوم:حدیث نمبر 1181 حدیث مقطوع مکررات 1
محمد بن کثیر، سفیان، عمر بن عبدالعزیز (یہ حدیث تین سند سے مروی ہے۔ سفیان ثوری کہ ایک شخص نے حضرت عمر بن عبدالعزیز کو خط لکھا تقدیر کے بارے میں معلوم کرنے کے لیے۔ دوسری سند۔ سفیان ثوری نضر سے روایت کرتے ہیں کہ۔ تیسری سند) ابورجاء نے ابوالصلت سے روایت کیا کہ ایک شخص نے حضرت عمر بن عبدالعزیز کو خط لکھا تقدیر کے بارے میں پوچھنے کے لیے تو انہوں نے لکھا کہ اما بعد۔ میں تمہیں اللہ سے ڈرنے کی وصیت کرتا ہوں اور اس کے معاملہ میں راہ اعتدال پر چلنے کی۔ اور اس کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت کی اتباع کی وصیت کرتا ہوں اور اہل بدعت و مبتدعین نے جو کچھ دین میں ایجاد کرلیا ہے اسے چھوڑنے کی۔ سنت نبوی رضی اللہ تعالی عنہ کے جاری ساری ہونے کے بعد اور اس کی مشقت سے وہ سبکدوش ہوگئے تھے۔ پس تم پر لازم ہے کہ سنت کو مضبوطی سے تھامے رکھو کیونکہ وہ تمہارے لیے اللہ کے حکم سے بچاؤ ہے پھر جان لو کہ لوگوں نے کوئی بدعت ایسی نہیں ایجاد کی پچھلے زمانہ میں اس کے بطلان پر دلیل نہ ہو۔ یا اس کے اندر لوگوں کو عبرت نہ ہوئی ہو کیونکہ سنت کا اجراء ایسے شخص اور ہستی نے کیا تھا جسے معلوم تھا کہ اس کی سنت کے خلاف میں کیا کیا خطائیں لغزشیں، حماقتیں اور گہرائیاں ہیں پس تم اپنے نفس کے لیے اس چیز کو پسند کیا تھا کیونکہ وہ علم دین سے واقف تھے اور بہت باریک بین تھے اور غور و فکر سے کام لے کر ممنوعات سے رک گئے تھے اور وہ احکام دین کا مطلب سمجھنے پر ہم سے زیادہ اقوی اور قادر تھے اور ان کے اندر جو فضائل تھے ان کی بناء پر وہ اور زیادہ بہتر تھے اور تم جس طریقہ پر رہو اگر اس میں ہدایت ہوتی تو تم ان پر سبقت کر گئے اور اگر تم یہ کہو کہ جس نے ان کے بعد نئی نئی باتیں ایجاد کیں تو وہ ان کے طریقہ پر نہیں چلے اور ان سے اعراض وبیزاری کا اظہار کیا تو بے شک ہم بھی یہی کہتے ہیں کہ وہی سبقت لے جانے والے ہیں پس انہوں نے جتنا کافی ہے اتنا بیان کردیا اس بارے میں جتنا شافی ہے وہ کہہ دیا پس ان کے پیچھے بھی کوئی کمی نہیں اور ان کے اوپر بھی کوئی زیادتی نہیں اور بے شک ایک قوم نے کوتاہی کی ان کے نیچے تو انہوں نے جفا اور ظلم کیا اور بعض لوگ ان سے اونچے ہوگئے تو انہوں نے غلو سے کام لیا۔ اور بے شک اسلام امت ان کے دونوں کے درمیان صراط مستقیم پر تھے تم نے تقدیر کے اقرار کے بارے میں سوال لکھا ہے تو اللہ کے حکم سے تم نے ایک عالم اور ایک باخبر آدمی سے پوچھا ہے تو جہاں تک میرے علم میں ہے لوگوں نے جتنی بدعات اور نئی باتیں ایجاد کی ہیں ان میں تقدیر پر اقرار کا بیان خوب واضح ہے اور مضبوط ہے دورجاہلیت میں اس کا تذکرہ تھا حتی کہ جہلاء اس کے بارے میں کلام کرتے تھے اپنی گفتگو میں اور اپنے اشعار میں اور اس کے ذریعہ سے اپنی ضائع اور فوت ہوجانے والی اشیاء پر صبر کرتے تھے پھر اسلام نے اس میں سوائے شدت کے کوئی اضافہ نہیں کیا۔ اور بے شک رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کا تذکرہ کیا ہے ایک یا دو حدیثوں میں نہیں اور مسلمانوں نے اس کو سنا آپ سے اور اس کے بارے میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیات طیبہ میں اور وفات کے بعد گفتگو بھی کرتے رہے اپنے پروردگار پریقین رکھتے ہوئے اور تسلیم کرتے ہوئے اور اپنے آپ کو کمزور کرتے ہوئے کہ کوئی ایسی چیز ہو جس کو اللہ کا علم محیط نہ ہو اور اس کی کتاب نے اسے شمار نہ کیا ہو اس میں اس کی تقدیر جاری نہ ہوئی ہو اور ان کے اس ایمان کے باوجود اللہ کی محکم کتاب میں تقدیر کا ذکر موجود ہے اس سے ہی انہوں نے اقتباس لیا اس بارے میں اور اس سے تقدیر کا علم سیکھا اور اگر تم یہ کہو کہ اللہ نے فلاں آیت کیوں نازل کی؟ اور فلاں بات کیوں کہی؟ تو بے شک وہ اس میں یہ آیتیں پڑھ چکے ہیں جو تم پڑھتے ہو اور اس کی تاویل ومطلب بھی جانتے تھے جس سے تم جاہل ہو اور اس سب کے باوجود کتاب اللہ اور تقدیر کے قائل رہے اور جو کچھ مقدر کردیا گیا ہے وہ ہو کر رہے گا اور جو اللہ نے چاہا وہ ہوگیا اور جو وہ نہیں چاہے گا نہیں ہوگا اور ہم اپنے آپ کے لیے نفع کے ہیں اور نہ نقصان پر قدرت رکھتے ہیں پھر اسی یقین کے ساتھ اس کے بعد رغبت کرتے رہے اور ڈرتے رہے۔ (اعمال شر سے)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سنن ابوداؤد:جلد سوم:حدیث نمبر 1270 حدیث مرفوع مکررات 11
مسدد، یحیی، عثمان بن غیاث، عبداللہ بن بریدہ، حضرت یعلی بن یعمر اور حضرت حمید بن عبدالرحمن الحمیری دونوں کہتے ہیں کہ ہم دونوں حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہ سے ملے اور انہیں تقدیر کے بارے میں وہ لوگ جو کچھ کہتے ہیں بتلایا آگے سابقہ حدیث کے مانند ذکر کیا اس میں یہ اضافہ ہے کہ آپ سے قبیلہ مزنیہ یاجہینیہ کے ایک شخص نے سوال کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جو کچھ ہم اعمال کرتے ہیں کیا یہ جان کر کریں کہ اس پر تقدیر واقع ہوچکی ہے یا یہ کہ یہ عمل بغیر تقدیر کے بس ابھی ایسا ہوگیا آپ نے فرمایا کہ نہیں بلکہ یہ سمجھ کر تقدیر میں متعین ہوچکا ہے تو اس شخص نے یا چند لوگوں نے کہا کہ پھر عمل کی کیا ضرورت ہے؟ آپ نے فرمایا کہ بے شک اہل جنت کو جنت میں لے جانے والے اعمال کی توفیق ملتی ہے اور اہل دوزخ کو دوزخ میں لے جانے والے اعمال کی توفیق ملتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سنن ابوداؤد:جلد سوم:حدیث نمبر 1273 حدیث مرفوع مکررات 2
محمد بن کثیر، سفیان عن وہب بن خالد حمصی، ابن الدیلمی کہتے ہیں کہ میں حضرت ابی ابن کعب کے پاس حاضر ہوا اور ان سے کہا کہ میرے دل میں تقدیر سے متعلق کچھ شکوک وشبہات پیدا ہوگئے ہیں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس بارے میں مجھے کچھ بتلائیں شاید اللہ تعالی میرے دل سے ان مشتبہات کو نکال دیں تو ابی رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا کہ اگر اللہ آسمان والوں اور زمین والوں کو عذاب دینا چاہیں تو عذاب دے سکتے ہیں اور وہ ان پر ظلم کرنے والے نہیں ہوں گے اور اگر وہ ان پر رحم فرمائیں تو ان کی رحمت ان کے لیے ان کے اپنے اعمال سے بہتر ہوں گے اور اگر تو احد کے پہاڑ کے برابر بھی سونا خرچ کردے تو اللہ کی راہ میں وہ تجھ سے قبول نہیں فرمائیں گے یہاں تک کہ تو تقدیر پر ایمان لے آئے اور یہ نہ جان لے کہ تجھے جو کچھ (مصیبت وغیرہ پہنچی) وہ تجھ سے خطا ہونے والی نہ تھی اور جو تکلیف وغیرہ تجھے نہیں پہنچی وہ تجھے ہرگز پہنچنے والی نہیں تھی اور اگر اس اعتقاد کے بغیر تو مر گیا تو ضرور بالضرور تو آگ میں داخل ہوگا ابن الدیلمی کہتے ہیں کہ پھر میں حضرت عبداللہ بن مسعود کے پاس آیا تو انہوں نے بھی اسی طرح فرمایا پھر میں حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالی عنہ بن یمان کے پاس آیا تو انہوں نے بھی تقریبا یہی کہا پھر میں حضرت زید بن ثابت کے پاس انہوں نے بھی حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے یہی حدیث نقل کی مجھ سے۔
سنن ابوداؤد:جلد سوم:حدیث نمبر 1274 حدیث مرفوع مکررات 2
جعفر بن مسافر ہذلی، حسان، ابولولید، ابورباح، ابراہیم بن ابوعلبہ، ابوحفصہ کہتے ہیں کہ حضرت عبادہ رضی اللہ تعالی عنہ بن صامت نے اپنے بیٹے سے فرمایا کہ اے میرے بیٹے تو ہرگز ایمان کی حقیقت کی حلاوت نہیں پائے گا یہاں تک کہ تو یہ جان لے کہ تجھے جو کچھ (تکلیف یا مال وغیرہ) پہنچا وہ تجھ سے ہرگز چھٹنے والا نہ تھا اور جو تجھ سے رہ گیا وہ ہرگز تجھے ملنے والا تھا میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے تھے کہ پہلی چیز جو اللہ تعالی نے پیداکی وہ قلم ہے پھر اس سے فرمایا کہ لکھ اس نے کہا کہ اے میرے رب میں کیا لکھوں؟ اللہ تعالی نے فرمایا کہ ہر چیز کی تقدیر لکھ یہاں تک کہ قیامت قائم ہوجائے اے میرے بیٹے میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنا ہے کہ جو اس (اعتقاد و یقین کے بغیر) مر گیا تو وہ مجھ سے نہیں ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سنن نسائی:جلد دوم:حدیث نمبر 1468 حدیث مرفوع مکررات 8
محمد بن علاء ، ابن ادریس، شعبہ و ابن جریج، یحیی بن سعید و محمد بن اسحاق، سعد بن اسحاق، زینب بنت کعب، حضرت فارعہ بنت مالک سے روایت ہے کہ اس کا شوہر اپنے غلام کو تلاش کرنے کے واسطے گیا (وہ غلام عجمی تھا) ان کا شوہر وہاں قتل ہو گیا ان غلاموں نے اس کو قتل کر دیا یا کسی دوسرے نے اس کو قتل کر دیا۔ حضرت شعبہ اور حضرت ابن جریح نقل فرماتے ہیں آبادی سے اس خاتون کا مکان فاصلہ پر واقعہ تھا پھر وہ خاتون اپنے بھائی کے ہمراہ خدمت نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں حاضر ہوئی اور اس نے اپنا حال عرض کیا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں اپنے حالات عرض کیے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کو دوسرے مکان میں چلے جانے کی اجازت فرمائی۔ جس وقت وہ خاتون اپنے مکان جانے لگی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کو بلایا اور فرمایا تم اپنے مکان میں بیٹھ جاؤ جب تک کہ (تقدیر کا) لکھا ہوا پورا ہو جائے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سنن نسائی:جلد سوم:حدیث نمبر 1698 حدیث موقوف مکررات 2
محمد بن العلاء ، ابومعاویہ، الاعمش، عمارۃ، ابن عمیر، عبدالرحمن بن یزید، عبداللہ بن یزید سے روایت ہے کہ ایک دن لوگوں نے حضرت عبداللہ بن مسعود سے بہت باتیں کیں۔ انہوں نے فرمایا ایک دور ایسا تھا کہ ہم کسی بات کا حکم نہیں کرتے تھے اور نہ ہی ہم حکم کرنے کے لائق تھے پھر خداوند قدوس نے ہماری تقدیر میں لکھا تھا کہ ہم اس درجہ کو پہنچ گئے کہ جس کو تم دیکھ رہے ہو پس اب آج کے دن سے جس شخص کو تمہارے میں سے فیصلہ کرنے کی ضرورت پیش آجائے تو اس کو چاہیے کہ وہ خداوند قدوس کی کتاب کے مطابق حکم دے اگر وہ فیصلہ کتاب اللہ میں نہ ملے تو اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حکم کے مطابق حکم دے اور وہ فیصلہ کتاب اللہ اور پیغمبروں کے فیصلوں میں بھی نہ ہو تو نیک لوگوں کے فیصلوں کے مطابق فیصلے دے۔ نیک حضرات سے اس جگہ مراد حضرات خلفاء راشدین اور حضرت صحابہ کرام ہیں اور اگر وہ کام ایسا ہو جو کہ خداوند قدوس کی کتاب میں مل سکے اور نہ ہی اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے احکام میں ملے اور نہ ہی نیک حضرات کے فیصلوں میں تو تم اپنی عقل و فہم سے کام لو اور یہ نہ ہو کہ میں ڈرتا ہوں اور میں اس وجہ سے خوف محسوس کرتا ہوں کہ حلال (بھی) کھلا ہوا یعنی ظاہر ہے اور حرام (بھی) کھلا ہوا ہے اور دونوں (یعنی حرام و حلال) کتاب اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حدیث سے معلوم ہوتے ہیں البتہ ان دونوں کے درمیان بعض ایسے کام ہیں کہ جن میں شبہ ہے تو تم اس کام کو چھوڑ دو جو کام تم کو شک و شبہ میں مبتلا کرے حضرت امام نسائی نے فرمایا کہ یہ حدیث جید ہے یعنی یہ حدیث صحیح ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جامع ترمذی:جلد اول:حدیث نمبر 2131 حدیث مرفوع مکررات 2
ابن ابی عمر سفیان، عمرو بن دینار، عروہ، ابن عامر، حضرت عبید بن رفاعہ زرقی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اسماء بنت عمیس نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جعفر کے بیٹوں کو جلدی نظر لگ جاتی ہے۔ کیا میں ان پر دم کر دیا کروں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہاں۔ اگر کوئی چیز تقدیر سے سبقت لے سکتی ہے تو وہ نظر بد ہے۔ اس باب میں حضرت عمران بن حصین اور بریدہ رضی اللہ عنہما سے بھی احادیث منقول ہیں۔ یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ اسے ایوب بھی عمرو بن دینار سے وہ عروہ سے وہ عبید بن رفاعہ سے وہ اسماء بنت عمیس سے اور وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے نقل کرتی ہیں۔ ہم سے اسے حسن بن علی خلال نے عبدالرزاق کے حوالے سے انہوں نے معمر سے اور انہوں نے ایوب سے بیان کیا ہے۔
۔۔۔
جامع ترمذی:جلد دوم:حدیث نمبر 3 حدیث مرفوع مکررات 1
بندار، عبدالرحمن بن مہدی، شعبہ، عاصم بن عبید اللہ، حضرت سالم اپنے والد عبداللہ سے روایت کرتے ہیں کہ عمر نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہم جو عمل کرتے ہیں کیا یہ نیا امر ہے؟ یا عرض کیا کہ نیا شروع ہوا ہے یا یہ پہلے سے تقدیر میں لکھا جا چکا ہے اور اس سے فراغت حاصل کی جا چکی ہے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا پہلے سے لکھا ہوا ہے اور اس سے فراغت ہو چکی ہے اے خطاب کے بیٹے ہر شخص پر وہ آسان کر دی گئی ہے جس کے لئے وہ پیدا کیا گیا ہے لہذا جو نیک بخت لوگ ہیں وہ نیک بختی کے عمل کرتے ہیں اور جو بدبخت ہیں وہ اسی کے لئے عمل کرتے ہیں اس باب میں علی خذیفہ بن اسید انس اور عمران بن حصین سے بھی احادیث منقول ہیں یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جامع ترمذی:جلد دوم:حدیث نمبر 5 حدیث مرفوع مکررات 12
ہناد، ابومعاویہ، اعمش، زید بن وہب، حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ صادق مصدوق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمیں بتایا کہ تم میں ہر ایک ماں کے پیٹ میں چالیس دن تک نطفے کی حالت میں رہتا ہے پھر چالیس دن کے بعد گاڑھا خون بن جاتا ہے پھر چالیس دن میں گوشت کا لوتھڑا بنتا ہے پھر اللہ تعالی اس کی طرف ایک فرشتہ بھیجتا ہے جو اس میں روح پھونکتا ہے اور اسے چار چیزیں لکھنے کا حکم دیا جاتا ہے پس اس ذات کی قسم جس کے سوا کوئی معبود نہیں تم میں سے کوئی اہل جنت کے عمل کرتا ہے یہاں تک کہ اس کے اور جنت کے درمیان بالشت بھر فاصلہ رہ جاتا ہے پھر تقدیر الہی اس کی طرف سبقت کرتی ہے تو اس کا خاتمہ دوزخیوں کے اعمال پر ہوتا ہے اور وہ جہنم میں داخل ہو جاتا ہے اور ایک آدمی جہنمیوں کے اعمال کرتا ہے یہاں تک تقدیر الہی اس کی طرف دوڑتی ہے اور اس کا خاتمہ جنتیوں کے اعمال پر ہوتا ہے پس وہ جنت میں داخل ہو جاتا ہے یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جامع ترمذی:جلد دوم:حدیث نمبر 15 حدیث مرفوع مکررات 1
ابوالخطاب زیاد بن یحیی البصری، عبداللہ بن میمون، جعفر بن محمد، ان کے والد، حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کوئی بندہ اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتا جب تک اچھی اور بری تقدیر پر ایمان نہ لائے یہاں تک کہ وہ جان لے کہ جو چیز اسے ملنے والی تھی وہ اسے ہی ملی کسی اور کے پاس نہیں جا سکتی تھی اور جو چیز اسے نہیں ملنی وہ کسی صورت اسے نہیں مل سکتی اس باب میں حضرت عبادہ جابر اور عبداللہ بن عمرو سے بھی احادیث منقول ہیں یہ حدیث جابر کی حدیث سے غریب ہے ہم اسے صرف عبداللہ بن میمون کی حدیث سے پہچانتے ہیں اور عبداللہ بن میمون منکر حدیث تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جامع ترمذی:جلد دوم:حدیث نمبر 1034 حدیث مرفوع مکررات 4
محمد بن بشار، ابوعامر عقدی عبدالملک بن عمرو، سلیمان بن سفیان، عبداللہ بن دینار، ابن عمر، حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب یہ آیت (فَمِن??ْم? شَقِ?ّ? وَّسَعِ??د?) 11۔ہود:105) نازل ہوئی تو میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ کیا عمل اس چیز کے لئے کرتے ہیں جو لکھی جاچکی ہے ابھی نہیں لکھی ہے (یعنی تقدیر)۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ایسی چیز کے لئے جس سے فراغت حاصل کی جاچکی ہے اور اسے لکھا جاچکا لیکن ہر شخص کے لئے وہی آسان ہے جس کے لئے اسے پیدا کیا گیا۔ یہ حدیث اس سند سے حسن غریب ہے۔ ہم اس کو صرف عبدالملک بن عمرو کی روایت سے جانتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سنن ابن ماجہ:جلد اول:حدیث نمبر 77 حدیث مرفوع مکررات 2
علی بن محمد، اسحاق بن سلیمان، ابوسنان، وہب بن خالد حمصی، حضرت ابن دیلمی فرماتے ہیں کہ میرے جی میں تقدیر کے بارے میں کچھ شبہات پیدا ہوئے مجھے ڈر ہوا کہ کہیں مجھ پر دین اور معاملہ یہ خیالات بگاڑ نہ دیں۔ میں ابی بن کعب کے پاس آیا اور عرض کی ، اے ابوالمنذر، میرے دل میں تقدیر کے بارے میں کچھ شبہات پیدا ہوئے ہیں مجھے اپنے دین اور معاملہ کے خراب ہونے کا ڈر ہوا ہے مجھے تقدیر کے متعلق کوئی حدیث بیان کریں ممکن ہے اللہ مجھے اس سے کوئی نفع دے، انہوں نے بیان کیا اگر اللہ ا ہل سماء و ارض کو عذاب دینا چاہے تو عذاب دے سکتے ہیں ، تب بھی وہ ان پر ظلم کرنے والا نہیں ہے اور اگر ان پر رحم کرنا چاہیں تو اس کی رحمت ان کے لئے ان کے عملوں سے بہتر ہو گی، اور اگر تیرے پاس مثل احد پہاڑ کے سونا ہو یا مثل احد پہاڑ کے مال ہو اور تو اسے اللہ کے راستہ میں خرچ کر دے تو وہ تیری طرف سے قبول نہیں کیا جائے گا یہاں تک کہ تو تقدیر پر ایمان لے آئے، پس جان لے کہ جو مصیبت تجھے پہنچی تجھ سے ٹلنے والی نہیں تھی اور جو مصیبت تجھ سے ٹل گئی وہ تجھے پہنچنے والی نہیں تھی، اگر تو اس یقین کے علاوہ کسی اور یقین پر مر گیا تو جہنم میں داخل ہوگا۔ تجھ پر کوئی حرج نہیں کہ تو میرے بھائی عبداللہ بن مسعود کے پاس جائے اور ان سے سوال کرے، میں عبداللہ بن مسعود کے پاس آیا اور ان سے سوال کیا انہوں نے ابی بن کعب کی طرح فرمایا اور مجھ سے کہا کہ کوئی حرج نہیں کہ تم حذیفہ کے پاس جاؤ اور سوال کرو میں حذیفہ کے پاس آیا اور ان سے سوال کیا انہوں نے اسی طرح کہا جیسے عبداللہ نے کہا تھا اور فرمایا کہ زید بن ثابت کے پاس جاؤ میں زید بن ثابت کے پاس آیا اور ان سے سوال کیا انہوں نے فرمایا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ، اگر اللہ اہل سماء و ارض کو عذاب دینا چاہیں تو وہ ان کو عذاب دے سکتے ہیں تب بھی وہ ان پر ظلم کرنے والے نہیں ہیں ، اور اگر ان پر رحم کرنا چاہیں تو اس کی رحمت ان کے لئے ان کے عملوں سے بہتر ہوگی اور اگر تیرے پاس احد پہاڑ کے برابر بھی سونا ہے یا احد پہاڑ کے برابر مال ہے اور تو اس کو اللہ کے راستے میں خرچ کر دے وہ تیری جانب سے قبول نہیں کیا جائے گا حتی کہ تو تقدیر پر ایمان لے آئے، جان لے کہ جو مصیبت تجھے پہنچی ہے وہ تجھ سے ٹلنے والی نہیں تھی، اور جو مصیبت تجھے نہیں پہنچی وہ تجھ کو پہنچنے والی نہیں تھی، اور اگر تو اس کے علاوہ کسی اور عقیدہ پر مر گیا تو جہنم میں داخل ہو گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سنن ابن ماجہ:جلد سوم:حدیث نمبر 391 حدیث مرفوع مکررات 2
ابوبکر بن ابی شیبہ، سفیان بن عیینہ، عمرو بن دینار، عروہ، عامر، عبیدبن رفاعہ زرقی، حضرت اسمائ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کیا اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! جعفر کے بچوں کو نظر لگ جاتی ہے کیا میں انہیں دم کر دیا کروں ؟ فرمایا ٹھیک ہے کیونکہ تقدیر سے اگر کوئی چیز بڑھ سکتی ہے تو نظر ہی بڑھ سکتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سنن ابن ماجہ:جلد سوم:حدیث نمبر 750 حدیث مرفوع مکررات 4
محمدبن بشار، ابوداؤد، ابن ابی زناد، ابان بن عثمان، حضرت ابان بن عثمان فرماتے ہیں کہ میں نے سیدنا عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو یہ فرماتے سنا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے سنا جو بندہ بھی ہر روز صبح اور شام کو یہ کلمات کہے ِس?مِ اللَّ?ِ الَّذِ? لَا ?َضْرّْ مَعَ اس?مِ?ِ شَ??ئ? فِ? ال??َر?ضِ وَلَا فِ? السَّمَائِ وَ?ْوَ السَّمِ?عْ ال?عَلِ?مْ تین بار۔۔ یہ نہیں ہوسکتا کہ اسے کوئی ضرر پہنچے۔ راوی کہتے ہیں کہ حضرت ابان کو فالج تھا۔ ایک شخص انکی طرف (تعجب سے) دیکھنے لگا تو حضرت ابان نے اس سے کہا دیکھتے کیا ہو۔ حدیث ایسے ہی ہے جیسے میں نے بیان کی لیکن ایک روز میں پڑھ نہ سکا (بھول گیا) تاکہ اللہ تعالی اپنی اٹل تقدیر مجھ پر جاری فرما دیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سنن ابن ماجہ:جلد سوم:حدیث نمبر 1049 حدیث مرفوع مکررات 3
محمد بن صباح، سفیان بن عیینہ، ابن عجلان، اعرج، حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا قوی مسلمان اللہ تعالی کو زیادہ پسند ہے ناتواں مسلمان سے ہر بھلائی میں تو حرص کر پھر اگر تو مغلوب ہو جائے تو کہہ اللہ تعالی کی تقدیر ہے اور جو اس نے چاہا وہ کیا اور ہرگز اگر مگر مت کر اگر شیطان کا دروازہ کھولتا ہے جب اس طور سے ہو کہ تقدیر پر بے اعتمادی نکلے اور انسان کو یہ عقیدہ ہو کہ یہ ہمارے فلاں کام کرنے سے یہ آفت آئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
صحیح بخاری:جلد دوم:حدیث نمبر 443 حدیث مرفوع مکررات 12 متفق علیہ 8
حسن بن ربیع ابوالاحوص اعمش زید بن وہب حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اور وہ صادق و مصدوق تھے کہ تم میں سے ہر ایک کی پیدائش ماں کے پیٹ میں پوری کی جاتی ہے چالیس دن تک (نطفہ رہتا ہے) پھر اتنے ہی دنوں تک مضغہ گوشت رہتا ہے پھر اللہ تعالیٰ ایک فرشتہ کو چار باتوں کا حکم دے کر بھیجتا ہے اور اس سے کہا جاتا ہے کہ اس کا عمل اس کا رزق اور اس کی عمر لکھ دے اور یہ (بھی لکھ دے) کہ وہ بد بخت (جہنمی) ہے یا نیک بخت (جنتی) پھر اس میں روح پھونک دی جاتی ہے بیشک تم میں سے ایک آدمی ایسے عمل کرتا ہے کہ اس کے اور جنت کے درمیان (صرف) ایک گز کا فاصلہ رہ جاتا ہے کہ اس کا نوشتہ (تقدیر) غالب آجاتا ہے اور وہ دوزخیوں کے عمل کرنے لگتا ہے اور (ایک آدمی) ایسے عمل کرتا ہے کہ اس کے اور دوزخ کے درمیان (صرف) ایک گز کا فاصلہ رہ جاتا ہے کہ اتنے میں تقدیر (الٰہی) اس پر غالب آجاتی ہے اور وہ اہل جنت کے کام کرنے لگتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
صحیح بخاری:جلد دوم:حدیث نمبر 561 حدیث مرفوع مکررات 12 متفق علیہ 8
عمر بن حفص ان کے والد اعمش زید بن وہب حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا آپ صادق المصدوق ہیں کہ تم میں سے ہر ایک کی پیدائش چالیس دن اس کی ماں کے پیٹ میں پوری کی جاتی ہے پھر چالیس دن میں نطفہ خون بستہ بن جاتا ہے پھر اتنی ہی مدت میں وہ مضغہ گوشت ہوتا ہے پھر اللہ ایک فرشتے کو چار باتوں کا حکم دے کر بھیجتا ہے پس وہ اس کا عمل، اس کی موت، اس کا رزق اور شقاوت یا سعادت لکھ دیتا ہے پھر اس میں روح پھونک دی جاتی ہے اور ایک آدمی دوزخیوں جیسا عمل کرتا ہے حتیٰ کہ اس کے اور دوزخ کے درمیان صرف ایک گز کا فاصلہ رہ جاتا ہے تو فورا اس کا نوشہ تقدیر آگے بڑھتا ہے اور وہ اہل جنت کے سے عمل کرتا ہے اور جنت میں داخل ہوجاتا ہے اور ایک آدمی اہل جنت کے سے عمل کرتا ہے حتیٰ کہ اس کے اور جنت کے درمیان صرف ایک گز کا فاصلہ رہ جاتا ہے کہ اس کا نوشتہ الٰہی آگے بڑھتا ہے اور وہ دوزخیوں جیسے عمل کرنے لگتا ہے اور دوزخ میں چلا جاتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
صحیح بخاری:جلد سوم:حدیث نمبر 1505 حدیث مرفوع مکررات 12 متفق علیہ 8
ابوالولید، ہشام بن عبدالمالک، شعبہ، سلیمان اعمش وہب عبداللہ سے روایت کرتے ہیں انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ نے جو صادق ومصدوق ہیں فرمایا کہ تم میں سے ہر ایک شخص اپنی ماں کے پیٹ میں چالیس دن تک جمع رہتا ہے پھر یہ چالیس دن میں بستہ خون کی شکل میں ہوجاتا ہے، پھر چالیس دن میں گوشت کا لوتھڑا ہوجاتا ہے، پھر اللہ تعالی فرشتہ کو بھیجتا ہے کہ اور چار چیزوں یعنی رزق، موت، بدبخت یا نیک بخت ہونے کے متعلق لکھنے کا حکم دیا جاتا ہے بخدا تم میں ایک یا ?فرمایاآدمی دوزخیوں کا کام کرتا رہتا ہے یہاں تک کہ اس کے اور دوزخ کے درمیان ایک ہاتھ یا گز کا فاصلہ رہ جاتا ہے اس پر کتاب ?نوشتہ تقدیر غالب آتی ہے پس وہ جنتیوں کے عمل کرتا رہتا ہے اور اس میں داخل ہوجاتا ہے اور ایک شخص جنتیوں کے عمل کرتا رہتا ہے یہاں تک کہ اس کے اور جنت کے درمیان ایک یا دو گز کا فاصلہ رہ جاتا ہے، اس پر کتاب غالب آجاتی ہے پس وہ دوزخیوں کے عمل کرنے لگتا ہے اور دوزخ میں داخل ہوجاتا ہے، آدم نے الاذراع یعنی صرف ایک گز کا لفظ نقل کیا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
صحیح مسلم:جلد سوم:حدیث نمبر 2226 حدیث مرفوع مکررات 12 متفق علیہ 8
ابوبکر بن ابی شیبہ، ابومعاویہ وکیع، محمد بن عبداللہ بن نمیر، ہمدانی ابومعاویہ وکیع، اعمش، زید بن وہب، حضرت عبداللہ سے روایت ہے کہ صادق و مصدوق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم میں سے ہر ایک کا نطفہ اس کی ماں کے پیٹ میں چالیس دن جمع رہتا ہے پھر اسی میں جما ہوا خون اتنی مدت رہتا ہے پھر فرشتہ بھیجا جاتا ہے جو اس میں روح پھونکتا ہے اور اسے چار کلمات لکھنے کا حکم دیا جاتا ہے اس کا رزق، عمر، عمل اور شقی یا سعید ہونا اس ذات کی قسم جس کے سوا کوئی معبود نہیں بے شک تم میں سے کوئی اہل جنت کے عمل کرتا رہتا ہے یہاں تک کہ اس کے اور جنت کے درمیان ایک ہاتھ کا فاصلہ رہ جاتا ہے تو اس پر تقدیر کا لکھا ہوا غالب آجاتا ہے اور وہ اہل جہنم کا سا عمل کر لیتا ہے اور جہنم میں داخل ہو جاتا ہے اور تم میں سے کوئی اہل جہنم جیسے اعمال کرتا رہتا ہے یہاں تک کہ اس کے اور جہنم کے درمیان ایک ہاتھ کا فاصلہ رہ جاتا ہے تو اس پر تقدیر کا لکھا ہوا غالب آجاتا ہے اور وہ اہل جنت والا عمل کر لیتا ہے اور جنت میں داخل ہو جاتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
صحیح مسلم:جلد سوم:حدیث نمبر 2231 حدیث مرفوع مکررات 2 متفق علیہ 2
محمد بن احمد ابن ابی خلف یحیی بن ابی بکیر زہیر ابوخیثمہ عبداللہ بن عطاء ، عکرمہ بن خالد ابوطفیل حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بن اسید غفاری سے روایت ہے کہ میں نے اپنے ان دونوں کانوں سے رسول اللہ کو فرماتے ہوئے سنا کہ نطفہ رحم میں چالیس رات تک رہتا ہے پھر فرشتہ اس پر صورت بناتا ہے زہیر نے کہا میرا گمان ہے کہ انہوں نے کہا اس کی تخلیق کرتا ہے پھر عرض کرتا ہے اے رب یہ مذکر ہے یا مونث پس اللہ اسے مذکر یا مونث بنا دیتے ہیں پھر عرض کرتا ہے اے رب اس کے اعضاء پورے اور برابر ہوں یا ادھورے اور ناہموار پس اللہ اسے کامل الاعضاء یا ادھورے اعضاء والا بناتے ہیں پھر عرض کرتا ہے اے رب اس کا رزق کتنا ہے اس کی عمر کیا ہے اس کے اخلاق کیا ہیں پھر اللہ اسے شقی یا سعید بناتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سنن ابوداؤد:جلد سوم:حدیث نمبر 1282 حدیث مرفوع مکررات 12
حفص بن عمر نمری، محمد بن کثیر، سفیان معنی، سفیان، اعمش، زید بن وہب، حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہم سے بیان کیا کہ آپ صادق ومصدوق ہیں کہ تم میں سے کسی پیدا ہونے والے کانطفہ اپنی ماں کی پیٹ میں چالیس روز تک جمع کیا جاتا ہے پھر وہ اسی طرح گندے خون کا ایک لوتھڑا ہو جاتا ہے پھر اسی طرح (چالیس روز میں) گوشت کا ایک لوتھڑا ہو جاتا ہے پھر اللہ تعالی کے پاس ایک فرشتہ کو بھیجتے ہیں تو اسے چار باتوں کا حکم کیا جاتا ہے تو اس کے رزق کو اس کی موت کے وقت اور اس کے دنیا میں اعمال کو لکھتا ہے پھر لکھتا ہے کہ آیا وہ شقی ہے۔ یا سعات مند پھر اس میں روح پھونکی جاتی ہے بیشک تم میں سے کوئی اہل جنت والے اعمال کرتا رہتا ہے۔ یہاں تک کہ اس کے اور جنت کے درمیان ایک ہاتھ برابر فاصلہ رہ جاتا ہے تو اس کی کتاب کا لکھا ہوا اس پر چل جاتا ہے پھر وہ جہنمیوں کے اعمال کرنے لگ جاتا ہے یہاں تک کہ اس میں داخل ہو جاتا ہے اور بیشک تم میں سے کوئی کام تو اہل دوزخ کے کر رہا ہوتا ہے حتی کہ اس کے درمیان اور دوزخ کے درمیان ایک ہاتھ برابر فاصلہ رہ جاتا ہے تو پھر قلم کا لکھا اس پر سبقت کرتا ہے اور وہ اہل جنت کے اعمال کرنے لگ جاتا ہے پس اس میں داخل ہو جاتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جامع ترمذی:جلد دوم:حدیث نمبر 207 حدیث مرفوع مکررات 2
محمد بن بشار، عبدالرحمن بن مہدی، سفیان، بشیر ابواسماعیل، سیار، طارق بن شہاب، عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جس کو فاقے میں مبتلا کیا گیا اور اس نے اپنی حالت لوگوں سے بیان کرنی شروع کر دی اور چاہا کہ لوگ اس کی حاجت پوری کر دیں تو ایسے شخص کا فاقہ دور نہیں کیا جائے گا لیکن اس نے اپنی آزمائش پر صبر کیا اور اللہ تعالی کی طرف رجوع کیا تو اللہ تعالی جلد یا بدیر اسے رزق عطا فرمائے گا یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے
جامع ترمذی:جلد دوم:حدیث نمبر 225 حدیث مرفوع مکررات 3
علی بن سعید کندی، ابن مبارک، حیوۃ بن شریح، بکر بن عمرو، عبداللہ بن ہبیرۃ، ابوتمیم جیشانی، حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اگر تم اللہ پر اس طرح بھروسہ کرو جس طرح توکل کرنے کا حق ہے تو وہ تمہیں اس طرح رزق دے گا جس طرح پرندوں کو رزق دیتا ہے صبح کو وہ بھوکے نکلتے ہیں اور شام کو پیٹ بھر کر واپس آتے ہیں یہ حدیث حسن صحیح ہے ہم اسے صرف اسی سند سے پہچانتے ہیں ابوتمیم جیشانی کا نام عبداللہ بن مالک ہے
جامع ترمذی:جلد دوم:حدیث نمبر 229 حدیث مرفوع مکررات 3
عباس بن محمد دوری، عبداللہ بن یزید مقری، سعید بن ابی ایوب، شرحبیل بن شریک، ابوعبدالرحمن جبلی، حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا جو شخص اسلام لایا اور اسے کفایت کے بقدر رزق عطا کیا گیا جس پر اللہ تعالی نے اسے قناعت دی تو وہ شخص کامیاب ہوگیا یہ حدیث حسن صحیح ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جامع ترمذی:جلد دوم:حدیث نمبر 384 حدیث قدسی مکررات 6
ہناد، ابوالاحوص، لیث، سہربن حوشب، عبدالرحمن بن غنم، حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالی فرماتا ہے اے میرے بندو تم سب بھٹکے ہوئے ہو مگر جس کو میں ہدایت دوں لہذا مجھ سے ہدایت مانگا کرو تاکہ میں تمہیں دوں، تم سب فقیر ہو مگر یہ کہ میں کسی کو غنی کر دوں لہذا تم لوگ مجھ سے رزق مانگا کرو تاکہ میں تمہیں عطاء کروں اسی طرح تم سب گناہ گار ہو مگر یہ کہ جسے میں محفوظ رکھوں۔ چنانچہ جو شخص جانتا ہے کہ میں مغفرت کی قدرت رکھتا ہوں اور مجھ سے مغفرت طلب کرتا ہے تو میں اسے معاف کر دیتا ہوں۔ مجھے اس کی کوئی پرواہ نہیں ہوتی۔ اور اگر تمہارے اگلے پچھلے زندہ، مردہ، خشک اور تازہ سب کے سب تقوی کی اعلی ترین قدروں پر پہنچ جائیں تو اس سے میری بادشاہت میں مچھر کے پر کے برابر بھی اضافہ نہیں ہوگا۔ اسی طرح اگر یہ تمام کے تمام شقی اور بدبخت ہو جائیں تو اس سے میری سلطنت و بادشاہت میں مچھر کے پر کے برابر بھی کمی نہیں آئے گی۔ نیز اگر تمہارے اگلے، پچھلے، جن، انس، زندہ، مردہ تر یا خشک سب کے سب ایک زمین پر جمع ہو جائیں اور پھر مجھ سے اپنی اپنی منتہائے آرزو کے متعلق سوال کریں پھر میں ہر سائل کو عطاء کر دوں تو بھی میری بادشاہت وسلطنت میں کوئی کمی نہیں آئے گی مگر یہ کہ تم میں سے کوئی سمندر پر سے گزرے تو اس میں سوئی ڈبو کر نکال لے یعنی اتنی کمی آئے جتنا اس سوئی کے ساتھ پانی لگ جائے گا۔ یہ سب اس لیے ہے کہ میں جواد ہوں۔ (جو نہ مانگنے پر خفا ہو جاتا اور بغیر مانگے عطاء کرتا ہے) واجد (جو کبھی فقیر نہیں ہوتا) ہوں اور ماجد (جس کی شرف وعظمت کی کوئی انتہا نہیں) ہوں۔ جو چاہتا ہوں کرتا ہوں۔ میری عطاء اور عذاب دونوں کلام ہیں اس لیے کہ اگر میں کچھ کرنا چاہتا ہوں تو کہہ دیتا ہوں کہ ہو جا، وہ ہو جاتا ہے۔ یہ حدیث حسن ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سنن ابن ماجہ:جلد اول:حدیث نمبر 195 حدیث مرفوع مکررات 5
علی بن محمد، ابومعاویہ، اعمش، عمرو بن مرۃ، ابوعبیدۃ، حضرت ابو موسیٰ فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے (ایک بار) ہم میں کھڑے ہو کر پانچ باتیں ارشاد فرمائیں فرمایا اللہ سوتا نہیں اور سونا اس کے شایان شان نہیں ، اللہ ترازوں کو جھکاتے اور اوپر اٹھاتے ہیں یعنی کسی کا رزق زیادہ، کسی کا کم کر دیتے ہیں۔ دن کے اعمال رات کو (انسان کے) عمل کرنے سے قبل ان کی بارگاہ میں پیش کیے جاتے ہیں اور رات کے اعمال کے دن کے عمل کرنے سے قبل۔ ان کا حجاب نور ہے اگر اسے ہٹا دیں تو ان کے چہرہ کی روشنیاں تاحد نگاہ اس کی مخلوق کو جلا دیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔