محمد آصف مغل
سینئر رکن
- شمولیت
- اپریل 29، 2013
- پیغامات
- 2,677
- ری ایکشن اسکور
- 4,006
- پوائنٹ
- 436
اِنَّ الَّذِيْنَ يَاْكُلُوْنَ اَمْوَالَ الْيَتٰمٰى ظُلْمًا اِنَّمَا يَاْكُلُوْنَ فِيْ بُطُوْنِھِمْ نَارًا۰ۭ وَسَيَصْلَوْنَ سَعِيْرًا۱۰ۧ يُوْصِيْكُمُ اللہُ فِيْٓ اَوْلَادِكُمْ۰ۤ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْاُنْثَيَيْنِ۰ۚ فَاِنْ كُنَّ نِسَاۗءً فَوْقَ اثْنَتَيْنِ فَلَھُنَّ ثُلُثَا مَا تَرَكَ۰ۚ وَاِنْ كَانَتْ وَاحِدَۃً فَلَھَا النِّصْفُ۰ۭ وَلِاَبَوَيْہِ لِكُلِّ وَاحِدٍ مِّنْہُمَا السُّدُسُ مِمَّا تَرَكَ اِنْ كَانَ لَہٗ وَلَدٌ۰ۚ فَاِنْ لَّمْ يَكُنْ لَّہٗ وَلَدٌ وَّوَرِثَہٗٓ اَبَوٰہُ فَلِاُمِّہِ الثُّلُثُ۰ۚ فَاِنْ كَانَ لَہٗٓ اِخْوَۃٌ فَلِاُمِّہِ السُّدُسُ مِنْۢ بَعْدِ وَصِيَّۃٍ يُوْصِيْ بِھَآ اَوْ دَيْنٍ۰ۭ اٰبَاۗؤُكُمْ وَاَبْنَاۗؤُكُمْ لَا تَدْرُوْنَ اَيُّھُمْ اَقْرَبُ لَكُمْ نَفْعًا۰ۭ فَرِيْضَۃً مِّنَ اللہِ۰ۭ اِنَّ اللہَ كَانَ عَلِيْمًا حَكِيْمًا۱۱
۱؎ ان آیات میں بتایا ہے کہ یتیموں سے ناجائز وسائل کی بناء پر مال حاصل نہ کیا جائے ۔ عام طورپر ایسا ہوتا ہے کہ یتامیٰ کو وراثت سے محروم رکھنے کے لیے طرح طرح کی چالیں چلی جاتی ہیں۔ فرمایا،جو یتیموں کے مال کو کھائے گا، اسے یقین رکھنا چاہیے کہ وہ جہنم کی آگ نگل رہا ہے ۔ یعنی اس سے بڑا گناہ اور کیا ہو گا کہ تم ان لوگوں کو نقصان پہنچاؤ جو سچے سرپرستوں کو ضائع کر چکے ہیں۔ ان کے ماں باپ زندہ نہیں اور تم بجائے اس کے کہ ان کا خیال رکھو، ان کو لوٹتے ہو۔
۲؎ حضرت سعد رضی اللہ عنہ شہید ہوئے تو ان کی دوبچیاں، ایک بیوہ اور ایک بھائی زندہ تھے۔ بھائی نے تمام جائیداد پر قبضہ کر لیا۔ سعد رضی اللہ عنہ کی بیوی حضور اقدس ﷺ کی خدمت میں شکایت لے کر آئیں۔ آپﷺ نے فرمایا:انتظار کرو۔ اس پر یہ آیات نازل ہوئیں۔
یُوْصِیْکُمُ اللّٰہُ کے معنی یہ ہیں کہ تقسیم جائیداد بھی ایک اہم ضرورت دینی ہے اور وہ لوگ جو اس میں تساہل وتغافل برتتے ہیں، یقینا اللہ کے ہاں مجرم ہیں۔
لِلذَّکَرِ مِثْلُ حَظِّ اْلاُنْثَیَیْنِ کہہ کر یہ بتایا ہے کہ لڑکیاں تقسیم میراث کے سلسلہ میں اصل و معیار کی حیثیت رکھتی ہیں۔ زمانہ ٔجاہلیت میں جس طرح عورتیں زندگی کے تمام لوازم سے محروم تھیں اسی طرح حق وراثت سے بھی محروم تھیں۔
اسلام جب دنیا میں آیا ہے اور اس کا آفتاب نصف نہار چمکا ہے تو تاریکیاں چھٹ گئیں اور عدل وانصاف کا دور دورہ ہوا۔ اسلام نے آکر بتایا کہ لڑکوں کے ساتھ لڑکیاں بھی تمہاری جائیداد میں شریک ہیں اور انھیں جائیداد سے محروم رکھنا کسی طرح زیبا ودرست نہیں۔آج بھی بعض سرمایہ دار زمیندار زمانۂ جاہلیت کی نخوت وبغاوت اپنے سینوں میں مضمر رکھتے ہیں اور عدالتوں میں جاکر صاف صاف کہہ دیتے ہیں کہ ہم رواج کو شریعت پر مقدم سمجھتے ہیں۔ یہ کھلا ارتداد ہے ۔ ان کے سامنے صرف دوراہیں ہیں۔یاتو اسلام کو پوری طرح قبول کر لیں اورلڑکیوں کو حصہ دیں اور یا اسلام کو چھوڑدیں۔ تیسری کوئی راہ نہیں۔ یہ بے وقوف یہ نہیں سمجھتے کہ جس طرح ہماری جائیداد دوسروں کے گھروں میں جائے گی، اسی طرح دوسروں کی جائیداد بھی تو تمہارے ہاں آئے گی۔ضرورت شریعت کے احکام کو رواج دینے کی ہے ۔ اس سے کوئی شخص گھاٹے میں نہیں رہتا۔لڑکی کا حصہ لڑکے سے آدھا ہوتا ہے۔ اس کے یہ معنی نہیں کہ اسلام کے نزدیک لڑکیاں سرے سے احترام وعزت کی مستحق ہی نہیں بلکہ بات یہ ہے کہ اسلام کے سامنے چونکہ ہرطرح کی مشکلات ہیں جن سے مرد دوچار ہوتے ہیں اورزیادہ سے زیادہ سرمایہ کی ضرورت کو محسوس کرتے ہیں، اس لیے ان سے لڑکوں کو زیادہ حصہ دلایا ہے ۔
مِنْ بَعْدِ وَصِیَّۃٍ یُّوْصِیْنَ بِھَا اَوْدَیْنٍ کے معنی یہ ہیں کہ مال موروثہ اس وقت تک تقسیم نہ ہو سکے گاجب تک کہ میت کے سر سے قرض نہ اتر جائے۔ و صیت وقرض کے بعد جو مال بچے گا، اس میں ورثا کو تقسیم کا حق ہے ۔ قرآن حکیم نے جو حصص مقرر فرمائے ہیں، ضرور حکیمانہ ہیں اور ان میں ہرایک حصہ کی ایک وجہ ہے۔ مگرہماراتجربہ چونکہ محدود ہے اورہمارا علم قاصر، اس لیے ہم قطعی اورحتمی رائے نہیں قائم کرسکتے۔ اس لیے فرمایا:لاَ تَدْرُوْنَ اَیُّھُمْ اَقْرَبُ لَکُمْ ننَفْعًا۔یعنی تم نہیں جانتے تمہارے لیے کون زیادہ مفید ہے اور کس کو زیادہ حصہ دیاجائے۔ یعنی حصص کی تقسیم توقیفی ہے
{حَظٌّ} حصہ۔
جولوگ ظلم سے یتیموں کا مال کھاتے ہیں اپنے پیٹوں میں آگ کھاتے ہیں اور وہ عنقریب دوزخ میں داخل ہوں گے۔۱؎(۱۰) تمہاری اولاد کے بارے میں اللہ تمھیں وصیت کرتا ہے کہ مرد کا ۲؎ حصہ دو عورتوں کے برابر ہے ۔ اگر دوسے زیادہ لڑکیاں ہوں توکل ترکہ سے دو تہائیاں ملیں گی اورجو صرف ایک لڑکی ہو تو آدھا ملے گا اور میت کے والدین میں سے ہر ایک کو اس کے ترکے میں سے چھٹا حصہ ملے گا۔بشرطیکہ میت کی کوئی اولاد ہو اور اگر اولاد نہ ہو اور اس کے ماں باپ اس کے وارث ہوں تو اس کی ماں کا تیسرا حصہ ہے اور اگر میت کے کئی بھائی ہوں تو اس کی ماں کا چھٹا حصہ ہے پیچھے (ادا کرنے) قرضہ اور وصیت کے جو میت کر گیا ہو۔ تم نہیں جانتے کہ تمہارے باپ اوربیٹوں میں سے کون تمہارے نفع کے لیے نزدیک تر ہے ۔ اللہ نے حصہ مقرر کیا ہے ۔ بیشک خدا جاننے والا حکمت والا ہے۔(۱۱)
۱؎ ان آیات میں بتایا ہے کہ یتیموں سے ناجائز وسائل کی بناء پر مال حاصل نہ کیا جائے ۔ عام طورپر ایسا ہوتا ہے کہ یتامیٰ کو وراثت سے محروم رکھنے کے لیے طرح طرح کی چالیں چلی جاتی ہیں۔ فرمایا،جو یتیموں کے مال کو کھائے گا، اسے یقین رکھنا چاہیے کہ وہ جہنم کی آگ نگل رہا ہے ۔ یعنی اس سے بڑا گناہ اور کیا ہو گا کہ تم ان لوگوں کو نقصان پہنچاؤ جو سچے سرپرستوں کو ضائع کر چکے ہیں۔ ان کے ماں باپ زندہ نہیں اور تم بجائے اس کے کہ ان کا خیال رکھو، ان کو لوٹتے ہو۔
تقسیم حصص
۲؎ حضرت سعد رضی اللہ عنہ شہید ہوئے تو ان کی دوبچیاں، ایک بیوہ اور ایک بھائی زندہ تھے۔ بھائی نے تمام جائیداد پر قبضہ کر لیا۔ سعد رضی اللہ عنہ کی بیوی حضور اقدس ﷺ کی خدمت میں شکایت لے کر آئیں۔ آپﷺ نے فرمایا:انتظار کرو۔ اس پر یہ آیات نازل ہوئیں۔
یُوْصِیْکُمُ اللّٰہُ کے معنی یہ ہیں کہ تقسیم جائیداد بھی ایک اہم ضرورت دینی ہے اور وہ لوگ جو اس میں تساہل وتغافل برتتے ہیں، یقینا اللہ کے ہاں مجرم ہیں۔
لِلذَّکَرِ مِثْلُ حَظِّ اْلاُنْثَیَیْنِ کہہ کر یہ بتایا ہے کہ لڑکیاں تقسیم میراث کے سلسلہ میں اصل و معیار کی حیثیت رکھتی ہیں۔ زمانہ ٔجاہلیت میں جس طرح عورتیں زندگی کے تمام لوازم سے محروم تھیں اسی طرح حق وراثت سے بھی محروم تھیں۔
اسلام جب دنیا میں آیا ہے اور اس کا آفتاب نصف نہار چمکا ہے تو تاریکیاں چھٹ گئیں اور عدل وانصاف کا دور دورہ ہوا۔ اسلام نے آکر بتایا کہ لڑکوں کے ساتھ لڑکیاں بھی تمہاری جائیداد میں شریک ہیں اور انھیں جائیداد سے محروم رکھنا کسی طرح زیبا ودرست نہیں۔آج بھی بعض سرمایہ دار زمیندار زمانۂ جاہلیت کی نخوت وبغاوت اپنے سینوں میں مضمر رکھتے ہیں اور عدالتوں میں جاکر صاف صاف کہہ دیتے ہیں کہ ہم رواج کو شریعت پر مقدم سمجھتے ہیں۔ یہ کھلا ارتداد ہے ۔ ان کے سامنے صرف دوراہیں ہیں۔یاتو اسلام کو پوری طرح قبول کر لیں اورلڑکیوں کو حصہ دیں اور یا اسلام کو چھوڑدیں۔ تیسری کوئی راہ نہیں۔ یہ بے وقوف یہ نہیں سمجھتے کہ جس طرح ہماری جائیداد دوسروں کے گھروں میں جائے گی، اسی طرح دوسروں کی جائیداد بھی تو تمہارے ہاں آئے گی۔ضرورت شریعت کے احکام کو رواج دینے کی ہے ۔ اس سے کوئی شخص گھاٹے میں نہیں رہتا۔لڑکی کا حصہ لڑکے سے آدھا ہوتا ہے۔ اس کے یہ معنی نہیں کہ اسلام کے نزدیک لڑکیاں سرے سے احترام وعزت کی مستحق ہی نہیں بلکہ بات یہ ہے کہ اسلام کے سامنے چونکہ ہرطرح کی مشکلات ہیں جن سے مرد دوچار ہوتے ہیں اورزیادہ سے زیادہ سرمایہ کی ضرورت کو محسوس کرتے ہیں، اس لیے ان سے لڑکوں کو زیادہ حصہ دلایا ہے ۔
مِنْ بَعْدِ وَصِیَّۃٍ یُّوْصِیْنَ بِھَا اَوْدَیْنٍ کے معنی یہ ہیں کہ مال موروثہ اس وقت تک تقسیم نہ ہو سکے گاجب تک کہ میت کے سر سے قرض نہ اتر جائے۔ و صیت وقرض کے بعد جو مال بچے گا، اس میں ورثا کو تقسیم کا حق ہے ۔ قرآن حکیم نے جو حصص مقرر فرمائے ہیں، ضرور حکیمانہ ہیں اور ان میں ہرایک حصہ کی ایک وجہ ہے۔ مگرہماراتجربہ چونکہ محدود ہے اورہمارا علم قاصر، اس لیے ہم قطعی اورحتمی رائے نہیں قائم کرسکتے۔ اس لیے فرمایا:لاَ تَدْرُوْنَ اَیُّھُمْ اَقْرَبُ لَکُمْ ننَفْعًا۔یعنی تم نہیں جانتے تمہارے لیے کون زیادہ مفید ہے اور کس کو زیادہ حصہ دیاجائے۔ یعنی حصص کی تقسیم توقیفی ہے
حل لغات
{حَظٌّ} حصہ۔