- شمولیت
- اپریل 14، 2011
- پیغامات
- 1,118
- ری ایکشن اسکور
- 4,480
- پوائنٹ
- 376
تقلید کی نئی دلیل
دارالعلوم دیوبند کے استاذ الحدیث کی دور کی کوڑی
از:حافظ خبیب احمد الاثری حفظہ اللہ
نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم، أما بعد!
تقلید ایک ایسا فکری ناسور ہے جس سے انسان غور وفکر سے عاری ہو کر اپنی من مانیاں کرتا ہے، شریعتِ اسلامیہ کو اپنے مزاج کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کرتا ہے۔ اس مقصد کی آبیاری کے لیے اگر اسے قرآنِ مجید اور احادیثِ نبویہ کے مفہوم ومعنی اور مطالب میں بھی ردّ وبدل کرنا پڑے تو وہ اس سے بھی چوکتا نہیں۔ اکثر وبیشتر اپنے غلط نظریات کو تقویت پہنچانے کے لیے نصوص کی معنوی تاویل سے بھی باز نہیں آتا۔ کیوں کہ اس کا نصب العین اپنے نظریات کا تحفظ اور مسلک کی پاسداری ہوتی ہے۔
''اگر کسی مسئلے کے لیے دلیل کتاب اللہ یا سنت رسول اللہ e سے کسی ایسے شخص کے سامنے پیش کی گئی جو شخص اپنے زمانے میں اَعلم، اَتقی، اَزہد اور اَروع ہو۔ زہد، تقویٰ، علم اور اس کے ساتھ ساتھ فراستِ ایمانی کے اندر اپنے ہم عصروں سے ممتاز ہے۔ پھر اگر اس کا زمانہ، زمانہئ نبوت سے قریب ہے، مشہود لہا بالخیر جو ازمنہ ہیں، ان ازمنہ کے اندر اللہ نے اس کو وجود بخشا ہے اگر اس کے استنباط کردہ کسی مسئلے کے مقابلے میں کوئی نص ہے یا اس کے سامنے کسی نص کو پیش کیا جاتا ہے اور وہ معارضہ اس نص کا نص سے نہیں کرتا بلکہ اپنی رائے پیش کرتا ہے تو اس کی رائے بھی حجت ہے اگرچہ وہ معارضۃ النص بالنص نہیں کررہا۔ یعنی دلیل کا جواب دلیل کی بجائے اپنی رائے سے دیتا ہے۔'' (ماہنامہ بینات، ص:٣١، اکتوبر ٢٠٠٨ئ)
گویا مولانا صاحب کے نزدیک جو انسان اَعلم واَتقی ہو اور اس کی دینی فراست بھی مسلم ہو، اپنے زمانے میں اس کا ایک خاص مقام ہو اگر وہ کوئی ایسا مسئلہ بیان کرتا ہے جس مسئلے کے مخالف کوئی صحیح دلیل موجود ہے اور وہ اس دلیل سے کسی قسم کا کوئی تعرض نہیں کرتا تو محض اس کی رائے ہی ''حجت'' ہوگی۔ دوسری صورت یہ ہے کہ اس کے مستنبط کردہ مسئلے کے خلاف کوئی دلیل پیش کی جاتی ہے یا اسے یاد دلائی جاتی ہے تو وہ اس دلیل کا معارضہ اپنے ہاں موجود دلیل سے نہیں کرتا بلکہ اس دلیل کے مقابلے میں محض اپنی کوئی رائے دیتا ہے تو ایسے انسان کی رائے بھی حجت ہے۔ گو وہ دلیل کے جواب میں اپنی رائے پیش کررہا ہے۔
مولانا ارشد صاحب کو اس اصول کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ اس کے پسِ پردہ کیا حقائق ہیں؟ اس کی توضیح انھوں نے نہیں فرمائی، تاہم جس حقیقت تک ہم پہنچے ہیں وہ یہ ہے کہ چوں کہ امام ابوحنیفہa پیدائش کے اعتبار سے مشہور ائمہ اربعہؒ میں مقدم ہونے کی وجہ سے عہدِ نبویﷺ کے قریب ہیں۔
شیخ الحدیث صاحب اس اصول کی روشنی میں امام ابوحنیفہa کی رائے کو حجت قرار دینے کی کوشش کررہے ہیں تاکہ ان کی تقلید کو شرعی حجت قرار دیا جاسکے۔
مولانا کی دلیل:
مولانا ارشد صاحب نے اس اصول کی دلیل یہ دی کہ ''وفاتِ نبوی کے بعد حضرت صدیق اکبر کے دورِ خلافت میں مانعین زکوٰۃ سے حضرت ابوبکر t نے جنگ کا اعلان کیا تو حضرت عمر آڑے آئے اور فرمایا: آپ لوگوں (مانعین زکوٰۃ) سے کیسے جنگ کریں گے جب کہ رسول اللہﷺ نے تو ارشاد فرمایا:
''مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں اس وقت تک لڑوں جب تک وہ شہادتین کا اقرار نہ کرلیں جب وہ اس کا اقرار کرلیں تو انھوں نے مجھ سے اپنے خون اور اموال محفوظ کرلیے ہیں اور ان کا حساب اللہ پر ہے۔''
جواباً حضرت ابوبکر نے ارشاد فرمایا کہ اگر کسی نے ایک رسی بھی نہ دی جو وہ زکوٰۃ میں دیا کرتا تھا تو میں اس سے جنگ کروں گا۔ تو حضرت عمر فاروق یہ سن کر فرمانے لگے کہ جب اللہ تعالیٰ نے حضرت ابوبکر کا سینہ مانعینِ زکوٰۃ سے جنگ کرنے کے لیے کھول دیا تو میں نے بھی جان لیا کہ حق حضرت ابوبکر کے ساتھ ہے۔'' (بینات، ص:٣٢ ملخصاً)
شیخ الحدیث صاحب کا اس سے استدلال یہ ہے کہ حضرت ابوبکر چوں کہ اپنے ہم عصروں میں ممتاز ہیں اور ان کی علمی ثقاہت بھی مسلّم ہے۔ انھوں نے جب مانعینِ زکوٰۃ سے جنگ کا فیصلہ کیا تو حضرت عمر ان پر معترض ہوئے اور حدیث نبوی پیش کی۔ جسے سن کر حضرت ابوبکر نے کوئی دلیل نہیں دی بلکہ اپنی رائے بتلائی کہ میں ان سے جنگ کروں گا اور حضرت عمر نے ان کی رائے ہی کو حجت سمجھا جس بنا پر وہ خاموش ہوگئے۔ اس لیے جو بھی اپنے ہم عصروں سے ممتاز ہو اور اس کا زمانہ بھی عہدِ نبویﷺ کے قریب ہو تو نص کے مقابلے میں اس کی رائے حجت ہوگی۔ اعتبار اسی کا ہوگا جو اس نے سمجھا ہے ظاہر نص کو نہیں لیا جائے گا۔
جواب:
دارالعلوم دیوبند کے ناظمِ تعلیمات اور شیخ الحدیث صاحب امام ابوحنیفہؒ کی رائے کو حجت قرار دینے کے لیے بڑی دور کی کوڑی لائے ہیں، اور امام صاحب کی تقلید میں ایسے سرگرداں ہوئے کہ معمولی تدبر بھی نہ کرسکے کہ حضرت عمر حضرت ابوبکر کے فیصلے پر کیوں خاموش ہوگئے؟ ۔۔۔۔۔۔ کیا اس لیے کہ یہ صرف حضرت ابوبکر کی رائے تھی؟ یا حضرت ابوبکر کے پیشِ نظر کوئی قرآنی آیت تھی؟ یا کوئی خاص صریح حدیث تھی جس کی روشنی میں انھوں نے فیصلہ صادر فرمایا؟ یا پھر انھوں نے زکوٰۃ کو نماز پر قیاس کیا؟ یا انھوں نے اسی حدیث میں موجود ایک ٹکڑے ''إلا بحقہ'' کے عموم سے استدلال کیا جسے دلیل مان کر حضرت عمر خاموش ہوئے؟ اگر یہ ان کی ذاتی رائے تھی اور وہ حجت تھی تو پھر حضرت عمر نے ان پر اعتراض کیوں کیا؟
اس کے جواب میں علامہ شبیر احمد دیوبندی صحیح مسلم کی شرح میں لکھتے ہیں:
'' احتج الصدیق علی الفاروق بالنص الصریح، وبالعموم المستفاد من قولہ صلی اللہ علیہ وسلم ((إلا بحقہ ))، وبالمقایسۃ بین الصلاۃ والزکوۃ، وبکونہما قرینتین فی کتاب اللہ ۔'' (فتح الملہم شرح صحیح مسلم: ١/ ١٩٣)
''حضرت ابوبکر نے حضرت عمر کے خلاف نصِ صریح، فرمانِ نبوی ''إلا بحقہ'' کے عموم اور زکوٰۃ ونماز کے ہم قیاس ہونے کو بطور دلیل پیش کیا۔ کیوں کہ نماز اور زکوٰۃ قرآنِ مجید میں (عمومی طور پر) اکٹھے بیان کیے گئے ہیں۔''
دوسرے مشہور حنفی عالم علامہ عینی شرح صحیح بخاری میں رقم طراز ہیں:
''حیث انشرح صدرہ أیضاً بالدلیل الذی أقامہ الصدیق نصاً و دلالۃ وقیاساً ۔''
''کہ حضرت عمر کو انشراحِ صدر اسی وقت ہوا جب حضرت ابوبکر نے بطورِ دلیل نص، عموم اور قیاس کو پیش کیا۔''(عمدۃ القاری، ج:٨، ص:٢٤٦)
امام منذریؒ (مختصر سنن ابی داؤد، ج:٢، ص:١٦٥) اور علامہ کرمانی (شرح البخاری، ج:٧، ص:١٧٣) وغیرہ نے بھی نص، عموم اور قیاس کو حضرت ابوبکر کی دلیل قرار دیا ہے۔ علامہ رشید احمد گنگوہی نے ''إلا بحقہ'' میں جو عموم بیان ہوا ہے اس کو حضرت ابوبکر کی دلیل قرار دیا ہے۔ ان کے الفاظ ہیں:
'' وذلک لأنہم کانوا مذکورین فیمن استثناء النبی صلی اللہ علیہ وسلم بقولہ (( إلا بحقہ )) إلا أن عمر لم یفہمہ وقد فہمہ أبوبکر وکان أعلمہم ۔'' (لامع الدراري: ٥/ ١٥، ١٦)
''خلاصہ یہ ہے کہ مانعینِ زکوٰۃ سے جنگ کا حکم ''إلا بحقہ'' میں پنہاں ہے جسے حضرت عمر تو نہ سمجھ سکے جب کہ حضرت ابوبکر نے اسے سمجھ لیا، کیوں کہ صحابہ میں وہ سب سے بڑھ کر عالم تھے۔''
علامہ انور شاہ کشمیری کا فیض الباری (ج:٣، ص:٤) میں یہ رجحان معلوم ہوتا ہے کہ انھوں نے حضرت ابوبکر کی دلیل ''زکوٰۃ کو نماز پر قیاس کرنا'' قرار دیا ہے، فرماتے ہیں:
'' قولہ: ''من فرق بین الصلاۃ والزکوۃ'' یدل صراحۃً علی أن ترک الصلاۃ کان من موجبات القتل عندہما بالاتفاق فإن إکفار من أنکر ضروریات الدین من ضروریات الدین ''
''حضرت ابوبکر کا یہ فرمان ''جو نماز اور زکوٰۃ کے مابین فرق کرے گا'' (میں اس سے جنگ کروں گا) صراحتاً اس پر دلالت کرتا ہے کہ ان دونوں (شیخین) کے ہاں تارکِ نماز واجب القتل ہے۔ کیوں کہ لوازماتِ دین کے منکر کو کافر قرار دینا (اور اس سے جنگ کرنا) لوازماتِ دین میں سے ہے۔''
دارالعلوم نعیمیہ، کراچی کے شیخ الحدیث غلام رسول سعیدی صاحب نے بھی قیاس اور عموم سے استدلال کو حضرت ابوبکر کی دلیل قرار دیا ہے۔ (شرح صحیح مسلم، ج:١، ص:٣٨٣، ٣٨٤)
ان سب آرا کا خلاصہ یہ ہے کہ حضرت ابوبکر کا استدلال نص سے تھا، یا قیاس سے تھا یا پھر عموم سے۔ اب ذرا غور کیجیے کہ فقہائے احناف کی اس تصریح کے باوجود مولانا ارشد صاحب کتنی دیدہ دلیری سے حضرت صدیق اکبر کی محض رائے کو حجت قرار دیتے ہیں اور اسی کی آڑ میں امام ابوحنیفہؒ کی رائے کو بھی حجت قرار دینے کے لیے ہاتھ پاؤں مار رہے ہیں۔ إنا للہ وإنا إلیہ راجعون۔
تقلید کا یہی المیہ اور تاریک پہلو ہے کہ اگر کوئی صحابی کسی مسئلے میں ایسی رائے دے جو شریعت کے مطابق نہ ہو تو اس کے بارے میں بڑی سادگی سے کہہ دیا جاتا ہے کہ عین ممکن ہے اس مسئلے کی کوئی دلیل اس صحابی تک نہ پہنچی ہو یا وہ نسیان کا شکار ہوگئے ہوں۔ بلاشبہ یہ معقول عذر ہے۔ لیکن اپنے امام کی رائے کے تحفظ کے لیے صحیح نصوص کی بڑی بے باکی سے تاویلیں کی جاتی ہیں مگر امام صاحب کی رائے کو غلط کہنے کی کوئی جسارت نہیں کرتا۔ بلکہ الٹا یہ اصول بنایا جاتا ہے کہ جس شخص کا رسوخ فی العلم مسلّم ہو، اور وہ ازہد، اتقی، اروع ہو اس کی رائے تو فرمانِ نبوی کے خلاف بھی حجت ہے۔ اس کے فہم کا تو اعتبار ہوگا حدیثِ نبوی کا نہیں۔ لا حول ولا قوۃ إلا باﷲ
حضرت عمر نے حضرت ابوبکر کی تقلید نہیں کی:
حضرت عمر نے اسی وقت سکوت اختیار کیا جب وہ حضرت ابوبکر کی دلیل سے مطمئن ہوگئے۔ ان کی دلیل کے حوالے سے ہم علامہ عینی، علامہ شبیر عثمانی دیوبندی کے اقوال کے علاوہ دیگر شارحینِ حدیث کی آرا بھی پیش کرچکے ہیں جن سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ حضرت عمر نے حضرت صدیق اکبر کی تقلید نہیں کی۔ بلکہ ان کی رائے کو ان کی دلیل کی بدولت ہی مستحکم سمجھا اور اسے قبول کیا۔ اس کی گواہی احناف کے وکیل علامہ عینی نے صحیح بخاری کی شرح میں اس طرح دی ہے:
'' فلا یقال لہ: إنہ قلد أبا بکر، لأن المجتہد لا یجوز لہ أن یقلد المجتہد'' (عمدۃ القاری، ج:٨، ص:٢٤٦)
''یہ نہیں کہا جائے گا کہ حضرت عمر نے حضرت ابوبکر کی تقلید کی، کیونکہ مجتہد کا مجتہد کی تقلید کرنا جائز نہیں۔''
علامہ شبیر احمد عثمانی دیوبندی نے بھی اس کی صراحت فرمائی ہے کہ حضرت عمر نے حضرت ابوبکر کی بات کو اسی وقت تسلیم کیا جب انھوں نے ان کی پیش کردہ دلیل کی صحت دیکھی، ان کی تقلید نہیں کی۔(فتح الملہم، ج:١، ص:١٩٣)
ان کے علاوہ دیگر شارحینِ حدیث نے بھی اس کی تصریح کی ہے کہ حضرت عمر نے حضرت ابوبکر پر اسی وقت اعتماد کیا جب انھوں نے ان کی دلیل کو ملاحظہ کیا، ان کی تقلید نہیں کی۔ جن میں امام بیہقی (لامع الدراری، ج:٥، ص:١٤۔١٥ تعلیقات الکاندلوی)، امام نووی (شرح مسلم، ص:١٠١، طبع بیت الافکار)، امام ابن حجر (فتح الباری، ج:١٢، ص:٢٧٩)، امام سیوطی (الدیباج، ج:١، ص:١٥٦)، علامہ الابی (اکمال اکمال المعلم، ج:١، ص:١٠٧)، علامہ کرمانی (شرح صحیح بخاری، ج:٧، ص:١٧٣)، محدث عبدالرحمن مبارک پوری (تحفۃ الاحوذی، ص:١٩٩٤، حدیث: ٢٦٠٧، طبع بیت الافکار) وغیرہ شامل ہیں۔ گویا جناب ارشد صاحب کا مدعا کہ ''حضرت ابوبکر کا قول ہی محض حجت ہے'' پورا نہ ہوسکا۔
امام ابوحنیفہ، ان کے تلامذہ اور احناف کا طرزِ عمل:
امام ابوحنیفہ ؒ کے تلامذہ بالخصوص اور اکابر احناف بالعموم اس بات سے بخوبی واقف تھے کہ امام صاحب ازہد، اعلم، اتقی، اروع الناس فی عصرہ ہیں اور ان کی علمی ثقاہت بھی مسلم ہے۔ ان کا زمانہ بھی عہدِ نبوی کے قریب ہے۔ مگر اس کے باوجود انھوں نے امام صاحب کی رائے کو دلیل اور حجت نہیں سمجھا بلکہ انھوں نے بھی امام صاحب سے متعلقہ مسئلے کی دلیل طلب کی۔ جیسا کہ محمد بن حسن شیبانی نے بھی اپنے استاد کے بلا دلیل فیصلے کو تحکم اور سینہ زوری قرار دیا ہے۔ (المبسوط للسرخسی، ج:١٢، ص:٢٨)
چناں چہ جو اصول شیخ الحدیث صاحب وضع کررہے ہیں اس سے وہ تلامذہ بھی بے خبر رہے جنھوں نے امام صاحب سے براہِ راست زانوئے تلمذ تہہ کیے اور وہ ائمہ بھی، جنھوں نے مسلکِ احناف کے لیے قابلِ قدر کاوشیں کیں، اس اصول تک نہ پہنچ سکے جس کی عقدہ کشائی دیوبند کے شیخ الحدیث مولانا ارشد صاحب کے مقدر میں آئی۔
فروعات اور جزئیات میں اختلاف تو اپنی جگہ موجود مگر اصولوں میں بھی امام ابوحنیفہ سے ان کے تلامذہ نے اختلاف کیا۔ علامہ غزالی کا تو یہاں تک کہنا ہے کہ قاضی ابویوسف اور محمد شیبانی نے امام صاحب سے دو تہائی مذہب میں اختلاف کیا ہے۔ (النافع الکبیر، ص:٩٩)
چلیے اس قدر اختلاف نہ سہی، کم از کم ایک تہائی میں تو ان دونوں تلامذہ کا امام صاحب سے اختلاف مسلم ہے۔ جس کی گواہی علامہ ابن عابدین حنفی نے یوں دی ہے: '' فحصل المخالفۃ من الصاحبین فی نحو ثلث المذہب''(حاشیہ ابن عابدین، ج:١، ص:٦٧)
''کہ صاحبین (قاضی ابویوسف، محمد) نے امام ابوحنیفہؒ سے ایک تہائی مذہب میں اختلاف کیا ہے۔''
علامہ شبلی نعمانی رقم طراز ہیں:
''قاضی ابویوسف اور امام محمد نے بہت سے مسائل میں امام ابوحنیفہ کی رائے سے اختلاف کیا ہے۔'' (سیرۃ النعمان، ص:٢٣٠)
اصول میں اختلاف کے حوالے سے علامہ عبدالحی لکھنوی، شیخ شہاب الدین حنفی سے نقل کرتے ہیں:
'' ولکل واحد منہم أصول مختصۃ تفردوابہا عن أبي حنیفۃ وخالفوہ فیہا'' (النافع الکبیر، ص:٩٩، ضمن مجموعۃ الرسائل الست)
''ان میں سے ہر ایک کے مخصوص اصول ہیں جن میں وہ امام صاحب سے منفرد ہیں اور انھوں نے ان میں امام ابوحنیفہ کی مخالفت کی ہے۔''
دوسری جگہ مولانا لکھنوی اپنا تبصرہ یوں پیش فرماتے ہیں: '' فإن مخالفتہما فی الأصول کثیرۃ غیر قلیلۃ ۔''
''ان دونوں (قاضی، شیبانی) نے امام صاحب سے اصولوں میں مخالفت کم نہیں کی، بلکہ بہت زیادہ کی ہے۔'' (حاشیہ الفوائد البہیۃ، ص:١٦٣)
کتنے مسائل میں قاضی ابویوسف نے ابن ابی لیلیٰ کی رائے کو ترجیح دی اور امام ابوحنیفہؒ کی رائے کو مرجوح قرار دیا۔ امام ابوحنیفہؒ کے شاگرد عصام بن یوسف بلخی نے امام صاحب سے بہت زیادہ اختلاف کیا۔ ایقاظ الہمم للفلانی (ص:٥١، ٥٢) البحر الرائق، (ج:٦، ص:٢٩٣)
اکابر احناف کو کیوں ضرورت پیش آئی کہ وہ مفتی کو پابند کریں کہ وہ عبادات میں امام ابوحنیفہؒ کے قول پر اور مسئلہ وقف وقضا میں قاضی ابویوسف کے قول پر فتویٰ دے۔ (رسم المفتی، ص:٣٥۔ رد المحتار، ج:١، ص:٧١۔ فتاویٰ قاضی خاں، ج:١، ص:٣ مع عالمگیری)۔ جب صاحبین (ابویوسف اور محمد) اور امام صاحب باہم مختلف ہوں تو مفتی جس قول پر چاہے فتویٰ دے۔ (ردّ المختار، ج:١، ص:٧٠ وقاضی خان، ج:١، ص:٣) سترہ مسائل میں زفر کے قول پر فتویٰ دیا جائے۔ (ردّ المختار، ج:١، ص:٧١) مزید شروط دیکھنے کے لیے ملاحظہ ہو: مقالات الاستاذ الاثری (ج:١، ص:١٥١)
ان کے علاوہ متعدد مسائل میں احناف نے امام صاحب کی رائے کو ترک کرکے دوسروں کی رائے کو ترجیح دی اور ان پر فتاویٰ دیے۔ اگر ضرورت محسوس ہوئی تو ان شاء اللہ باحوالہ یہ بھی بتلا دیا جائے گا کہ کن کن مسائل میں احناف نے امام ابوحنیفہ ؒ کی رائے کو ٹھکرایا۔ قطع نظر امام صاحب کی رائے سنت کے مطابق تھی یا مخالف!
''شیخ الحدیث'' کی برہمی:
حضرت شیخ الحدیث صاحب کی گرم گفتاری کا اندازہ لگائیں، فرماتے ہیں:
''میں کہنا یہ چاہتا ہوں اب تو کوئی آدمی کھڑے ہو کر، دو پیسے کا آدمی، اس کے پاس احادیث کا کچھ ذخیرہ نہیں ہے۔ دس، بیس، پچیس، پچاس احادیث کو رٹ لےا، کھڑے ہو کر کہہ رہا ہے کہ فلانے کو کیا حق پہنچتا ہے کہنے کا۔ حضرت عمر کون ہوتے تھے بیس رکعات تراویح کو قائم کرنے والے؟ ابوحنیفہؒ کون ہوتے ہیں؟'' (بینات، ص:٣٣)
گویا شیخ الحدیث فرما رہے ہیں کہ جس نے چند احادیث رٹ لیں مگر اس کے پاس ذخیرہئ حدیث سے کچھ نہیں وہ ''دو پیسے کا آدمی'' ہے۔ یعنی حفظِ حدیث کی یہ تعداد بھی اسے ''دو پیسے کا آدمی'' کے زمرہ سے نہیں نکال سکتی۔ ہم تو صرف یہ عرض کریں گے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
''بلغوا عنی ولو آیۃ'' (بخاری: ٣٤٦١ عن عبداللہ بن عمرو)
''اگر ایک آیت (یا حدیث) کا علم بھی ہو تو اسے بھی دوسروں تک پہنچاؤ۔''
مگر مولانا ارشد صاحب نے حفظِ حدیث کے حوالے سے جو تضحیک کی وہ بہرحال قابلِ مذمت ہے۔
مولانا ارشد صاحب فرماتے ہیں کہ حضرت عمر کے متعلق یہ اعتراض کرنے کی گنجائش نہیں کہ انھوں نے بیس رکعات تراویح کیوں شروع کروائی؟ کیوں کہ وہ اعلم، ازہد، اتقی وغیرہ ہیں۔ لہٰذا ان کی رائے بھی صحیح احادیث نبویہ کے خلاف حجت ہے؟!
عرض ہے کہ پہلے سندِ صحیح سے حضرت عمر کا یہ اثر ثابت کریں ثبّت العرش ثم انقش۔ جبکہ اس کے برعکس صحیح سند سے موطا امام مالک (ج:١، ص: ٤٧٨، حدیث: ٢٧١ بروایات الثمانیۃ) میں حضرت عمر کا اثر موجود ہے کہ انھوں نے حضرت ابی بن کعب اور تمیم داری کو حکم دیا کہ وہ لوگوں کو گیارہ رکعت نمازِ تراویح پڑھائیں۔ محدث البانی ؒ نے اسے صلاۃ التراویح (ص:٤٥، ٤٦)، شیخ سلیم بن عید ہلالی نے مؤطا کی تخریج میں صحیح قرار دیا ہے۔ لطف یہ کہ مشہور ہندوستانی عالم نیموی صاحب نے بھی آثار السنن (ص:٢٠٣) میں اس کی سند کو صحیح قرار دیا ہے۔
مقلدین احناف حضرت عمر کے بیس رکعات نمازِ تراویح کے فیصلے کو تو ناقابلِ چیلنج قرار دیتے ہیں مگر حضرت عمر فاروق کے ان حکومتی فیصلوں کو کیوں فراموش کرجاتے ہیں جو مسلکِ احناف کے خلاف ہوتے ہیں۔ مثلاً مشہور تابعی حضرت اسلم کا بیان ہے:
'' کتب عمر بن الخطاب أن وقت الظہر إذا کان الظل ذراعاً إلی أن یستوی أحدکم بظلہ''(الأوسط لابن المنذر، ج:٢، ص:٣٢٨، ح: ٩٤٨ سندہ صحیح)
''حضرت عمر بن خطابؓ نے لکھا کہ ظہر کا وقت ایک ذراع سایہ ہونے سے لے کر آدمی کے برابر سایہ ہونے تک ہے۔''
سوال یہ ہے کہ حضرت عمر کے اس فیصلے کے برعکس مقلدین حضرات دو مثل کے بعد اذانِ عصر کیوں دیتے ہیں؟ جبکہ اذانِ عصر کا وقت تو ایک مثل سایہ ہونے کے بعد سے شروع ہوجاتا ہے۔ قاضی ابویوسف اور محمد بن حسن شیبانی کا ''حق شاگردی'' دیکھئے کہ وہ اس مسئلہ میں امام ابوحنیفہ کے مخالف جب کہ جمہور محدثین وفقہاء کے ہم نوا ہیں، جس کی وضاحت امام ابن المنذر نے الاوسط میں اور خود امام صاحب کے شاگرد علامہ شیبانی نے کتاب الاصل (ج:١، ص:١٤٤) میں کی ہے۔
اگر امام ابوحنیفہ کی رائے سے اختلاف کرنا ہی اچھے بھلے آدمی کو ''دو پیسے کا آدمی'' بنا دیتا ہے تو اس کے حق داروں میں تنہا اہل حدیث ہی کیوں؟ مولانا ارشد صاحب کم از کم امام ابوحنیفہؒ کے مایہ ناز شاگرد، چہل کمیٹی کے عظیم رکن محمد بن حسن شیبانی کے بارے میں کیا فیصلہ صادر فرمائیں گے جنھوں نے اپنے استاد کی گستاخی کرتے ہوئے ان کے بلا دلیل فیصلے کو تحکم اور سینہ زوری قرار دیا۔ پھر مستزاد یہ کہ انھوں نے اپنے استاد کی تقلید کی بیخ کنی کی۔ چناں چہ علامہ سرخسی رقم طراز ہیں:
'' وقد استبعد محمد قول أبی حنیفۃ فی الکتاب لہذا وسماہ تحکماً علی الناس من غیر حجۃ۔ فقال: ما أخذ الناس بقول أبي حنیفۃ وأصحابہ إلا بترکہم التحکم علی الناس فإذا کانوا ہم الذین یتحکمون علی الناس بغیر أثر ولا قیاس لم یقلدوا ہذہ الأشیاء ولو جاز التقلید کان من مضی من قبل أبي حنیفۃ مثل الحسن البصری وإبراہیم النخعي أحری أن یقلدوا ۔''
''محمد بن حسن شیبانی نے امام ابوحنیفہؒ کے قول کو ''الکتاب'' میں بعید قرار دیا ہے اور عدمِ دلیل کی بنا پر اس کا نام تحکم (لوگوں پر زبردستی ٹھونسنا) اور سینہ زوری رکھا ہے۔ کہا: لوگ امام ابوحنیفہؒ اور ان کے شاگردوں کے فیصلے کو اسے لیے قبول کرتے ہیں کہ وہ اپنے فیصلوں کو لوگوں پر ٹھونستے نہیں۔ اگر وہ کسی اثر یا قیاس کے بغیر لوگوں پر تحکم کریں گے تو وہ ان چیزوں میں ان کی تقلید نہیں کریں گے۔ اگر تقلید جائز ہوتی تو امام ابوحنیفہؒسے جو پہلے گزرے ہیں، مثلاً امام حسن بصریؒ اور امام ابراہیم نخعیؒ زیادہ حق دار ہیں کہ ان کی تقلید کی جائے۔'' (المبسوط للسرخسی، ١٢/ ٢٨)
گویا علامہ شیبانی فرما رہے ہیں کہ کسی دلیل کے بغیر کوئی فیصلہ قبول نہیں کیا جائے گا۔ حتی کہ امام ابوحنیفہؒ نے بغیر دلیل کے فیصلہ دے کر تحکم اور سینہ زوری کا مظاہرہ کیا ہے جسے قبول نہیں کیا جائے گا۔ کیونکہ بلا دلیل فیصلے کو قبول کرنا ہی تقلید ہے۔ اگر یہ روا ہوتی تو امام حسن بصریؒ اور امام ابراہیم نخعیؒ اس کا زیادہ استحقاق رکھتے ہیں۔ چوں کہ ان کی بھی تقلید نہیں کی جاتی اس لیے امام ابوحنیفہؒ بھی اس کے حق دار نہیں ہیں۔
تعجب ہے کہ مولانا ارشد صاحب امام ابوحنیفہؒ کی رائے کو حجت قرار دینے پر تلے ہوئے ہیں اور علامہ شیبانی ہیں کہ اسے تسلیم ہی نہیں کررہے بلکہ الٹا دلیل کا تقاضا فرما رہے ہیں۔ کیا ہم جناب مولانا ارشد صاحب سے پوچھنے کی جسارت کرسکتے ہیں کہ علامہ شیبانی نے امام صاحب کی بے ادبی کی ہے یا انھیں حجت باور کرایا ہے؟ ان کے اس سوئے ادب کی بنا پر کیا آپ انھیں بھی ''دو پیسے کا آدمی'' کا تمغہ عطا فرمانے کے لیے تیار ہیں؟ امید واثق ہے کہ آپ کے ہاتھ سے عدل وانصاف کا دامن نہیں چھوٹے گا۔
(مقالات اثریہ از حافظ خبیب احمد الاثری)
دارالعلوم دیوبند کے استاذ الحدیث کی دور کی کوڑی
از:حافظ خبیب احمد الاثری حفظہ اللہ
نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم، أما بعد!
تقلید ایک ایسا فکری ناسور ہے جس سے انسان غور وفکر سے عاری ہو کر اپنی من مانیاں کرتا ہے، شریعتِ اسلامیہ کو اپنے مزاج کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کرتا ہے۔ اس مقصد کی آبیاری کے لیے اگر اسے قرآنِ مجید اور احادیثِ نبویہ کے مفہوم ومعنی اور مطالب میں بھی ردّ وبدل کرنا پڑے تو وہ اس سے بھی چوکتا نہیں۔ اکثر وبیشتر اپنے غلط نظریات کو تقویت پہنچانے کے لیے نصوص کی معنوی تاویل سے بھی باز نہیں آتا۔ کیوں کہ اس کا نصب العین اپنے نظریات کا تحفظ اور مسلک کی پاسداری ہوتی ہے۔
دورانِ درس میں جناب شیخ الحدیث مولانا ارشد صاحب ایک جدید اور انوکھا اصول متعارف کرواتے ہوئے طلباء کو فرماتے ہیں:حال ہی میں (٦/ رجب المرجب ١٤٢٩ھ مطابق ١٠/ جولائی ٢٠٠٨ئ) جامعہ اسلامیہ بنوری ٹاؤن، کراچی میں صحیح بخاری شریف کی تکمیل کے موقعے پر ایک سالانہ تقریب کا اہتمام کیا گیا جس میں صحیح بخاری کی آخری حدیث پر درس دینے کے لےے دارالعلوم دیوبند، انڈیا کے ناظمِ تعلیمات اور شیخ الحدیث مولانا سید ارشد مدنی صاحب کو مدعو کیا گیا۔ ان کے صحیح بخاری کے اس درس کو ادارہئ مذکورہ (جامعہ بنوریہ) کے ترجمان ماہنامہ ''بینات'' اکتوبر ٢٠٠٨ء میں جناب عباس نذیر صاحب کے ضبط وترتیب سے شائع کیا گیا۔
''اگر کسی مسئلے کے لیے دلیل کتاب اللہ یا سنت رسول اللہ e سے کسی ایسے شخص کے سامنے پیش کی گئی جو شخص اپنے زمانے میں اَعلم، اَتقی، اَزہد اور اَروع ہو۔ زہد، تقویٰ، علم اور اس کے ساتھ ساتھ فراستِ ایمانی کے اندر اپنے ہم عصروں سے ممتاز ہے۔ پھر اگر اس کا زمانہ، زمانہئ نبوت سے قریب ہے، مشہود لہا بالخیر جو ازمنہ ہیں، ان ازمنہ کے اندر اللہ نے اس کو وجود بخشا ہے اگر اس کے استنباط کردہ کسی مسئلے کے مقابلے میں کوئی نص ہے یا اس کے سامنے کسی نص کو پیش کیا جاتا ہے اور وہ معارضہ اس نص کا نص سے نہیں کرتا بلکہ اپنی رائے پیش کرتا ہے تو اس کی رائے بھی حجت ہے اگرچہ وہ معارضۃ النص بالنص نہیں کررہا۔ یعنی دلیل کا جواب دلیل کی بجائے اپنی رائے سے دیتا ہے۔'' (ماہنامہ بینات، ص:٣١، اکتوبر ٢٠٠٨ئ)
گویا مولانا صاحب کے نزدیک جو انسان اَعلم واَتقی ہو اور اس کی دینی فراست بھی مسلم ہو، اپنے زمانے میں اس کا ایک خاص مقام ہو اگر وہ کوئی ایسا مسئلہ بیان کرتا ہے جس مسئلے کے مخالف کوئی صحیح دلیل موجود ہے اور وہ اس دلیل سے کسی قسم کا کوئی تعرض نہیں کرتا تو محض اس کی رائے ہی ''حجت'' ہوگی۔ دوسری صورت یہ ہے کہ اس کے مستنبط کردہ مسئلے کے خلاف کوئی دلیل پیش کی جاتی ہے یا اسے یاد دلائی جاتی ہے تو وہ اس دلیل کا معارضہ اپنے ہاں موجود دلیل سے نہیں کرتا بلکہ اس دلیل کے مقابلے میں محض اپنی کوئی رائے دیتا ہے تو ایسے انسان کی رائے بھی حجت ہے۔ گو وہ دلیل کے جواب میں اپنی رائے پیش کررہا ہے۔
مولانا ارشد صاحب کو اس اصول کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ اس کے پسِ پردہ کیا حقائق ہیں؟ اس کی توضیح انھوں نے نہیں فرمائی، تاہم جس حقیقت تک ہم پہنچے ہیں وہ یہ ہے کہ چوں کہ امام ابوحنیفہa پیدائش کے اعتبار سے مشہور ائمہ اربعہؒ میں مقدم ہونے کی وجہ سے عہدِ نبویﷺ کے قریب ہیں۔
شیخ الحدیث صاحب اس اصول کی روشنی میں امام ابوحنیفہa کی رائے کو حجت قرار دینے کی کوشش کررہے ہیں تاکہ ان کی تقلید کو شرعی حجت قرار دیا جاسکے۔
مولانا کی دلیل:
مولانا ارشد صاحب نے اس اصول کی دلیل یہ دی کہ ''وفاتِ نبوی کے بعد حضرت صدیق اکبر کے دورِ خلافت میں مانعین زکوٰۃ سے حضرت ابوبکر t نے جنگ کا اعلان کیا تو حضرت عمر آڑے آئے اور فرمایا: آپ لوگوں (مانعین زکوٰۃ) سے کیسے جنگ کریں گے جب کہ رسول اللہﷺ نے تو ارشاد فرمایا:
''مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں اس وقت تک لڑوں جب تک وہ شہادتین کا اقرار نہ کرلیں جب وہ اس کا اقرار کرلیں تو انھوں نے مجھ سے اپنے خون اور اموال محفوظ کرلیے ہیں اور ان کا حساب اللہ پر ہے۔''
جواباً حضرت ابوبکر نے ارشاد فرمایا کہ اگر کسی نے ایک رسی بھی نہ دی جو وہ زکوٰۃ میں دیا کرتا تھا تو میں اس سے جنگ کروں گا۔ تو حضرت عمر فاروق یہ سن کر فرمانے لگے کہ جب اللہ تعالیٰ نے حضرت ابوبکر کا سینہ مانعینِ زکوٰۃ سے جنگ کرنے کے لیے کھول دیا تو میں نے بھی جان لیا کہ حق حضرت ابوبکر کے ساتھ ہے۔'' (بینات، ص:٣٢ ملخصاً)
شیخ الحدیث صاحب کا اس سے استدلال یہ ہے کہ حضرت ابوبکر چوں کہ اپنے ہم عصروں میں ممتاز ہیں اور ان کی علمی ثقاہت بھی مسلّم ہے۔ انھوں نے جب مانعینِ زکوٰۃ سے جنگ کا فیصلہ کیا تو حضرت عمر ان پر معترض ہوئے اور حدیث نبوی پیش کی۔ جسے سن کر حضرت ابوبکر نے کوئی دلیل نہیں دی بلکہ اپنی رائے بتلائی کہ میں ان سے جنگ کروں گا اور حضرت عمر نے ان کی رائے ہی کو حجت سمجھا جس بنا پر وہ خاموش ہوگئے۔ اس لیے جو بھی اپنے ہم عصروں سے ممتاز ہو اور اس کا زمانہ بھی عہدِ نبویﷺ کے قریب ہو تو نص کے مقابلے میں اس کی رائے حجت ہوگی۔ اعتبار اسی کا ہوگا جو اس نے سمجھا ہے ظاہر نص کو نہیں لیا جائے گا۔
جواب:
دارالعلوم دیوبند کے ناظمِ تعلیمات اور شیخ الحدیث صاحب امام ابوحنیفہؒ کی رائے کو حجت قرار دینے کے لیے بڑی دور کی کوڑی لائے ہیں، اور امام صاحب کی تقلید میں ایسے سرگرداں ہوئے کہ معمولی تدبر بھی نہ کرسکے کہ حضرت عمر حضرت ابوبکر کے فیصلے پر کیوں خاموش ہوگئے؟ ۔۔۔۔۔۔ کیا اس لیے کہ یہ صرف حضرت ابوبکر کی رائے تھی؟ یا حضرت ابوبکر کے پیشِ نظر کوئی قرآنی آیت تھی؟ یا کوئی خاص صریح حدیث تھی جس کی روشنی میں انھوں نے فیصلہ صادر فرمایا؟ یا پھر انھوں نے زکوٰۃ کو نماز پر قیاس کیا؟ یا انھوں نے اسی حدیث میں موجود ایک ٹکڑے ''إلا بحقہ'' کے عموم سے استدلال کیا جسے دلیل مان کر حضرت عمر خاموش ہوئے؟ اگر یہ ان کی ذاتی رائے تھی اور وہ حجت تھی تو پھر حضرت عمر نے ان پر اعتراض کیوں کیا؟
اس کے جواب میں علامہ شبیر احمد دیوبندی صحیح مسلم کی شرح میں لکھتے ہیں:
'' احتج الصدیق علی الفاروق بالنص الصریح، وبالعموم المستفاد من قولہ صلی اللہ علیہ وسلم ((إلا بحقہ ))، وبالمقایسۃ بین الصلاۃ والزکوۃ، وبکونہما قرینتین فی کتاب اللہ ۔'' (فتح الملہم شرح صحیح مسلم: ١/ ١٩٣)
''حضرت ابوبکر نے حضرت عمر کے خلاف نصِ صریح، فرمانِ نبوی ''إلا بحقہ'' کے عموم اور زکوٰۃ ونماز کے ہم قیاس ہونے کو بطور دلیل پیش کیا۔ کیوں کہ نماز اور زکوٰۃ قرآنِ مجید میں (عمومی طور پر) اکٹھے بیان کیے گئے ہیں۔''
دوسرے مشہور حنفی عالم علامہ عینی شرح صحیح بخاری میں رقم طراز ہیں:
''حیث انشرح صدرہ أیضاً بالدلیل الذی أقامہ الصدیق نصاً و دلالۃ وقیاساً ۔''
''کہ حضرت عمر کو انشراحِ صدر اسی وقت ہوا جب حضرت ابوبکر نے بطورِ دلیل نص، عموم اور قیاس کو پیش کیا۔''(عمدۃ القاری، ج:٨، ص:٢٤٦)
امام منذریؒ (مختصر سنن ابی داؤد، ج:٢، ص:١٦٥) اور علامہ کرمانی (شرح البخاری، ج:٧، ص:١٧٣) وغیرہ نے بھی نص، عموم اور قیاس کو حضرت ابوبکر کی دلیل قرار دیا ہے۔ علامہ رشید احمد گنگوہی نے ''إلا بحقہ'' میں جو عموم بیان ہوا ہے اس کو حضرت ابوبکر کی دلیل قرار دیا ہے۔ ان کے الفاظ ہیں:
'' وذلک لأنہم کانوا مذکورین فیمن استثناء النبی صلی اللہ علیہ وسلم بقولہ (( إلا بحقہ )) إلا أن عمر لم یفہمہ وقد فہمہ أبوبکر وکان أعلمہم ۔'' (لامع الدراري: ٥/ ١٥، ١٦)
''خلاصہ یہ ہے کہ مانعینِ زکوٰۃ سے جنگ کا حکم ''إلا بحقہ'' میں پنہاں ہے جسے حضرت عمر تو نہ سمجھ سکے جب کہ حضرت ابوبکر نے اسے سمجھ لیا، کیوں کہ صحابہ میں وہ سب سے بڑھ کر عالم تھے۔''
علامہ انور شاہ کشمیری کا فیض الباری (ج:٣، ص:٤) میں یہ رجحان معلوم ہوتا ہے کہ انھوں نے حضرت ابوبکر کی دلیل ''زکوٰۃ کو نماز پر قیاس کرنا'' قرار دیا ہے، فرماتے ہیں:
'' قولہ: ''من فرق بین الصلاۃ والزکوۃ'' یدل صراحۃً علی أن ترک الصلاۃ کان من موجبات القتل عندہما بالاتفاق فإن إکفار من أنکر ضروریات الدین من ضروریات الدین ''
''حضرت ابوبکر کا یہ فرمان ''جو نماز اور زکوٰۃ کے مابین فرق کرے گا'' (میں اس سے جنگ کروں گا) صراحتاً اس پر دلالت کرتا ہے کہ ان دونوں (شیخین) کے ہاں تارکِ نماز واجب القتل ہے۔ کیوں کہ لوازماتِ دین کے منکر کو کافر قرار دینا (اور اس سے جنگ کرنا) لوازماتِ دین میں سے ہے۔''
دارالعلوم نعیمیہ، کراچی کے شیخ الحدیث غلام رسول سعیدی صاحب نے بھی قیاس اور عموم سے استدلال کو حضرت ابوبکر کی دلیل قرار دیا ہے۔ (شرح صحیح مسلم، ج:١، ص:٣٨٣، ٣٨٤)
ان سب آرا کا خلاصہ یہ ہے کہ حضرت ابوبکر کا استدلال نص سے تھا، یا قیاس سے تھا یا پھر عموم سے۔ اب ذرا غور کیجیے کہ فقہائے احناف کی اس تصریح کے باوجود مولانا ارشد صاحب کتنی دیدہ دلیری سے حضرت صدیق اکبر کی محض رائے کو حجت قرار دیتے ہیں اور اسی کی آڑ میں امام ابوحنیفہؒ کی رائے کو بھی حجت قرار دینے کے لیے ہاتھ پاؤں مار رہے ہیں۔ إنا للہ وإنا إلیہ راجعون۔
تقلید کا یہی المیہ اور تاریک پہلو ہے کہ اگر کوئی صحابی کسی مسئلے میں ایسی رائے دے جو شریعت کے مطابق نہ ہو تو اس کے بارے میں بڑی سادگی سے کہہ دیا جاتا ہے کہ عین ممکن ہے اس مسئلے کی کوئی دلیل اس صحابی تک نہ پہنچی ہو یا وہ نسیان کا شکار ہوگئے ہوں۔ بلاشبہ یہ معقول عذر ہے۔ لیکن اپنے امام کی رائے کے تحفظ کے لیے صحیح نصوص کی بڑی بے باکی سے تاویلیں کی جاتی ہیں مگر امام صاحب کی رائے کو غلط کہنے کی کوئی جسارت نہیں کرتا۔ بلکہ الٹا یہ اصول بنایا جاتا ہے کہ جس شخص کا رسوخ فی العلم مسلّم ہو، اور وہ ازہد، اتقی، اروع ہو اس کی رائے تو فرمانِ نبوی کے خلاف بھی حجت ہے۔ اس کے فہم کا تو اعتبار ہوگا حدیثِ نبوی کا نہیں۔ لا حول ولا قوۃ إلا باﷲ
حضرت عمر نے حضرت ابوبکر کی تقلید نہیں کی:
حضرت عمر نے اسی وقت سکوت اختیار کیا جب وہ حضرت ابوبکر کی دلیل سے مطمئن ہوگئے۔ ان کی دلیل کے حوالے سے ہم علامہ عینی، علامہ شبیر عثمانی دیوبندی کے اقوال کے علاوہ دیگر شارحینِ حدیث کی آرا بھی پیش کرچکے ہیں جن سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ حضرت عمر نے حضرت صدیق اکبر کی تقلید نہیں کی۔ بلکہ ان کی رائے کو ان کی دلیل کی بدولت ہی مستحکم سمجھا اور اسے قبول کیا۔ اس کی گواہی احناف کے وکیل علامہ عینی نے صحیح بخاری کی شرح میں اس طرح دی ہے:
'' فلا یقال لہ: إنہ قلد أبا بکر، لأن المجتہد لا یجوز لہ أن یقلد المجتہد'' (عمدۃ القاری، ج:٨، ص:٢٤٦)
''یہ نہیں کہا جائے گا کہ حضرت عمر نے حضرت ابوبکر کی تقلید کی، کیونکہ مجتہد کا مجتہد کی تقلید کرنا جائز نہیں۔''
علامہ شبیر احمد عثمانی دیوبندی نے بھی اس کی صراحت فرمائی ہے کہ حضرت عمر نے حضرت ابوبکر کی بات کو اسی وقت تسلیم کیا جب انھوں نے ان کی پیش کردہ دلیل کی صحت دیکھی، ان کی تقلید نہیں کی۔(فتح الملہم، ج:١، ص:١٩٣)
ان کے علاوہ دیگر شارحینِ حدیث نے بھی اس کی تصریح کی ہے کہ حضرت عمر نے حضرت ابوبکر پر اسی وقت اعتماد کیا جب انھوں نے ان کی دلیل کو ملاحظہ کیا، ان کی تقلید نہیں کی۔ جن میں امام بیہقی (لامع الدراری، ج:٥، ص:١٤۔١٥ تعلیقات الکاندلوی)، امام نووی (شرح مسلم، ص:١٠١، طبع بیت الافکار)، امام ابن حجر (فتح الباری، ج:١٢، ص:٢٧٩)، امام سیوطی (الدیباج، ج:١، ص:١٥٦)، علامہ الابی (اکمال اکمال المعلم، ج:١، ص:١٠٧)، علامہ کرمانی (شرح صحیح بخاری، ج:٧، ص:١٧٣)، محدث عبدالرحمن مبارک پوری (تحفۃ الاحوذی، ص:١٩٩٤، حدیث: ٢٦٠٧، طبع بیت الافکار) وغیرہ شامل ہیں۔ گویا جناب ارشد صاحب کا مدعا کہ ''حضرت ابوبکر کا قول ہی محض حجت ہے'' پورا نہ ہوسکا۔
امام ابوحنیفہ، ان کے تلامذہ اور احناف کا طرزِ عمل:
امام ابوحنیفہ ؒ کے تلامذہ بالخصوص اور اکابر احناف بالعموم اس بات سے بخوبی واقف تھے کہ امام صاحب ازہد، اعلم، اتقی، اروع الناس فی عصرہ ہیں اور ان کی علمی ثقاہت بھی مسلم ہے۔ ان کا زمانہ بھی عہدِ نبوی کے قریب ہے۔ مگر اس کے باوجود انھوں نے امام صاحب کی رائے کو دلیل اور حجت نہیں سمجھا بلکہ انھوں نے بھی امام صاحب سے متعلقہ مسئلے کی دلیل طلب کی۔ جیسا کہ محمد بن حسن شیبانی نے بھی اپنے استاد کے بلا دلیل فیصلے کو تحکم اور سینہ زوری قرار دیا ہے۔ (المبسوط للسرخسی، ج:١٢، ص:٢٨)
چناں چہ جو اصول شیخ الحدیث صاحب وضع کررہے ہیں اس سے وہ تلامذہ بھی بے خبر رہے جنھوں نے امام صاحب سے براہِ راست زانوئے تلمذ تہہ کیے اور وہ ائمہ بھی، جنھوں نے مسلکِ احناف کے لیے قابلِ قدر کاوشیں کیں، اس اصول تک نہ پہنچ سکے جس کی عقدہ کشائی دیوبند کے شیخ الحدیث مولانا ارشد صاحب کے مقدر میں آئی۔
فروعات اور جزئیات میں اختلاف تو اپنی جگہ موجود مگر اصولوں میں بھی امام ابوحنیفہ سے ان کے تلامذہ نے اختلاف کیا۔ علامہ غزالی کا تو یہاں تک کہنا ہے کہ قاضی ابویوسف اور محمد شیبانی نے امام صاحب سے دو تہائی مذہب میں اختلاف کیا ہے۔ (النافع الکبیر، ص:٩٩)
چلیے اس قدر اختلاف نہ سہی، کم از کم ایک تہائی میں تو ان دونوں تلامذہ کا امام صاحب سے اختلاف مسلم ہے۔ جس کی گواہی علامہ ابن عابدین حنفی نے یوں دی ہے: '' فحصل المخالفۃ من الصاحبین فی نحو ثلث المذہب''(حاشیہ ابن عابدین، ج:١، ص:٦٧)
''کہ صاحبین (قاضی ابویوسف، محمد) نے امام ابوحنیفہؒ سے ایک تہائی مذہب میں اختلاف کیا ہے۔''
علامہ شبلی نعمانی رقم طراز ہیں:
''قاضی ابویوسف اور امام محمد نے بہت سے مسائل میں امام ابوحنیفہ کی رائے سے اختلاف کیا ہے۔'' (سیرۃ النعمان، ص:٢٣٠)
اصول میں اختلاف کے حوالے سے علامہ عبدالحی لکھنوی، شیخ شہاب الدین حنفی سے نقل کرتے ہیں:
'' ولکل واحد منہم أصول مختصۃ تفردوابہا عن أبي حنیفۃ وخالفوہ فیہا'' (النافع الکبیر، ص:٩٩، ضمن مجموعۃ الرسائل الست)
''ان میں سے ہر ایک کے مخصوص اصول ہیں جن میں وہ امام صاحب سے منفرد ہیں اور انھوں نے ان میں امام ابوحنیفہ کی مخالفت کی ہے۔''
دوسری جگہ مولانا لکھنوی اپنا تبصرہ یوں پیش فرماتے ہیں: '' فإن مخالفتہما فی الأصول کثیرۃ غیر قلیلۃ ۔''
''ان دونوں (قاضی، شیبانی) نے امام صاحب سے اصولوں میں مخالفت کم نہیں کی، بلکہ بہت زیادہ کی ہے۔'' (حاشیہ الفوائد البہیۃ، ص:١٦٣)
کتنے مسائل میں قاضی ابویوسف نے ابن ابی لیلیٰ کی رائے کو ترجیح دی اور امام ابوحنیفہؒ کی رائے کو مرجوح قرار دیا۔ امام ابوحنیفہؒ کے شاگرد عصام بن یوسف بلخی نے امام صاحب سے بہت زیادہ اختلاف کیا۔ ایقاظ الہمم للفلانی (ص:٥١، ٥٢) البحر الرائق، (ج:٦، ص:٢٩٣)
اکابر احناف کو کیوں ضرورت پیش آئی کہ وہ مفتی کو پابند کریں کہ وہ عبادات میں امام ابوحنیفہؒ کے قول پر اور مسئلہ وقف وقضا میں قاضی ابویوسف کے قول پر فتویٰ دے۔ (رسم المفتی، ص:٣٥۔ رد المحتار، ج:١، ص:٧١۔ فتاویٰ قاضی خاں، ج:١، ص:٣ مع عالمگیری)۔ جب صاحبین (ابویوسف اور محمد) اور امام صاحب باہم مختلف ہوں تو مفتی جس قول پر چاہے فتویٰ دے۔ (ردّ المختار، ج:١، ص:٧٠ وقاضی خان، ج:١، ص:٣) سترہ مسائل میں زفر کے قول پر فتویٰ دیا جائے۔ (ردّ المختار، ج:١، ص:٧١) مزید شروط دیکھنے کے لیے ملاحظہ ہو: مقالات الاستاذ الاثری (ج:١، ص:١٥١)
ان کے علاوہ متعدد مسائل میں احناف نے امام صاحب کی رائے کو ترک کرکے دوسروں کی رائے کو ترجیح دی اور ان پر فتاویٰ دیے۔ اگر ضرورت محسوس ہوئی تو ان شاء اللہ باحوالہ یہ بھی بتلا دیا جائے گا کہ کن کن مسائل میں احناف نے امام ابوحنیفہ ؒ کی رائے کو ٹھکرایا۔ قطع نظر امام صاحب کی رائے سنت کے مطابق تھی یا مخالف!
''شیخ الحدیث'' کی برہمی:
حضرت شیخ الحدیث صاحب کی گرم گفتاری کا اندازہ لگائیں، فرماتے ہیں:
''میں کہنا یہ چاہتا ہوں اب تو کوئی آدمی کھڑے ہو کر، دو پیسے کا آدمی، اس کے پاس احادیث کا کچھ ذخیرہ نہیں ہے۔ دس، بیس، پچیس، پچاس احادیث کو رٹ لےا، کھڑے ہو کر کہہ رہا ہے کہ فلانے کو کیا حق پہنچتا ہے کہنے کا۔ حضرت عمر کون ہوتے تھے بیس رکعات تراویح کو قائم کرنے والے؟ ابوحنیفہؒ کون ہوتے ہیں؟'' (بینات، ص:٣٣)
گویا شیخ الحدیث فرما رہے ہیں کہ جس نے چند احادیث رٹ لیں مگر اس کے پاس ذخیرہئ حدیث سے کچھ نہیں وہ ''دو پیسے کا آدمی'' ہے۔ یعنی حفظِ حدیث کی یہ تعداد بھی اسے ''دو پیسے کا آدمی'' کے زمرہ سے نہیں نکال سکتی۔ ہم تو صرف یہ عرض کریں گے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
''بلغوا عنی ولو آیۃ'' (بخاری: ٣٤٦١ عن عبداللہ بن عمرو)
''اگر ایک آیت (یا حدیث) کا علم بھی ہو تو اسے بھی دوسروں تک پہنچاؤ۔''
مگر مولانا ارشد صاحب نے حفظِ حدیث کے حوالے سے جو تضحیک کی وہ بہرحال قابلِ مذمت ہے۔
مولانا ارشد صاحب فرماتے ہیں کہ حضرت عمر کے متعلق یہ اعتراض کرنے کی گنجائش نہیں کہ انھوں نے بیس رکعات تراویح کیوں شروع کروائی؟ کیوں کہ وہ اعلم، ازہد، اتقی وغیرہ ہیں۔ لہٰذا ان کی رائے بھی صحیح احادیث نبویہ کے خلاف حجت ہے؟!
عرض ہے کہ پہلے سندِ صحیح سے حضرت عمر کا یہ اثر ثابت کریں ثبّت العرش ثم انقش۔ جبکہ اس کے برعکس صحیح سند سے موطا امام مالک (ج:١، ص: ٤٧٨، حدیث: ٢٧١ بروایات الثمانیۃ) میں حضرت عمر کا اثر موجود ہے کہ انھوں نے حضرت ابی بن کعب اور تمیم داری کو حکم دیا کہ وہ لوگوں کو گیارہ رکعت نمازِ تراویح پڑھائیں۔ محدث البانی ؒ نے اسے صلاۃ التراویح (ص:٤٥، ٤٦)، شیخ سلیم بن عید ہلالی نے مؤطا کی تخریج میں صحیح قرار دیا ہے۔ لطف یہ کہ مشہور ہندوستانی عالم نیموی صاحب نے بھی آثار السنن (ص:٢٠٣) میں اس کی سند کو صحیح قرار دیا ہے۔
مقلدین احناف حضرت عمر کے بیس رکعات نمازِ تراویح کے فیصلے کو تو ناقابلِ چیلنج قرار دیتے ہیں مگر حضرت عمر فاروق کے ان حکومتی فیصلوں کو کیوں فراموش کرجاتے ہیں جو مسلکِ احناف کے خلاف ہوتے ہیں۔ مثلاً مشہور تابعی حضرت اسلم کا بیان ہے:
'' کتب عمر بن الخطاب أن وقت الظہر إذا کان الظل ذراعاً إلی أن یستوی أحدکم بظلہ''(الأوسط لابن المنذر، ج:٢، ص:٣٢٨، ح: ٩٤٨ سندہ صحیح)
''حضرت عمر بن خطابؓ نے لکھا کہ ظہر کا وقت ایک ذراع سایہ ہونے سے لے کر آدمی کے برابر سایہ ہونے تک ہے۔''
سوال یہ ہے کہ حضرت عمر کے اس فیصلے کے برعکس مقلدین حضرات دو مثل کے بعد اذانِ عصر کیوں دیتے ہیں؟ جبکہ اذانِ عصر کا وقت تو ایک مثل سایہ ہونے کے بعد سے شروع ہوجاتا ہے۔ قاضی ابویوسف اور محمد بن حسن شیبانی کا ''حق شاگردی'' دیکھئے کہ وہ اس مسئلہ میں امام ابوحنیفہ کے مخالف جب کہ جمہور محدثین وفقہاء کے ہم نوا ہیں، جس کی وضاحت امام ابن المنذر نے الاوسط میں اور خود امام صاحب کے شاگرد علامہ شیبانی نے کتاب الاصل (ج:١، ص:١٤٤) میں کی ہے۔
اگر امام ابوحنیفہ کی رائے سے اختلاف کرنا ہی اچھے بھلے آدمی کو ''دو پیسے کا آدمی'' بنا دیتا ہے تو اس کے حق داروں میں تنہا اہل حدیث ہی کیوں؟ مولانا ارشد صاحب کم از کم امام ابوحنیفہؒ کے مایہ ناز شاگرد، چہل کمیٹی کے عظیم رکن محمد بن حسن شیبانی کے بارے میں کیا فیصلہ صادر فرمائیں گے جنھوں نے اپنے استاد کی گستاخی کرتے ہوئے ان کے بلا دلیل فیصلے کو تحکم اور سینہ زوری قرار دیا۔ پھر مستزاد یہ کہ انھوں نے اپنے استاد کی تقلید کی بیخ کنی کی۔ چناں چہ علامہ سرخسی رقم طراز ہیں:
'' وقد استبعد محمد قول أبی حنیفۃ فی الکتاب لہذا وسماہ تحکماً علی الناس من غیر حجۃ۔ فقال: ما أخذ الناس بقول أبي حنیفۃ وأصحابہ إلا بترکہم التحکم علی الناس فإذا کانوا ہم الذین یتحکمون علی الناس بغیر أثر ولا قیاس لم یقلدوا ہذہ الأشیاء ولو جاز التقلید کان من مضی من قبل أبي حنیفۃ مثل الحسن البصری وإبراہیم النخعي أحری أن یقلدوا ۔''
''محمد بن حسن شیبانی نے امام ابوحنیفہؒ کے قول کو ''الکتاب'' میں بعید قرار دیا ہے اور عدمِ دلیل کی بنا پر اس کا نام تحکم (لوگوں پر زبردستی ٹھونسنا) اور سینہ زوری رکھا ہے۔ کہا: لوگ امام ابوحنیفہؒ اور ان کے شاگردوں کے فیصلے کو اسے لیے قبول کرتے ہیں کہ وہ اپنے فیصلوں کو لوگوں پر ٹھونستے نہیں۔ اگر وہ کسی اثر یا قیاس کے بغیر لوگوں پر تحکم کریں گے تو وہ ان چیزوں میں ان کی تقلید نہیں کریں گے۔ اگر تقلید جائز ہوتی تو امام ابوحنیفہؒسے جو پہلے گزرے ہیں، مثلاً امام حسن بصریؒ اور امام ابراہیم نخعیؒ زیادہ حق دار ہیں کہ ان کی تقلید کی جائے۔'' (المبسوط للسرخسی، ١٢/ ٢٨)
گویا علامہ شیبانی فرما رہے ہیں کہ کسی دلیل کے بغیر کوئی فیصلہ قبول نہیں کیا جائے گا۔ حتی کہ امام ابوحنیفہؒ نے بغیر دلیل کے فیصلہ دے کر تحکم اور سینہ زوری کا مظاہرہ کیا ہے جسے قبول نہیں کیا جائے گا۔ کیونکہ بلا دلیل فیصلے کو قبول کرنا ہی تقلید ہے۔ اگر یہ روا ہوتی تو امام حسن بصریؒ اور امام ابراہیم نخعیؒ اس کا زیادہ استحقاق رکھتے ہیں۔ چوں کہ ان کی بھی تقلید نہیں کی جاتی اس لیے امام ابوحنیفہؒ بھی اس کے حق دار نہیں ہیں۔
تعجب ہے کہ مولانا ارشد صاحب امام ابوحنیفہؒ کی رائے کو حجت قرار دینے پر تلے ہوئے ہیں اور علامہ شیبانی ہیں کہ اسے تسلیم ہی نہیں کررہے بلکہ الٹا دلیل کا تقاضا فرما رہے ہیں۔ کیا ہم جناب مولانا ارشد صاحب سے پوچھنے کی جسارت کرسکتے ہیں کہ علامہ شیبانی نے امام صاحب کی بے ادبی کی ہے یا انھیں حجت باور کرایا ہے؟ ان کے اس سوئے ادب کی بنا پر کیا آپ انھیں بھی ''دو پیسے کا آدمی'' کا تمغہ عطا فرمانے کے لیے تیار ہیں؟ امید واثق ہے کہ آپ کے ہاتھ سے عدل وانصاف کا دامن نہیں چھوٹے گا۔
(مقالات اثریہ از حافظ خبیب احمد الاثری)